• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ولی کے بغیر نکاح باطل ہے !

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
سب کچھ واضح ہونے کے باوجود ایسے صاحب علم موجود ہیں جو اس کی بھی تاویلات میں ایسے حد سے گزرتے ہیں کہ حدیث رسول کی وضاحت کو عام انسان کے لیے مشکوک کر دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے پڑھے لکھے جاہلوں سے معاشرے کو محفوظ فرمائے۔آمین
نیم حکیم خطرہ جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیم ملا خطرہ ایمان
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ولی کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت !!!

شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کو بدکاری فحاشی ، عریانی اور بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی انتہائی اہمیت وارد ہوئی ہے ۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں بدکاری و فحاشی کو عروج دینے کے لئے مختلف یہودی ادارے اور ان کے متبعین دن رات مصروف عمل ہیںجنہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادی نسواں کے نام پر کئی ادارے اور سوسائٹیز بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے پنجے تیز کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یوب کی طرح ہمارے مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قباحیت سے بچانے کے لئے آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے مسلم مرد و زن کے لئے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا اللہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔''(النور : ۳۲)

آگے فرمایا:

''اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مابی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے ''۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا امر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ جنہیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور بدکاری و زنا سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص اسبابِ نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں''۔ (بخاری و مسلم)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں''(ابنِ ماجہ : ۱۸۴۶)
اسی طرح قرآن مجید میں نکاح کو سکون اور محبت و رحمت کا باعث قرار دیا گیا ہے اور کہیں (محصنین غیر مصافحین)کہہ کر بدکاری سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا بد کاری اور زناکاری سے بچنے کے لے ہمیں نکاح جیسے اہم کام کو سر انجام دینا چاہیے اور اس کے لئے طریقہ کار رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے اگر لڑکی اپنی مرضی گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لئے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب وسنت سے دلائل درج ذیل ہیں:

۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

''اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام، مشرک سے بہتر ہے۔ اگر چہ تمہیں بہت پسند ہو''۔(البقرہ : ۲۲۱)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی ارقام فرماتے ہیں:

''یہ آیت کریمہ اس بات پر بطور نص کے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا امام محمد باقر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کا بذریعہ ولی منعقد ہونا اللہ کی کتاب میں موجود ہے پھر انہوں نے (ولا تنکحو المشرکین)آیت کریمہ پڑھی۔ (الجامع الاحکام القرآن۳/۴۹)

مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:

(ولا تنکحوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہ ِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جائو۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص۸۹)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی طراز ہیں:

''یہ خطاب یا ت (عورتوں ) کے ولیوں کو ہے یا حکام کو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مشرک مردوں سے نکاح نہ کرنے دو''۔
(تفسیر مظہری۱/۴۵۸)

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی توضیح فرما دی ہے کہ مسلمان عورت کے نکاح کا انعقاد اس کے ولی کے ذریعے ہونا چاہیے اس لئے فرمایا: (ولا تنکحو)کہ تم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاھ مٰں نہ دو اگر ولی کا نکاح میں ہونا لازم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس انداز سے خطاب نہ فرماتا بلکہ عورتوں کو حکم دیتا کہ تم ان کے ساتھ نکاح نہ کرو۔ حالانکہ ایسے نہیں فرمایا۔

دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہو جائیں۔''(بقرہ : ۲۳۲)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی الباری شرح صحیح بخاری۹/۹۴ رقمطراز ہیں:

''یہ آیت ولی کے معتبر ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہو تا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ اگر معقل کی بہن کے لئے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے اس کو روک دیا۔''

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

''اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اس لئے کہ معقل بن یسار کی بہن طلاق یافتہ تھیں اور اگر ولی کے بغیر معاملہ اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اس آیت کریمہ میں (فلا تعضلو ھن)میں خطاب اولیاء کو ہے نکاح میں عورت کی رضا مدنی کے باوجودمعاملہ مردوں پر موقوف ہے۔ ''

مذکورہ بالا آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ معقل بن یسار کی بہن کو ان کے خاوند نے طلاق دے دی پھر عدت کے پورا ہوجانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہو گئے تو معقل بن یسار نے اپنی بہن کا نکاح دینے سے انکار کر دیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ سمجھا دیا کہ عورت کے ولی کا حق اس کے نکاح کے انعقاد میں موجود ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ مردوں کو منع نہ کرتا۔ مردوں کو خطاب کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حق ولایت اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لئے رکھا ہے اور یہی بات امام بغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل۲/۱۱۲ امام ابنِ قدامہ نے المغنی۷/۳۳۸ اور امام ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر۱/۳۰۲١ میں لکھی ہے اور اسی بات کو امام طبری نے اپنی تفسیر طبری ۲/۴۸۸ میں صحیح قرار دیا ہے۔ فح الباری کتاب النکاح ٩٠٩۔

اگر نکاح کا معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ عورتوں کو خطاب کرتے مردوں کو خطاب نہ کرتے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی۳/۴۹۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کئی ایک احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

دورِ جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح بخاری میں اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں:

''ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ۔ اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔''

پھر نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر رائج تھیں آخر میں فرمایا:

''جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دیئے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے''۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں نکاح کی صرف ایک صورت باقی رکھی جو کہ ولی کی اجازت پر مبنی ہے اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی تمام صورتوں کو منہدم کر دیا۔ لہٰذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا جائے وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ مرفوعہ ملاحظہ فرمائیں:



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

''سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے''۔


(ابو دائود مع عون۲/۱۰۱،۱۰۲۔ ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۲۱، ابنِ حبان (۱۲۴۳)، طحاوی۴/۸،۹،۴/۳۶۴، احمد۴/۴۱۳،۴۹۴، طیالسی (۵۲۳)، دار قطنی۳/۲۱۸۔۲۱۹،حاکم۲/۱۷۰، بیہقی۷/۱۷۰، المھلی۹/۴۵۲، شرح السنہ۹/۳۸، عقود الجواہر المنیفہ۲/۱۴۶)

امام حاکم فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں سیدنا علی ، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا معاذبن جبل ، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابو ذر غفاری، سیدنا مقداد بن اسود، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا جابر بن عبداللہ ، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا عمران بن حصین، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا مسور بن محزمہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں اور اکثر صحیح ہیں اور اسی طرح اس مسئلہ میں ازواج النبی سیدہ عائشہ ، سیدہ اُم سلمہ اور سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہن سے روایت مروی ہیں۔ (مستدرک حاکم۲/۱۷۲)

یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے علاوہ تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس حدیث کے راوی ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عالی شان اس بات پر نص قطعی کا حکم رکھتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اگر اس مرد نے اس کے ساتھ صحبت کر لی تو عورت کو مہر دینا ہے اس وجہ سے کہ جو اُس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا۔ اگر وہ (اولیا) جھگڑا کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم اس کا ولی ہے''۔

(شرح السنہ ۲/۳۹، ابو داؤد۶/۹۸، ترمذی۴/۲۲۷، ابن ماجہ۱/۵۸، دارمی۲/۲۶، شافعی۲/۱۱، احمد۶/۴۷،۱۶۵، طیالسی (۱۴۶۳)، حمیدی۱۱۲/۱،۱۱۳، ابنِ حبان (۱۲۴۱)طحاوی۳/۷٧، دارقطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵)

اس حدیث کی شرح میں محدث عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:

''یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں''۔

آگے مزید فرماتے ہیں:

''حق یہی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے جیسا کہ اس پر باب کی احادیث دلالت کرتی ہی۔''
(عون المعبود ۲/۱۹۱، طبع ملتانی)

علاوہ ازیں حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں ''ایّما''کلمہ عموم ہے جس میں باکرہ 'ثیبہ چھوٹی بڑی ہر طرح کی عورت داخل ہے کہ جو بھی عورت ولی کے بغیر اپنا نکاح از خود کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔ رسول مکرم ۖکی یہ حدیث اس بات پر نص و قطعی ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے ۔ امام ترمذی فرماتے ہی:

''اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ ''ولی کے بغیر نکاح نہیں '' پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عباس ، اور ابو ہریرہ کا عمل ہے اور اسی طرح تابعین فقہا میں سے سعید بن مسیب ، حسن بصری ، شریح، ابراہیم النخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ اور امام ثوری ، امام اوزاعی، امام عبداللہ بن مبارک ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہو رحمة اللہ علیہم کا بھی یہی موقف ہے''۔ (ترمذی۳/۴۱۰،۴۱۱)


اب ائمہ محدثین کے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ: صاحب بدایۃ المجتحد۲/۷ لکھتے ہیں:

''امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مذہب ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے اور یہ ولایت نکاح کی صحت میں شرط ہے یعنی اگر ولایت مفقود ہوئی تو نکاح درست نہیں ہوگا۔''

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ:

فقہ حنبلی میں بھی نکاح کے لئے ولی ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ امام ابنِ قدامہ حنبلی رقمطراز ہیں:

''یقینا ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں اور عورت اپنے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نکاح کی مختار نہیں اور نہ ہی اپنا نکاح کرانے کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ولی بنانے کی مختار ہے اگر اُس نے ایسا کیا تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ یہ بات صیدنا عمر، سیدنا علی ، سیدنا ابنِ مسعود، سیدنا ابنِ عباس، سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور اس کی طرف امام سعید بن المسیب ، امام حسن بصری، امام عمر بن عبدالعزیز، امام جابر بن زید، امام سفیان ثوری، امام ابنِ ابی لیلی، امام ابنِ شبرمہ، امام ابن مبارک، امام عبید اللہ العنبری ، امام شافعی، امام اسحاق بن راہویہ اور امام بو عبیدہ گئے ہیں اور یہی بات امام ابن سیرین، امام قاسم بن محمد اور امام حسن بن صالح سے بھی راویت کی گئی ہے ۔'' (المغنی لابن قدامہ۹/۳۴۵)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ: اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

''یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس بات پر دلالت کے اعتبار سے واضح ترین ہے کہ عورت کو بغیر ولی کے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔''

اور آگے مزید فرماتے ہیں:

''ولی کے بغیر عقد قائم کرنا باطل ہے''۔

فرماتے ہیں:

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ:

''ولی کے بغیر نکاح نہیں اور اسی بنا پر عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے نکاح کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو متعین کرے اور جب اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کر سکے تو اس کے لئے کسی دوسری عورت کا نکاح کرنا بالا ولیٰ جائز نہیں۔''(موسوعۃ فقہ سفیان ثوری ص ۷۹۳)

فرماتے ہیں:

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ:

''ولی کے بغیر نکاح نہیں اور (الّذی بیدہ عقدة النّکاح)سے مراد ولی ہے اگر عورت نے اپنا نکاح ولی کے بغیر خود کر لیا یا نکاح کرنے میں اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے کو ولی بنا لیا تو یہ نکاح باطل ہے اور ان دونوں کے درمیان صحبت کرنے سے پہلے اور بعد جدائی کرادی جائے گی۔'' (موسوعہ فقہ الحسن بصری۸۹۷)

امام ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ: یہ امام ابو حنیفہ کے استاد الاستاد ہیں اور ان کے اقوال پر فقہ حنفی کا دارومدار ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے فرماتے ہیں:

''عقد قائم کرنا عورتوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مردوں کے ہاتھ میں ہے''۔ (ابنِ ابی شیبہ۱/۲۰۸، موسوعہ فقہ ابراہیم النخعی۱/۶۷۷)

ان تمام حوالہ جات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کتاب و سنت اور جمہور ائمہ محدثین کے نزدیک عورت کا نکاح ولی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا ۔ جو عورت اپنا نکاح خود کر لیتی ہے ایسا نکاح باطل ہے اور ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی تا کہ وہ ناجائز فعل کے مرتکب نہ ہوں۔

موجودہ دور میں کئی ایک ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ لڑکیاں گھروں سے فرار اختیار کر کے اپنے عاشقوں کے ساتھ عدالت میں جا کر نکاح کر الیتی ہیں اور مسلم معاشرے کے لئے بالعموم اور ان کے والدین کے لئے بالخصوص ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہیں۔ صائمہ کیس کا فیصلہ جو کہ دس مارچ ٩٧ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے کیا وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور صریح قرآن و سنت کے خلاف ہے ۔ ہمارے ملک کے جن دو ججوں نے اس پر جو ریمارکس (Remarks)لکھے وہ یہودیت کی حقوقِ نسواں کے نام سے پھیلائی ہوئی تحریکوں سے مرعوبیت کا شاخسانہ ہے جیسا کہ ایک جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ''میں اپنی کوشش کے باوجود ایسا اصول نہین ڈھونڈ سکا جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہو کہ بالغ مسلم لڑکی کا اپنے ولی کی مرضی کے بغیر نکاح ناجائز ہے۔ ''

مندرجہ بالا صریح دلائل کی روشنی میں مذکورہ جسٹس کا یہ بیان انتہائی غلط اور قرآن و سنت کے دلائل سے لا علمی و ناواقفیت پر مبنی ہے اور انتہائی قابل افسوس ہے مسلمانوں کا قانون کتاب و سنت ہے جس میں ایسے دلائل اور اصول تواتر کے ساتھ موجود ہیں کہ مسلم لڑکی بالغ ہو یا مطلقہ یا کنواری کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر دلائل ذکر کر دیئے ہیں۔ ہمارے ملک میں چونکہ انگریزی قانون رائج ہے جس کی بنا پر اکثر فیصلے کئے جاتے ہیں اور قرآن و سنت کو عملاً قانون سمجھا ہی نہیں جاتا اور یہ چیز کسی بھی مسلم کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ تمام مسلمانوں کو اپنے ہر قسم کے فیصلے طاغوتی عدالتوں کی بجائے قرآن و سنت کے ذریعے کروانے چاہئیں تا کہ عند اللہ ماجور ہو سکیں۔

http://www.islamicmsg.org/index.php/app-key-masail-aur-un-ka-hal/kitab-ul-nikha/125-2013-02-02-06-28-57#
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
اس موضوع پر الشیخ ابن العثمین ؒ کا ایک فتویٰ پڑھا تھا جس میں کچھ اس طرح کی بات کی گئی تھی کہ اگر عورت کا قریبی ولی (باپ، بھائی وغیرہ) اس کے نکاح میں غیر شرعی رکاوٹ ڈال رہے ہوں تو ان کا حقِ ولایت سلب ہو جائے گا اور عدالت ولی بن کر اس کا نکاح کرا دے گی۔ ولی کے بغیر نکاح کے باطل ہونے پر تو سب متفق ہیں۔ اختلاف کا سبب صرف یہ ہے کہ موجودہ نظام کے تحت چلنے والی عدالت شرعی ولی بن سکتی ہے یا نہیں؟ علماء کرام سے اس مسئلے کی توضیح کی گزارش ہے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
برادر عامر یونس نے پہلے مراسلے میں جو حدیث لکھی ہے وہ پوری حدیث یوں ہے:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا المَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُصحيح الجامع الصغير وزيادته (1/ 526)
سوال یہ ہے جن ملکوں میں شرعی نظام اور شرعی عدالتیں نہیں ہیں وہاں کی خواتین اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں؟ میں اپنے علاقے کی ایک خاتون کے حالات سے واقف ہوں جس کی عمر چالیس سال کے قریب ہو گئی تھی لیکن ولی نے اس کا نکاح صرف برادری میں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس نے گھر اور محلے کے ہر اہم فرد کو اللہ کا خوف دلایا لیکن کسی نے سن کر نہ دی۔
ایسے حالات میں گھری ہوئی بے کس و لاچار بہن یا بیٹی کیا طریقہ اختیار کرے کہ شریعت کی پاسداری بھی رہے اور مسئلہ بھی حل ہو جائے؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ولی کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت !!!

شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کو بدکاری فحاشی ، عریانی اور بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی انتہائی اہمیت وارد ہوئی ہے ۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں بدکاری و فحاشی کو عروج دینے کے لئے مختلف یہودی ادارے اور ان کے متبعین دن رات مصروف عمل ہیں جنہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادی نسواں کے نام پر کئی ادارے اور سوسائٹیز بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے پنجے تیز کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یوب کی طرح ہمارے مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قباحیت سے بچانے کے لئے آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے مسلم مرد و زن کے لئے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔

http://www.islamicmsg.org/index.php/app-key-masail-aur-un-ka-hal/kitab-ul-nikha/125-2013-02-02-06-28-57#
سمجھنے دو لنکس ہی کافی ہیں

یورپ سے داعش کے پاس بھاگ کر آنے والی خوبرو لڑکیاں شدید مشکل کا شکار


ملائشین خاتون ڈاکٹر کی داعش کے جنگجو سے شادی


اپنے والدین کو اجازت لئے بغیر گھروں سے بھاگ کر داعش میں شامل ہونے والی ایسی بےشمار مسلمان لڑکیاں بھی اسی برائیوں کے زمرہ میں آتی ہیں جو اوپر تمہید میں بیان کیا گیا ھے یا یہ ولی کی اجازت سے بری الزمہ ہیں۔ خیال رہے عبداللہ حیدر بھائی کے جواب میں ولی کی اجازت سے جو بری الزمہ لکھا ھے وہ ان کے نکاح کو کور نہیں کرتا۔ جزاک اللہ خیر!



والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم



سمجھنے دو لنکس ہی کافی ہیں

یورپ سے داعش کے پاس بھاگ کر آنے والی خوبرو لڑکیاں شدید مشکل کا شکار


ملائشین خاتون ڈاکٹر کی داعش کے جنگجو سے شادی


اپنے والدین کو اجازت لئے بغیر گھروں سے بھاگ کر داعش میں شامل ہونے والی ایسی بےشمار مسلمان لڑکیاں بھی اسی برائیوں کے زمرہ میں آتی ہیں جو اوپر تمہید میں بیان کیا گیا ھے یا یہ ولی کی اجازت سے بری الزمہ ہیں۔ خیال رہے عبداللہ حیدر بھائی کے جواب میں ولی کی اجازت سے جو بری الزمہ لکھا ھے وہ ان کے نکاح کو کور نہیں کرتا۔ جزاک اللہ خیر!



والسلام

چلے اس بہانے آپ بھی مان گئے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
برادر عامر یونس نے پہلے مراسلے میں جو حدیث لکھی ہے وہ پوری حدیث یوں ہے:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا المَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُصحيح الجامع الصغير وزيادته (1/ 526)
سوال یہ ہے جن ملکوں میں شرعی نظام اور شرعی عدالتیں نہیں ہیں وہاں کی خواتین اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں؟ میں اپنے علاقے کی ایک خاتون کے حالات سے واقف ہوں جس کی عمر چالیس سال کے قریب ہو گئی تھی لیکن ولی نے اس کا نکاح صرف برادری میں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس نے گھر اور محلے کے ہر اہم فرد کو اللہ کا خوف دلایا لیکن کسی نے سن کر نہ دی۔
ایسے حالات میں گھری ہوئی بے کس و لاچار بہن یا بیٹی کیا طریقہ اختیار کرے کہ شریعت کی پاسداری بھی رہے اور مسئلہ بھی حل ہو جائے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ماشاء اللہ ، بھائی عامر یُونُس صاحب نے کافی محنت کی ہے اور ولی کے بغیر نکاح کے باطل ہونے کے بارے میں بہت اچھی معلومات مہیا کی ہیں ، جو اِس موضوع کو کافی حد تک واضح کرنے والی ہیں ،
بھتیجے عبداللہ حیدر صاحب ، آپ نے کسی مُسلمان بیٹی کا جو معاملہ ذِکر کیا ہے ، اِس قِسم کے کئی واقعات ہم اپنے اِرد گِرد دیکھتے سنتے ہیں ،
بڑے ہی دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ کوئی مُسلمان ایسے تعصب اور ضِد کا شکار ہوتا ہے کہ جِس کی وجہ سے وہ نہ صِرف اپنی بلکہ اپنی اولاد کی دُنیاوی زندگی کو پریشانیوں سے بھر دیتا ہے ، اور اگر اسی حال میں مر جائے تو اپنی آخرت بھی مشکلات والی بنا لیتا ہے ،
بھتیجا جی ، آپ کو شاید ہو کہ کئی سال پہلے اِس موضوع پر پاک نیٹ کے ایک تھریڈ میں کافی بات چیت ہوئی تھی ،
یہاں کچھ اور الفاظ میں گذارش کرتا ہوں کہ ،
اگر کسی لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت ہونا یقیناً لازمی امر ہے ، لیکن اگر کوئی اپنے اِس مُقام اور رُتبے کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہا ہو ، اور شرعی طور کسی جائز سبب کے عِلاوہ اپنی ، بہن یا بیٹی یا کسی اور رشتہ دار جو اُس کی ولایت میں آتی ہو ، اُس کے نکاح میں روکاٹ بن رہا ہو تو ، اُس کی ولایت منسوخ ہوجاتی ہے ، اوررشتے اور قرابت کے مطابق اُس کے بعدوالا اُس لڑکی کا شرعی ولی بن جاتا ہے ،حتی کہ اگر قریب والے سب ہی ایسا رویہ رکھتے ہوں تو دُور والے اولیاء تک معاملہ پہنچتا ہے ، اور اگر سب ہی ایسے ہوں تو وہ لڑکی یا عورت اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرنے والے سلطان ، یا اِسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے قاضی کے پاس جا کر اپنا مسئلہ حل کروا سکتی ہے ،
ایسے ولی یا اولیا ء کی منسوخی کا مسئلہ عُلماء کرام اور فقہا کرام میں معروف ہے ،
مثلاً ، اگر کسی لڑکی یا عورت کا ولی مثلاً ، اُسے اُس کی پسند کے مُطابق نکاح کرنے سے ، یا لڑکی کی پسند نا پسند کا معاملہ نہ ہونے کی صُورت میں بھی اس لیے روکتا ہے کہ لڑکا یا مرد غریب ہے ، کسی بڑے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ، خوبصورت نہیں ، ذات پات کی تقسیم یا اونچ نیچ کی وجہ سے ، یا خاندان اور قبیلے سے باہر ہونے کی وجہ سے ، یا اِسی قِسم کی کوئی اور غیر شرعی پابندی لگا تا ہے ، اور لوگوں کے سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا ، تو اُس کا ولی ہونا معتبر نہیں رہتا ،
ایسی صُورت میں اُس عورت یا لڑکی کا کوئی بھی دوسرا ولی ،اُس کا کسی """
کُفءٌ ::: یعنی مساوی ، برابری والے""" سے نکاح کروا سکتا ہے ،
"""
کُفءٌ"""کون ہو سکتا ہے ، یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم شرعی طور پر مقبول """ الكِفاءة ::: یعنی مُساوات اور برابری """ کو جانیں ،
"""
الكِفاءة """ کی مختصر اور جامع تعریف یہ ہے کہ (((الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ:::مُسلمانوں کے خون ایک برابر ہیں)))سُنن کی مختلف کتب میں ہے ، إِمام الالبانی نے """حَسن ، اور صحیح """قرار دِیا ،
فقہا کرام نے اِس کو کئی مختلف انداز میں بیان کیا ہے ، جِن کو جمع کیا جائے تو جامع ترین بات یہ ہے کہ """معاشرتی معاملات میں میاں بیوی کے درمیان ایسی مساوات جِس کا موجود ہونا ازدواجی زندگی کے برقرار رہنے کے عوامل میں ایک ہو ، اور جِس کا نہ ہونا ازدواجی زندگی میں خلل یا اُس کے خاتمے کے اسباب میں سے ہو ،اور عمومی طور پر نقصان اور پریشانی کا سبب ہی بنتا ہو """،
اور یقیناً اِن میں سے بڑا اور پہلا عامل """دِین""" ہے ، پھر """اِخلاق اور کِردار"""،
کوئی مُسلمان ، جِس کا عقیدہ اورعمل، میں کوئی نُقص یا عیب نہ ہو ، اور عورت یا لڑکی کو پسند بھی ہو تو ولی صاحب کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اُس کو نکاح سے روکیں ،
مال و دولت ، شکل و صُورت ، حسب و نسب ، جاہ و قدرت ، یہ سب بعد کی اور ثانوی حیثیت کی چیزیں ہیں ،
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مُبارک میں مہاجر و انصار کے نکاح نہیں ہوتے تھے ، جن کے قبیلے آپ میں بالکل نہیں ملتے تھے ؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک آزاد اعلی خاندان کی """سیدہ فاطمہ بنت قیس""" رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے غلام اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نہیں فرمایا ؟
اور اِن اُسامہ کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ُ کا نکاح اپنی پُھوپُھو زاد"""سیدہ زینب بنت جحش""" رضی اللہ عنہا سے نہیں فرمایا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ میں سے یہ مثالیں ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور تابعین تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً کی زندگیوں میں اِس جیسی کئی دیگر مثالیں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ اگر نکاح میں کفوء کو شرط ہی مانا جائے تو بھی کفوء کا معنی ٰ اور مفہوم دِینی اور اخلاقی اعتبار سے مساوی اور برابر شخصیت ہے ، نہ کہ حسب و نسب ، خاندان و قبیلہ ، مال و دولت ، معاشرتی رتبے وغیرہ میں مساوات اور برابری ،
تو ، بھتیجا جی ، اگر کسی عورت یا لڑکی کا ولی اُس عورت یا لڑکی کے لیے """
کُفءٌ""" میسر ہونے کی صُورت میں اُس کا نکاح نہیں کرتا ، اور سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا ، تو اُس کے بعد والا ولی اُس لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے ،
اور جیسا کہ ابھی ابھی کہا کہ """حتی کہ اگر قریب والے سب ہی ایسا رویہ رکھتے ہوں تو دُور والے اولیاء تک معاملہ پہنچتا ہے ، اور اگر سب ہی ایسے ہوں تو وہ لڑکی یا عورت اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرنے والےمُسلمان سُلطان ، یا اِسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے قاضی کے پاس جا کر اپنا مسئلہ حل کروا سکتی ہے """،
اب اگر کوئی عورت یا لڑکی کہیں ایسی جگہ پر ہے جہاں اسے اِسلامی قوانین کے مُطابق حکومت کرنے والا مُسلمان سُلطان میسر نہیں ، یا اِسلامی شریعت کے مُطابق فیصلے کرنے والا مُسلمان قاضی میسر نہیں ، تو پھر ،
"""نکاح کروانے کی یہ ولایت کسی ایسے مُسلمان کی طرف منتقل ہو جائے گی جس کے پاس دیگر معاملات کی کوئی ولایت ہو ، جیسا کہ کسی شہر ، کسی بستی ،کسی قبیلے ، کسی قافلے کا کوئی بڑا ، یا سردار ، یا أمیر ،جِس کے سب لوگ اطاعت کرتے ہوں اور وہ عدل کرنے والا ہو """،
یہ (اصلی والے)شیخ الاِسلام احمدابن تیمہ رحمہ ُ اللہ ، اور إِمام السُنت احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے منقول ہے ،
اور جدید دور کے عُلماء میں سے کچھ یا یہ کہنا بھی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان حاکم ، یا قاضی یا صاحب اثر شخصیت نہ ہو وہاں اگر کوئی اِسلامی جمعیت یا گروہ موجود ہو تو وہ اپنی مُسلمان بہن یا بیٹی کا ولی بن سکتا ہے ،
اُمید ہے یہ معلومات آپ کے سوال ، یا اشکال کے جواب میں کافی رہیں گی ، اِن شاء اللہ ،
والسلام علیکم۔
 
Top