• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان کے پہلے وزير اعظم خان لیاقت علی خان

tashfin28

رکن
شمولیت
جون 05، 2012
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
52
پاکستان کے پہلے وزير اعظم خان لیاقت علی خان

انٹرنيٹ اور دن بدن پھيلتے ہوۓ سوشل ميڈيا کے دور ميں جبکہ ناقابل ترديد حقائق تک رسائ اب پہلے کے مقابلے ميں کافی سہل ہو چکی ہے، اس نوعيت کی خبری رپورٹس کی جلی حروف ميں تشہير کی بجاۓ انھيں فورمز کے طنز ومزاح کے ليے مختص سيکشن ميں جگہ دی جانی چاہيے۔ مگر شايد لچھے دار کہانيوں کی بنياد پر شدت جذبات کا اظہار اور منفی طرزعمل، حقائق کی تحقيق کے بعد دانشمندانہ اظہار راۓ کے مقابلے ميں زيادہ آسان ہے۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ جس معلومات کو تروڑ مروڑ کر يہ رپورٹ تيار کی گئ ہے، وہ پيش کردہ غلط تاثر کے برعکس حاليہ دنوں کی نہيں ہے۔ اس پوری خبر کی بنياد جولائ 18 2006 ميں عرب نيوز ويب سائٹ پر شائع ہونے ايک رپورٹ ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں جس سے اس "نۓ انکشاف" کی حقيقت سب پر واضح ہو جاۓ گی۔

http://www.arabnews.com/node/287940


اس کالم ميں يکطرفہ رپورٹنگ اور شہ سرخی کو ايک طرف رکھتے ہوۓ صرف يہ ديکھيں کہ جھوٹ کو گھڑنے کے ليے کس سورس کا حوالہ ديا گيا ہے۔

دستاويز کے مطابق، اکتوبر 30 1951 کو نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے ايک ٹيلی گراف ارسال کيا گيا جس ميں يہ تحرير درج تھی

"کيا لياقت علی خان کا قتل ايک گہری امريکی سازش کا نتيجہ تھا؟" نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے بھيجے گۓ ٹيلی گراف ميں اکتوبر 24 1951 کو بھوپال کے ايک مقامی اخبار "نديم" ميں شائع ہونے والے ايک ايسے کالم کے اہم نقاط کا خلاصہ پيش کيا گيا تھا جس ميں لياقت علی خان کی موت کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار ديا گيا تھا۔

ٹيلی گراف ميں لکھے گۓ خلاصے ميں صرف وہی نقاط شامل تھے جو روزنامہ "نديم" ميں موجود کالم ميں پہلے سے موجود تھے۔

دنيا بھر ميں سفارت خانوں ميں کام کرنے والے ملازمين کے ليے يہ روز کا معمول ہوتا ہے کہ وہ مقامی ميڈيا اور اخبارات ميں پيش کيے جانے والے خيالات، تجزيوں اور خبروں سے اپنی حکومتوں کو باخبر رکھتے ہيں تا کہ مقامی طور پر مقبول عام نظريات اور عوامی سوچ جو دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت پر اثرانداز ہو سکتی ہے، اس سے مکمل آگہی حاصل کی جا سکے۔ يہ پيغامات جو سفارت خانے کے عملے کی جانب سے اپنی حکومتوں کو بھيجے جاتے ہيں، وہ محض مقامی ميڈيا ميں پنپنے والی سوچ کے آئينہ دار ہوتے ہيں۔ يہ سفارت خانے کے عملے کی ذاتی سوچ نہيں ہوتی بلکہ وہ تو خبروں کی رپورٹنگ کر کے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہوتے ہيں۔

اگر آپ واقعی امريکی حکومت کے موقف اور اس سوچ کے بارے ميں جان کاری چاہتے ہيں جو سال 1951 ميں وزيراعظم لياقت علی خان کے قتل کے وقت تھی تو اس کے ليے سی آئ اے کی اکتوبر 22 1951 کی يہ دستاويز پيش ہے جو اس وقت تو خفيہ تھی ليکن اب اسے "ڈی کلاسيفائيڈ" کر ديا گيا ہے۔

http://www.foia.cia.gov/sites/default/files/document_conversions/89801/DOC_0000010596.pdf

صفحہ 2 کے آخری پيراگراف ميں واضح طور پر درج ہے

"اينٹيلی جينس کے ڈائريکٹر، يو ايس اے ايف، کے مطابق قاتل کے محرکات اور اس کی وابستگی کے ضمن ميں مکمل معلومات نا ہونے کے سبب اس قتل کے اثرات کا مکمل تجزيہ ممکن نہيں ہے"۔

اس دستاويز کے صفحہ آٹھ کا آخری پيراگراف بھی توجہ طلب ہے جہاں يہ بات واضح کی گئ ہے کہ امريکی حلقوں ميں لياقت علی خان کو ايک ايسے ليڈر کے حوالے سے ديکھا جاتا تھا جو اپنے نظريات کے حوالے سے مغرب کے ليے مثبت سوچ رکھتے تھے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت ايک ايسے ليڈر کے خلاف کوئ بھی قدم اٹھاۓ گی جو خود ہمارے اپنے اعتراف کے مطابق امريکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کے متمنی تھے؟

چونکہ مختلف فورمز پر تشہير کردہ اس رپورٹ کا لب لباب اور اس کی بنياد خود امريکی حکومت کی ہی ايک دستاويز ہے اور اسی بنياد پر اسے ايک "ناقابل ترديد ثبوت" قرار ديا گيا ہے تو پھر اسی منطق اور پيمانے کے تحت اسی امريکی حکومت اور سی آئ اے کی ہی پيش کردہ دستاويز کو بھی درست تسليم کيا جانا چاہيے جو وزير اعظم لياقت علی خان کے قتل کے حوالے سے ہماری سوچ کو واضح کرتی ہے۔

تاشفين – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اگر تو اس سے مراد وہ رپورٹ ہے جو اآج کل اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے تو اس کے مندرجات مشکوک ہیں اور اس کے ظاہر ہونے کا وقت اور اس کی تفصیلات اور جس نے ظاہر کیا وہ خود
پوری دال ہی کالی ہے ، دال میں کچھ کالا نہیں اور
جس ڈاکٹر شریف راوالپنڈی نے لیاقت علی خان کا پوسٹ مارٹم کیا تھا یہ محض حسن اتفاق ہے کہ اس کے بیٹے نے بے نظیر کی میڈیکل رپورٹ جاری کی تھی ان سے پوچھیں تو شاید وہ بتا سکیں کہ سید اکبر کے پاس 1951 میں ایسا کون سا پستول تھا جو فائر سامنے سے کیا جائے اور پھر گولی 360 کے زاویے پر گھوم کر سر کے پچھلے حصے میں جا لگے جس سے موت واقع ہوئی
لیاقت علی خان کی موت ایک سربستہ راز ہے اور اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی ایک راز ہی ہے کہ کس فائز سے موت ہوئی سامنے والے فائر سے یا کسی نے پیچھے سے فائر کیا اور سینہ گزٹ تو یہی بتاتا ہے کہ موت سر کے پچھلے حصے پر لگنے والی گولی سے ہوئی اور سید اکبر جو کہ مبینہ حملہ آور تھا اسے موقع پر ہی مار دیا گیا اور یہ بھی اتفاق ہے کہ قاتل اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے کر آتا ہے یہ بھی ایک لطیفہ ہی ہے ؟
سید اکبر کو کس امر کے لیے تیار کیا گیا تھا ؟
اور کس نے تیار کیا تھا ؟
کیا کوئی نقاب پوش ؟ یا کوئی پوش ہی پوش
کہا نا پوری دال ہی کالی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لیں جی میرے ایک صحافی دوست نے یہ کالم لکھا لیکن کسی نے شائع نہیں کیا پڑھیں کیا واقعی اس نے سچ لکھا یا پھر وقت ضائع کیا ہے


جس شخص [سر ظفراللہ] نے مرزائیوں کو حکومتی عہدوں پر بٹھایا وہ قائد اعظم کا انتخاب تھا ۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی مرزائیوں کے نرغے میں رہے کیونکہ مرزائیوں کے سردار کے حُکم پر تمام مرزائیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے تھے اور مرزائی جرنیلوں نے ہی جنرل اور صدر یحیٰ خان سے پستول کے بل بوتے پر حکومت چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو دی تھی ۔ چھ سال بعد عوامی دباؤ پر مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے بھٹو صاحب نے یہ ہوشیاری کی کہ مرزائیوں کی فہرست تیار نہ کروائی جس کا مطالبہ غیر مسلم قرار دینے کے مطالبے کا حصہ تھا ۔ مرزائیوں کے رہنماؤں نے مرزائیوں کو حُکم دیا کہ اپنے آپ کو احمدیہ لکھنے کی بجائے مُسلم لکھیں جس کی وجہ سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ کیا جا سکا

نوابزادہ لیاقت علی خان بے شک پاکستان بننے کے چار سال بعد قتل کر دئیے گیے تھے مگر انہوں نے پاکستان کے آئین بنے دئیے جانے میں پس و پیش اور ان کے قتل کے بعد کا پاکستان کا آئین بننے کا عرصہ بھی نوابزادہ کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کیونکہ پاکستان بنتے ہی اؤلیت دستورِ پاکستان کو دی جانی چاہیے تھی جس میں محض لیاقت علی خان نے پاکستان کے تب کے سیٹ اپ میں اپنا حلقہ انتخاب یعنی سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کی اور پھر وہ قتل ہوگئے ورنہ یہ تاخیر اس وقت تک چلتی جب تک انھیں یہ یقین نہ ہوجاتا کہ اب وہ الیکشن جیت جائیں گے ۔ اسی لئیے اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے انھوں نے اپنے پرانے علاقے اتر پردیش انڈیا کے تمام لوگوں کو کراچی میں ایک ہی جگہ آباد کیا۔ شنیدن ہے کہ الطاف بھائی کا مطالبہ ہے کہ لیاقت علی خان کا قتل کے دن کو سرکاری چھٹی قرار دیا جائے۔ آخر اس کی کوئی تو وجوہات ہونگی؟ اور وجوہات وہی ہیں جو سرادر شوکت مرحوم اور دیگران نے بیان کی ہیں۔

سردار شوکت حیات خان مرحوم کے الفاظ ہیں opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan۔ لیاقت علی ‌خان نے اپنے ہی کئیے ہوئے معائدے جسکا نام نہرو لیاقت نامی پیکٹ تھا جو تبادلہ مہاجرین کے متعلق تھا کو توڑتے ہوئے محض اپنی سیٹ پاکستان کے اندر پیدا کرنے کے لیے لیاقت علی خان نے پاکستان کے استحکام کی بھی پراوہ نہ کی کھوکھرا پار سرحد غیر قانونی طور پہ محض اس لیے کھولی گئی کہ لیاقت علی خان کے پرانے علاقے یو پی اتر پردیش کے کے سب لوگ پاکستان میں ایک ہی جگہ آباد ہوں۔

حوالے کے لئیے دیکھیے ۔تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خانکی کتاب دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کا پیج نمبر 178۔

اس سے جو مسائل آگے چل کر پاکستان کو بنے اس سے سب لوگ آگاہ ہیں۔ آج اگر قابل صد احترام مہاجرین کی تین چار نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق پہ ہزاروں لوگ قتل ہونے کے باوجود بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ تو اس کے پس منظر میں بھی لیاقت علی خان کی ذاتی مفادات کی پالیسیاں تھیں جس سے استحکام پاکستان کو سخت نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ جو مہاجرین پاکستان کے باقی حصوں میں آباد ہوئے وہ آج سب کچھ بھول بھال کر اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہین جبکہ مہاجر غیر مہاجر کا مسئلہ صرف کراچی اور کسی حد تک حیدرآباد میں ہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ لیاقت علی بھی تھے نے بنگالی اور سندھی قیادت کو کمال نخوت سے کبھی اپنے برابر نہیں سمجھا تھا ۔

حوالے کے لیے دیکھیئے

The Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
علمِ تاریخ کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ تاریخ کسی شخص کی میت پہ بہائے گئے آنسوں یا اسکی جنازے میں شامل لوگوں کی تعداد سے غرض غایت نہیں رکھتی بلکہ اسے بحیثیت مجموعی تاریخ میں مذکورہ شخصیت کے ادا کئے گئے کردار سے ہوتی ہے۔ لوگ تو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بھی بہت روئے بلکہ اپنے آپ پہ تیل چھڑک خود سوزی بھی کچھ لوگوں نے کی۔ بے نظیر بھٹو کے قتل پہ بھی بہت لوگ روئے۔ ضیاء الحق کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا، مگر ان شخصیات کا فیصلہ کرتے ہوئے بھی تاریخ ان کی میتوں پہ آنسو بہانے والوں کی تعداد نہیں دیکھے گی ۔۔ یہ کوئی ثبوت نہیں جو آپ نے لوگوں کے آنسوؤں کو بنیایا ہے ۔


آج کی خبر ہے کہ سندھ کی وزارتِ تعلیم نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ آگے چالیس پچاس سالوں میں تاریخ فیصلہ دے گی کہ یہ قدم درست تھا یا نہیں ۔ اسی طرح تب لیاقت علی خان کے ارد گرد تقدس کا ھالہ کینچھنے والے بھی وہی لوگ تھے جنھیں ہر قسم کی اخلاقیات کو روندتے ہوئے لیاقت علی خان نے مراعات بخشیں اور اپنے من پسند افراد کو اپنی پسندیدہ جگہوں پہ تعینات کروایا اور جن کا حق بنتا تھا جو اپنی ہر چیز لٹا کر آئے تھے انھیں ان کے حق کے لئیے سالوں لٹکایا گیا وہ دربدر خوار ہوتے رہے۔ یہ دیکھیں

This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice.

یہ الفاظ میرے نہیں تحریک پاکستان کے ایک معتبر رہنماء کے ہیں ۔ اور یہاں from his old Province سے مراد انکا آبائی صوبہ اتر پردیش مراد ہے


اسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ پنجاب کی ریاست ہریانہ میں پیدا ہوئے اور انکے پنجابی ہونے کا ڈھنڈورا بھی اس قدر پیٹا گیا کہ اصل معامالات انکھوں سے اوجھل ہو جائیں ۔ جبکہ آپ کے علم میں ہوگا میرٹھ ۔یو پی میں لیاقت علی خان کی بہت بڑی زمیں داری بلکہ جاگیر تھی۔

۔۔۔۔and being son of the Nawab of Karnal, Liaquat Ali Khan inherited a huge property in Meerut. After taking BA from Oxford and Bar-at-law, he returned to India at the end of 1922 and joined the Muslim League in 1923. As an Independent, he served as Deputy Speaker in the UP Council in 1931. As a member of the United Provinces National Agricultural Party, he represented the landed interests and opposed the separate electorate before the Joint Statutory Commission which came out of the Round Table Conference in the early 1930s

یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں لیاقت علی خان کا محض پنجابی کہہ کے باقی معاملات سے ہاتھ صاف کر لینے سے بات نہیں بنے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ انکے آباء دریائے جمنا کے اس پار مظفر نگر سے تھے جہاں انکی بڑی زمینداریاں تھیں اور وہاں انکا جاگیریں اور زمینداریاں ہونے کی وجہ سے اپنا اثرو رسوخ تھا حتٰی کے دہلی میں رہتے ہوئے بھی وہ دریائے جمنا کے اس پار اپنا اثرو رسوخ رکھتے تھے۔

حوالے کے لیے دیکھیے ،

P.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad, Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس وجہ سے سے انہوں نے اپنے پرانے علاقے کے لوگوں کو محض اپنی انتخابی سیٹ کے لیے دوسرے مہاجروں کا حق مارتے ہوئے بے کراچی میں آباد کیا اور ان میں اہم عہدے بانٹے۔


حوالے کے لیے دیکھیے ،

The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”


Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187


لیاقت علی خان نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے عہدوں کی بندر بانٹ کی اور پاکستان میں اداروں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی رسم ستم ایجاد کی

۔

حوالے کے لیے دیکھیے ،

The Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بیگم رعنا لیاقت کا پورا کرسچئن نام

Ranana Sheila Irene Pant تھا حوالہ دیکھ لیں

Professor Roger D. Long with a foreword by Stanely Wolpert. Oxford University Press, Karachi. Pages 328. V.N. Datta

اور بیگم صاحبہ کی 1948ء میں ویمن والذی سروس اور 1949 مین قائم کی گئی اپوا نامی تنظیم کے کارنامے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اس بارے میں کسی بھی نیک اور صالح مسلمان سے رائے لے لیں ورنہ مجھے بتایئے گا میں لکھ بیجھوں گا اور حوالہ بھی کسی ایسی ویسی شخصیت کا نہیں بلکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ہوگا۔ جبکہ مہاجریں کے لیے جنہوں نے اصل کام کیا وہ تھیں مادر ملت فاطمہ جناح یہاں

http://www.urdupoint.com/books/bookImages/25/943_3.gif

اس لنک پہ آپ کو فاطمہ جناح کی خدمات کی تٍضیلات مل جائیں گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور یہ بھی حقیقت کہ لیاقت علی خان کے روابط سی آئی اے کے اعلٰی عہدیداروں سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی ہو گئے تھے اور جسے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سخت نا پسند کیا تھا

اور آپ کو اظہر الحق نے جو کتابیں تجویز کی ہیں وہ بھی دیکھ لیں تو آپ کو کافی رہنمائی مل جائے گی۔


میں نے شہاب نامہ کا ذکر اس لئیے نہیں کیا کہ آپ بدک جائیں گے اسکے عالوہ شریف الدین پیرزادہ نے بھی قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور لیاقت علی خان کے اختلافات کے بارے میں کچھ لکھ رکھا ہے وہ بھی دیکھ لیں ۔


ہیکٹر بولائتھو نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ پہ محمد علی جناح میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ 1942 کے بعد لیاقت علی خان کی دہلی میں بھولا بھائی ڈیسائی کے ساتھ پاور اور اقتدار شئیر کرنے کے ایک منصوبے کی تفضیل دی ہے جسے بقول ہیکٹر بھولائتھو جب یہ بات قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں آئی تو انہوں نے سختی سے اس بات کا نوٹس لیا اور کہا کہ ہم آزادی سے کم کسی چیز پہ راضی نہیں ہونگے ۔


اور یہاں میں آپ کی اور قارئین کی دلچسپی کے لیے ۔

شاہد رشید کے کتاب مادر ملت سے چند ایک اقتباس پیش کرؤنگا۔


“بنیادی زیادتی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان لوگوں نے کی جو قائد اعظم کی زندگی میں نافرمان ہو گئے تھے۔ اس ٹولے نے نہ صرف قائد اعظم کو موت کے منہ میں دھکیلا بلکہ مادر ملت کے سلسلے میں بھی غفلت برتی۔ اس عوام دشمن ٹولے نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا جو مقام بنتا تھا وہ جان بوجھ کر انھیں نہ دیا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قائد اعظم کے آخری الفاظ جو انھوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے کہے تھے وہ یہ تھے ” فاطی۔۔۔مجھے دلچسپی نہیں رہی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں زندہ رہوں ۔ ۔ ۔ ۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے میں رخصت ہو جاؤں ۔۔۔؟”

شاہد رشید مزید لکھتے ہیں۔

“یہ الفاظ صاف طور پر ان کے رنجیدہ، دل برداشتہ اور دکھی ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جب ان کی ہمت بندہانے کے لیے کہا:

” آپ بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پُر امید ہیں۔”

تو قائد نے جواب دیا۔

” نہیں اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا”

شاہد رشید مزید لکھتے ہیں

ان الفاظ سے صاف طور پر قائد کے جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ یہ مایوسی سے لبریز الفاظ سن کر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن مادر ملت کے صبرو ضبط کی داد دینی چایہے کہ انھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی تا دم واپسیں حرف شکایت لب پر نہیں آنے دیا۔ محض اس لئیے کہ اس طرح ملت میں خلفشار پیدا ہوگا۔ اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جبکہ کوئی سیاسی لیڈر طبعی موت بھی مر جائے تو اس کے ورثاء چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ مادر ملت نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا پر اف تک نہ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”

کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت

مصنف: شاہد رشید
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اجمل صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ یہاں فاضل مصنف کا یہ جملہ “محض اس لئیے کہ اس طرح ملت میں خلفشار پیدا ہوگا۔ اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔” سے مراد کیا ہے آخر وہ کونسا راز ہے اور اہپنوں کا وہ کونسا ٹولہ تھا جو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی نافرمان ہو گیا تھا اور انہوں نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو موت کے منھ میں دھکیلا۔؟


چونکہ آپ نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر الہی بخش کے نام کا حوالہ دیا ہے تو اس بارے میں بھی سن لیں۔


جولائی کے آخر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی پیشگی اطلاع دینے کا تکلف کیے بغیر زیارت پہنچ گئے تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ صھت کی بابت دریافت کیا تو ڈاکٹر کے ذہن میں تھا کہ انھیں مادر ملت نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علاج لیے مقرر کیا ہے اور تفضیلات بتانے سے گریز کیا جس پہ لیاقت علی خان نے ” وزیر اعظم کی حیثیت سے میں ان کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہوں ” اس پر ڈاکٹرا الہٰی بخش نے نے نرمی سے جواب دیا ٹھیک ہے ۔ مگر میں مریض کی اجازت کے بغیر آپ کو نہیں بتا سکتا۔”

بعد میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے داکٹر الہٰی بخش سے تفضیل جانی اور لیاقت علیخان کو کو اپنی صحت کے بارے میں نہ بتانے پہ اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا۔ یہ واقعہ مادر ملت نے بیان کیا ہے ۔

اجمل صاحب آپ بتانا پسند کرین گے کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ لیاقت علی خان کو اپنے مرض کی بابت کیوں نہیں بتانا چاہ رہے؟؟ تھے اور انہوں نے اپنے معالجوں کو بھی اس کا پابند کیوں کیا تھا ۔۔؟؟؟؟


شاہد رشید کی لکھی کتاب مادر ملت، محسنہ ملت میں محترمہ فاطمہ جناح فرماتی ہیں۔”لیکن اس دن جیسا کہ پہلے سے ہدایت کر دی گئی تھی ہوائی ادے پہ کوئی نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایمبولنس انہیں کورنر جنرل ہاوس لے جانے کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھی۔ میں اور سسٹر ڈنہم ان(قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ ) کے ساتھ ایمبولنس میں بیٹھے تھے۔ ایمبولنس بھہت سست روی سے چل ری تھی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی ہم نے چار میل کا سفر ہی طے کیا تھا کہ ایمبولنس نے اس طرح ہچکیاں لیں جیسے اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہو ۔ اور پھر وہ اچانک رک گئی۔ کوئی پانچ منٹ بعد میں ایمبلونس سے باہر آئی تو مجھے بتایا گیا کہ ایمبولنس کا پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ اگر چہ ڈرائیور نے ایمبولنس کے انجن سے الجھنا شروع کر دیا تھا لیکن ایمبولنس کو اسٹارٹ ہونا تھا نہ ہوئی۔ میں پھر ایمبولنس مٰن داخل ہوئی تو قائد نے اہستہ سے ہاتھ کو حرکت دی اور سوالیہ نظروں مجھے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ عماماً کراچی میں تیز سمدری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس سے درجہ حرات قابل برداشت رہتا ہے اور گرم دن کی حدت سے نجات مل جاتی ہے لیکن اس دن ہوا بالکل بند تھی اور گرمی ناقابل برداشت۔

قائد کی بے آرامی کا سبب یہ تھا کہ بے شمار مکھیاں ان کے چہرے پہ بھنبھنا رہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت بھی نہ رہی تھی کہ مکھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے اسے اٹھا سکتے ۔سسٹر ڈنہم اور میں باری باری ان کے چہرے پر ہاتھ سے پنکھا جھل رہے تھے ہم منتظر تھے کہ شاید کوئی ایمبولنس آجائے ہر لمحہ کرب اذیت کا لامتناہی لمحہ تھا۔۔۔۔ امیدو بہم کی کیفیت میں ہم انتظار کرتے رہے۔

قریب ھی مہاجرین ۔۔۔۔ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھے مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کا وہ قاعد جس نے انھیں ایک وطن لے کر دیا ہے ان کے درمیان موجود ہے اور ایک ایی پرانی ایمبولنس میں بے یارو مددگار پڑا ہے جس کا پٹرول بھی ختم ہو گیا ہے۔

کاریں ہارن باجتی قریب سے گزر رہیں تھیں۔ بسیں اور ٹرک اپنی منزلوں کے طرف رواں تھے اور ہم وہاں ایسی ایمبولنس میں بے حس و حرکت پڑے تھے جو ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہ تھی اور اس ایمبولنس مین ایک انتہائی قیمتی زندگی آتی جاتی سانس کے ساتھ قطرہ قطرہ ختم ہو رہی تھی۔۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔کتنی عجیب بات تھی کہ دو گھنٹے میں ہم کوئٹہ سے کراچی پہنچے اور دو گھنٹے ہمیں ماڑی پور سے گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے میں لگے۔”

کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت

مصنف: شاہد رشید
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شاہد رشید مادر ملت کے بارے میں رقم طراز ہیں ” بجائے اس کے کہ عوام دشمنوں سے محاز آراء ہو کر ساری توانئی بھائی کے دسمنوں اور قاتلوں کے چہرے سے نقاب اترانے میں صرف کرتیں اور عمر اس مطالبے میں گزار دیتیں کہ میرے بھائی کو موت سے ہمکنار کرنے والے ٹولے کو قرار واقعی سزا دی جائے انہوں نے اس صدمے کو پی لیا۔۔۔۔

کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت

مصنف: شاہد رشید
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
وہ قاتل ٹولہ کون تھا اور ان کا سر غنہ کون تھا؟


آپ نے اوپر جو حوالہ انگریزی زبان میں دیا ہے وہ لیاقت علی خان کی کے قتل پہ بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کی کوڑی ہے جو تب بھارت، نئی دہلی میں امریکن سفارت خانے نے ایک معمول کی کاروائی کے تحت تیس اکتوبر 1951 بعنوان Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951 کو ٹیلیگرام واشنگٹن بجھوائی تھی۔ جبکہ انھی دنوں میں ۔ لیاقت علی خان کے قتل کے موضوع پہ امریکیوں نے اپنے مختلف سفارتی مشنوں سے ایک عام روٹین کے تحت درجنوں ٹیلی گرامز اور رپورٹس واشنگٹن بھجوائیں تھیں جو درج ذیل ہیں


. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951

. Confidential Telegram from Karachi Embassy, Oct. 16, 1951

. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951

Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 17, 1951

The Situation in Pakistan, Oct. 17, 1951

Comment on the Assassination of the Pakistani Prime Minister, Oct. 17, 1951

The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951

Special Note: The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951 Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 18, 1951

. Secret Telegram from Karachi Embassy, Oct. 18, 1951

Official Afghan Reaction to Press Implications of Afghan Complicity in Assassination of Pakistan Prime Minister, Oct. 18, 1951

. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951

Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951

. Restricted Telegram from Consulate General, Calcutta, Oct. 19, 1951

. Secret Telegram from Secretary of State, Oct. 20, 1951

. Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 21, 1951

. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 22, 1951

The Current Outlook in Pakistan, Oct. 22, 1951

. Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 23, 1951

Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 23, 1951

. Secret Telegram from Moscow Embassy, Oct. 26, 1951

Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951

. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 31, 1951

. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951

Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951

Confidential Telegram from Lahore Consulate, Nov. 14, 1951

Secret Telegram from Karachi Embassy, Nov. 15, 1951

Public Role of Ms. Fatima Jinnah Since Assassination of Liaquat, Nov. 17, 1951

. Political and Economic Developments for the Week Ending Jan. 8, 1952, Jan. 8, 1952

Political Developments in Pakistan, Sept.-Dec. 1951, Jan. 30, 1952

. Confidential Telegram A-251 from Karachi Embassy, Feb. 11, 1952

Political Developments in Pakistan, January 1952, Feb. 25, 1952

. Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 18, 1952

Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 19, 1952
 
Top