• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری : ایک تجزیاتی مطالعہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پروفیسر محمد طاہر القادری

پیدائش اور تعلیم
'محمد طاہر القادری' ١٩ فروری ١٩٥١ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کا کسی مکتبہ فکر سے تعلق نہیں ہے لیکن اپنی تقریر وتحریر میں بریلوی مسلک کی صریح حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے والد محترم کا نام پروفیسر فرید الدین قادری ہے اور وہ 'سیال' خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ١٩٧٥ء میں ٢٤ سال کی عمر میں پروفیسر صاحب کی پہلی شادی ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے دو مزید شادیاں کی۔ ان کی پہلی شادی جھنگ، دوسری ناروے اور تیسری کراچی سے ہے۔

ان کے بڑے صاحبزادہ کا نام حسن محی الدین قادری ہے جو تحریک منہاج القرآن کی مجلس شوری کے صدر ہیں اور انہوں نے منہاج یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ اورعربیہ میں ایم۔اے کیاہے اور آج کل مصر سے میثاق مدینہ کے موضوع پر پی۔ایچ۔ڈی کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔بی بھی کیا ہے۔ چھوٹے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے فرانس میں سائنس ٹو یونیورسٹی ،پیرس سے ایم۔بی۔اے کیا ہے اور آج کل آسٹریلیا یونیورسٹی سے گلوبل اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

پروفیسر صاحب نے ١٩٦٦ء میں میڑک کا امتحان اور ١٩٦٩ء میں ایف ۔ایس۔سی کا امتحان پاس کیا۔١٩٧٠ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے کا امتحان پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر پاس کیا۔١٩٧٣ء میں پنجاب یونیورسٹی ہی سے علوم اسلامیہ میں ایم ۔اے کیا۔ علاوہ ازیں ان کے بقول انہوں نے جامعہ قطبیہ رضویہ، جھنگ سے ١٩٦٣ء تا ١٩٧٠ء کے دوران درس نظامی کی بھی تکمیل کی۔ ١٩٧٥ء میں ایل۔ایل۔بی کا امتحان پاس کیا۔ ١٩٨٦ء میں انہیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے اسلامی سزاؤں میں قانون کی ڈگری دی گئی۔موضوع کا عنوان ''Punishment in Islam, Their Classification and Philosophy'' تھا۔

پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے تعلیمی کیریئر میں ہمیں ایل۔ایل۔ایم کی کسی ڈگری کا تذکرہ نہیں ملا۔ ایل۔ایل۔بی کے بعد براہ راست پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کا تذکرہ ملتا ہے۔ غالباً ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری شعبہ اسلامیات کے تحت جاری ہوئی ہے لہذا یہ علوم اسلامیہ میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ہے لیکن موضوع کی مناسبت سے اسے اسلامک لاء میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری قرار دیا گیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں فیکلٹی آف لاء کے تحت ١٩٨٦ء میں پی۔ایچ۔ڈی کی کی پہلی دفعہ رجسٹریشن ہوئی اور پروفیسر طاہرالقادری صاحب ١٩٨٦ء میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے تھے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کے لاء کالج میں اسلامک لاء یعنی فقہ اسلامی پڑھانے کے سبب سے ان کی علوم اسلامیہ کی پی۔ایچ۔ڈی کے بارے یہ گمان عام ہو گیا کہ شاید وہ فیکلٹی آف لاء کے پی۔ایچ۔ڈی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ علوم اسلامیہ میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں۔ ادارہ منہاج القرآن اور پروفیسر صاحب کی طرف سے اپنے تعارف میں کہیں بھی یہ واضح نہیں کیا جاتا ہے کہ ان کی یہ پی۔ایچ۔ڈی کس شعبہ سے ہے؟ واللہ اعلم اس کو چھپانے میں کیا حکمت ہے؟ اگر تو اس سے یہ تاثر عام کرنا مقصود ہے کہ پروفیسر صاحب لاء میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں تو یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مذہبی اور سیاسی کیریئر
پروفیسر محمد طاہر القادری صاحب نے ١٩٧٤ء میں گورنمنٹ کالج، عیسی خیل، میانوالی میں علومہ اسلامیہ کے لیکچرر کے طور پر اپنی سروس کا آغاز کیا۔ ١٩٧٥ء میں اس عہدہ سے استعفی دے دیا۔ ١٩٧٦ء میں بطور ایڈوکیٹ کے جھنگ ڈسٹرکٹ کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ ١٩٧٦ء میں 'جھنگ محاذ حریت' کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم بنائی۔

١٩٧٨ء میں جھنگ سے لاہور منتقل ہوئے اور اسی سال پنجاب یونیورسٹی میں لاء کالج میں اسلاک لاء یعنی فقہ اسلامی کے لیکچرار مقرر ہوئے اور ١٩٨٣ء تک بطور لیکچرار ملازمت کی۔اسی سال انہیں حکومت پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کا مشیر فقہ نامزد کیا۔

١٩٨١ء میں 'قرآن کانفرنس' کے ذریعے 'منہاج القرآن' کے قیام کی دعوت شروع کی۔ ١٩٨٢ء میں حکومت پاکستان نے انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 'شریعت ایپلٹ بنچ' کا مشیر مقرر کیا۔ ١٩٨٢ء میں ایران کا دورہ کیا اور آیت اللہ خمینی وغیرہ سے ملاقاتیں کیں۔ ١٩٨٢ء میں میاں نواز شریف صاحب کی جامع مسجد اتفاق کالونی، ماڈل ٹاؤن، لاہور میں خطابت شروع کی اور میاں فیملی سے ان کے یہ تعلقات اوائل ٨٨ء تک جاری رہے اور اس کے بعد ان میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔

١٩٨٣ء میں پی۔ٹی۔وی پر فہم القرآن کے خطبات کا آغاز کیا۔ اسی سال ایم بلاک، ماڈل ٹاؤن میں ٢٠ کنال کی زمین ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور مسجد کے لیے خریدی گئی۔ ١٩٨٤ء میں ادارہ منہاج القرآن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اسی سال ان کے بقول انہیں ادارہ منہاج القرآن کے قیام کے حوالہ سے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کچھ بشارتیں بھی حاصل ہوئیں۔ ١٩٨٦ء میں منہاج القرآن یونیورسٹی کے قیام کے لیے ٹاؤن شب میں ٢٠٠ کنال زمین حاصل کی گئی اور ١٩٨٧ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ ١٩٨٦ء میں ادارہ منہاج القرآن کا دستور منظور ہوا، مرکزی مجلس شوری اور مجلس عاملہ کا انتخاب ہوا۔ ماڈل ٹاؤن اور ٹاؤن شپ کی زمین کے بارے بعض حلقوں کی طرف یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نواز فیملی کی نوازشات تھیں۔ واللہ اعلم بالصواب

١٩٨٩ء میں 'پاکستان عوامی تحریک' کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور اس کے تحت ١٩٩٠ء کے عوامی انتخابات میں حصہ لیا۔ ١٩٩٠ء میں ان کی رہائش گاہ پر قاتلانہ حملہ ہو اور اسی سال عدالت نے اس واقعہ کو غیر حقیقی اور ڈرامہ قرار دیا اور پروفیسر طاہر القادری صاحب کو غیر صحت مند ذہن کا حامل بتلایا۔

١٩٩٥ء میں انہوں نے عوامی تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا۔ منہاج انسائیکلوپیڈیا ویب سائیٹ کے مطابق اس تعلیمی منصوبے کے تحت ١٢ کالجز اور ٥٧٢ سکولز کام کر رہے ہیں۔ ١٩٩٨ء میں 'پاکستان عوامی اتحاد' کے صدر بنے جس میں پیپلز پارٹی سمیت ١٩ سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ٢٠٠٣ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ منہاج القرآن کا وزٹ کیا اور اس کی تاحیات رکنیت حاصل کی۔ اس رکنیت کی ویڈیو میں ایسے مناظر دکھائے گئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں مثلاً پروفیسر صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک مجلس میں ساتھ تشریف فرما اور محو گفتگو ہیں جبکہ محترمہ کے سر پر نہ تو دوپٹا ہے اور نہ ہی کھلے گریبان پر کوئی کپڑا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کتب و رسائل
پروفیسر طاہر القادری صاحب کی طرف تقریباً ٤٠٦ کتب اور کتابچوں کی نسبت کی جاتی ہے جن میں سے ١٩ عربی میں اور ٣٩ انگریزی میں اور بقیہ اردو زبان میں ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کی معروف کتابوں میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ترجمہ عرفان القرآن، المنہاج السوی من الحدیث النبوی، اسلام اور جدید سائنس، دہشت گردی اور فتنہ خوارج، شان اولیاء، تخلیقات کائنات، الفیوضات المحمدیة، فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم، القول المعتبر فی الامام المنتظر، العرفان فی فضائل وآداب القرآن، احسن الصناعة فی اثبات الشفاعة، زیارت قبور، السیف الجلی علی منکر ولایة علی، برکات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلام میں خواتین کے حقوق، شہر مدینہ اور زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ذبح عظیم، ارکان اسلام، گستاخان رسول کی علامات، شہادت امام حسین حقائق وواقعات، شمائل مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت، عقائد میں احتیاط کے تقاضے، درود شریف کے فضائل وبرکات، مناجات امام زین العابدین، تبرک کی شرعی حیثیت، اسیران جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول، مرج البحرین فی مناقب الحسنین علیہما السلام، اہل بیت اطہار سلام اللہ علیہم کے فضائل ومناقب، حیاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، کتاب التوسل،میثاق مدینہ کا آئینی تجزیہ، بدعت ائمہ و محدثین کی نظر میں، معارف آیة الکرسی، عقیدہ توحید اور غیر اللہ کا تصور، القول الوثیق فی مناقب الصدیق، القول الصواب فی مناقب عمر بن الخطاب، روض الجنان فی مناقب عثمان بن عفان، کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب، تذکرہ فرید ملت، بدعت کا صحیح تصور، خوابوں اور بشارات پر اعتراضات کا علمی محاکمہ، حقوق والدین، رب العالمین کی علمی اور سائنسی تحقیق، امام ابو حنفیہ امام الائمہ فی الحدیث، خصائص مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اسمائے مصطفی، اسلام کا تصور علم، وسائط شرعیہ،عقیدہ ختم نبوت، عقیدہ توحید کے سات ارکان، النجابة فی مناقب الصحابة والقرابة، العقد الثمین فی مناقب امھات المؤمنین، اسلام میں بچوں کے حقوق، فلسفہ صوم، سیرة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایصال ثواب اور اس کی شرعی حیثیت، اسلام میں اقلیتوں کے حقوق، فساد قلب اور اس کا علاج، حیات ونزول مسیح اور ولادت امام مہد ی علیہما السلام وغیرہ۔

علاوہ ازیں ماہنامہ 'منہاج القرآن' اور 'دختران اسلام' کے نام سے مردو زن کے لیے دو دعوتی وتحریکی رسائل بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ ان کی اکثر وبیشتر کتب اس http://www.minhajbooks.com ویب سائیٹ پر ڈاؤن لوڈ کرنے اور آن لائن مطالعہ کی سہولت کے ساتھ پی۔ڈی۔ایف اور یونی کوڈ فارمیٹ میں موجود ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کتب ورسائل پر ایک اجمالی تبصرہ
بعض لوگوں کو اس پر حیرت ہوتی ہے کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اس قدر تنظیمی، انتظامی، تحریکی اور دعوتی مصروفیات کے باوجود اتنی کتابیں کیسے لکھ لی ہیں؟ ہمارے خیال میں جس نے بھی پروفیسر صاحب کی کتب کا بغور مطالعہ کیا ہو اس کے لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ

اکثر وبیشتر یہ کتب کی بجائے کتابچے ہیں مثلاً 'قرآن اور فلسفہ تبلیغ' ٢٠ صفحات اور 'مذہبی اور غیر مذہبی علوم کے اصلاح طلب پہلو' ٢٤ صفحات اور ' تحریک منہاج القرآن کا تصور دین' ٢٨ صفحات اور ' خدمت دین کی توفیق' ٣٢ صفحات اور 'سیرت نبوی کی عصری وبین الاقوامی اہمیت' ٣٢ صفحات اور 'اقبال اور پیغام عشق رسول' ٣٩ صفحات اور 'ہمارا اصل وطن' ٤٨ صفحات اور 'اقبال کا مرد مومن' ٤٨ صفحات اور 'فلسفہ تسمیہ ' ٤٤ صفحات اور 'معارف اسم اللہ ' ٤٢ صفحات اور 'عمر رسید ہ اور معذور افراد کے حقوق' ٤٨ صفحات پر مشتمل ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کتابچے بھی دراصل پروفیسر صاحب کی تقاریر کو صفحات قرطاس پر منتقل کیا گیا ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ہاں١٩٨٧ء میں ہی 'منہاج القرآن رائٹرز پینل' کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جو اب 'فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' کے نام سے معروف ہے جس کے ریسرچ اسکالرز پروفیسر صاحب کی تقاریر کی صفحہ قرطاس پر منتقلی، ان کی کمپوزنگ، تقدیم وترتیب،تخریج وتحقیق اور نشر واشاعت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔

تیسری اہم بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر صاحب کی شائع شدہ کتب میں تکرار بہت ہے یعنی بعض اوقات یوں بھی دیکھنے میں آیا ہے کی ایک کتاب کے پورے پورے ابواب دوسری کتاب میں بھی موجود ہیں اور دو کتابوں کے ایک ہی جیسے مضامین اور مواد دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ایک کتاب مستقل ہے اور دوسری کتاب اس پہلی کتاب سے ہی تیار کی گئی ہے مثلاً پروفیسر صاحب نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب لکھی اور ایک جلد میں 'مقدمہ سیرة الرسول' کے نام سے اس کتاب کا مقدمہ لکھا۔ بعد ازاں اس کتاب کے متفرق ابواب کو مختلف کتابچوں مثلاً 'سیرت رسول کی دینی اہمیت' اور 'سیرت رسول کی علمی وسائنسی اہمیت' اور 'سیرت رسول کی انتظامی اہمیت' اور 'سیرت رسول کی ریاستی اہمیت' وغیرہ کے عناوین سے شائع کر دیا گیا۔ اسی طرح پروفیسر صاحب نے 'کتاب البدعة' کے نام سے ایک کتاب لکھی اور بعد ازاں اس کتاب کے دسویں باب کو ایک مستقل کتابچہ 'البدعة عند الأئمہ والمحدثین' کے نا م سے شائع کر دیا گیا۔ اسی طرح اگر ہم 'اسلام اور جدید سائنس' اور 'تخلیق کائنات' اور 'رب العالمین کی علمی وسائنسی تحقیق'کا تقابلی مطالعہ کریں تو ان تینوں کتب کے مواد کا ایک بڑا حصہ ایک ہی جیسا ہے۔ اسی طرح معاشیات پر اگر پروفیسر صاحب کی کتاب 'اسلام کا معاشی نظام' اور 'اقتصادیات اسلام' کا مطالعہ کریں تو ان کے مواد کا ایک بڑا حصہ بھی ایک ہی جیسا ہے۔ علاوہ ازیں 'فلسفہ تسمیہ' اور 'تسمیة القرآن' کے مواد کا ایک بڑا حصہ ایک جیسا ہی ہے۔

پروفیسر صاحب 'تفسیر منہاج القرآن' کے نام سے اب ایک تفسیر مرتب کر رہے ہیں اور اس کی پہلی جلد سورة فاتحہ کی پہلی چار آیات پر مشتمل ہے اور تقریباً٨٠٠ صفحات میں ہے۔ شاید اس تفسیر میں پروفیسر صاحب اپنی تمام کتابوں کو جمع کرنے کا ارادہ کرتے ہیں کیونکہ اس تفسیر کی پہلی جلد میں ہی انہوں نے اپنے کئی ایک کتابچوں مثلاً'فلسفہ تسمیہ'اور 'رب العالمین کی علمی وسائنسی تحقیق' اور 'معارف اسم اللہ' اور 'تخلیق کائنات' اور 'تسمیة القرآن' وغیرہ کو جمع کر دیا ہے۔

چوتھی بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر صاحب کی کتب میں موضوع سے غیر متعلق اور غیر معیاری مواد کا ایک بڑا حصہ موجود ہوتا ہے مثلاً 'سیرة الرسول کی علمی وسائنسی اہمیت' نامی کتابچے میں دو ابواب میں سے ایک باب کا عنوان 'قرآن حکیم اور علمی وسائنسی ترقی' ہے۔ پاکستان میں خود کش حملوں کے بارے ان کی کتاب 'دہشت گردی اور فتنہ خوارج' کے ٩ ابواب میں سے ٣ ابواب غیر مسلم اور کفارکے حقوق اور جان ومال کے تحفظ کے بیان میں ہیں جبکہ پاکستان میں غیر مسلم نہ ہونے کے برابر ہیں اور اصل مسئلہ مسلمان شہریوں کے حقوق اور جان ومال کے تحفظ کا ہے۔

جہاں تک پروفیسر صاحب کی ضخیم کتب کی تیاری کا معاملہ ہے تو اس بارے ایک واقعہ نقل کیے دیتا ہوں۔ کئی سال پہلے مولانا لقمان سلفی صاحب، انڈیا سے پاکستان میں 'مجلس التحقیق الاسلامی' لاہور میں تشریف لائے۔ وہ انڈیا میں غالباً مکتبہ ابن تیمیہ کے نام سے لائبریری بنانا چاہتے تھے لہذا انہوں نے ادارہ کے بعض نوجوان ساتھیوں سے منہاج القرآن لائبریری کا وزٹ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہاں انہوں نے لائبریری کے ساتھ ان کے ریسرچ سنٹر کا بھی وزٹ کیا جس میں اس وقت تقریباً ٤٠ ریسرچ اسکالرز اور متعلقہ معاونین موجود تھے۔ مولانا لقمان سلفی صاحب نے جب ان حضرات سے ان کے کام کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب ہمیں خطة البحث (synopsis) دیتے ہیں اور اس کے مطابق ہم ایک مکمل کتاب تیار کر دیتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کتب ورسائل کا علمی معیار
جہاں تک پروفیسر طاہر القادری صاحب کی کتب کے علمی معیار کی بات ہے تو راقم کو ان پر دو اشکالات ہیں۔ ایک یہ کہ جن کتب کا موضوع مذہبی اور دینی افکار ہیں تو ان میں ضعیف وموضوع روایات کی بھرمار ہے۔ پروفیسر صاحب ایک موضوع پر کلام کرتے وقت صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع سب روایات جمع کر دیتے ہیں جس اس کی جو مکمل تصویر سامنے آتی ہے اس میں رطب ویابس سب جمع ہوتا ہے مثلاً پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب'الدرة البیضاء فی مناقب فاطمة الزھراء' میں یہ روایت بیان کی ہے:

'' إنما سمیت بنتی فاطمة لأن اللہ فطمھا وفطم محبیھا عن النار۔''
'' میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے۔''
امام ابن جوزی ،امام ذہبی، ابن عراق الکنانی اور امام شوکانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں مناقب و فضائل سے متعلق ایسی مبالغہ آمیز موضوع روایات اسلامی معاشروں میں بے عملی کو فروغ دینے کا بہت بڑا سبب ہیں کہ جن کے مطابق بعض شخصیات سے صرف محبت کرنا ہی اخروی نجات کے لیے کافی ہے اور دینی کے کسی تقاضے یا فریضے پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اسی طرح پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'وسائط شرعیہ' میں یہ روایت نقل کی ہے:
'' لولاک لما خلقت الأفلاک''۔
'' اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔''
امام صنعانی، ملاعلی القاری، علامہ عجلونی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اسے موضوع قراردیا ہے۔

اسی طرح پروفیسر صاحب نے بریلوی مکتب فکر کے عقائد ونظریات کے حق ہونے پر اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
'' علیکم بالسواد الأعظم۔''
'' تم پر لازم ہے کہ تم سواد اعظم کو پکڑو۔''
امام ابن حزم، امام عراقی، ابن عبد الہادی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اسی طرح پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'زیارت رسول' میں یہ روایت نقل کی ہے:
'' من زار قبری وجبت لہ شفاعتی۔''
'' جس نے میری قبر کی زیارت کی تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہ جاتی ہے۔''
امام نووی، ابن القطان، دمیاطی،امام ابن تیمیہ،ابن عبد الہادی،امام ذہبی، ابن حجر عسقلانی، امام سیوطی،محمد بن محمد الغزی اور الوداعی رحمہم اللہ نے اسے ضعیف یا منکر قرار دیا ہے جبکہ علامہ البانی اور شیخ بن باز رحمہما اللہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

اسی طرح پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'الفوز الجلی فی التوسل بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم' میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے علم کہاں سے حاصل ہوا تو حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ میں نے آپ کے عرش پر کلمہ 'لا لہ الا اللہ محمد رسول اللہ' لکھا ہوا دیکھا تھا۔ اس روایت کو امام بیہقی، امام ابن کثیر، امام شوکانی، امام صنعانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس روایت کے ضعف پر اتفاق ہے۔شیخ بن باز اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔

اس طرح اور بھی بیسیوں مثالیں ہیں لیکن ہم انہی کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان روایات کے ضعف ووضع کا اجمالی حکم الدرر السنية نامی ویب سائیٹ پر ملاحظہ کریں۔

جہاں تک غیر مذہبی عناوین پر کلام کی بات ہے تو ان کتب کا معیار بھی معاصر علمی معیار کے بالمقابل انتہائی سطحی ہے مثلاً پروفیسر صاحب کی کتاب 'اسلام اورجدید سائنس' یا 'تخلیق کائنات' کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ اردو ڈائجسٹ میں سائنسی معلومات سے متعلق کسی مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

پروفیسر صاحب میں تقریر وخطابت کی صلاحیتیں کافی ہیں اور انہیں ہزاروں کے مجمع کو متاثر کرنے کا فن آتا ہے لیکن ان کی تحریر کی صلاحیت بالکل متاثر کن نہیں ہے اور ان کی تحریر تکرار، سطحی معلومات، غیر مستند و غیر معیاری مواد پر مشتمل ، غیر مرتب اور معاصر تحقیقی اسالیب کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔ جہاں خطابت کی بات ہے تو پروفیسر صاحب میں جوش خطابت بہت زیادہ ہے اور بعض اوقات اس جوش میں غیر معقول باتیں بھی کر جاتے ہیں مثلاً ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گلی کے کتوں کا گستاخ بھی کافر ہے۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
[video=youtube;5v4wqQ3Gll8]http://www.youtube.com/watch?v=5v4wqQ3Gll8[/video]
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
متجددانہ افکار وآراء
ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے بعض متجددانہ افکار و نظریات بیان کر رہے ہیں:

خواتین کے بارے لبرل خیالات کا اظہار
پروفیسر طاہر القادری صاحب خواتین کے حقوق کے بارے کافی لبرل سوچ کے حامل ہیں مثلاً انہوں نے اپنی کتاب 'اسلام میں خواتین کے حقوق' میں کہا ہے کہ عورت پارلیمنٹ کی ممبر بن سکتی ہے اور دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی خواتین مجلس شوری کی ممبر تھی یہی وجہ ہے کہ حق مہر کے متعین کرنے کے مسئلہ میں ایک خاتون نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا تھا اور اس اعتراض پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں:
'' اس واقعہ کی رو سے یہ بات ملحوظ رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی عوامی جگہ یعنی مارکیٹ ، بازار وغیرہ میں ریاستی معاملہ discussنہیں کر رہے تھے بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا جس کا مطلب ہے کہ عامة الناس کی بجائے منتخب افراد ہی اس عمل مشاورت میں شریک تھے۔ لہذا ایک خاتون کا کھڑے ہو کر بل پر اعتراض کرنے سے یہ مفہوم نمایاں طور اخذ ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو ریاستی معاملات میں شرکت کرنے، حکومت میں شامل ہونے اور اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بل واپس لے لینا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام میں جنسی امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں اور مردو زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔''
پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے بقول عورت ایک سیاسی مشیر کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی مشیر تھیں۔ان کے بقول عورت کو انتظامی عہدوں پر بھی فائز کیا جا سکتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔

ان کے بقول عورت کو سفیرمقرر کیا جا سکتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کو ملکہ روم کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔

ان کے بقول وراثت میں حصوں کی تعین کی بنیاد جنس نہیں ہے یعنی عورت کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا حصہ نہیں دیا گیا بلکہ مرد کو معاشی ذمہ داریوں کے سبب سے زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کسی گھر میں اپنی ملازمت کے ذریعے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو تو کیا اس صورت میں اسے خاوند کے برابر حصہ ملے گا؟ اگر نہیں تو پھر عورت کے وراثت میں نصف حصہ ہونے کی یہ علت نکالنا بھی درست نہیں ہے۔

١٩٨٧ء تک وہ عورت کی حکمرانی کے قائل نہ تھے لیکن ١٩٨٩ء میں ان کا یہ موقف تبدیل ہو گیا اور انہوں نے علماء سے بے نظیر کی حکمرانی قبول کرنے کی اپیل کی۔ اور ٢٣نومبر ١٩٩٣ء کے روزنامہ جنگ کے مطابق طاہر القادری صاحب نے کہا کہ عورت کسی بھی اسلامی ملک کی سربراہ ہو سکتی ہے اور نام نہاد علماء اپنی دوکان چمکانے کے لیے عورت کی حکمرانی کے بارے فتوی جاری کرتے ہیں۔

اسلامی اقتصادیات میں سوشلزم کا تاثر
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'اقتصادیات اسلام' میں ایک مکمل باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی ریاست یا مملکت کی طرف سے عام شہریوں پر 'تحدید ملکیت' جائز امر ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی ثابت ہے کہ معاشی بحالی کی جدوجہد 'روح نماز' ہے۔بعض اہل علم نے ان کے ان نظریات کو اشتراکیت کی طرف رجحان قرار دیا ہے۔

اسلامی معاشرت میں مغرب کا تاثر
ننگے سر اور کھلے گریبان والی مغرب زدہ خواتین کے جھرمٹ میں تصاویر کھچوانا یا ان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنے پروفیسر صاحب کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں اور اس بارے ان کی تصاویر اور ویڈیوز عام ہیں۔ اسی طرح پروفیسر صاحب ٤ ،٥ دسمبر ١٩٩٩ کے اخبارات میں رومانیہ کی فرسٹ سیکرٹری سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے لیے مولانا کے لقب کو پسند نہیں کرتے ہیں۔

پروفیسر صاحب نے فلم، سٹیج اور ڈرامہ کے اداکاروں پر مشتمل 'کلچرل ونگ' تشکیل دیا ہے جس کے سیکرٹری جنرل معروف اداکار فردوس جمال، صدر فلمی اداکار ندیم، نائب صدر افضال احمد اور چیف آرگنائزر سید نور کو بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی ویب سائیٹ پر 'مشاہیر کے تبصرے' کے عنوان کے تحت فلم وڈرامہ کے اداکاروں ندیم، محمد علی، محمدافضل ریمبو، فردوس جمال،عثمان پیرزادہ،مسرت شاہین،شجاعت ہاشمی، افتخار ٹھاکر اور نسیم وکی وغیرہ کے بھی تبصرہ جات فخریہ انداز میں بیان کیے ہیں مثلاً اداکارہ مسرت شاہین کا یہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاف وشفاف کردار کے مالک، امن کے سفیر، علمی کی روشنی، تنگ نظر نہیں اور ماڈریٹ ہیں۔

عورتوں کے چہرے کے پردے یا نقاب کے بارے ان کا موقف یہ ہے کہ ماحول، عورت کی ضرورت، اس کی عمر اور اس کے ایمان کی مضبوطی کے مطابق عورت کے لیے چہرے کا پردہ کیس ٹو کیس مختلف ہے لہذا کسی خاتون کے لیے یہ واجب، کسی کے لیے مستحب اور کسی کے لیے مباح ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;pR3nDZ8Ofoc]http://www.youtube.com/watch?v=pR3nDZ8Ofoc[/video]

عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں محرم کی پابندی اس کیے لگائی گئی تھی کہ سیکورٹی کے مسائل بہت زیادہ تھے جبکہ آج سٹیٹ، پولیس، سسٹم اور سوسائٹی کی طرف سے جو سیکورٹی حاصل ہے وہ محرم کے حکم میں ہے لہذا آج عورت کے سفر کے لیے محرم کی ضرورت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;Ruen5qLhYmA]http://www.youtube.com/watch?v=Ruen5qLhYmA[/video]

مسلمانوں کے لباس کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کا لباس باحیا ہونا چاہیے ۔ باقی اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر مسلمان انگریزی ہیٹ پہن لیں یا ٹائی باندھ لیں یا دھوتی پہن لیں یاشلوار قمیص پہن لیں یا افریقین یا انڈین یا یورپین لباس پہن لیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;AAyc69GM00c]http://www.youtube.com/watch?v=AAyc69GM00c[/video]

پروفیسر صاحب اور فنون لطیفہ
پروفیسر طاہر القادری صاحب فنون لطیفہ کے بارے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے مداحین نے ان کی ایسی تصاویر بھی بنا کر شائع کی ہیں جو ہاتھ سے بنائی گئی ہیں جیسا کہ 'ڈاکٹر محمد طاہر القادری ؛ میدان کارزار میں' نامی کتاب میں سرورق کی تصویر ہے۔

پروفیسر طاہر القادری صاحب میوزک کے ساتھ قوالی اور صوفیانہ کلام سننے کے قائل اور عادی ہیں اور اسی طرح صوفیانہ رقص وسرود کو بھی جائز اور روحانی ترفع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کی کئی ایک ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ قوالی اور صوفیانہ کلام کو فل میوزک اور آلات موسیقی کے ساتھ محظوظ ہو رہے ہیں اور ان کے سامنے رقص وسرود پیش کیا جا رہا ہے۔ بعض ویڈیوز میں قوالی کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ انہیں سجدہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں جس کی تاویل ان کے معتقدین یہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ پروفیسر صاحب کو سجدہ نہیں بلکہ ان کی قدم بوسی تھی۔

میوزک کے بارے اپنے ایک فتوی میں پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اسے صحیح بخاری کی ایک روایت سے ثابت کیا ہے کہ عید و خوشی کے موقع پر میوزک اور رقص جائز ہے اور سلسلہ چشتیہ کا طریق ہے۔ تفصیل اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں:

[video=youtube;YlOAwAPrZ9Y]http://www.youtube.com/watch?v=YlOAwAPrZ9Y[/video]

اسی طرح اپنے ایک اور فتوی میں انہوں نے کہا ہے کہ عشق نبی میں رقص ووجد جائز ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;5l1E4kl7kPc]http://www.youtube.com/watch?v=5l1E4kl7kPc[/video]

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب کے سامنے قوالی' پکارو شاہ جیلانی' فل میوزک اور آلات موسیقی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پروفیسر صاحب اسے سنتے ہوئے تشریف لاتے ہیں اور بھانڈ میراثیوں کے لیے روپوں کی ویلیں لیتے اور دیتے ہیں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہیں۔

[video=youtube;FylE_93LBJU]http://www.youtube.com/watch?v=FylE_93LBJU[/video]

سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبت والفت کسے تھی؟ لیکن خلفائے راشدین نے کبھی وجد میں آ کر آپ کے سامنے دھمال ڈالی ہو یا عشرہ مبشرہ نے آپ کے سامنے قوالیاں گائی گئی ہوں یا بدری صحابہ رضی اللہ عنہ نے میوزک کی سروں پر آپ کے سامنے رقص کیا ہو یا مہاجرین وانصار نے آپ کی محبت میں وجد میں آ کر آپ کو سجدے کرنا شروع کر دیا ہو یا سابقون الاولون نے عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آلات موسیقی کے ساتھ قوالیاں سنتے ہوئے گویوں کے لیے درہم ودینار کی ویلیں چڑھائی ہوں وغیرہ ذلک۔ یہ عشق نبی کے کیسے مظاہر ہیں جو حقیقی عشاق سے تو ثابت نہیں ہیں لیکن پروفیسر صاحب انہیں عشق حقیقی کے مظاہر قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آتے ہیں۔

وحدت ادیان اور اتحاد بین المذاہب کا نقطہ نظر
پروفیسر طاہر القادری صاحب غیر مسلموں اور ان سے اتحاد کے بارے بھی بہت نرم جذبات رکھتے ہیں ۔ غیر مسلموں کے حقوق پران کی ایک کتاب بھی ہے۔ انہوں نے مسلم اسی طرح انہوں نے 'مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم' بھی بنایا ہوا ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں۔ اس فورم کے تحت کرسمس تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں قرآن کے ساتھ بائبل کی بھی تلاوت ہوئی۔ عیسائی پادری اور پروفیسر طاہر القادری صاحب نے کرسمس کا کیک کاٹا۔ دونوں کی طرف سے امن کی شمع روشن کی گئی۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے عیسائیوں کو یہ دعوت دی کہ ان کے ادارہ منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کی عبادت کے لیے کھلی رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والوں کو ماننے والوں میں(Believers) شمار کیا جاتا ہے اور بقیہ کو نہ ماننے والوں(Non Believers) میں، اور مسیحی بھائی ماننے والوں میں شامل ہیں۔یہ خبر ٣ جنوری ٢٠٠٦ء کے روزنامہ اخبارات ایکسپریس، نوائے وقت، دن،انصاف، پاکستان اورجناح وغیرہ میں شائع ہوئی ہے۔

پروفیسر صاحب کی بین المذاہب رواداری اور یگانگت کی اس تحریک کے نتائج پاکستان عوامی تحریک کی ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جس کے مطابق 'منہاج القرآن انٹرفیتھ ریلیشنز' کے تحت چرچ میں عید میلاد النبی کی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں اور ہندوؤں کے مقدس تہوار 'ہولی' میں شرکت کی جا رہی ہے۔ صلیب کے سائے میں عیسائیوں کے مقدس شہر 'ویٹی کن سٹی' میں پروفیسر صاحب کی ٦٠ ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ وغیرہ ذلک۔

ڈاڑھی کے بارے موقف
ڈاڑھی کے بارے بھی پروفیسر صاحب کا موقف انتہائی گنجلک ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی چھوڑنا سنت مؤکدہ ہے لیکن کتنی چھوڑنی چاہیے، ایک مشت یا اس سے کم یا اس سے زیادہ، اس کی شریعت میں کوئی تعیین نہیں ہے لہذا اگر ایک مشت سے کم ڈاڑھی بھی ہو تو بھی جائزہے اور یہ شرعی حکم کی تعمیل میں داخل ہے۔ ایک مشت یا اس سے زائد ڈاڑھی رکھنا سنت غیر موکدہ یا سنن عادیہ میں سے ہے۔ پس جس کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم ہو یا ایک مشت ہو یا ایک مشت سے زائد ہو ، سب اجر وثواب میں برابر ہیں۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;T76BSKzcWgw]http://www.youtube.com/watch?v=T76BSKzcWgw[/video]

شرک و بدعت کے بارے نت نئے تصور
بدعت کے بارے پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'کتاب البدعة' میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی فعل وعمل کا اضافہ اس وقت تک بدعت نہیں کہلائے گا جب تک کہ اس فعل وعمل کی حرمت کتاب وسنت یا آثار صحابہ سے ثابت نہ ہو جائے۔ پس پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق دین میں کسی اضافہ شدہ فعل و عمل کی حرمت کے بارے اگر کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نص یا اقوال صحابہ میں کوئی اثر موجود نہ ہو تو وہ فعل وعمل جائز اور مباح یا بدعت حسنہ کہلائے گا۔

ایک ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب ایک قبر میں اتر کر مردے کو کلمہ پڑھوا رہے ہیں۔ ایک اور قبر پر دفنانے کے بعد مردے کو کلمہ پڑھوایا جا رہا ہے۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
Tahir ul Qadri Ko 10 Crore Ka Challenge - YouTube
Tahir Ul Qadri Ne Murde Ko Qalma Padhaya (Astaghferullah) [url]www.Momeen.blogspot.com - YouTube[/url]

پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'عقیدہ توسل' میں یہ اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کی امت سے شرک صادر نہیں ہوسکتا ہے لہذا آپ کا متی کبھی بھی مشرک نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے 'تبرک' نامی کتابچہ میں پروفیسر صاحب نے اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ انبیائ، اولیاء اور صالحین کے آثار ومقامات سے تبرک حاصل کرنے کے لیے ان کے مزارات اور قبروں کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قبروں ، مزارات اور چوکھٹوں کو بطور تبرک بوسہ بھی دیا جا سکتا ہے۔

روزقیامت غیر اللہ کی سفارش یا شفاعت یا کام آنے کے بارے پروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ قرآنی الفاظ 'من دون اللہ' سے مراد وہ غیر اللہ ہیں جو اللہ کے دشمن اور معاندین ہیں مثلاً مشرکین کے بت وغیرہ جبکہ اللہ کے دوستوں اور اولیاء کو 'من دون اللہ' میںشامل کرنا درست نہیں ہے۔ پس معبودان باطلہ تو اللہ کے مقابلہ میں ولی اور شفیع نہیں ہوسکتے ہیں جبکہ اولیاء وصالحین، جو اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں، روز قیامت ولی بھی ہوں گے اور سفارشی بھی۔

غیر اللہ سے دعا کرنے کے بارے پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ دعا تین معنوں دعوت، التجا یعنی درخواست اور عبادت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ پس اگر دعا بمعنی عبادت ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر بمعنی دعوت یا التجا ودرخواست ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز ہے۔ پس غیر اللہ سے استغاثہ جائز ہے اور انہیں مجازا مشکل کشا بھی کہا جا سکتا ہے۔

جناب پروفیسر صاحب نذر ونیاز کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔ نذر بمعنی عبادت اللہ کے لیے خاص ہے۔ نذر بمعنی ایصال ثواب اللہ کے بندوں کے لیے خاص ہے اور نذر بمعنی کھانا کھلانے کی نسبت بھی اللہ کے بندوں کی طرف ہو سکتی ہے۔پس ان کے اس نقطہ نظر کے مطابق مجازا ' نذر حسین' اور 'نیاز شاہ عبد القادر جیلانی' کہنا درست ہے۔ مذکورہ بالا خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب'عقیدہ توحید اور غیر اللہ کا تصور' میں کیا ہے۔

اپنے کتابچے 'مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت' میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انبیاء اور اولیاء سے ایسے ہی استغاثہ جائز ہے جیسا کہ ان کی حیا ت دنیوی میں جائز تھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ غیر اللہ سے استغاثہ، حقیقی استغاثہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت اسے اللہ کی جناب میں وسیلہ بنانے کے مترادف ہے۔استغاثہ کے علاوہ انبیاء اور صالحین کی زندگی اور موت کے بعد بھی ان کے توسل کو پروفیسر صاحب جائز قرار دیتے ہیں۔

قرآن مجید میں شرک کی تردید میں جس قدر آیات نقل ہوئی ہیں، پروفیسر صاحب انہیں معبودان باطلہ یعنی مشرکین کے بتوں اور طواغیت کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور ان آیات کے عمومی مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔ اپنے ترجمہ 'عرفان القرآن' میں جا بجا انہوں نے ایسی آیات کے ترجمہ میں 'بتوں' کا لفظ محذوف نکالا ہے۔ پس پروفیسر صاحب کے بقول قرآن نے جس شرک کی تردید کی ہے، وہ شرک مسلمان معاشروں میں نہیں پایا جاتاہے لہذا ان کے نزدیک معاصر مشرکانہ اعمال وفعال پر قرآنی آیات کی تطبیق درست طرزعمل نہیں ہے۔

طاہر القادری صاحب اور صحافت
روزنامہ خبریں، ١٧ جنوری ٢٠٠٠ء کے ایڈیشن میں 'اسد کھرل' صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس کے مطابق ١٢ اکتوبر کی تاریخ میں رات ٨ بجے طاہر القادری صاحب پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے کہ ان کا میڈیا سیکرٹری موبائل فون ہاتھوں میں تھامے حاضر ہوا کہ کہنے لگا کہ قبلہ صاحب جی۔ایچ۔کیو سے آپ کے لیے فون ہے حالانکہ اس وقت ملکی وغیر ملکی تمام صحافیوں کے موبائل فون بند تھے کیونکہ موبائل فون سروس چالو نہیں تھی۔ اس پر ایک صحافی نے جب قبلہ حضور سے استفسار کیا ہے موبائل سروس تو بند ہے تو آپ کو فون کیسے آ گیا تو قبلہ کچھ لمحے پریشان رہنے کے بعد فرمانے لگے کہ یہ 'سپیشل کیس' ہے۔ اس پر وہاں موجود صحافی کہنے لگے کہ 'قبلہ' کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔

روزنامہ پاکستان، ٤ دسمبر ٢٠٠٠ء کے شمارہ میں چوہدری خادم حسین کا ایک کالم شائع ہوا جس میں یہ بیان ہوا کہ ٢ رمضان کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں 'پاکستان عوامی تحریک' کے چیئرمین جناب طاہر القادری صاحب نے دوپہر ٢ بجے پریس کانفرنس بلوائی اور اس کے اختتام پر اخبار نویسوں کو دعوت دی کہ آپ کے لیے ہم نے اوپر چائے اور خاطر تواضع کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اس پر اخبار نویسوں نے بتلایا کہ وہ سب تو روزے سے ہیں تو طاہر القادری صاحب نے عذر پیش کیا کہ انہیں بھول گیا تھا کہ آج روزہ ہے۔ اس پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے 'دوپہر کو دی جانے والی افطار پارٹی' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی نوائے وقت میں لکھاہے۔

پروفیسر صاحب کا جب نواز فیملی کے ساتھ غار حرا جانے کا اتفاق ہوا تو انہیں میاں نواز شریف اپنے کندھے پر اٹھا کر غار حرا لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر پروفیسرصاحب نے یہ دعوی کیا کہ غار حرا میں ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی ہے جو کشمیری تھا۔ اس واقعہ پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی صاحب نے 'کشمیری فرشتہ' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی لکھا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
قرآن مجید کی سائنسی اور باطنی تفسیر
پروفیسر صاحب کئی ایک مقامات پر قرآن مجید کا ایسا ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے جو قرآن مجید کے ظاہر یا اہل سنت والجماعت کے اصول تفسیر کے مطابق نہیں ہے مثلاً پروفیسر صاحب سورة 'النازعات' کی ابتدائی پانچ آیات وَالنَّازِعَاتِ غَرْ‌قًا ﴿١﴾ وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا ﴿٢﴾ وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا ﴿٣﴾ فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا ﴿٤﴾ فَالْمُدَبِّرَ‌اتِ أَمْرً‌ا ﴿٥﴾ کی آیات کے دو تراجم میں ایک ترجمہ یہ بیان کیا ہے کہ
'' توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑپھوڑ دیتی ہیں، توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر سے کیمیائی جوڑوں کو نہایت نرمی اور آرام سے توڑ دیتی ہیں، توانائی کی ان لہروں کی قسم جو آسمانی خلاوفضا میں بلا روک ٹوک چلتی پھرتی ہیں، پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو رفتار، طاقت اور جاذبیت کے لحاظ سے دوسری لہروں پر سبقت لے جاتی ہیں، پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو باہمی تعامل سے کائناتی نظام کے بقا کے لیے توازن وتدبیر قائم رکھتی ہیں۔''
اسی طرح انہوں نے سورة نجم کی آیت وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾ کا ترجمہ کیا ہے کہ
'' قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شب معراج اوپر جا کر ) نیچے اترے۔''
سورة زمر کی آیت مبارکہ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾ کاترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' (اے حبیب مکرم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقینا (دائمی ہلاکت کے لیے) مرد ہ ہو جائیں گے(پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا)۔''
سورة قصص کی آیت مبارکہ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٥٦﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں، اسے صاحب ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ)جسے(آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحب ہدایت بنا دیتا ہے اور وہ راہ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خواب واقف ہے ( یعنی جو لوگ آپ کی چاہت کی قدر پہچانتے ہیں، وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں)۔''
امر واقعہ یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کا اس آیت کا یہ ترجمہ تراجم قرآن کی دنیا میں ایک ادبی شاہکار ہے۔

سورہ مریم کی آیت إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ‌ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ﴿٤٢﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' جب انہوں نے اپنے باپ(یعنی چچا آزر سے جس نے آپ کے والد تارخ کے انتقال کے بعد آپ کو پالا تھا) سے کہا: اے میرے باپ! تم ان (بتوں) کی پرستش کیوں کرتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور تم سے کوئی (تکلیف دہ) چیز دور کر سکتے ہیں۔''
سورة کہف کی آیت مبارکہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْ‌جُو لِقَاءَ رَ‌بِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِ‌كْ بِعِبَادَةِ رَ‌بِّهِ أَحَدًا ﴿١١٠﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' فرما دیجئے: میں تو صرف (بخلقت ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ، ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلام الہی اتر سکے)۔''
اسی طرح پروفیسر صاحب نے سورةرحمن کی آیت مَرَ‌جَ الْبَحْرَ‌يْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ میں دو دریاؤں کی تفسیر حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے کی ہے۔ اپنی کتاب 'ذبح عظیم' میں سورة صافات کی آیت وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿١٠٧﴾ میں 'ذبح عظیم' سے مراد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیعہ ہونے کا الزام
بریلوی مکتب فکر کے بعض اہل علم نے پروفیسر طاہر القادری پرتفضیلی شیعہ ہونے کا بھی الزام عائد کیا ہے جیسا کہ مفتی غلام سرور قادری صاحب نے اپنی کتاب 'پروفیسرطاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ' میں کہا ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے 'قصر بتول' میں 'مولود کعبہ' کے نام سے ایک تقریر میں یہ کہا :
''تمام صحابہ بھی اکھٹے ہو جائیں تو علم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نہیں ۔'' (روزنامہ جنگ، ١٩ مئی، ١٩٨٧ء)
اسی طرح پروفیسر طاہر القادری صاحب جامعہ المنتظر ، لاہور میں مجلس عزا پڑھتے ہوئے کہا کہ سنیت اور شیعیت میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور اصل مسئلہ خوارجیت کا ہے یا دوسرے الفاظ میں سنی اور شیعہ ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;ylj62DZNbq4]http://www.youtube.com/watch?v=ylj62DZNbq4[/video]

پروفیسر طاہر القادری صاحب اپنی کتاب 'السیف الجلی علی منکر ولایة علی' میں کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت تین قسم کی تھی۔ ایک خلافت ظاہری اور دوسری خلافت باطنی۔ پہلی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ملی اور دوسری حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔ پہلی قسم کی خلافت سیاسی منصب تھا اور دوسری قسم کی خلافت روحانی منصب۔پہلی قسم کی خلافت انتخابی وشورائی تھی اور دوسری قسم کی وہبی و اجتبائی۔ پہلی قسم کی خلافت کا تقرر عوام الناس نے کیا اور دوسری کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے۔ پہلی قسم کی خلافت کا دائرہ کار فرش تھا اور دوسری کا عرش تک تھا۔ پہلی قسم کی خلافت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد خلفائے راشدین میں جاری ہوئی اور دوسری قسم کی خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل بیت کے بارہ اماموں میں جاری ہوئی۔ پہلی قسم میں آپ کی سیاسی وراثت جاری ہوئی اور دوسری قسم میں روحانی وراثت۔ دوسری قسم کی خلافت کو ولایت و امامت بھی کہتے ہیں۔

پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'مسئلہ ولادت امام مہدی' میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ دوسری قسم کی خلافت یعنی ولایت و امامت کے آخری خلیفہ امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اور یہ بارہویں خلیفہ یا امام ہوں گے جیسا کہ اہل تشیع کے ہاں بھی امام مہدی علیہ السلام ان کے بارہویں ہی امام ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب 'السیف الجلی علی منکر ولایة علی' میں کہا ہے کہ حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور حضرت مہدی الارض والسماء ، باپ بیٹا دونوں، اللہ کے' ولی' اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے 'وصی' ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کے بقول امام مہدی کا ظہور تقریباً کم ازکم ٨ سو سال بعد سن ٢٢٠٤ھ میں یا اس کے بھی ایک ہزار سال بعدہو گا۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:

[video=youtube;iUnbJHW2XNs]http://www.youtube.com/watch?v=iUnbJHW2XNs[/video]

ہمارے خیال میں اگر تو پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے شیعہ ہونے سے ناقدین کی یہ مراد ہو کہ وہ اہل تشیع کو خوش کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق اور خلفائے راشدین پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل تشیع کے تصور ولایت وامامت کے قائل ہیں اور امام مہدی علیہ السلام کو اثنا عشریہ اہل تشیع کی طرح اپنا بارہواں امام تسلیم کرتے ہیں تو یہ بات تاحال ان کی تقاریر اور کتب سے بالکل ثابت ہوتی ہے الا یہ کہ وہ مستقبل میں کسی وقت اپنے اس موقف سے رجوع کر لیں۔ یہ درست ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت خلفائے راشدین اور بقیہ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم پر ثابت کرنے میں اور ان کی ولایت وامامت کے ثبوت میں تکلف وتصنع اور خطابت وبلاغت کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ فقہ جعفری یا زیدیہ فقہ کے پیروکار نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سنی اور فقہ حنفی کا متبع بتلاتے ہیں۔ پس یہ کہنا درست ہے کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب عقائد کے اعتبار سے تفضیلی شیعہ ہیں لیکن فقہ میں حنفی بریلوی ہیں جیسا کہ حنفیہ کے ہاں یہ تقسیم عام ہے کہ وہ فقہ میں حنفی ہوتے ہیں جبکہ عقیدہ میں تقلید کو حرام قرار دینے کی وجہ سے سلفیہ، معتزلہ، ماتریدیہ، وجودیہ، شہودیہ، صوفیہ، حیاتی اور مماتی وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'کتاب البدعة' میں ان اہل تشیع کے کفر کو یقینی اور قطعی قرار دیا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہوں یا حضرت جبرئیل کے بارے یہ عقیدہ رکھیں کہ غلطی سے وحی حضرت علی کی بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لے آئے یاقرآن میں تحریف میں یا ترمیم کا عقیدہ رکھیں یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائیں یا یہ عقیدہ رکھیں کہ وصال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم مرتد ہو گئے تھے یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پروفیسر طاہر القادری صاحب کے خواب
پروفیسر صاحب پر ان کے خوابوں کی وجہ سے بھی مختلف مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے نقد ہوتی ہے۔ یہ خواب تفصیلی ہیں اور اس کی آڈیوز اور ویڈیوز موجود ہیں اور ان میں سے بعض خواب انٹرنیٹ پر' یوٹیوب' نامی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔

پہلا خواب
ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سندھ کے کسی شہر میں ہوتی ہے۔ لوگ زیارت کے لیے جاتے ہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو زیارت نہیں کرواتے۔ بالآخر پروفیسر صاحب اکیلے رہ جاتے ہیں اور انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پروفیسر صاحب سے شکوہ کرتے ہیں کہ میں اہل پاکستان، دینی جماعتوں، اداروں اور علماء سے نالاں ہو کر واپس جا رہا ہوں کیونکہ انہوں نے میری قدر نہیں کی اور اسی لیے میں نے ان سے ملاقات بھی نہ کی۔ پروفیسر صاحب اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منتیں سماجتیں کرتے ہیں، پاؤں پڑتے ہیں، روتے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک شرط پر پاکستان رکنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کریں گے۔ پاکستان میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھہرنے کا انتظام، کھانے پینے کا انتظام، پاکستان میں اندرون ملک سفر کے ٹکٹ اور قیام کا انتظام اور واپس مدینے تک کا ٹکٹ کا انتظام پروفیسر صاحب کریں گے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم 'ادارہ منہاج القرآن' قائم کرو میں وہاں تشریف لاؤں گا۔

دوسرا خواب
ایک دوسرے خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہے اور اذان کا وقت ہے۔ مسجد نبوی کا مقام ہے اور اجتماع عام ہے۔ مؤذن اذان دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ اس مؤذن کو ہٹا دو، آج جمعہ کی اذان طاہر دے گا۔

تیسرا خواب
ایک اور خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صحرائی علاقہ میں ایک ریتلے ٹیلے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ آپ کی داہنی جانب حضرت ابو بکر صدیق اور بائیں جانب حضرت عثمان رضی اللہ عنہما ہیں۔ میں یعنی طاہر القادری چھوٹا سا بچہ تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف اپنے پہلو میں لے لیا اور چاروں خلفائے راشدین سے میرا اور مجھ سے ان کا تعارف کروایا۔

چوتھا خواب
ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پروفیسر صاحب کی عمر ٦٣ برس مقرر کی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھا کر ٦٦ برس کر دی لیکن پروفیسر صاحب نے قبول نہ کی کیونکہ اس طرح عمر کے سلسلہ میں سنت نبوی کی خلاف ورزی کا ارتکاب تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پروفیسر صاحب کی بات مان کر دوبارہ ٦٣ سال کر دی۔

پانچواں خواب
ایک اور خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پروفیسر صاحب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس میں قبر انور کے پاس موجود ہیں۔ قبر انور کا سر کی طرف والا حصہ (یعنی تاریخ اسلام کا اولین دور) صحیح ہے جبکہ پاؤں والا حصہ (یعنی معاصر دور) منہدم ہو چکا ہے اور میں اس پاؤں والے حصے کی تعمیر شروع کرتا ہوں اور ایک شخص کے ساتھ مل کر اس حصے کی تعمیر مکمل کر دیتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبر سے باہر تشریف لاتے ہیں اور میں تعمیر کی تکمیل کی خوشخبری دیتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پروفیسر صاحب کو سینے سے لگا لیتے ہیں اور بڑی دیر تک معانقہ فرماتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک کاغذ منگواتے ہیں اور مجھے ایک سند لکھ کر عطا کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے یہ خواب نصر اللہ غلزئی نے 'نقل کفر کفر نباشد' کے عنوان سے ہفت روزہ تکبیر کے ١٩ جولائی ١٩٩٠ء اور روزنامہ خبریں کے ٤ جولائی ١٩٩٣ء کے ایڈیشن میں کیسٹ سے صفحہ قرطاس پر لفظ بلفظ منتقل کر کے شائع کیے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پروفیسر صاحب کے ناقدین
جناب پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ناقدین میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک مذہبی اور دوسرے غیر مذہبی۔

مذہبی طبقات کی نقد
مذہبی افراد میں سے تقریباً چاروں مسالک بریلوی، دیوبندی ، اہل الحدیث اور اہل تشیع کے بعض اہل علم نے ان پر نقد کی ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب پر نقد کا آغاز بریلوی مکتب فکر طرف سے ہوا۔ مشیر وفاقی شرعی عدالت مفتی غلام سرور قادری صاحب نے 'پروفیسر طاہر القادری : علمی وتحقیقی جائزہ' کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جو ١٩٨٨ء میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں مفتی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کے بارے یہ کہا ہے کہ انہیں دیکھ کر قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا ہے اور نہ ہی وہ صحیح ترجمہ کر سکتے ہیں۔ مفتی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کی آڈیو کیسٹس سے بھی ان کی عربی عبارات کی کچھ اغلاط نقل کی ہیں۔ مفتی صاحب نے پروفیسر صاحب پر یہ بھی طعن کیا ہے کہ پروفیسر صاحب دو انگل ڈاڑھی رکھنے کو بھی سنت قرار دیتے ہیں۔ مفتی صاحب یہ بھی نقل کی ہے کہ پروفیسر صاحب نے عورت کے آدھی بجائے مکمل دیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا یہ موقف اجماع امت کے خلاف ہے۔ مفتی صاحب نے پروفیسر صاحب کو جھوٹا، جاہل اور تفضیلی شیعہ قرار دیا ہے۔ مفتی صاحب نے شیعیت کے علاوہ بھی بہت سنگین الزامات کی نسبت پروفیسر صاحب کی طرف کی ہے۔

اسی طرح بریلوی علماء میں سے مولانا ابو داؤد محمد صادق نے 'پروفیسر طاہر القادری : علمائے اہل سنت کی نظر میں' کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جس کا دوسرا نام 'خطرے کی گھنٹی' بھی معروف ہوا۔ اسی طرح محمد نواز کھرل نے ان کے بارے 'متنازعہ ترین شخصیت' نامی کتاب لکھی ہے۔

مرکزی دار العلوم اہل سنت جامعہ رضویہ مظہر اسلام، فیصل آباد کے بریلوی علماء مولانا غلام رسول رضوی، مفتی محمد اسلم رضوی، محمدحبیب الرحمن، ابو صالح محمد بخش، محمد نظام الدین ، محمد سعید نقشبندی وغیرہ نے پروفیسر طاہر القادری کے خلاف ایک متفقہ فتوی جاری کیا جس میں پروفیسر صاحب کو اہل سنت کا دشمن قرار دیا گیا۔ ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے کو ناجائز اور ان کے ادارہ منہاج القرآن میں بچوں کو تعلیم دینے سے روکا گیا۔

مفتی اشرف قادری صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کے بارے کہا ہے کہ یہ شخص پہلے صحیح العقیدہ سنی اور حنفی تھا لیکن بعد میں مجتہد بن گیا ۔ اس نے عورت کی دیت کے مسئلہ میں اجماع امت کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کم ازکم اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے۔ انہوں نے پروفیسر صاحب پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ پروفیسر صاحب نے امام خمینی کی وفات پر ایک امام باڑے میں کالا جبہ پہن کر تقریر کی ہے اور کہا ہے پاکستان کا بچہ بچہ خمینی ہو گا اور خمینی کا جینا علی رضی اللہ عنہ کی طرح تھا اور مرنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرح۔ مفتی اشرف قادری صاحب نے طاہر القادری صاحب کو بدترین گمراہ اور فاسق بھی قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:

[video=youtube;DmgYxJcMqxg]http://www.youtube.com/watch?v=DmgYxJcMqxg[/video]

گدی نشین سید عرفان شاہ صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کو 'شیخ الاسلام' کی بجائے 'شیخ فی الاسلام ' یعنی بوڑھا مسلمان کا لقب دیا ہے۔ سید عرفان شاہ صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب پر اس عتبار سے نقد کی ہے پروفیسر صاحب نے گستاخ عیسائیوں کے ساتھ اخلاق کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سید عرفان شاہ نے پروفیسر صاحب کے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:

[video=youtube;3MXpWYDNCm0]http://www.youtube.com/watch?v=3MXpWYDNCm0[/video]

مولانا کوکب نورانی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب پر یہ نقد کی ہے کہ عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی دعوت دینے کے بعد ہم اسے سنی ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہ شخص 'طاہر القادری' سے 'طاہر الپادری' بن گیا ہے۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:

[video=youtube;qLPLtUH-eyo]http://www.youtube.com/watch?v=qLPLtUH-eyo[/video]

اہل الحدیث میں سے حکیم محمد عمران ثاقب صاحب نے 'ڈاکٹر طاہر القادری کی علمی خیانتیں' اور 'طاہر القادری : خادم دین متین یا افاک اثیم' کے نام سے دو کتابیں لکھی ہیں جس میں انہوں پروفیسر طاہر القادری صاحب کے تصور بدعت، شرک، وسیلہ ، استغاثہ، شیعیت اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نظریات پر شدید نقد کی ہے۔

دیوبندی مکتب فکر سے متعلق بعض اہل علم انہیں 'کینیڈین شیخ الاسلام' اور بعض سلفی اہل علم انہیں 'شوخ الاسلام' کالقب دیتے ہیں۔ ماہنامہ 'الاحرار' ملتان اور سہ ماہی 'ایقاظ' میں اس بارے پروفیسر صاحب پر بعض تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سیارہ اور قومی ڈائجسٹ میں ان پر ناقدانہ مضامین شائع ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں مذہبی رہنماؤں میں مولانا محمد اجمل قادری، مولانا سیف الدین سیف، علامہ محمود احمد رضوی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا خلیل الرحمن حقانی، مولانا عبد الرحمن اشرفی، مولانامحمد میاں جمیل، صاحبزادہ فضل کریم، مفتی غلام سرور قادری، مولانا نعیم اللہ فاروقی، مولانا عبد القادر آزاد، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا محمود الرشید حدوٹی، مولانا شمس الزماں قادری، مولانا سیف اللہ قصوری، قاضی کاشف نیاز، امیر حمزہ، علامہ عطاء اللہ بندیالوی، علامہ بشیر القادری اور علامہ خالد ازہری وغیرہ نے بھی پروفیسر صاحب کے بعض افکار پر نقد کی ہے۔

غیر مذہبی طبقات کی نقد
غیر مذہبی لوگوں میں سے پروفیسر صاحب پر جن کی نقد معروف ہوئی ان میں ایک عدالتی فیصلہ بھی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن، لاہور پر ٢١ اپریل ١٩٩٠ء کی صبح کو پراسرار فائرنگ کا سانحہ پیش آیا اور پنجاب حکومت کی درخواست پر اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے بعد عدالت نے فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے کا ایک اقتباس ہم پروفیسر صاحب کے حق میں لکھی گئی ایک کتاب سے یہاں نقل کر رہے ہیں:

''بیان کردہ فائرنگ حقیقی واقعہ نہیں تھا۔ مسٹر قادری کا نقصان ان کی اپنی کوششو ں کا نتیجہ ہے... ان کے اس لایعنی طرز عمل سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ مسٹر قادری ذہنی طور پر بیمار آدمی ہیں، اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے جو کوئی بھی ہو سکتے ہیں، حد درجہ خوفزدہ ہوئے بلکہ 'دشمن فوبیا' میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن ان دلائل کو آسانی سے زیر بحث لایا جا سکتا تھا۔ یہ واقعہ کہ مسٹر قادری' اپنے مخصوص خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں یا ان کے غیر صحت مندانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو خواب آتے بھی ہوں۔ لیکن ان کے تعصبات کو بھی بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ وہ اپنے خوابو ں کو ایک خاص انداز میں بیان کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں، اس ذہنی ساخت کی شخصیت سے ہر چیز ممکن ہے۔ نصف رات کے سمے ان پر مسلح آدمیوں کے حملے کے ڈرامے کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔''(ڈاکٹر محمد طاہر القادری میدان کارزار میں : ص ٢٠٩۔٢١٠، انکشاف پبلشرز، لاہور)
عدالت کے اس فیصلہ کے مطابق پروفیسر صاحب نے شہرت کے حصول کے لیے اپنی رہائش گاہ پر خود ہی فائرنگ کروائی تھی اور اس کی ذمہ داری اپنے سیاسی مخالفین پر عائد کر دی۔ اس واقعہ کے بارے رفیق ڈوگر صاحب کی 'علامہ کلاشنکوف' اور محمد اشرف ملک کی 'نامور شخصیات کی ناقابل یقین جعل سازیاں 'کے نام سے ایک تحریر بھی شائع ہوئی ہے۔

پروفیسر صاحب کے غیر مذہبی ناقدین کی ایک بڑی تعداد میدان صحافت سے تعلق رکھتی ہے۔ معروف صحافیوں اور کالم نگاروں میں سے مجیب الرحمن شامی، ضیاء شاہد، عطاء الحق قاسمی، حسن نثار، الطاف حسن قریشی، تنویر قیصر شاہد، محمد یونس بٹ اور عباس اطہر نے بھی ان پر نقد کی ہے۔علاوہ ازیں محمد اسلم اعوان، منیر القادری، صابر شاکر، خورشید احمد ندیم، رفیق ڈوگر، ڈاکٹر اختر نواز خاں، اسد کھرل، قیوم قریشی، مریم گیلانی، رانا پرویز حمید، راحت ملک، سعادت خیالی، ممتاز شفیع، ظفر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب، پروفیسر افضل علوی، چوہدی خادم حسین، میاں غفار، ملک نجیب الرحمن ارشد، سلطان محمود، جاذب بخاری، سلمی عنبر، مظفر وارثی، نذیر حق، آفتاب اقبال، محمد انور گرے وال، تنویر عباس نقوی، بیگ راج، لالہ عاجز، سرفراز اقبال اور عرفان احمد وغیرہ نے بھی پروفیسر طاہر القادری پر مختلف اخبارات میں تنقیدی کالم لکھے ہیں جنہیں محمد نواز کھرل نے اپنی کتاب 'متنازعہ ترین شخصیت' میں جمع کر دیا ہے۔ یہ کتاب ہماری اس ویب سائیٹ پر ان شاء اللہ جلد ہی اپ لوڈ کر دی جائے گی۔
 
Top