عبدالعلیم سلفی
رکن
- شمولیت
- اگست 25، 2013
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 63
وراثت کی تقسیم میں ظلم اورناانصافی اور اس کا بھیانک انجام
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی (سعودی عربیہ)
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی (سعودی عربیہ)
اللہ تعالی کا کوئی بھی قانون کسی بھی حال میں عدل اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا ، اس کا مثبت اور دور رس اثر ،سسٹم ، معاشرہ اور خاندان سے لے کر فرد پر ضرور پڑتاہے ۔اور اس سے بڑھ کر اس میں بندوں کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کا اظہار بھی ہے ، کیونکہ رب کی رضا اور اس کے حکم کی تابعداری اور اطاعت وفرمانبرداری اور نافرمانی ہی اس کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار ہے، اللہ کے حکم کا تعلق عبادات سے ہوخواہ معاملات سے ، اس کا مطالبہ کسی فرد سےہو یا معاشرے سے ، وہ حکم بذریعہ قرآن مجید وارد ہو یا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،بندہ ہر حال میں اپنے رب کے احکامات کا پابندہے جب تک کہ اس کے سامنے کوئی مناسب شرعی عذر نہ ہو۔اللہ تعالی فرماتاہے:(وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) (اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کرده (حکم )سے ہی فیصلہ نہ کریں وه فاسق ہیں)۔ (المائدۃ/47)۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے احکا م کی پیروی کرنے کے بعد کسی بھی فرد کی خواہشات اور چاہتوں کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس کی ترجیح کو ممنوع قراردیاہےاور ایسے لوگوں کی نافرمانی کو واضح کرتے ہوئے انہیں فسق کا مرتکب گردانا ہے ،فرماتاہے:(وَاَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ؕ وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ)۔ (اورآپ ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کرده وحی کے مطابق ہی حکم کیا کیجیئے، ان کی خواہشوں کی تابعداری نہ کیجیئے اور ان سے ہوشیار رہیئے کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کریں، اگر یہ لوگ منھ پھیر لیں تو یقین کریں کہ اللہ کا اراده یہی ہے کہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دے ہی ڈالے اور اکثر لوگ نا فرمان ہی ہوتے ہیں)۔ (المائدۃ/49)۔
اللہ کے انہیں احکامات میں سے ایک کسی انسان کے فوت ہونے کے بعد اس کے ترکہ میں سے اس کےقریبی رشتے داروں کے درمیان وراثت کی تقسیم ہے جو اس کے ہر وارث کا حق ہے ،جن کے حصے کا تعین شریعت نے نہایت ہی عادلانہ اور حکمت بھرے طریقے سے کردیاہے اور قرآن وسنت کے نصوص میں جگہ بجگہ اس کی وضاحت کردی گئی ہے ۔اللہ رب العزت نے اسے ایک جگہ اپنی وصیت قراردیاہے ، جس کا معنی مقررکاہے ، وراثت کے حصوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے:( وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ) ۔ (یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ دانا بردبارہے)۔ (النساء/12)۔ اور اسی طرح ایک جگہ اسے اپنی طرف سے عائدکردہ فریضہ قراردیاہے، فرماتاہے:(فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا)۔ (یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ (مقرر کرده) ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والاہے)۔ (النساء/11) ۔یہی نہیں اس حکم کو اللہ رب العزت نے ایسی حد قراردیاہے جس پراطاعت کامیابی اورنافرمانی عذاب کا سبب ہے ، فرماتاہے) :تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ * وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ)۔(یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے)۔ (النساء/13-14)۔
چنانچہ وراثت ان تمام حقوق میں سے ایک ایسا حق ہےجس کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے اوردیگر حقوق ومظالم کی طرح اس کا حساب بھی بروزقیامت ہونے والاہے ، اور جس نے بھی اس حق کو ماراہوگا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دینا ہوگا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَتُؤَدُّنَّ الحُقُوقَ إلى أهْلِها يَومَ القِيامَةِ"۔"قیامت کے دن تم سب حقداروں کے حقوق ان کو ضرور ادا کرو گے"۔ (صحیح مسلم/2582) ۔
واضح رہے کہ جو وراثت میں حصہ نہیں دیتے وہ زندگی بھرحرام کھاتےہیں۔ظلما کسی کے مال کو کھانے کی حرمت اور گناہ کے بارےمیں یتیموں کے مال کے سلسلے میں ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے:(إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا).( جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه جنہم میں جائیں گے)۔(النساء /10)۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں وراثت او رتقسیم وراثت کے سلسلے میں جتنی بے اعتنائی برتی جاتی ہے شاید ہی کسی خاندانی اور معاشرتی معاملے میں کی جاتی ہو۔ اس پھیلتی ہوئی سماجی ناسور کی خطرناکی کو دیکھتےہوئے ہندستان کےاپنے ایک سفرمیں میں نے اپنے بعض مشائخ کے سامنے میں ذکر کیاکہ میں ان لوگوں کے یہاں کھانے یا ان کی دعوت قبول کرنے سے پرہیز کرنا چاہتاہوں جو بہنوں کو وراثت کے حصہ سے محروم رکھے ہوئے ہیں ،چنانچہ جب ایسے گھروں کے بارے میں بات ہوئی اور سوچنا شروع کیاکہ وہ کون لوگ ہیں جن کی دعوت میں قبول کرسکتاہوں ؟بہت غور کرنے کے بعد یہ چیز سامنے آئی کہ پورے علاقے میں کچھ ایک چھوڑ کر شاید ہی کوئی ایسا گھرملے جہاں میں اپنی اس سوچ کے ساتھ بلاجھجھک کھا پی سکتاہوں ، کیونکہ یہ نوادرمیں سے ہے کہ انہوں نے وراثت میں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ انصاف کیاہو ۔ اس کا واضح سا مطلب ہے کہ بہنوں او ربیٹیوں کا حق مار نا ایک عام سی بات ہوچکی ہے ،جس کا ارتکاب کرنے والوں کے اندر ادنی سا بھی شعورنہیں ہے کہ وہ لگاتار حرام خوری میں مبتلاہیں اور انہیں اللہ کے حکم کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔
وراثت میں ظلم وناانصافی اور شریعت کے احکام سے بے رخی کے کئی ایک راستے اور حیلے ہیں جنہیں اپنا کر آج کا مسلم معاشرہ غیرشرعی عمل اور ظلم وناانصافی کا مرتکب ہورہا ہے ، آج میں انہیں میں سے چند کا مختصرا ذکر کردینا مناسب سمجھتاہوں کہ شاید اس سے کچھ لوگوں کو توفیق ملے اور اس جرم اور ظلم کے ارتکاب سے بچیں ۔اللہ تعالی ہی توفیق دینےوالاہے:
(1) - اولا تو وراثت کی تقسیم نہیں ہوتی اوراگرہوتی بھی ہے تو غیرشرعی طریقہ پر۔
(2) - مضبوط بھائی یا رشتہ دار اپنے سے کمزورکی وراثت کو ہڑپ لیتاہے۔
(3) - اگر کسی بھائی کی شادی نہیں ہوئی ہےتو اسے وراثت میں حصہ نہیں دیاجاتا، یہ کہہ کرکہ اسے اس کی کیاضرورت ہے ۔
(4) - وراثت کی تقسیم میں بلا کسی شرعی عذرکے تاخیرکی جاتی ہے اور اس میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتاہے ،جس کی وجہ سے کچھ لوگ اس کے اندرناحق تصرف کرتے ہیں یا کچھ لوگوں کے حقوق کے ضائع ہونے کا خطرہ رہتاہے۔
(5) - شرعی حصے جو مقررہیں ان کے ساتھ من مانی کی جاتی ہے ، جیسے بعض حصے داروں کو زیادہ دینا اور بعض کو کم ۔
(6) - بہنوں کووراثت میں عام طور پرحصہ نہیں دیا جاتا ہے ،یہ کہہ کر کہ اس کی شادی میں بہت خرچ ہواہےاور ڈھیر سارا جہیز دینا پڑاہے ۔ اور بسا اوقات یہ بھی کہاجاتاہے کہ باپ نے اتنا چھوڑاہے کہ اس میں بھائیوں کا ہی پورا نہیں ہوگاتو بہنوں کو کہاں سے دیاجائے۔ یہ حرام کھانےکا ایک حیلہ بس ہے ، ورنہ اگر باپ ایک روپیہ یا ایک سوئی یا رسی بھی چھوڑتاہے اس میں سارے بھائی بہنوں کا شرعی ضابطے کے مطابق حصہ بنتا ہے ۔یہ حرام اور حلال کا مسئلہ تو ہے ہی اس سے بڑھ کر یہاں اللہ کے حکم کا اور اس کی شریعت کےنفاذکا مسئلہ ہے ،جس سے مختلف حیلوں کے ذریعہ مکمل روگردانی کی جاتی ہے۔
(7) - زیادہ تر بہنیں یہ کہہ کروراثت میں سے اپنا حصہ نہیں لیتی ہیں کہ اس کے بعد میکے میں ان کی پوچھ اور عزت نہیں ہوگی ایک طرح سےیہ اللہ کے حق کا انکاراورغلط طریقے کو رواج دینا اور اس ظلم وناانصافی اور برائی میں ان کا ساتھ دیناہے ۔ بھائیوں کو چاہئے کہ بہن کا حصہ دے اور اس کی جوعزت ،محبت اور خدمت ازروئے شرع ہوتی ہے اس میں کچھ بھی کمی نہ کرے۔
(8)- وراثت کی تقسیم میں کسی حصہ دار کو بوڑھا ،بچہ اور عورت سمجھ کر یا انہیں بلا ضرورت والا سمجھ کر اس سے محروم کردیا جاتاہے ،جو ان کے ساتھ ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔
(9) - بسا اوقات یہ بھی دیکھاجاتاہے کہ بھائی لوگ وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی بہنوں کو مجبو ر کرتے ہیں کہ وہ اپنی حصہ داری سے بھائیوں کے لئے دست بردار ہوجائیں ،جو حرام خوری کے حیلوں میں سے ایک حیلہ ہے ،اس میں غلطی دونوں طرف سے ہوتی ہے ، ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی بھی حیلے اور بہانے کے بغیر تمام ورثہ کے درمیان شریعت کے حکم کے مطابق وراثت تقیسم ہوجائے ، اس کے بعد اگر بہن یاکوئی بھی وارث اپنے حصےپر قبضہ کے بعد چاہے اپنے من کے مطابق اور خوشدلی سے اس میں کسی کے دباؤ کے بغیر تصرف کرے ۔
(10) - بعض جگہوں پر وراثت تقسیم کی بھی جاتی ہے تو اس میں عدل سے کام نہیں لیا جاتاہے ،بلکہ بعض حصہ داروں کو حیلوں کے ذریعہ اس کے حصہ سے کم دیاجاتاہے ،جیسے اس کےپاس اولاد کم ہے اس کے مصارف کم ہیں، اسے اس کی کیا ضرورت ہے ، اس کو باپ نے ہم سے زیادہ لاڈکیا ہے یا اس کے اوپر زیادہ خرچ کیاہے وغیرہ وغیرہ ۔ اور خاص طور سے بہنوں کے ساتھ معاملہ اس سےبھی برا ہوتاہے، جبکہ یہ ایک امانت ہے اور امانتوں کی صحیح طریقے سے ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہےاور یہی عدل کا تقاضہ بھی ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے:( اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَهْلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا)۔(اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وه بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔ (النساء/58)۔
(11) - بد دینی ، بددیانتی او رہندوانہ رسم کا ذہنوں پر اس قدر تسلط اور زور ہوچکاہے کہ اگر کہیں بہنوں کی وراثت کا ذکر کیجئے تو عورت سے لے کر مرد تک سب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کہیں جائداد میں بہنوں کا بھی حصہ ہوتاہے؟ بھائی تو خود محتاج ہے ، اس کی بہت ساری ضرورتیں ہیں ، اس کے پاس بال بچے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اللہ انہیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
(12) - یتیموں کے سلسلےمیں تو تقریبا زیادہ تر معاشرے میں تفریط اور ظلم دیکھنے کو ملتاہے ،جس کے بارے میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایاہے (إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا) .( جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه جہنم میں جائیں گے)۔(النساء /10)۔
بلا شبہ ایسے لوگ جو وراثت میں کسی کا بھی حصہ مارتے ہیں وہ زیادہ ہو خواہ کم اسے سے دنیا میں تو تھوڑی سی دولت حاصل کرلیتےہیں، اور وہ بھی چند دنوں میں ختم ہوجائیں گے یا پھر اولاد میں سے کوئی اس پرقبضہ لےگا یا پھر مرنے کے بعد تو ویسے ہی کسی او رکا ہونے والاہے ۔ ایسا انسان حرام کی اس دولت کے باوجود ان لوگوں میں سے ہے جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مفلس اور عاجز قراردیاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا : "کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟" صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: "میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ )دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا"۔(صحیح مسلم/2581)۔
اسی طرح اگر کسی نے بہنوں یا کسی دیگر ورثہ کا زمین میں ہونے والے کسی حصے کو ہڑپا ہے تو وہ اس وعید کے زمرے میں آتاہے جس کا ذکر حدیث رسول میں ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ"۔ جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبا لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا"۔(صحیح بخاری/3195 ،3198 ، صحیح مسلم/1610 ، 1612)۔
واضح رہے کہ مسلمان معاشرہ میں وراثت میں ظلم وناانصافی کے مختلف اسباب ہیں ،جیسے :لالچ ، سستی وکوتاہی ، ورثہ میں سے کسی کو حقیر سمجھنا ، گھریلو جھگڑے ، آپسی چپقلش ، آپس میں محبت کی کمی ،دین سے دوری ، شریعت کے احکام اور اس کے فوائد وثمرات سے ناواقفیت ، معاشرے کے اندرپھیلے برے اعمال اور رسم ورواج کی ذہنی غلامی اور اکتساب مال کے لئے مختلف حرام او رناجائز طریقوں میں ملوث ہونا وغیرہ ۔ اورہندستانی معاشرے میں خاص طور سے بیٹی بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کا سب سے بڑا سبب مروجہ رسم جہیز ہے ۔ بیٹیوں کی شادی میں جہیزجیسے بھیک منگے اور ڈاکووانہ رسم نے وراثت کے عادلانہ شرعی نظام کی تنفیذو تعمیل کے اندر کوتاہی اور ظلم وناانصافی کو خوب بڑھاوا دیاہے۔واللہ المستعان ۔
آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ وراثت کے معاملے کی اہمیت کو سمجھیں،اور اللہ کی پکڑسے ڈریں اور لوگوں کو اس جانب متوجہ کریں او راس کی ضرورت او راہمیت سے انہیں واقف کرائیں اور اس کے اندر کسی بھی طرح کی کوتاہی اور ناانصافی کے بھیانک انجام سے انہیں باخبرکریں کیونکہ ہمارے اوپر یہ ایک دینی اور معاشرتی ذمہ داری ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق دے ، وصلی اللہ علیہ خیرخلقہ وسلم۔
*********