• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ سے متعلق بعض احادیث ؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

ایک صاحب نے یہ سوالات میرے فیس بک پیج پر کیے ہیں۔ برائی مہربانی تسلی بخش جوابات مطلوب ہیں۔

اگر رسول اللہ ﷺ سے مدد مانگنا شرک ہے تو ان صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے بارے ایڈمن صاحب کیا فتوی دو گے جنیوں نے حضور ﷺ کے بعد از وصال مدد مانگی

’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺکی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم ﷺاس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنزل العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية : في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وً ابنُ کَثِيْرٌ في البداية والنهاية، 5 / 167، وَ قَال : إسْنَادُهُ صَحيحَ، والعَسْقلانِيُّ في الإصابة، 3 / 484 وقَال : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شيبة بِإِسْنَادٍ صَحِيح

’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لاکر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اسکے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔

حلبی ، السیرۃ الحلبیہ، 493:3 سیوطی،الخصائص الکبریٰ،492:2 ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر،436:30

’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ (اس کی تپش کے باعث لوگوں کے) نصف کانوں تک (پسینہ) پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 854، الرقم : 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم : 8725، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم : 3677، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه.

تفصیل بیان کرنے سے پہلے یہ جان لیں جو عمل دنیا میں شرک ہے ایسا نہیں وہ عمل قیامت کے دن شرک نہیں ہوگا۔

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

قیامت کے دن تمام کے تمام لوگ جب حساب شروع نہیں ہوگا پسینے سے برا حال ہوگا قیامت کی شدید ترین گرمی ہوگی تو لوگ آپس میں مشورہ کریں گے اس تکلیف سے نجات حاصل کرنے کیلئے کریں کیا ، بروز حشر کوئی یہ مشورہ نہیں دے گا چلو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں سارے کہیں گے ایسا کرتے ہیں آدم علیہ السلام (جو کہ غیر اللہ ہیں ) کے پاس مدد کیلئے جاتے ہیں ، مشکل کشائی کے لیے جاتے ہیں وہ ہمارے باپ ہیں ، باپ کا اپنی اولاد کیساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ لوگ آدم علیہ السلام سے عرض کریں گے وہ فرمائیں گے آج نفسا نفسی( یعنی ہر ایک کو اپنی جان کی پڑی ہے)ہے تم کسی اور کی طرف جاؤاسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہ الصلٰوۃ و السلام کے پاس سے ہوتے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس جائیں گے ، آپ علیہ السلام فرمائیں گے جو آج تمھاری مدد کر سکتے ہیں ، جو تمھاری مشکل کشائی فرما سکتے ہیں جو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کر سکتے ہیں وہ سرکار دو عالم ﷺ ہیں۔

پھر ساری مخلوق (مسلمان ،کافر، منکر ،منافق )جمع ہو کر نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آئیں گے اور وہاں آکر عرض کریں گے آپ ﷺ ہماری مدد فرمائیں ہماری مشکل کشائی فرمائیں آج بڑی آزمائش ہے ۔ سرکار ﷺ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائیں گے اور حضو ر ﷺ اللہ رب العزت کی حمد کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کروں گاتو اللہ رب العزت فرمائے گا: آپ ﷺ اپنا سر اٹھائیں، آپ ﷺ کہیے آپ ﷺ کی سنی جائے گی، آپ ﷺ دعا کیجئے ،دعا قبول کی جائے گی۔آپ ﷺ کی گزارش پر لوگوں کا حساب کتاب شروع ہو گا۔

http://urdumajlis.net/index.php?threads/وسیلہ-سے-متعلق-بعض-احادیث-؟؟.35233/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ایک صاحب نے یہ سوالات میرے فیس بک پیج پر کیے ہیں۔ برائی مہربانی تسلی بخش جوابات مطلوب ہیں۔

’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺکی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم ﷺاس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنزل العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية : في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وً ابنُ کَثِيْرٌ في البداية والنهاية، 5 / 167، وَ قَال : إسْنَادُهُ صَحيحَ، والعَسْقلانِيُّ في الإصابة، 3 / 484 وقَال : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شيبة بِإِسْنَادٍ صَحِيح
مالک الدار کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ؐ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیؐ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(ج٦ص٣٥٦ح٣٢٠٠٢

الجواب:۔ یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے: حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ''ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔'' [الرسالہ:ص٥٣] اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں: ''حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔'' [علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص٩٩]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ''اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔'' [فتاویٰ رضویہ:٥/٢٤٥]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: ''مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔'' [خزائن السنن:١/١] اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے (دیکھئے میزان الاعتدال:ج٢ص٢٢٤،التمہید:ج١٠ص٢٢٨ )جو عن سے روایت کر رہا ہے۔

عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں ، اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔'' [آپ زندہ ہیں واللہ:ص٢٥١]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں: ''وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث'' [آپ زندہ ہیں واللہ:ص٢٥]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟

- See more at: http://www.ahnafexpose.com/index.php/en/answer/article/179-malik-al-dar-ki-rawait-ki-tahqeeq#sthash.2lHuerSg.dpuf
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لاکر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اسکے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔

حلبی ، السیرۃ الحلبیہ، 493:3 سیوطی،الخصائص الکبریٰ،492:2 ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر،436:30
یہ روایت ۔۔الخصائص الکبری للسیوطی ۔۔ میں مندرجہ ذیل الفاظ سے موجود ہے ۔۔
وَأخرج ابْن عَسَاكِر عَن عَليّ بن أبي طَالب قَالَ لما حضرت أَبَا بكر الْوَفَاة أقعدني عِنْد رَأسه ، وَقَالَ لي يَا عَليّ إِذا أَنا مت فغسلني بالكف الَّذِي غسلت بِهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وحنطوني واذهبوا بِي إِلَى الْبَيْت الَّذِي فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
فَاسْتَأْذنُوا فَإِن رَأَيْتُمْ الْبَاب قد فتح فادخلوا بِي وَإِلَّا فردوني إِلَى مَقَابِر الْمُسلمين حَتَّى يحكم الله بَين عباده
قَالَ فَغسل وكفن وَكنت أول من بَادر إِلَى الْبَاب فَقلت يَا رَسُول الله هَذَا أَبُو بكر يسْتَأْذن فَرَأَيْت
الْبَاب قد فتح فَسمِعت قَائِلا يَقُول ادخُلُوا الحبيب إِلَى حَبِيبه فَإِن الحبيب إِلَى الحبيب مشتاق ،وَقَالَ ابْن عَسَاكِر هَذَا حَدِيث مُنكر

اور اس روایت کے ساتھ ہی علامہ جلال سیوطی نے صاف لکھا ہے کہ :ابن عساکر کہتے ہیں یہ رایت منکر ہے
وَفِي إِسْنَاده أَبُو الطَّاهِر مُوسَى بن مُحَمَّد بن عَطاء الْمَقْدِسِي كَذَّاب عَن عبد الْجَلِيل المري وَهُوَ مَجْهُول ‘‘
اس میں موسی بن محمد نامی راوی کذاب ،یعنی بے حد جھوٹا ،ہے اور وہ جس سے روایت کر رہا ہے اس کا نام عبد الجلیل
ہے ،اور وہ بھی مجہول ہے؛

الخصائص الكبرى
المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺکی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم ﷺاس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنزل العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية : في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وً ابنُ کَثِيْرٌ في البداية والنهاية، 5 / 167، وَ قَال : إسْنَادُهُ صَحيحَ، والعَسْقلانِيُّ في الإصابة، 3 / 484 وقَال : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شيبة بِإِسْنَادٍ صَحِيح
اس روایت کا بہترین علمی جواب جناب حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے ’’ توحید اور شرک کی حقیقت ‘‘ میں دیا ہے :
ملاحظہ فرمائیں :
مالك الدار1.gif
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 12903

آپﷺ کو وسیلہ بنانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 17 August 2014 10:45 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنا یا جا سکتا ہے ؟ جیسے تمام لو گ کہتے ہیں کہ وہ ہما رے لیے وا سطہ یا وسیلہ ہیں جس طرح آد م علیہ السلام وسیلہ بنے تھے ۔ جو فضا ئل اعما ل میں لکھا ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے آنکھ کھو لی تو اللہ کے نا م کے سا تھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م تھا ۔آدم علیہ السلام نے اللہ کو اس نا م کا واسطہ دیا تو ان کی بخشش ہو گئی ۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یا د رہے وسیلہ کی دو قسمیں ہیں : ایک مشروع اور دوسر ی ممنو ع پھر مشرو ع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں :

(1)مو من کا اللہ سے وسیلہ چا ہنا اس کی بر تر ذا ت اس کے اسما ئے حسنیٰ اور صفا ت عا لیہ کے ذریعہ ۔

(2)مو من کا وسیلہ چا ہنا اپنے اعما ل صا لحہ کے ذریعہ ۔

(3)مو من کا اللہ تعا لیٰ سے وسیلہ چا ہنا اپنے حق میں مو من بھا ئی کی دعا کے ذریعہ ۔

اور ان تینوںقسموں کی مشروعیت پر بے شما ر دلا ئل کتا ب و سنت میں مو جو د ہیں ۔اور تین قسمیں وسیلہ کی وہ ہیں جو ممنو ع ہیں :

(1)کسی ذا ت اور شخص کو وسیلہ بنانا مثلاً کسی مخصوص آدمی کا نا م لے کر کہے کہ اے اللہ ! میں تیری با ر گا ہ میں فلاں شخص کو وسیلہ بنا کر پیش کر تا ہوں کہ تو اس کے وسیلہ سے میری حا جت پو ری فر ما دے ! وسیلہ لینے والے کے دل میں فلا ں شخص سے اس شخص کی ذا ت مرا د ہو۔

(2)کسی کی جا ہ حق حر مت اور بر کت کا وسیلہ لینا مثلاً وسیلہ لینے ولا کہے : اے اللہ ! فلاں شخص کا تیر ے پا س جو مر تبہ ہے اس کو وسیلہ بنا تا ہوں یا فلاں شخص کا تجھ پر جو حق ہے اس کو وسیلہ بنا تا ہوں یا اس شخص کی حر مت اور بر کت کو وسیلہ بنا تا ہوں کہ تو میر ی حا جت پو ر ی فر ما دے !

(3)کسی کے وسیلہ سے اللہ پر قسم کھا نا مثلاً کہنے والا کہے : اے اللہ ! فلاں شخص کے وسیلہ سے تجھ پر قسم کھا تا ہوں کہ تو میر ی حا جت پو ر ی فر ما دے !

ممنوع وسیلہ کو حلال سمجھنے والے انہی تین طریقوں پر وسیلہ لیتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں ہی طریقے با طل اور اصول دین کے مخا لف ہیں ۔(کتا ب "مشروع اور ممنوع وسیلہ کی حقیقت ")

اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت کو وسیلہ بنانا جا ئز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتبا ع کو وسیلہ بنانا جا ئز ہے کیو نکہ اتبا ع عمل صا لح ہے نیز یہ قصہ کہ آدم علیہ السلام نے خطا ء کی معا فی کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت کا وسیلہ لیا من گھڑت واقعہ ہے جس کی کو ئی اصل نہیں اس میں راوی عبدالرحمن بن زید(قال البخاري ضعفه علي (ابن مديني) جدا وانظر الميزان (٢/٥٦٤) وقال ابن سعد كا ن كثير الحديث ضعيفا جدا وقال ابو حاتم ليس بقوي وقال الطحاوي حديثه عند اهل العلم بالحديث في النهاية من الضعف وقال الحاكم وابونعيم :روي عن ابيه احاديث موضوعة وقال ابن الجوزي اجمعوا علي ضعفه التهذيب رقم (٣٥٨)با لا تفاق ضعیف ہے کثر ت سے غلطیاں کر تا ہے اور ابو حا تم بن حبا ن رحمۃ اللہ علیہ کا قو ل ہے عبد الر حمن بے خبر ی میں احا دیث الٹ پھیر کے بیا ن کر تا تھا مر سل کو مر فو ع بنا دیا اور مو قو ف کو مسند قرار دے دیا ۔

خو د امام حا کم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتا ب " الضعفاء " میں ان کو ضعیف قرار دیا ہے علا مہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تعجب کا اظہا ر کیا ہے کہ حا کم نے اس روایت کو کیسے نقل کر دیا کہ جب کہ خود انہوں نے اپنی "المدخل " میں ذکر کیا ہے کہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم اپنے وا لد سے مو ضو ع احا دیث کی روا یت کر تے تھے ۔تا ہم احا دیث صحیحہ سے اور قرآنی شہا دت سے ثابت یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی خطا ء ان کے اسغفا رو توبہ کی وجہ سے معا ف ہو ئی ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت کو وسیلہ بنانے سے ارشا د با ری تعا لیٰ ہے :

﴿قالا رَ‌بَّنا ظَلَمنا أَنفُسَنا وَإِن لَم تَغفِر‌ لَنا وَتَر‌حَمنا لَنَكونَنَّ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ﴿٢٣﴾... سورةالاعراف
"ان دو نوں نے کہا : اے ہما ر ے رب ! ہم نے اپنی جا نوں پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصا ن اٹھا نے والو ں میں ہو ں گے " امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کا فر ما ن ہے : کسی کے لیے یہ جا ئز نہیں کہ اللہ کو اس کی ذا ت کے سوا کسی اور ذریعہ سے پکا ر ے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ
ج1ص282

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
آدم علیہ السلام کا جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کووسیلہ بنانے والی حدیث کا باطل ہونا



بطلان حديث توسل آدم بمحمد عليهما الصلاة والسلام
آدم علیہ السلام کا جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کووسیلہ بنانے والی حدیث کا باطل ہونا؛

قرأت هذا الحديث وأريد أن أعرف هل هو صحيح أو غير صحيح ؟
( لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي . فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمداً ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ، ونفخت في من روحك، رفعت رأسي ، فرأيت على قوائم العرش مكتوبا : لا إله إلا الله ، محمد رسول الله ، فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك . فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ، ادعني بحقه ، فقد غفرت لك ، ولولا محمد ما خلقتك ).



میں نے مندرجہ ذيل حدیث پڑھی ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں ؟
( جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا توکہنے لگے : اے میرے رب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے ، تواللہ تعالی نے فرمایا اے آدم علیہ السلام تونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوکیسے جان لیا حالانکہ میں نےابھی تک اسے پیدا بھی نہیں کیا ؟
توآدم علیہ السلام کہنے لگے اے رب اس لیے کہ جب تونے مجھے اپنے ھاتھ سے بنا کرروح پھونکی تومیں نے اپنا سراٹھایا توعرش کے پایوں پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تومجھے علم ہوگيا کہ تو اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ہی لگاتا ہے جوتیری مخلوق میں سے تجھے سب سے زيادہ محبوب ہو، تواللہ تعالی نے فرمایااے آدم توسچ کہہ رہا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ، مجھے اس کے واسطے سے پکاروتومیں تجھے معاف کرتا ہوں ،اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تومیں تجھے بھی پیدا نہ کرتا ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب
الحمد لله
هذا الحديث موضوع ، رواه الحاكم من طريق عبد الله بن مسلم الفهري ، حدثنا إسماعيل بن مسلمة ، أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، عن عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة . . . ثم ذكر الحديث باللفظ الذي ذكره السائل .

وقال الحاكم : هذا حديث صحيح الإسناد اهـ .

هكذا قال الحاكم ! وقد تعقبه جمع من العلماء ، وأنكروا عليه تصحيحه لهذا الحديث ، وحكموا على هذا الحديث بأنه باطل موضوع ، وبينوا أن الحاكم نفسه قد تناقض في هذا الحديث .
الحمدللہ


یہ حدیث موضوع ہے ، اسے امام حاکم نے عبداللہ بن مسلم الفھری کے طریق سے بیان کرتے ہیں : حدثنا اسماعیل بن مسلمۃ انبا عبدالرحمن بن زيد بن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا ۔۔۔ پھر حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے جوکہ سائل نے ذکرکیے ہیں ۔

امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے ۔ اھـ

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کا بہت سارے علماء کرام نے تعاقب(یعنی رد ) کیا اور اس حدیث کی صحت کا انکار کیا ہے، اور اس حدیث پرحکم لگایا ہے کہ یہ حدیث باطل اورموضوع ہے ، اوریہ بیان کیا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی خود بھی اس حديث میں تناقض کا شکار ہیں ۔

وهذه بعض أقوالهم في ذلك :

قال الذهبي متعقبا على كلام الحاكم السابق : بل موضوع ، وعبد الرحمن واهٍ ، وعبد الله بن مسلم الفهري لا أدري من هو اهـ .

وقال الذهبي أيضاً في "ميزان الاعتدال" : خبر باطل اهـ .

وأقره الحافظ ابن حجر في "لسان الميزان" .

وقال البيهقي : تفرد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، من هذا الوجه، وهو ضعيف اهـ . وأقره ابن كثير في البداية والنهاية (2/323) .


علماء کے کچھ اقوال پیش کیے جاتے ہیں :
امام حاکم رحمہ اللہ کی کلام کا امام ذھبی رحمہ اللہ تعاقب کرتے ہوۓ کہتے ہیں : بلکہ یہ حديث موضوع ہے اور عبدالرحمن واہی ہے اور عبداللہ بن مسلم کا مجھے علم ہی نہیں وہ کون ہے ۔ اھـ
اورمیزان الاعتدال میں امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس طرح لکھتے ہیں یہ خبر باطل ہے ۔ اھـ
اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان میں اسی قول کی تائيد کی ہے ۔

اورامام بیھقی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس طریق سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے یہ روایت متفرد بیان کی ہے اور عبدالرحمن ضعیف ہے اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اسی قول کو صحیح کہا ہے دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 323 ) ۔

وقال الألباني في السلسلة الضعيفة (25) : موضوع اهـ .

والحاكم نفسه –عفا الله عنه- قد اتهم عبد الرحمن بن زيد بوضع الحديث ، فكيف يكون حديثه صحيحاً ؟!

قال شيخ الإسلام ابن تيمية في "القاعدة الجليلة في التوسل والوسيلة" (ص 69) :

ورواية الحاكم لهذا الحديث مما أنكر عليه ، فإنه نفسه قد قال في كتاب "المدخل إلى معرفة الصحيح من السقيم" : عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه ، قلت : وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف باتفاقهم يغلط كثيراً اهـ .

انظر سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني (1/38-47) .

اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے الضعیفۃ میں اسے موضوع قرار دیا ہے دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ ( 25 ) ۔ ا ھـ

اورامام حاکم - اللہ تعالی انہیں معاف فرماۓ – نے خود بھی عبدالرحمن بن زيد کومتھم بوضع الحدیث کہا ہے ، تواب اس کی حدیث صحیح کیسے ہوسکتی ہے ؟ !

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی " القاعدۃ الجلیۃ فی التوسل والوسیلۃ ص ( 69 ) " میں کہتے ہیں :

اورامام حاکم کی روایت انہیں روایات میں سے جس کا ان پرانکار کیا گیا ہے ، کیونکہ انہوں نے خود ہی کتاب " المدخل الی معرفۃ الصحیح من السقیم " میں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کی ہیں جوکہ اہل علم میں سے غوروفکر کرنے والوں پرمخفی نہيں اس کا گناہ اس پر ہی ہے ، میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم بالاتفاق ضعیف ہے اوربہت زيادہ غلطیاں کرتا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ ( 1 / 38 - 47 ) ۔
واللہ تعالی اعلم

الإسلام سؤال وجواب

http://islamqa.info/ar/34715

.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
وسیلہ کےمتعلق تفصیلی معلومات کیلئے
ماہنامہ السنہ ، جہلم کا خصوصی شمارہ ’’وسیلہ نمبر‘‘ شائع ہو چکا ہے، جو 262 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں وسیلہ کا معنی و مفہوم، اس کی جائز و ناجائز اقسام، قرآن کریم کی روشنی میں وسیلہ، صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں وسیلہ، مختلف مکاتب فکر اور وسیلہ، مبتدعین کے دلائل کا تحقیقی جائزہ ، تو اگر نہ ہوتا۔۔۔۔ والے عقیدے کی حقیقت، توسل آدم اور نماز غوثیہ ۔۔۔۔۔ کے عناوین پر تفصیلی اور علمی و تحقیقی گزارشات کی گئی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں :‌

Waseelah Nomber (Assunnah 43,44,45).pdf
 
Top