ابوالبیان رفعت
رکن
- شمولیت
- جون 25، 2014
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 59
- نہ ہمت پست کر تعمیر نَو کی سعی کرتا جا
ابوالبیان رفعت ؔسلفی - نہ ہمت پست کر تعمیر نو کی سعی کرتا جا ارادوں کی توانائی بسادیتی ہے ویرانے
ہمارے سماج میں باصلاحیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو وسائل کی کمی اور حالات کی ناسازی کا شکوہ کرتے کرتے دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں لیکن وہ قوم و ملت کو اتنا فائدہ نہیں پہنچاپاتے جتنا فائدہ ان سے قوم و ملت کو پہنچنا چاہیے ،آخر اتنے بڑے المیہ کا سبب کیا ہے؟ اس المیہ کا سب سے بڑا سبب ا ٓرام پسندی اور مایوسی والی سوچ ہے کہ ہم تو اب کچھ نہیں کر سکتے ہیں ہمارے پاس وسائل ہی نہیں، نہ اتنا وقت ہی ہے اپنے پاس۔
میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں اسی بات کو قرآنی آیات اور تاریخی مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسان کی لگن سچی ہو اور وہ محنت وحوصلہ سے کام کرے تو ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اللہ اس کو ضرور کامیابی عطا فرمائے گا ۔ اللہ اس کی محنت ہر گز ضائع نہیں کرے گا ۔
اللہ کا فرمان ہے: {وَلَا تَیْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ إِنَّہُ لَا یَیْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ إِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ}
’’اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں یقینا رب کی رحمت سے نا امید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں‘‘ [یوسف : ۸۷]
جب زندگی مصائب و آلام اور مشکلات و مسائل سے دوچار ہوتی ہے تو اکثر لوگ مایوس و نا امید ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے دلوں سے آگے بڑھنے کا حوصلہ ختم ہونے لگتا ہے ،نتیجتاً کچھ لوگ بقیہ زندگی زندہ لاش بن کر بے حس و حرکت گزار کر اس دارفانی سے کوچ کرجاتے ہیں ۔اور کچھ بزدل و پست ہمت لوگ گردشِ مدام سے گھبرا کر خود کشی کر لیتے ہیں،جبکہ دین اسلام مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرنے کا حکم دیتا ہے ، اور یہ یقین دلاتا ہے کہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
{وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ}
’’ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں ‘‘[سورۃ ال عمران :۱۴۰]
حالات کی اس طرح کی تبدیلی سے متعلق ہوش ؔچوکوری نے کیا خوب کہا ہے:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
جہد مسلسل اور عزم و حوصلہ کی چند روشن مثالیں :
۱۔ کسی کے باپ کی فقیری اور سماج میں اس کی کمتری اس کی کامیابی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں ۔
۲۔ اسی طرح حافظہ کی کمزوری بھی کسی کو مناصب و درجات حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی ۔
تاریخ کے روشن صفحات میں ہزاروں عظیم اور باکمال لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنہیں آپ سے بھی مشکل اور ناسازگار حالات اور ماحول سے دوچار ہونا پڑا مگر اس کے باوجود وہ بالکل مایوس نہ ہوئے نہ انہوں نے ہمت ہاری بلکہ اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میںمسلسل جد وجہد کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے نیک مقاصد کو پالیا اور کامیابی کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔
۱۔ شیکسپیئر : شیکسپیئرایک انگریزی شاعر گزرا ہے اس کا باپ قصاب اور ماں ان پڑھ تھی جسے پڑھنا لکھنا کچھ بھی نہیں آتا تھا ،مگر اس کے باوجودشیکسپیئرنے بہت بڑا درجہ اور اعلیٰ مقام حاصل کرلیا ۔
۲۔ نیوٹن : اس عبقری شخصیت کا نام ہے جس نے قانون کششِ ارض کی دریافت کی، وہ بھی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا ۔
۳۔ پہلی ٹرین کے موجد’’جورج سٹیفن سن‘‘کے والد لوہار تھے ۔
۴۔ ماہر طبیعیات ’’ادوارڈز‘‘کا باپ ایک موچی تھا۔
۵۔ اور امریکہ کے سابق صدر’’اینڈرو جونسن‘‘کا باپ پیشے سے درزی تھا۔
۶۔ ڈیل کارنیگی کی مشہور زمانہ کتاب ’’دولت کیسے کمائیں ‘‘؟ میں درج ہے کہ آپ اپنے کام میں کامیابی سے مایوس نہ ہوں گرچہ آپ کی جیب میں ایک ڈھیلا بھی نہ ہو۔
۷۔ برنارڈ بلیس اپنی انتہائی تنگدستی کے باوجود ۱۶ سال تک مسلسل جد و جہد اور بحث و تحقیق میں لگا رہا ،بالآخر اس کی محنت رنگ لائی اور وہ ایک ایسا پلاسٹکی مادہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا جسے جدید صنعت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
جو لوگ پڑھائی کی عمر پار کر چکے ہیں وہ بھی مایوس نہ ہوں !
ایک کاریگر تیرہ سال تک مسلسل روزانہ چند گھنٹے بنائی کے ایک کارخانہ میں کام کرتا رہا…
وہ اپنی بنائی کی مشین ؍چرخے کے بغل میں کوئی کتاب رکھ لیا کرتا اور چرخہ گھماتے ہوئے وقتاً فوقتاً اس کے کتاب کے صفحات پر نظر ڈالتا رہتا۔اور اس کی نگاہیں کتاب کے کبھی اس جا سے کبھی اس جا سے کچھ جملے اچکتی رہتیں۔
اور کام مکمل کرنے کے بعد ایک شام کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلاجاتا، جہاں تقریباً دو گھنٹے تعلیم حاصل کرتا اور جب گھر لوٹتا تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھر پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں مشغول ہوجاتا ، اور اس وقت تک مسلسل پوری دلجمعی کے ساتھ پڑھتا اور مطالعہ کرتا رہتا جب تک کہ اس کی ماں اس سے چراغ چھین نہ لیتی اور جب اس کی ماں چراغ چھین لیتی تو پھر وہ مجبوراً بستر پر جاکر سوجاتا ۔
۱۰؍ سال کی عمر سے ۲۳ ؍سال کی عمر تک اس کی زندگی کا یہی معمول رہا اس کے بعد دوسال بھی نہیں گزرے کہ اس کو انگریزی زبان پر بھر پور قدرت حاصل ہوگئی ، اور علم ارضیات کی ڈگری حاصل کر لی ،پھر تو مشہور علماء میں اس کا شمار ہونے لگا ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ: صرف وسائل کی عدم فراہمی اور مالی وجسمانی کمزوری کو بہانہ بناکر اپنے آپ کو بالکل اپاہج نہیںسمجھ لینا چاہیے بلکہ ہر انسان کو اپنی کامیابی اور ترقی کے لئے آخری وقت کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔اللہ کا فرمان ہے:
{ وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی}
’’ اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی خود اس نے کوشش کی۔[ سورۃ النجم: ۳۹]
قدم چوم لیتی ہے خود بڑھ کے منزل مسافر اگر اپنی ہمت نہ ہارے
جواں ہو عزم تو تارے بھی توڑ سکتا ہے کٹھن نہیں ہے کوئی کام آدمی کے لئے
بدصورتی اور غر یبی بھی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں : جاحظ کا گھرانہ بہت مفلوک الحال تھا اس کے والدین معاشرے کے حاشیائی طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے ، اس کے بچپن میں ہی اس کے والد کا انتقال ہوگیا پھر اس کی والدہ نے تمام تر عسرتوں کو جھیلتے ہوئے اس کی پرورش کی ، گھر کی خستہ حالی کی وجہ سے جاحظ کو بچپن ہی سے تلاش معاش میں لگنا پڑا چنانچہ وہ بصرہ میں نہر سیحان کے کنارے بچپن میں روٹیاں اور مچھلیاں بیچتا تھا۔
جاحظ اتنا بدصورت تھاکہ اس کو خود اپنی بدصورتی کا احساس تھا ، چنانچہ اس کا اپنا بیان ہے کہ:متوکل نے اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس لیے الگ کردیا کہ وہ بد شکل تھا اور اس کے بچے اسے دیکھ کر ڈر جاتے ،اسی طرح ایک مشہور واقعہ اورہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عورت شیطان کی تصویر کی پینٹنگ کروانا چاہتی تھی، جب پینٹر نے نمونہ طلب کیا تو اس عورت نے جاحظ کو لے جاکر اس پینٹر کے سامنے حاضر کردیا ۔
مگر اس قدر غربت ومفلسی اور بد صورتی کے باوجود جاحظ اپنے عزم وحوصلہ اور انتھک محنت وکوشش اور اللہ کی رحمت سے عربی زبان و ادب کا ایسا درخشندہ ستارہ بننے میں کامیاب ہوگیا جس کی روشنی رہتی دنیا تک عالم ادب کو منور کرتی رہے گی ،اسے عباسی دور کے نمائندہ نثر نگاروں میںشمار کیا جاتا ہے،اس نے اس دور کی عربی نثر میں علمیت ،واقعیت پسندی اور حقیقت بینی کے اوصاف کا اضافہ کیا ، اس کے نثر میں سادگی اور بے ساختگی ہے ، واقعات کو بیان کرنے کا اس کا انداز بڑا دلنشیں ہے، اس سلسلے میں اس کی کتاب کتاب البخلاء خاص طور پر قابل ذکر ہے۔