• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ وجوہات جن کی بناپرایک شخص کفریہ افعال کے ارتکاب کے باوجود کافرنہیں کہلاتا

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اہل سنت کے ہاں اگر ایک شخص کفرکرتاہے او راس میں درج ذیل چار وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
پہلی یہ کہ اسے حکم شرعی کا علم نہ ہو۔یعنی کوئی ایسا کام کرتاہے جومبنی برکفرہے لیکن اس کے بارےمیں اسے شرعی حکم کاعلم نہیں تو وہ کافرنہیں کہلائے گا۔
دوسری یہ کہ اس سے غلطی ہوجائےیعنی حکم شرعی کا تو علم ہے لیکن غلطی کربیٹھتاہے۔
تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسے کفرکرنےپر مجبورکیاجائے ان چاروں کو علمی زبان میں جہالت،خطاء،تاوئل یا شبہ اوراکراہ کہتےہیں اور اس کےلئےموانع التکفیرکی اصطلاح بولی جاتی ہے۔
یہ صرف معلومات کی حد تک دیاجارہاہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اہل سنت کے ہاں اگر ایک شخص کفرکرتاہے او راس میں درج ذیل چار وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
پہلی یہ کہ اسے حکم شرعی کا علم نہ ہو۔یعنی کوئی ایسا کام کرتاہے جومبنی برکفرہے لیکن اس کے بارےمیں اسے شرعی حکم کاعلم نہیں تو وہ کافرنہیں کہلائے گا۔
دوسری یہ کہ اس سے غلطی ہوجائےیعنی حکم شرعی کا تو علم ہے لیکن غلطی کربیٹھتاہے۔
تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسے کفرکرنےپر مجبورکیاجائے ان چاروں کو علمی زبان میں جہالت،خطاء،تاوئل یا شبہ اوراکراہ کہتےہیں اور اس کےلئےموانع التکفیرکی اصطلاح بولی جاتی ہے۔
یہ صرف معلومات کی حد تک دیاجارہاہے۔
جزاکم اللہ خیرا کیلانی بھائی

جو لوگ معین تکفیر کرتے ہیں اور حکمرانوں کو برملا کافر کافر کی صداؤں سے پکارتے ہیں۔ کیا وہ ان باتوں پر غور وخوض نہیں کرسکتے۔ ؟ اللہ تعالیٰ ہی سے ہدایت کا سوال ہے۔ کبھی وہ دور تھا کہ اسلام میں داخلے کےلیے کوششیں کی جاتی تھیں اور آج ایسے دور سے پالا پڑا ہے کہ یہاں پر لوگ اپنے ہی کلمہ گووں کو کفار کی لسٹ میں دھکیلنے پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
اہل سنت کے ہاں اگر ایک شخص کفرکرتاہے او راس میں درج ذیل چار وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
پہلی یہ کہ اسے حکم شرعی کا علم نہ ہو۔یعنی کوئی ایسا کام کرتاہے جومبنی برکفرہے لیکن اس کے بارےمیں اسے شرعی حکم کاعلم نہیں تو وہ کافرنہیں کہلائے گا۔
دوسری یہ کہ اس سے غلطی ہوجائےیعنی حکم شرعی کا تو علم ہے لیکن غلطی کربیٹھتاہے۔
تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسے کفرکرنےپر مجبورکیاجائے ان چاروں کو علمی زبان میں جہالت،خطاء،تاوئل یا شبہ اوراکراہ کہتےہیں اور اس کےلئےموانع التکفیرکی اصطلاح بولی جاتی ہے۔
یہ صرف معلومات کی حد تک دیاجارہاہے۔
کیلانی صاحب معلومات کے لیے ایک سوال ہے:
اگر کسی شخص سے موانع تکفیر دور ہو جانے کے بعد کفر اکبر کا صدور ہوتا ہے تو کیا اس کو معین طور پر کافر کہا جائے گا؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
کیلانی صاحب معلومات کے لیے ایک سوال ہے:
اگر کسی شخص سے موانع تکفیر دور ہو جانے کے بعد کفر اکبر کا صدور ہوتا ہے تو کیا اس کو معین طور پر کافر کہا جائے گا؟
محتر م بھائی میں آپ کے سوال کاجواب ضرور یتاہوں لیکن اس سے پہلے ایک اصول کی صراحت کردیناضروری سمجھتاہودیکھیں جی ایک ہوتاہےمسلہ اوردوسراہوتاہےفتوی مسلہ ہمیشہ نصوص اور نصوص سے ہی اخذکردہ اصولوں کو سامنے رکھ کر بتادیاجاتاہے لیکن فتوی ہوتاہے کسی خاص صورت حال یا اشخاص پر اس مسلے کو لاگوکرنالہذا پیارے بھائی جان اگر مسلہ دیکھیں تو یہی ہےکہ اگر کسی شخص میں موانع التکفیر نہیں پائے جارہےتو اس کےاوپر وہی حکم لگناچاہیےلیکن فتوی دیتے وقت کئی احتیاطیں کرنا پڑیں گی اس اصول کوہرکوئی لاگو کرنے اتھارٹی بھی نہیں رکھتااو رعملی صورتحال کاتعین بھی ہر کوئی کرنے اہلیت نہیں رکھتاچناچہ اس اصول کو جب لاگوکرناہے تو اس کی اہلیت والے لوگ ہی لاگو کریں گے۔وغیرہ وغیرہ
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے۔
محترم تاویل کی بھی تھوڑی وضاحت کر دیجئے۔
مثلاً کوئی شخص فرضی نماز کا انکار کرتا ہے اور وہ تاویل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نماز دل کی ہوتی ہے یا قرآن میں بیان کردہ نماز سے مراد نظام ہے وغیرہ وغیرہ۔
تو کیا اس طرح کی تاویل معتبر ہو گی۔
اسی طرح اگر کوئی شخص قبر کو تعبدی سجدہ کرتا ہے اور اس کی کوئی تاویل رکھتا ہے تو کیا اس کی یہ تاویل بھی مانی جائے گی؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
بھائی جان آپ سچ پوچھیں تو میرےخیال میں یہ باب بہت وسیع ہےکہ کس حد اور توعیت کا تاویل شبہ ہو تو تکفیر کرنی چاہیےلیکن بات پھر وہی ہےکہ کبیرہ کےارتکاب کے باوجود بھی کس کی تکفیر کرنی ہے اورکس کی نہیں یہ انتہائی نازک مسلہ ہے اور یہ صرف وقت کےمجتہدین اہی اختیار رکھتے ہیں۔
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
اگر مسلہ دیکھیں تو یہی ہےکہ اگر کسی شخص میں موانع التکفیر نہیں پائے جارہےتو اس کےاوپر وہی حکم لگناچاہیےلیکن فتوی دیتے وقت کئی احتیاطیں کرنا پڑیں گی اس اصول کوہرکوئی لاگو کرنے اتھارٹی بھی نہیں رکھتااو رعملی صورتحال کاتعین بھی ہر کوئی کرنے اہلیت نہیں رکھتاچناچہ اس اصول کو جب لاگوکرناہے تو اس کی اہلیت والے لوگ ہی لاگو کریں گے۔وغیرہ وغیرہ
جزاک اللہ خیرا کیلانی بھائی
ایک بات مزید وضاحت کر دوں کہ اگر کسی میں موانع تکفیر سارے ختم ہو جاتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی اگر علماء کسی کی تکفیر نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر عامی تکفیر کرنے بیٹھ جائے۔
مثلاً:عبداللہ بن ابی پر تکفیر کے سارے موانع ختم ہو جاتے ہیں،ساری تاویلیں توڑ دی گئیں تھیں۔لیکن اس کے باوجود بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکفیرنہیں کی۔جس وجہ سے آج تک علماء اور محدیثین عبداللہ بن ابی کو منافق ہی کہتے ہیں۔کسی نے مرتد کافر کا فتوی نہیں لگایا۔
اگر علماء تکفیر نہیں کرتے تو نا کریں۔اگر کر دیتے ہیں تو ان کا کام ہے۔عامی کا کام دعوت ہے ۔جس کے متعلق قیامت کے دن سوال ہوگا۔عامی سے تکفیر نہ کرنے پر سوال نہیں ہوگا لیکن اگر عامی تکفیر کرنے لگ جائے تو تب سوال ہوگا کہ تجھے یہ حق کس نے دیا تھا؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اہل سنت کے ہاں اگر ایک شخص کفرکرتاہے او راس میں درج ذیل چار وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
پہلی یہ کہ اسے حکم شرعی کا علم نہ ہو۔یعنی کوئی ایسا کام کرتاہے جومبنی برکفرہے لیکن اس کے بارےمیں اسے شرعی حکم کاعلم نہیں تو وہ کافرنہیں کہلائے گا۔
دوسری یہ کہ اس سے غلطی ہوجائےیعنی حکم شرعی کا تو علم ہے لیکن غلطی کربیٹھتاہے۔
تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسے کفرکرنےپر مجبورکیاجائے ان چاروں کو علمی زبان میں جہالت،خطاء،تاوئل یا شبہ اوراکراہ کہتےہیں اور اس کےلئےموانع التکفیرکی اصطلاح بولی جاتی ہے۔
یہ صرف معلومات کی حد تک دیاجارہاہے۔
اسلام و علیکم بھائی -

میں آپ کی اس بات کی مزید وضاحت چاہوں گا کیونکہ -

ایک انسان کو بحثیت مسلمان چاہے مرد ہو یا عورت شرعی احکامات پر نہ صرف عمل کرنے بلکہ اس کا علم حاصل کرنا بھی واجب ہے -جب ہی وہ اس پر صحیح طو ر عمل کر پا ے گا -اگر جان بوجھ کر وہ اس سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہو گا ؟؟-

آپ نے لکھا ہے "تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے" سوال یہ ہے کہ نبی کریم صل الله وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور کے بعد بہت سے ایسے گروہ پیدا ہوے جنھوں نے قرآن اور احدیث کی اپنے فہیم کے مطابق تاویلات کیں اور محدثین اور ائمہ کے مطابق کافر قرا ر پا ے آخر کس اصول کے تحت وو کافر قرار پا ے -؟؟ جیسے رافضی مععتزلا، جہمیہ، قدریہ ، جبر،یہ، وحدت الوجود وحدت الشہود کا حامل گروہ وغیرہ -کیا غلط تاویل یا شبہ کی وجہ سے انسان کافر نہیں ہو سکتا ؟؟ عیسائی بھی تو حضرت عیسیٰ کی طرف سے شک میں پڑ گئے تھے اور کافر قرار پا ے -؟؟

پھر آپ نے لکھا ہے کہ "وہ مجبور نہ ہو". سوال ہے کہ اگر کوئی برے کام کے جواز کے لئے یہ کہے کہ اب تو حالات ہی ایسے ہیں لہذا ہم مجبور ہیں تو کیا اس کا یہ عذر کفر میں مانع ہو گا؟؟

وسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محمد علی جواد

دخل در معقولات کے لیے معذرت ۔

اسلام و علیکم
صحیح ہے السلامُ علیکم ۔
بھائی عربی زبان میں یہ خاصیت ہے کہ اس میں درست تلفظ بولنے کے لیے حرکات (زبر ، زیر ، پیش ) لگائی جا سکتی ہیں ۔
میرے خیال سے آپ کی یہ غلطی انگریزی میں لکھے ہوئے Asslam o alaikum کی نقل سے پیدا ہوئی ہے ۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اسلام و علیکم بھائی -

میں آپ کی اس بات کی مزید وضاحت چاہوں گا کیونکہ -

ایک انسان کو بحثیت مسلمان چاہے مرد ہو یا عورت شرعی احکامات پر نہ صرف عمل کرنے بلکہ اس کا علم حاصل کرنا بھی واجب ہے -جب ہی وہ اس پر صحیح طو ر عمل کر پا ے گا -اگر جان بوجھ کر وہ اس سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہو گا ؟؟-

آپ نے لکھا ہے "تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے" سوال یہ ہے کہ نبی کریم صل الله وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور کے بعد بہت سے ایسے گروہ پیدا ہوے جنھوں نے قرآن اور احدیث کی اپنے فہیم کے مطابق تاویلات کیں اور محدثین اور ائمہ کے مطابق کافر قرا ر پا ے آخر کس اصول کے تحت وو کافر قرار پا ے -؟؟ جیسے رافضی مععتزلا، جہمیہ، قدریہ ، جبر،یہ، وحدت الوجود وحدت الشہود کا حامل گروہ وغیرہ -کیا غلط تاویل یا شبہ کی وجہ سے انسان کافر نہیں ہو سکتا ؟؟ عیسائی بھی تو حضرت عیسیٰ کی طرف سے شک میں پڑ گئے تھے اور کافر قرار پا ے -؟؟

پھر آپ نے لکھا ہے کہ "وہ مجبور نہ ہو". سوال ہے کہ اگر کوئی برے کام کے جواز کے لئے یہ کہے کہ اب تو حالات ہی ایسے ہیں لہذا ہم مجبور ہیں تو کیا اس کا یہ عذر کفر میں مانع ہو گا؟؟

وسلام
السلام علیکم
محتر م بھائی آپ کی پوسٹ پڑی یقین جانئے خوشی ہوئی ۔آپ ایک سنجیدہ سائل محسوس ہوے ۔نہ ہی جذباتیت ہے اور نہ ہی الزام ترشی،مزید یہ کہ سوال کےاندرواقعی طلب پائی جاتی ہے اللہ آپ کو جزائےخیر دے میں دعاکرتاہوں کہ اس فورم کے تمام لوگوں کے اندر یہی رویہ پنپے۔
اب آتے ہیں آپ کے جوابات کی طرف ،برادرم آپ نےموانع التکفیر کے حوالے سے تین سوالا ت اٹھائے ہیں پہلایہ کہ جو مسلمان ضروری دینی علم سیکھنے سے کوتاہی برتے ہیں ان کے بارے میں کیاحکم لگایاجائے،دوسرایہ کہ تاریخ اسلامی میں تاویل و شبہ کے گرفتار جو فرق ضالہ گزرے ہیں محدثین نے ان کی تکفیر کی ہے تو آج ہم کیوں نہی کرسکتے؟آپکا تیسرا او رآخری سوال یہ ہے کہ حالات کی مجبوری کو معتبر سمجھاجاسکتاہے یانہیں؟
جواب دینے سے قبل میں صراحت کردوں کہ یہ کوئی فتوی نہیں ہے بس مسلےکاایک نظری حل ہے۔دیکھیں بھائی جان علمانے اس حوالے سے بڑی تفصیل سے بحث کی ہےکہ دین کا بنیادی علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے اور پھر یہ بھی وضاحت کی ہےکہ کتناعلم یاکون کونسے فرائض کاعلم حصل کرناہر ایک پر واجب ہے امام غزالی نے احیاالعلوم میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہےاس کے علاوہ دور جدید میں بھی منہاج المسلم وغیرہ جیسی کتابیں اسی ضرورت کے تحت لکھی گئیں ہےلیکن ان علما میں سے کسی نے بھی اس علم کی تحصیل میں کوتاہی کرنےوالے کو کافر نہیں کہاوہ فاسق ہوسکتاہےیااس طرح کا کوئی اؤرسخت حکم اس پر لاگو کیاہے علمانے لیکن کافرنہیں کہا۔
آپ کے دوسر ے سوال کےضمن میں عرض کرتاہوں کہ خلافت عباسی کےدور میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب کوئی ایک بھی مسلمان گروہ ایسا نہیں تھا جس کی کسی دوسر ےگروہ کی طرف سے تکفیر نہ کی جارہی ہو تو اسوقت سوال پیداہوا کہ آخر مسلمان کون ہے تو علمانے پھر اجماع کیا کہ جو بھی قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑتاہے وہ مسلمان ہوگا چاہے وہ کتناہی تاویل وشبہ میں گڑفتار ہوچناچہ اسے ہی امام ابوالعز حنفی نےشرح عقیدہ طحاوہ میں نقل کیاہے۔آپ نے دیکھانہیں کہ دورحاضرمیں مرزائیوں کوکافر کہنےمیں ایک سو سال علماکےدرمیان بحث مباحثہ ہوتارہاہے حتی کہ ابوالکلام جیسے لوگ ان کے بارےمیں کفر کاحکم نہیں لگاسکے
آپ کےآخری سوال کے ضمن میں عرض کرتاہوں کہ دیکھیں جی ہر وہ مجبوری مجبوری ہےیاہر وہ جبر ،جبرہےجسے شریعت جبر قرار دیتی ہےرہی یہ بات کہ شریعت کونسے جبر کو معتبر مانتی ہےتو اس کاتعین علمائے وقت یا مجتہدین وقت کرسکتے ہیں۔ہر کسی کے پاس یہ اتھارٹی نہیں کہ وہ اس کاتعین کرتےپھرے۔
والسلام
 
Top