ملک سکندر نسوآنہ
رکن
- شمولیت
- اپریل 05، 2020
- پیغامات
- 107
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 54
پروفیسر شہاب الدین مدنی بن محمد یونس اثری کشمیری رحمہ اللہ 1958 تا 2015ء
چیئرمین علما ومشائخ و ممبر اسلامی نظریاتی کونسل اور امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث آزاد جموں و کشمیر۔
تعلیم: پرائمری کمیٹی سکول مظفرآباد ، جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ گریجویشن ، ایل ایل بی شریعہ و شھادۃالعالمیہ کی ڈگریاں امتیازی نمبروں سے حاصل کیں۔ پنجاب یونیورسٹی ایم اے عربی اور جامعہ کشمیر سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔
تدریس: گورنمنٹ ڈگری کالج پلندری کشمیر ، جامعہ محمدیہ مظفرآباد کشمیر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مظفر آباد۔
پروفیسر شہاب الدین مدنی یکم جنوری 1958 کو مظفرآباد کے نواحی علاقے گھیناں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مظفرآباد میں حاصل کی بعد ازاں پرائمری کمیٹی سکول مظفرآباد اور پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے مڈل کیا اور تعلیم کے حصول کے لیے عالم اسلام کی مشہور درسگاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ چلے گئے اور وہاں سے آپ نے میٹرک، انٹر میڈیٹ ، گریجویشن ، ایل ایل بی شریعہ و شھادۃالعالمیہ کی ڈگریاں امتیازی نمبروں سے حاصل کیں۔ 1983ء میں وطن واپس آئے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی و جامعہ کشمیر سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ بعد ازاں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ ڈگری کالج پلندری میں لیکچرر تعینات ہو گئے۔ پروفیسر مدنی اپنے والد گرامی مولانا محمد یونس اثریؒ کے کہنے پر 3 سال کے بعد سرکاری نوکری کو خیر آباد کر کے اپنے والد کے ساتھ دینی محاذ پر مصروف ہو گئے اور مساجد و مدارس کی تعمیرات کے ساتھ قدیم علمی و دینی درسگاہ دارلعلوم محمدیہ میں درس و تدریس کا آغاز کر دیا اور پھر مرکز اہل حدیث جامعہ محمدیہ مظفرآباد کی تعمیر کے بعد آپ ادارے کے نائب رئیس کے طور پر انتظامی معاملات میں اپنے والد گرامی مولانا محمد یونس اثریؒ کی معاونت کرتے تھے۔ افغانستان میں روسی فوج کے خلاف افغان عوام کی جدوجہد آزادی میں عملی طور پر شریک رہے اور جمعیت اہل حدیث افغانستان کے سرکردہ افغانی کمانڈر شیخ جمیل الرحمن شہید کو جہاد میں مکمل معاونت کرتے رہے۔ پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ الحاق پاکستان کے داعی تھے اور دھرتی پاکستان سے آپ کو بے پناہ عقیدت تھی۔ تحریک آزادی کشمیر کے آغاز پر جب مولانا محمد یونس اثریؒ نے تحریک المجاہدین جموں و کشمیر کی داغ بیل ڈالی تو پروفیسر مدنی ہی مولانا اثریؒ کے معتمد خاص کے طور پر تحریک المجاہدین کے سارے معاملات کو دیکھتے تھے۔ کشمیری مجاہدین کو ہتھیاروں کی فراہمی ہو یا ان کے قیام و طعام کا بندوبست ہو پروفیسر مدنیؒ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اس کا خاطر خواہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے اس وقت جب مہاجرین کی آمد شروع ہوئی پروفیسر مدنیؒ ان کی میزبانی میں بھی پیش پیش نظر آتے تھے۔ مولانا محمد یونس اثریؒ کی زندگی میں ہی پروفیسر مدنیؒ تحریک المجاہدین کے نگران اعلیٰ اور بعد از وفات مولانا اثریؒ، پروفیسر مدنیؒ تا حیات سرپرست اعلیٰ کے منصب پر فائض رہے اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے مقبوضہ کشمیر اور بیس کیمپ مظفرآباد وعالمی سطح پر بھی انہوں نے بھر پور کردار اداکیا۔ پروفیسر مدنی نے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور کویت سمیت متعدد خلیجی ریاستوں کا متعدد مرتبہ دورہ کیا۔ اس دوران مسئلہ کشمیر وتحریک آزادی کے حوالے سے مختلف کا نفرنسز و سمینارز میں شرکت کی اور کشمیر کاز کو اجا گر کیا۔
کویت میں مسئلہ کشمیر انہوں نے اس وقت منظر عام پر لایا جب کویت اس حوالے سے لاعلم تھا بلکہ یہ کہا جائے کہ کویت میں مسئلہ کشمیر کو متعارف کروانے والے پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ ہی ہیں تو یہ غلط نہ ہو گا۔ 90 کے عشر ے میں آزاد کشمیر میں جو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اس میں انہوں نے آزاد حیثیت سے حصہ لیا اور بھر پور عوامی تائید سے ضلع کونسل کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے ضلع مظفرآباد میں دوسرے نمبر پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کامیاب امیدوار ثابت ہوئے۔ انہوں نے بحیثیت ممبر ضلع کونسل عوامی مفاد کے متعدد منصوبوں پر کام کیا اور اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لیے حکومت سے درجنوں منصوبے لیے۔ پروفیسر مدنیؒ ممبر مرکزی زکوٰۃ کونسل ، ممبر مرکزی علماء و مشائخ کونسل ، ممبر اسلامی نظریاتی کو نسل ، وائس چیئرمین علماء ومشائخ کونسل کے منصب پر بھی فائض رہے۔ آپ کو پاکستان کے حکمرانوں جن میں وزیراعظم شوکت عزیز ، وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین ، وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی ، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، صدر مملکت آصف علی زرداری سمیت متعدد اہم پاکستانی لیڈروں سے متعدد مرتبہ ملنے کا موقع بھی ملا۔ حامد ناصر چٹھہ کی زیر صدارت کشمیر کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کی، وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر خارجہ سطح کی بریفنگز میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملتا رہا۔ 2006 تا 2011ء کے مسلم کانفرنس کے حکومتی دور میں حکمران پارلیمانی پارٹی کے اعزازی ممبر رہے اور اہم حکومتی فیصلوں کا حصہ رہے۔ مسلم کانفرنس پروفیسر مدنی کے تمام مشوروں اور سفارشات کو من و عن تسلیم کرتی تھی۔
پروفیسر مدنیؒ رابطہ عالم اسلامی کے مندوب برائے کشمیر اور سعودی حکومت کی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف یوتھ کشمیر چپٹر کے سرپرست اعلی رہے۔ حکومت سعودیہ عرب کے فلاحی ادارے موسسئۃ الحرمین الخیریہ کے ممبر، اوراحیاء التراث الاسلامی کویت کے ساتھ بھی مدنی رحمہ اللہ کے گہرے روابط تھے۔خلیجی ممالک اور بالخصوص سعودی عرب میں متعدد عالمی سطح کی اہم کانفرنسز میں شرکت کرنے اور وہاں ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ سعودی و کویت حکومت پروفیسر مدنیؒ کی سفارش پر پاکستانی شہریوں کو ویزے جاری کرتی رہی اور ان کے تزکیہ پر سعودی عرب کی یونیورسٹیز میں پاکستانی و کشمیری طلباء کو داخلہ اور سکالر شپ دیا جاتا رہا۔ عالم اسلام کے مشہور عالم دین، مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ پروفیسر مدنیؒ کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے تھے اور آپ کا شمار ان کے انتہائی فرمانبردار اور محنتی شاگردوں میں ہوتا تھا۔ پروفیسر مدنیؒ عرب زبان کے تقریباً سب لہجوں سے واقف تھے اور اس کے ساتھ افریقی زبان کو بھی کسی حد تک سمجھ لیتے تھے۔ مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ و سابق صدر و وزیراعظم سردار محمد عبدالقیوم خان بھی پروفیسر شہاب الدین مدنی کی عربی زبان و گرائمر و لہجہ کے معترف تھے اور آزاد کشمیر میں عربی کے حوالہ سے پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ اور سیکرٹری مذہبی امور آزاد کشمیر سید نظیر الحسن گیلانی پر اعتماد رکھتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں ایک کانفرنس کے دوران حکومت سعودی عرب نے اس قدر عزت و احترام و تکریم کی کہ امام کعبہ الشیخ سعودالشریم اور انہیں روم میٹ رکھا گیا۔ پروفیسر مدنیؒ اکثر ملاقاتوں میں سعید الرحمن صدیقی کو کہا کرتے تھے کہ جب بھی میرا دل بیت اللہ و مسجد نبوی کی زیارت کو کرتا ہے تو اللّٰہ غیبی مدد بھیج کر اس کا اہتمام خودکر دیتا ہے۔ بغیر وسائل کے سعودی حکومت کے مہمان کی حیثیت سے بلاوا آ جاتا تھا۔ 2006ء میں انہیں اس وقت کے سعودی حکمران شاہ عبداللہؒ نے حج پر اپنے مہمان کی حیثیت سے آنے کی دعوت دی لیکن اسی سال آپ کو حکومت آزاد کشمیر نے حج وفد کے سربراہ کی حیثیت سے حجاز مقدس جانے کی استدعا کر دی اور بعد ازاں آپ نے کشمیری حج وفد کی قیادت کی۔
اس حج وفد میں سابق وزیر حکومت حنیف اعوان، موجودہ ممبر آزاد کشمیر اسمبلی و مسلم لیگ ن کے رہنما احمد رضا قادری، ممتاز صحافی سید ابرار حیدر، نوائے وقت کے نمائندہ سلطان سکندر اور سیکرٹری مذہبی امور سید نظیر الحسن گیلانی سمیت متعدد اہم شخصیات شامل تھیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث چونکہ مسلم کانفرنس کی ہمیشہ اتحادی رہی اس لیے اسلامائزیشن کے حوالے سے آج جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے وہ مولانا محمد یونس اثریؒ اور پروفیسر مدنیؒ ہی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ جن میں چیدہ چیدہ کا احوال کچھ اس طرح سے ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کی ممبر اسمبلی کے برابر مراعات حکومت سے منظور کروائیں، محکمہ زکوٰۃ کے قیام سے 2008ء تک اس میں کام کرنے والوں کا کوئی بھی پنشن کی مراعات حاصل نہ تھیں آپ کے کہنے پر وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے محکمہ زکوٰۃ کو پنشن کا حق دیا۔محکمہ قضا و افتاء (قاضی و مفتی صاحبان) کی پروموشن نہیں تھی جو جس گریڈ میں تعینات ہوتے تھے اسی میں ریٹائرڈ ہو جا تے تھے۔ آپ کی محنت اور وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کی خصوصی دلچسپی سے قاضی و مفتی صاحبان کو گریڈز و پروموشن کا حق دلوایا اور انہیں پھر وہ تمام حقوق حاصل ہو گئے جو کہ ججز صاحبات کو دیئے گئے تھے، مسلم کانفرنس حکومت کے اتحادی ہونے کے باعث میرٹ پر تقرریاں، تبادلے اور تعمیر و ترقی کے کام تواتر سے حکومت سے کرواتے رہے، مدنی رحمہ اللہ نے حکومت سے وہ کام بھی کروائے جو ممبران اسمبلی بھی نہ کروا سکے۔ وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان سے آزاد کشمیر کا ٹورازم شارٹسٹ وے اسلام آباد ، مری ، مظفرآباد ، کہوڑی ، گھنیاں ، کوہ مکڑاتا شوگراں سڑک کا منصوبہ منظور کروایا۔ 2000ء میں پروفیسر مدنیؒ مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں و کشمیر کے نائب امیر مقرر ہوئے۔ 2001ء میں قائم مقام امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث کا منصب سنبھالا، آپ اپنے والد محترم مولانا محمد یونس اثریؒ بانی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں وکشمیر کی وفات 21 ستمبر 2004ء تک اس منصب پر فائض رہے۔ 21مئی 2005ء کو آپ کو مرکزی جمعیت اہل حدیث کی مرکزی مجلس شوریٰ و عاملہ نے اتفاق رائے سے امیر منتخب کیا اور تا حیات اس منصب پر فائض رہے۔
8 اکتوبر 2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد جب ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا آپ کو متعدد مرتبہ اندرون و بیرون ملک سے چاہنے والوں نے بالمشافہ اور ٹیلی فون پر مظفرآباد چھوڑ کر وہاں آنے کی بمعہ اہل خانہ دعوت دی۔ مگر آپ نے شکریہ کہہ کر اور ساتھ یہ کہتے ہوئے تمام دعوتوں کو مسترد کر دیا کہ اللّٰہ نے جب زندگی دوبارہ بخشی ہے تو اس کو نیکی میں لانا ہے۔ اور پھر دنیا نے بھی دیکھا اور مظفرآباد ، باغ ، بالاکوٹ کے عوام نے بھی پروفیسر مدنیؒ کو عوام کی خدمت کرتے ہوئے دیکھا۔ 8 اکتوبر کے زلزلے کے بعد آپ نے دُکھی انسانیت کی بھر پور انداز میں مدد کی اور اپنے ادارے جامعہ محمدیہ مظفرآباد جو کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کا مرکزی سنٹر ریلیف کیمپ تھا اس سے متعدد ریسکیو آپریشن کو خود مانیٹر کرتے رہے۔ اس دوران آپ کی اولاد جس میں ہونہار فرزند دانیال شہاب مدنی اور برادر اکبر ، محی الدین اثری ریلیف آپریشن میں سرگرم عمل رہے۔ مظفرآباد نیلم ، باغ اور جہلم ویلی کے عوام کیلئے بھر پور انداز میں کھانے پینے کا سامان ، کمبل ، خشک راشن ، میڈیسن ، ترپال ، خیمے ، شیلٹرز کی تقسیم بلا تخصیص کی اور متعدد تعلیمی اداروں کو اشیائے ضروریہ اور طلباء کے لیے کتب کی فراہمی بھی کی۔ آپ تمام مسالک میں یکساں مقبول تھے۔ اہل تشیع کے امام باڑے مظفرآباد میں بم دھماکہ دہشت گردوں نے 9 محرم الحرام کی شب کیا، اور ایسے میں پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل تشیع سے اظہار ہمدردی کرنے کیلئے سب سے پہلے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے 20 رکنی وفد کے ہمراہ ان کی امام باڑے میں پہنچ گئے۔ انھوں نے اس مشکل وقت میں اتحاد و اتفاق و مذہبی ہم آہنگی کوفروغ دینے کیلئے تمام مکاتب فکر کو دوبارہ راستہ دکھا دیا۔ آزاد کشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے آپ کا اہم کر دار ہے۔
آپ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ آزاد کشمیر کے سینئر نائب صدر کے منصب پربھی فائض رہے جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام و مدارس دینیہ کے مہتمم صاحبان موجود تھے۔ لیبیا کے حکمران وقت کرنل معمر قذافی کے فرزند سیف السلام قذافی آزاد کشمیر پاکستان کے دورہ پر آئے تو پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ کو ان کا ترجمان مقرر کیاگیا۔ آزاد کشمیر میں لیبیا کی حکومت کی جانب سے زلزلہ متاثرین امداد کی بڑی کھیپ تقسیم کی گئی۔ 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد سائوتھ ایشیاء میں امریکی نمائندے ڈیوڈ جے کیڈز آپ سے ملا قات کیلئے مرکز اہل حدیث جامعہ محمدیہ آئے اور مرکزی جمعیت اہل حدیث اور آپ کی خدمات برائے متاثرین زلزلہ کو زبردست سراہا اور امریکی حکومت کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پروفیسر مدنی نے اس وقت امریکی حکومت سے ملنے والی امداد کی پیش کش شکریہ کے ساتھ مسترد کر دی تھی۔ آپ کی خدمات پر اور آپ کے حالات زندگی پر انٹریو کرنے کیلئے مشہور رائٹر جانتھن پاول مرکز اہل حدیث جامعہ محمدیہ مظفرآباد خصوصی طور پر آئے اور پھر مشہور رسالہ انٹرنیشنل ہرلاڈٹریبیون میں آپ کی خدمات و آپ کی زندگی پر تحریر شائع کی گئی۔ سعودی حکومت کی جانب سے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں شیلٹرز پروگرام شروع میں آ پ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر آپ نے شکریہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اتنا بڑا کام سرکاری سطح پر ہی کیا جائے تاکہ اس کے دورس نتائج سامنے ائیں۔ پروفیسر مدنی کی تجویز پر یہ شیلٹرز پروگرام حکومت کے زریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ 21 ستمبر 2004ء کو جب مولانا محمد یونس اثریؒ کی وفات ہوئی اس وقت تک آزاد کشمیر بھر میں اہل حدیث مساجد کی تعداد 228 ہوگئی تھی اور پھر آپ کی قیادت میں ان مساجد میں اضافہ ہوا اور آپ کی وفات تک ان مساجد کی تعداد ریاست بھر میں 422 سے زائد ہو چکی تھی، مظفرآباد میں خصوصاً وہ تمام مساجد جو زلزلہ میں شہید ہو چکی تھی، پروفیسر مدنیؒ کی کوششوں سے تقریباً وہ تمام اہل حدیث مساجد از سر نو تعمیر ہو گئی تھیں اور آزاد کشمیر کے 190سے زائد مقامات پر عیدین کے اجتماعات کا انعقاد بھی ہونا شروع ہوئے۔پروفیسر مدنیؒ رمضان المبارک میں مرکزی جامع مسجد اہل حدیث محمدی مدینہ مارکیٹ میں تراویح کے دوران تلاوت کیے جانے والے سپارے کی تفسیر بیان کرتے اور تکمیل قرآن کے موقع پر آشوب دعا کروانا شہر بھر میں اس قدر مشہور تھا کہ دور دراز سے لوگ اس دعا میں شرکت کے لیے آتے تھے۔
عیدین کی نماز جو کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث گزشتہ 60 سال سے زائد عرصہ سے یونیورسٹی کالج گرائونڈ مظفرآباد میں ادا کر رہی ہے، جہاں پہلے مولانا محمد یونس اثریؒ امامت کرواتے تھے اور بعد ازاں پروفیسر مدنیؒ نماز و خطبہ عید ارشاد فرماتے تھے، اس موقع پر آپ کی دعا کروانا اور پھر اس دعا کا اثر کرنا، اتنا مثالی تھا کہ دل خود بخود نرم ہوتے چلے جاتے تھے اور آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے، بیشتر مرتبہ وہاں پر دیگر مسالک کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو سب کا اک ہی کہنا ہوتا تھا کہ جو سکون مدنی صاحبؒ کی دعا کروانے میں اور اس میں شامل ہونے میں ملتا ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے۔ آپؒ نے آخر وقت تک منبر و محراب کے ساتھ اپنا تعلق رکھا، اپنی وفات سے 5 دن پہلے اپنا آخری عوامی خطاب ، خطبہ جمعتہ المبارک کی صورت میں انہوں نے کیا۔ آپ نے تقریباً 25 سال سے زائد عرصہ مرکز اہل حدیث جامعہ محمدیہ اپر چھتر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، آپ جامعہ محمدیہ کے رئیس بھی تھے اور آخر وقت تک حدیث کے اسباق طلباء کو خود پڑھایا کرتے تھے۔ آپ 25 نومبر 2015ء کو بروز بدھ صبح فجر کے وقت 5:25 پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آ پ کی نماز جنازہ یونیورسٹی کالج گرائونڈ میں ممتاز عالم دین و نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں و کشمیر مولانا محمد صدیق صدیقی بالاکوٹی کی اقتداء میں ادا کی گئی۔
آپ کے جنازہ کا شمار ریاست کے بڑے جنازوں میں ہوتا ہے، آپ کی نمازہ جنازہ میں ہر شعبہ زندگی و ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ آپ کی نمازہ جنازہ کی ادائیگی کے موقع پر یونیورسٹی کالج گرائونڈ میں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ آپ کو آنسوئوں و دعائوں میں اپر چھتر مظفرآباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد تعزیت کا طویل سلسلہ جاری رہا، صدر ممنون حسین ، وزیراعظم نواز شریف ، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے علاوہ بہت سی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا۔ جس میں آزاد کشمیر ، پاکستان اور بیرون ممالک سے اہم شخصیات نے مدنی ہائوس میں آ کر آپ کے فرزند دانیال شہاب مدنی سے تعزیت کی۔ آپ نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں، بڑے فرزند دانیال شہاب مدنی ہیں جو مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ ونائب رئیس الجامعۃ المحمدیہ مظفر آباد کے منصب پر فائض ہیں آ پ کے فرزند نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے اور بزنس ایڈمنسٹریشن و اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگریز حاصل کر رکھی ہیں۔ حافظ اسامہ شہاب کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز کر چکے ہیں اور سب سے چھوٹے بیٹے خبیب شہاب میرپور انجینئرنگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں وکشمیر کی قیادت عملی طور پر اس وقت بھی پروفیسر مدنیؒ کے گھرانے کے ہاتھوں میں ہے اور اشاعت دین کے حوالے سے پروفیسر مدنی کے ہونہار اور باصلاحیت فرزند دانیال شہاب مدنی ایک نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ آج بھی میدان عمل میں موجود ہیں۔ دانیال شہاب مدنی بہترین قائدانہ صلاحیت کے ساتھ جدید اسلوب کے تحت جماعت کو چلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ دانیال شہاب مدنی کی صورت میں آزد کشمیر میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کا مستقبل توانا اور روشن نظر آ رہا ہے۔
پروفیسر مدنیؒ کی شخصیت کے بہت سے خوبصورت پہلو تھے جن سب پر اگر لکھا جائے تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں حلیم طبع ، سخاوت ، امانت داری اور عجز وانکساری پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں۔