پاکستان کے پہلے وزير اعظم خان لیاقت علی خان
انٹرنيٹ اور دن بدن پھيلتے ہوۓ سوشل ميڈيا کے دور ميں جبکہ ناقابل ترديد حقائق تک رسائ اب پہلے کے مقابلے ميں کافی سہل ہو چکی ہے، اس نوعيت کی خبری رپورٹس کی جلی حروف ميں تشہير کی بجاۓ انھيں فورمز کے طنز ومزاح کے ليے مختص سيکشن ميں جگہ دی جانی چاہيے۔ مگر شايد لچھے دار کہانيوں کی بنياد پر شدت جذبات کا اظہار اور منفی طرزعمل، حقائق کی تحقيق کے بعد دانشمندانہ اظہار راۓ کے مقابلے ميں زيادہ آسان ہے۔
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ جس معلومات کو تروڑ مروڑ کر يہ رپورٹ تيار کی گئ ہے، وہ پيش کردہ غلط تاثر کے برعکس حاليہ دنوں کی نہيں ہے۔ اس پوری خبر کی بنياد جولائ 18 2006 ميں عرب نيوز ويب سائٹ پر شائع ہونے ايک رپورٹ ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں جس سے اس "نۓ انکشاف" کی حقيقت سب پر واضح ہو جاۓ گی۔
http://www.arabnews.com/node/287940
اس کالم ميں يکطرفہ رپورٹنگ اور شہ سرخی کو ايک طرف رکھتے ہوۓ صرف يہ ديکھيں کہ جھوٹ کو گھڑنے کے ليے کس سورس کا حوالہ ديا گيا ہے۔
دستاويز کے مطابق، اکتوبر 30 1951 کو نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے ايک ٹيلی گراف ارسال کيا گيا جس ميں يہ تحرير درج تھی
"کيا لياقت علی خان کا قتل ايک گہری امريکی سازش کا نتيجہ تھا؟" نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے بھيجے گۓ ٹيلی گراف ميں اکتوبر 24 1951 کو بھوپال کے ايک مقامی اخبار "نديم" ميں شائع ہونے والے ايک ايسے کالم کے اہم نقاط کا خلاصہ پيش کيا گيا تھا جس ميں لياقت علی خان کی موت کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار ديا گيا تھا۔
ٹيلی گراف ميں لکھے گۓ خلاصے ميں صرف وہی نقاط شامل تھے جو روزنامہ "نديم" ميں موجود کالم ميں پہلے سے موجود تھے۔
دنيا بھر ميں سفارت خانوں ميں کام کرنے والے ملازمين کے ليے يہ روز کا معمول ہوتا ہے کہ وہ مقامی ميڈيا اور اخبارات ميں پيش کيے جانے والے خيالات، تجزيوں اور خبروں سے اپنی حکومتوں کو باخبر رکھتے ہيں تا کہ مقامی طور پر مقبول عام نظريات اور عوامی سوچ جو دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت پر اثرانداز ہو سکتی ہے، اس سے مکمل آگہی حاصل کی جا سکے۔ يہ پيغامات جو سفارت خانے کے عملے کی جانب سے اپنی حکومتوں کو بھيجے جاتے ہيں، وہ محض مقامی ميڈيا ميں پنپنے والی سوچ کے آئينہ دار ہوتے ہيں۔ يہ سفارت خانے کے عملے کی ذاتی سوچ نہيں ہوتی بلکہ وہ تو خبروں کی رپورٹنگ کر کے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہوتے ہيں۔
اگر آپ واقعی امريکی حکومت کے موقف اور اس سوچ کے بارے ميں جان کاری چاہتے ہيں جو سال 1951 ميں وزيراعظم لياقت علی خان کے قتل کے وقت تھی تو اس کے ليے سی آئ اے کی اکتوبر 22 1951 کی يہ دستاويز پيش ہے جو اس وقت تو خفيہ تھی ليکن اب اسے "ڈی کلاسيفائيڈ" کر ديا گيا ہے۔
http://www.foia.cia.gov/sites/default/files/document_conversions/89801/DOC_0000010596.pdf
صفحہ 2 کے آخری پيراگراف ميں واضح طور پر درج ہے
"اينٹيلی جينس کے ڈائريکٹر، يو ايس اے ايف، کے مطابق قاتل کے محرکات اور اس کی وابستگی کے ضمن ميں مکمل معلومات نا ہونے کے سبب اس قتل کے اثرات کا مکمل تجزيہ ممکن نہيں ہے"۔
اس دستاويز کے صفحہ آٹھ کا آخری پيراگراف بھی توجہ طلب ہے جہاں يہ بات واضح کی گئ ہے کہ امريکی حلقوں ميں لياقت علی خان کو ايک ايسے ليڈر کے حوالے سے ديکھا جاتا تھا جو اپنے نظريات کے حوالے سے مغرب کے ليے مثبت سوچ رکھتے تھے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت ايک ايسے ليڈر کے خلاف کوئ بھی قدم اٹھاۓ گی جو خود ہمارے اپنے اعتراف کے مطابق امريکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کے متمنی تھے؟
چونکہ مختلف فورمز پر تشہير کردہ اس رپورٹ کا لب لباب اور اس کی بنياد خود امريکی حکومت کی ہی ايک دستاويز ہے اور اسی بنياد پر اسے ايک "ناقابل ترديد ثبوت" قرار ديا گيا ہے تو پھر اسی منطق اور پيمانے کے تحت اسی امريکی حکومت اور سی آئ اے کی ہی پيش کردہ دستاويز کو بھی درست تسليم کيا جانا چاہيے جو وزير اعظم لياقت علی خان کے قتل کے حوالے سے ہماری سوچ کو واضح کرتی ہے۔
تاشفين – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
انٹرنيٹ اور دن بدن پھيلتے ہوۓ سوشل ميڈيا کے دور ميں جبکہ ناقابل ترديد حقائق تک رسائ اب پہلے کے مقابلے ميں کافی سہل ہو چکی ہے، اس نوعيت کی خبری رپورٹس کی جلی حروف ميں تشہير کی بجاۓ انھيں فورمز کے طنز ومزاح کے ليے مختص سيکشن ميں جگہ دی جانی چاہيے۔ مگر شايد لچھے دار کہانيوں کی بنياد پر شدت جذبات کا اظہار اور منفی طرزعمل، حقائق کی تحقيق کے بعد دانشمندانہ اظہار راۓ کے مقابلے ميں زيادہ آسان ہے۔
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ جس معلومات کو تروڑ مروڑ کر يہ رپورٹ تيار کی گئ ہے، وہ پيش کردہ غلط تاثر کے برعکس حاليہ دنوں کی نہيں ہے۔ اس پوری خبر کی بنياد جولائ 18 2006 ميں عرب نيوز ويب سائٹ پر شائع ہونے ايک رپورٹ ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں جس سے اس "نۓ انکشاف" کی حقيقت سب پر واضح ہو جاۓ گی۔
http://www.arabnews.com/node/287940
اس کالم ميں يکطرفہ رپورٹنگ اور شہ سرخی کو ايک طرف رکھتے ہوۓ صرف يہ ديکھيں کہ جھوٹ کو گھڑنے کے ليے کس سورس کا حوالہ ديا گيا ہے۔
دستاويز کے مطابق، اکتوبر 30 1951 کو نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے ايک ٹيلی گراف ارسال کيا گيا جس ميں يہ تحرير درج تھی
"کيا لياقت علی خان کا قتل ايک گہری امريکی سازش کا نتيجہ تھا؟" نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے بھيجے گۓ ٹيلی گراف ميں اکتوبر 24 1951 کو بھوپال کے ايک مقامی اخبار "نديم" ميں شائع ہونے والے ايک ايسے کالم کے اہم نقاط کا خلاصہ پيش کيا گيا تھا جس ميں لياقت علی خان کی موت کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار ديا گيا تھا۔
ٹيلی گراف ميں لکھے گۓ خلاصے ميں صرف وہی نقاط شامل تھے جو روزنامہ "نديم" ميں موجود کالم ميں پہلے سے موجود تھے۔
دنيا بھر ميں سفارت خانوں ميں کام کرنے والے ملازمين کے ليے يہ روز کا معمول ہوتا ہے کہ وہ مقامی ميڈيا اور اخبارات ميں پيش کيے جانے والے خيالات، تجزيوں اور خبروں سے اپنی حکومتوں کو باخبر رکھتے ہيں تا کہ مقامی طور پر مقبول عام نظريات اور عوامی سوچ جو دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت پر اثرانداز ہو سکتی ہے، اس سے مکمل آگہی حاصل کی جا سکے۔ يہ پيغامات جو سفارت خانے کے عملے کی جانب سے اپنی حکومتوں کو بھيجے جاتے ہيں، وہ محض مقامی ميڈيا ميں پنپنے والی سوچ کے آئينہ دار ہوتے ہيں۔ يہ سفارت خانے کے عملے کی ذاتی سوچ نہيں ہوتی بلکہ وہ تو خبروں کی رپورٹنگ کر کے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہوتے ہيں۔
اگر آپ واقعی امريکی حکومت کے موقف اور اس سوچ کے بارے ميں جان کاری چاہتے ہيں جو سال 1951 ميں وزيراعظم لياقت علی خان کے قتل کے وقت تھی تو اس کے ليے سی آئ اے کی اکتوبر 22 1951 کی يہ دستاويز پيش ہے جو اس وقت تو خفيہ تھی ليکن اب اسے "ڈی کلاسيفائيڈ" کر ديا گيا ہے۔
http://www.foia.cia.gov/sites/default/files/document_conversions/89801/DOC_0000010596.pdf
صفحہ 2 کے آخری پيراگراف ميں واضح طور پر درج ہے
"اينٹيلی جينس کے ڈائريکٹر، يو ايس اے ايف، کے مطابق قاتل کے محرکات اور اس کی وابستگی کے ضمن ميں مکمل معلومات نا ہونے کے سبب اس قتل کے اثرات کا مکمل تجزيہ ممکن نہيں ہے"۔
اس دستاويز کے صفحہ آٹھ کا آخری پيراگراف بھی توجہ طلب ہے جہاں يہ بات واضح کی گئ ہے کہ امريکی حلقوں ميں لياقت علی خان کو ايک ايسے ليڈر کے حوالے سے ديکھا جاتا تھا جو اپنے نظريات کے حوالے سے مغرب کے ليے مثبت سوچ رکھتے تھے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت ايک ايسے ليڈر کے خلاف کوئ بھی قدم اٹھاۓ گی جو خود ہمارے اپنے اعتراف کے مطابق امريکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کے متمنی تھے؟
چونکہ مختلف فورمز پر تشہير کردہ اس رپورٹ کا لب لباب اور اس کی بنياد خود امريکی حکومت کی ہی ايک دستاويز ہے اور اسی بنياد پر اسے ايک "ناقابل ترديد ثبوت" قرار ديا گيا ہے تو پھر اسی منطق اور پيمانے کے تحت اسی امريکی حکومت اور سی آئ اے کی ہی پيش کردہ دستاويز کو بھی درست تسليم کيا جانا چاہيے جو وزير اعظم لياقت علی خان کے قتل کے حوالے سے ہماری سوچ کو واضح کرتی ہے۔
تاشفين – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu