• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین کا کردار اور بچوں پر اثر انداز

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
والدین کا کردار اور بچوں پر اثر انداز

بشریٰ امیر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس پر احسانات کر کے اپنی ربوبیت کو منوایا ہے۔ اللہ کی ان تمام ان گنت نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اولاد کی نعمت ہے یہ ایسی نعمت ہے جس کے سامنے دنیا کے تمام مال و اسباب بے قیمت ہیں۔ تمام دنیا کے مال خرج کر کے بھی اولاد جیسی نعمت نہیں خریدی جا سکتی۔ اس نعمت کی قدر ان سے پوچھو جو لوگ اس اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں اور وہ اس نعمت کو پانے کیلئے بے بہا پیسہ لٹا چکے ہیں دن رات اسی لگن میں اپنا قیمتی وقت اور اثاثہ لٹا رہے ہیں اور پھر اللہ جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نواز دیتا ہے۔ اسے اس بات کا بھی پابند کر دیتا ہے کہ آیا اس نے اس نعمت کی قدر کی؟

چونکہ اولاد اللہ کی ا مانت ہے اور قیامت کے دن اس امانت کی ذمہ داری کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا۔ کیا اس ذمہ داری کو بخوبی سرانجام دیا؟ کیا اس امانت کی حفاظت کی؟ اللہ نے اولاد کو دنیا کی زینت قرار دیا اور آخرت میں نیک اولاد کو صدقہ جاریہ بنا کر والدین کی آخرت سنوارنے کا سبب بنا دیا۔ اس دنیا کی زینت کو اگر اچھے اخلاق نہ دیئے جائیں اپنے غلط رویوں سے والدین ان کی شخصیت مسخ کر دیں تو یہی ننھے پھول اور کونپلیں رونق اور جمال بننے کی بجائے دنیا و آخرت میں وبال جان بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اللہ کے نبی رحمة للعالمین کی ایک حدیث نظر قارئین کرتی ہوں۔

رسول اکرم نے فرمایا! تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہو گی، حاکم ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں یعنی بیوی بچوں کے بارے میں سوال ہو گا۔ (متفق علیہ)

بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ والدین کا کردار ہے اور خاص طور پر ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ اور تربیتی ادارہ ہے۔ عربی زبان میں بچہ کو طفل کہتے ہیں اور اس کی جمع اطفال ہے اور یہ معاشرے کے کم سن افراد ہیں جن کی عمریں مختلف ممالک میں ان کے قوانین کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً بعض ممالک میں 16 سال اور بعض ممالک میں 18 سال تک طفل، چائلڈ یا بچے کہا جاتا ہے لیکن اسلام میں طفل کا تصور بلوغت تک ہے چاہے وہ 13 سال کا ہو یا 16 سال کا بچہ کہلاتا ہے۔ بلوغت سے پہلے والی عمر بہت حساس ہوتی ہے، اس لئے والدین کے رویے بچوں پر انتہائی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔

محترم قاریات! آج ہم اس حوالے سے ان والدین کے بارے میں دیکھتے ہیں جو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں گھر میں تناؤ والا ماحول پیدا کئے رکھتے ہیں۔ ان کے اس رویے کے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں، ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ چونگی امرسدھو کے ایک میاں بیوی کے باہمی جھگڑے نے بچوں کو رول کر رکھ دیا۔ پتہ نہیں ایسے والدین کو اس نعمت کی قدر نہیں ہوتی جو ان معصوموں کو اپنی انا اور ضد کی نذر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو فٹ پاتھ پر چھوڑ دیا، بچوں نے رات ٹھنڈ میں بھوکے پیاسے گزاری، مقامی افراد نے جو بیس گھنٹوں بعد انہیں کھانا کھلایا، سڑک کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے ان کم سن ننھی جانوں کے اردگرد اب لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ انہیں کھانے کو بھی مل رہا تھا لیکن ان ننھی جانوں نے سرد رات میں بھوک اور پیاس اور والدین کے رویے کو کیسے برداشت کیا۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، انہی بچوں میں 5 سالہ حسین بتا رہا تھا کہ امی ابو کی لڑائی ہوئی تو امی ہمیں سڑک پر چھوڑ گئیں، چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم نے بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

یہ تو ایک واقعہ ہے اس طرح کے واقعات ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں، والدین کے آئے روز کے لڑائی جھگڑے مائیں بچوں کو چھوڑ کر میکے جا بیٹھتی ہیں اور بچے سسرال میں چچا اور پھوپھیوں کے پاس ہوتے ہیں یا پھر وہ ساتھ میکے لے جاتی ہیں جہاں بچے اپ سیٹ ہو جاتے ہیں۔ باپ کو ملنے نہیں دیا جاتا بچے باپ کے لئے تڑپتے ہیں یا پھر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی گھر میں روزانہ لڑائی جھگڑا کر کے گھر کو جہنم بنائے رکھتے ہیں اور پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اس چخ چخ کو ان کے بچے بھی سن رہے ہیں۔ ننھے معصوم ان کی اس چیخ و پکار تو تڑاخ سے ڈر اور سہم جاتے ہیں اور اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذہنی مریض بن جاتے ہیں، ایک سٹڈی کے مطابق ٹینشن زدہ ماحول میں پیدا ہونے والے ایسے بچوں کی طبیعت میں چڑچڑاپن، غصہ، بدتمیزی اور ضد کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ انہیں نیند کی خرابی اور صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ہر وقت سراور پیٹ درد ہوتا ہے، وہ اکثر بیمار رہتے ہیں اور بہن بھائیوں میں مثالی تعلقات قائم نہیں کر سکتے، ایسے بچے بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی تک کی منزلیں شخصیت کے بگاڑ کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کی دراڑیں زندگی بھر جوں کی توں رہتی ہیں اس کے برعکس پرامن والدین کے بچے پرامن صحت مند، حاضر دماغ اور کھلے کھلے چہروں کے ساتھ ہنسی مذاق اور خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں۔

دیکھو! میاں بیوی میں جھگڑا ہو جانا کسی بات پر اختلاف ہو جانا فطری بات ہے۔ پڑھے لکھے والدین لڑتے بھی ہیں اور سمجھداری سے اپنے نکتہ نظر کو حق اور مخالفت کی بنا پر حل بھی کر لیتے ہیں۔ وہ زور زور سے توتکار نہیں کرتے تاکہ ان کے بچے متاثر نہ ہوں اور یہی بہترین ماں باپ ہیں۔ ایسے والدین بھی ہیں جو اونچی آواز میں لڑتے بولتے ہیں لیکن فوراً اپنی اپنی غلطی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک دوسرے سے معذرت کرنے سے نہیں ہچکچاتے یعنی ان کے اس رویے کو بچے بھی خوب دیکھتے ہیں یعنی لڑنا اور پھر صلح کرنا انا اور ضد کو مار مار کر بھگا دینا ایسے والدین کے بچے بہت ہی تعاون کرنے والے اور صلح کن خوبیوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ ایسے بچے معاشرے کیلئے بہترین ثابت ہوتے ہیں، جیسا کہ رسول اکرم کی حدیث ہے کہ جو میں پہلے لکھ چکی ہوں کہ باپ سے اولاد کے بارے پوچھا جائے گا۔ اب اس کے مطابق ماں اور باپ کو کیا کردار ادا کرنا ہے۔ گھر ایسی تربیت گاہ ہے جہاں ننھے منے بچے پرورش پاتے ہیں، ان کے کردار کی نشوونما ہوتی ہے، وہ ننھے وہیں سے سب کچھ سیکھتے ہیں، اس لئے والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر بچوں کی تربیت کریں۔ بچوں کی تربیت میں کوتاہی یا سستی دراصل اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت ہے۔ اس نعمت کی قدر دانی کرتے ہوئے اور اپنے فرض کی ادائیگی سمجھتے ہوئے اس ننھے کے کردار کو اپنے اعلیٰ کردار سے خوبصورت بنائیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ایک باپ کا اپنے بیٹے کو اعلیٰ اخلاق سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔ اپنے دنیا کمانے کے قیمتی وقت میں سے مناسب وقت بچوں کو بھی دیں لڑکے اور لڑکی میں فرق نہ کریں، بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھائیں، بچوں کے سامنے برے فعل سے احتراز کریں۔ جیسے بیوی پر ہاتھ اٹھانا، بچوں میں شدت پسندی کو رواج دے گا۔ بچے بھی مارکٹائی کریں گے، بچوں کے سامنے تمباکو نوشی گالم گلوچ اور اس طرح کے غیرمعیوب کردار سے بچہ بدکردار ہو جاتا ہے، وہ وہی کرے گا جو اس کا باپ کرتا ہے۔

اس طرح جو والدین اپنے بچے کے سامنے گھر کا ماحول خوشگوار رکھتے ہیں بچہ جب سات سال کا ہو جاتا ہے اسے نماز کی عادت ڈالتے ہیں، سات سے دس سال کی عمر میں تقریباً پانچ ہزار مرتبہ نماز کا وقت آتا ہے۔ جب وہ بچہ پانچ ہزار مرتبہ نماز باپ کے ساتھ پڑھے گا اور بچی ماں کے ساتھ مصلے پر کھڑی ہو کر پڑھے گی تو کیا وہ اسے بعد میں چھوڑ پائے گا۔ اس طرح طفل کے زمانے میں جو کردار بنائے جاتے ہیں وہ تا عمر بچے کے ساتھ رہتے ہیں، اللہ والدین کو حقیقی طور پر باکردار شخصیات کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(وماتوفیقی الاباللہ)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مشاہدہ، تجزیہ اور نتیجہ

زاہد عمران

ہمارا بیٹا بہت زیادہ غصہ کرتا ہے ، چیختا چلاتا ہے ، چیزیں پھینکتا ہے، ہم نے بہت کوششیں کر لی ہیں مگر بچے کو نارمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، یہ چند جملے والدین نے ایک ماہر نفسیات سے کہے، چھوٹے بچے کے نفسیاتی علاج کے سلسلے میں آئے ہوئے ان والدین کا مسئلہ س±ن کر ماہر نفسیات کچھ دیر کے لیے سوچ میں ڈوب گیا اور پھر سوال کیا کہ گھر میں دیگر افراد میں سے کون غصہ کرتا ہے ؟ لڑتا ہے ؟ چیختا ہے؟ ، والدین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا ، جس سے صاف طور پر معلوم ہورہا تھا کہ یہ دونوں میاں بیوی بچے کی موجودگی میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ، غصہ کرتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں ، جس کا اثر ان کے بچے پر اتنا زیادہ ہوا کہ بچے کو ماہر نفسیات کے پاس لانا پڑا ، یہی والدین ہزاروں کوششیں بچے کو ٹھیک کرنے کےلیے کرتے رہے مگر ایک بھی کوشش اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لیے نہیں کی ، جو کہ مسئلہ کا بنیادی حل تھا۔

ایک اور کیس ماہر نفسیات کے پاس آیا کہ چار سالہ بچہ بہت زیادہ غصہ کرتا ہے ، ضد کرتا ہے اور بات نہیں مانتا ہے ، ماہر نفسیات نے دونوں میاں بیوی سے جب مکمل معلومات لیں تو معلوم ہوا کہ شوہر بہت بڑے آفیسر ہیں ، ہر وقت شہر سے باہر دوروں پر رہتے ہیں اور بیوی سوشل ورک کرتی ہے ، اکثر وقت گھر سے باہر گزارتی ہے ، بچے کو آیا کے حوالے کیا ہوا ہے ، دونوں کے پاس اپنے بیٹے کے لیے دینے کے لیے بہت ہی کم وقت ہوتا ہے اور جو وقت وہ اپنے بچے کے ساتھ گزارتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور جھگڑنے میں گزر جاتا ہے ، ماہر نفسیات نے صرف تین طریقے بتائے ، ایک یہ کہ اپنے بچے کے ساتھ ا±س کی پسند اور خواہش کے مطابق زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں ، بچے کے سامنے ایک دوسرے سے ہر گز نہ لڑیں اور ہر رو زکم سے کم دس بار بچے کو گلے لگائیں اور چھوئیں، ان تجاویز پر عمل کرنے کے بعد چند ہی مہینوں میں بچہ اپنی انتہائی کیفیت سے نارمل کیفیت کی طرف لوٹنا شروع ہوگیا۔

ان دونوں کیسز میں اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں ایک اصول نظر آئے گا "مشاہدہ، تجزیہ اور نتیجہ " ، بچے کی مشاہداتی دنیا انتہائی محدود ہوتی ہے ، وہ جن کو اپنا سمجھتا ہے، ان کی تمام حرکتوں کو درست تصور کرتا ہے ، بڑے جس طرح بھی عمل کرتے ہیں ، بچے ان کو بغور دیکھتے ہیں ، سوچتے ہیں کہ یہ ہمارے بڑے ہیں ہر گز غلط نہیں ہوسکتے اور پھر نتیجہ نکالتے ہیں کہ بالکل یہی ٹھیک ہے یوں بچے بڑوں کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں، اکثر بچے وہ کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں ، بہت کم وہ کرتے ہیں جو سنتے ہیں۔

بچوں نے کبھی بھی اپنے والدین یا گھر کے دوسرے افراد کو مطالعہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، گھر میں کتابیں لاتے ہوئے نہیں دیکھا ، کتب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے نہیں س±نا ، گھر میں چھوٹی سی بھی لائبریری مشاہدہ کا حصہ نہیں بنی ، کسی بھی موقع پر بچوں کو تحفہ کے طور پر کتب نہیں دی گئیں ، مشاہدہ ، تجزیہ اور نتیجہ کے اصول کے مطابق یہ بچے "ریڈرز" مطالعہ کرنے والے نہیں بن سکتے ، اس کے برعکس مطالعہ کرنے کا ذوق رکھنے والے والدین کے بچے عموماً پڑھنے والے ہوتے ہیں۔

نبی مکرم و محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیے بغیر کوئی بھی بات مکمل ہو ہی نہیں سکتی ، مشاہدہ ، تجزیہ اور نتیجہ والے اصول کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی تاکہ جب مکہ کے لوگوں کو جمع کر کے یہ پوچھا جائے کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑہ کے پیچھے ایک زبردست لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار ہے ، کیا میری اس بات پر یقین کروگے؟ تمام افراد نے بیک وقت کہا کہ ہم بالکل یقین کریں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کی زبان سے سچ کے علاوہ کچھ نہیں سنا ، دشمن بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پنی امانتیں رکھواتے تھے کیونکہ انہوں نے ان چالیس سالوں میں کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امانت میں خیانت کرتے ہوئے نہ دیکھا نہ سنا۔ تمام افراد نے ذاتِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشاہدہ کیا ، تجزیہ کیا کہ یہ ذات صادق اور امین ہے اور نتیجہ کے طور پر صادق اور امین کے القابات دے دیے۔

عموماً ہماری گفتگو میں دنیا سے محبت کرنے والی باتیں شامل ہوتی ہیں ، جیسے : یہ گاڑی چھوٹی ہے ، بڑی گاڑی لینی چاہیے ، موٹر سائیکل والے کی بھی کیا زندگی ہے ، کار والے کتنے آرام سے سفر کرتے ہیں ، اس بھائی کا بنگلہ بڑا شاندار ہے ، کاش ہمارے پاس بھی ایسا ہوتا ، ان کے پاس تو بہت دولت ہے وہ تو عیش کرتے ہیں ، میرا بیٹا تو بڑا ہو کر انجینئریا ڈاکٹر بنے گا، بڑا گھر ہوگا بڑی کار ہوگی ، اس طرح کی باتیں غیر محسوس انداز میں بچوں کو یہ مشاہدہ ، تجزیہ اور نتیجہ اخذ کرواتی ہیں کہ مادی اشیاءسے محبت ہی سب کچھ ہے، بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنا یا اپنا آرام چھوڑ کر دوسروں کو راحت پہنچانا یا رشتوں سے محبت کرنا یا آخرت سے محبت کی وجہ سے دنیا سے نفرت کرنا ، یہ سب باتیں غیر ضرور ی اور ناقابل عمل ہیں۔

وہ بچہ کس طرح اپنے اللہ سے ، رسول سے ، والدین سے ، رشتوں سے اور مسلمانوں سے محبت کر سکتا ہے جس کی سماعت ، بصارت اور مشاہدہ میں صرف اور صرف دنیا کی حقیر چیزوں کو منزل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے؟وہ بچہ کس طرح جھوٹ چھوڑ سکتا ہے ، جو اپنے بڑوں کو ہر وقت غلط بیانی کرتے ہوئے سنتا اور دیکھتا ہے ؟اس بچے کی دینی و اخلاقی تربیت کیسے ہوسکتی ہے جو ہروقت ٹی وی کے ذریعے منفی باتیں اخذ کررہا ہو۔

اس بچے کو کیسے بہتر انسان بنایا جاسکتا ہے جس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھمادیا جاتا ہے ، پھر نہ اس کو نقصانات و فوائد کا بتایا جاتا ہے نہ نگرانی کی جاتی ہے،جس کے بٹن اور اسکرین بچے کو اس دنیا کا مشاہدہ کرواتی ہے جس میں شیطانی مزہ اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ؟ وہ بچہ فیس بک جیسے وقت کا ضیاع کرنے والے پلیٹ فارم سے اپنے آپ کو کس طرح بچا سکتا ہے ، جس کے ابو اور امی ہروقت اس آلودگی میں آلودہ ہوتے ہیں ؟وہ بچہ کس طرح نمازی بن سکتا ہے ، جس نے کبھی بھی اپنے والد کو مسجد جاتے ہوئے اور امی کو مصلہ بچھاتے ہوئے نہیں دیکھا؟

محترم والدین ، اپنے بچوں کو مستقبل میں آپ جس طرح دیکھنا چاہتے ہیں ، حال میں ان کو اسی طرح کا موافق ماحول مہیا کریں اور اس کے لیے سب سے پہلے آپ خود وہ کرنا شروع کردیں جس کے ذریعے بچے مشاہدہ ، تجزیہ اور نتیجہ نکالیں تو وہ آخرت کی تیای رکرنے والے ، آپ کی اور دوسروں کی عزت اور خدمت کرنے ولاے اور علم سے محبت کرنے والے بن جائیں۔

مضمون نگار ،تقویٰ اسکولنگ سسٹم کراچی کے ڈائریکٹر ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بچوں کی تربیت سے متعلقہ 3 اہم کام –


نیر تاباں

بچوں کی تربیت کے حوالے سے کرنے کے کاموں میں آج بس یہ چھوٹی سی لسٹ!

گلے لگانا:

کہیں ایک ریسرچ میں پڑھا تھا کہ انسان کو دن میں کم از کم آٹھ بار hug کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی تو چلیں چھوڑیے لیکن اپنے بچوں کی اس ضرورت کا خیال کریں۔ میرے جیسی ماں کو ہر پونے گھنٹے کا الارم لگانا پڑتا ہے تاکہ کام میں لگ کر بھول نہ جاؤں۔ لمس سے ایک محبت، ایک گرماہٹ کا احساس دل میں جاگتا ہے، تحفظ کا احساس ہوتا ہے، بچے میں self esteem بڑھتی ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق hug اتنا لمبا ضرور ہو کہ آپ آرام سے دس تک گنتی گن سکیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ دو زانو ہو کر بچے کے لیول پر آ کر اس کو گلے لگائیں تا کہ وہ بھی آپ کے گلے میں بازو ڈال کر آپ کو hug back کر سکے۔

آئی کانٹیکٹ:

آئی کانٹیکٹ کسی بھی رشتے میں‌ ازحد ضروری ہے اور سکرین کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہمیں خود تو برا لگتا ہے کہ شوہر ٹی وی کی طرف دیکھتے دیکھتے ہی جواب دیتے ہیں، ہم نظرانداز ہو رہے ہیں، لیکن وہی ہم ہانڈی میں چمچہ ہلاتے ہوئے بچوں سے بات کر رہے ہوتے ہیں، دور سے ہی سوال جواب چل رہے ہوتے ہیں۔ سارا دن تو ممکن نہیں لیکن اصول بنا لیں کہ رات کے کھانے پر ہر طرح کی سکرین آف ہو، یا سونے سے پہلے کچھ دیر آئی کانٹیکٹ کر کے دن بھر کی روداد شیئر کی جائے اور پھر بچوں سے بھی پوچھا جائے کہ کیسا دن گزرا۔

بوسہ لینا:

چھوٹے بچوں کو تو ہم بار بار گود میں اٹھاتے ہیں، بار بار پیار کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے، ایک فاصلہ غیر محسوس طریقے سے حائل ہوتا جاتا ہے۔ اب کئی کئی دن اس کو بوسہ نہیں دیا جاتا۔ بظاہر نہ آپ کو کوئی تشنگی محسوس ہوتی ہے اور نہ انہیں لیکن کہیں نہ کہیں ایک کمی سی رہ جاتی ہے۔ یہ کمی نہ رہنے دیں! بچے کو جب گلے لگائیں تو ماتھے پر پیار سے بوسہ دے دیں۔ اسے اچھا لگے گا۔ آپ کو بھی اچھا لگے گا!

محبت کسی بھی رشتے میں ہو، اظہار اور تجدیدِ اظہار مانگتی ہے۔ کتنی ہی بار ہم یہ شکوہ اپنے شوہر سے کرتے ہیں کہ آپ بدل گئے ہیں۔ اب آپ ویسے پیار نہیں کرتے جیسے شادی کے شروع میں کرتے تھے۔ زبان سے نہ کہیں تو بھی دل میں محسوس کرتے ہیں۔ لیکن بعینہ وہی سب بچوں کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو چوم چوم کر اس کو تنگ کر دیتے ہیں، اور بڑے بچوں کے لیے ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ محبت ان کی بھی ضرورت ہے۔ اظہار کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں بتاتے اپنی اولاد کو کہ وہ ہماری زندگی کا محور ہے؟ ہماری خوشی اس کی مسکراہٹ سے مشروط ہے۔ اس کے چہرے پر ذرا سی پریشانی ہماری جان نکال دیتی ہے۔ وہ ہمیں ہر ایک سے زیادہ عزیز ہے۔ جب hug کریں تو دس تک گنتی گننے کے بجائے اس وقت انہیں ایک آدھا جملہ پیار سے بول دیں۔ پھر آئی کانٹیکٹ کر کے ماتھے پر بوسہ دیں اور پندرہ سیکنڈ میں آپ کے تینوں ’کام‘ ہو جائیں گے۔

جو لوگ اپنے بچوں کو جھپی نہیں ڈالتے، بوسہ دینے کی عادت نہیں، وہ ایک سے شروع کریں۔ جھجک آئے تو بھی کوشش کریں اور آہستہ آہستہ ڈوز بڑھاتے جائیں۔ آپ کو فرق خود ہی محسوس ہو گا۔ محبت کا یہ اظہار روزانہ کی بنیاد پر اس لیے بھی اتنا اہم ہے کہ محبت ہم سبھی کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب گھر سے نہیں ملتی تو کہیں اور ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہماری اولاد کو گھر سے ہی اتنا پیار اور اعتماد ملے، انہیں محبت کے لیے کسی اور کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ گھر سے باہر کی دنیا کا کوئی شخص انہیں محبت دے گا تو واپسی میں کیا ڈیمانڈ کرے گا۔ محتاط رہیں۔ وقت کی نزاکت کا خیال رکھیں۔

http://daleel.pk/2017/01/02/23456
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ماں باپ اور بچے کو ڈانٹ ڈپٹ


بشریٰ امیر

یورپی ملک سکاٹ لینڈ کے باسی مسٹر کلارک کو پتہ چلا امریکا پوری دنیا کے لئے ”گولڈ مائن“ یعنی سونا ہے۔ یورپ کے غریب‘ مسکین اور مفلس لوگ امریکا پہنچتے ہیں‘ وہاں دنوں میں بڑی بڑی کانوں‘ فارمز ہاوسز‘ کارخانوں اور جانوروں کے باڑوں کے مالک بنتے ہیں اور شاہی خاندانوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ کلارک اور اس کی بیوی نے بھی امریکا جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا‘ فیصلہ تو ہو گیا لیکن زاد راہ کا بندوبست نہیں تھا۔ نو بچے اور دو میاں بیوی کیلئے ٹھیک ٹھاک سرمایہ درکارتھا اور یہ لوگ بارہ گھنٹے کی محنت کے بعد جو کچھ کماتے تھے وہ مہینے کے آخر میں خرچ ہو جاتا تھا۔ یہ بحری جہازوں کا زمانہ تھا‘ یورپ کی آٹھ بڑی بندرگاہوں سے بحری جہاز چلتے تھے ، اور تین سے چھ ماہ میں امریکا پہنچتے تھے۔ کلارک اور اس کی بیوی نے ہر صورت میں امریکا جانے کا فیصلہ کر لیا‘ انہوں نے رقم کا تخمینہ لگایا‘ اوور ٹائم شروع کیا‘ خوراک میں کمی کر دی‘ سردیوں کے کپڑے خریدنا بند کر دئیے‘ دوست احباب اور رشتے داروں سے قرض لیا‘ آبائی زمین کا واحد ٹکڑا بیچا‘ گھر رہن رکھا اور یوں دو سال کی مسلسل کوشش کے بعد اتنی رقم جمع کر لی جس سے یہ لوگ لاس اینجلس پہنچ سکتے تھے‘ وہ مسٹر کلارک کی زندگی کا شاندار دن تھا جب اس نے رقم کاو¿نٹر پر رکھی اور بحری جہاز کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں دس لوگوں کے سفر کا ٹکٹ خرید لیا‘ یہ ٹکٹ دیکھ کر پورا خاندان خوش ہو گیا۔ دوستوں نے ان کی الوداعی دعوتیں شروع کر دیں‘ کلارک فیملی نے اپنا سامان بھی باندھ لیا اورملازمت سے استعفیٰ بھی دے دیا لیکن روانگی سے تین دن پہلے کلارک خاندان ایک چھوٹے سے مسئلے کا شکار ہو گیا اور یہ حادثہ اگلے دن ان کی زندگی کا خوفناک ترین مسئلہ بن گیا۔ کلارک فیملی کا ایک بچہ اس شام اپنے دوست کو الوداع کہنے کیلئے اس کے گھر گیا‘ وہ واپس آرہا تھا تو راستے میں آوارہ کتے نے کاٹ لیا‘ مسٹر کلارک اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے‘ ڈاکٹر نے بچے کا بازو سی دیا لیکن ساتھ ہی اسے ”کتے کے کاٹے“ کا مریض قرار دے دیا‘ اس وقت سکاٹ لینڈ میں روایت تھی ڈاکٹر خطرناک مریضوں کے گھر کے مرکزی دروازے پر پیلے رنگ کی چٹ لگا دیتا تھااس چٹ کا مطلب ہوتا تھا کہ مریض ابھی زیر معائنہ ہے اور جب تک ڈاکٹر اجازت نہیں دے گا یہ اس وقت تک گھر سے باہر نہیں نکل سکے گا۔

ڈاکٹر نے کلارک خاندان کے دروازے پر بھی پیلی چٹ لگا دی۔ اس چٹ کے بعد کلارک فیملی امریکا نہیں جا سکتی تھی‘ یہ کلارک خاندان کیلئے جان لیوا صدمہ تھا‘ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آسمان جلتی ہوئی موم بتی کی طرح آہستہ آہستہ پگھل کر ان کے زخموں پر گر رہا ہو۔ مسٹر اور مسز کلارک نے اپنے بیٹے کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دے دیا‘ وہ اسے بری طرح ڈانٹنے لگے‘ اگلے دن مسٹر کلارک ٹکٹ واپس کرنے گیا توپتہ چلا ٹکٹ کی واپسی کا وقت گزر چکا ہے یوں ان کی رقم بھی ڈوب گئی۔

مسٹر کلارک بری طرح ٹوٹ کر رہ گیا‘ جس دن جہاز بندرگاہ سے روانہ ہونا تھا اس دن مسٹر کلارک ان کی بیگم اور ان کے آٹھ بچے بندرگارہ پر پہنچے اور جہاز کو گہرے پانیوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر دیر تک روتے رہے‘ آنے والے دن فیملی کیلئے زیادہ خوفناک ثابت ہوئے‘ مکان رہن تھا‘ زمین بک چکی تھی‘ نوکری ختم ہو چکی تھی اور عزیز رشتے دار اور دوست ”تم امریکا کب جا رہے ہو“ کہہ کر انہیں چھیڑرہے تھے۔ ان حالات نے مسٹر کلارک کی پوری فیملی کو شدید ڈپریشن کا شکار بنا دیا۔ یہ لوگ سارا سارا دن گھر میں چھپے رہتے تھے اور اپنے اس بچے کو کوستے رہتے تھے جس کا زخم عین وقت پر ان کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ کئی دن گزر گئے‘ ایک دن کلارک خاندان گھر میں ناشتہ کر رہا تھا کہ ان کے دروازے پر دستک ہوئی‘ دروازے پر ان کا ہمسایہ کھڑا تھا‘ ہمسائے کے ہاتھ میں اخبار تھا اور اس کا چہرہ جذبات سے تمتما رہا تھا۔ ہمسائے نے انہیں بتایا دنیا کا سب سے بڑا اور جدید بحری جہاز ٹائی ٹانیک بحراوقیانوس میں ڈوب گیا ہے اور اس میں 15سو 17 لوگ مارے گئے ہیں۔

مسٹر کلارک نے اخبار کھول کر خبر دیکھی تو اس کے منہ سے بے اختیار ”اللہ کا شکر“ نکلا اور اس نے خوشی سے جھومنا شروع کر دیا۔ جی ہاں کلارک فیملی بھی ٹائی ٹینک ہی کے ذریعے امریکا جا رہی تھی لیکن یہ لوگ عین وقت پر کتے کے کاٹنے کی وجہ سے سفر پر نہ جا سکے اور یوں موت سے بچ گئے۔ کلارک اخبار لہراتا ہوا گھر کے اندر آیا‘ اس نے اپنے بیمار بیٹے کو گلے لگایا اور دیر تک اس کا شکریہ ادا کرتا رہا۔

مسز کلارک اور اس کے باقی آٹھ بچے بھی اس بچے کے گرد کھڑے ہو گئے اور وہ بھی اپنے بھائی کا شکریہ ادا کرتے رہے۔ اس خبر کے بعد کی صورتحال بھی ملاحظہ ہو‘ وہ بچہ جو صبح تک اپنے آپ کو اپنے خاندان کی خوشیوں کا قاتل سمجھ رہا تھا وہ چند لمحوں میں خاندان کا مسیحا بن گیا۔ وہ خاندان جو اس بچے کو اپنا مجرم سمجھ رہا تھا وہی خاندان اسے اپنا محسن سمجھنے لگا‘ وہ لوگ جو کل تک ان لوگوں کو”امریکا نہیں گئے؟“ کا طعنہ دے کر تنگ کر رہے تھے وہ خوش قسمتی اور خوش بختی پر انہیں مبارک باد دینے لگے۔

مسٹر کلارک جو کل تک خود کو دنیا کا بدقسمت ترین شخص سمجھ رہاتھا اسے اچانک محسوس ہوا وہ دنیا کے خوش قسمت لوگوں میں ہے۔ اس احساس نے اس کے اعتماد میں اضافہ کر دیا۔ اس نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا‘ مسٹر کلارک کا خاندان بعدازاں جوتا سازی کے کاروبار سے منسلک ہوا اور آج ان کے بنائے ہوئے جوتے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔

آپ ذرا غور کیجئے اگر اس دن کلارک کے بیٹے کو کتا نہ کاٹتا‘ اگر ڈاکٹر ان کے دروازے پر پیلے رنگ کی چٹ نہ لگاتا تو کیا ہوتا؟ کلارک خاندان جہاز میں سوار ہو جاتا اور یہ لوگ بھی جہاز کے دوسرے مسافروں کے ساتھ پانی میں ڈوب جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹی سی مصیبت نازل کر کے انہیں بڑی مصیبت سے بچالیا۔ ان کو موت کے چنگل سے نکال لیا۔

ہم سب لوگ روزانہ ایسی چھوٹی چھوٹی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں‘ ہماری گاڑی کا پہیہ ”پنکچر‘ ہو جاتا ہے‘ ہم لیٹ ہو جاتے ہیں یا گاڑی خراب ہو جاتی ہے اور تقریب میں شمولیت یا پروگرام ملتوی ہو جاتا ہے۔ ہم بڑی اہم میٹنگ کیلئے نکلنے لگتے ہیں لیکن اچانک ہمارے بچے کے ہاتھ پر چوٹ لگ جاتی ہے ‘ہمیں ہماری مرضی کی نوکری نہیں ملتی‘ ہماری رقم ڈوب جاتی ہے‘ ہمارا قریب ترین دوست ہمیں دھوکا دے جاتاہے‘ہمارے دودھ سے چھپکلی نکل آتی ہے‘ ہماری فلائٹ مس ہو جاتی ہے یاہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے مگر ہم بچ جاتے ہیں اور ہم دیر تک خود کو بدنصیب قرار دیتے رہتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شکوے کرتے رہتے ہیں ” یہ صرف میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے“ ہم اللہ تعالیٰ سے پوچھتے رہتے ہیں ”کیا صرف ہم ہی امتحان کیلئے رہ گئے ہیں“ ہم مہینوں تک خود کو کوستے رہتے ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی ان چھوٹی چھوٹی مصیبتوں کے پیندے میں چھپی خوش قسمتی پر توجہ نہیں دی‘ ہم نے کبھی ان مصیبتوں کے پیچھے موجود اللہ تعالیٰ کی ”رحمت“ نہیں دیکھی‘ ہم نے کبھی غور نہیں کیا‘ اللہ تعالیٰ عموماً چھوٹے کانٹے کے ذریعے بڑا کانٹا نکالتا ہے‘ یہ آپ کو ٹھڈا مروا کر ہوائی حادثے سے بچاتا ہے۔ چنانچہ آج سے آپ جب بھی کسی مصیبت کا شکار ہوں تو اپنے دل پر نگاہ ڈالیں‘ لمبا سانس لیں اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کریں ”یامیرے پروردگار تیرا شکر ہے‘ میں تیری مصلحت کو نہیں سمجھ رہا لیکن مجھے یقین ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ غلط نہیں ہوگا۔ میری بہنو! میں نے مندرجہ بالا کہانی کو نیٹ سے لیا اور اسے سلیس بنا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔

یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ مہربان ہیں۔ پھر یہ بھی بات ہے کہ ہماری یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ یہ مستقل رہائش نہیں ہے۔ عارضی ہے ہم کو اللہ تعالیٰ معمولی تکلیفیں دے کر آخرت میں بہت بڑا اجر دینا چاہتے ہیں۔ مومن کو اگر کانٹا بھی لگ جائے اس کا بھی ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو پیدا کرنے والا ہے وہ ماں باپ سے کئی گنا زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ لہٰذا دنیا میں ہمیں جو تکلیف آتی ہے اس کی مصلحت بھی وہ خوب جانتا ہے۔ آخرت میں کیا عنایت فرمائے گا وہ بھی خوب جانتا ہے۔

دونوں صورتوں میں وہ ہم پر مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ رسول اکرم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ مومن کا معاملہ بھی کتنا تعجب خیز ہے کہ تکلیف آئے تو تب بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ نعمت ملے تب بھی اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اجر ہی اجر ہے۔

میری بہنو! میں نے آج مندرجہ بالا کہانی آپ کو اس لئے سنائی ہے تاکہ معمولی معمولی نقصان پر ہر وقت بچوں کو پیٹتی ہی نہ رہا کریں۔ گالیاں ہی نہ دیتی رہیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں اور صبر کیا کریں اور سوچیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بہتری ہو گی اور یہ کہا کریں کہ ”اللہ نے تقدیر میں جو لکھا تھا وہ کر دیا“ اس سے شیطان کو مایوسی پیدا ہو گی۔ آپ کا دل ماضی کو یاد کر کر کے حسرت میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اطمینان کی دولت ملے گی۔ باقی اللہ تعالیٰ سب کو اپنی عافیت میں رکھے۔ یہی دعا مانگنی چاہئے اور پھر جو ہو اس پر اللہ کا شکر اور صبر کرنا چاہئے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
والدین اپنے بچوں کو کس طرح پُراعتماد بنا سکتے ہیں؟


زاہد عمران

ایک چار ماہ کے تعلیمی کورس کی اختتامی تقریب میں شریک تھے، 30 شرکاءنے کامیابی سے کورس مکمل کیا تھا ، جن میں 21 خواتین اور 9 مرد تھے، تقریب میں اندازاً 150 مرد و خواتین موجود تھے ، پردہ کا اہتمام تھا، تمام شرکاءنے اس تقریب میں کورس کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرنے تھے، کورس کے منتظم کو ایک پیغام موصول ہوا کہ ایک بہن اس ہال سے نکل کر کسی اور کمرہ میں موجود ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ میری طبیعت خراب ہے، تمام معاملہ پر غور و خوض کرنے کے بعد اس بہن کو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ ہال کے اندر آجائیں ، تاثرات کے لیے آپ کا نام نہیں پکارا جائے گا ، چند لمحوں کے بعد وہ بہن ہال میں موجود تھی اور ان کی طبیعت بلکل ٹھیک ہو چکی تھی۔ آپ یقیناً ان کی بیماری سمجھ چکے ہوں گے، بیماری جسمانی نہیں ذہنی تھی اور اس بیماری میں اکثریت مبتلا ہے، اس بیماری کا نام "اعتماد کا نہ ہونا " یا "اعتمام میں کمی" ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات سے زیادہ فضیلت دی ہے، انسان کی بولنے ، سوچنے اور غور و فکرکرنے کی صلاحیت کے باعث تمام مخلو قات پر فضیلت کا ادراک آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے انسان نے عقل کو حیران اور آنکھوں کو دنگ کر دینے والی ایجادات و اصلاحات کی ہیں۔ ہر بچے کو اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی کم یا زیادہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پھر ان کے بڑے ان کو موافق یا مخالف ماحول مہیا کر تے ہیں جس سے ان کی صلاحیتیں بے کار یا کار آمد ہوجاتی ہیں، اعتماد ایک ایسی خوبی ہے جو موافق ماحول میں پروان چڑھتی ہے، اعتماد صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی اظہار پر بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ، یہی حوصلہ افزائی بچے کو مزید آگے بڑھنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ اگر بچہ اعتماد کی کمی کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہ کر پائے تو لوگ اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، جن کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ان کے لیے کامیابی کا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ اعتماد میں کمی یا اعتماد کا ہونا ذہنی کیفیت کا نام ہے ، اعتماد میں کمی والے بچے یا بڑے سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی بھی کام کریں گے اور ان سے غلطی سرزد ہوگی تو لوگ کیا کہیں گے ، ان پر ہنسا جائے گا، ان کی عزت میں کمی ہوگی لہٰذا وہ کوشش کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اعتماد والے بچے یا بڑے اس ذہنی کیفیت میں ہوتے ہیں کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اس میں غلطیاں ممکن ہیں اور یہی غلطیاں سیکھنے کے تجربات ہوتے ہیں ، وہ اعتماد کے ساتھ کوشش کرنا اس لیے بھی نہیں چھوڑتے ہیں کہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے اعتماد پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوسکتے ، لوگ اچھے کام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اگر غلطیاں ہو بھی گئیں تو کون ایسا انسان ہے جو پہلے مرحلے میں غلطیاں نہیں کرتا۔

اس ضمن میں بحیثیت والدین ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟

آپ والدین درج ذیل امور پر عمل کر کے بچوں کو اعتماد کے سفر پر گامزن کر سکتے ہیں :

• بچے کی دلچسپیوں اور محسوسات کی قدر کریں، بچے کو توجہ سے سنیں، اسے وقت دیں ، جن بچوں کو اہمیت دی جاتی ہے ، ا±ن کی شخصیت میں اعتماد کا اضافہ ہوتا ہے اور جن بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ بچے اعتماد کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔

• بچے کو نئے لوگوں سے ملنے کے مواقع دیں ، اپنے دوستوں اور رشتیداروں سے ملوانا اعتماد میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

• بچے کو بتائیں کہ شرمیلا پن بے وقعت احساس ہے ، آس پاس ایسی کوئی چیز نہیں جس سے اعتماد میں کمی آئے۔

• باہر کے ماحول میں گھلنے ملنے کے لیے بچے کے لیے کچھ اہداف مقرر کریں۔

مثلاً : (1) روزانہ ایک نئے فرد سے کم از کم ایک جملہ کہنا۔ (2) استاد صاحب سے روزانہ پڑھائی کے متعلق کم از کم دو سوال کرنا۔

• بچے پر اعتماد کی کمی کا لیبل لگانے سے گریز کریں ، اس سے اعتماد میں مزید کمی ہوگی، بچہ اعتماد میں کمی والی کیفیت تبدیل کرنے کی کوشش ترک کردے گا۔

• کسی ایسی جگہ ہر گز بچے کو نہ بھیجیں جہاں بچہ خوف محسوس کرے ، اعتماد میں اضافہ کے لیے تحفظ کا احساس انتہائی ضروری ہے۔

• بچے کے لیے مثال بنیں ، بچہ آپ کو کبھی بھی اعتماد کی کمی والی کیفیت میں نہ پائے ، بچہ جو دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔

• بچے کو اپنے ماضی کے اعتماد والے ان تجربات سے آگاہ کریں جب کسی بھی فورم پر آپ نے کسی بھی طرح کے اعتماد کا اظہار کیا ہو۔

• بچے کو ہر گز دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ اور تنقید کا نشانہ نہ بنائیں ، اگر اصلاح کرنی ہوتو اکیلے میں پر حکمت اور اصلاحی انداز میں کریں ، سب کے سامنے تحقیر کے باعث بچہ اعتماد کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔

• بچے کے اعتماد میں تھوڑی سی بھی بہتری پر تعریف کریں، سب کو بتائیں اور ہو سکے تو انعام دیں۔

• بچے کو رہنمائی دیں کہ جب کسی نئے بچے یا فرد سے ملتے ہیں تو کیا کہتے ہیں ، کس طرح مخاطب کرتے ہیں ، اکثر بچے اس وجہ سے بات نہیں کرپاتے کہ ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس وقت کیا کہنا چاہیے۔

• بچے کے کان آپ کے اور پورے گھرانے سے بار بار یہ سنیں کہ "ہمارا بچہ بہت با اعتماد ہے "، چاہے آپ کا بچہ فی الوقت اعتماد کی مطلوبہ منزل تک نہ بھی پہنچا ہو مگر یہ جملہ اس کو منزل تک پہنچانے میں مفید کردار ادا کرے گا ، بچہ اپنے لیے جو الفاظ بار بار سنتا ہے، اس پر یقین کرنے لگ جاتا ہے اور وہی بن جاتا ہے۔

• بچے کو بڑے لوگوں کی کہانیاں سنائیں ، بچے کو بتائیں کہ آپ نے بڑا انسان بننا ہے اور تمام بڑے اور عظیم لوگ پر اعتماد ہوتے ہیں ، پر اعتماد لوگ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺکی سیرت میں سے اعتماد پر مبنی واقعات سنائیں۔

• اسکول سے تعاون مانگیے کہ آپ کے بچے کو مختلف مقابلہ جات میں شرکت کر وائے۔

• اللہ تعالیٰ سے بچے کی حقیقی کامیابی جو کہ آخرت کی کامیابی ہے کہ ساتھ ساتھ اس کے علم اور اعتماد میں اضافہ کے لیے بھی د±عائیں مانگیں۔

 
Top