• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز پنجگانہ سری اور جہری پڑھنے کے دلائل

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز پنجگانہ سری اور جہری پڑھنے کے دلائل

سوال

کتاب و سنت میں ایسے کون سے دلائل ہیں جن میں یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازیں سری پڑھی جائیں جبکہ فجر، مغرب اور عشا کی نمازیں جہری پڑھی جائیں؟


جواب کا متن

الحمد للہ:

سب سے پہلے تو ہم آپ کی قدر کرتے ہیں کہ آپ اتنی کم عمر میں بھی کتاب و سنت کے دلائل جاننے کے لئے کوشش کر رہے ہیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔

اللہ تعالی نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور اقتدا کرنے کا حکم دیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول عمدہ نمونہ ہیں ، اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ڈھیروں ذکر کرتا ہے۔ [الأحزاب: 21]

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم ایسے ہی نماز ادا کرو جیسے تم مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو)، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر مکمل، جبکہ مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں جہری قراءت کرتے تھے، جبکہ ان کے علاوہ رکعات میں آہستہ آواز میں تلاوت کرتے تھے۔

دوران نماز جہری یعنی بلند آواز میں تلاوت کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:

سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز مغرب میں سورت طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا) اس حدیث کو امام بخاری: (735) اور مسلم : (463)نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عشا کی نماز میں سورت التین پڑھتے ہوئے سنا، میں نے آپ سے خوبصورت آواز کسی کی نہیں سنی) اس حدیث کو امام بخاری: (733) اور مسلم : (464)نے روایت کیا ہے۔

بخاری اور مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جس میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاوت جنوں نے سنی تو اس میں یہ بھی ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنے صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، تو جب جنوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر غور سے سننے لگے) اس حدیث کو امام بخاری: (739) اور مسلم : (449)نے روایت کیا ہے۔

تو ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت کرتے تھے، اور آپ کے ساتھ شریک افراد آپ کی تلاوت سنتے بھی تھے۔

جبکہ ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت آہستہ آواز میں کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری: (713) میں خباب رضی اللہ عنہ ایک سائل کے سوال: "کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت کرتے تھے؟" کے جواب میں کہتے ہیں: "ہاں تلاوت کرتے تھے" اس پر ان کے شاگردوں نے کہا: "آپ کو اس کا کیسے علم ہوتا تھا؟" تو آپ نے کہا: " آپ کی ڈاڑھی کی حرکت سے "

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت اور سری نمازوں میں آہستہ آواز میں تلاوت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے اور مسلمانوں کا ان احکامات پر اجماع بھی ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ہر نماز میں تلاوت ضرورت کی جاتی ہے، تاہم جس نماز میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت سنائی ہم تمہیں بھی اس نماز میں سناتے ہیں، اور جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آہستہ تلاوت کی تو ہم بھی آہستہ تلاوت کرتے ہیں" اس حدیث کو امام بخاری: (738) اور مسلم : (396)نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" نماز فجر ، مغرب، عشا اور جمعہ کی ابتدائی دونوں رکعات میں با آواز بلند تلاوت، جبکہ ظہر، عصر، مغرب کی تیسری، اور عشا کی تیسری اور چوتھی رکعت میں آہستہ تلاوت کرنا سنت ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے نیز اس پر صحیح احادیث بھی وافر مقدار میں موجود ہیں" ختم شد
" المجموع شرح المهذب " (3/389)

اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ظہر اور عصر کی پوری نماز میں قراءت آہستہ آواز میں ہو گی، جبکہ مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعات جبکہ فجر کی پوری نماز میں قراءت بلند آواز سے کی جائے گی۔۔۔؛ اس میں بنیادی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے، نیز یہ عمل سلف صالحین سے نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ تاہم اگر کوئی سری نماز میں جہری تلاوت کر لے یا جہری نماز میں سری تلاوت کر لے تو اس نے سنت کو ترک کیا، البتہ اس کی نماز صحیح ہو گی" ختم شد
" المغنی " (2/270)

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (13340)، (65877) اور اسی طرح : (67672) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
@محمد عامر یونس صاحب
السلام علیکم
محترم
چار فرض کی جماعت کی آخر دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنے کی کیا دلیل ہے ۔ خاص طور پر سری نمازوں میں کیسے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری دو رکعتوںمیں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
محترم
چار فرض کی جماعت کی آخر دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنے کی کیا دلیل ہے ۔ خاص طور پر سری نمازوں میں کیسے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری دو رکعتوںمیں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نماز ظہر اور نماز عصر کے چار فرضوں کی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءۃ کی وضاحت درج ذیل حدیث شریف سے ہوتی ہے ؛
عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في الركعتين الأوليين من الظهر والعصر، بفاتحة الكتاب وسورة ويسمعنا الآية أحيانا، ويقرأ في الركعتين الأخريين بفاتحة الكتاب»
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہَ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورہَ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ )
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم اسحاق صاحب
جزاک اللہ
سوال تو یہی ہے کہ جب سری نماز ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو کیسے پتا چلتا تھا کہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھی۔ اسی طرح عشاء کی نماز میں کیسے پتا چلتا۔ یا تو ایسی حدیث ہو جس میں حکم دیا گیا ہو کہ آخری رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سوال تو یہی ہے کہ جب سری نماز ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو کیسے پتا چلتا تھا کہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھی۔ اسی طرح عشاء کی نماز میں کیسے پتا چلتا۔ یا تو ایسی حدیث ہو جس میں حکم دیا گیا ہو کہ آخری رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے۔
محترم بھائی !
ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام عادل اور سچے تھے ،
بالخصوص نقلِ شریعت میں یعنی شریعت کی بات بیان کرنے میں صدق و حق گوئی کا پیکر تھے ،
لہذا جب وہ نبی اکرم ﷺ سے کوئی بات نقل کریں یا ان کے متعلق کچھ بتائیں تویقیناً وہ صحیح اور سچ ہی ہوتی ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــ
یہاں یہ سوال کہ سری نمازوں کی قراءۃ کی مقدار و کیفیت صحابہ کو کس طرح پتا چلتی تھی ،تو اس کی کئی ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں :
علم کی سب سے پہلی صورت تو یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا ہو ،
دوسری صورت یہ کہ صحابہ کرام چونکہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے لہذا انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ اس رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی گئی ہے یا مزید کوئی سورہ بھی ملائی گئی ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے ؛
عن أبي سعيد الخدري قال: «كنا نحزر قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الظهر والعصر فحزرنا قيامه في الركعتين الأوليين من الظهر قدر قراءة الم تنزيل السجدة وحزرنا قيامه في الأخريين قدر النصف من ذلك، وحزرنا قيامه في الركعتين الأوليين من العصر على قدر قيامه في الأخريين من الظهر وفي الأخريين من العصر على النصف من ذلك»
(صحیح مسلم ،کتاب الصلوٰۃ )
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکتوں میں ہر رکعت میں تیس آیتوں کے برابر قرأت کرتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں پندرہ آیتوں کے برابر یا یوں کہا اس کا آدھا۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر اور پچھلی دو رکعتوں میں اس کا آدھا۔

اور کبھی کوئی آیت صحابہ کرام کو سنا بھی دیتے تو اس طرح انہیں پتا چل جاتا کہ کون سے سورۃ پڑھی جارہی ہے ،جیسا ذیل کی حدیث سے واضح ہے :
عن أبي قتادة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا وكان يطول الركعة الأولى من الظهر ويقصر الثانية وكذلك في الصبح
(صحیح مسلم ،کتاب الصلوٰۃ )
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو نماز پڑھاتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور کبھی ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے تھے اور ظہر کی پہلی رکعت دوسری رکعت سے لمبی ہوتی۔ اسی طرح صبح کی نماز میں۔

اور کچھ پڑھ رہے ہیں اس کا علم اس طرح بھی ہوتا تھا جیسا کہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے
عن أبي معمر، قال: قلنا لخباب أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الظهر والعصر؟، قال: نعم، قلنا: بم كنتم تعرفون ذاك؟ قال: «باضطراب لحيته»
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ صحابی سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی رکعتوں میں (فاتحہ کے سوا) اور کچھ قرآت کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ ہم نے عرض کی کہ آپ لوگ یہ بات کس طرح سمجھ جاتے تھے۔ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔
(صحیح بخاری 746 )
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم اسحاق صاحب
جزاک اللہ ، اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔محترم اس کی وضاحت کردیں کہ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکتوں میں ہر رکعت میں تیس آیتوں کے برابر قرأت کرتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں پندرہ آیتوں کے برابر یا یوں کہا اس کا آدھا۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر اور پچھلی دو رکعتوں میں اس کا آدھا۔
اس حدیث سے تو یہ مطلب نکل رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی آخری دورکعتوں میں فاتحہ کے بعد بھی کچھ آیات کی تلاوت کرتے تھے۔
دوسرا یہ کہ ایک اشتباہ یہ دور کردیں کہ دوران نماز قیام کی حالت میں کیا امام کو دیکھنا چاہیے اس حدیث کے مطابق
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ صحابی سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی رکعتوں میں (فاتحہ کے سوا) اور کچھ قرآت کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ ہم نے عرض کی کہ آپ لوگ یہ بات کس طرح سمجھ جاتے تھے۔ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔
0
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس حدیث سے تو یہ مطلب نکل رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی آخری دورکعتوں میں فاتحہ کے بعد بھی کچھ آیات کی تلاوت کرتے تھے۔
جی بالکل اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فرض نماز کی آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد مزید بھی پڑھا جاسکتا ہے ؛
یمن کے مشہور عالم محمد بن إسماعيل الصنعاني، (المتوفى: 1182ھ) فرماتے ہیں :
ويحتمل أن يجمع بينهما بأنه - صلى الله عليه وسلم - كان يصنع هذا تارة، فيقرأ في الأخريين غير الفاتحة معها، ويقتصر فيهما أحيانا، فتكون الزيادة عليها فيهما سنة تفعل أحيانا، وتترك أحيانا.
یعنی احادیث میں موجود دونوں صورتوں میں جمع و تطبیق یوں ممکن ہے کہ :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی فاتحہ کے ساتھ مزید کچھ قراءت بھی کرتے ، اورکبھی آخری رکعتوں میں صرف فاتحہ پر اکتفا کرتے ، تو اس طرح کبھی کبھارسورہ فاتحہ کے ساتھ مزید پڑھنا بھی سنت ہے ،اور کبھی صرف سورہ فاتحہ پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے ۔
سبل السلام شرح بلوغ المرام ،جلد اول ،باب صفۃ الصلوٰۃ
https://archive.org/stream/waq73677/01_73677#page/n507/mode/2up

اورسعودی عرب کے مشہور محقق عالم شیخ محمد بن صالح ابن العثیمین رحمه الله :
" الذي يظهر أن إمكان الجَمْعِ حاصلٌ بين الحديثين ، فيُقال: إن الرَّسولَ صلّى الله عليه وسلّم أحياناً يفعل ما يدلُّ عليه حديث أبي سعيد ، وأحياناً يفعل ما يدلُّ عليه حديث أبي قتادة " .
یعنی ظاہر ہے کہ دونوں احادیث میں موجود دونوں صورتوں میں جمع و تطبیق یوں ممکن ہے کہ :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی فاتحہ کے ساتھ مزید کچھ قراءت بھی کرتے جیسا کہ سیدنا ابو سعید کی حدیث سے ظاہر ہے ، اورکبھی آخری رکعتوں میں صرف فاتحہ پر اکتفا کرتے ،جیسا کہ ابو قتادہ سے مروی حدیث سے عیاں ہے ۔
انتهى من "الشرح الممتع" (3/ 215).
https://archive.org/stream/waq53629/03_53631#page/n214/mode/2up
ــــــــــــــــــــ
اور سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ عمل بھی منقول ہے ،مؤطا امام مالکؒ میں مروی ہے کہ :
عن أبي عبد الله الصنابحي قال: قدمت المدينة في خلافة أبي بكر الصديق فصليت وراءه المغرب " فقرأ في الركعتين الأوليين بأم القرآن، وسورة: سورة من قصار المفصل، ثم قام في الثالثة، فدنوت منه حتى إن ثيابي لتكاد أن تمس ثيابه. فسمعته قرأ بأم القرآن وبهذه الآية {ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا، وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب} [آل عمران: 8] "
(مؤطا امام مالکؒ )​
ابو عبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ جب سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے میں مدینہ میں آیا ، تومجھے آپ کی امامت میں نماز مغرب پڑھنے کی سعادت ملی ، تو پہلی دو رکعتوں میں سیدنا ابو بکر نے سورت فاتحہ اور ایک سورت مفصل کی چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی ، پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں انکے اتنانزدیک ہوگیا کہ گویا میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جائیں گے ، تو میں نے سنا کہ انہوں نے سورت فاتحہ اور اس آیت کو پڑھا " (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ) 3 ۔ ال عمران : 8)
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
جزاک اللہ اسحاق صاحب
آخری بات رہ گئی کہ حالت قیام میں امام کی طرف نگاہ ہونی چاہیے۔؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اور فرضوں کی تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قراءۃ کے متعلق سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ عمل بھی منقول ہے ،مؤطا امام مالکؒ میں مروی ہے کہ :
عن أبي عبد الله الصنابحي قال: قدمت المدينة في خلافة أبي بكر الصديق فصليت وراءه المغرب " فقرأ في الركعتين الأوليين بأم القرآن، وسورة: سورة من قصار المفصل، ثم قام في الثالثة، فدنوت منه حتى إن ثيابي لتكاد أن تمس ثيابه. فسمعته قرأ بأم القرآن وبهذه الآية {ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا، وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب} [آل عمران: 8] "
(مؤطا امام مالکؒ )
ابو عبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ جب سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے میں مدینہ میں آیا ، تومجھے آپ کی امامت میں نماز مغرب پڑھنے کی سعادت ملی ، تو پہلی دو رکعتوں میں سیدنا ابو بکر نے سورت فاتحہ اور ایک سورت مفصل کی چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی ، پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں انکے اتنانزدیک ہوگیا کہ گویا میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جائیں گے ، تو میں نے سنا کہ انہوں نے سورت فاتحہ اور اس آیت کو پڑھا " (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ) 3 ۔ ال عمران : 8)
 
Top