• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کے کچھ آداب

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
نماز کے آداب بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں۔کچھ کاتعلق اندرونی کیفیات سےہے اور کچھ ظاہری حالت سے متعلق ہیں۔ کمال عبودیت کا تقاضا ہے کہ بندہ جب اپنے رب کے حضور کھڑا ہو تو کسی بھی ادب میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نگاہیں پست ہوں اور دل رب ذوالجلال کی ہیبت سے لرزہ براندام ہو۔ یوں سمجھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دربار میں کھڑا ہوں۔ کم سے کم اتنا یقین دل میں ہونا چاہیے کہ وہ میرے حال سے واقف ہے اور میری کوئی حرکت اور کوئی خیال اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:​
صَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّع، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ(صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 3350۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1914۔ حسن لغیرہ)
"نماز یوں پڑھا کر جیسے(وہ شخص پڑھتا ہے جسے معلوم ہو جائے کہ وہ ابھی دنیا سے) جانے والا ہے۔بے شک اگر تو اسے(یعنی اللہ تعالیٰ کو)نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھتا ہے"۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں ایسے کئی امور کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے جن پر عمل کرنے سے نماز میں خشوع وخضوع برقرار رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ذیل میں ان میں سے کچھ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
کھانے پینے اور حوائج ضروریہ سے فراغت:
نماز شروع کرنے سے پہلے ان تمام کاموں سے فراغت حاصل کر لینی چاہیے تو دورانِ نماز توجہ بٹانے کا سبب بن سکتے ہیں کھانا سامنے آ جائے تو پہلے کھانا کھا لیا جائے، پیشاب وغیرہ کی حاجت ہو تو اس سے فارغ ہو لیا جائے۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب کراھۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام الذی یرید اکلہ فی الحال)
"اس شخص کی نماز نہیں جس کے سامنے کھانا رکھ دیا جائے اور نہ اس شخص کی جسے دو ناپاک چیزوں (پیشاب پاخانے) کی حاجت محسوس ہو رہی ہو"۔
نقش و نگار والی چیزوں سے اجتناب:
نقش و نگار والا کپڑا یا مصلیٰ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ نقش و نگار اور ڈیزائن کی موجودگی نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک بار اس حال میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ اوپر جو چادر تھی اس پر کچھ نقوش تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد فرمایا:
اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلَاتِي ( وفي رواية : ( فإني نظرت إلى علمها في الصلاة فكاد يفتني ) (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اذا صلی فی ثوب لہ اعلام و نظر الی علمھا)
"میری یہ بیل بوٹوں والی چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس کی سادہ چادر میرے لیے لاؤ۔ اس چادر نے ابھی میری توجہ نماز سے ہٹا دی تھی"۔دوسری روایت میں ہے کہ" میری نظر اس کے نقوش پرپڑی اور(ان نقوش کی وجہ سے)قریب تھا کہ یہ مجھے آزمائش میں ڈال دیتی"۔
اسی سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک کپڑا تھا جس پر (بے جان اشیاء کی) تصویریں بنی ہوئی تھیں۔انہوں نے سجاوٹ کے لیے وہ کپڑا ایک دیواری طاق کے نچلے حصے تک لٹکایا ہوا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس طرف چہرہ مبارک کرکے نماز ادا فرمایا کرتے تھے تو فرمایا:
أَخِّرِيهِ عَنِّي (صحیح مسلم کتاب اللباس و الزینۃ باب تحریم تصویر صورہ الحیوان و تحریم اتخاذ ما فیہ صورۃ)
"اسے مجھے سے دور کر دو"
فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ لِي فِي صَلَاتِي (صحیح البخاری کتاب اللباس باب کراھیۃ الصلاۃ فی التصاویر)
"کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں مسلسل مجھے پریشان کرتی رہی ہیں"۔
مسلمانوں میں در آنے والی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہ بھی ہے کہ مساجد کے قالین ہوں یا گھروں میں استعمال ہونے والے مصلے، ان پر دلفریب ڈیزائن یا مقدس مقامات کی تصاویر بنائی جاتی ہیں۔ یہ بات سنت مبارکہ کی راہنمائی کے قطعا خلاف ہے لہٰذا ان کی بجائے سادہ مصلیٰ استعمال کیا جائے۔مزید برآں یہ حکم کپڑوں وغیرہ ہی کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ ہر اس شئے کے لیے ہے جو خشوع و خضوع میں رکاوٹ ڈال سکتی ہو۔اس کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے۔
لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ (مسند احمد باقی مسند الانصار حدیث امراۃ من بن سلیم، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 2030)​
"مناسب نہیں کہ (اللہ کے)گھر (خانہ کعبہ) (اور اسی کے حکم میں مسجد،مصلیٰ ، نماز پڑھنے کی جگہ ) میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کر دے (یعنی اس کی توجہ نمازسے ہٹا دے)"
بہترین انداز میں وضو:
خوب اچھی طرح سے وضو کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنْ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضو ء و الصلاۃ عقبہ)​
"جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آ جائے اور وہ اچھی طرح وضو کرے ، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے اوربہترین انداز میں (اطمینان کےساتھ) رکوع (سجدے)ادا کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے(صغیرہ) گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے جب تک کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے (کیونکہ کبیرہ گناہ سچی توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں)۔ اور یہ (فضیلت) ہمیشہ کے لیے ہے"
نگاہیں پست رکھنا:
اللہ تعالیٰ کے حضور ایک عاجز غلام کی طرح کھڑا ہوا جائے۔ لاپرواہی سے کھڑے ہونا، دائیں بائیں دیکھنا یا نگاہوں کو اوپر نیچے گھماتے رہنا نماز کے آداب کے منافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےنماز میں نظریں بلند کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ أَوْ لَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ ( وفي رواية : لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ) (صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ۔صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب النھی عن رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ)​
"جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں انہیں اس سے باز آ جانا چاہیے یا پھر ان کی نظرواپس نہ لوٹ سکے گی" دوسری روایت میں ہے کہ "یا ان کی بینائی اچک لی جائے گی"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب نماز ادا فرماتے تو اپنا سر مبارک جھکا کر رکھتے تھے اور نگاہیں زمین کی طرف لگی ہوتی تھیں۔اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور ادب کا اتنا خیال تھا کہ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں سے نکلنے تک اپنی نظر سجدے کی جگہ سے نہیں اٹھائی ۔
دائیں بائیں دیکھنے سے اجتناب:
ادھر ادھر دھیان دینے اور قبلے کی جانب سے چہرہ پھیرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔
فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ (سنن ترمذی کتاب الامثال باب ما جاء فی مثل الصلاۃ و الصیام و الصدقۃ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2863)​
" جب تُم لوگ نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ مت کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ مبارک نماز پڑہنے والے کے چہرے کی طرف کیے ہوئے پوری طرح سے متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ (نماز سے)اپنی توجہ اِدھر اُدھر نہ کر لے "
التفات یعنی نمازی کے دائیں بائیں متوجہ ہونے کو شیطان کی کاروائی بتایا گیا ہے:
اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ)
"یہ بندے کی نماز (کے خشوع و خضوع میں سے کچھ حصہ ہے) جو شیطان جھپٹ کر لے جاتا ہے"
اور فرمایا:
لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ وَهُوَ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ فَإِذَا الْتَفَتَ انْصَرَفَ عَنْهُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الالتفات فی الصلاۃ، صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 554۔ حسن لغیرہ)​
"جب بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہتا ہے جب تک وہ بندہ (نماز سے) اپنی توجہ ادھر ادھر نہ کر لے۔ پھر جب بندہ اپنا چہرا پھیر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے رخ پھیر لیتا ہے‘‘
ادب کے منافی چندمزید امور کی ممانعت:
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں تین چیزوں سے منع فرمایا ہے جن کی تفصیل یہ ہے:
عَنْ نَقْرَةٍ كَنَقْرَةِ الدِّيكِ وَإِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ وَالْتِفَاتٍ كَالْتِفَاتِ الثَّعْلَبِ (صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 555، مسند احمد مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ حسن لغیرہ)
"مرغ کے چونچ مارنے کی طرح (جلدی جلدی سجدہ کرنے سے)۔
کتے کی طرح ہاتھ ٹیک کر بیٹھنے سے۔
اور لومڑی کی مانند(سراور آنکھیں) ادھر ادھر گھمانے سے۔

 
Top