• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے سے متعلق حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث

بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال : " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره "
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھ لیا
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479 ]
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
سند کی تحقیق

پہلا راوی: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ
آپ مشہور صحابی رسول ہیں۔ آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

دوسرا راوی: کلیب بن شہاب الجرمی
کلیب بن شہاب رحمہ اللہ ثقہ راوی ہیں
(1) امام ابو ذرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
کوفی ثقة
[ دیکھیے الجرح والتعدیل لابن حاتم 167/7 ]

(2) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں الثقات میں ذکر کیا
[دیکھیے الثقات 356/3 ]

(3) امام عجلی رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
تابعی ثقة
[دیکھیے تاريخ الثقات للعجلي صفحہ 398]

(4) امام ابن سعد رحمہ اللہ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ:
كان ثقة كثير الحديث
آپ ثقہ تھے زیادہ احادیث والے تھے۔
[ دیکھیے طبقات ابن سعد ط مکتبہ الخانجی 243/8]

(5) امام ترمذی رحمہ اللہ ان کی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ھذا حدیث حسن صحيح
یہ حدیث حسن صحیح ہے
[دیکھیے سنن ترمذی 85/2 حدیث 292]

(6) امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ان کے متعلق فرمایا کہ:
صدوق
[دیکھیے تقریب التہذیب صفحہ 813 رقم 5696]

تیسرا راوی: عاصم بن کلیب بن شہاب الجرمی
عاصم بن کلیب ثقہ راوی ہیں۔
(1) امام ابن سعد رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
"کان ثقة يحتج به"
آپ ثقہ تھے اور آپ سے حجت لی جائے گی
[ دیکھیے طبقات الکبری لابن سعد ط مکتبہ الخانجی 460/8]

(2) امام عجلی رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
ثقة
[دیکھیے تاریخ الثقات للعجلی صفحہ 242 ]

(3) امام یحیی بن معین رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
ثقة مامون
یہ ثقہ مامون ہیں۔
[دیکھیے من کلام أبی زکریا یحیی بن معین فی الرجال صفحہ 46 ]

(4) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ثقة
[ دیکھیے العلل معرفة والرجال رواية المروذي صفحہ 201، دوسرا نسخہ صفحہ 161]

(5) امام یعقوب بن سفیان الفسوی رحمہ اللہ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ:
کوفی ثقة
[دیکھیے کتاب المعرفة والتاريخ 85/3 ]

(6) امام ابن شاہین رحمہ اللہ نے انہیں ثقات میں ذکر کیا اور کہا کہ:
ثقة
[دیکھیے تاریخ اسماء الثقات صفحہ 150]
اور بہت سارے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ اور آپ بخاری تعلیقا، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے رواۃ میں سے ہیں۔

چوتھا راوی: مؤمل بن اسماعیل البصری المکی رحمہ اللہ
مؤمل بن اسماعیل رحمہ اللہ عند الجمہور ثقہ راوی ہیں۔ ان کے متعلق تفصیلی بحث اپنے مقام پر آئے گی

پانچواں راوی: سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ صحیح بخاری اور مسلم کے رجال میں سے ہیں۔ اور بہت بڑے ثقہ امام ہیں بلکہ آپ امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں

(1) امام یحیی بن معین ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
سفیان امیر المؤمنین فی الحدیث
سفیان (ثوری) امیر المؤمنین فی الحدیث تھے
[دیکھیے الجرح والتعدیل 119/1 ]

(2) امام شعبہ رحمہ اللہ نے بھی امیر المؤمنین فی الحدیث کہا
[دیکھیے الجرح والتعدیل 118/1]

(3) امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
فاما من هو امام فى السنة و امام فى الحديث فسفيان الثوري
جو سنت میں امام تھے اور حدیث میں بھی وہ سفیان ثوری تھے۔
[دیکھیے الجرح والتعدیل 118/1]

پانچواں راوی: ابو موسی محمد بن المثنی رحمہ اللہ
آپ بہت بڑے ثقہ راوی ہیں
ان کے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ
" ثقہ ثبت "
[ دیکھیے تقریب التہذیب صفحہ 892 ]


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
اس حدیث کو صحیح قرار دینے والے علماء و محدثین اور اس حدیث سے مستدل ہونے والے محدثین

1 امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے کیوں کہ انہوں نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479]

نوٹ

امام ابن خزیمہ کا کسی حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کرنے کا یہیں مطلب ہے کہ ان کے نزدیک وہ حدیث صحیح ہے کیوں کہ انہوں نے اس کتاب میں صحت کا التزام کیا ہے۔ بعض لوگ مغالطہ دیتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو محض ذکر کیا ہے صحیح ابن خزیمہ میں لیکن کہیں بھی صحیح نہیں کہا۔ حالانکہ یہ محض لاعلمی ہے کیوں کہ اس کتاب میں امام ابن خزیمہ کا کسی حدیث کو ذکر کرنا ہی ان کے نزدیک اس حدیث کی صحت کی علامت ہے۔
⏺⁩ امام ابن الملقن رحمہ اللہ ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وصححه ابن خزيمة أيضا، لذكره إياه في «صحيحه»
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے کیوں کہ انہوں نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے
[دیکھیے البدر المنیر 619/1]

⏺ امام ابن خزیمہ اپنی صحیح میں کتاب الصلاۃ کا افتتاح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
كتاب الصلاة «المختصر من المختصر من المسند الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم على الشرط الذي اشترطنا في كتاب الطهارة
نماز کے متعلق ایسی صحیح احادیث کا مختصر بیان جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، اس شرط پر جو ہم نے کتاب الطھارہ (کتاب الوضو) میں اپنائی ہیں
[صحیح ابن خزیمہ 153/1]

اور کتاب الطھارہ (کتاب الوضو) کا افتتاح کرتے ہوئے وہ شرائط بیان فرماتے ہیں کہ:
كتاب الوضوء مختصر المختصر من المسند الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنقل العدل، عن العدل موصولا إليه صلى الله عليه وسلم من غير قطع في أثناء الإسناد ولا جرح في ناقلي الأخبار التي نذكرها بمشيئة الله تعالى
ایسی صحیح احادیث کا مختصر بیان جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سگ سچے رواۃ کے ذریعے منقول ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی سندیں متصل ہیں، درمیان میں کسی طرح کا انقطاع ہے نہ ان احادیث کے راویوں میں سے کوئی راوی مجروح ہے جن کا ذکر ہم ان شاءاللہ کریں گے۔
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ صفحہ 3/1]

معلوم ہوا اس کتاب میں امام ابن خزیمہ نے اپنے نزدیک ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جو صحیح مسند متصل ہیں۔

⏺ امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ صحیح ابن خزیمہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
كتب أخر التزم أصحابها صحتها، كابن خزيمة، وابن حبان البستي
وہ کتب جن کے مصنفین نے (اپنی کتب میں) صحت کا التزام کیا ہے جیسے امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان البستی
[دیکھیے الباعث الحثيث إلى اختصار علوم الحديث صفحہ 27]

حافظ ابن حجر ایک روایت کو صحیح ابن خزیمہ سے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
" صححه ابن خزیمہ"
اس حدیث کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے
[دیکھیے فتح الباری 370/11]

جب کہ جس حدیث کے متعلق امام حافظ ابن حجر کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے صراحتاً کہیں بھی صحیح نہیں کہا بلکہ محض اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے [دیکھیے صحیح ابن خزیمہ 1733]

معلوم ہوا کہ کسی حدیث کا اپنی صحیح میں ذکر کرنا ہی صاحب تصنیف کے نزدیک صحیح ہونے کی علامت ہے۔

2 علامہ عینی رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ کی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
فإن قلت: كيف يكون الحديث حجة على الشافعي وهو حديث ضعيف لا يقاوم الحديث الصحيح والآثار التي احتج بها مالك والشافعي، هو حديث وائل بن حجر أخرجه ابن خزيمة في " صحيحه " قال: «صليت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فوضع يده اليمنى على اليسرى على صدره»
پس اگر تم کہو یہ (ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث) حدیث امام شافعی کے خلاف کیسے حجت ہو سکتی ہے جبکہ یہ ضعیف ہے اور اس صحیح حدیث کے ہم پلہ نہیں نا ان آثار کے ہم پلہ ہے جن سے مالک اور شافعی نے حجت پکڑی ہے وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ وائل بن حجر رضي الله نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا
[البناية شرح الهداية 182/2]
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ

3 امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس روایت پر سکوت کیا ہے
[فتح الباری جلد 2 صفحہ 240]
اور حافظ ابن حجر نے مقدمہ میں صراحت کی ہے کہ جس حدیث پر وہ سکوت کریں وہ ان کے نزدیک حسن ہے

نیز ظفر احمد تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
وفيه دليل على أن سكوت الحافظ فى الفتح عن حديث حجة ودليل على صحته أو حسنه
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا کسی حدیث کے متعلق خاموش رہنا اس حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے
[دیکھیے قوائد فی علوم الحدیث صفحہ 90]

4 امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب خلاصۃ الاحکام میں صحیح احادیث میں اسے بھی ذکر کیا ہے اور ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ "رواہ ابن خزیمة في صحيحه" (ابن خزیمہ نے اس روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے)
[دیکھیے خلاصة الأحكام 358/3]
امام نووی رحمہ اللہ کا اپنی کتاب میں یہ منہج ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کا ذکر کرتے ہیں جو صحیح ہیں چنانچہ فورن اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت پر باب قائم کرتے ہیں کہ "فصل فی ضعیفة" (یعنی اس باب میں ضعیف حدیث کا بیان) [دیکھیے خلاصۃ الاحکام 358/1]
معلوم ہوا پہلے امام نووی رحمہ اللہ نے ان احادیث کا ذکر کیا جو ان کے نزدیک صحیح ہیں پھر ان کا ذکر کیا جو ضعیف ہیں ورنہ علیحدہ سے اسی باب میں "فصل فی ضعیفة" کا باب قائم کرنا چہ معنی دارد؟ مزید اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام حافظ نووی رحمہ اللہ نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی تصحیح کو برقرار رکھا

5 ابن نجیم حنفی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی مذکور حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
ولم يثبت حديث يوجب تعيين المحل الذي يكون فيه الوضع من البدن إلا حديث وائل المذكور
جسم کے کس مقام پر ہاتھ رکھے جائیں اس سلسلے میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی مذکور حدیث کے علاوہ کوئی حدیث ثابت نہیں
[دیکھیے البحر الرائق 320/1]

جاری ہے...........
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
اس حدیث پر اٹھائے گئے سات اعتراضات

پہلا اعتراض: مؤمل بن اسماعیل ضعیف ہیں

دوسرا اعتراض: مؤمل بن اسماعیل کا تفرد

تیسرا اعتراض: سفیان ثوری کا عنعنہ

چوتھا اعتراض: سفیان ثوری کا تفرد

پانچواں اعتراض: کلیب بن شہاب کا تفرد

چھٹا اعتراض: ابو موسی کا تفرد

ساتواں اعتراض: سفیان ثوری کا عمل اس حدیث کے خلاف


ان سب اعتراضات کے جواب نیچے ملاحظہ فرمائیں

جاری ہے.........
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
پہلا اعتراض: مومل بن اسماعیل ضعیف ہیں اور اس کا جواب

مؤمل بن اسماعیل پر یہ اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ مؤمل بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں۔ مگر یہ بات صحیح نہیں ہے کیوں کہ جمہور کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں اس کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

مؤمل بن اسماعیل فى الميزان الجرح والتعديل

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مومل بن اسماعیل رحمہ اللہ مشہور و معروف راوی ہیں اور یہ عند الجمہور ثقہ ہیں۔ ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے لیکن وہ جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں ۔

(1) امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241):
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل رحمہ اللہ سے کہیں مقامات پر روایت لی ہے
[دیکھیے مسند أحمد ط الرسالہ 256/1، 343/1، 369/1، 210/2، 150/3، 64/4، 232/4، 248/4 ]
نیز اور بہت سارے مقامات پر امام احمد بن حنبل نے ان سے روایت لی ہے۔
امام احمد بن حنبل کے بارے میں یہ قائدہ ہے کہ جس راوی سے وہ روایت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
چنانچہ عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله نے کہا:
كان أبي إذا رضي عن إنسان وكان عنده ثقة حدث عنه
میرے والد جب کسی انسان سے راضی ہوتے اوروہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا تو اس سے روایت کرتے تھے
[دیکھیے العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 238]
تو ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبل اپنے نزدیک ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ان کے بیٹے نے وضاحت کر دی۔
نیز امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ایک راوی کے بارے میں کہا:
روى عنه أحمد، وشيوخه ثقات
ان سے امام احمد نے روایت کیا ہے اور امام احمد کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں
[دیکھیے مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 1/ 199]

(2) إسحاق بن ابن راهوية (المتوفی 238):
امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ:
كان ثقة
آپ (مومل بن اسماعیل) ثقہ ہیں۔
[دیکھیے المزكيات لابی اسحاق صفحہ 82]

(3) امام بخاری (المتوفی 256):
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں تعلیقا روایت لی ہے یعنی ان سے استشہاد کیا ہے۔
[دیکھیے صحیح بخاری حدیث 2700]
نیز امام مزی رحمہ اللہ نے کہا:
استشهدبه البخاري.
امام بخاری نے ان سے استشہادا روایت لی ہے
[دیکھیے تهذيب الكمال للمزي: 29/ 179]
اورامام بخاری رحمہ اللہ جس سے استشہادا روایت لیں وہ عمومی طور پر ثقہ ہوتا ہے۔
محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) ایک راوی حماد بن سلمہ کے متعلق کہتے ہیں کہ:
بل استشھد بہ فی مواضع لیبین انه ثقہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان (حمادبن سلمہ ) سے کئی مقامات پر استشہادا روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں
[دیکھیے شروط الأئمة الستة صفحہ 18]
معلوم ہوا کہ امام بخاری جس سے تعلیقا روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔

(4) امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (المتوفی 233):
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
" کان ثقة"
آپ ثقہ تھے
[ دیکھیے تاریخ ابن معین رواية الدوري: 3/ 60]
نیز ایک جگہ ابن معین رحمہ اللہ کے شاگرد امام عثمان بن سعید الدارمي رحمه الله (المتوفى280)نے کہا:
قلت ليحيى بن معين أي شيء حال المؤمل في سفيان فقال هو ثقة قلت هو ثقة قلت هو أحب إليك أو عبيد الله فلم يفضل أحدا على الآخر
میں نے امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے کہا: سفیان ثوری کی حدیث میں مؤمل کی حالت کیسی ہے تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: وہ ثقہ ہیں ۔ میں نے کہا: وہ ثقہ ہیں تو یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہیں یا عبیداللہ؟ تو امام ابن معین نے ان دونوں میں کسی کو بھی دوسرے پر فضیلت نہیں دی
[دیکھیے الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 374 واسنادہ صحیح]
اس روایت کے راوی یعقوب بن اسحاق الھروی ہیں ان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ مجہول ہیں۔
اس راوی کا ترجمہ تاریخ الاسلام للذھبی (666/7 ) پر موجود ہے۔
اس راوی سے امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ (ثقه امام) اور محمد بن العباس الضبی العصمی (ثقہ ثبت) نے روایت کیا ہے۔
امام عبدالرحمن بن حاتم نے ان سے روایت کیا ہے
[دیکھیے الجرح والتعدیل 374/8]
اسی طرح محمد بن العباس بن أحمد الضبی العصمی نے بھی ان سے روایت لی ہے
[دیکھیے تاریخ دمشق 422/62]

امام ابن ابی حاتم تو بالاجماع ثقہ ہیں
اور محمد بن العباس الضبی العصمی بھی ثقہ راوی ہیں
چنانچہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
" ثبت ثقة"
[ دیکھیے تاریخ بغداد 336/3 ]

امام ذھبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
"الحافظ المتقن"
[ دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 141/3]

لہذا ثابت ہوا کہ کہ دو ثقہ راویوں نے یعقوب بن اسحاق الھروی سے روایت کیا ہے۔
اور یہ علم حدیث کا مشہور اصول ہے کی جس راوی سے دو یا دو سے زیادہ ثقہ راوی روایت کریں تو وہ راوی مجہول نہیں رہتا یعنی اس کی جہالت رفع ہو جاتی ہے
چنانچہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کھتے ہیں کہ :
"وأقل ما ترفع به الجهالة أن يروي عن الرجل اثنان فصاعدا من المشهورين "
اور راوی کی جہالت کم از کم اس وقت ختم ہو جاتی ہے کہ اس سے علم کے ساتھ مشہور (یعنی ثقہ) دو یا زیادہ راوی بیان کریں ۔
[ دیکھیے الکفاية للخطيب صفحہ 88]
امام حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
"ومن روي عنه عدلان و عيناه فقد ارتفعت عنه هذه الجهالة"
اور جس سے دو ثقہ روایت کریں اور اس کا تعیین کر دیں تو اس سے یہ جہالت ختم ہو جاتی ہے
[ دیکھیے مقدمة ابن الصلاح صفحہ 112]

نیز اور بھی کہیں علماء نے اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ دو یا دو سے زائد ثقہ راوی جس سے روایت کریں وہ مجھول نہیں رہتا
لہذا یعقوب بن اسحاق الھروی مجہول نہیں ہیں کیوں کہ ان سے دو ثقہ راوی نے روایت بیان کی ہے جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں یہ بات واضح کر آئے ہیں
لہذا اس روایت پر اعتراض باطل ہے جس میں امام یحیی بن معین نے مومل کو سفیان کی روایت میں ثقہ کہا ہے

نیز امام ابن معین کے اس قول کو امام ابن رجب نے بھی امام عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کیا ہے
[ دیکھیے شرح العلل الترمذی لابن رجب 541/2]

بلکہ اس روایت کا معنوی شاہد تاریخ الدمشق لابن عساکر میں بھی موجود ہے۔

چنانچہ امام ابن عساکر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
أخبرنا أبو القاسم الواسطي نا أبو بكر الخطيب لفظا أنا أبو بكر أحمد بن محمد بن إبراهيم بن حميد قال سمعت أحمد بن عبدوس قال سمعت عثمان بن سعيد الدارمى قلت ليحيي بن معين فعبد الرزاق في سفيان فقال مثلهم يعني ثقة كالمؤمل بن إسماعيل و عبيدالله بن موسى وابن يمان وقبيصة والفريابي
امام عثمان بن سعید الدارمی کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیی بن معین سے کہا کہ عبدالرزاق سفیان سے روایت کرنے میں کیسا ہے تو انہوں نے فرمایا ان لوگوں کی طرح ہے یعنی مؤمل بن اسماعیل، عبیداللہ بن موسی ، ابن یمان، قبیصہ اور فریابی کے جیسے (سفیان سے روایت کرنے میں) ثقہ ہیں۔
[دیکھیے تاریخ دمشق 171/36 واسنادہ صحیح]
معلوم ہوا کہ امام یحیی بن معین امام مومل بن اسماعیل کو سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ مانتے تھے جس طرح دیگر رواۃ کو مانتے تھے۔ جن میں عبدالرزاق وغیرہ ہیں

(5) امام علي بن المدينی رحمه الله (المتوفى234):
آپ نے مؤمل سے روایت لی ہے
[التاريخ الكبير للبخاري 1/ 288 ]
اور امام ابن المدینی صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں [دیکھئے تهذيب التهذيب لابن حجر 9/ 114]

(6) امام ذھبی رحمہ اللہ (المتوفی 748ھ)
امام ذھبی رحمہ اللہ مومل بن اسماعیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
كان من ثقات البصريين
یہ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں سے تھے
[دیکھیے العبر في خبر من غبر 274/1]

نیز امام ذھبی نے مومل بن اسماعیل سے مروی ایک روایت کو صحیح الاسناد کہا ہے۔
[ دیکھیے مستدرک للحاکم مع تلخیص 141/1 حدیث 241]

(7) امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279):
آپ نے مؤمل کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
حسن صحيح
یہ حدیث حسن صحیح ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 274 رقم 415]
معلوم ہوا کہ مومل امام ترمذی کے نزدیک صحیح الحدیث یا کم از کم حسن الحدیث تو ہیں۔

اور یہ اصول ہے کہ کسی راوی کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس کی سند کی راویوں کی توثیق ہوتی ہے

(8) امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310):
امام طبری نے سرخی بنا کر ایک باب باندھا ہے کہ:
" ذکر ما صح عندنا سندہ "
ان احادیث کا ذکر جن کی سند ہمارے نزدیک صحیح ہے
[ دیکھیے تھذیب الآثار مسند عمر 8/1]
اور اس باب کے اندر وہ مؤمل بن اسماعیل سے مروی ایک روایت لے کر آئے ہیں
[ دیکھیے تھذیب الآثار مسند عمر 21/1 ]

معلوم ہوا کہ مومل بن اسماعیل امام طبری کے نزدیک ثقہ ہیں کیوں کہ جن احادیث کی سند کو امام طبری نے صحیح کہا ان میں مومل بن اسماعیل بھی ہیں گویا امام طبری کے نزدیک مومل صحیح الحدیث ہیں۔

(9) امام بغوي رحمه الله (المتوفى317):
آپ نے مؤمل کی حدیث کے بارے میں کہا:
صحيح
[دیکھیے شرح السنة للبغوي 6/ 377، 443/3، 346/9،]
گویا کہ مومل بن اسماعیل امام بغوی کے نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔ کیوں کہ جن حدیث کو انہوں نے صحیح کہا اس کی سند میں مؤمل ہیں

(10) امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311):
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے کیوں کہ انہوں نے اس کی روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔
[ دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479]
نیز اور بہت ساری احادیث مومل بن اسماعیل سے انہوں نے صحیح ابن خزیمہ میں نقل کیں ہیں۔
یاد رہے صحیح ابن خزیمہ ان کتابوں میں سے ہے جن کے مصنفوں نے صحت کا التزام کیا ہے۔ یعنی وہ احادیث جو انہوں نے اپنی صحیح میں نقل کیں ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

چناچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
وكتب اخر التزم أصحابها صحتها كابن خزيمة و ابن حبان
وہ کتب جن کے مصنفین نے صحت (حدیث صحیح ہونے) کا التزام کیا ہے جیسے امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان۔
[دیکھیے الباعث الحیثیت الی اختصار علوم الحدیث صفحہ 27]

اسی طرح حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ صحیح ابن خزیمہ سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
وصححه ابن خزیمة أيضا لذكره إياه في صحيحه
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے کیوں کہ انہوں نے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔
[ دیکھیے البدر المنیر 619/1]
معلوم ہوا کہ امام ابن خزیمہ کا صرف حدیث کو صحیح میں ذکر کرنے کا یہیں مطلب ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے جیسا کہ امام حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ نے کہا۔
لہذا ثابت ہوا کہ امام ابن خزیمہ نے مؤمل بن اسماعیل کی حدیث کو صحیح کہا جو کہ ان کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل کےصحیح الحدیث ہونے کی دلیل ہے۔

(11) امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354):
آپ نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے
[دیکھیے الثقات لابن حبان 9/ 187]
امام ابن حبان نے مؤمل کی حدیث کو صحیح بھی قرار دیا ہے
[دیکھیے صحیح ابن حبان 38/3 حدیث 738]
معلوم ہوا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے نزدیک مؤمل ثقہ راوی ہیں کیوں کہ انہوں نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔

(12) امام أبو بكر الإسماعيلي (المتوفی371):
امام اسماعیلی نے مستخرج علی صحیح البخاری میں مؤمل کی روایت درج کی ہے
[دیکھیے فتح الباري لابن حجر 13/ 33]
اور مستخرج الاسماعیلی بھی ان کتابوں میں سے ہے جن میں صحت کا التزام کیا گیا ہے۔

امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
وقد خرجت كتب كثيرة على الصحيحين يؤخذ منها زيادات مفيدة وأسانيد جيدة كصحيح أبي عوانة وأبي بكر الإسماعيلي
بہت ساری کتب ایسی ہیں جو صحیحین پر بطور تخریج لکھی گئی ہیں جیسے صحیح ابو عوانہ اور (مستخرج) أبی بکر الاسماعیلی ان کے اندر بے حد مفید اور جید (صحیح) سندیں پائی جاتی ہیں
[ دیکھیے الباعث الحثیت الی اختصار علوم الحدیث صفحہ نمبر 27]

(13) امام ابو عوانہ (المتوفی 316)
امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے مؤمل سے اپنی صحیح (مستخرج علی صحیح مسلم) میں روایت لی ہے۔
[دیکھیے مستخرج ابی عوانه حدیث 962، 2635، 3096، 3233، 3237، 7041]
نیز مستخرج ابو عوانہ بھی ان کتابوں میں سے ہے جس میں صحت کا التزام کیا گیا ہے۔
[دیکھیے فقرہ نمبر 12]

(14) امام دار قطنی رحمہ اللہ (المتوفی 385)
امام دار قطنی رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کی سفیان ثوری سے ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
"اسنادہ صحیح"
[دیکھیے سنن دار قطنی 158/3 حدیث 2284]

امام دار قطنی نے مومل بن اسماعیل کی روایت کے بارے میں اسنادہ صحیح کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ مومل امام دار قطنی کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں کیوں کہ جس حدیث کی سند کو امام دار قطنی نے صحیح کہا اس میں مومل بن اسماعیل موجود ہیں۔
لیکن یاد رہے امام دار قطنی نے مؤمل بن اسماعیل پر جرح بھی کی ہے۔
چنانچہ امام دار قطنی رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کے متعلق فرماتے ہیں کہ
" صدوق كثير الخطأ "
یہ سچے ہیں زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں
[ سؤالات الحاکم عن دارقطنی صفحہ 276 رقم 492 ]
لیکن یہ جرح عمومی ہے کیوں کہ جس روایت کی سند کو امام دار قطنی نے صحیح کہا وہ مؤمل عن سفیان والی ہے
لہذا ان کے اقول میں تطبیق دی جائے تو اس طرح ہو گی کہ مؤمل بن اسماعیل امام دارقطنی کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں جب سفیان ثوری سے روایت کریں علاوہ ازیں عام حالات میں امام دارقطنی کے نزدیک وہ کثیر الخطا ہیں لیکن مومل عن سفیان والی سند امام دار قطنی کے نزدیک صحیح ہے جیسا کہ امام دار قطنی کی تصحیح سے واضح ہوتا ہے۔ غالباً یہیں وجہ ہے کہ امام دارقطنی نے مؤمل کو اپنی کتاب الضعفاء میں نقل نہیں کیا کیوں کہ وہ ان کے نزدیک علی الاطلاق ضعیف نہیں تھے۔ اگر یہ تطبیق نا دی جائے تو امام دارقطنی کے کلام میں واضح تعارض ہو گا اور ان کے اسی کلام کو ترجیح ہو گی جو جمہور کے موافق ہے۔ لیکن جب تطبیق کی صورت ممکن ہے تو تطبیق ہی دی جائے۔

(15) امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385):
امام ابن شاہین نے مومل بن اسماعیل کو ثقات (ثقہ راویوں) میں ذکر کیا اور کہا کہ
مؤمل المكی ثقة قاله يحيى
مؤمل مکی ثقہ ہے امام ابن معین نے یہی کہا
[تاريخ أسماء الثقات لابن ابن شاهين صفحہ 231]

(16) امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفى405):
امام حاکم رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کی ایک روایت کے بارے میں کہا کہ
" هذا حديث صحيح الإسناد "
[ دیکھیے مستدرک للحاکم 141/1 حدیث 241 ]
نیز اور بھی کہیں احادیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔
[جیسے دیکھیے مستدرک للحاکم 451/1 حدیث 1157]

(17) امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456):
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کی روایت سے حجت پکڑی ہے
[ دیکھیے المحلی لابن حزم 74/4 ]
اور امام ابن حزم نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ
وليعلم من قرأ كتابنا هذا أننا لم نحتج إلا بخبر صحيح من رواية الثقات
ہماری یہ کتاب پڑھنے والا جان لے کہ ہم نے صرف ثقہ رواۃ کی صحیح روایت سے ہی حجت پکڑی ہے
[المحلى لابن حزم: 1/ 21]
لہذا معلوم ہوا کہ امام ابن حزم کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں۔

(18) امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628):
آپ نے مؤمل کی حدیث کے بارے میں کہا:
وإسناده حسن
اس کی سند حسن ہے
[ دیکھیے بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 84]

(19) امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ (المتوفی 643)
امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ نے مؤمل کی روایت اپنی کتاب المختارہ میں نقل کی ہے
[دیکھیے کتاب المختارۃ للمقدسی 388/2 حدیث 774]
امام ضیاء المقدسی نے اپنی اس کتاب میں صحیح احادیث کی شرط رکھی ہیں۔
چنانچہ امام مقدسی رحمہ اللہ اپنی کتاب المختارہ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ
"فهذه الأحاديث اخترتها مما ليس في البخاري و مسلم إلا أننی ربما ذكرت بعض ما أورده البخاري معلقاً وربما ذكرنا أحاديث بأسانيد جياد لها علة فنذكر بيان علتها حتى يعرف ذلك "
میں نے اس کتاب میں بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر صحیح احادیث کا انتخاب کیا ہے البتہ بعض دفعہ بخاری کی معلق روایات کو ذکر کیا ہے اسی طرح بعض دفعہ ایسی روایات جن کی اسانید صحیح ہیں لیکن (اگر) ان کے اندر علت پائی جاتی ہے ، کو ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس کی علت کی وضاحت ہوجائے
[ دیکھیے کتاب المختارہ 69/1]

لہذا امام ضیاء المقدسی کے نزدیک مؤمل ثقہ ہیں کیوں کہ انہوں نے اس کتاب میں ان روایات کو ذکر کیا ہے جو صحیح الاسناد ہیں۔

(20) امام منذری رحمہ اللہ (المتوفی 656):
امام منذری رحمہ اللہ نے مسند بزار سے مؤمل بن اسماعیل کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ
رواہ البزار بإسنادحسن
اسے بزار نے حسن سند سے روایت کیا
[ دیکھیے الترغيب والترهيب 118/4]
امام منذری نے مسند بزار سے اس روایت کو نقل کیا اور اس روایت کی سند کو حسن کہا
اور مسند بزار میں اس روایت کی سند میں مؤمل بن اسماعیل موجود ہیں
[دیکھیے مسند بزار 352/13 حدیث 6987 ]
یعنی جس روایت کی سند کو امام منذری نے حسن کہا اس میں مؤمل بن اسماعیل موجود ہیں گویا کہ مؤمل بن اسماعیل ان کے نزدیک حسن حدیث ہے۔

(21) امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751):
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کی ایک حدیث کو سنن ابن ماجہ سے نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ:
رواه ابن ماجه بإسناد حسن
اسے ابن ماجہ نے حسن سند سے روایت کیا ہے
[دیکھیے اغاثة اللهفان 1/ 342]
اور سنن ابن ماجہ میں اس روایت کی سند میں مؤمل بن اسماعیل موجود ہیں
[دیکھیے سنن ابن ماجہ 650/1 حدیث 2017 ]

(22) امام ابن الملقن رحمہ اللہ (المتوفی 804)
امام ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
مؤمل بن إسماعيل صدوق وقد تكلم فيه
مؤمل بن اسماعیل صدوق ہے اور ان کے بارے میں کلام کیا گیاہے
[البدر المنير لابن الملقن 4/ 652]
امام ابن ملقن نے مؤمل کو صدوق کہا ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ مؤمل ان کے نزدیک ثقہ ہیں
اور آگے جو متکلم فیہ کہا ہے اس سے تو محض یہ لازم آتا ہے کہ بعض نے ان کے اوپر جرح کی ہے
بھلا اس سے راوی کا ضعیف ہونا تھوڑی لازم آتا ہے بلکہ اس سے تو ان کا ثقہ متکلم فیہ ہونا لازم آتا ہے۔ جو ہم بھی مانتے ہیں۔
بہر حال مؤمل امام ابن المقن کے نزدیک ثقہ ہیں۔

(23) امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840):
آپ نے مؤمل کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
هذا إسناد حسن
یہ سند حسن ہے
[اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة 493/6]

نیز ایک روایت کے بارے میں فرمایا کہ
ھذا اسناد صحیح
یہ سند صحیح ہے
[ دیکھیے اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة 11/5 ]
لہذا ثابت ہوا کہ مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں امام بوصیری کے نزدیک

(24) امام ابن کثیر (المتوفی 774)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے مؤمل کی ایک روایت نقل کر کے فرمایا کہ
" وھذا ایضاً اسناد صحیح "
اور اسی طرح یہ والی سند صحیح ہے
[ دیکھیے تفسیر ابن کثیر ط دار الطیبہ 52/3]

(25) امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
امام ھیثمی رحمہ اللہ نے مؤمل کی حدیث کے بارے میں فرمایا کہ
مؤمل بن إسماعيل، وهو ثقة وفيه ضعف
مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں اوران میں ضعف ہے
[دیکھیے مجمع الزوائد 183/8 ]
نیز ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
مؤمل بن اسماعیل وھو ثقة
وہ مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں
[دیکھیے مجمع الزوائد 119/2 ]

(26) امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی 852):
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مؤمل کی ایک روایت کے بارے میں فرمایا کہ
رجال ھذا الاسناد لاباس بھم
اس سند کے رجال میں کوئی حرج نہیں
[دیکھیے الأمالی حلبية صفحہ 41]
نیز امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک جگہ مؤمل کے بارے میں فرمایا کہ
" صدوق سيءالحفظ"
یہ سچا اور سیءالحفظ تھا
[دیکھیے تقریب التہذیب رقم 7029]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک سیءالحفظ راوی عام حالات میں حسن الحدیث ہوتا ہے
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک راوی ابن عقیل کے متعلق کہتے ہیں کہ
ابن عقیل سيءالحفظ يصلح حديثه للمتابعات فأما إذا انفرد فيحسن
ابن عقیل سیءالحفظ ہیں ا کی احادیث متابعات کے قابل ہوں گی اور جب یہ منفر ہوں گے تو ان کی حدیث حسن ہو گی۔
[دیکھیے التلخیص الحبیر ط دار العلمیہ 255/2]
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل حسن الحدیث ہیں۔

(27) امام عبد الحي بن احمد بن محمد ابن العماد رحمہ اللہ (المتوفی 1089 ):
امام عبدالحي ابن العماد رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا کہ:
کان من ثقات البصرین
آپ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں سے تھے
[دیکھیے شذرات الذھب 33/3]

(28) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ
امام عینی حنفی نے مؤمل بن اسماعیل کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
[البناية شرح الهداية 182/2]
یعنی مومل امام عینی حنفی کے نزدیک ثقہ صحیح الحدیث ہیں۔

جاری ہے.............
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
جارحین کے اقوال


وہ اقوال جن سے جرح ثابت نہیں ہوتی
(1) امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
مؤمل كان يخطئ
مؤمل غلطی کرتے تھے
[علل أحمد رواية المروذي صفحہ 60]
اس سے تو کسی کو انکار نہیں کہ مؤمل غلطی کرتے تھے اور اگر مؤمل غلطی کرتے تھے اور کسی کا محض غلطی کرنا اس راوی کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں۔ اگر محض غلطی کرنا کسی راوی کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے تو دنیا میں کوئ ایسا انسان نہیں جس سے غلطی نا ہوتی ہو تو کیا اس بنا پر دنیا کے ہر وہ راوی جس سے محض غلطی ہونے کا ثبوت مل جائے تو اس کی روایت ترک کر دی جائے گی ؟ ہرگز نہیں
یہیں وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل نے مؤمل سے روایت کیا ہے اور امام احمد صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ گویا کہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ ثقہ ہے۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام احمد کے نزدیک محض غلطی کرنے والا راوی ضعیف نہیں بلکہ ثقہ ہوتا ہے۔
[تفصیل کے لئے دیکھیے توثیق نمبر 1]

(2) امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
ربماأخطا
یہ کبھی کبھار غلطی کرتے تھے
[الثقات لابن حبان 9/ 187]

کبھی کبھار غلطی کرنے سے کسی راوی کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔ یہیں وجہ ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے مؤمل کو ثقات میں ذکر کیا ۔
نیز امام ابن حبان نے مؤمل بن اسماعیل کی روایات کو صحیح بھی کہا ہے کیوں کہ انہوں نے مؤمل کی بہت ساری احادیث کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے
[جیسے دیکھیے صحیح ابن حبان حدیث 761]

(3) حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق سيء الحفظ
آپ سچے ہیں ، سیء الحفظ ہیں
[تقريب التهذيب لابن حجر رقم7029]
ایسا راوی امام حافظ ابن حجر کے نزدیک ضعیف نہیں بلکہ حسن الحدیث ہوتا ہے
[تفصیل کے لئے دیکھیے توثیق نمبر 27]

نیز فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ
في حديثه عن الثوري ضعف
سفیان ثوری سے مؤمل کی حدیث میں ضعف ہے
[فتح الباري لابن حجر 9/ 239]

متقدمین میں سے ایسی بات کسی ایک نے بھی نہیں کی اور متاخرین میں سے صرف امام ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ہے بہت ممکن ہے ہے کہ ان کی اس بات کی دلیل ابن معین رحمہ اللہ کا قول ہے جس کو ابن المحرز (مجہول) نے نقل ہو۔
چناچنہ ابن المحرز (مجہول) کہتا ہے کہ امام یحیی بن معین نے کہا:
قبيصة ليس بحجة فى سفيان ولا ابو حذيفة ولا يحيى بن آدم ولا مؤمل
قبیصہ سفیان کی روایت میں حجت نہیں ہے اور نہ ہی ابوحذیفہ اور نہ ہی یحیی بن آدم اور نہ ہی مؤمل
[معرفة الرجال، رواية ابن محرز 1/ 114]
لیکن یہ روایت ثابت نہیں ہے کیوں کہ ابن معین سے نقل کرنے والا ابن المحرز مجہول ہے اس کی توثیق ہمیں نا مل سکی بلکہ اس کے برعکس امام ابن معین کا مؤمل کو سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ کہنا ثابت ہے صحیح سند کے ساتھ۔
[ تفصیل کے لئے دیکھیے توثیق نمبر 4 ]

(4) امام دارقطنی (المتوفی 385)
امام دار قطنی کہتے ہیں کہ:
صدوق كثير الخطأ
یہ سچے ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں
[سؤالات الحاكم للدارقطني صفحہ 276]

لیکن امام دار قطنی مؤمل کو علی الاطلاق ضعیف نہیں مانتے بلکہ مؤمل کی سفیان ثوری کے ساتھ روایت کو صحیح مانتے ہیں
[تفصیل کے لئے دیکھیے توثیق کا فقرہ نمبر 15]

جارحین کے وہ اقوال جو ثابت نہیں

(1) عبد الباقي بن قانع (المتوفى351) نے کہا:
صالح يخطئ
یہ صالح ہے غلطی کرتاہے
[تهذيب التهذيب لابن حجر 339/10]
یہ قول بے سند ہے ثابت نہیں۔
نیز ابن قانع پر خود اختلاط کا الزام ہے۔ اور محض غلطی کرنے سے کسی راوی کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔
اور مزید یہ کہ یہ قول ثابت بھی نہیں۔

(2) امام مزي رحمه الله (المتوفى742)نے کہا:
وقال البخاري : منكر الحديث
امام بخاری نے کہا: یہ منکرالحدیث ہے[تهذيب الكمال للمزي: 29/ 178]

عرض ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت نہیں ہے ۔ بلکہ امام مزی سے یہ قول نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہے ۔دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ”مؤمل بن سعيد بن يوسف“ کو منکرالحدیث کہا ہے ۔اورامام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب میں اسی نام سے پہلے ”مؤمل بن اسماعیل“ کا تذکرہ ہے ۔ چونکہ امام بخاری کی کتاب میں دونوں نام ایک ساتھ مذکور ہیں اس لئے جلدبازی میں امام مزی سے چوک ہوگئی اور دوسرے راوی سے متعلق امام بخاری کی جرح کو پہلے راوی سے متعلق سمجھ لیا۔

امام بخاری کی اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں مؤمل بن اسماعیل کا تذکرہ یوں ہے:
مؤمل بن إسماعيل، أبو عبد الرحمن.مولى آل عمر بن الخطاب القرشي.سمع الثوري، وحماد بن سلمة.مات سنة خمس، أو ست، ومئتين.البصري، سكن مكة.
مؤمل بن اسماعیل ، ابوعبدالرحمن ،مولی آل عمربن الخطاب القرشی ۔ انہوں نے سفیان ثوری اورحمادبن سلمہ سے سناہے اور205 یا 206 میں مؤمل کی وفات ہوئی ہے آپ بصری تھے اورمکہ میں سکونت پذیر تھے
[التاريخ الكبير للبخاری 8/ 49]

قارئیں غورفرمائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کے پورے تذکرہ میں کہیں بھی انہیں منکرالحدیث نہیں کہا ہے۔
البتہ ان کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے ”مؤمل بن سعيد بن يوسف“ کا تذکرہ کیا اورکہا:
مؤمل بن سعيد بن يوسف، أبو فراس، الرحبي، الشامي.سمع أباه، سمع منه سليمان بن سلمة.منكر الحديث.
مؤمل بن سعید بن یوسف ، ابوفراس ، الرحبی ، الشامی ، انہوں نے اپنے والد سے سنا اوران سے سلیمان بن سلمہ نے سنا یہ منکرالحدیث تھے
[التاريخ الكبير للبخاري 8/ 49]

معلوم ہواکہ امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو نہیں بلکہ اس کے بعد مذکور مؤمل بن سعید کو منکرالحدیث کہاہے۔
اس بات کی تائید اس چیز سے بھی ہوتی ہے کہ امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر نہیں کیا۔
اس بات کی مزید تائید اس چیز اس سے ہوتی ہے کہ امام بخاری نے مؤمل سے شواہد کی بنا پر روایت لی ہے۔
اور جس سے امام بخاری شواہد کی بنا پر روایت لیں وہ ان کے نزدیک عمومی طور پر ثقہ ہوتا ہے۔
[تفصیل کے لئے دیکھیے توثیق نمبر 3]

(3) امام ابوزرعہ(المتوفى264) نے کہا:
في حديثه خطأ كثير
اس کی حدیث میں بہت غلطی ہے
[ميزان الاعتدال للذهبی 4/ 228]
یہ قول ثابت نہیں ہے۔
یہ حوالہ بے سند ہے۔

(4) امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی 233):
قبيصة ليس بحجة فى سفيان ولا ابو حذيفة ولا يحيى بن آدم ولا مؤمل
قبیصہ سفیان کی روایت میں حجت نہیں ہے اور نہ ہی ابوحذیفہ اور نہ ہی یحیی بن آدم اور نہ ہی مؤمل
[معرفة الرجال، رواية ابن محرز 1/ 114]
یہ قول ثابت نہیں ثابت۔ کیوں کہ ابن المحرز مجہول ہے۔

جارحین کے صحیح اقوال

(1) امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
صدوق شديد في السنة كثير الخطأ يكتب حديثه
یہ سچے اور سنت کے معاملے میں سخت ہیں ، زیادہ غلطی کرنے والے ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 374]

یادرہے کہ امام ابوحاتم متشددین میں سے ہیں چنانچہ
امام ذهبي رحمه الله نے کہا:
فإنه متعنت في الرجال
امام ابوحاتم راویوں پرکلام کرنے میں متشدد ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي 13/ 260]

حافظ ابن حجر رحمه الله نے کہا:
وأبو حاتم عنده عنت
ابوحاتم کے یہاں تشدد ہے
[مقدمة فتح الباري لابن حجر صفحہ 441]

اور ابو حاتم جمہور کے مخالف ہیں اور نیز توثیق کرنے والوں میں یحیی بن معین جیسے متشدد بھی ہیں۔ اورمتشددین کی توثیق کی بہت اہمیت ہوتی ہے

(2) امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ومؤمل بن إسماعيل سنی شيخ جليل ، سمعت سليمان بن حرب يحسن الثناء عليه يقول : كان مشيختنا يعرفون له ويوصون به ، إلاَّ أن حديثه لا يشبه حديث أصحابه ، حتى ربما قَال : كان لا يسعه أن يحدث وقد يجب على أهل العلم أن يقفوا عن حديثه ، ويتخففوا من الرواية عنه؛ فإنه منكر يروي المناكير عن ثقات شيوخنا ، وهذا أشد فلو كانت هذه المناكير عن ضعاف لكنا نجعل له عذرًا
مؤمل بن اسماعیل سنی اور جلیل القدر شیخ تھے ، میں نے سلیمان بن حرب سے ان کی عمدہ تعریف کرتے ہوئے سنا آپ کہتے تھے: ہمارے مشائخ انہیں جانتے تھے اور ان سے طلب علم کے مشورہ دیتے تھے ۔مگران کی حدیث ان کے دیگر ساتھیوں جیسی نہیں ہے ، حتی کہ آپ نے بعض دفعہ کہا: آپ کے لئے حدیث بیان کرنا مناسب نہ تھا ، اور اہل علم پر واجب ہے کہ ان سے حدیث لینے میں محتاط رہیں اور ان سے بہت کم روایت کریں ، کیونکہ یہ منکر ہیں اور ہمارے ثقہ مشائخ سے مناکیر بیان کرتے ہیں ، اور یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ اگر یہ مناکیر ضعیف رواۃ سے بیان کی جاتیں توہم مؤمل کو معذور سمجھتے
[المعرفة والتاريخ للفسوي 3/ 52]

امام سلیمان بن حرب نے مؤمل کو منکر کہا اور اس کی تفصیل یہ بتائی کہ یہ ثقہ رواۃ سے منکر روایات بیان کرتے ہیں۔
یعنی گویا انہوں نے محض منکر روایات بیان کرنے کی بنا پر انہیں منکر کہا۔ اور عام طور پر محدثین تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کرتے ہیں

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قلت: ما كل من روى المناكير يضعف
میں کہتاہوں کہ: ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جو منکر روایات بیان کرے اسے ضعیف قراردیا جائے گا
[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 118]

مولانا عبد الحي اللكنوي الحنفی(المتوفى1304) فرماتے ہیں کہ

بين قولهم : هذا حديث منكر ، وبين قولهم : هذا الراوي منكر الحديث ، وبين قولهم : يروي المناكير فرق
محدثین کے قول ”یہ راوی منکرالحدیث ہے“ اور ان کے قول ” یہ منکراحادیث بیان کرتا ہے“ میں فرق ہے۔[الرفع والتكميل صفحہ 200]

مولانا آگے لکھتے ہیں:
وَكَذَا لَا تَظنن من قَوْلهم فلَان روى الْمَنَاكِير اَوْ حَدِيثه هَذَا مُنكرونحو ذلك انه ضعيف
اسی طرح محدثین کے قول فلاں نے منکر رویات بیان کی یا اس کی یہ حدیث منکر ہے یا اس جیسے الفاظ سے یہ ہر گز نہ سمجھو کہ یہ راوی ضعیف ہے
[الرفع والتكميل صفحہ 201]

معلوم ہوا کہ مؤمل منکر نہیں ہے کیوں کہ کسی کے منکر روایات بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا ذمہ دار وہیں شخص ہے جس نے منکر روایات بیان کی ہیں اس سے اوپر کے رواۃ بھی ہو سکتے ہیں

(3) امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
مؤمل بن إسماعيل ثقة كثير الغلط
مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں اور زیادہ غلطی کرنے والے ہیں[الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 501]

اس میں بظاہر تعارض ہے اگر تو مؤمل ثقہ تھے تو کثیر الغلط نہیں ہیں اور اگر کثیر الغلط ہیں تو ثقہ نہیں ہے۔
ہنارے نزدیک اس تعارض کا ایک ہی حل ہے جب اس طرح کے راوی کے بارے میں امام سے دو قول مروی ہوں کہ ایک میں وہ توثیق کرے اور دوسرا وہ حافظے پر جرح کرے تو اس محدث کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ عدالت کے لحاظ سے ثقہ اور حافظہ کے لحاظ سے ضعیف ہے۔
لیکن ابن سعد کی یہ جرح مقبول نہیں کیوں کہ وہ اس جرح کو کرنے میں جمہور کے مخالف ہیں

(4) امام مروزي رحمه الله (المتوفى294)نے کہا:
إذا انفرد بحديث وجب أن توقف ويتثبت فيه لأنه كان سيء الحفظ كثير الغلط
جب یہ کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہوں تو توقف کیا جائے گا اور چھان بین کی جائے گی ، کیونکہ یہ برے حافظہ والے تھے اور زیادہ غلطی کرتے تھے
[تعظيم قدر الصلاة 2/ 574]
یہ جرح جمہور کے مخالف ہے

(5) امام نسائي رحمه الله (المتوفى:303)نے کہا:
مؤمل بن إسماعيل كثير الخطأ
مؤمل بن اسماعیل زیادہ غلطی کرنے والے تھے
[سنن النسائي الكبرى 6/ 26]

یادرہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ جرح کرنے میں متشدد ہیں چنانچہ
امام ذہبی نے ایک مقام پر کہا:
امام ذہبی نے ایک مقام پر کہا:
والنسائي مع تعنته في الرجال، فقد احتج به
امام نسائی نے راویوں پر جرح میں متشدد ہونے کے باوجود ان سے حجت پکڑی ہے
[ميزان الاعتدال للذهبي 1/ 437]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
وقد احتج به النسائي مع تعنته
امام نسائی نے متشدد ہونے کے باوجود ان سے حجت پکڑی ہے
[مقدمة فتح الباري لابن حجر صفحہ 387]

(6) امام زكريا بن يحيى الساجى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
صدوق كثير الخطأ
یہ سچے ہیں اور زیادہ غلطی کرنے والے ہیں
[تهذيب التهذيب لابن حجر 10/ 339]
امام ساجی رحمہ اللہ راویوں پر بلا وجہ جرح کرتے ہیں
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر کہا:
وضعفه زكريا الساجي بلا مستند
زکریا ساجی نے انہیں بغیرکسی دلیل کے ضعیف کہا ہے
[ميزان الاعتدال للذهبي 1/ 47]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی ایک مقام پر کہا
ضعفه الساجي بلا حجة
ساجی نے انہیں بغیر کسی دلیل کے ضعیف کہاہے
[مقدمة فتح الباري لابن حجر صفحہ 463]

(7) امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
مؤمل بن إسماعيل وثقه ابن معين وضعفه الجمهور
مؤمل بن اسماعیل کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے او جمہور نے ان کی تضعیف کی ہے

[مجمع الزوائد للهيثمي: 5/ 63]

امام ھیثمی سے مؤمل کے بارے میں دو طرح کے موقف مروی ہی۔ ایک کے مطابق وہ امام ھیثمی کے نزدیک ضعیف ہیں اور ایک کے مطابق وہ ثقہ ہیں۔
جمہور کی موافقت ایک زبردست قرینہ ہے۔ لہذا امام ھیثمی کے اسی قول کا اعتبار ہو گا جو جمہور کے موافق ہے

خلاصہ کلام
7 محدثین نے مؤمل بن اسماعیل پر جرح کی جن میں سے اکثر تو متشددین اور بعض کی جرح میں تعارض ہے

اس کے مقابلے میں 28 محدثین نے توثیق کی ہے۔

تو جمہور کے نزدیک مؤمل ثقہ ہیں یہ ثابت ہوا اور قابل احتجاج راوی ہیں


جاری ہے...........
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
دوسرا اعتراض: مؤمل بن اسماعیل کاتفرد اور اس کا جواب


زیر بحث روایت میں مؤمل بن اسماعیل کا تفرد قطعاً مضر نہیں کیوں کہ مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ دیگر سفیان ثوری کے جتنے شاگرد ہیں ان میں سے سوائے ابن ولید کے کسی نے بھی ہاتھ باندھنے کا ذکر ہی نہیں کیا یعنی ان سب شاگردوں کی روایت ہاتھ باندھنے سے متعلق ہے ہی نہیں تو جب ایک بندہ ہاتھ باندھنے کا ہی ذکر نہیں کر رہا تو اس سے یہ امید کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کرے گا۔ ان سب شاگردوں کی روایت نماز کے دیگر حصوں سے متعلق ہے۔ ہاتھ باندھنے سے متعل نہیں ہے اور ظاہر ہے جب سفیان ثوری کے دیگر شاگرد ہاتھ باندھنے کا ہی ذکر نہیں کر رہے تو ان کی روایت کو مؤمل بن اسماعیل کی روایت کے خلاف پیش کرنا محض بیوقوفی اور جہالت ہے اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ جو کسی چیز کو ذکر نا کرے وہ اس چیز پر حجت نہیں بن سکتا جو کسی چیز کو ذکر کرے۔ اب سینے پر ہاتھ باندھنے والے الفاظ بیان کرنے کی نوبت تو تب ہی آئے گی جب کوئی راوی ہاتھ باندھنے کا ذکر کرے گا۔ لیکن ایک بندہ ہاتھ باندھنے کا ہی ذکر نہیں کر رہا بلکہ حدیث کے دیگر حصوں کو بیان کر رہا ہے اس متعلق کوئی معلومات ہی نہیں دے رہا کہ ہاتھ باندھے بھی ہیں یس نہیں باندھے تو اس سے کیا یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اس حدیث میں سینے کے الفاظ بھی بیان کرے۔ نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر بھلا اس روایت کو اس روایت پر حجت بنایا جا سکتا ہے؟؟ قطعاً نہیں

باری باری دیگر روایات کا جائزہ لیتے ہیں

پہلی روایت: وکیع بن الجراح کی روایت

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل الحضرمي، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم حين سجد، ويداه قريبتان من أذنيه
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں کے قریب تھے۔
[دیکھیے مسند احمد ط الرسالہ 139/31]

یہ روایت نماز کے ایک خاص حصے سے متعلق ہے یعنی سجدہ سے متعلق نا کہ ہاتھ باندھنے سے متعلق اس روایت کو پیش کر کے یہ کہنا کہ وکیع نے سفیان ثوری سے سینے پر ہاتھ باندھنے کے الفاظ نقل نہیں کیے تو یہ چنداں مفید نہیں کیوں کہ وکیع نے تو نماز کی سجدہ والی کیفیت کا ذکر کیا ہے ہاتھ باندھنے والے حصے کو تو بیان ہی نہیں کیا۔ تو بھلا ان سے یہ توقع کیوں کر رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سینے کے الفاظ نقل کریں گے۔ ایک راوی روایت بیان کر رہا ہے سجدہ سے متعلق اور دوسرا بیان کر رہا ہے ہاتھ باندھنے سے متعلق تو ظاہر ہے سینے کے الفاظ وہیں بیان کرے گا جو ہاتھ باندھنے کا ذکر کرے گا جو سجدہ کا ذکر کرے گا بھلا وہ ہاتھ باندھنے کی کیفیت کو کیوں بیان کرے گا۔

دوسری روایت: یحیی بن آدم اور ابو نعیم کی روایت

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدثنا يحيى بن آدم، وأبو نعيم، قالا: حدثنا سفيان، حدثنا عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد جعل يديه حذاء أذنيه
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھتے
[دیکھیے مسند احمد ط الرسالہ 158,159/38]
اس روایت میں بھی صرف سجدہ کا ذکر ہے۔ ہاتھ باندھنے والے حصے کو راوی حدیث نے بیان ہی نہیں کیا لہذا یہ روایت بھی مؤمل کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔

تیسری روایت: امام عبد الرزاق کی روایت

عن الثوري، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: «رمقت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما سجد كانت يداه حذو أذنيه»
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کانوں کے برابر تھے
[مصنف عبد الرزاق 175/2]
یہ روایت بھی مؤمل بن اسماعیل کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔ کیوں کہ اس کا تعلق بھی سجدہ سے ہے ہاتھ باندھنے سے والے حصے سے نہیں۔

چوتھی روایت: حسین بن حفص کی روایت

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا أسيد بن عاصم، ثنا الحسين بن حفص، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يكون يداه حذاء أذنيه
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو آپ کے دونوں ہاتھوں کانوں کے برابر ہوتے
[سنن الکبری للبیھقی 160/2]
اس روایت میں بھی سجدہ کا ذکر ہے ہاتھ باندھنے والی کیفیت تو بعد کی بات ہے راوی نے ہاتھ باندھنے کا ہی ذکر نہیں کیا تو کیا یہ مان لیا جائے اس حدیث میں ہاتھ باندھنے والے الفاظ بھی غیر محفوظ ہیں؟ ہر گز نہیں اسی طرح اس روایت کی وجہ سے سینے پر ہاتھ باندھنے والے الفاظ بھی غیر محفوظ نا ہوں گے

پانچویں روایت: اسحاق بن راہویہ کی روایت

علامہ زیلی حنفی رحمہ اللہ نے مسند اسحاق بن راہویہ کے حوالہ سے روایت نقل کی، وہ کہتے ہیں کہ:
وروى إسحاق بن راهويه في مسنده باقيه، فقال: أخبرنا الثوري عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر، قال: رمقت النبي صلى الله عليه وسلم، فلما سجد وضع يديه حذاء أذنيه
[دیکھیے نصب الرایہ 381/1]
یہ روایت بھی سجدے سے متعلق ہے نا کہ ہاتھ باندھنے سے متعلق لہذا یہ بھی مؤمل کی روایت پر حجت نہیں بن سکتی

چھٹی روایت: محمد بن یوسف الفریابی کی روایت

صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز میں بیٹھے اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، پھر اپنی دونوں بازوؤں کو اپنی دونوں رانوں پر رکھا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے دعا کرنے لگے
[دیکھیے سنن الکبری للنسائی 374/1]
اس روایت میں تشہد کا ذکر ہے ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں

ساتویں روایت: علی بن قادم کی روایت

صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک پر ٹیک لگاتے۔
[دیکھیے المعجم الکبیر للطبرانی 22/39]
اس روایت میں نماز سے اٹھتے وقت کی کیفیت کا ذکر ہے ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ہے۔

آٹھویں روایت: عبد اللہ بن ولید کی روایت

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدثنا عبد الله بن الوليد، حدثني سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم حين كبر، رفع يديه حذاء أذنيه، ثم حين ركع، ثم حين قال: سمع الله لمن حمده، رفع يديه، ورأيته ممسكا يمينه على شماله في الصلاة
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے پھر جب رکوع کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑے ہوئے دیکھا
[دیکھیے مسند احمد ط الرسالہ 163،164/31]

صرف اور صرف ابن ولید کی روایت ہے جس میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے لیکن سینے کا ذکر نہیں اور ابن ولید کوئی اوثق راوی نہیں کہ جس کی وجہ سے مؤمل بن اسماعیل حسن الحدیث راوی کی روایت رد کر دیا جائے۔ بلکہ ابن ولید بھج متکلم فیه صدوق حسن الحدیث راوی ہے
ابن ولید کے متعلق امام ابو حاتم الرازی کہتے ہیں کہ
شیخ یکتب حدیثه ولا یحتج به
یہ شیخ ہیں اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی
[دیکھیے الجرح والتعدیل 188/5]

مؤمل بن اسماعیل کے متعلق امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ
صدوق شديد في السنة كثير الخطا يكتب حديثه
یہ صدوق ہیں سنت کے معاملے میں سخت ہیں زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں، ان کی حدیث لکھی جائے گی
[الجرح والتعدیل 374/8]

امام ذھبی ابن ولید کے متعلق کہتے ہیں کہ:
"یہ شیخ ہیں"
[الکاشف 606/1]
جبکہ مؤمل بن اسماعیل کے متعلق فرمایا کہ
" آپ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں سے تھے"
[دیکھیے العبر فی خبر من غبر 350/1]

حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ابن ولید کے متعلق کہا کہ عبد اللہ بن ولید صدوق ہیں اور کبھی کبھار غلطی کرتے تھے۔
معلوم ہوا ابن ولید بھی کوئی اوثق راوی نہیں بلکہ یہ بھی متکلم فیه راوی ہیں زیادہ سے زیادہ ان کو مؤمل بن اسماعیل کے ہم پلہ کہا جا سکتا ہے
بھلا ایسی صورت میں کیوں کر مؤمل بن اسماعیل کی روایت کو رد کر دیا جائے بالخصوص تب جب یہ محض زیادت ہے مخالفت نہیں ہے۔

خلاصہ کلام

اس روایت میں مؤمل بن اسماعیل کا تفرد ہرگز مضر نہیں کیوں کہ صرف اور صرف ایک راوی ہیں جن کا نام عبد اللہ بن ولید ہے صرف انہوں نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا ہے اور سینے کا ذکر نہیں کیا اور یہ خود متکلم فیه راوی ہیں لہذا ایسی صورت میں مؤمل بن اسماعیل کا تفرد قبول ہے بالخصوص تب جب مؤمل بن اسماعیل کی روایت میں محض زیادت ہے مخالفت نہیں
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
تیسرا اعتراض: سفیان ثوری کا عنعنہ اور اس کا جواب

پہلا جواب

امام سفیان ثوری زبردست ثقہ امام ہونے کے ساتھ مدلس بھی ہیں اور مدلس جب بصیغہ عن بیان کرے تو حجت نہیں ہوتا۔کیوں اپنے جس استاذ سے وہ روایت بیان کرتا ہے اس میں انقطاع کا شبہ رہتا ہے یعنی وہ سند درحقیقت متصل نہیں ہوتی۔ انقطاع کا شبہ رہتا ہے
لیکن زیر بحث روایت میں سفیان ثوری کا عنعنہ قطعاً مضر نہیں ہے۔ کیوں کا سفیان ثوری کا عنعنہ یہاں سماع پر محمول ہے یعنی ان کا اس روایت کو عاصم بن کلیب سے سننا ثابت ہے۔

امام ابن خزیمہ اپنی کتاب کے شروع میں کتاب الوضو کا افتتاح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
مختصر المختصر من المسند الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنقل العدل، عن العدل موصولا إليه صلى الله عليه وسلم من غير قطع في أثناء الإسناد ولا جرح في ناقلي الأخبار التي نذكرها بمشيئة الله تعالى
ایسی صحیح احادیث کا مختصر بیان جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے رواۃ کے ذریعے منقول ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی سندیں متصل ہیں، درمیان میں کسی طرح کا انقطاع ہے نہ ان احادیث کے راویوں میں سے کوئی راوی مجروح ہے جن کا ذکر ہم ان شاءاللہ کریں گے۔
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ صفحہ 3/1]

پھر اسی شرط کو کتاب الصلاۃ میں دہراتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ
كتاب الصلاة «المختصر من المختصر من المسند الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم على الشرط الذي اشترطنا في كتاب الطهارة
نماز کے متعلق ایسی صحیح احادیث کا مختصر بیان جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، اس شرط پر جو ہم نے کتاب الطھارہ (کتاب الوضو) میں اپنائی ہیں
[صحیح ابن خزیمہ 153/1]

معلوم ہوا امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں ان احادیث کا انتخاب کیا ہے کہ جن میں کوئی انقطاع نہیں یعنی اور اتصال یقینی ہے۔ یعنی اس میں اتصال سند کی شرط رکھی گئی ہے۔ یعنی ہر راوی کا اپنے استاذ سے روایت کا سماع ثابت ہے۔
جس سے معلوم ہوا کہ سفیان ثوری کا عاصم بن کلیب سے اس روایت کو سننا ثابت ہے لہذا سفیان ثوری کا عنعنہ مضر نہیں۔
یہ اسی طرح ہے جس طرح یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری سے صرف مصرح بالسماع روایات ہی لکھی ہیں۔ اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ اب جب سفیان ثوری سے یحیی بن سعید القطان روایت بیان کریں گے تو سفیان ثوری خواہ عن کے صیغے سے ہی بیان کریں وہ سماع پر محمول ہو گی۔
ایسی ہی مثال صحیح ابن خزیمہ کی ہے کیوں کہ جب یہ بات تہہ ہو گئی کہ امام ابن خزیمہ نے اس کتاب میں انہی روایات کا ذکر کیا ہے جن میں کوئی انقطاع نہیں اور اتصال یقینی ہے تو پھر ایسی صورت میں سفیان ثوری کا عنعنہ مضر نہیں۔

دوسرا جواب

سفیان ثوری کی اس روایت کی معنوی متابعت بھی موجود ہے۔
چنانچہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
نا محمد بن يحيى، نا معاوية بن عمرو، نا زائدة، نا عاصم بن كليب الجرمي، حدثني أبي أن وائل بن حجر أخبره قال: قلت: " §لأنظرن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي قال: فنظرت إليه، قام فكبر ورفع يديه حتى حاذتا أذنيه، ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد "
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (دل میں ) کہا کہ میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھوں گا کی آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا حتی کہ وہ آپ کے دونوں کانوں کے برابر ہو گئے پھر دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت، کلائی اور بازو پر رکھا۔
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 480 واسنادہ صحیح]

اس حدیث سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ نماز میں دائیں ہاتھ کی ہتھیلی، کلائی اور ساعد سب پر رکھ سکتے ہیں
دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ساعد (یعنی ہتھیلی سے کہنی تک کے مکمل حصے) پر رکھے گا تو اس کے ہاتھ خود بخود سینے پر آ جائیں گے۔ اگر یقین نا آئے تو کھڑے ہوں جیسے نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور بغیر کسی تکلف کے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کو زرا ساعد پر رکھ کر تو دیکھیں اور ملاحظہ کریں ہاتھ کہاں آتا ہے یقیناً ہاتھ سینے پر آ کر رک جائیں گے
لہذا یہ کہنا درست ہے زائدہ نے سفیان ثوری کی معنوی متابعت کر رکھی ہے۔ لہذا یہ اس وجہ سے بھی سفیان ثوری کا عنعنہ مضر نہیں

تیسرا جواب

اس روایت کے صحیح شواہد موجود ہیں
پہلا شاہد: ہلب طائی رضی اللہ عنہ سے
ہلب طائی رض کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز سے) دائیں جانب سے بھی مڑتے ہوئے دیکھا اور بائیں جانب سے بھی مڑتے ہوئے دیکھا۔ اور میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) اس ہاتھ کو (اس ہاتھ پر) سینے پر باندھا۔ یحیی بن سعید القطان نے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے پر رکھ کر دکھایا۔
[دیکھیے مسند احمد ط الرسالہ 299/36 واسنادہ صحیح]

دوسرا شاہد: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کی ذراع پر رکھیں
[صحیح بخاری حدیث 740]
ذراع کہتے ہیں بیچ والی انگلی سے لے کر کہنی تک کا حصہ لہذا اگر کوئی شخص اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ذراع (یعنی کہنی تک کے حصے) پر رکھے گا تو خود بخود اس کا ہاتھ اپنے سینے پر آ جائے گا اگر یقین نا آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں نماز کے لئے کھڑے ہوں اور اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ذراع پر رکھیں اور خود دیکھ لیں ہاتھ کہاں آتا ہے۔ یقیناً سینے پر ہی آئے گا

تیسرا شاہد: علی رضی اللہ عنہ کی تفسیری روایت

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
قال موسى حدثنا حماد بن سلمة: سمع عاصما الجحدري عن أبيه عن عقبة بن ظبيان: عن علي رضي الله عنه: " فصل لربك وانحر " وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره
علی رضی اللہ عنہ نے " فصل لربک وانحر" میں فرمایا کہ اس سے نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے ذراع کے درمیان رکھ کر سینے پر رکھنا مراد ہے۔
[دیکھیے تاریخ الکبیر للبخاری 437/6 واسنادہ صحیح]
یہ روایت حکماً مرفوع روایت ہے۔ نیز اور بھی کہیں شواہد ہیں۔
اور شواہد بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سفیان ثوری نے اس روایت میں تدلیس نہیں کی۔
لہذا یہاں سفیان ثوری کا عنعنہ ہر حال میں سماع پر محمول ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
چوتھا اعتراض: سفیان ثوری کا تفرد اور اس کا جواب

پہلی بات یہ کہ یہ کہنا ہی بالکل غلط ہے کہ سفیان ثوری اس روایت میں منفرد ہیں کیوں کہ زائدہ نے سفیان ثوری کی معنوی متابعت کر رکھی ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
نا محمد بن يحيى، نا معاوية بن عمرو، نا زائدة، نا عاصم بن كليب الجرمي، حدثني أبي أن وائل بن حجر أخبره قال: قلت: " لأنظرن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي قال: فنظرت إليه، قام فكبر ورفع يديه حتى حاذتا أذنيه، ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد "
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (دل میں ) کہا کہ میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھوں گا کی آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا حتی کہ وہ آپ کے دونوں کانوں کے برابر ہو گئے پھر دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت، کلائی اور بازو پر رکھا۔
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 480 واسنادہ صحیح]

اگر کوئی شخص اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ساعد (یعنی ہتھیلی سے کہنی تک کے مکمل حصے) پر رکھے گا تو اس کے ہاتھ خود بخود سینے پر آ جائیں گے۔ اگر یقین نا آئے تو کھڑے ہوں جیسے نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور بغیر کسی تکلف کے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کو زرا ساعد پر رکھ کر تو دیکھیں اور ملاحظہ کریں ہاتھ کہاں آتا ہے یقیناً ہاتھ سینے پر آ کر رک جائیں گے۔ لہذا یہ کہنا درست ہے زائدہ نے سفیان ثوری کی معنوی متابعت کر رکھی ہے۔
تو لہذا یہ اعتراض یہیں باطل ہو جاتا ہے

سفیان ثوری کے علاوہ دیگر راویوں کی روایت کا جائزہ


پہلی روایت: بشر بن المفضل کی روایت

امام ابو داود فرماتے ہیں کہ
حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا عبد الله بن إدريس، ح وحدثنا بشر بن معاذ الضرير قال: حدثنا بشر بن المفضل، قالا: حدثنا عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر، قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم «§يصلي، فأخذ شماله بيمينه»
[ سنن ابن ماجہ حدیث 810]

بشر بن مفضل کی روایت میں فی الحقیقت کوئی مخالفت نہیں ہے محض زیادت ہے۔ اور أحفظ و متقن راوی کی طرف سے زیادت مقبول ہوتی ہے جس کا ذکر ان شاءاللہ آگے آئے گا اور بشر بن مفضل کی روایت کا سفیان ثوری کی روایت سے تقابل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ بشر اگرچہ ثقہ ہیں لیکن سفیان ثوری سے اوثق نہیں ہیں۔
کیوں کہ سفیان ثوری سب سے بڑے حافظ ہیں اور جب سفیان ثوری اور دوسرے کسی کی روایت کا اختلاف ہو تو اعتبار سفیان ثوری کی روایت کا کیا جائے گا۔
چنانچہ امام سفیان ثوری کے متعلق امام یحیی بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ
ما رأيت أحدا أحفظ من سفيان الثوري
میں نے سفیان ثوری سے بڑا حافظ کوئی نہیں دیکھا
[دیکھیے الجرح والتعدیل 63/1]
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ليس أحد يخالف سفيان الثوري إلا كان القول قول سفيان قلت وشعبة أيضا إن خالفه قال نعم
جو کوئی بھی روایت میں سفیان ثوری کی مخالفت کرے گا تو سفیان ثوری کا ہی اعتبار ہو گا (عباس الدوری کہتے ہیں) میں نے کہا اگر شعبہ مخالفت کریں تب بھی (سفیان ثوری کا اعتبار ہو گا) امام یحیی بن معین نے کہا جی ہاں۔
[دیکھیے تاریخ ابن معین 364/3]
معلوم ہوا جو بھی سفیان ثوری کی مخالفت کرے گا اعتبار سفیان ثوری کا ہو گا لہذا بشر بن المفضل اور سفیان ثوری میں سے سفیان ثوری ہی کی روایت راجح ہو گی۔

دوسری روایت: امام شعبہ کی روایت

امام احمد فرماتے ہیں کہ
حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل الحضرمي قال: " صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكبر حين دخل، ورفع يده، وحين أراد أن يركع، رفع يديه، وحين رفع رأسه من الركوع، رفع يديه، ووضع كفيه، وجافى وفرش فخذه اليسرى من اليمنى، وأشار بإصبعه
[مسند احمد 148/31]
جب امام شعبہ اور سفیان ثوری کے بیان میں اختلاف ہو تو اعتبار سفیان ثوری کے ہی بیان کا ہو گا۔ امام شعبہ اگرچہ بہت بڑے حافظ ہیں لیکن سفیان ثوری سے زیادہ أحفظ نہیں ہیں۔ اور جب سفیان ثوری اور امام شعبہ کی روایت میں اختلاف ہو تو ثوری کی روایت ہی معتبر ہو گی۔
⏺ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
إذا خالفني سفيان في حديث فالحديث حديثه
جب سفیان ثوری حدیث میں میری مخالفت کریں تو سفیان ثوری ہی کی روایت معتبر ہو گی
[دیکھیے الجرح والتعدیل 63/1]
⏺ امام ابو بکر بن شیبہ کہتے ہیں کہ
سمعت یحیی ابن سعيد القطان يقول: ما رأيت أحدا أحفظ من سفيان الثوري، قلت له - أو قيل له - ثم من؟ قال ثم شعبة، قيل ثم من؟ قال ثم هشيم
میں نے یحیی بن سعید القطان کو کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا میں نے سفیان ثوری سے بڑا حافظ کوئی نہیں دیکھا۔ (اس پر ابن شیبہ کہتے ہیں کہ) میں نے امام یحیی بن سعید القطان سے کہا یا ان سے کہا گیا کہ سفیان ثوری کے بعد پھر کون بڑا حافظ ہے تو انہوں نے کہا پھر امام شعبہ ہیں ان سے کہا گیا پھر کون ہے تو انہوں نے جواب دیا پھر ہشیم ہیں۔
[دیکھیے الجرح والتعدیل 63/1]
امام یحیی بن سعید ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
إذا خالفه سفيان أخذت بقول سفيان.
جب شعبہ سفیان ثوری کی مخالفت کریں تو سفیان ثوری کا قول لے لو
[دیکھیے الجرح والتعدیل 63/1]
⏺ امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ
وهو أحفظ من شعبة وإذا اختلف الثوري وشعبة فالثوري
اور سفیان ثوری شعبہ سے بڑے حافظ ہیں اور جب ثوری اور شعبہ میں اختلاف ہو تو ثوری کی روایت کا اعتبار ہو گا۔
[دیکھیے الجرح والتعدیل 225/4]
لہذا اعتبار سفیان ثوری ہی کی روایت کا ہو گا

ان کے علاوہ اور بھی کہیں راویوں نے عاصم بن کلیب سے روایت نقل کی ہے لیکن وہ سب کے سب سفیان ثوری سے حفظ و اتقان میں چھوٹے ہیں۔
نیز اوپر امام یحیی بن سعید القطان کے حوالے سے واضح کر دیا گیا ہے کہ سفیان ثوری سب سے بڑے حافظ ہیں اور امام یحیی بن معین کے حوالے سے یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی سفیان ثوری کی مخالفت کرے گا تو اعتبار سفیان ثوری ہی کی روایت کا ہو گا۔

سفیان ثوری کی روایت کے قبولیت کے قرائن

زیر بحث روایت میں سفیان ثوری کی زیادت ہر حال میں مقبول ہے۔ کیوں کہ درج ذیل قرائن ہیں جو سفیان ثوری کی روایت کی مقبولیت پر دلالت کرتے ہیں۔

پہلا قرینہ: أحفظ کی روایت

اگر آپ سفیان ثوری کے علاوہ عاصم بن کلیب کے دیگر شاگردوں کی روایت کا جائزہ لیں مثلاً بشر بن المفضل، شعبہ، ابن ادریس، ابو الاحوص وغیرھما کا تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کوئی بھی سفیان ثوری سے بڑا حافظ نہیں ہے۔ بلکہ سفیان ثوری ہی أحفظ ہیں۔ اور أحفظ کی روایت کو دیگر لوگوں کی روایت پر ترجیح ہوتی ہے۔ اس قرینے سے کہیں ایک محدثین نے استدلال کیا ہے۔
مثلاً امام ابو حاتم رحمہ اللہ ایک جگہ سفیان ثوری کی روایت کو دوسرے راویوں کی روایت پر ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
وهو أشبه عندي؛ لأن الثوري أحفظهم
سفیان ثوری کی ہی روایت میرے نزدیک درست ہے کیوں کہ سفیان ثوری دیگر لوگوں سے بڑے حافظ ہیں
[دیکھیے علل الحدیث لابن ابی حاتم 366/4]
ایک جگہ امام امام دار قطنی ایک جماعت کے خلاف امام زہری کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
والقول قول الزهري، لأنه أحفظ الجماعة
زہری ہی کی روایت معتبر ہے کیوں کہ وہ پوری جماعت میں سب سے بڑے حافظ ہیں۔
[دیکھیے علل الدارقطنی 71/6]
امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اذا زاد حافظ علی حافظ قبل
جب ایک حافظ دوسرے حافظ ہے بالمقابل کوئی زیادت بیان کرے تو مقبول ہوتی ہے
[دیکھیے علل الحدیث لابن ابی حاتم 384/3]
اور سفیان ثوری صرف حافظ ہی نہیں بلکہ أحفظ (سب سے بڑے حافظ) ہیں۔ ان کی یہاں علی صدرہ کی زیادتی بدرجہ اولیٰ مقبول ہونی چاہیے۔

دوسرا قرینہ: متقن اور حافظ و ضابط کی زیادتی

امام ابو حاتم رحمہ اللہ سفیان ثوری کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
سفيان فقيه حافظ زاهد، إمام أهل العراق، وأتقن أصحاب أبي إسحاق، وهو أحفظ من شعبة، وإذا اختلف الثوري وشعبة فالثوري
سفیان فقیہ حافظ اور شاھد ہیں اور اہل عراق کے امام ہیں اور ابو اسحاق کے اصحاب میں سب سے زیادہ متقن ہیں اور شعبہ سے بھی بڑے حافظ ہیں جب شعبہ اور ثوری کے بیان میں اختلاف ہو تو ثوری کا ہی بیان معتبر ہو گا۔
[الجرح والتعدیل 63/1]
اور جب متقن راوی زیادتی بیان کرے تو ایسی زیادتی بھی مقبول ہوتی ہے۔ اس قرینے سے بھی محدثین مستدل ہوئے ہیں
چنانچہ امام ابن عبد البر کہتے ہیں کہ
زیادتی اس وقت مقبول ہوتی ہے جب اسے حافظ بیان کرے اور اس سے یہ ثابت ہو، اور وہ ان رواۃ سے بڑا حافظ و متقن ہو یا ان کے برابر کا ہو جنہوں نے زیادتی بیان نہیں کی
[دیکھیے التمہید 307/3]
معلوم ہوا سفیان ثوری متقن ہیں اور یہ بھی ایک قرینہ ہے ان کی زیادت کی مقبولیت کا

تیسرا قرینہ: زیادت کا کسی روایت کے منافی نا ہونا

اگر زیادت کسی روایت کے منافی نہیں تو یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ زیادت مقبول ہو گی۔
چنانچہ ایک مقام پر حافظ ابن حجر قتادہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
" اس دعوی کا فساد مخفی نہیں کیوں کہ قتادہ حافظ ہیں اور ان کی زیادتی مقبول ہے کیوں کہ دیگر رواۃ نے ان کی بیان کردہ بات کی نبی نہیں کی"
[ فتح الباری لابن حجر 200/12]

چوتھا قرینہ: سفیان ثوری کی معنوی متابعت

سفیان ثوری کی روایت کی معنوی متابعت زائدہ نے کر رکھی ہے
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 480]
یہ ایک بہت بڑا قرینہ ہے سفیان ثوری کہ روایت کی مقبولیت کا۔

پانچواں قرینہ: سفیان ثوری کی روایت کے شواہد

سفیان ثوری کی روایت کے شواہد ہیں جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کئے ہیں
لہذا شواہد کے ہوتے ہوئے ان کی زیادت ہر حال میں مقبول ہے
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ثوری کہ زیادت اس روایت میں ہر حال میں مقبول ہے اور ان کا عنعنہ یہاں مضر نہیں ہے

جاری ہے..........
 
Top