• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ کا شرک بھی تصرف کے شرک میں شامل ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
569
ری ایکشن اسکور
176
پوائنٹ
77
وسیلہ کا شرک بھی تصرف کے شرک میں شامل ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

انبیاء و اولیاء بندوں کے وسیلہ اور ذریعہ بن کر اللہ تعالیٰ تک تصرف کرنے اور پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کے انتظام میں کسی وزیر اور وسیلے کا محتاج نہیں، اللہ مخلوق کی کسی سفارشی اور وسیلے کے بغیر سننے پر قادر ہے، یہی شرک مشرکین مکہ کا تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں کیا ہے :

مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ ۔(الزمر:۳)
ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے زیادہ قریب کر دیں۔

نیز فرامین باری تعالیٰ ہیں :

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۔(الزمر:۴۳-۴۴)

کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کو سفارشی مقرر کر رکھا ہے، کہہ دیجئے کہ گو وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں، کہہ دو کہ شفاعت ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
(البقرہ:۲۵۴)

اے ایمان والو، ہم نے تمہیں جو دیا اس کو اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کر لو جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی اور نہ سفارش کچھ کام آئے گی اور کافر ہی ظالم ہیں۔

مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ
۔(البقرہ:۲۵۵)
کون ہے جو اس کی جناب میں بغیر اجازت سفارش کر سکے۔

وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ
۔(الانبیاء:۲۸)
وہ(اللہ کے پاس)کسی کی سفارش نہیں کرتے سوائے اس شخص کے جس کی سفارش سننا اللہ تعالیٰ پسند کرے۔

حَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا "

ابو صالح نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کی ایک دعا ایسی ہے جو (یقینی طور پر) قبول کی جانے والی ہے۔ ہر نبی نے اپنی وہ دعا جلدی مانگ لی) جبکہ میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ کر لی ہے، چنانچہ یہ دعا ان شاء اللہ میری امت کے ہر اس فرد کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے فوت ہوا۔“


[صحيح مسلم، حدیث نمبر: ۴۹۱]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ شفاعت کا حکم دے گا۔ در اصل یہ ایک انداز کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل توحید پر چونکہ اپنا فضل فرمانا چاہے گا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کا حکم دے گا۔ روز قیامت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوں گے تو آتے ہی شفاعت نہیں فرمائیں گے بلکہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اپنے ایسے نام اور صفات القاء کریں گے جو پہلے کبھی نہ ظاہر ہوئے تھے۔ اور ان کے وسیلے سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کی اجازت دے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ

میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔


[صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۴۷۱۲]

يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۔ (النباء:۳۸)
جس دن روح الامین اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو رحمن اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا"

قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔


صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۲۷۵۳]

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۔(یونس:۱۸)

وہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ نقصان دیتی ہیں اور نہ نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ آسمانوں میں نہیں جانتا اور نہ زمین میں وہ پاک اور بالا ہے ان سے جن کو وہ شریک ٹھراتے ہیں۔

کسی زندہ نیک شخص سے دعا کروانا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروانا صرف آپ کی زندگی میں تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا جائز نہیں۔ وسیلہ کی دلیل کسی بھی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دور عمر رضی اللہ عنہ میں قحط پڑا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی اور خود بھی عرض کیا :

اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ
اے اللہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف وسیلہ (بطور دعا)بناتے تھے اور تو بارش برساتا تھا اب ہم اپنے نبی کے چچا کو(دعا کے طور پر)وسیلہ بناتے ہیں۔ اے اللہ بارش بھیج دے پھر بارش ہوئی۔


صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۱۰۱۰]

علامہ صفی الرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں :

کسی شخصیت کا وسیلہ اور توسل پکڑنا جائز ہوتا تو پھر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جائز ہوتا کیونکہ آپ کی ذات اقدس جس طرح حالت زندگی میں محترم اور عزت والی تھی اسی طرح وفات کے بعد بھی محترم اور عزت والی ہے۔ جس طرح یہ لوگ فوت شدگان اولیاء کی ذات کو وسیلہ بناتے ہیں اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی ذات کو وسیلہ بناتے‘ حالانکہ اس طرح نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ اگر شخصیت کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا وسیلہ پکڑتے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھلی جگہ جا کر استسقا کی شکل و صورت اختیار نہ کرتے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو وسیلہ و ذریعہ بنایا تھا۔

[بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: ۴۰۹]
 
Top