• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ حرۃ سبائی سازش یا یزید کا سیاہ کارنامہ؟

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم بھائیوں السلام علیکم،

یزید کے واقعہ حرہ کے سیاہ کارنامے کو چھپانے کے لئے کچھ لوگوں نے یہ بار سبائی سازش کے سر ڈال دیا ہے کہ سبائیوں نے یزید کو بدنام کرنے کے لئے پہلے ایام حرہ میں قتل غارت کروائی اور پھر اس کو یزید کے سر ڈال دیا اور اس کے لئے تاریخ کی کتب سے ایک آدھ روایت سے یہ ثابت کیا جاتا ہے جبکہ اگر ہم کتب احادیث میں موجود احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا مطالعہ کریں تو واقع حرہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ یزید کا سیاہ کارنامہ ہے جو اس نے اپنی حکومت بچانے کے لئے کیا تھا اور جس کی پیشنگوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے فرمادی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اثار اور کتب احادیث کے شرح کرنے والے شارح نے اسی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ اس کے لئے جلد ہی ہم خالص کتب احادیث اور آئمہ کے اقوال پیش کریں گے جو یزید کے اس کالے کرتوت پر گواہ ہیں انشاء اللہ
محترم بھائیوں،


واقعہ حرہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیعت کے واقعات کو سامنے رکھ کر دیکھنا ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مدینہ سے ذیادتی کی اخبار غیبی تو مل چکی تھی اور واقعہ حرہ کے حوالے سے بھی ایک حدیث سے ملتا ہے جس کی شرح میں تمام شارحین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس سے واقعہ حرہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اب ان احادیث اور واقعات کو ترتیب وار سمجھتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہو گا کہ واقعہ حرہ ہونے کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی تھی اور اہل مدینہ کو پہلے سے ہی اس کا اندیشہ تھا جس کا وہ اظہار بھی کر چکے تھے چنانچہ اس ضمن میں سب سے پہلے ان احادیث کی جانت بڑھتے ہیں جس میں اہل مدینہ کی حق تلفی اور ان کے حقوق غصب کرنے کے بارے میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔

اہل مدینہ کی حق تلفی

صحیح بخاری کتاب الفضائل میں اہل مدینہ کی فضلیت میں جو روایات نقل ہوئی ہے ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اخبار غیبی سے بتا دیا گیا تھا کہ انصار کی حقوق تلفی ہو گی۔
(1)
حدثنا حجاج بن منهال حدثنا شعبة قال أخبرني عدي بن ثابت قال سمعت البراء رضي الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم أو قال قال النبي صلى الله عليه وسلم "الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يبغضهم إلا منافق فمن أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله"(صحیح بخاری کتاب الفضائل باب حب الانصار رقم3783)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت صرف مومن ہی رکھے گا اور انصار سے بغض صرف منافق ہی رکھے گا پس جو ان محبت رکھے گا اللہ اس سے محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا۔
اس حدیث سے ایک بات واضح ہے کہ انصار سے بغض منافقت کی علامت ہے۔
(2)
2376- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: "أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَقَالَتْ الأَنْصَارُ: حَتَّى تُقْطِعَ لِإِخْوَانِنَا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِثْلَ الَّذِي تُقْطِعُ لَنَا قَالَ: سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي"(صحیح بخاری رقم 2376)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعات اعراضی میں سے کچھ انصار کو دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کی کہ ہم جب اس میں سے لیں گے جب ہمارے مھاجرین بھائیوں کو بھی اس میں سے عطا کیا جاتے گا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم پر لوگوں کو ترجیح دی جائے گی تو اس وقت تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو۔
اس حدیث سے پتا چلا کہ انصارسے قریش(بنو امیہ) کے دور میں نا اںصافی کی گئی تھی چنانچہ ابن حجر فرماتے ہیں۔
، وأشار صلى الله عليه وسلم بذلك إلى ما وقع من استئثار الملوك من قريش عن الأنصار بالأموال والتفضيل في العطاء وغير ذلك(فتح الباری رقم 2376)
اس میں اشارہ ہے کہ جب حکومت بنو امیہ کے پاس چلی جانی ہے تو اںصار کو مال واسباب میں اور حق تلفی کی جائے گی۔
اور دوسری روایت یوں ہے۔

3800-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِيلِ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُتَعَطِّفًا بِهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ وَعَلَيْهِ عِصَابَةٌ دَسْمَاءُ حَتَّى جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ "أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّ النَّاسَ يَكْثُرُونَ وَتَقِلُّ الأَنْصَارُ حَتَّى يَكُونُوا كَالْمِلْحِ فِي الطَّعَامِ فَمَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ أَمْرًا يَضُرُّ فِيهِ أَحَدًا أَوْ يَنْفَعُهُ فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ(صحیح بخاری رقم 3800)
چنانچہ ابن حجر اس کے تحت فرماتے ہیں۔
قوله: "فمن ولي منكم أمرا يضر فيه أحدا أو ينفعه"قيل: فيه إشارة إلى أن الخلافة لا تكون في الأنصار.قلت: وليس صريحا في ذلك إذ لا يمتنع التوصية على تقدير أن يقع الجور، ولا التوصية للمتبوع سواء كان منهم أو من غيرهم.
قول: جب تم میں سے کوئی ولی بنے اور وہ نفع اور نقصان کا اختیار رکھتا ہو" کہا گیا ہے کہ اس میں اشارہ ہے کہ خلافت اںصار میں نہیں ہو گی میں کہتا ہوں۔ اس میں صراحت سے کوئی ذکر نہیں ہےجب تک کے اس وصیت کو چھوڑا نہیں گیا پھر ظلم ہوا کہ اس وصیت پر عمل نہیں کیا چاہے کوئی ان میں سے آیا یا ان کے سوا کوئی اور بھی آیا
اس میں صاف موجود ہے کہ اس حدیث میں جو وصیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اس پر بعد میں یعنی خلفاء راشدین کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا اور اںصار کی حق تلفی کی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا تھا کہ صرف یہی نہیں ہو گا انصار کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی ہو گی اور یہی وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئیاں کی تھی اور ان لوگوں کو منافق بتایا جو اہل مدینہ سے بغض رکھے یا اہل مدینہ پرظلم و زیادتی کرے اس کے لئے یہ حدیث بیان کیا تاکہ لوگ انصار کی اہمیت اور فضیلت کو پہچانے اور اللہ کا خوف کریں اور ان کا قتل عام بھی ہو گا چنانچہ حدیث موجود ہے کہ
ان أخاف أهل المدينة فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين "
اس میں اہل مدینہ کو صرف خوف زدہ کرنے پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کی گئی ہے۔ تو جو وہاں قتل عام کرے اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا اس کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ واقعہ حرہ سے یزید کا پہلو بچانے کے لئے بعض یہ کہتے ہیں کہ اس نے وہ اہل مدینہ کے سازشی عںاصر کے ساتھ تھا اہل مدینہ کے ساتھ یزید نے کچھ نہیں کیا یا یہ اہل مدینہ کے ان لوگوں کے ساتھ تھا جو ان سازشی عناصر کے ساتھ مل گئے تھے اور اس حوالے سے ایک آدھ روایت تاریخ کے رطب و یابس سے نکال کا دیکھا دیتے ہیں جبکہ اس بارے میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے صحابہ کرام کے اثر موجود ہیں کہ اہل مدینہ کے ساتھ یہ ظلم کیا گیا ہے چنانچہ ہم ترتیب وار اس کو بیان کرتے ہیں

واقعہ حرہ حدیث کی روشنی میں

سنن ابن ماجہ میں ایک طویل حدیث میں یہ الفاظ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا " كَيْفَ أَنْتَ ، وَقَتْلاً يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ ؟ قُلْتُ : مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ ، قَالَ : الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، أَفَلاَ آخُذُ بِسَيْفِي ، فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ ، قَالَ : شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا ، وَلَكِنِ ادْخُلْ بَيْتَكَ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي ؟ قَالَ : إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ ، فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ ، فَيَبُوءَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ ، فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ.(سنن ابن ماجہ رقم 3958)
ترجمہ: (ابو ذر رضی اللہ عنہ) تو کیا کرے گا جب لوگوں میں قتل غارت عام ہوگی یہاں تک کہ حجارۃ الزیت کا مقام خون میں ڈوب جائے گا میں نے کہا جو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے پسند کریں آپ نے فرمایا تو جس قبیلہ سے ہے اسی میں رھنا میں نے کہا کیوں نہ میں تلوار لے کر ان کو قتل کروں آپ نے فرمایا تب تو لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا بلکہ تو اپنے گھر میں داخل ہوجانا میں نے کہا اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں آپ نے فرمایا اگر تجھے تلوار کی چمک خوف زدہ کرے تو اپنی چادر اپنے اوپر ڈال لینا تب وہ تیرا اور اپنا گناہ لے جائے گا اور جہنمی ہو جائے گا۔
بعض لوگ اس حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ اس میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعہ حرہ کی طرف اشارہ ہے ان سے صرف ایک سوال ہے تاریخ کی کتابوں پر اعتماد کرنے والوں واقعہ حرہ کے علاوہ کوئی اور ایسا واقعہ پیش کر دو جس میں اہل مدینہ سے اتنی خون ریزی کی گئی ہو۔ کوئی بھی نہیں ہے دوسری دلیل یہ ہے کو شرحین میں سے جس جس نے ابن ماجہ کی شرح کی ہے تقریبا سب نے اس سے واقع حرہ مراد لیا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ"

قَوْله حَتَّى تغرق حِجَارَة الزَّيْت بِالدَّمِ حِجَارَة الزَّيْت اسْم مَوضِع بِالْمَدِينَةِ وَلَعَلَّ هَذَا إِشَارَة الى وقْعَة الْحرَّة حِين نقض أهل الْمَدِينَة بيعَة يزِيد وَبعث عسكرا عَظِيما فَلَمَّا توجه عسكره الى مَكَّة مَاتَ هُوَ بِالشَّام
اس میں واقعہ حرہ کی جانت اشارہ ہے جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تھی اس نے عظیم فوج مدینہ پر چڑھائی کے لئے بیھجی تھی پھر مکہ کی جانب روانہ ہوئے تو یزید مر گیا۔(مصباح الزجاجة تحت رقم 3958)

شرح محمد فؤاد عبد الباقي]
(حجارة الزيت) موضع بالمدينة في الحرة سمى بها لسواد الحجارة. كأنها طلبت بالزيت أي الدم يعلو حجارة الزيت ويسترها لكثرة القتلى. وهذا إشارة إلى وقعة الحرة التي كانت زمن يزيد۔(كفاية الحاجة في شرح سنن ابن ماجه
تحت رقم 3958)(حاشية السندي على سنن ابن ماجه)
اس میں واقعہ حرہ کی جانب اشارہ ہے جو یزید کے زمانے میں ہوا ہے۔
ان تصرحات سے واضح ہے کہ اس میں واقع حرہ کی جانب اشارہ ہے۔
ان تمام حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اخبار الغیبی سے بتا دیا گیا تھا کہ اسلام کی نصرت کرنے والا اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والوں کےساتھ کیا سلوک ہو گا اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں وعید سنائی کہ وہ منافق ہوں گے جو اہل مدینہ سے بغض رکھیں گے اور ان پر سب کی لعنت ہوگی جو اہل مدینہ کے خلاف ناجائز اقدام اٹھائے گا اور اس کا اندیشہ اہل مدینہ کو بھی تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو اب مسلمان ہو گئے ہیں ان کی آباؤ اجداد سے انہوں نے جنگیں لڑی ہے اور ان کو جنگوں میں قتل کیا ہے اس لئے ایسا نہ ہو کہ جب ان کی اولادوں کے ہاتھ میں حکومت آجائے تو وہ اس کا بدلہ ہماری اولادوں سے نہ لیں اور اہل مدینہ اور کا خدشہ پورا ہوا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ اہل مدینہ کے ساتھ برا سلوک ہو گا چنانچہ ابن حجر نے فتح الباری اہل مدینہ کے اس خدشہ کو نقل کیا ہے اور وہ حدیث بنو ثقیفہ کے تحت نقل کرتے ہیں"
وَوَقع عِنْد بن سَعْدٍ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ مِنْ مُرْسَلِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ اجْتَمَعَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَأَتَاهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَبُو عُبَيْدَةَ فَقَامَ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ وَكَانَ بَدْرِيًّا فَقَالَ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَإِنَّا وَاللَّهِ مَا نَنْفَسُ عَلَيْكُمْ هَذَا الْأَمْرَ وَلَكِنَّا نَخَافُ أَنْ يَلِيَهَا أَقْوَامٌ قَتَلْنَا آبَاءَهُمْ وَإِخْوَتَهُمْ فَقَالَ عُمَرُ إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَمُتْ إِنِ اسْتَطَعْتَ(فتح الباری تحت رقم 6830)

اس میں صاف موجود ہے کہ اہل مدینہ نے یہ کہا کہ ہم میں سے ایک خلیفہ ہو اور تم میں سے ایک خلیفہ ہو(بعض لوگ اس کی غلط تعبیر کرتےہیں کہ اہل مدینہ نے ایک وقت میں دو خلیفہ رکھنے کی بات کی تھی حالانکہ اہل مدینہ نے انتہائی مناسب بات کی تھی کہ باری باری خلیفہ مقرر کیا جائے گا ایک بار قریش کی طرف سے اور اگلی بار اہل مدینہ کا خلیفہ ہو گا تاکہ اعتدال برقرار رہے) ہمیں اس خلافت کی کوئی چاہت نہیں ہے مگر ہمیں یہ خوف ہے کہ یہ وہ قوم ہے جس کے باپ اور بھائی ہم نے قتل کیے ہیں۔
اہل مدینہ کی اس تصریح سے بات واضح ہوئی کہ ان کو بھی اس بات کا خوف تھا جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشنگوئی کی تھی اب بعض حضرات جو یذید کو بچانے کے لئے کمر کسے ہوئے ہیں اس پر ضرور یہ اعتراض کریں گے کہ یہ روایت چوں کہ مرسل ہے اس لئے قابل حجت نہیں ہے
مگر اس کی تائید مصنف عبدالرزاق کی روایت سے ہوتی ہے چنانچہ اس کے الفاط اس سے ملتے جلتے ہی ہیں۔
اس روایت کو امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں روایت کیا ہے اور اس روایت کے یہ الفاظ قابل غور ہیں۔

"
قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، وَإِلَّا أَجْلَبْنَا الْحَرْبَ فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ جَذَعًا(مصنف عبدالرزاق رقم 9758)
اس روایت کے یہ الفاظ " الْحَرْبَ فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ" ہمارے اور تمہارے درمیان جنگیں ہوئی ہیں ان الفاظ کی تائید کرتے ہیں جن میں یہ موجود ہے کہ ہم نے ان کے اباؤاجداد اور بھائیوں کو قتل کیا ہے ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل مدینہ کو یہ خدشہ تھا کہ اگر خلافت کبھی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی تو پھر اہل مدینہ کے خلاف ناحق کاروائی کی جاسکتی ہے اور بعد میں دنیا نے یہی دیکھا اور تاریخ کے اوراق نے اس کو محفوظ کیا کہ یزید نے اہل مدینہ پر صرف اپنی حکومت کو بچانے کے لئے چڑھائی کروائی ہے اس کی غاصبانہ حکومت اور خلافت میں یہی فرق ہے کہ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے خلیفہ برحق ہونے کے باوجود مدینہ الرسول کی حرمت پامال نہیں ہونے دی اپنی جان دینا پسند کر لی مگر اس کے مقابلہ میں یزید نے اپنی غاصبانہ اور دنیاوی حکومت بچانے کے لیے مدینہ الرسول کی حرمت پامال کر دی یہ واضح فرق خلافت اور غاصبانہ ملوکیت میں موجود ہے۔

یزید کی حکومت غاصبانہ تھی

اب بعض لوگ یزید کی حکومت کو خلافت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی اس کاروائی کو جائز سمجھتے ہوئے اس کا موازنہ علی رضی اللہ عنہ کی اہل شام کے خلاف کاروائی سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر علی رضی اللہ عنہ غلطی پر تھے(نعوذباللہ) تو پھر مانا جاسکتا ہے کہ یزید سے بھی غلطی ہوئی مگر اگر علی رضی اللہ عنہ کا اقدام درست تھا تو پھر یزید کا اقدام غلط کیسے بلکہ یزید نے تو علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کی اور خلیفہ کی پیروی کرنے کا حکم سنت سے ثابت ہے۔
اس پر ہم یہی کہتے ہے کہ ان دونوں کاروایوں میں انتہائی واضح فرق ہے علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے اور یزید غاصب تھا اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی نکاح کرتا ہے اس کا فعل حلال اور اللہ کی نظر میں پاکیزہ اور پسندیدہ ہے اور ایک زانی ہے جس پر اللہ غضب ہوتا ہے بس یہی فرق ہے علی رضی اللہ عنہ اور یزید کے اقدامات میں یزید غاصب تھااور علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے اور علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں ہر ایک پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر ثبت کی ہے کہ اس میں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور اس پر اہل علم کا اجماع ہے چونکہ یہ اس کا موقعہ نہیں وگرنہ کسی اس کو بھی واضح کرتا اگر زندگی رہی تو اس کا تھریڈ قائم کروں گا انشاء اللہ تاکہ یہ مسئلہ بھی واضح ہو گے علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور باقی خطا پر تھے۔

یزید کے غاصب ہونے اور اس کے باغی ہونے پر چند آئمہ کے اقوال پیش کرتا ہوں چنانچہ ابن حزم فرماتے ہیں۔

وَمِنْ قَامَ لِعَرَضِ دُنْيَا فَقَطْ، كَمَا فَعَلَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي الْقِيَامِ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَكَمَا فَعَلَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي الْقِيَامِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَمَنْ قَامَ أَيْضًا عَنْ مَرْوَانَ، فَهَؤُلَاءِ لَا يُعْذَرُونَ، لِأَنَّهُمْ لَا تَأْوِيلَ لَهُمْ أَصْلًا، وَهُوَ بَغْيٌ مُجَرَّدٌ.(المحلی بالاثار ابن حزم جلد 11 ص335 باب قتال اہل بغی)

"جو دنیاوی غرض کے لیے کھڑا ہو(حکومت حاصل کرنے) جیسا یزید بن معاویہ، مروان بن حکم اور عبدالملک بن مروان ابن الزبیر کے خلاف اٹھے اور جیسے مروان بن محمد یزید بن الولید کے خلاف کھڑے ہوئے ان سب کے لئے نہ کوئی عذر تھا نہ تاویل یہ سب واضح باغی تھے۔
اس کے بعد باغی کی بھی شرعی اصطلاح کو واضح کیا یہاں تو جو بھی بس حکومت کے خلاف کھڑا ہو وہ باغی ہوجاتا ہے مگر شرعی باغی کون ہیں یہ ابن حزم نے واضح کیا ہے چنانچہ رقمطراز ہیں
وَأَمَّا مَنْ دَعَا إلَى أَمْرٍ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٍ عَنْ مُنْكَرٍ، وَإِظْهَارِ الْقُرْآنِ، وَالسُّنَنِ، وَالْحُكْمِ بِالْعَدْلِ: فَلَيْسَ بَاغِيًا، بَلْ الْبَاغِي مَنْ خَالَفَهُ(حوالہ ایضا)

"پس جو امر بن معروف یا نھی عن منکر کی طرف بلائے اور قران و سنت اور عدل کے لئے کھڑا ہو وہ ہرگز باغی نہیں بلکہ جو اس کی مخالفت کرے باغی وہ ہوتا ہے۔
ابن حزم نے یزید بن معاویہ کو باغی قرار دیا ہے جیسا نقل ہوا ہےاور اسی طرح ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اہل مدینہ کو حق پر بتایا ہے

"وَهُمْ عَلَى قِسْمَيْنِ أَيْضًا قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(فتح الباری تحت رقم 6930)
"ان کی دو اقسام ہے پہلی قسم وہ ہیں جو دین کے حمیت اور غیرت کی وجہ سے میدان میں آتے ہیں کہ ظالم حاکم وقت نے دین اور سنت پر علم چھوڑ دیا ہے اوریہ سب اہل حق ہوتے ہیں اور ان میں جیسے حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور اہل مدینہ حرہ کے دن اور وہ قاری جو حجاج کے خلاف اٹھے تھے۔
ابن حجر کی صراحت سے واضح ہے کہ اہل مدینہ حق پر تھے اور یزید نے غاصبانہ حکومت پر قبضہ کیا تھا حسین رضی اللہ کی شہادت کے بعد ان میں ایک روح پھونک دی اور وہ سب اس ظلم اور غاصب حکومت کے خلاف کھڑے ہو گئے جیسا علامہ اقبال نے بھی لکھا ہے۔
رمز قرآن حسین اموختم
ہا آتش شعلہ با اندوختم
قرآن کے رموز ہیں حسین رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوئے اور ان کی جلائی آگ(کربلا کی شہادت) سے ہم نے شعلے حاصل کیے ہیں۔
تفسیر المنار کے مولف محمد رشید رضا نے بھی یزید کی حکومت کو غاصبانہ قرار دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں۔
"
اسْتِخْلَاف مُعَاوِيَة وَلَده يزِيد الْفَاسِق الْفَاجِر بالرغم من أنوف الْمُسلمين، وَبَين عهد الصّديق الْأَكْبَر واستخلافه للْإِمَام الْعَادِل عمر بن الْخطاب ذِي المناقب الْعَظِيمَة بعد مُشَاورَة أهل الْحل وَالْعقد فِيهِ وإقناعهم بِهِ، وَالْعلم بتلقيهم لَهُ بِالْقبُولِ"(الخلافہ جلد 1 ص 51)
محمد رشید رضا کی عبارت کا مفہوم یہی ہے کہ یزید فاسق و فاجر کی حکومت کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگرچہ عدم امتیازی سلوک کرکے نہیں کیا مگر اس میں مسلمانون سے کے مشورہ سے تجاوز کیا ہے اوراس کا موازنہ اس سے کرنا ٹھیک نہیں ہے جیساابو بکر رضی اللہ عنہ نے جو عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم مرتبت اور فضیلت والی شخصیت اہل حل و عقد کو اس پر قائل کیا اور اہل علم نے اس کو قبول کیا۔
اور آخر میںامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کردوں کہ انہوں نے بھی یزید کی حکومت کو غاصبانہ ہی قرار دیا ہے(منھاج السنہ)
ان تمام حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ واقعہ حرہ یزید کا سیاہ کارنامہ تھا یہ نہ کوئی سبائی سازش تھی اور نہ کچھ اور یہ ایک غاصب کا اپنی حکومت کو بچانے کا اقدام تھا جس کی وجہ سے بےشمار صالحین اور اشراف اور صاحب فضیلت لوگ شہید ہوئے کہ ایک بلاتفاق فاسق و فاجر اپنے حکومت بچانے کے لئے مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فساد مچاتا ہے اور آج کے لوگ سلف و صالحین اور اکابرین کے فیصلہ سے ہٹ کر اس کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے اس قبیح اقدام کو جائز قرار دیتے ہیں حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے اس اجماعی فاسق و فاجر کو نیک اور صالح ثابت کیا جائے اور اس کی غاصبانہ حکومت کو شرعی اسلامی خلافت ثابت کیا جائے جوایک ایسا جھوٹ ہے جس کے پیر نہیں ہیں۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 
Top