• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح نامے کے ساتھ ہی طلاق نامہ بھی تیار

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
نکاح نامے کے ساتھ ہی طلاق نامہ بھی تیار

عمر فاروق بی بی سی، حیدرآباد
آخری وقت اشاعت: اتوار 26 مئ 2013 ,‭ 08:05 GMT 13:05 PST


حیدرآباد دکن میں مسلم خواتین کے طرح طرح کے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں

بھارتی ریاست آندھراپردیش کا دارالحکومت حیدرآباد مقامی مسلمان لڑکیوں کی عمر رسیدہ عرب باشندوں سے شادیوں کے لیے بدنام تو تھا ہی تو اب یہ ’ كنٹریكٹ میرج‘ یا عارضی شادیوں کے لیے سرخیوں میں ہے۔

ان دنوں شہر کی پولیس ایک ایسے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں ایک 16 سالہ لڑکی نوشين تبسم نے شکایت کی ہے کہ اس کے والدین سوڈان کے ایک 44 سالہ شخص سے اس کی تیس دن کے لیے شادی کر رہے تھے جو پہلے ہی شادی شدہ ہے۔

حیدرآباد کے مغل پورہ پولیس تھانے کے انسپکٹر وجے كمار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے میں انہوں نے قاضی بشیر الدین کو گرفتار کر لیا ہے جس نے جان بوجھ کر نہ صرف نابالغ لڑکی کا نکاح پڑھایا بلکہ نکاح کے وقت ہی طلاق نامہ بھی تیار کر دیا جس سے واضح ہے کہ یہ شادی صرف تیس دن کے لیے تھی۔

انسپکٹر کا کہنا تھا ’یہ كنٹریكٹ میرج ہر طرح سے غیر قانونی ہے۔ یہ قانون اور اسلامی شریعت دونوں کے منافی ہے۔‘

پولیس نے اس سلسلے میں ممتاز بیگم نامی ایک خاتون اور ان کے ایک ساتھی کو بھی گرفتار کر لیا ہے جو حیدرآباد کی غریب مسلم لڑکیوں کا غیر ملکی شہریوں خصوصا سوڈاني باشندوں کے ساتھ كنٹریكٹ میرج کروا رہی تھیں۔

بہر حال نوشین کے والدین یوسف اور عائشہ دونوں لاپتہ ہیں اور پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے۔

نوشين تبسم کے معاملے نے شہر میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور ہر طرف اس پر بحث ہو رہی ہے۔ ویسے حیدرآباد میں یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

نسبتا غریب تسلیم کیے جانے والے پرانے شہر کے علاقے میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم كنفڈریشن آف والنٹری ایسوسی ایشن کے ڈائرکٹر مظہر حسین کا کہنا ہے ’یہ مسئلہ 10- 15 سال پرانا ہے۔ لیکن یہ اب سامنے اس لیے آ رہا ہے کیونکہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں اب اپنے حقوق کے تئیں بیداری میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اندر کھل کر سامنے آنے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔‘

مظہر حسین کا کہنا ہے: ’سچ یہ ہے کی اب ایسے واقعات پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہو گئے ہیں لیکن میڈیا میں اس کا ذکر بڑھ گیا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔‘

پولیس کے مطابق نوشين اس وقت اپنے گھر سے بھاگ کر قریبی تھانے پہنچیں جبکہ ان کا خاندان اس پر ایک سوڈاني شہری اسامہ ابراہیم محمد کے ساتھ ہوٹل جانے کے لیے نوشین پر دباؤ ڈال رہا تھا۔

وجے كمار کا کہنا تھا کہ ’اسامہ اپنے دوست سے یہ اطلاع ملنے پر حیدرآباد آیا تھا کہ یہاں کم خرچ پر اسے’عارضی بیوی‘ مل سکتی ہے۔‘

اسی سال 19 فروری کو حیدرآباد پہنچنے کے بعد انہوں نے ممتاز بیگم کی مدد سے چار لڑکیاں دیکھیں اور نوشين کو پسند کیا۔

دو دن بعد شادی کے لیے انہوں نے اس خاتون کو ایک لاکھ روپے دیے جس سے قاضی اور عربی ترجمہ کرنے والے ایک شخص کو پانچ پانچ ہزار روپے دیے گئے جبکہ اس لڑکی کے گھر والوں کو 70 ہزار روپے دیے گئے۔ اس خاتون نے 20 ہزار روپے خود لے لیے۔

نوشين نے بعد میں پولیس کو بتایا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کی شادی کس طرح ہوتی ہے۔

لڑکی نے پولیس سے کہا: ’اس دن مجھے سرخ رنگ کی ساڑی پہنائی گئی اور مجھ سے قبول ہے کہنے کے لیے کہا گیا۔ بعد میں جب میرے گھر والوں نے مجھے اس شخص کے کمرے میں بھیجنے کی کوشش کی تو میں ڈر گئی اور میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔‘

پولیس انسپکٹر وجے کمار کا کہنا ہے نوشین کے والدین یوسف اور عائشہ لاپتہ ہیں اور پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے

لڑکی کے انکار کے بعد اسامہ ناراض ہو کر ہوٹل واپس چلے آئے۔ لیکن لڑکی کے خاندان اور درمیان والوں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ دو چار دن میں لڑکی ان کے ہوٹل پر پہنچ جائے گی۔

اس درمیان قاضی نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر لڑکی کا نكاح نامہ تیار کر لیا جس کی عمر بڑھا کر دکھائی گئی ساتھ ہی قاضی نے تیس دن کے بعد کی تاریخ کے ساتھ ایک طلاق نامہ بھی بنا دیا۔

جب گھر والوں کا دباؤ بڑھنے لگا تو نوشين ایک دن صبح چپکے سے گھر سے نکل آئیں اور پولیس سٹیشن پہنچ گئیں۔ ان کی کہانی سنتے ہی پولیس حرکت میں آ گئی اور خواتین پولیس اہلکاروں کے سامنے ان کا بیان لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر گرفتاریاں شروع کر دی۔

وجے كمار کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کے پرانے شہر میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہر ماہ کم سے کم پندرہ کنٹریكٹ میرج ہوتی ہیں اور ان دنوں ایسی شادی کرنے والوں میں سوڈان کے لوگ ہی زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ سوڈان کے بہت سارے لوگ یہاں پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور ابھی وہاں پٹرول سے ہونے والی دولت میں اضافہ ہوا ہے وہاں اگر کوئی شخص شادی کے دائرے سے باہر کسی عورت سے تعلقات چاہتا ہے تو وہ حرام اور غیر قانونی ہے اس لئے یہ لوگ عارضی شادی کے نام پر جنسی سکون حاصل کرنے کے لیے یہاں آ رہے ہیں۔‘

لیکن ایسی بہت کم شکایات پولیس تھانوں میں درج ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال پولیس نے ایسے دو معاملے درج کیے تھے لیکن کسی کو سزا نہیں ہوئی۔

مظہر حسین کا کہنا ہے کہ ’اس چکر میں زیادہ تر ایسے غریب خاندان پھنس جاتے ہیں جو جہیز کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔ حیدرآباد میں غریب خاندانوں کے لیے لڑکیوں کی شادی آسان نہیں ہے کیونکہ ایک شادی پر تین سے چار لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔‘

وجے كمار کا کہنا ہے کہ ایسی باتیں حیدرآباد کے پرانے شہر کے ان علاقوں میں عام ہیں جہاں غریب لوگ اور روزانہ مزدوری کرنے والے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔ خود نوشين کے والدین کو پانچ بچے ہیں اور ان میں یہ لڑکی سب سے بڑی تھی۔

نوشين اپنے گھر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ بے سہارا لڑکیوں کے لیے بنے سرکاری مرکز میں رہ رہی ہیں۔

اس معاملے نے حکومت کی طرف سے مقرر قاضیوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ عارضی نکاح پڑھانے والے قاضی بشیرالدین کو معطل تو کر دیا گيا ہے لیکن ایسے ابھی اور کئی قاضی ہیں جو اس طرح کے جعلی نکاح پڑھاتے ہیں۔

حیدرآباد کے پرانے شہر میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہر ماہ کم سے کم 15 كنٹریكٹ میرج ہوتی ہیں

حیدرآباد کے چیف قاضی میر قادر علی کا کہنا ہے: ’ایسے لوگوں کے خلاف سخت کروائی ہونی چاہیے کیونکہ اسلام میں اس طرح کے كنٹریكٹ میرج یا عارضی شادیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ حرام ہے۔ شادی ایک مستقل رشتہ ہوتا ہے۔‘

مظہر حسین نے کہا کہ ’كنٹریكٹ میریج، عصمت فروشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسلام میں کیونکہ ناجائز تعلقات حرام ہیں اس لیے یہ لوگ شادی کے نام کا استعمال کر رہے ہیں اور لڑکیوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں۔‘

نوشين نے جس طرح اس گھناؤنی رسم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اس نے آمنہ بیگم کی یادیں تازہ کر دی جس کی ایک بوڑھے عرب شہری سے شادی نے 1991 میں پورے ملک میں کہرام مچا دیا تھا۔ امینہ کو اس طیارے کی ائیرہوسٹس نے بچایا تھا جس میں وہ اپنے بوڑھے عرب شوہر کے ساتھ روتی ہوئی جا رہی تھی۔
ح
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
انا للہ و انا الیہ راجعون
اے اللہ! ایمان کا دعوی کرنے والوں کو حقیقی اسلام کی پہچان عطا فرما دے، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور پھر تو اپنی رحمت سے قبول و منظور فرما لے۔ آمین
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
کنٹریکٹ میرج کا یہ طریقہ جس طرح سے آجکل خبروں میں آ رہا ہے مجھے خطرہ ہے کہ دانستہ میڈیا میں اس قسم کی خبروں کو اچھال کر ان افراد کو بھی ایک نیا راستہ دکھایا جا رہا ہے جو اس سے آشنا نہیں ہیں۔ اگر باخبر ساتھیوں کو بھولا نہ ہو تو شاید پچھلے ماہ ہی کنٹریکٹ میریج یا متعہ کے حق میں بھی بی بی سی اردو پر ایک مضمون شائع کیا گیا تھا۔ عالمی طور پر تیار کی جانے والی سازشوں میں جس طرح سے میڈیا کا کردار استعمال کیا جاتا ہے اب یہ بات بھی ڈھکی چھُپی نہین ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے اور دین پر قائم رہنے کی استقامت عطاء فرمائے آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس پر جو پہلے پیش کیا گیا تھا وہ نکاح مسیار تھا شائد اس پر وہ واقعات ملیشیا میں ہوئے تھے جس پر ملیشیا حکومت نے سعودی حکومت کو اس پر شکایت بھی کی تھی اور بعد میں مفتی اعظم نے نکاح مسیار جائز ہونے پر شائد فتوی بھی جاری کیا تھا اور یہ خبر بالکل درست تھی گوگل میں تلاش کریں کسی نہ کسی فارم سے مل جائے گی۔
=======

اس پر جو معلومات ذاتی طور پر مجھے ہیں میں انہیں پیش کرتا ہوں۔

پاکستان میں لڑکا اور لڑکی کی شادی پر لڑکی والے جہیز دیتے ہیں یا اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو ساتھ ضروریات زندگی کا سامان بھی دیتے ہیں جس پر ان کی حیثیت کے مطابق، گھر، روپیہ، کاروبار وغیرہ شامل ہیں۔ لڑکے والوں کے ذمہ صرف حق مہر ھے اور وہ بھی کچھ وقت پر ادا کر دیتے ہیں اور کچھ بیوی کو کہہ کے معاف کروا لیتے ہیں جس پر وہ حق مہر میں کوئی بھی چھوٹی سی چیز دے دیتے ہیں۔

عرب ممالک میں ایسا نہیں وہاں جہیز نام کی کوئی چیز نہیں، اس پر لڑکی کا بات پہلے ہی تہہ کرتا ھے کہ وہ لڑکی کا حق مہر 60 ہزار، ایک، دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دن لاکھ درھم لے گا۔ اسی رقم سے لڑکی کا باپ لڑکی کی شادی پر سارا انتظام کرتا ھے۔ یہ رقم مطالبہ کی جاتی ھے اور سننے کو یہ بھی آیا ھے کہ لڑکی دوسرے گھر می امانت ھے اس لئے اس پر پیدائش سے لے کر شادی تک کا تمام خرچ جو کیا جاتا ھے اس پر حق مہر میں مطالبہ سے رقم لی جاتی ھے۔

اس لئے ابوظہبئی میں جو مواطنین غریب ہیں وہ یہ رقم ادا نہیں کر پاتے تھے جس وجہ سے وہ انڈیا کے شہر حیدرآباد جا کر اوریجنل شادی کرتے تھے اور پھر اسے وہاں سے وزٹ ویزہ پر ساتھ لے جاتے تھے اور انہیں صحیح معنوں میں بیوی کا درجہ سے رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت سے لڑکے میرے دوست تھے اور میرے ساتھ جاب بھی پر بھی تھے۔ مواطنین بھی اور حیدرآبادی پیدائش والے بھی۔ اس پر وہاں ایک علاقہ ھے بنی یاس یہاں تمام غریب عربی جنہوں نے حیدآباد شادیاں کی ہوئیں ہیں وہ سب یہاں ایک کثیر تعداد میں ملیں گے۔

ان دنوں ابوظہبئی کے مواطنین چلا اٹھے تھے کہ یہاں کے مواطن تو حیدرآباد جا کر شادی کر کے بیوی لے آتے ہیں اور جو ان کی بیٹیاں ہیں وہ شادی سے محروم ہو رہی ہیں جس پر ان دنوں شیخ زائد بن سلطان النہیان زندہ تھا اور اس نے اس پر ایک مثبت فیصلہ کیا تھا کہ جس سے باہر جا کر شادی کرنے والا کام رک جائے۔ شیخ زائد نے اس پر شارع جوازات میں ایک ادارہ بنوا دیا تھا کہ جس کے پاس حق مہر دینے کی رقم نہیں وہ باہر جا کر شادی نہ کرے بلکہ اس مکتب میں رپورٹ کرے جس پر ہر ایک دلہا کو ایک سے سوا لاکھ درھم کے قریب رقم ملے گی۔

پاکستان میں جا کر کوئی عربی شادی نہیں کر سکتا یہ حکومت پاکستان سے ایک بہت سخت قانون جو بہت پرانا ھے، ہاں اس پر کچھ پاکستانی اسطرح کرتے ہیں کہ لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں کسی عربی سے بیاہ دیتے ہیں یا جو پہلے سے وہاں قیام پذیر ہیں وہ اپنی کوئی نہ کوئی بیٹی کسی عربی سے بیاہ دیتے ہیں لالچ میں، مگر یہ ریشیو بہت بہت کم ھے۔ مگر پاکستان ائرپورٹ سے کوئی عربی اپنے ساتھ کسی پاکستانی لڑکی کو ساتھ نہیں لے جا سکتا۔

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم پہلی بات تو یہ ھے کہ جب کوئی خبر یا کسی موضوع پر دھاگہ بنا ہوا ھے اس پر کسی اور چیز کا سہارہ لئے بغیر اپنے ذاتی تجربہ سے رائے دینی چاہئے۔

اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر کسی بھی قسم کی دوسری خبر کو اگر ساتھ ملانا ضروری ہو تو پھر دونوں کو سامنے رکھ کر اس پر بھی اپنی رائے دینی چاہئے کہ دونوں سے آپ کیا نتیجہ اخذ کر رہے ہیں۔

کوئی بھی مراسلہ جو بہت طویل ہو اور اس میں مختلف سٹوریاں ہوں یا ایک ہی سٹوری ہو اسے ویل آرگنائز طریقہ سے پیش کرنا چاہئے تاکہ پڑھنے والا کا دل نہ بھی کرے تو وہ خوشخط طریقہ سے پوسٹ کا مطالعہ ضرور کرے، ہو سکے تو اپنے اس مراسلہ کو ایڈٹ کر کے اس میں پہرہ گراف کی شکل میں تھوڑا فاصلہ رکھیں پھر میں کوشش کرتا ہوں آپکو اس پر جواب دینے کی۔ اسطرح پڑھنے میں دشواری ھے۔ جزاک اللہ خیر

والسلام
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ذاتی رائے بھی زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے دی جاتی ہے تاہم آئندہ احتیاط کروں گا۔

میں نے مشترکہ طور پر اپنی رائے دی تھی کہ اس قسم کی خبریں کسی خاص پلاننگ کے تحت میڈیا میں اچھالی جا رہی ہیں جب کہ ایسا عرصہ دراز سے ہو رہا ہے لیکن اب ہی کیوں برطانیہ اور انڈیا میں اس کے خلاف آواز اٹھانے کا خیال آیا ہے۔

کسی بھی ویب سائٹ سے خبر من و عن کاپی پیسٹ کرنے میں یہی قباحت محسوس ہوتی تھی کہ ایک تو فارمیٹنگ فورم کے مطابق نہیں ہوتی دوسرا پیرا گرافس کی بہتات سے یہ خبر کم اور کہانی زیادہ لگتی تھی۔ تاہم اس نصیحت کو بھی پلو سے باندھ لیا ہے آئندہ کوشش کروں گا کہ طویل خبر کا اصل فارمیٹ فقط فونٹ تبدیل کر کے پیش کر دوں تاکہ پڑھنے میں مزید آسانی ہو سکے۔

اوپر دی گئی پوسٹ میں بھی تدوین کر کے طویل مضمون کی جگہ لنک فراہم کر دیا گیا ہے۔

جزاک اللہ خیرا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی میرے لنک اور ایک طویل کتابی پیج ان پر جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں۔

آپ نے شائد یہ خبر پہلے بھی لگائی تھی اس میں اختلافی مسئلہ ھے اس لئے میں نے پہلے آپ کے اس دھاگہ میں ایسا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور اب آپ نے اسے پھر یہاں لگایا ھے، اب کوشش کرتا ہوں آپ کو اس پر جواب دینے کی۔

اختلافی مسائل پر ہمیشہ گفتگو کسی حادثہ کا شکار ہو جاتی ھے اور اس سے ایک دوسرے کی دل میں محبت بھی ختم ہو جاتی ھے اس لئے میں اختلافی مسائل سے کوشش کرتا ہوں دور ہی رہوں کیونکہ فارم میں ہر میجر مسلک سے ممبران کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ھے اور بات کتنی بھی مثبت طریقہ سے شروع کی جائے کوئی ممبر ایسا ضرور ہوتا ھے گفتگو کو دوسری طرف انڈیل دیتا ھے جس نے نقصان کا خدشہ بڑھ جاتا ھے۔

نکاح متعہ اھل تشیع میں اگر ھے تو وہ چاہے انگلینڈ میں ہو یا پاکستان یا عرب ممالک میں اس پر مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ھے یہ ان کے عقیدہ سے پرسنل میٹر ھے، آپ بھی دلیلیں دیں گے وہ بھی دلیلیں دیں گے، اس پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ھے۔ مسئلہ تو تب ھے جب کوئی نکاح متعہ کا انکار کرنے والا ہو اور وہ چھپکے سے ایسے کام میں مشغول ہو۔

والسلام
 
Top