• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوجوانوں کو باکردار کیسے بنائیں ؟

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
تحریر: افروز عالم بن ذکراللہ سلفی،گلری ،بڑھنی ،سدھارت نگر

انسانی زندگی کے بتدریج ارتقاء میں ایک مرحلہ جوانی کا ہے ۔
جوانی کا لفظ زور آور اور طاقت ور ہے جو شجاعت ،رعب ودبدبہ ،جھد مسلسل ،پرجوش جذبات ،عمل متواتر کا آئینہ دار ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت جوانی ہے۔اس عمر میں بدن میں سیلاب کی سی خون میں دورانی ہوتی ہے،
قرآن وحدیث میں جوانی کی عمر کو بڑی اہمیت حاصل ہے ‌۔

نوجوان طبقہ اپنی قوم میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ان کے اندر بگاڑ آگیا تو اس قوم کی خیر نہیں اگر یہ نوجوان طبقہ دیندار با اخلاق وباکردار ،تعلیم یافتہ بن جائے تو اسلام کا صحیح نمائندہ و ترجمان بن جاتا ہے ۔اور اگر یہی طبقہ بے دین ،بد اخلاق و بد کردار بن جائے ،تعلیم سے لا پرواہ ہو جائے تو پورے ملک و معاشرہ کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
نوجوان یہ قوم کا معمار ہوتا ہے ۔
آپ دیکھیں تو قرآن مجید نے آنے والی نسلوں تک کے لئے نوجوانوں کی ضرورت کو بیان کیا اور سنت نبویہ میں بھی ان باکردار نوجوانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
ایمان لانے والے،دین کی حفاظت کرنے والے صالح نوجوانوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں فرمایا : "انھم فتية آمنوا بربهم وزدناهم هدى"(الكهف : ١٣)اصحاب کہف یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انھیں ہدایت سے نوازا۔

اسی طرح سورۃ ممتحنہ آیت نمبر :٤ /میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : "قد كانت لكم أسوة حسنة في ابراهيم "تمھارے لیے ابراہیم علیہ السلام بہترین اسوہ ونمونہ ہیں
وہی ابراہیم علیہ السلام جنھوں نے کفر کے ایوان میں زلزلہ برپا کر دیا تھا اور پوری قوم کھ پڑی تھی
"قالوا سمعنا فتي يذكرهم يقال له ابراهيم " سورۃ انبیاء، آیت نمبر :٦٠ /
قوم نے کہا کہ ہم نے ایک نوجوان کا تذکرہ سنا جسے لوگ ابراہیم کہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام ایک نوجوان ہی تھے جن کے حسن و جمال پر عزیز مصر کی بیوی فریفتہ ہو کر شہوت کی دعوت دیتے ہوئے کہی "ھیت لك" جواباً کہا "معاذاللہ "
ٹھیک اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں پر خاص توجہ دی اور ان کا مقام و مرتبہ بتایا۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بااخلاق و باکردار نوجوانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:"شاب نشأ في عبادة الله " (صحیح بخاری 660)
عرش الٰہی کے سایہ میں سات خوش نصیب لوگ ہوں گے جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ان خوش نصیبوں میں ایک طبقہ نوجوانوں کا ہوگا ۔جن کی جوانی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزری۔
کاش آج کے نوجوان اللہ کی عبادت وبندگی کرتے اور اپنے آپ کو بلند مقام تک لے جانے کی کوشش کرتے ۔
ان جوانیوں کو ضائع وبرباد ہونے سے بچاؤ ورنہ کف افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔

کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نھیں
جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن سکتی نھیں

نوجوانوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے اس خاص مرحلے جوانی کی اہمیت اور مسؤلیت کے تعلق سے فرمایا:
"اغتنم خمسا قبل خمس منھا : شبابك قبل هرمك"

(المستدرک للحاکم ٣/٨٤٦)
اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جان کر اس کی حفاظت کرو ۔

تاریخ اسلام کا مطالعہ کرو معاشرہ وسماج میں انقلاب خواہ وہ مادی ہو یا روحانی ،تعمیری ہو یا تخریبی اس میں محرک نوجوان ہی رہے ۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

آغاز وحی سے ہی اسلام قبول کرنے والوں میں سرفہرست نوجوان طبقہ ہی تھا ۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔ عمر 37/سال
عمر فاروق رضی اللہ عنہ ۔عمر 27/سال
عثمان غنی رضی اللہ عنہ ۔عمر 34/سال
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔عمر 10/سال
طلحہ رضی اللہ عنہ ۔عمر 14/سال
مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے سفیر نوجوان ہی تھے ۔

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ۔عمر 34/سال
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ۔عمر 17/سال
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کمانڈر منتخب ہوئے ۔عمر 18/سال
مگر افسوس صد افسوس آج ہمارا نوجوان اطاعت الھی ،شرعی حدود و قیود اور اسلامی تعلیمات سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا ،اور غیروں کے رنگ میں ڈھل گیا ،رب چاہی زندگی کے بجائے من چاہی زندگی بسر کرنے لگا ۔

آج ہمارے نوجوان عمر کے حساب سے جوانی کے مرحلے میں بیس ،بائیس ،پچیس ،تیس گھر کے لئے بوجھ ہیں ۔
ان کے یہاں تعلیم و تربیت کا فقدان ،بیروزگار ،بے دین،برے ساتھیوں کا انتخاب،فکر آخرت سے یکسر غافل ،نوجوانوں اور بوڑھوں میں منافرت، دوری وتناؤ،دینی جذبہ سے غافل ،بلکہ خود اپنی جوانی اور زندگی کی اہمیت سے غافل ہیں ۔
جس کی والدین ،سرپرستوں ،اساتذہ ،ذمہ داران ،دانشوران جمعیت و جماعت کو کرنی ہے۔
آج کی جدید نسل کو ملحدانہ طرز زندگی اور مغربی کلچر نے تباہی وگمراہی کے عمیق گڑھے میں ڈال رکھا ہے۔

اس کا علاج کیسے ہو ؟
توآئیے ہم چند تجاویز پیش کرتے ہیں :
(1) ایسے ماحول میں ہم انھیں ایمان وعقائد کی تعلیم دیں ۔ان کے اخلاق وکردار کی سیرت سازی کتاب وسنت کی تعلیم و تربیت اور اسلاف کی سیرتوں و کارناموں سے کریں ۔اور اتنا مضبوط کریں کہ اچھائیاں عام ہوں ۔
(2) انھیں ہم مقصد زندگی سے واقف کرائیں کہ وہ اپنا ٹائم ٹیبل بناکر منصوبہ بند طریقے سے مستقبل کا ہدف طے کریں ۔
(3) ان کے اندر کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور انھیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں ۔
(4) انھیں عیش پرستی کو ترک کرنا سکھائیں ۔مزید نماز ،دعا ذکر واذکار ،تلاوت قرآن مجید،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کے مطالعہ پر زور دیں ۔
(5) نوجوانوں کو مغربی کلچر،ملحدانہ طرز زندگی،،فحش و منکرات،اسراف و فضولیات سے روکیں ۔انھیں اپنے قیمتی اوقات کو ہوٹلوں ،چوراہوں ،بازاروں ،گلیوں،اور برے دوستوں کے ساتھ نہ گزارنے دیں ۔
(6) نوجوانوں کو اس بات کی تلقین کریں کہ وہ اپنے سیرت وکردار کو بے داغ رہنے دیں ۔انھیں اپنے تمام افکار و نظریات اورجذبات میں تعلیمات قرآن وحدیث کو مقدم رکھنے پر زور دیں۔اصول پسندی حکمت و موعظت اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہوئے سلفی عقیدے و منھج پر مضبوطی سے ڈٹے رہیں ۔
(7) اعتدال و میانہ روی اختیار کریں ،شھرت طلبی ،دکھاوا ،اور ریاکاری سے بچیں ،ثابت قدمی، استقلال بھی ضروری ہے ،اپنی تقریر و تحریر میں شعلہ بیانی سے دور رہیں اس سے آپ کی واہ واہی ،واہ واہ تو ہوجائے گی مگر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت گھٹ جائے گی۔

(8) علماء کرام سے قریب رہنے کی کوشش کریں،مسجدوں سے وابستگی اور لگاو پیدا کریں ،وضع وقطع میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائیں دوسری قوموں کی نقالی سے بچیں۔بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کو پیار دیں ۔
(9) اپنے سیل فون کا غلط استعمال نہ کریں ،سیکھنے پڑھنے کے عمل کو جاری رکھیں ۔
(10) ان کے لئے مساجد میں علمی ورکشاپ رکھا جائے ۔
(11) روزمرہ کی عملی تربیت دی جائے ۔مثلا صلاۃ الفجر کی ادائیگی ،اذکار ،تلاوت کم ازکم ایک رکوع ،کم ازکم روزآنہ ایک حدیث کا ترجمہ کے ساتھ پڑھنا سمجھنا اور یاد کرنا۔گھر سے کاروبار،تدریس،آفس کی تیاری وغیرہ کی تربیت ،جلد سونے،گفتگو میں نرم بول چال،فضول کام مثلاً بغض اور غیبت ،اسراف ،ٹی وی ،سیریلس سے بچائیں ۔ان کو نصیحت کریں کہ اپنے خالی اوقات کو مفید بنائیں اسے کتابوں کے مطالعہ اور خدمت خلق میں لگائیں ۔اور اپنی دنیاوآخرت کو سنواریں ۔
(12) نوجوانوں کی خامیوں اور خوبیوں کو ان کے سامنے بیان کریں ، خامیوں کے اصلاح کی کوشش کریں ۔ان کو ملکی و عالمی حالات سے بھی واقف کرتے رہیں ۔انھیں عیش پرستی سے بھی روکیں انھیں صرف دنیاطلبی سے ڈرائیں انھیں یاد دلائیں کہ جوانی کو کس چیز میں ضائع کیا اس کے بارے میں سوال ہوگا ۔
(13) گھروں میں نوجوان بہنیں یا بچیاں ہیں تو ان کو امور خانہ داری،گھریلو ماحول کا اصلاح،اولاد کی تربیت،شوہر کے حقوق اور سسرال سے اچھے تعلقات،کی باتیں بتائیں۔تاکہ وہ وہ مثالی ماں و مثالی خاتون بنیں ۔ان کے لئے اصلاحی و تربیتوں کتابوں کو فراہم کریں ۔
(14) نوجوانوں کو ملی و سماجی مسائل سے واقف کریں انھیں سگریٹ نوشی وشراب نوشی سے دور رکھیں،بے راہ روی کی روک تھام کریں،ان کے لئے لائحہ عمل تجویز کریں تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو ۔فیشن پرستی اور فضول خرچی کے نقصانات اور اس کے انجام کو بتلائیں۔ان کے یہاں تعلیمی بیداری کی مہم چھیڑیں ،ان کو جہیز کے خاتمے پر زور دیں۔تاکہ مسلم بہنیں محفوظ رہیں اور ان کو فتنہ ارتداد سے بچایا جا سکے۔
(15) نوجوانوں کو جوش و جذبہ کے ساتھ ہوش مندی سکھلاتے ہوئے انھیں شدت پسندی،فتوی بازی،تکفیری فتنوں ،مفادپرستی،خودپسندی،چاپلوسی،انانیت،غروروتکبر،غلو،آپسی مخاصمت سے روکیں یہ امراض نوجوانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہے ۔
(16)تحمل ،قوت برداشت،صبروضبط بے حد ضروری ہے۔ غم وفکر میں انھیں تسلی دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت 23/سالہ زندگی کو یاد دلائیں۔
(17) نوجوانوں کے اندر دینی بیداری لائیں ان سے کام لیں ان کو حوصلہ دیں ۔کیونکہ دین کا کام کبھی آرزوؤں سے پورا نہیں ہوا ہے ۔
(18) موجودہ وسائل و ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان سے دعوت کا بھی کام لیں ۔
(19) ان کے لئے مخلص مربیوں کا انتخاب کریں ،کیونکہ نوجوانوں کے اندر عقائد و افکار کی اصلاح،اور ماحول وکلچر کو سلفی نکتہ نظر سے پروان چڑھانا ھوگا ۔اور انھیں صالح صحبتوں سے محروم نہ کریں ۔انھیں معاملات میں امانت دار،گفتگو میں راست باز،سچا،چال ڈھال میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر وقت موقع محل سے مختصر مفید گفتگو کی تلقین کریں ۔
(20) ان کو ایک دوسرے کا باہمی تعاون کرنے،ان کا خیرخواہ ومددگار رہنے کی تاکید کریں ورنہ دوریاں ودشمنیاں پیدا ہوں گی۔
(21) نوجوانوں کے اندر خود احتسابی self (Accountibility )پیدا کریں ان کے لیے ٹرگیٹ طے کریں ۔
(22) ان کو لین دین میں کھرا بنائیں ان کے قول فعل میں تضاد نہ ہونے دیں ۔
(23) نوجوانوں کو سمجھائیں کہ صرف تنقید نہ کریں اور نہ تنقیدی ذھن بنائیں،،مثبت سوچ رکھیں،منفی سوچ کو جگہ نہ دیں ،اور تعمیری ذہن بنا کر کام کریں۔
(24) نوجوان طبقہ فعال اور متحرک بنیں سرد مہری کو اپنے اندر سے دور کردیں۔
(25) مصالحت اور اخوت باہمی کو فروغ دیں ،فتنے جھگڑے اور تنازعات سےدوسروں کو بھی دور رکھیں ۔

اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ دے اور ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو امانت سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کتاب و سنت کا داعی اور اسلام کا سچا پیروکار بنائے
(آمین )


afrozgulri@gmail.com
7379499848

Sent from my Redmi Note 7S using Tapatalk
 
Top