• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ویلنٹائن ڈے

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
14 فروری قریب ہے، جس طرح بقرہ عید سے پہلے قصائی اپنی چھریاں تیز کرتے ہیں اس سے بھی کہیں زیادہ تیاری میڈیا کرتا ہے اپنی زبانوں کو تیز کرنے کے لیئے۔ کہ کس طرح بے حیائی کو فروغ دے کر نالائق اور ویلے ناظرین کی تعداد بڑھائی جائے۔

بے غیرتی اور فحاشی کو اچھائی کا نام دینا اور پھر مسلمانوں کو اس کا درس دینا میڈیا کے لیئے کتنا آسان کام ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے نام پر کبھی اسے محبت بانٹنے کا دن قرار دے کر تو کبھی حرام کاری کو مقدس تہوار کی ملمع سازی کر کے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کل تک جب گھروں میں عشق کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا جاتا تھا اب انہی گھروں کے بچوں کے محبت نامے اور بیہودہ اشعار اخبارات میں شائع کیئے جاتے ہیں۔ میڈیا اپنے چہرے پر آزادی کا لیبل لگا کر ناجائز تعلقات رکھنے کا جہاں شوق دلاتا ہے وہیں تحفے تحائف کے تبادلے اور ملاقاتوں کے سلسلوں کے لیے اکسانے کا کام بھی کرتا ہے۔(حالانکہ تحفے دینا وہیں جائز ہے جہاں تعلق بھی جائز ہو۔) جبکہ ایسا کرنے میں ان کو کوئی قباحت نظر آتی ہے نہ یہ انہیں غیر اسلامی اور بیہودہ لگتا ہے۔ وجہ صرف اور صرف عوام کی توجہ حاصل کر کے پیسہ کمانا ہے۔بس کسی طرح چرب زبانی سے فحاشی کو جواز فراہم کرنا ہے۔ چاہے وہ عزت بیچ کر ملے ،اسلامی اقدار کا جنازہ نکال کر ملے، بہنوں بیٹیوں کو گھروں کی دہلیز پار کروا کے ملے یا مکاری اور فراڈ کو فروغ دے کر۔اتنی دھوم سے تو کبھی عید نہ منائی ہوگی جتنی محنت اس دن کے لیئے ہے۔
میڈیا یہ تو بتاتا ہے کہ 14 فروری محبت کا دن ہے مگر یہ کہاں سے آیا؟ کن کی ایجاد ہے ؟کس نے منایا تھا؟ کیسے منایا تھا؟ کیوں منایا تھا ۔۔۔ یہ نہیں بتاتا۔
میڈیا یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا بھر میں یہ دن منایا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ اب مغرب خود اس دن اور اس جیسے مزید تہواروں سے جان چھڑا رہا ہے۔
میڈیا یہ کیوں نہیں بتاتا کہ یہودی علماء بھی ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے عیسائیوں کا تہوار سمجھتے ہیں۔اور اس لئے بھی کہ بڑھتی فحاشی اور ولد الزنا بچوں کی اغلب اکثریت نے معاشرے کا سکون برباد کر دیا ہے۔اور گھریلو زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔اس لئے وہ اب فحاشی سے جان چھڑانے کے حربے تلاش کر رہے ہیں۔ اور عیسائی راہب و علماء بھی اس کے اور اس جیسے فحش تہواروں کے خلاف ہیں کیونکہ تاریخی واقعہ جو اس دن کی بنیاد بنا غیر مستند مگر جو مشہور ہے وہ یہی تھا کہ ایک راہب نے اپنی معشوقہ راہبہ کو جھوٹ بول کر ورغلا کر 14 فروری کے دن کو حرام تعلقات قائم کرنے کا جواز دے کر اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں قتل کر دیا گیا کیونکہ ایسا راہبوں کے مذہب میں حرام تھا۔
مگر کمال کی بات یہ ہے کہ فحاشی کا بیج بونے والے اب خود اس سے گلو خلاصی کے لیئے کوششیں کر رہے ہیں اور یہاں میڈیا ان کی رسموں کو ان کے طریقوں کو سینے سے لگا کر اسے تقدس کا رنگ دینے اور اپنے کلچر کا حصہ بنانے میں دن رات ایک کر رہا ہے۔ میرے خیال سے شاید مغرب کی قے چاٹنے کا ٹھیکہ میڈیا نے ہی لے رکھا ہے۔
۔
٭٭٭۔۔۔اسلام میں اغیار کے تہواروں کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔۔۔٭٭٭
مسلمانوں کو کسی طور یہ تہوار منانا، اس کی مبارکباد دینا یا اس دن کسی بھی قسم کے تحائف کا تبادلہ کرنا زیب نہیں دیتا۔ قرآن کے مطابق شیطان ہمیں فحاشی کا حکم دیتا ہے۔(البقرہ)
سورہ الاعراف میں ہے کہ اللہ نے ظاہر اور چھپی ہوئی(ہر طرح کی )فحاشی حرام کی ہے۔
سورہ الاسراء میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ(زنا کرنا تو بہت دور کی بات ہے )تم زنا کے قریب تک نہ پھٹکو، کیونکہ یہ فحاشی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
یہی فحاشی شیطان کا نقش قدم ہے۔ سورہ النور میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ:
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی پھیلے(چاہے کسی بھی درجہ کی کسی بھی طریقے کی ہو،اور کسی بھی زریعے سے ہو میڈیا کا سہارا لے کر یا عشق و محبت کے قصے عام کر کے یا میاں بیوی کے پوشیدہ راز ظاہر کر کے تو ایسے پھیلانے والوں کے لیئے) دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔
دینا کا عذاب تو آج سمجھ آہی رہا ہے۔ گھریلو زندگی سے سکون کا چلے جانا اورآپسی اعتبار کا اٹھ جانا وغیرہ ۔ اور ظاہر سی بات ہے معاشرہ تبھی اچھا بنتا ہے جب گھریلو سکون میسر ہو۔ یہ گھر گھر مل کر ہی معاشرہ تعمیر کرتے ہیں۔
اور فرمان رسول ﷺ کہ جس نے جس قوم کی مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے۔(انجام کے لحاظ سے بھی اور نتائج بھگتنے کے اعتبار سے بھی) سنن ابوداؤد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہم سب کو شیطان کے کارندے اور معاون بننے سے محفوظ رکھے۔
آمین ثم آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
للہ ہم سب کو شیطان کے کارندے اور معاون بننے سے محفوظ رکھے۔
آمین ثم آمین
اللہ ہم سب کو شیطان کےہمنوا اور معاون بننے سے بچائے ۔ اور اس کے شر سے محفوظ رکھے۔
آمین ثم آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ویلنٹائن ڈے (لفنگوں کا عالمی دن )

الحمد للّہ والصلاۃ والسلام عَلی أشرف الأنبیاء والمُرسلین نبینا محمد و علی آلہ وسلم ،

پچھلے چند سالوں سے ہماری امت میں اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی ایک """ دن منانے""" کی رسم کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ، دیگر بیسویں رسموں ، اور عادات کی طرح ہم مسلمان اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اسے بھی قبول کرتے جا رہے ہیں ، جبکہ اس رسم اور اس طرح کی دوسری غیر اسلامی رسموں کو قبول کرنے کا اصل اور حقیقی سبب وسعت قلبی نہیں ، اپنے دین سے جہالت اور دین کے مخالفین کی فکری یلغار سے ہارنا ہے ،

جی میں یہاں اس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے """ ویلنٹائن ڈے """ اور """ عید محبت """ کہا جاتا ہے ، اور اس رسم کو پورا کررنے کے لیے ایک خاص دن """ چودہ فروری """ مقرر ہے ، جس دن میں اس رسم کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اظہار و اقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا آغاز یا تجدید کرتے ہیں ،
جی ہاں ، ناجائز اور حرام کام کرتے ہوئے ، ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرتے ہیں ، آغاز بھی جہنم اور آخرت بھی جہنم ،
ٹھہریے ، """ بنیاد پرستی """ ، """ دقیانوسیت """ ، اور جدید دور کے نئے مفاہیم کے مطابق """ دہشت گردی """ کی بات سمجھ کر غصہ مت کیجیے ، میں نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین میں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس """ ویلنٹائن ڈے """ یا """ عید محبت (نہیں بلکہ آوارہ مزاجوں کا عالمی دن )""" کی اصلیت اور تاریخ جانی جائے ، اور یہ تاریخ میری نہیں ان کی لکھی ہوئی ہے جن کے گھر کی بات ہے ،

علم و حق کی کیسی مفلسی ہے کہ جس عادت اور رسم کو اپنائے ہوئے ہیں اس کی اصلیت و تاریخ بھی نہیں جانتے ،
یہ مفلسی اُدھر ہی نہیں اِدھر بھی ہے کہ ہم مسلمان بھی کئی ایسے عقائد اور عبادات اور رسمیں اپنائے ہوئے ہیں جن کی حقیقیت اور اصلیت نہیں جانتے بس ’’ بھیڑ چال " کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ,
جی تو بات تھی """ ویلنٹائن ڈے "" کی اصلیت اور تاریخ کی ، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں ، ان کو بہت مختصر طور پر یہاں ذکر کرتا ہوں ،

::::: (1) ::::: کہا گیا کہ تقریبا 1700 سال پہلے جب روم میں بہت سے رب مانے جاتے تھے بہت سے معبودوں کی عبادت کی جاتی تھی ، بارش والا معبود الگ ، روشنی والا الگ ، اندھیرے والا الگ ، محبت والا الگ ، نفرت والا الگ ، طاقت والا الگ ، کمزوری والا الگ ، کفر و شرک کا ایک لامتناہی سللسہ تھا ، ایسے میں رومیوں کے ایک مذہبی راہنما """ ویلنٹائن """ نے عیسائت قبول کر لی ، پس حکومت روم کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا کہ اس کو قتل کر دیا جاتا تا کہ ان کے آباو ا جداد کا اور حکومتی دین محفوظ رہے ، پس """ ویلنٹائن""" کو قتل کر دیا ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب روم میں عیسائیت عام ہو گئی تو لوگوں """ ویلنٹائن""" کے قتل کا دن """ منانا """ شروع کیا ، تا کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے قتل پر ندامت کا اظہار کیا جائے ، ( وہ اظہار کیسے کیا جاتا تھا اس کا ذکر ان شاء اللہ ابھی کروں گا )
::::: ( 2) ::::: کہا گیا ، 14 فروری رومیوں کی ایک مقدس معبودہ (معبود کی مونث ، دیوی ) """ یونو یا جونو """ کا دن تھا ، اس معبودہ کے بارے میں رومیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کے سب معبودوں کی ملکہ ہے اور اس کو عورتوں اور شادی کے معاملات کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا ، پس اسی کفریہ عقیدے کی بنا پر اس معبودہ کا دن منانا عورتوں ، محبت اور شادی یا بغیر شادی کے ہی شادی والے تعلقات بنانے کے لیے خاص جان کر """منایا """ جانے لگا ،
::::: (3) ::::: رومیوں کی ایک اور معبودہ """ لیسیوس """ نامی بھی تھی ، جو ایک مونث بھڑیا تھی ، رومیوں کا عقیدہ تھا کہ اس """ لیسیوس """ نے روم کے دونوں بانیوں Rumulusاور Remusکو ان کے بچپن میں دودھ پلایا تھا ، پس اس 14 فروری کو انہوں نے """ محبت """ نامی عبادت گاہ میں اس بھیڑیا معبودہ کا دن """ منانا""" شروع کیا ، اس عبادت گاہ کو """ محبت """ نام اس لیے دیا گیا کہ ان کے کفریہ عقیدے کے مطابق ان کی یہ بھڑیا معبودہ روم بنانے والے دونوں بچوں کو محبت کرتی تھی
::::: ( 4) ::::: قدیم رومی بادشاہ کلاڈیس 2 نے رومی مردوں کی مطلوبہ تعداد کو اپنی فوج میں شامل کرنے میں کافی مشکلات محسوس کیں ، کلاڈیس نے جب اس کا سبب تلاش کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو کلاڈیس نے یہ شادیوں سے ممانعت کا فیصلہ صادر کر دیا ، اسوقت کے روم کے ایک بڑے پادری """ ویلنٹائن """ نے اپنے بادشاہ کی بات کو غلط جانتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی اور اپنے گرجا میں خفیہ طور پر محبت کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا کچھ عرصہ بعد یہ بات بادشاہ کو معلوم ہو گئی تو اس نے بتاریخ 14 ، فروری ، 269عیسوئی ویلنٹائن کو قتل کروا دیا ، اور یوں یہ ویلنٹائن محبت کرنے کروانے کے سلسلے میں ایک مثالی شخصیت بن گیا ،
::::: ( 5) ::::: قتل کیے جانے سے پہلے ویلنٹائن اور اس کے ایک اور ساتھی پادری ماریوس کو جیل میں قید رکھا گیا ، اس قید کے دوران ویلنٹائن ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ، جو غالبا جیلر کی بیٹی تھی ، جو اس کو قتل والے دن یعنی 14 فروری کو دیکھنے یا ملنے آئی تو ویلنٹائن نے اسے ایک محبت نامہ دیا ،
:::: ( 6 ) ::::: قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل جول پر سخت پابندی تھی ، سوائے ایک میلے یا عید کے موقع پر جسے""" Lupercalia لیوپیرکالیا""" کہا جاتا تھا ،
یہ عید بھی ایک جھوٹے باطل معبود """ Lupercus لیوپرکاس """ کی تعظیم کے لیے منائی جاتی تھی جسے رومی اپنے چرواہوں اور جانوروں کی حفاظت اور مدد کرنے والا سمجھتے تھے ،
اس دن جوان لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں اور مرد یا لڑکے ان پرچیوں کو نکالتے جس کے ہاتھ جس کے نام کی پرچی لگتی ان کو ایک سال تک یعنی اگلی عید Lupercalia تک ایک دوسرے کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی عام چھٹی ہو جاتی کبھی وہ جوڑا شادی کر لیتا اور کبھی بغیر شادی کے ہی سال بھر یا سال سے کم کسی مدت تک میاں بیوی جیسے تعلق کے ساتھ رہتا ،
اس میلے یا عید کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فروری تھی ، اور یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ سے فروری تک یہ عید منائی جاتی رہتی تھی ،
ویلنٹائن کی موت کی یادگار منانے کی تاریخ اسی میلے کے ساتھ جا ملی اور دونوں کی کہانیاں اور گناہ مل کر ایک دن منائے جانے لگے اور نام بدنام کیا جانے لگا محبت کا ، جو ایک مثبت جذبہ ہے اور صرف اسی کیفیت تک محدود نہیں جس کی تعلیم اس عید اور اس کی کہانی اور اس جیسی دوسری گناہ آلود کہانیوں میں دی جاتی ہے ،
1969 عیسوئی تک تو بین الاقوامی طور پر یہ دن اُس ویلنٹائن سے منسوب کر کے رومی بنیادی گرجا کی طرف سے """ منایا """ جاتا رہا ، اور اس سے کچھ عرصہ پہلے تک اسی گرجا کی طرف سے یہ دن بھیڑیا معبودہ کی طرف منسوب کیا جاتا رہا
::::: (7 ) ::::: پندرھویں صدی کے آغاز میں """ اگن کورٹ Agincourt """کی جنگ میں ایک فرانسی ریاست اورلینز کا نواب """ Duke of Orleans """ انگریزوں کے ہاتھ قید ہوا جسے کئی سال تک لندن کے قلعے میں بند رکھا گیا ، وہاں سے وہ اپنی بیوی کے لیے عشقیہ شاعری بھیجتا رہا ، جن میں سے تقریبا ساٹھ نظمیں اب بھی برٹش میوزم میں موجود ہیں ، اس کی شاعری کو جدید دور کے """ ویلنٹائنز """ کا آغاز سمجھا جاتا ہے ،
::::: ( 8 ) ::::: اس کے تقریبا دو سو سال بعد """ ویلنٹائن کے دن """ پر پھول وغیرہ دینے کی رسم کا یوں آغاز ہوا کہ فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم Henry IV کی ایک بیٹی نے """ پادری ویلنٹائن کا دن """ مناتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ ہر عورت اور لڑکی کو اس کا اختیار کردہ مرد یا لڑکا پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرے ،
::::: ( 9 ) ::::: انیسویں صدی کے درمیان میں اس گندگی کو پھیلانے میں تیزی پیدا ہوئی کہ طرح طرح کارڈز اور پیغامات کی چھپائی ہونے لگی ، امریکہ وغیرہ نے ان کارڈز کی ترسیل کے لیے ڈاک کے نرخ بھی کم کر دیے ، اور آہستہ آہستہ ابلیس کا شکار ہو کر بہت سے لوگ اپنی اپنی دنیا کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایجادات کرتے اور ان کو ہر ممکن طور نشر کرتے چلے آ رہے ہیں ،
مسلمانو، اس دن کی نسبت ، اور اس کی اصلییت ، ان مندرجہ بالا قصوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، بہر صورت اس کی اصلییت کفر و شرک گناہ و غلاظت ہی ہے ، اور اب بھی اس دن کو غیر اخلاقی اور یقینا ہمارے دین کے مطابق حرام میل ملاقات رکھنے والے مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شیطان ایک """ عید """ کا نام دے کر ، دھوکے کا ایک لباس مہیا کیا ، جسے اوڑھ کر کھلے عام ایک دوسرے کو ناجائز تعلقات کی دعوت دی جاتی ہے ، بلکہ ایسے تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ، اور ابلیس کا دیا ہوا یہ لباس ہر دفعہ مزید خوش منظر ہو کر آتا ہے کہ اہل معاشرہ بھی اس کے پیچھے ہونے والے شیطانی کاموں کو اچھا اور بہتر اور فطری سمجھتے ہیں ،
اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ عید یا دن مسلمانوں کا ہر گز نہیں اور جو کچھ اس دن میں کیا جاتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام تو بہت بلند و برتر ہے ، عیسائی کنیسا نے بھی اس ویلنٹائن دن میں ہونے والی حرافات کو کسی دین کے ساتھ منسوب رکھنا نا مناسب سمھتے ہوئے اس کی باقاعدہ سرپرستی ترک کر دی ، لیکن افسوس ، مسلمانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ، اپنی تجارت کو بڑھانے چمکانے کے لیے اس غیر اسلامی حرام دن منانے کی رسم کی تمام تر ضروریات کو بدرجہ اتم مہیا کیا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ،
اس عید یا دن کو منانے میں اب ہمارے مسلمان بھائی بہن بھی ابلیسی نعروں اور فکر کے زیر اثر شامل ہوتے ہیں ، اور اس کے گناہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ،
اس کفر و شرک اور بے حیائی اور بے غیرتی اور گناہ کی بنیاد پر منائے جانے والے دن اور اس میں کیے جانے والے کاموں کی تاریخ اور اصلییت بتانے کے بعد اب میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین سناتا ہوں کہ ایمان والوں کے لیے اس سے بڑھ کر حجت کوئی اور نہیں اور نہ ہی اور کی ضرورت رہتی ہے اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے یا کسی فلسفے کا شکار ہو کر اس گناہ کو گناہ سمجھنے میں تردد محسوس کرے وہ اپنے ایمان کی خبر لے ،
::::::: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے :

(( لاَّ یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ أَولِیَاء مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَیء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللّہِ المَصِیرُ:::
ایمان والے ، ایمان والوں کی بجائے کافروں کو اپنا دوست ( راہبر ، راہنما ، پیشوا ) نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی مددگاری نہیں ہاں اگر تم لوگوں (کافروں کے شر سے ) کوئی بچاو کرنا چاہو تو (صرف اس صورت میں اسیا کیا جا سکتا ہے ) ، اور اللہ تم لوگوں کو خود اُس (کے عذاب ) سے ڈراتا ہے اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے ( پس اسکے عذاب سے بچ نہ پاؤ گے ))))) سورت آل عمران / آیت 28
::::::: اور مزید حکم فرمایا اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتایا ((((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَولِیَاء بَعضُہُم أَولِیَاء بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللّہَ لاَ یَہدِی القَومَ الظَّالِمِینَ ::: اے ایمان لانے والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست ( راہبر ، راہنما ،پیشوا ) نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں (تمہارے ہر گز نہیں ) اور تم لوگوں میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو بے شک وہ ان ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا ))))) سورت المائدہ / آیت 51
یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اسلامی دینی تہوار ہے اور اس کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے ، اور اللہ توتعالیٰ کا فرمان ہے ((((( وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ ::: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کچھ اور کو دین چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں ہو گا ))))) سورت آل عمران / آیت 85
::::::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے ((((( مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ))))) سُنن أبو داؤد /حدیث 4025 /کتاب اللباس / باب 4 لبس الشھرۃ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لیے اُسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی ،
جی یہ سمجھ میری نہیں ، انبیاء کے بعد سب سے پاک ہستیوں کی ہے ، جنہیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہا جاتا ہے ، ملاحظہ فرمایے ،
::::::: دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ((((( أجتنبُوا أعداء اللَّہ فی أعیادھم ::: اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں (کے دنوں ) میں دور رہو ))))) سنن البیہقی الکبُریٰ ، کتاب الجزیۃ ، باب 56 ، اسنادہ صحیح ،
یعنی جب کسی جگہ پر کفار کے ساتھ معاشرتی ساتھ ہو تو خاص طور پر ان کی عیدوں کے دنوں میں ان سے دور رہا کرو ،
::::::: چوتھے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کو ایک دن کچھ تحفہ موصول ہوا ، دریافت فرمایا (((((ما ہذہ ؟ ::: یہ کیا ہے ؟ ))))) بتایا گیا "" اے امیر المؤمنین یہ نیروز (تہوار )کا دن ہے (اور یہ اس تہوار کا تحفہ ہے ) """ فرمایا ((((( فاصنعوا کل یوم نیروز::: تو ہر ایک دن کو ہی نیروز بنا لو ))))) ابو اسامہ اس روایت کے ایک راوی فرماتے ہیں کہ """ کرہ أن یقول نیروز ::: (امیر المؤمنین )علی رضی اللہ عنہ نے اس چیز سے کراہت کا اظہار فرمایا کہ کسی دن کو نیروز کہا جائے """ سابقہ حوالہ ، باسناد صحیح
غور فرمایے ، کہ علی رضی اللہ عنہ نے کسی دن کو وہ نام تک دینا پسند نہیں فرمایا جو کافروں نے دیا ہوا تھا ، اور یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی قلبی قبولیت اورعملی تطبیق کی ایک بہترین مثال ہے ،
آج ہم انہی شخصیات سے محبت اور ان کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ہماری سوچ و فکر ، ایمان و عمل ان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ، انا للہ و انا الیہ راجعون،
::::::: عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ((((( مَن بَنیٰ ببلاد الأعاجم و صنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبھ بھم حتیٰ یَموت و ھو کذلک حُشِرَ معھم یوم القیامۃ ::: جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور ان کے تہوار اور میلے منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک کہ اسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا ))))) سابقہ حوالہ ، صحیح الاسناد ،
ایسی روایات کو حُکماً مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر اور غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے اور اللہ کی طرف سے جتنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی گئی پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی کوئی خبر اس کی اپنی بات نہیں ہو سکتی ،
اس ویلنٹائن کے دن ، یا عیدء ِ محبت منانے کو ایک اور زوایے سے بھی دیکھتے چلیں کہ اس دن ، اس نسبت سے اور اس کو منانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ((((( اِنَّ المبذِرِینَ کان أِخوان الشیاطین و کان الشیطنُ لِربِّہِ کَفُوراً ::: فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے ))))) سورت الا سراء َ ، ( بنی اسرائیل )/آیت ،27 ،
کفر وشرک ، گناہ و غلاظت کے اس دن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ سوائے اللہ کے عذاب کے کچھ اور نہیں کمائے گا ، اور اگر یہی کچھ ، کسی مسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے ، یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ نتیجہ بالعکس ہو گا ،
جو لوگ اس عیدء ِ محبت کو گوارہ کرتے ہیںاور دوسروں کی خواتین کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسا کر گذرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اس کارنامے کی انتہا جنسی بے راہ روی تک لے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، انہیں یہ شعر سناتا چلوں
::: إن الزنا دین فإن أقرضتہ ::: کان الوفاء من أہل بیتک فاعلم
زنا قرض ہے اگر تم نے یہ قرض لیا تو یاد رکھو ::: اس کی ادائیگی تمہارے گھر والوں میں سے ہو گی
من یَزنی یُزنی ولَو بجدارہ ::: إن کنت یا ہذا لبیباً فافہم
جو زنا کرے گا ، اس کے ساتھ زنا ہو گا خواہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے ::: اگر اے سننے والے تم عقل مند ہو تو (میری بات )سمجھ جاؤ ( اور ایسے کاموں سے باز رہو )
اللہ تعالیٰ میرے یہ الفاظ ، میرے اور ہر پڑھنے والے کے دین دنیا اور آخرت کی خیر کے اسباب میں بنا دے، ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد ، تعصب اور منطق و فلسفے کا شکار نہ ہوں اور حق پہچانیں ، قبول کریں اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگیاں تمام ہوں اور اسی پر یوم قیامت ہمارا حشر ہو ، و السلام علیکم۔
.
پاک نیٹ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاکم اللہ خیرا
اللہ آپ کی دعاوں میں اثر دے ۔ اس قوم پر کیسی بے حسی طاری هے ، آہ کیا تهے ہم کیا ہو گئے ہم ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
’’ ویلنٹائن ڈے ‘‘ پر شرمناک طرزِعمل
عطاء اللہ صدیقی
محدث میگزین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہذیب و ثقافت
شمارہ:
258
2002
پاکستان میں مغرب کی تہذیبی یلغار کے تناظر میں ایک فکر انگیز تحریر
جنسی آوارگی، بیہودگی اور خرافات کو ذرائع ابلاغ کس طرح ایک 'مقدس تہوار' بنا دیتے ہیں،
اس کی واضح مثال 'ویلنٹائن ڈے' ہے۔ یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ یورپ میں بھی 'ویلنٹائن ڈے' کو آوارہ مزاج نوجوانوں کا عالمی دن سمجھا جاتا تھا، مگر آج اسے'محبت کے متوالوں' کے لئے 'یومِ تجدید ِمحبت' کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ میں ایک کثیر تعداد 'ویلنٹائن ڈے' منانے کو برا سمجھتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ ان کے
خیالات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں، شاید سطحی صارفیت کے تقاضے انہیں یہ پالیسی اپنانےپر مائل کرتے ہیں!!

پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح 'ویلنٹائن ڈے' مٹھی بھر اوباشوں کے حلقہ سے نکل کر جدیدنوجوان نسل اور مغرب زدہ طبقات میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے، اس کی توقع ایک اسلامی معاشرے میں نہیں کی جاسکتی۔
اس سال 'ویلنٹائن ڈے' کو جس وسیع پیمانے پر اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں 'پروجیکشن' ملی اور جس والہانہ انداز میں مختلف اداروں نے اسے ایک ' ہردل عزیز تہوار' کا رنگ دینے کی کوشش کی، اس کو دیکھ کر احساس ہوتا
ہے کہ پاکستانی معاشرہ اندر سے اس قدر کھوکھلا ہوگیا ہے کہ اعلیٰ ثقافتی قدروں کے تحفظ کے لئے وسیع پیمانے پرتحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
اس دفعہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے پر بے ہودگی کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ ۱۵ /فروری کو مختلف اخبارات نے بے حد رومانوی انداز میں ویلنٹائن ڈے کی رپورٹنگ کی۔ روزنامہ 'جنگ 'کے مطابق :
"صبح سے رات گئے پھولوں کا سفر جاری رہا۔ گل فروشوں کی چاندی رہی اور پھولوں کی دکانوں پررَش رہا۔
آج سرخ گلاب نہ ملنے پر دوسرے رنگوں کے گلاب خرید کر چاہے جانے والوں کو بھجوائے جاتے رہے۔ گل دستے
۱۰۰ روپے سے ۵۰۰ روپے تک بکتے رہے۔ رات کو بعض بڑے ہوٹلوں نے 'ویلنٹائن ڈنر' کا بھی اہتمام کیا۔"
یہ ایک نئی بدعت تھی جو اس سال دیکھنے میں آئی۔ نوائے وقت جیسے سنجیدہ اخبارنے بھی سرخی جمائی :
"ویلنٹائن ڈے' وفا کے عہد و پیمان، روٹھوں کو منایا گیا۔"
مزید تفصیلات کے مطابق گلاب کے پھول، کارڈز اور دیگر تحائف کے تبادلے ہوئے، موبائل فونز پر پیغامات دیئے گئے۔ انٹر نیٹ کلبوں پر رش رہا۔ نوائے وقت کی خبر کے مطابق ویلنٹائن ڈے منانے کے لئے ایک نوجوان شیخوپورہ
کے گرلز کالج میں لڑکیوں کے کپڑے اور برقعہ پہن کر داخل ہوگیا۔ معلوم ہونے پر کالج کے سٹاف اور طالبات نے اس کی خوب چھترول کی اور پولیس کے حوالہ کردیا۔ پولیس نے بھی اس کی خوب تواضع کی۔
لاہور میں ایک گرلز ہائی سکول کی طالبہ کوپھول پیش کرنے والے ایک نوجوان طالب علم کا منہ کالا کرکے گدھے پربٹھا کر پورے محلہ کا چکر لگوایا گیا۔ پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں میں ویلنٹائن ڈے جوش و خروش سے منایا گیا۔
اس سال جنرل سٹوروں اور کتابوں کی دکانوں پر 'ویلنٹائن کارڈ' اس طرح فروخت ہوتے رہے جس طرح عید کارڈ فروخت ہوتے ہیں۔ ان سٹوروں پر 'کیوپڈ' کے بڑے بڑے نشانات سرعام آویزاں کئے گئے تھے۔ ماڈل ٹاؤن،
ڈیفنس اور گلبرگ، لاہور کی بات تو الگ ہے۔ شہر کے چھوٹے چھوٹے محلات میں سرخ گلاب فروخت ہوتے رہے اور نوجوانوں کی ٹولیاں دن بھرپھول خریدتی رہیں
اور انہیں کوئی سمجھانے والانہیں تھا کہ جس بات کو وہ 'محبت' سمجھ کر منا رہے ہیں، وہ درحقیقت شہوت رانی اور جنسی بے راہ روی کی علامت ہے، اس کا ان کی سماجی روایات اور اخلاقی قدروں سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
انگلش میڈیم سکولوں میں طلباء و طالبات اساتذہ کی 'رہنمائی' میں بلا روک ٹوک گلاب کے پھولوں کا تبادلہ کرتے رہے۔ لبرٹی مارکیٹ اور دیگر پوش علاقوں میں اوباش نوجوان راہ چلتی لڑکیوں کوپھول پیش کرکے چھیڑ خانی کرتے رہے، شریف زادیاں اس بداخلاقی کا جواب دینے کی بجائے عزت بچا کر وہاں سے بچ نکلنے میں عافیت سمجھتی رہیں۔
ہمارے بعض انگریزی اخبارات نے ویلنٹائن ڈے کو تشہیر دینے میں جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، اسے نرم ترین الفاظ میں 'شرمناک' کہا جاسکتا ہے۔
ان اخبارات نے عاشقوں اور حیا باختہ لڑکیوں کے رومان انگیز پیغامات کو اشتہارات کی صورت میں شائع کیا۔ انگریزی روزنامہ 'دی نیوز' نے ان پیغامات پر مبنی دو مکمل صفحات شائع کئے۔ ان دو صفحات پر ۴۱۹ پیغامات شائع کئے گئے۔
روزنامہ 'ڈان' نے ۱۴/فروری کو دوصفحات مختص کئے جس میں ایسے بے ہودہ پیغامات شائع کئے گئے۔ معلوم ہوتا ہے، ہمارے انگریزی اخبارات کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں، نہ انہیں اس ملک کی نظریاتی اساس اور سماجی اقدار کا خیال ہے۔ وہ ا س ملک میں انگریزی زبان ہی نہیں، مغربی تہذیب کا پرچار بھی کررہے ہیں۔
۲۶/ فروری کو روزنامہ 'نوائے وقت' نے نمایاں خبر شائع کی کہ جہادی
تنظیموں کی طرف سے نکالے جانے والے ۲۳ رسالہ جات پر حکومت پابندی لگانے کا فیصلہ کرچکی ہے کیونکہ وہ جہادی تبلیغ کررہے ہیں، مگر جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے والے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے پیغامات کو
شائع کرنے کی اس ملک میں مکمل آزادی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے عشق کے معاملے کو حتیٰ الامکان ظاہر نہیں کرتا تھا کیونکہ اس طرح کا اظہار سخت معیوب سمجھا جاتاتھا اور ایسی حرکت کے مرتکب نوجوانوں کی خوب درگت بنائی جاتی تھی، مگر آج یہ برا وقت بھی آگیا ہے کہ ہمارے اخبارات ایک 'نائکہ' کا پست کردار اداکرتے ہوئے عاشق و معشوق کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے میں کوئی باک نہیں سمجھتے بلکہ اسے محبت کرنے والے دلوں کی 'خدمات' سمجھتے ہیں۔ اخبارات کی
طرف سے عشقیہ پیغامات کی اشاعت پاکستان میں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

یورپ کے اخبارات نے یہ جدت نکالی تھی جس کو بلاچون و چرا ہمارے اخبارات نے اپنا لیا ہے۔ اس دفعہ تو یہ سلسلہ دو تین انگریزی اخبارات تک محدود رہا ہے، اگلے سال اردو اخبارات بھی شائد اس 'کارِخیر' میں پیچھے نہ رہیں۔

اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت ِخداداد میں لا دینیت اور جنسی بداعتدالیوں کوکس طرح تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے، اس کااندازہ
پاکستان کے عام شہری نہیں کر پارہے۔ جن لوگوں کو اس کا اندازہ ہے، وہ بھی اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی اخبارات جن میں عشقیہ پیغامات کے لئے مکمل صفحے مختص کئے گئے، ان میں بازاری جملوں اور فلمی مکالموں کو شائع کیا گیاجن کے سرسری مطالعے سے بھی نوجوان نسل کے غلط رجحانات کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

قارئین کرام! محبت کے پیغامات بھیجنے والی یہ لڑکیاں اور لڑکے اسی پاکستانی معاشرے کے فرد ہیں۔ یہ مسلمان گھرانوں کی اولاد ہیں، یہودی
یاعیسائی نہیں ہیں۔ مگر وہ جس جنون اور پاگل پن کا شکار ہیں، کیا ایک مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ' کنڈکٹ' (کردار) یہی ہونا چاہئے؟ اگر وہ گم کردہ راہ ہیں، تو اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت، تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، اساتذہ اور والدین، سب اپنی اپنی جگہ پراس قومی 'جرم' کے مرتکب ہوئے ہیں۔ آج اس ملک میں ویلنٹائن ڈے پر شہوت بھرے پیغامات کا آزادانہ تبادلہ ہورہاہے
تو کل اسی پاکستان میں شہوانی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی نسل بھی ضرور پروان چڑھے گی۔ یورپ یہ نتائج دیکھ چکا ہے، ہم بھی اس عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یورپ میں بھی یہ سب کچھ ایک سال میں نہیں ہوگیاتھا، ان کے ہاں بھی خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی انقلاب آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوا۔ یورپ کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کی دہائی دے رہے ہیں، مگر اب پانی ان کے سروں سے گذر چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت محض ایک قلیل تعداد اس خطرناک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے، ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ :
آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی...!!
ذرائع ابلاغ پر چھایاہوا ایک مخصوص گروہ ویلنٹائن ڈے کو 'یومِ تجدید ِمحبت' کے طور پر پیش کررہاہے۔
یہ 'محبت' جو ماضی قریب تک ایک 'محبوبہ' سے
منسوب کی جاتی تھی، اب اسے 'عام' کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ایک سازش کے تحت ویلنٹائن ڈے جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جارہا ہے۔ ۱۵/ فروری کے اخبارات میں ایک نقاب پوش خاتون کی تصویر شائع ہوئی جسے
اسلام آباد کے کسی پھولوں کے سٹال سے گلاب کے پھول خریدتے دکھایا گیا ہے۔ خاتون نے بادامی رنگ کا برقعہ لے رکھا ہے۔ یہ تصویر انگریزی روزنامہ دی نیوز کے علاوہ 'جنگ'، 'نوائے وقت'اور ' انصاف'میں بھی شائع
ہوئی۔
معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص ایجنسی نے کسی کرائے کی عورت کو برقعہ پہنا کراسے ویلنٹائن ڈے پر پھول خریدتے دکھایا ہے۔اس کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا کیاجائے کہ ویلنٹائن ڈے منانا کوئی بری بات نہیں ہے، اب تو پردہ پوش خواتین بھی یہ دن منانے لگی ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں یہودی خبررساں ایجنسیاں اس طرح کی حرکات کرتی رہتی ہیں۔
ہمارے اخبارات کے کلچرل رپورٹروں نے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے 'ویلنٹائن ڈے' کا اس مرتبہ ایسا پس منظر بیان کیا ہے جو ہمیں چند معروف انسائیکلو پیڈیا میں نظرنہیں آیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ
نے اسطرح کی موضوع روایات کو خود گھڑ لیا ہے اور اسے پھیلا دیا ہے۔
'جنگ' کے فلمی رپورٹر عاشق چودھری نے ۱۳/ فروری کے کالم میں اس نام نہاد تہوار کا پس منظر بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے :
"ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مختلف روایات ہیں۔
سب سے مستند روایت یہ ہے کہ اس دن کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے ہوا جسے 'محبت کا دیوتا' بھی کہتے ہیں۔اس روایت کے مطابق ویلنٹائن کومذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی۔ سولی پر چڑھائے جانے
سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا: "تمہارا ویلنٹائن" ...
یہ واقعہ ۱۴/ فروری ۲۷۹ء کو وقوع پذیر ہوا۔ اس کی یاد میں انہوں نے ۱۴/ فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کردیا۔"

۱۴/ فروری ۲۰۰۲ء کے روزنامہ پاکستان میں بھی صفحہ اوّل پر بالکل یہی واقعہ بیان کیا گیا ہے مگر اس کا حوالہ بیان نہیں کیا گیا۔ انگریزی روزنامہ 'دی نیشن' کے رپورٹرنے ۱۴/ فروری کی اشاعت میں بالکل الگ کہانی بیان کی ہے۔ اس کے مطابق
"جب سلطنت ِروما میں جنگوں کا آغاز ہوا تو شادی شدہ مرد اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر جنگوں میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے۔ نوجوان بھی اپنی محبوباؤں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جنگوں کے لئے کم افراد کی دستیابی
کی وجہ سے شہنشاہ کلاڈئیس (Claudius) نے حکم دیا کہ مزید کوئی شادی یا منگنی نہیں ہونی چاہئے۔
ویلنٹائن نامی ایک پادری نے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طریقہ سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو
اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا۔ جو کچھ اس نے نوجوان عاشقوں کے لئے کیا تھا، اسے بعد ازاں یاد رکھا گیا اور آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔"

یہ دونوں کہانیاں رومانوی افسانویت کے طبع زاد شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔
مندرجہ بالا حوالوں سے قطع نظر 'بریٹانیکا' میں ویلنٹائن ڈے کا پس منظر مختلف انداز میں ملتا ہے:
"سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح "Lovers Festival" کے طور پر منایا
جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیاکے حوالہ سے ۱۴/فروری کو منائے جانے والے تہوار ِبار آوری یا پرندوں کے موسم اختلاط (Mating season) سے ہے۔" (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)
۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف کیتھولک ازم (Catholicism)
کے بیان کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل بیان ملاحظہ کیجئے:

"ویلنٹائن نام کے دو مسیحی اولیا (Saints) کا نام ملتا ہے۔ ان میں سے ایک کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روم کا ایک پادری تھا جسے رومی دیوتاؤں کی پوجا سے انکار کرنے پر ۲۶۹ء میں شہنشاہ کلاڈئیس (Cladius-II) II کے حکم پر موت کی سزا دی گئی۔ دوسرا طرنی (Terni) کا ایک بشپ تھا جس کو لوگوں کو شفابخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی۔ اسے اس سے بھی کئی
سال پہلے 'شہید' کردیا گیا تھا ... آیا کہ ایک سینٹ ویلنٹائن تھا یا اس نام کے دو افراد تھے؟
یہ ابھی تک ایک کھلا ہوا سوال ہے۔ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان دونوں کا محبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

محبت کے پیغامات یا تحائف بھیجنے کا رواج بعد میں غالباً ازمنہ وسطیٰ میں اس خیال کے تحت شروع ہوا کہ ۱۴/ فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کا دن ہے۔ مسیحی کیلنڈر میں یہ دن کسی سینٹ کی یاد میں تہوار کے طور پرنہیں منایا جاتا۔"
(The Harper Lollins Encyclopeadia of Catholicism: p.1294)

ویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں کی تردید میں اس طرح کے تاریخی حوالہ جات کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مگر وہ لوگ جن کے ذہنوں میں ہوسناکی کے جذبات کے تحت پروان چڑھی ہوئی رومانویت نے ڈیرے جما رکھے ہیں،
ان کی اطلاع کے لئے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی۔ فرض کیجئے مسیحی یورپ یا روم کی تاریخ میں ویلنٹائن نام کے کوئی 'شہید ِمحبت' گذرے بھی ہیں، تب بھی ہمارے لئے ایسے تہواروں کو منانا نرم ترین الفاظ میں ایک
شرم ناک ثقافتی مظاہرہ ہوگا۔ امریکہ اور یورپ کے لغو جنس پرستوں کے ساتھ کندھا ملا کر چلنا ہمارے لئے کوئی باعث ِاعزاز امر نہیں ہے۔ ہمارا دین او رہماری تہذیب اس گراوٹ سے ہمیں بہت بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسلامی اخلاقیات اور ہندو تہذیب و تمدن کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، مگر قومی ہزیمت کے شدید احساس کے ساتھ میں یہ سطور لکھنے پراپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں کہ ویلنٹائن ڈے کے خلاف بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیموں نے
جتنا ردِعمل ظاہر کیا ہے ، پاکستان کی دینی اور سیاسی جماعتوں کو اتنی بھی توفیق نہیں ملی۔ ہندو قوم پرست تنظیم شیوسینا نے لوگوں کو ویلنٹائن ڈے منانے سے باز رکھنے کے لئے دھمکی اور ترغیب دونوں طرح کی حکمت ِعملی اختیار کی۔
شیوسینا کے کارکنوں نے ویلنٹائن ڈے کے خلاف احتجاج کے انوکھے طریقے بھی آزمائے۔ ۱۳/ فروری کے روزنامہ 'جنگ' اور دیگر اخبارات میں شیوسینا کے کارکنوں کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں وہ اپنے چہروں پر کالک لگا کر ویلنٹائن ڈے کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں۔ اسی دن شیوسینا کے لیڈروں کے بیانات شائع ہوئے جس میں انہوں نے دھمکی دی کہ وہ ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو اُلٹا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ویلنٹائن ڈے منانا فحاشی اور ہندو تہذیب واخلاقیات کے خلاف ہے۔شیوسینا پارٹی دہلی کے سربراہ بھگوان گومل نے کہا کہ ہم ۱۴ فروری کو دِلّی کے کالجوں،
کارڈز شاپس اور گفٹ سنٹروں میں جائیں گے اور ہر قسم کا احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس موقع پر ویلنٹائن ڈے کارڈز نذرِ آتش کئے جائیں گے۔
بال ٹھاکرے جو شیو سینا کے سربراہ ہیں، پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بمبئی میں کہا کہ ویلنٹائن ڈے کرپشن کلچر ہے جو مغربی ممالک سے درآمد کیا گیا۔ انہوں نے شیو سینا کے نوجوانوں کو ہدایت کی کہ وہ یہ دن منانے کی روک تھام کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مغرب کا فرض نہیں کہ
وہ ہمیں بتائے کہ محبت کس طرح کرنی ہے۔(روزنامہ جنگ)
شیوسینا اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے اس ردعمل کی وجہ سے بمبئی، دہلی اور بھارت کے دیگر شہروں میں ویلنٹائن ڈے اس جوش و خروش سے نہیں منایا جاسکا جس کا مظاہرہ لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں کیا گیا۔ شیوسینا کے حوالہ سے ایک اور تصویر کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ۱۵/ فروری کو پاکستان کے اردو اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں دہلی میں شیوسینا کے کارکن ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ایک خاتون کو ویلنٹائن ڈے کے خلاف پمفلٹ دے رہے ہیں۔ ا س خاتون نے ہاتھوں میں پھولوں کا تازہ خریدا ہوا گلدستہ تھام رکھا ہے۔ (روزنامہ پاکستان)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیوسینا کے کارکنوں نے اس بے ہودہ تہوار کی مخالفت میں محض تشدد ہی نہیں، دلیل کاسہارا بھی لیا۔
مغرب کی طرف سے درآمد کردہ ویلنٹائن ڈے جیسے فحش انگیز، بے ہودہ تہوار ترقی پذیر بالخصوص اسلامی ممالک کی تہذیب و ثقافت کے لئے سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں۔ یہ مغرب کی ثقافتی استعماریت جسے 'گلوبلائزیشن'
کا خوبصورت نام دیا گیا ہے، کو آگے بڑھانے کاذریعہ ہیں۔ مغربی میڈیا اور انٹر نیٹ کی یلغار کی وجہ سے سعودی عرب جیسے کٹر اسلام پسند معاشرے بھی اپنی ثقافتی سرحدوں کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔
اس سال سعودی عرب کی حکومت کو ویلنٹائن ڈے کی لعنت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے پڑے۔ تین روز قبل ہی دکانوں اور مارکیٹوں میں سرخ گلاب، ٹیڈی بیئر اور ویلنٹائن کارڈز کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ۱۳/ فروری کو سعودی پولیس نے مختلف دکانوں پر چھاپے مارکر ویلنٹائن گفٹ فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ (پاکستان: ۱۴/فروری)

البتہ عراق کے سیکولر صدر صدام حسین نے عراق پر ممکنہ امریکی حملہ کے باوجود عراقی قوم کو ویلنٹائن ڈے منانے میں مصروف رکھا۔ عراقی میڈیا نے یہ پراپیگنڈہ بھی کیا کہ عراقی عوام اس برس ویلنٹائن ڈے میں زیادہ دلچسپی اس لئے لے رہے ہیں کیونکہ وہ دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہاں زندگی معمول کے مطابق ہے اور امریکی دھمکیوں کا عوام پر کوئی اثرنہیں
ہوا۔ (پاکستان) الحادپرست حکمران کسی قوم کو جہاد کے لئے تیار نہیں

کرسکتے۔ اس طرح کی 'کھوکھلی زندہ دلی' کے اظہار سے کوئی قوم اپنا

دفاع نہیں کرسکتی!!

پاکستانی معاشرے پراس وقت ایک وحشت انگیز بے حسی اور بے بسی کی

کیفیت طاری ہے۔ ایک عام پاکستانی اپنی آنکھوں سے اسلامی اقدار کا جنازہ

نکلتے دیکھ رہا ہے۔ مگر وہ آگے بڑھ کر کچھ کرسکنے کی ہمت نہیں پاتا۔ وہ

دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مٹتی قدروں کے متعلق

نوحہ خوانی تو ضرور کرتا ہے، مگر گلی سے باہر نکل کر اپنے دل کی بات

کہنے کی جرأت نہیں کرتا۔ یا یہ وقت تھا کہ اسلامی حمیت سے سرشار

نوجوان سینما گھروں اور نیو ایئر نائٹ منانے والے کلبوں کو بزورِ بازو

ایسے کاموں سے روکتے تھے یا اب یہ صورت پیدا ہوچکی ہے کہ ویلنٹائن

ڈے پر کھلے عام بے ہودگی کے خلاف معمولی سی صدائے احتجاج بلند

کرنے والابھی کوئی نظر نہیں آتا۔ ہمارے خیال میں نہ پہلی صورت درست

تھی اور نہ موٴخر الذکر حالت پسندیدہ ہے۔

پاکستان میں سیکولر اور اسلام پسند دونوں حلقوں نے افغانستان میں 'امریکہ

گردی' کے غلط اثرات قبول کئے ہیں۔ سیکولر طبقہ اس غلط فہمی میں مبتلا

ہے کہ اب پاکستان میں وہ جس قدر مغربی اقدار کو فروغ دے گا، اس کی

مزاحمت نہیں کی جائے گی۔ جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اسلام

پسند حلقوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

کی دعوت بھی نہیں دی جاسکتی۔ ایک اور غلط تاثر کو ختم کرنا بھی ضروری

ہے ۔ پاکستان میں لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ثقافت اور

پاکستانی اقدار کا تحفظ محض دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ ہر

مسلمان خواہ اس کا کسی بھی سیاسی جماعت یا طبقہ سے تعلق ہو، کی ذمہ

داری ہے کہ وہ اپنی ثقافت کے تحفظ کے لئے مقدور بھر کوشش کرے۔

ہمارے اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں میں اسلامی اقدار کے متعلق

محبت کے جذبات پروان چڑھائیں۔ ہم میں سے ہر شہری اگر اپنے محلے میں

دعوت و ترغیب کا عمل شرو ع کردے، تویہاں ویلنٹائن ڈے منانے والے یوں

دندناتے نظر نہیں آئیں گے۔ حکومت کو بھی نوجوانوں کو لہو و لعب اور

جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لئے موٴثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ ویلنٹائن

ڈے کے موقع پر گلاب کے پھول اور کارڈز کی خریدوفروخت پرپابند عائد کی

جانی چاہئے۔ اخبارات میں ویلنٹائن اور کیوپڈ کے نشانات کے ساتھ اشتہارات

اور پیغامات کی اشاعت ممنوع قرار دینی چاہئے۔

امریکہ اور برطانیہ میں شراب عام پی جاتی ہے، مگر ۱۸ سال سے کم

عمرنوجوانوں کو شراب اور سگریٹ خریدنے کی اجازت ہے، نہ دکاندار

انہیں یہ اشیا فروخت کرسکتے ہیں۔ امریکہ میں بعض ریاستوں نے شام کے

بعد نوجوانوں کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کررکھی ہے، حالانکہ وہاں

ہر طرح کی آزادیاں میسر ہیں۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ

نے بالکل درست کہا ہے کہ

"مغرب سے گہری وابستگی اور قربت کے طوفان کونہ روکا گیا تو مغربی

فضولیات ہماری معاشرتی اقدار کو بہا لے جائیں گی۔ ویلنٹائن ڈے کا اسلام

سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انگریزی تہذیب کے ایام ہماری نئی نسل کے کردار

کو مسخ کردیں گے۔ اس حوالے سے نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔

مغرب اسلام سے چونکہ بہت خائف ہے، اسی لئے وہ ہمارے معاشرے میں

ایسے تہواروں کو فروغ دے رہا ہے۔" (روزنامہ خبریں: ۱۵/ فروری ۲۰۰۲

ء)

ابھی چند روز پہلے صدرِ پاکستان جناب پرویز مشرف نے مغربیت کے

خطرناک اثرات سے بچنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا :

"مغربی طرزِ زندگی ہماری اقدار سے متصادم ہے۔ میں پاکستان کو اعتدال،

رواداری، جمہوریت اور ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتا ہوں، مغربیت (

ویسٹرنائزیشن) کی راہ پر نہیں جو ہماری اقدار سے متصادم ہے۔ میں نہیں

چاہتا کہ پاکستان اپنی اقدار کے منافی روایات اپنا کر مغرب کی پیروی کرے۔

انہوں نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ

ملک کی سماجی اور ثقافتی اقدار کا احترام ہو۔" (جنگ، خبریں: ۲۸/

فروری۲۰۰۲ء)

ویلنٹائن جیسے تہواروں کی حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی کے لئے حکومت

پاکستان کو بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام کی بے ضرر تفریحی تقریبات

میں حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے، مگر ایسی بے ہودہ سرگرمیاں جو

اسلامی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں، ان کے متعلق حکومت کو خاموش

تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔

ایک مغرب زدہ اقلیت پاکستانی معاشرے کو اخلاقی زوال سے دوچار کرنے پر

تلی ہوئی ہے تو حکومت اور عوام کو ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے

کے لئے سنجیدہ کاوش کرنی چاہئے۔ قرآنِ مجید سراسر ہدایت اور روشنی

ہے، اس میں باربار راہِ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو خبردار کیا گیاہے:

﴿فَأَينَ تَذهَبونَ ٢٦ ﴾... سورة التكوير" یعنی تم صراطِ مستقیم چھوڑ کر کدھر

بھٹکے جارہے ہو ؟

ویلنٹائن ڈے منانے والے مسلمانوں کو قرآنِ مجید کے ان الفاظ پر غور کرنا

چاہئے۔
٭٭٭٭٭
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
"اگر ویلنٹائن ڈے صرف میاں بیوی ہی منائیں تو بھی جائز نہیں!
کیونکہ اسلام نے کفار کی مشابہت سے منع کیا ہے۔"
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
تھوڑا سا پڑھئیے گا بس....
وہ دن گئے جب ہم مغرب سے کہتے تھے تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی۔ وہ ہمیں ساتھ لیے بغیر مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اورہم ان کے بغیر جینے کے روادار نہیں! یہ موت کب سے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ ’کلچرل گلوبلائزیشن‘ کی حالیہ رفتار سے اگر آپ واقف ہیں، تو ہرگز بعید مت جانئے کہ ہم جنس پرست سوؤر اور بجو کل آپ کی اِن گلیوں میں پھٹی ہوئی جینوں کے ساتھ جلوس نکالتے پھریں اور بدفعلی پہ ناک چڑھانے پر آپ کو اور آپ کے آباؤ اجداد کو بدتہذیبی کے طعنے دیں، بلکہ ’تہذیب‘ کا یہ آخری گھونٹ بھی زبردستی آپ کے حلق سے اتارنے کی کوشش کریں! باؤلا جس کو کاٹ لے، باؤلا کر دے۔ ایک نہایت کالی، باؤلی آندھی اب ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ لبرلسٹ، سیکولر، ماڈرنسٹ سب اپنا اپنا کام کریں گے اور تاریخ کے اِس فسادِ عظیم کا راستہ صاف کرکے رخصت ہوں گے۔ پیچھے، پیکیج ایک ہے؛ اور ہر کسی کو یہ پورے کا پورا لینا ہو گا؛ اِس پیکیج کے حصے کرنا ممکن نہیں!!!
’سرخ سویرا‘ بیت چکا، اب وہ سب بھاڑے کے لکھاری، ادیب، دانشور، اینکر، گویے، بھانڈ، ڈھولچی اِس ’کالے سویرے‘ کے بگل بردار ہیں۔
حضرات! اِس کالی آندھی کے مقابلے پر نہیں اٹھیں گے، تو بجو اور سوؤر آپ کے مال روڈ، لبرٹی اور آپ کے سوک سینٹرز کے آس پاس نکلا ہی چاہتے ہیں۔
اِس جدید بدبودار مخلوق کی ’ذات‘ کیا ہے؟ سید قطب کے الفاظ میں....: دن کے وقت مشین، رات کے وقت حیوان۔ اور حیوان بھی ایسا ویسا نہیں!

*****
آج ہم ایک سماجی جنگ کے گھمسان میں ہیں؛ جبکہ ہمارے ’صالحین‘ اپنی نیکی کے نشے میں مست۔
آپکی شریف زادیوں کے سر کی چادر تو کب کی فسانہ ہوئی، اور خدابخشے وہ اپنے ساتھ نہ جانے اور کیا کچھ لےگئی... بس یہ دیکھئے اتنا سا لباس بھی آپکی اِس آبرو کے تن پر کب تک سلامت رہتا ہے۔ ’تعلیم‘ کا عفریت اور ’ابلاغ‘ کا بھیڑیا کس فنکاری اور مشاقی کے ساتھ ہم نمازیوں، روزہ داروں، حاجیوں، عبادت گزاروں اور علماء وفضلاء ومبلغین کے زیرِتماشا ہماری بچی کا لبادہ نوچتا چلا جارہا ہے۔ کیا ہوا، ہماری بیٹی سربازار ’’لباس‘‘ اور ’’روایات‘‘ کے بوجھ سے ہلکی ہی تو کی جارہی ہے...! ہرسال اس فیبرک کے کچھ ہی تَند نکالے جاتے ہیں! ہوتے ہوتے بہت اترا پھربھی ’مغرب جتنا‘ نہیں! آپ خوامخواہ پریشان ہوتے ہیں؛ وہاں تو آپ کو پتہ ہے......!
خاطر جمع رکھئے؛ سب اُدھر ہی کو جارہے ہیں۔ ایک دم برہنہ تو نہیں ہوئی ہماری لختِ جگر؛ جتنا ہمیں ہضم ہوا اتنا ہوئی! ہاں اب ہمارا ’ہاضمہ‘ تیز کرنے کی وہ زوداثر خوراکیں جو ’انفرمیشن ریوولیوشن‘ کی پڑیوں میں ڈال کر ہمیں بیچی جارہی ہیں اپنا جادو دکھانے لگیں ... نہ جانے فری میسن اِس بار اتنی مطمئن کیوں ہے... اپنی شریف زادیوں کی ایک برہنگی ہی کیا اب تو ویلنٹائن، کنڈوم کلچر، شوقیہ قحبہ گری، ’فریڈم آف چوائس‘، لِزبینز اینڈ گیز، حرامی اولاد، کنواری ماؤں کو ’قبول‘ کروانے کی انسانی ہمدردی کی تحریکیں اور نہ جانے کیا کیا ہمیں ’’ہضم‘‘ ہوجانے والا ہے۔ فکر مت کیجئے؛ پیکیج ایک ہے۔ بس یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے صاحب! یہ سب متلی جو ’کنواری ماؤں‘ کا لفظ سن کر فوراً آپ کے حلق کو آپہنچتی ہے، ’پُڑی‘ کے اثر سے زائل ہوجانے والی ہے! آپ کوئی پہلے ’مریض‘ تھوڑی ہیں، اس سے پہلے بڑی بڑی قوموں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے؛ معالج کی مہارت پر شک کرنے والا کوئی احمق جاہل ہی ہوسکتا ہے اور اس پر پردہ ڈالنے والا زندیق منافق... بلکہ ابلیس۔
حضرات خاموشی کب تک؟ اٹھیے۔ بولیے۔چیخیے... چودہ فروری آپ کی تہذیب کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔
رونا اس بدکار میڈیا کا نہیں... رونا اس بات کا ہے کہ آج ہماری مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو سانپ سونگھ گیا ہے!!!!!!

ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک
(حامد کمال الدین)
 
Top