ملک سکندر نسوآنہ
رکن
- شمولیت
- اپریل 05، 2020
- پیغامات
- 107
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 54
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن حفظہ اللہ
ذہین .. فطین .. فہیم .. فریس .. زیرک .. ذی خرد .. بیدارمغز .. پرعزم .. ہونہار .. عالی خیال .. بلند طالع اور گوناگوں صلاحیتوں کا مالک! جس نے تعلیمی اعتبار سے ایک پسماندہ گاؤں میں ناخواندہ کاشتکار کے گھر جنم لیا۔جس کو تعلیم کے لیے سکول و مسجد میں داخل کرایا گیا تو اپنی قابلیت ولیاقت کی بدولت بہت سے اعزازات اپنے نام کیے۔ جس نے اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے لیے مدارس سے فراغت کے بعد کالجز ، یونیورسٹیز کا رخ کیا اور متعدد ڈگریاں حاصل کیں۔ جس نے تحقیق اور تبلیغ کے لیے پنجابی، اردو، عربی اور انگلش زبان پر دسترس حاصل کی۔ جس نے اشاعت اسلام کاعزم کیا تو تدریسی ، تبلیغی اور تصنیفی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جس کے انداز خطابت کو سراہتے ہوئے مختلف اوقات میں جماعت کی نامور مساجد کی خطابت اس کے سپرد کر دی گئی۔ جس نے طالبان علوم قرآن و حدیث کی ایک کثیر تعداد کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کیا۔ جس نے اپنی خداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی بیش بہا کتب تصنیف اور بڑی بڑی ضخیم کتب کے تراجم کیے۔ آئیے! اس عظیم المرتبت شخصیت کے حالات و واقعات سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ہیں ہماری تعارف علماء کی اس بزم میں آج کے مہمان مصنف ، مولف ، مدرس ، مبلغ ، ڈاکٹر پروفیسر حافظ محمدشہباز حسن حفظہ اللہ
آپ کی ولادت یکم مارچ 1973ء کو چانگووالی تحصیل شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی ک انام غلام حسن ہے۔ 1935ء کو ہندوستان کے ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے شکرگڑھ (نارووال) قیام پذیر ہوگیے۔ حافظ صاحب کا آٹھ بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر ہے۔ سات سال کے ہوئے تو والد محترم نے گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل کرادیا۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول کنجروڈ سے 1990ء کو فرسٹ ڈوثزن میں سائنس مضامین کے ساتھ میٹرک کیا۔ 1994ء میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج میترانوالی (ڈسکہ، سیالکوٹ) سے انٹرمیڈیٹ ، 1996ء میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے گریجویٹ ، 2000 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات ، 2002 میں ایم فل عربی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور 2009 میں پی ایچ ڈی (علوم اسلامیہ ، عربی لغت سے استدلال ، اردو تفسیر ادب کے رجحانات)کی ڈگری حاصل کی۔
دینی تعلیم کے حصول میں بھی آپ نے محنت ، لگن اور جذبہ کا مظاہرہ کیا۔ سیالکوٹ میں کالج کے دوران طالب علمی میں مدرسہ دارلسلام میترانوالی سے قرآن پاک حفظ کر لیا۔ آپ اس جامعہ کے پہلے حافظ ہیں۔ حفظ کی تکمیل پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں شیخ القرآن حضرت مولانا محمدحسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کیا گیا اور ان کے دست مبارک سے آپ کو انعامات سے نوازا گیا۔ درس نظامی کی ابتدائی کتب مدرسہ دارالحدیث بمبانوالہ سیالکوٹ سے پڑھیں۔ جامعہ سلفیہ اسلام آباد سے 997 1ء میں سند فراغت حاصل کی۔ اسی اثنا میں اسلام آباد میں مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ سے الدورۃ التدریبیۃ بھی کیا۔ آپ نے صحیح بخاری شریف دو بار پڑھی۔ پہلے مدرسہ دارالحدیث بمبانوالہ میں شیخ الحدیث مولانا ابراہیم عابد کنگن پوری سے اور دوسری مرتبہ جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں شیخ الحدیث مولانا محمد بن عبداللہ شجاع آبادی سے۔ آپ نے دیگر اساتذہ میں حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ ، قاری ابراہیم ، ڈاکٹر صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا ثناء اللہ شاہد ، مولانا ظفراقبال ، حافظ عبدالمجید رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمداشرف ، مولانا ابراہیم خلیل الفضلی ، مولانا یوسف یعقوب سے کسب فیض کیا۔
جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد آپ کی قابلیت و صلاحیت کے اعتراف میں رئیس الجامعہ سید حبیب الرحمان(متوفی19 اپریل 2000) نے آپ کو مسند تدریس پر فائز کردیا۔جامعہ سلفیہ میں تدریس کا یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ جنوری 2002ء سے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ میں تقریبا پچیس سکالرز کو حدیث کا مضمون پڑھا چکے ہیں۔ ان میں سے چار سکالرز کے پی ایچ ڈی مقالات کی نگرانی بھی کررہے ہیں۔ جن طلباء نے آپ سے استفادہ کیا اور مختلف شعبوں میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں سے حافظ خالد الرحمان (مدیر مجلۃ الجامعۃ السلفیہ)، حافظ عطاء الرحمان (مدرس جامعہ سلفیہ)، حافظ ندیم ظہیر (الشیخ زبیر علی زئی کی مسند کے وارث) نمایاں ہیں۔
آپ کی تبلیغی خدمات پر نظر دوڑائی جائے تو آپ نے تین دہائیاں لوگوں کی فکری اور ذہنی اصلاح میں بسر کردیے۔ آپ نے پہلا خطبہ 1990ء کو اپنے آبائی گاؤں میں دیاتھا۔ کچھ عرصہ نڈھالہ سلہریاں (شکرگڑھ) کی اس جامع مسجد میں جمعۃ پڑھاتے رہے جس کو مولانا محمدرفیق پسروری رحمۃ اللہ علیہ نے تعمیر کرایا تھا۔ 1995 تا 1996ء جامع مسجد غوثیہ گوجرہ میں خطابت کی۔ اس وقت مخصوص پنجابی انداز خطابت کی بنا پر لوگ آپ کو مولانا محمدحسین شیخوپوری کہا کرتے تھے۔ 1997ء میں جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد آپ کو جامع مسجد سیدنا علی المرتضی آئی ایٹ ون۔ اسلام آباد میں خطیب مقرر کردیاگیا۔ 2002ء کے آغاز میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں سرکاری ملازمت کے لیے لاہور تشریف لائے تو جامع مسجد اسحاق گھوڑے شاہ لاہور میں خطابت شروع کردی۔ یادرہے کچھ عرصہ اس مسجد میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند حافظ ہشام الٰہی ظہیر بھی خطابت کرتے رہے۔ 2005ء میں جامع مسجد توحید داروغہ والا لاہور کی مسند خطابت کو مستقل طور پر سنبھال لیا جو تادم تحریر جاری ہے۔ آپ کے مواعظ کو سماعت کرنے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد اس مسجد کارخ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسجد میں آپ کے بطور خطیب آنے کے بعد دوبار اس کی توسیع کی جاچکی ہے۔
تصنیفی اور تالیفی میدان میں بھی آپ نے قابل رشک کام کیا ہے۔ اب تک تیس کتب تحریر کر چکے ہیں۔ ان میں چند کے نام یہ ہیں: فتاویٰ افکارِ اسلامی(صفحات:۸۴۶)، تفسیر معارف البیان؛تفسیرسورۃ الفاتحۃ و البقرۃ(ص:256)، دین اسلام،ایک ہی نظر میں (ص:688)، کبیرہ گناہ اور ان کی پہچان کے اصول(ص:464)، ایمان کی شاخیں (ص:208)، مظلوم صحابیات رضی اللہ عنھن۔ ظلم کی نوعیت(HEC سے منظورشدہ)، التاثیر الاسلامی فی شعر حالی الاردی و یلیہ رسائل حالی العربیۃ۔عربی (HEC سے منظورشدہ)، نبی کریم ﷺ کی نسبتی بہنیں اور ان کے شوہر (HEC سے منظورشدہ)، شوقِ عمل(ص:200)، لغت عرب کے ابتدائی قواعد اور جدید عربی بول چال(عربی، اردو، انگریزی)، قرآنی اور محقق مسنون اذکار و دعائیں (ص:264)، قرآنی اور مسنون اذکار و دعائیں (انگریزی)، اسلام کا تجارتی ضابطہ اخلاق، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مشترک اوصاف اور مشترک انعامات اور درود وسلام کی برسات وغیرہ۔اس کے علاوہ تقریباً چودہ عربی کتب کا اردو ترجمہ کیا ہے؛ طریق الھجرتین و باب السعادتین ازابن قیم الجوزیہ، دلائل النبوہ از ڈاکٹر منقذ، قاموس البدع، الوضوء و الغسل و الصلاۃ لعثیمین، الدعاء و یلیہ العلاج بالرقی من الکتاب و السنۃ از ابن وھف قحطانی، النار حالھا و احوال اھلھا از ابوسالم النذیر، احوال النساء فی الجنۃ از محمد بن صالح الخرشی، الافتراق۔اسبابھا و علاجھا، الدنیا ظل زائل، عادات الامام البخاری فی صحیحہ از عبدالحق الھاشمی، عقیدۃ الفرقۃ الناجیۃ از عبدالحق الھاشمی، الشرح المیسرللعقیدۃ الطحاویۃ ازڈاکٹر محمدبن عبدالرحمن الخمیس، زبدۃ التفسیرمن تفسیر فتح القدیر للشوکانی(تفسیر سورۃ الفاتحۃ، البقرۃ اور اٰل عمرٰن چھپ چکی ہے۔)، الصحیفۃ الصحیحۃ(ترجمہ و شرح مجلہ دعوۃ التوحید اسلام آباد (جسکے آپ نائب مدیر بھی ہیں۔) میں قسط وار شائع ہو رہی ہے۔)
تقریباً ستائیس کتب اور ان کے تراجم پر آپ نے نظر ثانی بھی کی ہے، ان میں چند یہ ہیں:
اردو ترجمہ قرآن مجید (تمام مکاتب فکر کا متفق علیہ ترجمہ جو عنقریب طور اسلامک سنٹر پاک پتن کی طرف سے شائع ہو گا۔ ان شاء اللہ)، ترجمہ و شرح صحیح ابن خزیمہ (انصارالسنۃ)، جدید ترجمہ مشکوٰۃ المصابیح، المسند فی عذاب القبر، نبی کریم ﷺ کے خواب، حکمتیں اور ان سے ماخوذ احکام و مسائل، تفسیر النساء، خلافتِ بنو امیہ از ڈاکٹر صلابی، حدیث اور خدام حدیث، ڈاکٹر حافظ عبدالرشیداظہر رحمہ اللہ کے محاضرات، حافظ جلال الدین القاسمی (انڈیا) کی چھ مختصر کتب اور مولانا عبداللہ ناصر رحمانی کی تحریر مقدس ہستیوں کے لیے لفظ عشق کے استعمال کی شرعی حیثیت، اسلامی عقائد: دومسلمانوں کا مکالمہ وغیرہ۔
اپنی زندگی کے لیل ونہار خدمت اسلام کے لیے وقف کردینے والے اس باہمت انسان نے دعوتی و تبلیغی میدان میں بڑے حوصلے، برداشت اور ایثار کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ ایسی باکمال صفات سے متصف شخصیات کی فہرست بنانے نکلیں تو آپ کو تلاش بسیار کے باوجودنہیں ملیں گے۔ 1996ء کو جامع مسجد غوثیہ میں بطور خطیب ذمہ داریا ں انجام دے رہے تھے۔ ایک دن دواوباش نوجوان آپ کے حجرے میں آئے اور کچھ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔ آپ بیٹھے تھے وہ کھڑے تھے۔ بات بڑھی تو ان میں سے ایک نے آپ کو زور سے لات دے ماری۔ اس پر آپ نے صبر و درگزر کا مظاہرہ کیا۔ اگلے ہی دن وہ لڑکا گوجرہ کے ایک مزار پر گیا۔ جہاں ایک ملنگ بھنگ پی رہا تھا اسکے ساتھ بھی تکرار کیا۔ ملنگ نے ٹوکا اس کی ٹانگ پر ماردیا جس سے اس کی ٹانگ زخمی ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد گوجرہ گاؤں میں مشہور ہوگیا کہ گزشتہ روز اس نے مسجد میں حافظ صاحب کو لات ماری تھی اس وجہ سے اس ٹانگ کٹ گئی ہے۔
موصوف انتہائی بلند اخلاق اور تقویٰ شعار انسان ہیں۔ وہ اپنی ان ساری کامیابیوں اور کامرانیوں کو قرآن اور دینی تعلیم کا ثمرہ قرا ردیتے ہیں۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ آپ کو صحت وتندرستی کے ساتھ لمبی زندگی سے ہمکنارکرے تاکہ ان کی قابلیت سے قوم وملت کو ہمیشہ ہمیشہ فائدہ پہنچتارہے۔
{ تحریر: صہیب یعقوب= بسلسلہ تعارف علماء }