• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

١٥ شعبان کو روزہ رکھنا کیسا ہے؟ ۔۔۔۔

شمولیت
مارچ 11، 2016
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
58
Screenshot_2017-05-09-20-11-47.png
السلام علیکم!
میرا ایک سوال ہے مجھے ایک بھائی نے مسلم کی ایک حدیث بتایا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شعبان کے نصف روزہ رکھنا چاہے؟ یہ ہے وہ حدیث
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم!
میرا ایک سوال ہے مجھے ایک بھائی نے مسلم کی ایک حدیث بتایا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شعبان کے نصف روزہ رکھنا چاہے؟ یہ ہے وہ حدیث
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہ شعبان میں جتنے ممکن ہوں روزے رکھنے افضل ہیں ، درج ذیل دو احادیث دیکھئے :

عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أنها قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان وما رأيته في شهر أكثر منه صياما في شعبان
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نفلی روزے اس قدر کثرت سے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ اب افطار نہ کریں گے اور (نفلی روزے ) چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے کہ اب روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے پورے مہینے روزے رکھتے ہوئے ان کو کبھی نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہ دیکھا۔
(صحیح مسلم ، الصیام )

"عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ، وَلَمْ أَرَهُ صَائِمًا مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا "
(صحیح مسلم ، الصیام )
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے پوچھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کیونکر رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت روزے رکھے اور اتنا افطار کرتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت افطار کیا اور میں نے ان کو جتنا شعبان میں روزے رکھتے دیکھا اتنا اور کسی ماہ میں نہیں دیکھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے تھے۔ پورے شعبان روزے رکھتے سوائے چند روز کے۔"
ان دواحادیث کے مطابق ماہ شعبان میں جس قدر ممکن ہو نفلی روزے رکھنا افضل عمل ہے ؛

اور جس روایت کے متعلق آپ نے دریافت کیا اس کے متعلق درج ذیل تحریر بغور پڑھیں :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث : «اَمَا صُمْتَ سَرَرَ هٰذَا الشَّهْرِ» الخ میں محفوظ لفظ ’’سَرَرَ‘‘ ہے یا ’’ سَرَارَ‘‘ نہ کہ لفظ ’’سُرَّة‘‘ اگر لفظ ’’سُرَّة‘‘محفوظ ہو بھی تو اس سے مراد آخر ہے نہ کہ وسط چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں ’’سَرَرَ‘‘ کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے
«قَالَ أَبُوْ عُبَيْدٍ وَالْجُمْهُوْرُ : اَلْمُرَادُ بِالسَّرَرِ هُنَا آخِرُ الشَّهْرِ سُمِّيَتْ بِذٰلِکَ لِاِسْتِسْرَارِ الْقَمَرِ فِيْهَا وَهِیَ لَيْلَةُ ثَمَانٍ وَعِشْرِيْنَ وَتِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ وَثَلاَثِيْنَ ۔ وَنَقَلَ أَبُوْدَاودَ عَنِ الْاَوْزَاعِیْ وَسَعِيْدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيْزِ أَنَّ سَرَرَه أَوَّلُه ، وَنَقَلَ الْخَطَابِیُ عَنِ الْاَوْزَاعِیْ کَالْجُمْهُوْرِ ۔ وَقِيْلَ السَّرَرُ وَسَطُ الشَّهْرِ حَکَاهُ اَبُوْدَاوُدَ أَيْضًا، وَرَحَّجَهُ بَعْضُهُمْ وَوَجْهُهُ بِأَنَّ السَرَرَ جَمْعُ سُرَّةٍ وَسُرَّةُ الشَّيْئِ وَسَطُهُ وَيُؤَيِّدُهُ النَّدْبُ إِلی صِيَامِ الْبِيْضِ وَهِیَ وَسَطُ الشَّهْرِ وَأَنَّه لَمْ يَرِدْ فِی صِيَامِ آخِرِ الشَّهْرِ نَدْبٌ بَلْ وَرَدَ فِيْهِ نَهْیٌ خَاصٌ وَهُوَ آخِرُ شَعْبَانَ لِمَنْ صَامَهُ لِأَجْلِ رَمَضَانَ وَرَجَّحَهُ النَوَوِیْ بِأَنَّ مُسْلِمًا أَفَرَدَ الرِوَايَةَ الَّتِیْ فِيْهَا سُرَّةُ هٰذَا الشَّهْرِ عَنْ بَقِيَّةِ الرِوَايَاتِ وَأَرْدَفَ بِهَا الرِوَايَاتِ الَّتِیْ فِيْهَا الْحَضُّ عَلٰی صِيَامِ الْبِيْضِ وَهِیَ وَسَطُ الشَّهْرِ کَمَا تَقَدَّمَ لٰکِنْ لَمْ أَرَهُ فِیْ جَمِيْعِ طُرُقِ الْحَدِيْثِ بِاللَّفْظِ الَّذِیْ ذَکَرَهُ وَهُوَ سُرَّةٌ بَلْ هُوَ عِنْدَ اَحْمَدَ مِنْ وَجْهَيْنِ بِلَفْظِ سَرَارٍ وَأَخْرَجَهُ مِنْ طُرُقٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِیْ فِیْ بَعْضِهَا سَرَرٌ وَفِیْ بَعْضِهَا سَرَارٌ ، وَهٰذَا يَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ آخِرُ الشَّهْرِ» الخ
’’کیا تم نے اس ماہ کے آخر میں روزہ نہیں رکھا الخ میں محفوظ لفظ سرر ہے یا سرار نہ کہ لفظ سرۃ ۔ اگر لفظ سرۃ محفوظ ہو بھی تو اس سے مراد آخر ہے نہ کہ وسط چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں لفظ سرر کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو عبید اور جمہور نے کہا ہے سرر سے یہاں ماہ کا آخر مراد ہے اور اس کے ساتھ نام رکھا گیا ہے اس میں چاند کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے اور وہ اٹھائیسویں اور انتیسویں اور تیسویں رات ہے اور ابوداود نے اوزاعی اور سعید بن عبدالعزیز سے نقل کیا ہے کہ سرر کا معنی اول ہے اور خطابی نے اوزاعی سے جمہور کی طرح نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرر کا معنی درمیان ہے اس کو بھی ابوداود نے حکایت کیا اور بعض نے اس کو ترجیح دی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سرر جمع سرۃ کی ہے اور سرۃ درمیان کو کہتے ہیں اور ایام بیض کے روزوں کا مندوب ہونا اس کی تائید کرتا ہے اور وہ ماہ کا درمیان ہے اور ماہ کے آخر کے بارے کوئی ندب وارد نہیں ہوا بلکہ اس میں خاص نہی وارد ہوئی ہے اور وہ شعبان کا آخر ہے جو رمضان کی وجہ سے اس کے روزے رکھے اور امام نووی نے اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ امام مسلم نے اس روایت کو علیحدہ بیان کیا ہے جس میں اس ماہ کے سرۃ کا لفظ ہے باقی روایات سے اور اس کے بعد وہ روایات لائے ہیں جن میں ایام بیض کے روزوں کی ترغیب ہے اور وہ ماہ کا درمیان ہے جیسا کہ گذر چکا لیکن حدیث کے تمام طرق میں میں نے اس لفظ کو نہیں دیکھا جس لفظ سے اس نے ذکر کیا ہے اور وہ سرۃ ہے بلکہ وہ احمد کے پاس دووجہوں سے لفظ سرار کے ساتھ ہے اور اس نے کئی طرق سے سلیمان التیمی سے بیان کیا ہے بعض میں سرر ہے اور بعض میں سرار اور یہ دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد ماہ کا آخر ہے ‘‘
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب منعقد فرمایا ہے بَابُ الصَّوْمِ فِیْ آخِرِ الشَّہْرِ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری بھی سرر کا معنی آخر ہی کرتے ہیں نہ کہ وسط یا اول ،

پھر بخاری کی تبویب سے واضح ہے کہ وہ شعبان کی تخصیص کے بھی قائل نہیں یاد رہے پندرھویں شعبان کے متعلق روایت ’’قُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا نَہَارَہَا‘‘ ’’رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو‘‘ کمزور ہے۔
وباللہ التوفیق
(1)بخاری کتاب الصوم۔باب الصوم من آخرالشہر
(2)مسلم۔کتاب الصوم۔باب صوم سرر شعبان
(3)صحیح مسلم۔کتاب الصیام۔باب صوم سرر شعبان



 
Last edited:
Top