• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ووٹ کی شرعی حیثیت

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
ووٹ جمہوری نظام کے قیام کا اہم ترین حصہ ہے،اس کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جا کر عوامی مفاد میںقانون سازی کرتے ہیں۔ووٹ کا طریقہ کبھی بھی ہماری اسلامی روایت اور تاریخ میں رائج نہیں رہا۔ووٹ یاخفیہ رائے شماری کا آغاز١٨٧٠ء میں ہوا جب لندن اسکول بورڈ کا انتخاب عمل میں آیا۔اس عمل میں ہر ووٹر کو ایک پرچی دی جاتی ہے جس میں زیر عمل انتخاب کے تمام امید واروں کے نام شامل ہوتے ہیں ،انتخاب کنندہ اپنی پسندکے امید وار کے نام کے سامنے نشان لگا کر پرچی مقفل بکس میں ڈال دیتا ہے(بحوالہ:وکی پیڈیا)

اگر ووٹ کو گواہی تسلیم کیا جائے تو کیا یہاں گواہی کی شرائط اور حدودوقیود موجود ہیں؟ مثلاً گواہ عادل ہو، بالغ ہو، شریف ہو، بایں معنی کہ پنج وقتہ نمازی ہو، حلال وحرام کو جانتا ہو، یہاں بیش تر اکثریت ایسی ہے، جو طہارت اور نماز کے بنیادی مسائل سے بھی واقف نہیں۔ فقہاء نے درج ذیل اشخاص کی گواہی ناقابل قبول قرار دی ہے:

(1) نماز روزے کا عمداً تارک ہو، (2) یتیم کا مال کھانے والا (3) زانی اور زانیہ (4) لواط کا مرتکب (5) جس پر حد قذف لگ چکی ہو (6) چور ڈاکو (6) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا (8) خائن اور خائنہ…

یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں جس چیز کی شرعی حیثیت ہوتی ہے اس کے لیے شرعی ضوابط بھی ہوتے ہیں ،مثلاً:نکاح،حدود،عقود،گواہی…گواہی کے لیے شرعی ضابطہ یہ ہے کہ مرد کی ایک گواہی اور دو عورتوں کی ایک گواہی شمار کی جاتی ہے۔ایک عورت کی گواہی ناقابلِ قبول ہے ۔ووٹ کو اگر گواہی شمار کیا جائے تو یہ غیر شرعی گواہی ہو گی مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر:

"ووٹ کیوں حرام ہے "

ووٹ میں مسلم اور کافر برابر ہوتے ہیں
اس سے قرآن کی درج ذیل آیات کا انکار لازم آتا ہے
أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ
(سورة السجدة)

(کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے
لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو)


أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
(کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے)

اس طرح دیگر دسیوں آیات ہیں

ووٹ میں عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں .. اس سے درج ذیل آیات کا انکار لازم آتا ہے
ِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
(بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے))

سورة الزمر الاية رقم 9
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
(اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے)

سورة المجادلة الاية رقم 11

ووٹ میں مرد عورت برابر ہوتے ہیں اس سے قرآن کی درج ذیل آیت کا انکار لازم آتا ہے
ْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى
(اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں)
سورة آل عمران الاية رقم 36

ووٹ میں نیک اور بد برابر ہوتے ہیں اس سے قرآن اور سنت کی کئی نصوص کا انکار لازم آتا ہے
مثلاً
أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّهِ كَمَن بَاء بِسَخْطٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
(کیا پس وه شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے)
سورة آل عمران الاية رقم 162
نیز
أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
(کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالﺂخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا)
سورة القصص الاية رقم 61
نیز
أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ

سورة محمد الاية رقم 14
(کیا پس وه شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہو سکتا ہے؟ جس کے لئے اس کا برا کام مزین کر دیا گیا ہو اور وه اپنی نفسانی خواہشوں کا پیرو ہو؟)
نیز
أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(اچھا وه شخص زیاده ہدایت واﻻ ہے جو اپنے منھ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وه جو سیدھا (پیروں کے بل) راه راست پر چلا ہو؟)
سورة الملك الاية رقم 22
نیز
أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ
(کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دینگے؟)

سورة ص الاية رقم 28

ووٹ میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے اکثریت کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سو ایک دفعہ مذمت کی ہے ہم صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ

(اور دنیا میں زیاده لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وه آپ کو اللہ کی راه سے بے راه کردیں وه محض بے اصل خیاﻻت پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں)
سورة الأنعام الاية رقم 116

ووٹ میں مختلف پارٹیوں کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جب ہی تو مقابلہ ہوتا ہے ورنہ مقابلہ کس سے .. یعنی مسلمانوں کی تفریق کا نظام ہے اور یہ قرآن کی کئی آیتوں کا انکار ہے ایک آیت پیش خدمت ہے

ان تمام امور کے ہوتے ہوئے ووٹ کو شہادت، امانت اور مشورہ قرار دینا بہت بڑی خطا اور نہایت غلط روش ہے، جن علماء نے ووٹ کو تقدس کا لبادہ اوڑھانے کے لیے فتاویٰ جاری فرمائے ہیں غالباً انہوںنے اس پورے نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ نہیں فرمایا یا شاید وہ اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے اس طرف نگاہ نہیں کرسکے۔

ووٹ دینا مشرکانہ نظام ریاست وسیاست کے قیام واستحکام کا ذریعہ ہے، یہ شرک کے ارتکاب اور کفر کی تایید کے علاوہ ظلم واستبداد کی حکومت کی حمایت کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اﷲ(الآیہ)

قرآن مجید میں انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے گیاجو اپنے ایمان کو شرک وظلم سے آلودہ نہیں کرتے۔ چناںچہ ارشاد ہے:

اَلَّذِےْنَ اٰمنُوْا وَلَمْ ےَلْبِسُوْا اِےْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اولٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ (الانعام:٨٢)

''جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن وچین ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔''

ہماری عامة الناس سے درخواست ہے وہ اس جمہوری تماشے کاحصہ ہرگز نہ بنیں،اپنے آپ کو اس سے بچائیں،الیکشن والے دن زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔اگر معاشرے میں تبدیلی مقصود ہے تو اس کے لیے شرعی طریقہ اختیار کریں۔اور یہ یاد رکھیں کہ غیر شرعی طریقوں سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2019
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
36
ووٹ جمہوری نظام کے قیام کا اہم ترین حصہ ہے،اس کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جا کر عوامی مفاد میںقانون سازی کرتے ہیں۔ووٹ کا طریقہ کبھی بھی ہماری اسلامی روایت اور تاریخ میں رائج نہیں رہا۔ووٹ یاخفیہ رائے شماری کا آغاز١٨٧٠ء میں ہوا جب لندن اسکول بورڈ کا انتخاب عمل میں آیا۔اس عمل میں ہر ووٹر کو ایک پرچی دی جاتی ہے جس میں زیر عمل انتخاب کے تمام امید واروں کے نام شامل ہوتے ہیں ،انتخاب کنندہ اپنی پسندکے امید وار کے نام کے سامنے نشان لگا کر پرچی مقفل بکس میں ڈال دیتا ہے(بحوالہ:وکی پیڈیا)

اگر ووٹ کو گواہی تسلیم کیا جائے تو کیا یہاں گواہی کی شرائط اور حدودوقیود موجود ہیں؟ مثلاً گواہ عادل ہو، بالغ ہو، شریف ہو، بایں معنی کہ پنج وقتہ نمازی ہو، حلال وحرام کو جانتا ہو، یہاں بیش تر اکثریت ایسی ہے، جو طہارت اور نماز کے بنیادی مسائل سے بھی واقف نہیں۔ فقہاء نے درج ذیل اشخاص کی گواہی ناقابل قبول قرار دی ہے:

(1) نماز روزے کا عمداً تارک ہو، (2) یتیم کا مال کھانے والا (3) زانی اور زانیہ (4) لواط کا مرتکب (5) جس پر حد قذف لگ چکی ہو (6) چور ڈاکو (6) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا (8) خائن اور خائنہ…

یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں جس چیز کی شرعی حیثیت ہوتی ہے اس کے لیے شرعی ضوابط بھی ہوتے ہیں ،مثلاً:نکاح،حدود،عقود،گواہی…گواہی کے لیے شرعی ضابطہ یہ ہے کہ مرد کی ایک گواہی اور دو عورتوں کی ایک گواہی شمار کی جاتی ہے۔ایک عورت کی گواہی ناقابلِ قبول ہے ۔ووٹ کو اگر گواہی شمار کیا جائے تو یہ غیر شرعی گواہی ہو گی مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر:

"ووٹ کیوں حرام ہے "

ووٹ میں مسلم اور کافر برابر ہوتے ہیں
اس سے قرآن کی درج ذیل آیات کا انکار لازم آتا ہے
أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ
(سورة السجدة)

(کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے
لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو)


أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
(کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے)

اس طرح دیگر دسیوں آیات ہیں

ووٹ میں عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں .. اس سے درج ذیل آیات کا انکار لازم آتا ہے
ِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
(بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے))

سورة الزمر الاية رقم 9
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
(اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے)

سورة المجادلة الاية رقم 11

ووٹ میں مرد عورت برابر ہوتے ہیں اس سے قرآن کی درج ذیل آیت کا انکار لازم آتا ہے
ْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى
(اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں)
سورة آل عمران الاية رقم 36

ووٹ میں نیک اور بد برابر ہوتے ہیں اس سے قرآن اور سنت کی کئی نصوص کا انکار لازم آتا ہے
مثلاً
أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّهِ كَمَن بَاء بِسَخْطٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
(کیا پس وه شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے)
سورة آل عمران الاية رقم 162
نیز
أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
(کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالﺂخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا)
سورة القصص الاية رقم 61
نیز
أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ

سورة محمد الاية رقم 14
(کیا پس وه شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہو سکتا ہے؟ جس کے لئے اس کا برا کام مزین کر دیا گیا ہو اور وه اپنی نفسانی خواہشوں کا پیرو ہو؟)
نیز
أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(اچھا وه شخص زیاده ہدایت واﻻ ہے جو اپنے منھ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وه جو سیدھا (پیروں کے بل) راه راست پر چلا ہو؟)
سورة الملك الاية رقم 22
نیز
أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ
(کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دینگے؟)

سورة ص الاية رقم 28

ووٹ میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے اکثریت کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سو ایک دفعہ مذمت کی ہے ہم صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ

(اور دنیا میں زیاده لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وه آپ کو اللہ کی راه سے بے راه کردیں وه محض بے اصل خیاﻻت پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں)
سورة الأنعام الاية رقم 116

ووٹ میں مختلف پارٹیوں کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جب ہی تو مقابلہ ہوتا ہے ورنہ مقابلہ کس سے .. یعنی مسلمانوں کی تفریق کا نظام ہے اور یہ قرآن کی کئی آیتوں کا انکار ہے ایک آیت پیش خدمت ہے

ان تمام امور کے ہوتے ہوئے ووٹ کو شہادت، امانت اور مشورہ قرار دینا بہت بڑی خطا اور نہایت غلط روش ہے، جن علماء نے ووٹ کو تقدس کا لبادہ اوڑھانے کے لیے فتاویٰ جاری فرمائے ہیں غالباً انہوںنے اس پورے نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ نہیں فرمایا یا شاید وہ اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے اس طرف نگاہ نہیں کرسکے۔

ووٹ دینا مشرکانہ نظام ریاست وسیاست کے قیام واستحکام کا ذریعہ ہے، یہ شرک کے ارتکاب اور کفر کی تایید کے علاوہ ظلم واستبداد کی حکومت کی حمایت کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اﷲ(الآیہ)

قرآن مجید میں انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے گیاجو اپنے ایمان کو شرک وظلم سے آلودہ نہیں کرتے۔ چناںچہ ارشاد ہے:

اَلَّذِےْنَ اٰمنُوْا وَلَمْ ےَلْبِسُوْا اِےْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اولٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ (الانعام:٨٢)

''جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن وچین ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔''

ہماری عامة الناس سے درخواست ہے وہ اس جمہوری تماشے کاحصہ ہرگز نہ بنیں،اپنے آپ کو اس سے بچائیں،الیکشن والے دن زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔اگر معاشرے میں تبدیلی مقصود ہے تو اس کے لیے شرعی طریقہ اختیار کریں۔اور یہ یاد رکھیں کہ غیر شرعی طریقوں سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔
محترم ووٹ کے عدم جواز کا فتویٰ دیکر سیکیولر طبقے کی راہ ہموار کر رہے ہیں لیکن آپ نے رائج الوقت جمہوری نظام کا متبادل تو نہیں بتایا جس سے واقعتاً معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہو اب برائے کرم وہ بھی بتادیں ۔ جزاک اللہ
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2019
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
36
ووٹ جمہوری نظام کے قیام کا اہم ترین حصہ ہے،اس کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جا کر عوامی مفاد میںقانون سازی کرتے ہیں۔ووٹ کا طریقہ کبھی بھی ہماری اسلامی روایت اور تاریخ میں رائج نہیں رہا۔ووٹ یاخفیہ رائے شماری کا آغاز١٨٧٠ء میں ہوا جب لندن اسکول بورڈ کا انتخاب عمل میں آیا۔اس عمل میں ہر ووٹر کو ایک پرچی دی جاتی ہے جس میں زیر عمل انتخاب کے تمام امید واروں کے نام شامل ہوتے ہیں ،انتخاب کنندہ اپنی پسندکے امید وار کے نام کے سامنے نشان لگا کر پرچی مقفل بکس میں ڈال دیتا ہے(بحوالہ:وکی پیڈیا)

اگر ووٹ کو گواہی تسلیم کیا جائے تو کیا یہاں گواہی کی شرائط اور حدودوقیود موجود ہیں؟ مثلاً گواہ عادل ہو، بالغ ہو، شریف ہو، بایں معنی کہ پنج وقتہ نمازی ہو، حلال وحرام کو جانتا ہو، یہاں بیش تر اکثریت ایسی ہے، جو طہارت اور نماز کے بنیادی مسائل سے بھی واقف نہیں۔ فقہاء نے درج ذیل اشخاص کی گواہی ناقابل قبول قرار دی ہے:

(1) نماز روزے کا عمداً تارک ہو، (2) یتیم کا مال کھانے والا (3) زانی اور زانیہ (4) لواط کا مرتکب (5) جس پر حد قذف لگ چکی ہو (6) چور ڈاکو (6) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا (8) خائن اور خائنہ…

یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں جس چیز کی شرعی حیثیت ہوتی ہے اس کے لیے شرعی ضوابط بھی ہوتے ہیں ،مثلاً:نکاح،حدود،عقود،گواہی…گواہی کے لیے شرعی ضابطہ یہ ہے کہ مرد کی ایک گواہی اور دو عورتوں کی ایک گواہی شمار کی جاتی ہے۔ایک عورت کی گواہی ناقابلِ قبول ہے ۔ووٹ کو اگر گواہی شمار کیا جائے تو یہ غیر شرعی گواہی ہو گی مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر:

"ووٹ کیوں حرام ہے "

ووٹ میں مسلم اور کافر برابر ہوتے ہیں
اس سے قرآن کی درج ذیل آیات کا انکار لازم آتا ہے
أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ
(سورة السجدة)

(کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے
لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو)


أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
(کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے)

اس طرح دیگر دسیوں آیات ہیں

ووٹ میں عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں .. اس سے درج ذیل آیات کا انکار لازم آتا ہے
ِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
(بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے))

سورة الزمر الاية رقم 9
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
(اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے)

سورة المجادلة الاية رقم 11

ووٹ میں مرد عورت برابر ہوتے ہیں اس سے قرآن کی درج ذیل آیت کا انکار لازم آتا ہے
ْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى
(اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں)
سورة آل عمران الاية رقم 36

ووٹ میں نیک اور بد برابر ہوتے ہیں اس سے قرآن اور سنت کی کئی نصوص کا انکار لازم آتا ہے
مثلاً
أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّهِ كَمَن بَاء بِسَخْطٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
(کیا پس وه شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے)
سورة آل عمران الاية رقم 162
نیز
أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
(کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالﺂخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا)
سورة القصص الاية رقم 61
نیز
أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ

سورة محمد الاية رقم 14
(کیا پس وه شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہو سکتا ہے؟ جس کے لئے اس کا برا کام مزین کر دیا گیا ہو اور وه اپنی نفسانی خواہشوں کا پیرو ہو؟)
نیز
أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(اچھا وه شخص زیاده ہدایت واﻻ ہے جو اپنے منھ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وه جو سیدھا (پیروں کے بل) راه راست پر چلا ہو؟)
سورة الملك الاية رقم 22
نیز
أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ
(کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دینگے؟)

سورة ص الاية رقم 28

ووٹ میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے اکثریت کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سو ایک دفعہ مذمت کی ہے ہم صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ

(اور دنیا میں زیاده لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وه آپ کو اللہ کی راه سے بے راه کردیں وه محض بے اصل خیاﻻت پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں)
سورة الأنعام الاية رقم 116

ووٹ میں مختلف پارٹیوں کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جب ہی تو مقابلہ ہوتا ہے ورنہ مقابلہ کس سے .. یعنی مسلمانوں کی تفریق کا نظام ہے اور یہ قرآن کی کئی آیتوں کا انکار ہے ایک آیت پیش خدمت ہے

ان تمام امور کے ہوتے ہوئے ووٹ کو شہادت، امانت اور مشورہ قرار دینا بہت بڑی خطا اور نہایت غلط روش ہے، جن علماء نے ووٹ کو تقدس کا لبادہ اوڑھانے کے لیے فتاویٰ جاری فرمائے ہیں غالباً انہوںنے اس پورے نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ نہیں فرمایا یا شاید وہ اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے اس طرف نگاہ نہیں کرسکے۔

ووٹ دینا مشرکانہ نظام ریاست وسیاست کے قیام واستحکام کا ذریعہ ہے، یہ شرک کے ارتکاب اور کفر کی تایید کے علاوہ ظلم واستبداد کی حکومت کی حمایت کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اﷲ(الآیہ)

قرآن مجید میں انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے گیاجو اپنے ایمان کو شرک وظلم سے آلودہ نہیں کرتے۔ چناںچہ ارشاد ہے:

اَلَّذِےْنَ اٰمنُوْا وَلَمْ ےَلْبِسُوْا اِےْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اولٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ (الانعام:٨٢)

''جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن وچین ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔''

ہماری عامة الناس سے درخواست ہے وہ اس جمہوری تماشے کاحصہ ہرگز نہ بنیں،اپنے آپ کو اس سے بچائیں،الیکشن والے دن زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔اگر معاشرے میں تبدیلی مقصود ہے تو اس کے لیے شرعی طریقہ اختیار کریں۔اور یہ یاد رکھیں کہ غیر شرعی طریقوں سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔
محترم ووٹ کے عدم جواز کا فتویٰ دیکر سیکیولر طبقے کی راہ ہموار کر رہے ہیں لیکن آپ نے رائج الوقت جمہوری نظام کا متبادل تو نہیں بتایا جس سے واقعتاً معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہو اب برائے کرم وہ بھی بتادیں ۔ جزاک اللہ
 
Top