• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ معراج ایک انوکھا شرف امتیاز

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بسم اللہ الرحمن الرحیم

واقعہ معراج ایک ایسا شرف امتیاز
جو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی ؑ کو عطا نہیں ہوا

نسل بنی آدم علیہ السلام کی اصلاح کے لئے مالک کن فیکون نے ہزاروں کی تعداد میں انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔اس اہم فریضہ کی ادائیگی میںان پاک نفوس علیہ السلام نے جو سختیاں ،پریشانیاں اور مصائب برداشت کیں ،اس پر بشر تو کیا ملائکہ بھی چلّا اٹھے ،اللہ تعالیٰ نے اس امتحان اور آزما ئش کی گھڑی میں نہ صرف یہ کہ ان پا ک نفو س کی حفا ظت فر ما ئی اور ان کو ثا بت قد م رکھا بلکہ مزیداس کے صلہ میں اپنے یہا ں اعلیٰ وا ر فع مقا م عطا فر ما یا اور دنیا میں بھی ان کو مختلف انعا ما ت ومعجزا ت کے ذریعہ سر خ روکیا اور سر فر ا زی عطا فر ما ئی۔لیکن فخر کا ئنا ت، مصلح کل سر ور کو نین اورسردار انبیا ء و رسل احمد مجتبیٰ محمدمصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ اپنی محبت و انسیت کا اظہا ر ہی کچھ عجیب اور انو کھے اور نر الے اندا ز میں فر ما یا ۔
ان ہی میں سے ایک محیر العقول ،جن اور انس کی عقلو ں سے ورا ء الوراء واقعہ معراج ہے،آج کی سا ئنس بھی اس کی تصدیق کرنے پر مجبو ر ہے ۔اور اسی وا قعہ کی روشنی میں آج کے سا ئنسدا نو ں نے چا ند کی تسخیر کی اور مزید نئے نئے تجربات جاری ہیں۔
خود رب کا ئنا ت نے اس وا قعہ کو اپنی قدرت کا ملہ کے چند عجا ئبا ت میں سے ایک اعجو بہ قرا ر دیا ہے ۔چنا نچہ قر آن شر یف میں بیا ن فر ما یا ـ’’سبحان الذی اسرٰی بعبدہ الیٰ اٰیۃ انہ ھوا لسمیع ا لبصیر‘‘
تر جمہ:- پا ک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم)کو راتو ں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔جس کے گر دو پیش کو ہم نے بابرکت بنا رکھا ہے تا کہ ہم اس کو اپنی قدرت کے نشا نا ت دکھا ئیں بیشک وہ سننے وا لا اور دیکھنے والا ہے ۔
تشریح:- لفظ’’ سبحا ن‘‘ خود اس طرف اشا رہ کر رہا ہے کہ دنیا وی نقطہ نظر سے یہ وا قعہ بڑا عجیب و غر یب ہے ،’’اسرائ‘‘ کا لفظ رات کے لئے استعما ل ہو تا ہے لیکن اس کے سا تھ’’ لیلاً‘‘ کا ذکر کر نا وہ بھی نکرہ کے سا تھ اس طرف اشا رہ کر رہا ہے کہ را ت کے تھوڑے وقت میں ایک طویل ترین مسا فت طے کی گئی ،اور ات کے وقت کو اس لئے منتخب کیا گیا کہ یہ وقت پر سکو ن اور خلو ت کا ہو تا ہے۔ اور ایسے وقت میں کسی کو دعوت دینازیادہ اختصا ص ا ور اعزا ز کی دلیل ہے ۔اور اس میں عر بوں کے مزا ج کی رعا یت بھی پو شیدہ ہے اس و جہ سے کہ عرب رات کو ہی سفر کرنا زیادہ پسند کرتے تھے اوران کاآج بھی یہی دستور ہے۔ اور آج کی ما دہ پرست دنیا اور سربراہان مملکت بھی اہم امور اور اسفار کیلئے رات کے وقت کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اور اہل ذوق (اللہ وا لے، صوفیہ حضرات )اس حکمت کو بخو بی سمجھتے ہیں ،اور ’’بعبد ہ‘‘ سے اس طرف اشا رہ ہے کہ یہ سفرمعراج ،جسما نی ہوا نہ کہ رو حا نی( اور آج کی سا ئنسی ترقی نے اس کی مزید تصدیق کر دی ہے کہ انسان لمحو ں میں آسما نی سفر کر سکتا ہے فتد بروا )اور بعبدہ فرما کر اس با ت کی بھی نفی کر دی کہ کہیں کو ئی جا ہل اس عجیب اور غر یب وا قعہ کی و جہ سے نعو ذبا اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبود نہ سمجھ بیٹھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’عبدہ ‘‘ یعنی اپنا محبو ب بند ہ فر ما یا ۔اور ’’لنریہ من اٰیا تنا ‘‘سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عجیب اور غر یب واقعا ت دکھا ئے گئے اور اپنی قدرت عظیمہ کا مشا ہدہ کرا یا گیا۔​
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیت جسمانی کرائی گئی نہ کہ روحانی،کیونکہ اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے یہ فرماتے کہ میں نے ایک خواب دیکھا تو اس میں کسی کو تعجب نہ ہوتا لوگوں کو استعجاب صرف اسی وجہ سے ہوا کہ جسمانی طور پر ایسا ممکن نہیں ۔اسی وجہ اس واقعہ کو عجیب وغریب کہا گیا ۔بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی مزید وضاحت اور شہادت دینی پڑی جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا۔ اور انہ ھو السمیع البصیرکہہ کر یہ فرما نا مقصود ہے کہ اللہ تعا لیٰ ہر چیز پر قا در مطلق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخا لفین ومنکرین رسا لت کے لئے تنبیہ وآگا ہی ہے کہ ہم نے جوکچھ اپنے پیا رے محبوب کو عطا کیا ہے یا ان کے ذریعہ جو پیغام لو گوں تک پہنچایا جارہا ہے وہ با لکل بر حق ہے ۔اوریہ بھی بتانا مقصود ہے کہ ہم نے جو عجائبات کی رویت اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائی ہے اس سے وہ ہمارے برابر نہیں ہوگئے، یا ان عجائبات کی انتہا یہیں تک نہیں، ہم اس سے بھی زیادہ قدرت والے ہیں اور ہم بالذات سمیع وبصیر ہیں۔
معراجِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعیینِ وقت (تاریخ، ماہ، وسال) میں بہت ہی اختلاف ہے؛ لیکن اس سے نفسِ واقعہ پر کوئی اثر واقع نہیں ہوتا، کیونکہ نصِ قطعی اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے۔ اور اس سے کسی شرعی حکم کا اثبات بھی مقصود نہیں۔ امام زہری اور حربیؒ کا بیان ہے کہ یہ واقعہ ۲۷؍ربیع الثانی ہجرت سے آٹھ برس قبل کا ہے (بشریٰ:۲۹۱)۔ (لیکن صاحبِ فتح الباری نے انہی امام کا ایک قول ہجرت سے پانچ سال قبل کا بیان کیا ہے) بعض ائمہ نے بعد والے قول کو ترجیح دی ہے لیکن زیادہ مشہور قول سن ۱۰؍نبوی یعنی ہجرت سے تین سال قبل کا ہے۔ اور بعضوںنے بارہواں سال بھی ذکر کیا ہے۔ اسی طرح سے مہینوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ ربیع الاوّل، ربیع الثانی، رجب، رمضان، شوال کی روایتیں ہیں؛ لیکن معتبر اور راجح قول ۲۷؍ربیع الاوّل کا ہے۔ بعض متاخرین علمائے کرام نے ۲۷؍رجب المرجب کو اختیار کیا ہے؛ لیکن پہلا قول زیادہ اقرب الیٰ الصواب ہے۔ اس خاص رات کی تعیین میں بھی اختلاف ہے، بعض نے کہاجمعہ کی، بعض نے ہفتہ کی اورکسی نے پیر کی رات کو اختیار کیا ہے لیکن جمعہ والا قول زیادہ اقرب الیٰ الصواب ہے۔
ان تمام اقوال کی روشنی میں موجودہ اختلافاتِ کثیرہ سے قطعیت کسی ایک طرف نہیں؛ کیونکہ ہر ایک کے پاس دلائل ہیں، لیکن نفسِ واقعہ سے کسی کو اختلاف نہیں۔
مختصر یہ کہ ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم حطیمِ کعبہ میںآرام فرما تھے اور آپؐ بین الیقظہ والنوم (یعنی غنودگی) کی حالت میں تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام عالمِ ارواح سے ایک سواری جس کا نام براق تھا(جو قد میں گدھے اور خچر کے درمیان تھا، اور اس کے دو پر تھے اور اس کی برق رفتاری بھی عجیب تھی اور اس کی کیفیت بھی نہایت چوکنّا اور مستعد جانور کی سی تھی)لیکر تشریف لائے۔ اوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا اور آپ کے دل اور سینے کو زمزم سے دھویا گیا اور پھر اس میں علم وحکمت کی اشیاء رکھی گئیں، بعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس براق پر سوار کرکے بیت المقدس پہنچایا گیا۔ راستے میں عالمِ برزخ کے بہت سے واقعات کا مشاہدہ کرایا گیا۔ بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہ السلام جمع تھے۔ اذان واقامت کے بعد ان تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے آپؐ کی اقتداء میں نماز ادا کی، پھر تمام انبیاء کرام نے الگ الگ خطبہ پڑھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد اپنا تعارف کرایا۔ اور اپنے کمالات بیان فرمائے۔ سب سے اخیر میں حضور سردارِ انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسا بلیغ اور باوقعت خطبہ پڑھا کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام عش عش کراُٹھے اور سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام وکمالات کو تسلیم کیا، بعدہُ آسمانوںکی طرف عروج ہوا، وہاں ہر آسمان پر علیحدہ علیحدہ طور پر حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیم آدم علیہالسلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، صالح علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام وابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سب نے آپ کا استقبال واکرام کیا، وہاں سے آپؐ سدرۃ المنتہیٰ تشریف لے گئے جس کی کیفیت ملائک وجن وانس کے اِدراک سے باہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں کی سیر کرائی گئی، جنت دوزخ کامشاہدہ کرایا گیا، اس کے بعد آپؐ کو ’’مقامِ قرب‘‘ سے نوازا کیا جس کو ’’فَکَانَ قَابَ قَوسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی‘‘ فرمایا گیا اور حق سبحانہ وتعالیٰ سے بے حجابانہ کلام ہوا۔ رُخصتی کے وقت من جملہ اور تحفوں کے ایک تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپﷺ کی اُمت کے لیے نمازِ پنج گانہ کا تحفہ دیا گیا وغیرہ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
صبح کو بعد نمازِ فجر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم شریف میں بیٹھ کر لوگوں سے اس واقعے کا اظہار فرمایا جس کو سن کر لوگوں کو تعجب ہوا اور بعض نومسلم جو ابھی ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے، ابھی اسلام ان کے دلوں میں پوری طرح سے راسخ یا جاںگزیں نہیں ہوا تھا مرتد ہوگئے۔ اسی واقعے سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراجِ جسمانی ہوئی، اگر خواب ہوتا تو یہ لوگ کیوں مرتد ہوتے اور کیوں آپ ﷺ کی تکذیب کرتے؟ فَتَدبَّرُوا! اس واقعہ کو سن کر جملہ کفار اور بالخصوص ابوجہل نے آپؐ کی سخت تضحیک وتکذیب کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اس واقعے کو سنا تو انھوںنے فوراً اس کی تصدیق کی اور اسی دن سے ’’صدیق‘‘ ان کا لقب ہوا۔ کفار اور منافقین نے آپؐ سے دلائل طلب کیے۔ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرماتے سنا کہ’’ جب قریش نے مجھے جھٹلایاتومیں حطیم میں کھڑا ہوگیا اور بیت المقدس کو میرے خیال میں ڈال دیا گیا اور میں اس کو دیکھتا جاتا تھا اور لوگوں سے اس کی نشانیاں بیان کرنے لگا‘‘۔
بعض لوگوں نے کہا کہ بیت المقدس کے کتنے دروازے ہیں؟ میں نے اس کے دروازے شمار نہ کیے تھے مگر میں اس کی طرف دیکھتا تھا اور ایک ایک کرکے دروازے شمار کراجاتا تھا۔ میں نے ان لوگوں کے قافلے کو جو راستے میں تھے ان کو اور ان کی علامات کو بھی بیان کیا، چنانچہ لوگوں نے اس کو بھی ان لوگوں سے اسی طرح پایا جس طرح میں نے بیان کیا تھا۔
اوراس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حطیم میں اس حالت میں پایا کہ قریش مجھ سے رات کے چلنے کے راستے کو دریافت کرتے تھے،انھوں نے مجھ سے بیت المقدس کی چند اشیاء دریافت کیں جن کو میں اچھی طرح یاد نہیں رکھ پایا تھا۔ مجھے ایسی سخت بے چینی ہوئی کہ اس سے پہلے میں کبھی اتنا بے چین نہیں ہواتھا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میری طرف بلند کردیا کہ میں اس کو دیکھ لوں۔ وہ لوگ مجھ سے دریافت کرتے تھے اور میں خبر دیتا تھا۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کیوں لے جایا گیا؟ اس میں کیا حکمت پوشیدہ تھی؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جانے میں اشارہ اس طرف ہے کہ سرزمینِ بیت المقدس اوراس کے اِردگرد ہزاروں کی تعداد میں انبیاء ورُسل مدفون ہیں اور یہ خطۂ پاک ان کے فیوض وبرکات کا سرچشمہ رہاہے، اس لیے ایک پاک جگہ سے دوسری پاک جگہ لے جاکر یہ سمجھانا مقصود ہے کہ ان تمام انبیاء ورُسل کے فیوض وبرکات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل ہوگئے ہیں اور اب ان تمام فیوض وبرکات کا سرچشمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور یہود ونصاریٰ کو یہ تعلیم دینا بھی مقصود ہے کہ اب ان تمام انوار وبرکات کی حامل ایک اُمت ہوگی اور وہ ہے ’’امت ِ محمدیہؐ‘‘۔ اسی لیے تمام انبیاء کرام علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔
الغرض معراج کے تمام واقعات چاہے وہ دو دفعہ کے ہوں یا ایک، سب سے یہی تعلیم ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے سردار ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ دین کی تکمیل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خاتم الانبیاء ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہر ملک وقوم وساری کائنات کے لیے تاقیامت علیم وبشیر ہیں۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر اتمامِ نعمت وتکمیلِ دین ہے۔ اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے اعلیٰ وافضل مقام ’’مقامِ قرب‘‘ عطا کیا گیا۔
اور بقول امیر مینائی:
صفحۂ دہر میں صورت گر قدرت نے امیرؔ
ان کی تصویر وہ کھینچی کہ قلم توڑ دیا
اور بقول والدنا ومرشدنا حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ
ع جسے وُسعتیں بھی نہ پاسکیں وہ نبی کا پاک مقام ہے
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
احقر العباد( مفتی )عابدالرحمن غفرلہ‘بجنوری
خادم مدرسہ عربیہ مدینۃالعلوم
محلہ مردہگان بجنور(یوپی)

 

بابر تنویر

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 02، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
692
پوائنٹ
104
محترم بھائ عابد الرحمن واقعہ معراج کا ذکر کر رہے ہیں۔ اسی حوالے سے فتاوی غوثیہ (مصنف احمد رضا خان بریلوی صاحب) سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔ قابل قدر علماء سے اس پر تبصرے کی درخواست ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہ واقع ہے شب معراج کا۔ براق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر لے جانے کے لیۓ آپ کی خدمت میں پہنچتا ہے۔ اور آگے کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب "تحفہ قادریہ" لکھتے ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اتنا بڑا اور اونچا ہوگيا ( یہ ہوئ نہ خوشی سے پھولے نہ سمانے کی مثل کی صحیع تعریف) کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اور پاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب معرفت (یہ پتہ نہیں کون ہوتے ہیں) کے نزدیک اس معاملہ میں عمدہ تر حکمت یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا دولت وصال سے فرح (خوشحال) ہوتا ہے اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص اور دولت اختصاص اور ولایت مطلق اور غوثیت برحق اور قطبیت اصطفاہ اور محبوبیت مجدو علا سے آج ہی مالامال کر دیا جاۓ۔
چنانچہ صاحب " منازل عشریہ" تحفہ قادریہ سے لکھتا ہے کہ اس وقت سیدی و مولائ، مرشدی و ملجائ، قطب الاکرم، غوث الاعظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔عبد القادر جیلانی کی روح پاک (دوبارہ پڑھ لیجیۓ۔ روح پاک) نے حاضر ہو کر گردن نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اور اس طرح عرض کیا : (بیت)
ترجمہ ( اے نازنین (( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نازنین کہتے ہوۓ انہیں شرم نہ آئ)) میرے سر اور آنکھوں پر قدم رکھۓ تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پو فیضان قدم ہو)
خواجہ عالم صلی اللہ علیہ وسلم گردن غوث الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوۓ اور اس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو کون ہے؟ عرض کیا میں آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں اگر آج نعمت سے کچھ منزل بخشۓ گا تو آپ کے دین کو زندہ کروں گا۔ فرمایا:تو محی الدین ہے اور جس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے کل تیرا قدم کل اولیاء کی گردن پر ہوگا۔

Books of alahazrat - Alahazrat Network
کتاب فتاوی غوثیہ۔ ص 3 مصنف احمد رضا بریلوی
براق کا آنا، خوشی سے پھولے نہ سمانا اور بہت بڑا ہوجانا ، پھر روح شیخ عبد القادر کا آنا اور نبی کریم کو براق پر سوار کرانا۔ ان سب کا شاہد کون تھا۔ کیا یہ قران کریم میں کہیں لکھا ہے، کیا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں اس کا تذکرہ کیا ہے؟ یا پھر شیخ عبد القادر نے کہیں اس کا ذکر کیا ہو
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
گزشتہ سے پیوستہ
اس کے بعد آپؐ کو ’’مقامِ قرب‘‘ سے نوازا کیا جس کو ’’فَکَانَ قَابَ قَوسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی‘‘ فرمایا گیا اور حق سبحانہ وتعالیٰ سے بے حجابانہ کلام ہوا۔ رُخصتی کے وقت من جملہ اور تحفوں کے ایک تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپﷺ کی اُمت کے لیے نمازِ پنج گانہ کا تحفہ دیا گیا وغیرہ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم



لا تدرکہ ٗالابصار
(نگاہیں اسے نہیں پاسکتیں)




ما کان لبشر ان یکلمہُ اللہ الا وحیاً او من ورائ الحجاب او یرسل رسولاً فیوحی َ باِذنہ ما یشآء
(کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر ،یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہے)


قرآن کی رو سے
" قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا ۔تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔اسے زبردست قوت والے (جبرائیلؑ)نے تعلیم دی ہے ،جو بڑا صاحب حکمت ہے ۔وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا ۔پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا ،یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔تب اس (جبرائیلؑ)نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی اسے پہنچانی تھی ۔نظر نے جو کچھ دیکھا ،دل نے اس میں جھوٹ نہیں ملایا۔اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؟اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃالمنتھیٰ کے پاس اس (جبرائیلؑ)کو دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے ۔اس وقت سدرہ پر چھارہا تھا جو چھارہا تھا ۔نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی ۔ اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔(النجم۱۸۔۱)
اس بات کا عقیدہ رکھنے والے صرف درمیان سے وہ آیت نکالتے ہیں اور من پسند تاویل کرتے ہیں جبکہ آگے پیچھے کی تمام آیت اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ نہیں بلکہ وہ جبرائیلؑ تھے اور اللہ کو نہیں بلکہ اللہ کہتا ہے" اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔(النجم۱۸)
یہ آیت اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کو نہیں بلکہ اللہ کی عظیم الشان نشانیوں کو دیکھا تھا ۔چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملاقات بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی ،اس لئے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلی پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا اور دوسری مرتبہ سدرہ المنتھی کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا اگر آپ ﷺ نے ان مواقع میں سے کسی بھی موقع پر اللہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کردی جاتی۔
حضرت موسی ؑ نے اللہ تعالی کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا کہ "لن ترانی "تم مجھے نہیں دیکھ سکتے (المائدہ۱۴۳)اب یہ ظاہر کہ یہ شرف جو حضرت موسی ؑ کی زندگی میں انہیں عطا نہیں کیا گیا تھا نبی اکرم ﷺ کو عطا کردیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کردیا جاتا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ حضور ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ،بلکہ واقع معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لئے لے گئے تھے کہ "اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں"(لنریہ من آیاتنا) اور یہاں سدرۃالمنتھی ٰپر حاضری کے سلسلے میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ "اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں "لقد راٰی من آیت ربہ الکبریٰ)
یہ تو تھی قرآن کی دلیل احادیث میں بھی اس بات کا انکار ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ کو دیکھا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کی روایت:
بخاری ، کتاب التفسیر میں حضرت مسروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے عرض کیا ،"ام المومنین! کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ انہوں نے کہا "تمہاری اس بات سے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جن کا اگر کوئی دعوی کرے تو جھوٹا دعوی کرے گا " جو تم سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں؛لا تدرکہُ الابصار (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور "ما کان لبشر ان یکلمہُ اللہ الا وحیاً او من ورائ الحجاب او یرسل رسولاً فیوحی َ باِذنہ ما یشآء(کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر ،یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہے) اس کے بعد انہوں نے فرمایا "لیکن رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا "۔
حضرت مسروق کی روایت سے اس حدیث کا ایک حصہ بخاری نے نقل کیا ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالی کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے "ثم دنٰی فتدلٰی ،فکان قاب قوسینِ او ادنٰی ؟اس پر انہوں نے فرمایا اس سے مراد جبریلؑ ہیں وہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے ، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصل شکل میں آپ کے پاس آئے اور پورا افق ان سے بھر گیا "
مسلم ،کتاب الایمان ،باب فی زکر سدرۃالمنتھی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا "جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ کو دیکھا تھا وہ اللہ پر بہت بڑا افتراکرتا ہے "مسروق کہتے ہیں میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا ،ام المؤمنین جلدی نہ فرمائیے کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا"ولقد راٰہُ بالافق المبین ؟ اور لقد راٰہ نزلۃ اخرٰی؟
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "انّما ھو جبریلُ علیہ السلام لم ارَہ علی صورتہِ التِّی خلقَ علیھاغیرھاتین مرّتین ِ راَیتہ ُمنھبطاً من السّمآء سادّاً عظم خلقہ ما بین السمآء والارض۔"
وہ تو جبریل ؑ تھے میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا ۔ان دومواقع پر میں نے ان کوآسمان سے اترتے ہوئے دیکھا اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی "
مسند احمد میں ابن زرّبن جبیش سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ "ولقد راٰہ نزلۃ ً اخری ٰ۔عند سدرۃالمنتھی ٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔"قال رسول اللہ ﷺ راءَیت جبریل َعند سدرۃالمنتھی علیہ ستُّمائَۃ جناح"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے جبریل ؑ کو سدرۃالمنتھی کے پاس دیکھا ان کے چھ سو بازو تھے "
یہ تھی قرآن وحدیث کی مدلل بحث
مگر اکثتر خطیب صاحبان اپنے بیان میں فرماتے ہیں معراج کے وقت آپ ﷺ نے اللہ سبحانہ وتعالی کو بے حجابانہ دیکھا اورتو اور یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ ﷺ عرش پر بھی پہنچے عرش کا دروازہ بند ہوگیا اللہ نے اپنے حبیب سے کہا میرے قریب آؤ تو محمد ﷺ اللہ کے قریب ہوگئے پھر فرمایا میرے قریب آؤ تو محمد ﷺ اللہ کے اور قریب ہوگئے اور پھر اس کے بعد کیا ہوا زبان بیان نہیں کر سکتی (بقول طاہر القادری)
اعوذباللہ من ذالک۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
محترم بھائ عابد الرحمن واقعہ معراج کا ذکر کر رہے ہیں۔ اسی حوالے سے فتاوی غوثیہ (مصنف احمد رضا خان بریلوی صاحب) سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔ قابل قدر علماء سے اس پر تبصرے کی درخواست ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہ واقع ہے شب معراج کا۔ براق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر لے جانے کے لیۓ آپ کی خدمت میں پہنچتا ہے۔ اور آگے کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب "تحفہ قادریہ" لکھتے ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اتنا بڑا اور اونچا ہوگيا ( یہ ہوئ نہ خوشی سے پھولے نہ سمانے کی مثل کی صحیع تعریف) کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اور پاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب معرفت (یہ پتہ نہیں کون ہوتے ہیں) کے نزدیک اس معاملہ میں عمدہ تر حکمت یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا دولت وصال سے فرح (خوشحال) ہوتا ہے اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص اور دولت اختصاص اور ولایت مطلق اور غوثیت برحق اور قطبیت اصطفاہ اور محبوبیت مجدو علا سے آج ہی مالامال کر دیا جاۓ۔
چنانچہ صاحب " منازل عشریہ" تحفہ قادریہ سے لکھتا ہے کہ اس وقت سیدی و مولائ، مرشدی و ملجائ، قطب الاکرم، غوث الاعظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔عبد القادر جیلانی کی روح پاک (دوبارہ پڑھ لیجیۓ۔ روح پاک) نے حاضر ہو کر گردن نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اور اس طرح عرض کیا : (بیت)
ترجمہ ( اے نازنین (( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نازنین کہتے ہوۓ انہیں شرم نہ آئ)) میرے سر اور آنکھوں پر قدم رکھۓ تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پو فیضان قدم ہو)
خواجہ عالم صلی اللہ علیہ وسلم گردن غوث الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوۓ اور اس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو کون ہے؟ عرض کیا میں آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں اگر آج نعمت سے کچھ منزل بخشۓ گا تو آپ کے دین کو زندہ کروں گا۔ فرمایا:تو محی الدین ہے اور جس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے کل تیرا قدم کل اولیاء کی گردن پر ہوگا۔

Books of alahazrat - Alahazrat Network
کتاب فتاوی غوثیہ۔ ص 3 مصنف احمد رضا بریلوی
براق کا آنا، خوشی سے پھولے نہ سمانا اور بہت بڑا ہوجانا ، پھر روح شیخ عبد القادر کا آنا اور نبی کریم کو براق پر سوار کرانا۔ ان سب کا شاہد کون تھا۔ کیا یہ قران کریم میں کہیں لکھا ہے، کیا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں اس کا تذکرہ کیا ہے؟ یا پھر شیخ عبد القادر نے کہیں اس کا ذکر کیا ہو
السلام علیکم میں آپ کی بات سے صد فی صد متفق ہوں
ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے
 

ذاکر الله

مبتدی
شمولیت
نومبر 30، 2014
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
2
بسم اللہ الرحمن الرحیم



لا تدرکہ ٗالابصار
(نگاہیں اسے نہیں پاسکتیں)





ما کان لبشر ان یکلمہُ اللہ الا وحیاً او من ورائ الحجاب او یرسل رسولاً فیوحی َ باِذنہ ما یشآء
(کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر ،یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہے)


قرآن کی رو سے
" قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا ۔تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔اسے زبردست قوت والے (جبرائیلؑ)نے تعلیم دی ہے ،جو بڑا صاحب حکمت ہے ۔وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا ۔پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا ،یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔تب اس (جبرائیلؑ)نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی اسے پہنچانی تھی ۔نظر نے جو کچھ دیکھا ،دل نے اس میں جھوٹ نہیں ملایا۔اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؟اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃالمنتھیٰ کے پاس اس (جبرائیلؑ)کو دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے ۔اس وقت سدرہ پر چھارہا تھا جو چھارہا تھا ۔نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی ۔ اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔(النجم۱۸۔۱)
اس بات کا عقیدہ رکھنے والے صرف درمیان سے وہ آیت نکالتے ہیں اور من پسند تاویل کرتے ہیں جبکہ آگے پیچھے کی تمام آیت اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ نہیں بلکہ وہ جبرائیلؑ تھے اور اللہ کو نہیں بلکہ اللہ کہتا ہے" اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔(النجم۱۸)
یہ آیت اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کو نہیں بلکہ اللہ کی عظیم الشان نشانیوں کو دیکھا تھا ۔چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملاقات بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی ،اس لئے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلی پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا اور دوسری مرتبہ سدرہ المنتھی کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا اگر آپ ﷺ نے ان مواقع میں سے کسی بھی موقع پر اللہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کردی جاتی۔
حضرت موسی ؑ نے اللہ تعالی کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا کہ "لن ترانی "تم مجھے نہیں دیکھ سکتے (المائدہ۱۴۳)اب یہ ظاہر کہ یہ شرف جو حضرت موسی ؑ کی زندگی میں انہیں عطا نہیں کیا گیا تھا نبی اکرم ﷺ کو عطا کردیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کردیا جاتا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ حضور ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ،بلکہ واقع معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لئے لے گئے تھے کہ "اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں"(لنریہ من آیاتنا) اور یہاں سدرۃالمنتھی ٰپر حاضری کے سلسلے میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ "اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں "لقد راٰی من آیت ربہ الکبریٰ)
یہ تو تھی قرآن کی دلیل احادیث میں بھی اس بات کا انکار ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ کو دیکھا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کی روایت:
بخاری ، کتاب التفسیر میں حضرت مسروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے عرض کیا ،"ام المومنین! کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ انہوں نے کہا "تمہاری اس بات سے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جن کا اگر کوئی دعوی کرے تو جھوٹا دعوی کرے گا " جو تم سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں؛لا تدرکہُ الابصار (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور "ما کان لبشر ان یکلمہُ اللہ الا وحیاً او من ورائ الحجاب او یرسل رسولاً فیوحی َ باِذنہ ما یشآء(کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر ،یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہے) اس کے بعد انہوں نے فرمایا "لیکن رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا "
۔
حضرت مسروق کی روایت سے اس حدیث کا ایک حصہ بخاری نے نقل کیا ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالی کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے "ثم دنٰی فتدلٰی ،فکان قاب قوسینِ او ادنٰی ؟اس پر انہوں نے فرمایا اس سے مراد جبریلؑ ہیں وہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے ، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصل شکل میں آپ کے پاس آئے اور پورا افق ان سے بھر گیا "
مسلم ،کتاب الایمان ،باب فی زکر سدرۃالمنتھی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا "جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ کو دیکھا تھا وہ اللہ پر بہت بڑا افتراکرتا ہے "مسروق کہتے ہیں میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا ،ام المؤمنین جلدی نہ فرمائیے کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا"ولقد راٰہُ بالافق المبین ؟ اور لقد راٰہ نزلۃ اخرٰی؟
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "انّما ھو جبریلُ علیہ السلام لم ارَہ علی صورتہِ التِّی خلقَ علیھاغیرھاتین مرّتین ِ راَیتہ ُمنھبطاً من السّمآء سادّاً عظم خلقہ ما بین السمآء والارض۔"
وہ تو جبریل ؑ تھے میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا ۔ان دومواقع پر میں نے ان کوآسمان سے اترتے ہوئے دیکھا اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی "
مسند احمد میں ابن زرّبن جبیش سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ "ولقد راٰہ نزلۃ ً اخری ٰ۔عند سدرۃالمنتھی ٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔"قال رسول اللہ ﷺ راءَیت جبریل َعند سدرۃالمنتھی علیہ ستُّمائَۃ جناح"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے جبریل ؑ کو سدرۃالمنتھی کے پاس دیکھا ان کے چھ سو بازو تھے "
یہ تھی قرآن وحدیث کی مدلل بحث
مگر اکثتر خطیب صاحبان اپنے بیان میں فرماتے ہیں معراج کے وقت آپ ﷺ نے اللہ سبحانہ وتعالی کو بے حجابانہ دیکھا اورتو اور یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ ﷺ عرش پر بھی پہنچے عرش کا دروازہ بند ہوگیا اللہ نے اپنے حبیب سے کہا میرے قریب آؤ تو محمد ﷺ اللہ کے قریب ہوگئے پھر فرمایا میرے قریب آؤ تو محمد ﷺ اللہ کے اور قریب ہوگئے اور پھر اس کے بعد کیا ہوا زبان بیان نہیں کر سکتی (بقول طاہر القادری)
اعوذباللہ من ذالک۔۔۔
آپ کی بات سہی ہے قرآن و حدیث کے مطابق جزاک الله ۔۔۔۔۔
 
Top