• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں بہتا ناحق انسانی خون :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پاکستان میں بہتا ناحق انسانی خون :


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام ایک ایک مکمل دین ہے اور ہر معاملے میں اپنے پیروکاروں کی رہنمائی فرماتاہے۔ دور جہالت میں ، جب ابھی رحمۃ للعالمین کا ظہور نہیں ہوا تھا تو معاشرے کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ امن و امان کا تھا۔ ہر طرف انسانی خون کا بہنا ، اموال کالٹنا اور دہشت کے اندھیرے سائے تھے۔

"لاالہ الا اللہ " وہ مقدس کلمہ تھا کہ جس نے ان تاریک معاشروں میں امن و امید ایک نئی صبح ظاہرکر دی تھی۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ کے آنے بعد ظلم وستم اور دہشت گردی کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور لوگ اس "امن والے دین" کی امان میں آنے لگے۔

اور پھر دنیا نے وہ عجب نظارہ دیکھا کہ جو لوگ باہم دست و گریبان تھے ، ایک دوسرے کا معمولی معمولی باتوں پر خون بہانے میں مصروف تھے ، "لا الہ الااللہ " کے اظہار سے اسلام کے ہار میں موتیوں کی طرح یکجاں و یکساں نظر آنے لگے تھے۔

کتب احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو جا بجا اس بات کی نصیحت و واعظ فرماتے نظر آتے ہیں کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کے حامل کی حرمت کیا ہے،اسکی اللہ کے ہاں قدر و قیمت کیا ہے؟

پھر کسی مقام پر کلمہ پڑھنے والوں سے ہاتھ و تلوار روک لینے کی نصیحت اور اگر کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کسی ساتھی کے ہاتھوں جان بوجھ کر تو دور کی بات،محض خطا یا غلطی سے بھی کسی کلمہ توحید کے اقراری کے قتل ہونے پر ان صحابہ کے عمل سےاعلان برات کررہے ہیں۔اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اس لہجے میں تنبیہ فرمارہے ہیں کہ صحابہ پریشانی و پچھتاوے میں ڈوبے نظر آرہے۔

اور جب دوسری جانب دیکھتے ہیں تو جہادی کاروائیوں کے تیار لشکروں کو بستیوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے "اذان کی صدا" سے خبردار کر رہے ہیں اور جہادی سفر میں راستوں میں مجاہدین اسلام پر سلام کرنے والوں سے تلوار کو ہٹالینے کا حکم صادر فرمارہے اور انکے اموال کو حرام ٹھہرا رہے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اہل اسلام کے خون کی اتنی قدرو قیمت ہےکہ اس بات پر اپنے ساتھیوں کی بھرپور تربیت فرمائی تاکہ کہیں کسی سے جان بوجھ کر تو کیا خطاء یا غلطی سے بھی کسی اسلام کے نام لیوا کا کو ضرر نہ پہنچے۔

حتی کے اسلامی اصولوں پر ایسی تربیت فرمائی کہ بعض اوقات کچھ نام نہاد مسلمانوں نے واضح اور جان بوجھ کر اسلامی سے منافی امور و اقوال کا ارتکاب کیا ،جیسا کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اسکے حواریوں کا حال و معمول تھا۔ اور وہ غیر اسلامی اقوال و افعال ایسے تھے کہ صحابہ اکرام فورا ان بدبختوں کی گردنیں اڑانے کے لئے خود کو پیش کرنے لگے ، مگر قربان جاوں جان سے بھی زیادہ عزیز نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے اپنے مخلص صحابہ کو اس منافقین سے محض صرف انکے اظہار اسلام اور کلمہ کے اقرار کی بنا پر، تلوار کو روکنے لینے کا حکم جاری کیا۔ اور کوئی بھی غلیظ سے غلیظ منافق کوبھی قتل نہ کیا گیا۔ اور اسکی وجہ زبان نبوت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بیان فرما دی " لوگ کیا کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا ہے"۔

اہل اسلام تو ایک طرف، اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا کفار کے خون کی بھی بے پناہ حرمت بیان فرمائی ہے، جو چاہے بلاد کفار یا محارب بلادکفار سے تعلق ہی کیوں نہ رکھتے ہوں ، پس اگر وہ مسلمانوں کو نہ تو انکے دین سے روکتا ہو، نہ ہی انہیں گھروں سے بیدخل کرتا ہو اور نہ ہی ان سے شمشیر زن ہوتا ہو، تو ایسے کفار کی جان و مال کو بھی ایمان والوں پر حرام ٹھہرایا گیا ہے اور اس سے انحراف کرنے والوں کے لئے جنت سے دوری اور عذاب الہی کی وعیدیں قرآن و سنت میں وارد ہیں۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جہادی لشکروں کو رسول اللہ صلی اللہ کفار کی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، انکی فصلوں اور باغوں ،عبادت خانوں اور راہبوں کو جان بوجھ کر قتل وبرباد نہ کرنے کی نصیحت فرماتے نظر آتے ہیں۔

یہی وہ اسلام کی روشن تعلیمات تھیں کہ جن سے ایک گمراہ اور کشت و خون میں ڈوباےمعاشرے امن کے ایک عظیم گہوارے کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی تعلیمات سے انحراف نے اس پہلے انکار حدیث اورظالم گمراہ گروہ کو جنم دیا کہ جس کے بارے میں پیشگوئی قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے کر دی گئی ہے۔ یہ تھا خوارج کا گروہ۔

خوارج نے گناہ کبیرہ کی وجہ سے اور قرآن کے اپنے خودساختہ مفہوم و تشریح کی بنیاد پر مسلمانوں کی تکفیرکی اور انکا خون اور اموال اپنے لئے حلال ٹھہرا لیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی بھرپور مذمت فرمائی تھی اور ان سے مسلمانوں اور بالخصوص صحابہ کرام کو متنبہ فرمایا تھا۔

یہ خوارج ہر دور میں نئی نئی شکلوں اور لبادوں میں مسلمانوں میں وارد ہوتے رہے ہیں اور انکا نعرہ ہمیشہ یکساں رہا ہے اور وہ ہے "ان الحکم الا للہ" اور " ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون "۔

آج ہم اپنے دور میں انہیں خوشنما نعروں کے سائے تلے پھر ایسے گرہوں کو دیکھتے ہیں کہ جو مسلم معاشروں میں دہشت و بد امنی پھیلانےمیں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ بلکہ مسلمان کفار کی بجائے ان کو اپنے لئے زیادہ باعث خطرہ و خوف سمجھتے ہیں۔

پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں ، اس وقت جو خون کی ہولی جاری ہے، اس کی بنیاد ی وجہ "لا الہ الا اللہ" بارے اسلامی تعلیمات سے انحراف ہےاور ناقص الایمان مسلمانوں کے خون کو بے وقعت جاننا ہے۔

اس فکر کی بنیاد پر پاکستان میں عسکری کاروائیوں ، بم دھماکوں ، خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسے مسلم معاشروں میں اسلام کے نفاذ کا راستہ جتلایا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلم معاشروں میں اس طریقہ سے اسلام کے نفاذ کا نعرہ و تاریخ ہمیشہ خوارج کی رہی ہے۔


اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام اہل اسلام کی حفاظت فرمائیں۔ آمین

 
Last edited:

allah ke bande

مبتدی
شمولیت
مارچ 20، 2012
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
25
پاکستان میں بہتا نا حق انسانی خون !!!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام ایک ایک مکمل دین ہے اور ہر معاملے میں اپنے پیروکاروں کی رہنمائی فرماتاہے۔ دور جہالت میں ، جب ابھی رحمۃ للعالمین کا ظہور نہیں ہوا تھا تو معاشرے کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ امن و امان کا تھا۔ ہر طرف انسانی خون کا بہنا ، اموال کالٹنا اور دہشت کے اندھیرے سائے تھے۔

"لاالہ الا اللہ " وہ مقدس کلمہ تھا کہ جس نے ان تاریک معاشروں میں امن و امید ایک نئی صبح ظاہرکر دی تھی۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ کے آنے بعد ظلم وستم اور دہشت گردی کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور لوگ اس "امن والے دین" کی امان میں آنے لگے۔

اور پھر دنیا نے وہ عجب نظارہ دیکھا کہ جو لوگ باہم دست و گریبان تھے ، ایک دوسرے کا معمولی معمولی باتوں پر خون بہانے میں مصروف تھے ، "لا الہ الااللہ " کے اظہار سے اسلام کے ہار میں موتیوں کی طرح یکجاں و یکساں نظر آنے لگے تھے۔

کتب احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو جا بجا اس بات کی نصیحت و واعظ فرماتے نظر آتے ہیں کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کے حامل کی حرمت کیا ہے،اسکی اللہ کے ہاں قدر و قیمت کیا ہے؟

پھر کسی مقام پر کلمہ پڑھنے والوں سے ہاتھ و تلوار روک لینے کی نصیحت اور اگر کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کسی ساتھی کے ہاتھوں جان بوجھ کر تو دور کی بات،محض خطا یا غلطی سے بھی کسی کلمہ توحید کے اقراری کے قتل ہونے پر ان صحابہ کے عمل سےاعلان برات کررہے ہیں۔اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اس لہجے میں تنبیہ فرمارہے ہیں کہ صحابہ پریشانی و پچھتاوے میں ڈوبے نظر آرہے۔

اور جب دوسری جانب دیکھتے ہیں تو جہادی کاروائیوں کے تیار لشکروں کو بستیوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے "اذان کی صدا" سے خبردار کر رہے ہیں اور جہادی سفر میں راستوں میں مجاہدین اسلام پر سلام کرنے والوں سے تلوار کو ہٹالینے کا حکم صادر فرمارہے اور انکے اموال کو حرام ٹھہرا رہے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اہل اسلام کے خون کی اتنی قدرو قیمت ہےکہ اس بات پر اپنے ساتھیوں کی بھرپور تربیت فرمائی تاکہ کہیں کسی سے جان بوجھ کر تو کیا خطاء یا غلطی سے بھی کسی اسلام کے نام لیوا کا کو ضرر نہ پہنچے۔

حتی کے اسلامی اصولوں پر ایسی تربیت فرمائی کہ بعض اوقات کچھ نام نہاد مسلمانوں نے واضح اور جان بوجھ کر اسلامی سے منافی امور و اقوال کا ارتکاب کیا ،جیسا کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اسکے حواریوں کا حال و معمول تھا۔ اور وہ غیر اسلامی اقوال و افعال ایسے تھے کہ صحابہ اکرام فورا ان بدبختوں کی گردنیں اڑانے کے لئے خود کو پیش کرنے لگے ، مگر قربان جاوں جان سے بھی زیادہ عزیز نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے اپنے مخلص صحابہ کو اس منافقین سے محض صرف انکے اظہار اسلام اور کلمہ کے اقرار کی بنا پر، تلوار کو روکنے لینے کا حکم جاری کیا۔ اور کوئی بھی غلیظ سے غلیظ منافق کوبھی قتل نہ کیا گیا۔ اور اسکی وجہ زبان نبوت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بیان فرما دی " لوگ کیا کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا ہے"۔

اہل اسلام تو ایک طرف، اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا کفار کے خون کی بھی بے پناہ حرمت بیان فرمائی ہے، جو چاہے بلاد کفار یا محارب بلادکفار سے تعلق ہی کیوں نہ رکھتے ہوں ، پس اگر وہ مسلمانوں کو نہ تو انکے دین سے روکتا ہو، نہ ہی انہیں گھروں سے بیدخل کرتا ہو اور نہ ہی ان سے شمشیر زن ہوتا ہو، تو ایسے کفار کی جان و مال کو بھی ایمان والوں پر حرام ٹھہرایا گیا ہے اور اس سے انحراف کرنے والوں کے لئے جنت سے دوری اور عذاب الہی کی وعیدیں قرآن و سنت میں وارد ہیں۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جہادی لشکروں کو رسول اللہ صلی اللہ کفار کی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، انکی فصلوں اور باغوں ،عبادت خانوں اور راہبوں کو جان بوجھ کر قتل وبرباد نہ کرنے کی نصیحت فرماتے نظر آتے ہیں۔

یہی وہ اسلام کی روشن تعلیمات تھیں کہ جن سے ایک گمراہ اور کشت و خون میں ڈوباےمعاشرے امن کے ایک عظیم گہوارے کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی تعلیمات سے انحراف نے اس پہلے انکار حدیث اورظالم گمراہ گروہ کو جنم دیا کہ جس کے بارے میں پیشگوئی قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے کر دی گئی ہے۔ یہ تھا خوارج کا گروہ۔

خوارج نے گناہ کبیرہ کی وجہ سے اور قرآن کے اپنے خودساختہ مفہوم و تشریح کی بنیاد پر مسلمانوں کی تکفیرکی اور انکا خون اور اموال اپنے لئے حلال ٹھہرا لیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی بھرپور مذمت فرمائی تھی اور ان سے مسلمانوں اور بالخصوص صحابہ کرام کو متنبہ فرمایا تھا۔

یہ خوارج ہر دور میں نئی نئی شکلوں اور لبادوں میں مسلمانوں میں وارد ہوتے رہے ہیں اور انکانعرہ ہمیشہ یکساں رہا ہے اور وہ ہے "ان الحکم الا للہ"اور " ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون "۔

آج ہم اپنے دور میں انہیں خوشنما نعروں کے سائے تلے پھر ایسے گرہوں کو دیکھتے ہیں کہ جو مسلم معاشروں میں دہشت و بد امنی پھیلانےمیں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ بلکہ مسلمان کفار کی بجائے ان کو اپنے لئے زیادہ باعث خطرہ و خوف سمجھتے ہیں۔

پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں ، اس وقت جو خون کی ہولی جاری ہے، اس کی بنیاد ی وجہ "لا الہ الا اللہ" بارے اسلامی تعلیمات سے انحراف ہےاور ناقص الایمان مسلمانوں کے خون کو بے وقعت جاننا ہے۔
اس فکر کی بنیاد پر پاکستان میں عسکری کاروائیوں ، بم دھماکوں ، خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسے مسلم معاشروں میں اسلام کے نفاذ کا راستہ جتلایا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلم معاشروں میں اس طریقہ سے اسلام کے نفاذ کا نعرہ و تاریخ ہمیشہ خوارج کی رہی ہے۔

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام اہل اسلام کی حفاظت فرمائیں۔ آمین

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے - پچھلے دنوں طالبان کے مختلف دھڑوں کے کمانڈروں پر پے درپے ہونے والے حملوں سے یہ انداذہ ہوتا ہے کہ ان میں آپس میں پھوٹ پڑ گئی ہے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10330316_636306833174248_7074641603051645050_n.jpg


قتل ناحق کا بھیانک انجام :

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

(سورة النساء : 93)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کراچی ( اسٹاف رپورٹر)

جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے مرکزی رہنماؤں اور جید علمائے کرام نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک میں داعش کے ذریعے انتشار برپا کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے تحت فساد پھیلاکر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا گیا۔ جہاد اور فساد میں واضح فرق موجود ہے، کفر کے فتوے لگاکر قتل عام کی راہ ہموار کرنے والے مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ پاکستان اور سعودی عرب عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے۔ مسلمان فتنہ تکفیر مسترد کرکے تعلیمات نبوی سے رہنمائی حاصل کریں۔ ان خیالات کا اظہار استاذ العلماء اور مفسر قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد، معروف عالم دین مفتی عبدالرحمن عابد اور جامعہ محمدیہ بہاولپور کے شیخ الحدیث مفتی عبداللطیف ارشد نے اپنے دورہ کراچی کے دوران گلشن اقبال، طارق روڈ، ڈیفنس، نیول کالونی، ماڈل کالونی، لانڈھی، نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، کورٹ روڈ، جوڑیا بازار، قائد آباد، اورنگی ٹاؤن و دیگر علاقوں میں درس قرآن کے اجتماعات سے خصوصی خطابات کرتے ہوئے کیا۔ جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مفسر قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد نے کہا کہ فتنہ تکفیر اور خارجیت پر قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات موجود ہیں، مسلمانوں کو کافر قرار دے کر واجب القتل سمجھنے والے سخت گمراہی میں مبتلا ہے۔ احادیث کی رو سے یہ روئے زمین پر سب سے بدترین مخلوق ہے۔ مفتی عبدالرحمن عابد نے کہا کہ تکفیر کا فتنہ عالم اسلام کے لیے ہر دور میں بدترین نقصان کا باعث بنا ہے۔ موجودہ دور میں اس کا سدباب نہ کیا جائے تو زمین پر بہت بڑا فساد برپا ہوگا۔ الشیخ عبداللطیف ارشد نے کہا کہ مسلمان کو گناہ اور معصیت کی بنیاد پر اسلام سے خارج کردینا سراسر گمراہی ہے۔ کفر کا فتویٰ لگانا جید علماء کا کام ہے، عوام کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ناقص علم کی بنا پر کسی کو اسلام سے خارج کرکے واجب القتل قرار دے۔ فتنوں کے اس دور میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔

https://www.facebook.com/jarrarofficial/photos/a.127810750750487.1073741828.127800260751536/430038200527739/?type=3&theater
 
Top