مندرجہ بالا آرٹیکل میں پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب (اگر حافظ صاحب نے خود ہی لکھا ہے تو اس میں انہوں) نے دہشت گردی کو سب سے بڑا اور پہلا مسئلہ قرار دیا ہے۔
جبکہ
توحید اُلوہیت کی پہچان، اس کا پرچار اور اس پر عمل کرنے کی دعوت ۔ اور شرک کا فتنہ، اس کی پہچان، اور شرک کی حکومتی سرپرستی کا مسئلہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کلمہ طیبہ کے ذریعے ‘‘اسلام’’ پر تمام ‘‘مسلمانوں’’ کو ‘‘جوڑنے’’ کی بات تو کی گئی ہے
لیکن
مسئلہ توحید و شرک پر مبنی عقیدہ الولاء و البراء کی بات نہیں۔ جو کہ ‘‘اتحاد’’ کی اولین شرط ہے:
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ[٣:٦٤]
آپ (ﷺ) فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں۔
عدالتوں میں نظآم اسلام، قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن قوانین اور عدالتی فیصلوں سے پہلے توحید و شرک کی پہچان اور ان پر عمل درآمد مقدم ہے۔
حافظ صاحب نے نہ تو القاعدہ و طالبان افغانستان کو دشمن کہا اور نہ ہی ‘‘ٹی ٹی پی’’ کو بقول بعض لوگوں کے ‘‘تکفیری و خارجی’’ ارشاد فرمایا۔ بلکہ انہیں پاکستان کا سچا محب ثابت کرنے کے لئے ماضی قریب کی مثال بھی دے دی۔
امید ہے کہ اپنے امیر محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیری و خارجی کی رَٹ لگانی والی ‘‘طالبان’’ مخالف فیکٹری بند ہو جائے گی ان شاء اللہ العزیز