محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 311
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 34
وضو میں ایک عام سنگین غلطی جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے
وضو کے 6 ارکان ہیں
1- چہرے دھونا (اس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا بھی آ جاتا ہے)
2- بازو کو ہاتھوں کے ساتھ دھونا
3- سر کا مسح کرنا
4- پاؤں دھونا
5- یہ تمام اعضاء کو اسی ترتیب سے دھونا جیسے قرآن کی آیت اور احادیث میں آیا ہے
6- پے در پے وضو کے اعضاء کو دھونا
عموماً لوگ جب وضو کرتے ہیں تو چہرہ دھونے کے بعد بازو دھوتے ہیں، بازو کے ساتھ ہاتھ نہیں دھوتے حالانکہ بازؤوں کے ساتھ ہاتھ بھی دھونا ضروری اور فرض ہے اور یہ وضو کے ارکان میں سے ہے اور جو شخص وضو کرتے وقت اپنے بازؤوں کے ساتھ ہاتھ نہیں دھوتا اس کا وضو نامکمل ہے
دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(المائدة:6)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پائوں ٹخنوں تک (دھو لو) ۔
قرآنی آیت میں چہرے کے بعد ہاتھ دھونے کا ذکر ہے اور اس کے لیے (أيديكم) کا لفظ بولا گیا ہے (أيدي) (يد) کی جمع ہے اور (يد) کا اطلاق عربی زبان میں ہتھیلی اور بازو (کندھوں تک) دونوں پر ہوتا ہے
لیکن قرآنی آیت نے بازو کی حد بندی کر دی ہے کہ بازو کہنیوں تک دھوئے جائیں گے-
ہاتھ اور بازؤوں کو کہنیوں تک دھونا فرض اور وضو کا ایک رکن ہے اس لیے جو انسان بازؤوں کے ساتھ ہاتھ نہیں دھوتا وہ فرض اور رکن کا تارک ہے اور اس کا وضو درست نہیں ہے
رہی بات کہ ہاتھ وضو کی ابتدا میں بھی دھو لیے جاتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے وضو کی ابتدا میں ہاتھوں کو دھونا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے( الا کہ کوئی گندگی لگی ہو یا انسان سو ک اٹھا ہے اس صورت میں ہاتھ دھونا ضروری ہوں گے) اور بازؤوں کے ساتھ ہاتھوں کو دھونا فرض ہے-
وقد سئل الشيخ ابن جبرين حفظه الله : ما حكم من يغسل يده من الرسغ إلى المرفق ، دون غسل الكف ، مكتفيا بغسلها أول الوضوء ، وهل يلزمه إعادة الوضوء ؟
فأجاب : "لا يجوز في الوضوء الاقتصار على غسل الذراع فقط دون الكف بل متى فرغ من غسل الوجه بدأ بغسل اليدين ، فيغسل كل يد من رؤوس الأصابع إلى المرافق ، ولو كان قد غسل الكفين قبل الوجه ، فإن غسلهما الأول سنة ، وبعد الوجه فرض ، فمن اقتصر في غسل اليدين من الرسغ إلى المرفق فما أكمل الفرض المطلوب ، فعليه إعادة الوضوء بعد التمام ، أو عليه غسل ما تركه إن كان قريبا ، فيغسل الكفين وما بعدهما " انتهى من "اللؤلؤ المكين من فتاوى الشيخ ابن جبرين" ص 77 .
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " وهنا نقف لننبه على ما يغفل عنه كثير من الناس حيث كانوا يغسلون اليد من الكف إلى المرفق ظناً منهم أن غسلها قد تم قبل غسل الوجه، وهذا غير صحيح، ولا بد أن تغسلها من أطراف الأصابع إلى المرفقين " انتهى من "اللقاء الشهري" (3/330) .
وضو کے 6 ارکان ہیں
1- چہرے دھونا (اس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا بھی آ جاتا ہے)
2- بازو کو ہاتھوں کے ساتھ دھونا
3- سر کا مسح کرنا
4- پاؤں دھونا
5- یہ تمام اعضاء کو اسی ترتیب سے دھونا جیسے قرآن کی آیت اور احادیث میں آیا ہے
6- پے در پے وضو کے اعضاء کو دھونا
عموماً لوگ جب وضو کرتے ہیں تو چہرہ دھونے کے بعد بازو دھوتے ہیں، بازو کے ساتھ ہاتھ نہیں دھوتے حالانکہ بازؤوں کے ساتھ ہاتھ بھی دھونا ضروری اور فرض ہے اور یہ وضو کے ارکان میں سے ہے اور جو شخص وضو کرتے وقت اپنے بازؤوں کے ساتھ ہاتھ نہیں دھوتا اس کا وضو نامکمل ہے
دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(المائدة:6)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پائوں ٹخنوں تک (دھو لو) ۔
قرآنی آیت میں چہرے کے بعد ہاتھ دھونے کا ذکر ہے اور اس کے لیے (أيديكم) کا لفظ بولا گیا ہے (أيدي) (يد) کی جمع ہے اور (يد) کا اطلاق عربی زبان میں ہتھیلی اور بازو (کندھوں تک) دونوں پر ہوتا ہے
لیکن قرآنی آیت نے بازو کی حد بندی کر دی ہے کہ بازو کہنیوں تک دھوئے جائیں گے-
ہاتھ اور بازؤوں کو کہنیوں تک دھونا فرض اور وضو کا ایک رکن ہے اس لیے جو انسان بازؤوں کے ساتھ ہاتھ نہیں دھوتا وہ فرض اور رکن کا تارک ہے اور اس کا وضو درست نہیں ہے
رہی بات کہ ہاتھ وضو کی ابتدا میں بھی دھو لیے جاتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے وضو کی ابتدا میں ہاتھوں کو دھونا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے( الا کہ کوئی گندگی لگی ہو یا انسان سو ک اٹھا ہے اس صورت میں ہاتھ دھونا ضروری ہوں گے) اور بازؤوں کے ساتھ ہاتھوں کو دھونا فرض ہے-
وقد سئل الشيخ ابن جبرين حفظه الله : ما حكم من يغسل يده من الرسغ إلى المرفق ، دون غسل الكف ، مكتفيا بغسلها أول الوضوء ، وهل يلزمه إعادة الوضوء ؟
فأجاب : "لا يجوز في الوضوء الاقتصار على غسل الذراع فقط دون الكف بل متى فرغ من غسل الوجه بدأ بغسل اليدين ، فيغسل كل يد من رؤوس الأصابع إلى المرافق ، ولو كان قد غسل الكفين قبل الوجه ، فإن غسلهما الأول سنة ، وبعد الوجه فرض ، فمن اقتصر في غسل اليدين من الرسغ إلى المرفق فما أكمل الفرض المطلوب ، فعليه إعادة الوضوء بعد التمام ، أو عليه غسل ما تركه إن كان قريبا ، فيغسل الكفين وما بعدهما " انتهى من "اللؤلؤ المكين من فتاوى الشيخ ابن جبرين" ص 77 .
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " وهنا نقف لننبه على ما يغفل عنه كثير من الناس حيث كانوا يغسلون اليد من الكف إلى المرفق ظناً منهم أن غسلها قد تم قبل غسل الوجه، وهذا غير صحيح، ولا بد أن تغسلها من أطراف الأصابع إلى المرفقين " انتهى من "اللقاء الشهري" (3/330) .