• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کے تشھد میں دونوں بازو کہاں رکھے جائیں۔موضع الذراعين في التشهد

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
بسم اللہ ارلرحمٰن الرحیم
اسلام علیکم ور حمتہ اللہ و برکاتہ

کتاب کانام: موضع الذراعين في التشهد
نماز کے تشھد میں دونوں بازو کہاں رکھے جائیں۔!!!


ازقلم: أبو عبد الرحمان محمد رفيق الطاهر
مدرس جامعة دار الحديث المحمدية
ملتان

مكتبة أهل الأثر للنشر والتوزيع
ملتان پاكستان



 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
نماز دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے لیکن اس کے باوجود جس قدرغفلت و کوتاہی اہل اسلام نماز کے بارہ میں برتتے ہیں ، ارکان اسلام میں سے کسی دوسرے رکن کے بارہ میں شاید نہ برتتے ہوں۔
امام احمد بن حنبل نے ایک قوم کے ساتھ نماز اداکی اور ان کو نماز کی بے قدری کرتے پایا تو انھیں ایک خط لکھا جس میں انھوں نے یہ تلخ حقیقت بیان فرمائی کہ : " لوصلیت فی مائۃ مسجد مارأیت أھل مسجد واحد یقیمون الصلاۃ علی ماجاء عن النبی ﷺ وعن أصحابہ رحمۃ اللہ علیھم ۔ فاتقوااللہ ، انظروا فی صلاتکم وصلاۃ من یصلی معکم۔" [ص۴۰]
"اگر میں سو مسجدوں میں بھی نماز ادا کروں تو ایک بھی مسجد کے سارے نمازی اس انداز میں نماز ادا نہیں کرتے جس طرح کہ نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ رحمھم اللہ سے منقول ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی نمازوں اور اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی نمازوں کو دیکھو اور اصلاح کرو۔"
یہ حال امام احمد بن حنبل اپنے دور کے نمازیوں کا بیان فرمارہے ہیں اور آج کا حال تو بہت ہی خراب ہے۔
ہمارے ہاں نماز کے بارہ میں اندھی تقلید کا سلسلہ بہت زیادہ چلتا ہے اور تحقیق سے الرجی محسوس کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر ہم نماز کے کچھ ارکان کو خلاف سنت ادا کربیٹھتے ہیں ۔ منجملہ ان باتوں کے ایک مسئلہ دوران تشہد بازوؤں کا بھی ہے۔ عام طور پر درمیانے تشہد میں تو دونوں بازوؤں کو رانوں سے جدا کرکے رکھا جاتا ہے، جبکہ آخری تشہد میں کچھ لوگ اپنی دائیں بازو اور کہنی کو دائیں ران پر رکھ لیتے ہیں اور اکثر تو آخری تشہد میں بھی اپنی کہنی ران سے ہٹاکر ہی رکھتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے بلا امتیازتشہد اولیٰ و آخرۃ میں دونوں بازوؤں کو دونوں رانوں پر رکھنا ثابت ہے، اور اس کا خلاف ثابت نہیں ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
ذیل میں دلائل اور ان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
قائلین کے دلائل:۔
۱۔ عن وائل بن حجر ، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم " جلس في الصلاة ، فافترش رجله اليسرى ، ووضع ذراعيه على فخذيه ، وأشار بالسبابة يدعو بها " [السنن النسائی، كتاب السهو، باب موضع الذراعين - حديث:‏12۶۴]
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں بیٹھے تو آپ نے اپنے بائیں پاؤں کوپھیلایا اور اپنی دونوں ذراع کو اپنی رانوں پر رکھا اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا ، آپ اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔
• ذراع لغت عربی میں کلائی سے کہنی تک کے حصہ کو کہا جاتا ہے۔
• یہ حدیث بازوؤں کو رانوں پر رکھنے کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے
• اور اس کے تمام تر رواۃ ثقات اور سند متصل ہے، جس کی صحت پر امت کا اتفاق ہے۔

۲۔ عن عبد الله بن الزبير قال : " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد يدعو ، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ، ويده اليسرى على فخذه اليسرى ، وأشار بإصبعه السبابة ، ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى ، ويلقم كفه اليسرى ركبته " [صحيح مسلم - كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب صفة الجلوس في الصلاة ، وكيفية وضع اليدين على الفخذين، حديث: 579]
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دعا کے لیے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ فرماتے اور اپنے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھتے اور بائیں ہتیھلی سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بناتے۔
• عربی زبان میں لفظ "ید" (ہاتھ) مکمل بازو پر بھی بولا جاتا ہے اور صرف ہتھیلی پر بھی۔ یہاں پر "ید" سے مراد بازو (ذراع) ہے کیونک "کف" (ہتھیلی) کی جگہ علیحدہ اور "ید" کی جگہ رکھنے کی علیحدہ ذکر کی گئی ہے۔ فافھم

۳۔ أن وائل بن حجر قال : قلت : لأنظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي ؟ فنظرت إليه فوصف ، قال : " ثم قعد وافترش رجله اليسرى ، ووضع كفه اليسرى على فخذه وركبته اليسرى ، وجعل حد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى ، ثم قبض اثنتين من أصابعه ، وحلق حلقة ، ثم رفع أصبعه فرأيته يحركها يدعو بها " ، مختصر [نسائی- كتاب السهو، باب قبض الثنتين من أصابع اليد اليمنى وعقد الوسطى - حديث:۱۲۶۸‏، کتاب الافتتاح باب موضع الیمین من الشمال فی الصلاۃ، حدیث: ۸۸۹، مسند احمد، حدیث: ۱۸۳۹۱]
• قال الالبانی: صحیح علی شرط مسلم [ارواء الغلیل، ۶۸/۲، (۳۵۶)]
وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھتا ہوں کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں آپ کو دیکھ ۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کی اور فرمایا : پھر آپ بیٹھ گئے اور اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بایاں ہاتھ اپنی ران اور گھٹنے پر رکھا اور اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں اور حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (شہادت والی) انگلی کو اٹھایا تو میں نے دیکھا ،آپ اس کو حرکت دیتے تھے اور دعا فرماتے تھے۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث لمبی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔
• اس حدیث میں دائیں کہنی کی حد (کنارے) کو دائیں ران کے ساتھ لگانے کی نص صریح موجود ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
۴۔ عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فلماقعد افترش رجله اليسرى ، ووضع یدہ اليسرى على ركبته اليسرى ، و وضع حد مرفقه على فخذه اليمنى۔۔۔۔ الحدیث [مسند احمد، (۱۸۳۷۱)، (۱۸۳۹۷)]
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس جب آپ بیٹھے ، آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھا اور اپنی کہنی کی طرف (کنارے) کو اپنی دائیں ران پر رکھا۔۔۔۔۔ الحدیث
۵۔ عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔ثم جلس فافترش رجله اليسرى ، ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ، وحد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى۔۔۔۔ الحدیث [سنن نسائی، کتاب السھو، باب موضع المرفقین، حدیث: ۱۲۶۵، سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب رفع الیدین فی الصلاۃ، حدیث: ۷۲۶، باب کیف الجلوس فی التشھد، حدیث: ۹۵۷]
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔۔۔۔۔ پھر آپ ﷺ بیٹھے ، پس آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا اور آپ کی دائیں کہنی کا کنارہ آپ کی دائیں ران پر تھا۔۔۔۔ الحدیث
• دلیل نمبر ۱، ۳، ۴، ۵ درحقیقت ایک صحابی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک ہی روایت ہے، جس کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت بالمعنی کی گیا ہے۔ صرف الفاظ کا اختلاف ہے، معنی ایک ہی ہے جو کہ اہل علم پر واضح ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
مانعین کے دلائل اور ان کا تجزیہ:۔
میرے ناقص علم کے مطابق جو لوگ نماز کے کسی بھی قعدے یا جسلسے میں بازوؤں کورانوں سے جدا رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل موجود ہی نہیں ہے۔ صرف وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے وہ الفاظ جن کو راقم نے دلیل نمبر ۵ کے طور پر پیش کیا ہے ، ان الفاظ کی عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں غلطی کھا جاتے ہیں۔ "حَدُّ مِرۡفَقَہ الۡاَیۡمَن "کو "حَدَّ مِرۡفَقَہ الایمن" پڑھ جاتے ہیں ، یعنی لفظ "حد" کو اسم کی بجائے ماضی کا صیغہ بنا ڈالتے ہیں، جیساکہ علامہ وحید الزماں نے سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کے تراجم میں کیا ہے۔ جب اس کو فعل ماضی مان لیا جائے تو اس معنی یوں بن جاتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر اٹھا کے (دور کرکے) رکھا اور یہ معنی بھی اس وقت بنتا ہے جب علی کو بھی عن کے معنی میں مانان جائے وگرنہ نہیں۔ اور "علی" کو "عن" کے معنی میں استعمال کرنا شاذ ہے۔
حقیقتاً عبارت کے شروع میں لفظ 'جعل' یا 'وضع' تھا جس کو بشر بن مفضل نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے حذف کر کے لفظ 'حد' کو مبتداً مرفوع پڑھا ہے ، لہٰذا اس میں کوئی فرق نہیں آیا، معنی وہی رہا جو 'جعل' یا 'وضع' کے الفاظ ذکر کرکے عاصم بن کلیب کے دیگر شاگردوں مثلاً زائدہ، زہیر بن معاویہ اور عبدالواحد وغیرہ نے بیان کیاتھا۔ تاہم اگر کوئی شخص اس عبارت میں لفظ 'حد' کو فعل ماضی ہی بنانے پر مصر رہے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ پھر یہ روایت شاذ بن جائےگی ، کیونکہ علم اصول حدیث کا ادنی سا طالب علم بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب کوئی ثقہ راوی اپنے اوثق یا ثقات کی مخالفت کرے گا تو ثقہ کی روایت شاذ اور ثقات یا اوثق کی روایت محفوظ ہوجائے گی۔
اور یہاں پر بھی مخالفت والا ہی معاملہ بن جائے گا کہ عاصم بن کلیب کے تمام شاگرد کہنی کو ملانا ثابت کرتے ہیں جبکہ بشر بن مفضل اس کو ہٹانا ذکر کرتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے یہ ثقات کی مخالفت ہے اور روایت شاذ قرار پائے گی، اور معرض استدلال سے غائب ہوجائے گی۔
جبکہ اس حدیث کومحدثین میں سے کسی نے بھی شاذ قرار نہیں دیا کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ اس کی عبارت کیا ہے اور اس کامفہوم کیا ہے،اور مخالفت بنتی ہی نہیں ہے۔ فتأمل۔ مزید تفصیل کے لیے راقم کا رسالہ الیواقیت والدر من حدیث وائل بن حجر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایک نقلی دلیل دی جاتی تھی جو کہ دلیل مانعین کے لیے نہیں ہے بلکہ قائلین کے لیے ہی بنتی ہے
اور دوسری دلیل عقلی ہے جو دی جاتی ہے کہ جب بندہ اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں گھٹنے کو پکڑےگا تو لامحالہ اس کا بازو ران سے اُٹھ جائے گا۔
لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص اپنے بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو پکڑے اور اپنے کندھوں کو ڈھیلا چھوڑدے اور کمر کو بھی ڈھیلا کر دے تو نماز کے آخری تشہد میں تورک کی حالت میں بھی بائیں بازو مکمل طور پر ران پر لگ جاتی ہے۔ ابتداً شاید یہ کام چند لوگوں کو مشک نظر آئے لیکن جب اس کو سنت نبوی ﷺ سمجھ کر عمل کی کوشش کی جائے گی تو عادت بن جائے گی۔
؂ طبیعت میں کچھ قلق آئے گا چند روز پھر بہلتی بہلتی بہل جائے گی
اور ویسے بھی یہ تخمین و ظن اور عقل کے گھوڑے نص صریح کا مقابلہ کہاں کرسکتے ہیں جب بسند صحیح یہ بات منقول ہے کہ آپ ﷺ اپنی دونوں بازوؤں کو دونوں رانوں پر رکھتے تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، تاکہ ہماری نماز بھی سنت نبویﷺ کے مطابق ادا ہوسکے۔
اور اگر کوئی شخص اپنے بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بناکر ذراع کو ران پر رکھنے سے قاصر ہوتو وہ اپنا ہاتھ ذرا پیچھے ران پر ہی رکھ لے ، کیونکہ صحیح مسلم میں یہ طریقہ بھی رسول اللہﷺ سے منقول ہے، جسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاہے کہ: ووضع کفہ الیسریٰ علی فخذہ الیسریٰ" [مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب صفۃ الجلوس وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین، حدیث: ۵۸۰]
"اور آپﷺ نے اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں را ن رکھا " اور لقمہ بناتے ہو ئے بھی ہتھیلی کا کچھ حصہ ران پر اور کچھ گھٹنے پر ہوگا جیسا کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی حدیث سے واضح ہے۔
"ووضع کفہ الیسری علی فخذہ ورکبتہ الیسری" [سنن نسائی، کتاب الافتتاح ، باب مواضع الیمین من الشمال، حدیث: ۸۸۹]
"اور آپ ﷺ نے اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا۔"

یاد رہے کہ دونوں ہاتھوں اور بازوؤں کی یہ کیفیت نماز کے تمام تر قعدوں میں یکساں ہے خواہ وہ بین السجدتین ہو یا تشہد اولیٰ ہو یا تشہد ثانیہ کیونکہ ان کے درمیان فرق ثابت نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم
 
Top