• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
والدین کی نافرمانی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
(( إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُ الْعُقُوْقَ۔))1
’’ بے شک اللہ تعالیٰ والدین کی نافرمانی کو پسند نہیں فرماتا۔ ‘‘
شرح…: العقوق: عق بمعنی پھاڑنا اور قطع کرنا ہے یہ برّ(نیکی) کی ضد ہے، مراد بچے کا وہ فعل ہے جس کے ذریعہ والدین کو تکلیف پہنچتی ہو۔
والدین اپنی اولاد کے بچپنے کی تکالیف، ان کی زندگی کی خواہش کرتے ہوئے برداشت کرتے ہیں اور اولاد والدین کے بڑھاپے کی تکالیف ان کی موت کی امید کرتے ہوئے اٹھاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ سے اچھا سلوک، نیکی کرنے اور رحمت کے بازو پھیلانے کا حکم دیا ہے اور نافرمانی و بدسلوکی سے منع فرمایا ہے
چنانچہ قرآن بیان کرتا ہے:
{وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا o وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o}
[الاسراء: ۲۳۔ ۲۴]

’’ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور شفقت و محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۴۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
والدین کی نافرمانی حرام اور اکبر الکبائر میں شمار ہوتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَ لَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟ … ثَـلَاثًا… قُلْنَا بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ أَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ… وَکَانَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: أَ لَا وَقَوْلُ الزُّوْرِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ، أَ لَا وَقَوْلُ الزَّوْرِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ فَمَا زَالَ یَقُوْلُھَا حَتَّی ثُلْثُ: لَا یَسْکُتُ۔))1
’’ کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں سے میں سے زیادہ بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟ (آپ نے اس بات کو تین بار دہرایا) ہم نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ یہ ہیں:) اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ بیٹھ گئے فرمایا خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی خبردار! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اور خاموش نہیں ہوتے تھے۔‘‘
والدین کی نافرمانی ان کی جائز اغراض میں مخالفت کرنے سے اور فرمانبرداری ان کی اغراض میں موافقت کرنے سے ہوتی ہے۔ اسی بناء پر اگر والدین یا کوئی ایک اپنی اولاد کو معصیت کے علاوہ کسی اور کام کے کرنے کا حکم دیں خواہ وہ اصل میں مباح ہو یا مندوب تو اس کو پورا کرنا اولاد پر فرض اور واجب ہے۔
بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ ماں باپ کا مباح کے کرنے کا حکم اولاد کے لیے مندوب بن جاتا اور مندوب کو کرنے کا حکم اس کی تربیت میں پختگی پیدا کردیتا ہے۔
والدین سے نیکی صرف ان کے مسلمان ہونے کی حالت میں ہی نہیں بلکہ اگر ذمی کافر بھی ہوں تو پھر بھی اولاد ان سے نیکی اور اچھا سلوک کرے گی۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ: ’’اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں‘‘ بڑھاپے کی حالت کو خاص کرتا ہے کیونکہ یہ حالت ایسی ہے کہ دونوں ہی کمزوری اور بڑھاپے کے ساتھ اپنی حالت تبدیل ہونے کی وجہ سے بچوں کے حسن سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔ چنانچہ جوانی کی نسبت بڑھاپے کی حالت میں ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کو زیادہ لازم کیا گیا ہے کیونکہ دونوں ہی اس حالت میں اولاد پر بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں۔ تو والدین بڑھاپے میں اولاد سے اسی چیز کے محتاج ہیں جس کی محتاجی اولاد کو بچپن میں تھی۔ اسی لیے اس حالت کو بیان کرنے میں خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی ہے کہ عموماً لمبا ٹھہرنا آدمی کے لیے بوجھ اور تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ والدین پر اولاد کا غضب ظاہر ہوجاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں۔ دین کی کمی اور بنوت (بیٹا ہونے کی حیثیت) کے زعم میں زبان درازی کرتا ہے، لہٰذا اس کے پھولے سانس سے جو چیز ظاہر ہوتی ہے ان میں سب سے کم مکروہ اکتاہٹ ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- راجع: الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ص: ۱۰/۱۵۵۔۱۶۰، ۱۴/۴۴، ۵/۱۲۰، وفتح الباري للعسقلاني، ص: ۱۰/۴۰۳۔۴۰۶، ۵/۶۸، وفیض القدیر للمناوي، ص: ۲/۲۲۷، ۴/۳۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بچوں کو حکم دیا گیا کہ والدین کے ساتھ نرمی اور شفقت سے باتیں کریں، جن میں کسی قسم کا عیب نہ ہو چنانچہ فرمایا: تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ قِیلَ: مَنْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہٖ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَہُمَا أَوْ کِلَیْہِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔))1
’’ اس شخص کی ناک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ جواب دیا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو بوڑھا پایا پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں نہ گیا۔ ‘‘
نیک بخت ہے وہ انسان جو والدین کی خدمت کے موقعہ کو غنیمت سمجھنے میں جلدی کرتا ہے کہ کہیں ان کی وفات کی وجہ سے یہ موقعہ ختم نہ ہوجائے اور اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور بدبخت ہے وہ انسان جو والدین کی نافرمانی کرتا ہے، خاص طور پر وہ جسے خدمت کرنے کا حکم پہنچ چکا ہے۔
’’ تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ‘‘ … اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کہو جس میں ادنیٰ سی بھی اکتاہٹ ظاہر ہوتی ہو۔
ابورجاء العطاردی سے مروی ہے کہ اف، ردی، فحش اور مخفی کلام کو کہتے ہیں۔
مجاہد رحمہ اللہ اس کا معنی کرتے ہیں: جب تو بڑھاپے کی حالت میں ان کے پیشاب و پاخانہ کو دیکھے جیسے وہ تیرے بچپن میں دیکھتے رہے تو تو انہیں گندا نہ سمجھ اور نہ اف کہو۔
آیت عام مفہوم رکھتی ہے کیونکہ ہر اکتاہٹ دینے والی اور بوجھل چیز کو کہا جاتا ہے کہ تیرے لیے اف ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب رغم من ادرک ابویہ او احدھما عند الکبر… رقم : ۶۵۱۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بعض لوگوں نے اف کا معنی حقیر اور چھوٹا سمجھنا کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ لفظ اف بھی بمعنی قلیل سے ماخوذ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لفظ اف سے بھی زیادہ ردی چیز کو جانتے تو اس کا تذکرہ کرتے۔
یہ بھی کہا گیا ہے: لفظ اف والدین کے حق میں سب سے زیادہ ردی اور حقیر چیز ہے کیونکہ اف کہنے والی اولاد کا والدین کو ٹھکرانا، نعمت کو ٹھکرانا ہے، نیز اس نے تربیت کا انکار کیا اور قرآن میں جو وصیت اولاد کو کی گئی تھی، اسے بھی رد کردیا۔ لفظ اف، ہر ٹھکرائی ہوئی چیز کے لیے بولا جاتا ہے اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا:
{اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ o} [الانبیاء:۶۷]
’’یعنی تم بھی اور تمہارے ساتھ یہ بت (جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو) بھی ٹھکرائے گئے ہیں اور مردود ہیں۔ ‘‘
وَلَا تَنْھَرْھُمَا…: نہر بمعنی ڈانٹنا اور سختی کرنا ہے۔
وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا…: یعنی نرم اور عمدہ بات کہو۔ مثال کے طور پر ماں باپ کے نام اور کنیت پکارنے کے بغیر کہے:
اے میرے ابو جان! اے میری امی جان!
وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ…:جیسے رعایا امیر کے سامنے اور غلام آقا کے سامنے عاجزی اور انکساری اور فرمانبرداری کرتے ہیں، ایسے ہی والدین پر شفقت اور نرمی کرنے اور ان کے سامنے انکساری اور تواضع کرنے کے لیے مذکورہ الفاظ بطور استعارہ استعمال ہوئے ہیں۔
لفظ ذل بمعنی نرمی ہے، جب چوپایوں میں یہ لفظ بولا جاتا ہے تو معنی ہوتا ہے وہ جانور جو سختی کے بغیر نرمی سے ہی مطیع ہوجائیں اور قابو آجائیں۔
مذکورہ آیت کے مطابق انسان کو چاہیے کہ والدین کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے اقوال، سکنات اور نظر میں بہترین تواضع و انکساری اور فرمانبرداری میں رکھے اور ان کو تیز نظروں سے نہ دیکھے کیونکہ یہ غصہ کرنے والے کا دیکھنا ہے۔
وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا…:اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو والدین کے لیے رحمت کی دعا کرنے کا حکم دے رہا ہے اور یہ بات بھی فرمائی کہ جیسے انہوں نے تم پر شفقت اور مہربانی کی ایسے تم بھی کرو۔ جب تو بچپن میں جاہل اور محتاج تھا تو تیرے ماں باپ نے تجھے اپنے آپ پر ترجیح دی، اپنی راتوں کو بیدار کیا، خود بھوکے رہے تیرا پیٹ بھرا، خود کپڑے نہ پہنے تیرے لیے کپڑوں کا بھی بندوبست کیا، تو تیری طرف سے بدلہ یہی ہے کہ جب وہ بڑھاپے کی اس حد کو پہنچ جائیں جس میں تو بچپن میں تھا تو ان سے ویسا ہی سلوک کرے جیسا وہ تیرے ساتھ کرتے رہے تھے اور کیونکہ اس وقت دونوں اس شفقت کے زیادہ حقدار ہیں۔
کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا …: تربیت کا خصوصی ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ بندے کو والدین کی شفقت اور تھکاوٹ کا احساس ہوسکے۔ چنانچہ یہ تذکرہ بندے کو والدین پر شفقت اور نرمی کرنے میں زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
والدین کی نافرمانی میں ان کو گالی دینا بھی آتا ہے جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ قَالَ: یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ۔))1
’’ بڑے سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا اپنے ماں باپ کو کون گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مطلب یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے باپ کو گالی دے وہ اس کے باپ کو گالی دے، یہ اس کی ماں کو گالی دے وہ اس کی ماں کو گالی دے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ والدین کو گالی ملنے کا سبب بننا بڑے سے بڑا گناہ ہے تو جس نے خود اپنے والدین کو صراحت کے ساتھ گالی نکالی اس کا گناہ تو اس سے بھی بڑھ جائے گا۔
وَکَیْفَ یَلعنُ الرَّجلُ وَالِدَیہ…: بھلا اپنے والدین کو کون گالی دے گا؟ حدیث کے اس جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ سائل اس حرکت کو بعید سمجھتا تھا کیونکہ مستقیم طبیعت ایسی حرکت کا انکار کرتی ہے اور جواب سے یہ وضاحت ہوگئی کہ گو عموماً بذات خود انسان گالی نہیں دیتا مگر والدین کو گالی ملنے کا سبب بن جاتا ہے اور اس کا وقوع اکثر ممکن ہے۔
جب جہاد فرض عین نہ ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کے لیے نکلنا بھی نافرمانی کے تحت آتا ہے۔
(( فَقَدْ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَجَاھِدُ؟ قَالَ: لَکَ أَبْوَانِ؟ قَالَ: نَعَمَ قَالَ: فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ۔))2
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کو ایک آدمی نے کہا: کیا میں جہاد کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے والدین (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں جی! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہی کی خدمت کر یہی جہاد ہے۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا یسب الرجل والدیہ، رقم : ۵۹۷۳۔
2- أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا یجاھد إلا بإذن الأبوین۔ رقم : ۵۹۷۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نوٹ…: اس میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس شخص نے خود کو جہاد کے لیے پیش کیا تھا، اسی لیے اسے جہاد کے ثواب کی خوشخبری ملی تھی۔ اگر گھر ہی بیٹھا رہتا تو یہ خوشخبری نہ مل سکتی تھی۔ آج بھی امیر جہاد کے سامنے پیش ہونا ضروری ثابت ہوا، اب امیر چاہے کوئی اور انتظام (خدمت وغیرہ کا) کردے، چاہے اسے ہی گھر واپس کردے یہ امیر کے اختیار میں ہے۔
بخاری کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْأُمَّھَاتِ وَمَنْعًا وَّھَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَکَرِہَ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ وَکَثْرَۃَ السُّؤَلِ وَاِضَاعَۃَ الْمَالِ۔ ))1
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام کردی ہے اور ناجائز روک لگانا اور کسی سے دھوکا کرنا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا۔ اور اسے تمہارا سنی سنائی پر یقین کرلینا ناپسند ہے اور سوال بکثرت کرنا اور مال ضائع کرنا (بھی پسند نہیں)۔‘‘
اس حدیث کی تفصیل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ گو باپ کی نافرمانی بھی کبیرہ گناہ ہے مگر ماؤں کا خصوصی تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کی نافرمانی زیادہ قبیح ہے یا یہ وجہ ہے کہ باپ کی با نسبت ماؤں کی نافرمانی میں جلدی کی جاتی ہے کیونکہ عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔
اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ شفقت اور نرمی وغیرہ میں ماں با نسبت باپ کے زیادہ مقدم ہے۔ اس حدیث میں یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے: کسی کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے خصوصی طور پر اس کا ذکر کرنا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( رِضَا الرَّبِ فِيْ رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِ فِيْ سَخْطِ الْوَالِدِ۔))2
’’ رب کی رضا والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ ‘‘
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باپ کی عزت و احترام اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے تو جس نے اللہ کا حکم مانتے ہوئے والد کی اطاعت اور عزت کی، درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی اور وہ اس سے راضی ہوگیا اور جس نے اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے والد کو غضب ناک کیا اور اس کی اہانت کی تو اس نے درحقیقت اللہ کو غضب ناک کیا اور اللہ اس سے ناراض ہوگیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: عقوق الوالدین من الکبائر۔ رقم : ۵۹۷۵۔
ٔ2- صحیح سنن الترمذي، رقم : ۱۵۴۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نوٹ: مذکورہ حدیث کے مطابق رب تعالیٰ کی ناراضی اس وقت ہے جب محض والد کی نافرمانی ہو اور اگر اس کے ساتھ خالق کی نافرمانی مل جائے تو پھر کیا انجام ہوگا؟ یہ اس سخت ترین وعید و ڈانٹ سے معلوم ہوا کہ والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ثَـلَاثَۃُ لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: اَلْعَاقُ لِوَالِدَیْہِ… وَالْمَرْأَۃُ الْمُتَرَجِّلَۃُ الْمُتَشَبِّہَۃُ بِالرِّجَالِ، وَالدَّیُوْثُ۔ وَثَـلَاثَۃٌ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ: اَلْعَاقُ لِوَالِدَیْہِ… وَالْمُدْ مِنُ الْخَمْرَ، وَالْمَنَّانُ بِمَا اَعْطٰی۔))1
’’ تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہیں دیکھیں گے (ان میں سے ایک) اپنے والد کا نافرمان ہے۔ ایک وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اپناتی ہے۔ اور دیوث (بے غیرت) … اور تین آدمی جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے (ان میں سے ایک) اپنے والدین کا نافرمان ہے اور ہمیشہ شراب پینے والا اور کچھ دے کر احسان جتلانے والا۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۳۰۷۱۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top