• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح نامہ پر لڑکی کی بہن نے دستخط کیا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
امید کہ سب بخیر ہوگا۔
کسی کی شادی ہوئی لڑکی تیار نہیں تھی ۔ نکاح نامہ پے دستخط کرنے کیلئے تیار نہیں تھی لڑکی کی دوسری بہن نے بدلے میں دستخط کردیا، اس بات کا علم کسی کو نہیں تھا۔ دونوں خوشی خوشی رہنے لگے، اب لڑکی حمل سے ہے، لڑکا کو حال ہی میں چند دنوں پہلے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ اس طرح ہوا ہے۔
اب وہ پریشان ہے آپ سے مؤدبانہ التماس ہے، اس مسئلہ کا حل کتاب و سنت کے مطابق بتاکر شکریہ کا موقع دیں بڑی مہربانی ہوگی اور ساتھ میں یہ بھی واضح کریں کہ گواہ کا کیا ہوگا، میں جواب کا منتظر ہوں۔
والسلام علیکم
محمد أسرار محمدرستم
نظام چوک سپول

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
لڑکی کی شادی کے لئے ولی کا ہونا شرط ہے، ولی نے کسی لڑکے سے شادی طے کی اور اس کا نکاح اس سے کردیا اس حال میں کہ لڑکی نے ولی کے فیصلے پر خاموشی اختیار کی تو یہ نکاح صحیح ہے ۔ کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باکرہ عورت کی اجازت خاموشی ہے یعنی ولی کے فیصلے کی مخالفت نہ کرنا بلکہ اس پہ رضامندی یا خاموشی کا اظہار کرنا رضامندی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه(صحيح مسلم:1421)
ترجمہ: ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها(صحيح أبي داود:2100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔
ان ساری احادیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ اگر لڑکی ولی کے فیصلے پہ خاموش رہی تو یہ اس کی طرف سے رضامندی ہے ۔ سوال سے بھی ظاہر ہے کہ نکاح کے بعد لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ خوشی خوشی رہنے لگی ۔ یہ شادی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے،اس میں کسی قسم کا شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ رہ گیا معاملہ نکاح نامہ پر اس کی بہن کے دستخط کرنے کا تو اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لڑکی کی طرف سے نکاح نامہ پہ دستخط کا ہونا نکاح کی صحت کے لئے شرط نہیں ہے ، اس کی طرف سے خاموشی ہی کافی ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ شادی کے وقت لڑکی شادی سے راضی نہیں تھی اس کا علم صرف لڑکی کی بہن کو تھا مگر پھر نکاح کے بعد رخصتی ہوکر شوہر کے یہاں جانا اور خوشی خوشی رہنا یہاں تک کہ بچہ بھی ٹھہرجائے اس بات کی دلیل ہے کہ لڑکی راضی ہوگئی تھی ۔ اگر لڑکی ولی کے فیصلے سے انکار کرتی تو اسے ولی سے انکار کرنا تھا ، انکار کی صورت میں بھی ولی شادی کردیتے تو یہ جبری شادی ہوتی پھر بھی شادی ہوجاتی تاہم لڑکی کو اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کرلینے کا اختیار ہوتا۔
تیسرا مسئلہ گواہ سے متعلق پوچھا گیا ہے کہ اس کا کیا ہوگا؟ اس سوال میں واضح نہیں ہے کہ گواہ سے متعلق کون سی بات پوچھی جارہی ہے ؟ اسے لڑکی کی عدم رضامندی کا علم تھا پھر بھی اس نے چھپایا ؟ یا گواہ ہوکر بھی اسے لڑکی کی رضامندی یا عدم رضامندی کا علم نہ ہوسکے ایسے گواہ کا کیا حکم ہے؟ یا اس نکاح میں سرے سے گواہ ہی نہیں تھا ایسے نکاح کا کیا ہوگا؟
ان تین نقاط میں مجھے امید ہے کہ تیسرا نقطہ نہیں ہوگاالبتہ پہلی دو صورتوں میں بھی نکاح صحیح ہے، ان باتوں کے علاوہ گواہ سے متعلق کوئی اور بات ہو تو مجھے لکھ بھیجیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ نکاح اپنی جگہ صحیح ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)
تاریخ: 27/12/2018
 
Top