• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پکڑ

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
مرکز القادسیہ کے باہر چوک میں اشارہ بند ہو جانے پر مجبوراً مجھے رکنا پڑا تھا، کوئی 30 فٹ کے فاصلے پر سامنے میرا مرکز میری منزل تھی۔ اب میں اشارہ بند ہونے پر اپنے گردونواح کا جائزہ لینے لگا۔ دیکھا کہ سامنے سے ایک بہت بڑا ٹرالر آ رہا ہے۔ دیوقامت ٹرالر پر لوہا لدا ہوا تھا اور وہ بھاگا چلا آ رہا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا اس قدر ناقابل برداشت وزن یہ سڑک اٹھاتی ہے اور برداشت کرتی ہے، کس قدر ہمت ہے اس کی !؟ اصل میں یہ اللہ کے نظام کا حصہ ہے کشش ثقل کے کرشمے ہیں ورنہ کوئی چیز بھی اپنے وجود اور وزن کو برقرار نہ رکھ سکے۔

ابھی ایسی سوچوں میں غرق تھا کہ ٹرالر ہمارے سامنے پہنچ گیا اور چوک کراس کرنے لگا۔ میں اس کی لمبی چوڑی دور تک پھیلی جسامت اور اس پر ٹنوں لدے لوہے کو دیکھنے لگا۔ اس پر بڑی مقدار میں لدے لوہے کے وزن سے لگتا تھا زمین ابھی بیٹھ جائے گی یا پھٹ جائے گی اور یہ اس میں دھنس جائے گا.... لیکن حکم خداوندی کے تحت زمین اس کو برداشت کرنے کے لئے مامور و مجبور تھی۔

ٹرالر زناٹے سے میرے پاس سے گزرا ہی تھا کہ اچانک لوگوں کی چیخیں بلند ہوئیں .... لوگ چیخ رہے تھے.... بلبلا رہے تھے.... آوازیں دے رہے تھے .... اٹھو بھاگو.... اٹھو.... اٹھو.... میں نے لوگوں کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا تو.... دل دھک سے بیٹھ گیا.... اوسان خطا ہو گئے.... سانسیں رک گئیں.... زبان گنگ اور سوچ و فکر کے تانے بانے جامد و ساکت ہو گئے.... خوف و ہراس کی چادر تن گئی.... جسم کانپنے لگا.... سامنے منظر ہی ایسا تھا.... ایک موٹرسائیکل سوار تیزی سے پیچھے سے آیا تھا.... اور لوڈڈ ٹرالر کو کراس کرتے ہوئے کسی چیز سے لگنے کی وجہ سے توازن برقرار نہ رکھ کر موٹرسائیکل سمیت ٹرالر کے آگے جاگرا تھا .... اب ٹرالر اس کی طرف بڑھ رہاتھا.... وہ جوان سڑک پر پڑا کراہ رہا تھامگر ڈرائیور بریک لگا کر روکنے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھا.... ٹرالر اپنی روانی اور تیز رفتاری میں چڑھتا چلا گیا.... اچانک ایک دلدوز اور دلخراش چیخ بلند ہوئی اور تربوز کی طرح کسی چیز کے پھٹنے اور چٹخنے کی آواز آئی.... لیکن چیخ مکمل ہونے سے پہلے ہی کہیں دور.... اندھیروں میں گم ہو گئی۔ ٹرالر روڈ رولر کی طرح جوان پر چڑھ گیا تھا اور چشم زدن میں جوان غائب ہو گیا تھا۔ تڑی مڑی ٹوٹی پھوٹی موٹرسائیکل کا بچا کھچا ڈھانچہ ایک طرف بکھرا پڑا تھا.... جبکہ جوان کا جسم.... بوٹی بوٹی ہو کر سڑک پر پڑا تھا.... ٹرالر اسکو روند کر گزر چکا تھا.... خون اور گوشت کے لوتھڑے ٹائروں سے چپکے ہوئے تھے.... سڑک پر خون کا جوہڑ بارش کے پانی کی طرح جمع تھا.... اور غائب شدہ جسم کی باقی رہ جانے والی بوٹیاں بغیر پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ایک ایک بوٹی میں زندگی کی رمق موجود ہے یا شاید جان نکل رہی ہے۔
میرا دل بیٹھ رہا تھا.... اسی خوف، وحشت، دہشت سے جسم کانپ رہا تھا.... شاید میں گر جاتا.... لوگ بھاگ کر یہاں پہنچ رہے تھے.... اور پوچھ رہے تھے: کہاں گیا، وہ جوان کدھر ہے، یہ مڑی تڑی اور کچلی جانے والی موٹرسائیکل کا سوار؟ ....لوگ وحشت سے گنگ تھے بس ہاتھ سے وہاں جمع خون اور تڑپتی پھڑکتی بوٹیوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ وہ کون تھا؟.... کہاں سے آیا تھا اور کہاں جار ہا تھا؟ کیا نام و پتہ تھا؟ کس کا باپ، کس کا بیٹا، کس کا بھائی اور کس کا سہاگ تھا؟ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ سب کچھ مٹ چکا تھا.... کوئی شناخت باقی نہ تھی کہ اس کی مدد سے ورثاءتک رسائی ہو سکتی۔ کیا اس کے بچے ہمیشہ باپ کی واپسی کی راہ تکتے جوان ہو جائیں گے.... بیوی اور ماں واپسی کا انتظار کرتی کرتی قبروں میں چلی جائیں گی۔
ٹریفک جام تھی.... گاڑیوں کی لمبی قطاریں جامد کھڑی تھیں.... ٹرالر کا ڈرائیور موقع سے فرار ہو چکا تھا.... پولیس روڈ کھولنے کے لئے پریشان تھی.... اب وہ جھاڑو کے ذریعہ مختلف سمتوں میں بکھری بوٹیوں کو ایک جگہ جمع کر رہی تھی.... میں سوچ رہا تھا کہ اللہ جانے اس کا کون سا ایسا جرم تھا جس کی سزا اللہ کریم نے اس کو اچانک اذیتناک موت کی صورت دی۔ اللہ کریم اس پر رحم فرمائے۔
خالد جرار کی زبانی سنے اس واقعہ نے مجھے راوی روڈ پر لکڑ منڈی کے قریب رہنے والا سرگودھا کا اینٹی نارکوٹکس کا وہ پولیس آفیسر یاد آ گیا.... وہاں کے رہائشی اور ہمارے پرانے دوست یوتھ فورس اور جماعت کے پرانے خادم بھائی میاں عتیق جن کے بارے کہتے تھے کہ پولیس اور فوج میں بڑے بڑے کڑیل گھبرو اونچے لمبے جوان دیکھے لیکن اس آفیسر جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ وہ ان کے گھر کے قریب رہتا تھا اور کئی دفعہ کہتا میاں صاحب! ہمیں کوئی کسی بھی قسم کا کام بتائیں۔ میاں صاحب کہتے: ناں بھائی اللہ پولیس والوں سے دور ہی رکھے تو اچھا ہے، بہرحال یہ آفیسر بھی ان آفیسروں کی طرح تھا کہ جن کے کندھے یا سینے پر لیبل تو اینٹی کرپشن کا لگا ہوتا ہے لیکن وہ کرپشن کی دنیا کے خود بڑے کنگ اور بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ اس نے بھی اپنی جیب گرم کرنے کے لئے لوگوں کا جینا محال کیا ہوا تھا۔ بہت متکبر اور ہاتھ چھٹ تھا، ظلم کرتا تو انتہا کر دیتا۔
ایک دفعہ گھر آیا، کھانا کھانے کے لئے بیٹھا ہی تھا کہ فون پر اطلاع ملی کہ لکڑ منڈی پہنچیں۔ بیگم کو کہنے لگا: تم گرم گرم دو روٹیاں لگاﺅ میں ابھی واپس آ کر کھاتا ہوں اور پھر سیدھا لکڑ منڈی پہنچ گیا۔ دو ہیروئن فروشوںنے اس کی ٹانگوں میں گولیاں مار دی تھیں لیکن جواں اس قدر تھا کہ گولیاں کھانے کے بعد فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور ان کو مخاطب کر کے کہنے لگا: کوئی بات نہیں، جانا کہاں ہے؟ میں نے پہچان تو لیا ہی ہے۔ بچ کر کہاں جاﺅ گے؟ دونوں آدمیوں نے یہ سنتے ہی واپس آ کر اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر بھیجا اڑا دیا۔ جب ہسپتال سے واپسی پر سٹریچر پر لٹایا گیا تو اتنا لمبا چوڑا جوان تھا کہ سٹریچر چھوٹا پڑ گیا۔ اس کی ایک ایک فٹ ٹانگیں سٹریچر سے باہر تھیں۔ جب ایمبولینس میں لٹایا گیا تو اس کے لمبے قد کی وجہ سے ایمبولینس کا دروازہ بند نہیں ہو رہا تھا۔ بہرحال جب اس کو اس کے گاﺅں لے جا کر دفن کیا جانے لگا تو زمین نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک جگہ قبر بنائی لیکن دفناتے وقت وہ چھوٹی ہو کر سکڑ گئی۔ پھر دوسری اور پھر تیسری جگہ بنائی گئی تو بھی چھوٹی ہو گئی۔ قبر تو اس کے قد کی پیمائش کے مطابق صحیح نکالی جاتی لیکن جب اس کو دفنانے کے لئے لایا جاتا تو وہ سکڑ جاتی۔ آخر لوگ سمجھ گئے کہ اللہ کا عذاب ہے وہ ان معاملات میں دخل نہیں دے سکتے چنانچہ اسے ویسے ہی قبر میں پھینک کر قبر بند کر کے اوپر مٹی ڈال کر واپس آ گئے۔
ظلم و جبر کے پیامبر اور غریب لوگوں کی زندگی کو جہنم بنانے والے پولیس آفیسر کے واقعہ کے ساتھ ہی شیخوپورہ روڈ لاہور پر واقع ایک فیکٹری کے لیڈر کا واقعہ بھی آنکھوںکے سامنے گھوم گیا۔ اس روز فیکٹری میں الیکشن تھے اور یہ الیکشن جیت کر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ آ رہا تھا۔ اونچے لہجے میں گلا پھاڑ پھاڑ کر مخالف کو بلانقط سنا رہا تھا۔ بہت تکبر غرور کے عالم میں اونچی آواز میں بڑھکیں مار رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی ملک فتح کر لیا گیا ہو۔ اس کی بڑھکیں.... اور لڑھک کر گرتے گرتے بچنا اور لوگوں کا اس کو گرنے سے بچانا، بتا رہا تھا کہ اس نے خوب پی رکھی ہے۔ اللہ کا بندہ نماز پہلے ہی نہیں پڑھتا تھا۔ اب الیکشن جیتنے کے بعد اس نے تکبر و نخوت میں آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس سے قبل بھی پتہ چلا تھا کہ وہ بہت تکبر غرور اور گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔ جس کی چاہتا پگڑی اچھال دیتا، سب کے درمیان بے عزتی کرتا، ہر کوئی اس کے سامنے خاموش رہتا تاکہ اس کی عزت بچی رہے۔ اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے، لیکن جب پکڑنے پہ آتا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کے گھر میں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر نہیں، آخر ایسا ہی ہوا اللہ کو اس کا یہ غرور، تکبر اور ظلم پسند نہ آیا بلکہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بنا۔
جب الیکشن جیت کر شراب کے نشے میں دھت بڑھکیں مارتے گالیاں دیتے ہوئے فیکٹری میں آیا.... تو کسی کو بتائے بغیر فیکٹری کے آخری یونٹ میں بے مقصد جا گھسا، اسے وہاں کوئی کام نہیں تھا، اس کا اس شعبہ سے کوئی تعلق واسطہ بھی نہیں تھا۔ یہاںپر بڑے بڑے پتھروں کو مشینری میں ڈال کر پیسا جاتا تھا اور پھر ان کا برادہ اور بجری استعمال میں لائے جاتے۔ وہ بے مقصد یہاں نہیں آیا تھا بلکہ اس کی موت اسے گھیر کر لائی تھی۔ وہ جب اس پتھر توڑنے والی مشین کے یونٹ میں داخل ہوا تو یہاں کوئی نہیں تھا۔ سب چھٹی پر تھے۔ اچانک گڑگڑاہٹ ہوئی، دیکھا تو پتھر توڑنے والی مشین کو کسی نے آن کر دیا تھا۔ اس کا بھاری بھرکم پتھر اٹھا کر کٹر مشینوں کے پاس لے جانے والا پٹہ حرکت میں آ چکا تھا۔ وہ حیرانی سے دیکھنے لگا کہ یہ سب کچھ اچانک کیسے شروع ہو گیا۔ اسی دوران اس کے قدم ڈگمگائے اور وہ چلتے ہوئے پٹے پر گر گیا۔ پٹہ کٹر مشینوں کی طرف حرکت کرنے لگا.... یہ دیکھ کر اس کا نشہ ہرن ہو گیا.... اور وہ مدد کے لئے پکارنے لگا.... بچاﺅ.... بچاﺅ.... میں کٹ جاﺅں گا.... بچاﺅ.... کوئی مشین کو بند کرے.... وہ دیو کی طرح لمبا چوڑا جوان تھا۔ پوری قوت سے مدد کے لئے چلا رہا تھا.... لیکن وہاں کوئی ہوتا تو آتا.... اتنے میں کٹر مشینوں کے بلیڈ کے پاس پٹہ پہنچا.... اس کی ٹانگ اس مشین کے قابو آ چکی تھی جو بڑے بڑے پتھروں کو ریزہ ریزہ کر چھوڑتی ہے.... اس نے اتنی دلدوز چیخ ماری کے فیکٹری کے قریب رہنے والے لوگوں نے اپنے کانوں سے سنی۔ اب دوسری ٹانگ.... حتیٰ کہ پیٹ.... ہاتھ.... کٹ کٹ کر.... قیمہ بن بن کر .... پھڑکتی بوٹیوں کی شکل میں.... دیواروں کے ساتھ ٹکرا رہے تھے، ساتھ ساتھ اس کی دل ہلا دینے والی چیخیں فضاءکو چیر رہی تھیں، جو بالآخر خاموش ہو گئیں، فیکٹری کے ساتھ رہنے والے ایک شخص نے تیزی سے اونچی دیوار پر چڑھ فیکٹری میں چھلانگ لگائی اور بھاگم بھاگ مشین کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہے اس کا سارا جسم قیمہ بن کر کچھ نیچے پسے پتھروں کے برادے میں مل چکا تھا.... کچھ دیواروں پر.... باقی تھوڑا سا دھڑ مشین میں پھنسا ہوا تھا.... اور مشین بند ہو چکی تھی!!؟ اور باقی کٹنے سے بچ جانیوالا وہ گوشت کا لوتھڑا سانس لے رہا تھا.... اس نے ہمت کر کے اسے زور لگا کر نکالا تو وہ بغیر کوئی بات کئے باقی گوشت کے لوتھڑوں کی مانند بے جان ہو گیا.... لیکن اس کا سر ابھی مشین میں نہ پہنچا تھا، لہٰذا سلامت رہا، لوگوں نے بڑی محنت سے فیکٹری میں بکھری بوٹیوں کو تلاش کیا، ان کے اوپر سر رکھا اور جنازہ پڑھا کر دفنا دیا کہ اس کے گھر والے اس کی یہ حالت دیکھ کر برداشت نہ کر سکیں گے۔ کسی کو آج تک اس خدائی راز کا علم نہیں ہو سکا کہ.... جب فیکٹری میں چھٹی تھی.... کوئی بندہ موجود نہ تھا تو مشین کو آن کس نے کر دیا؟....
کس نے اسے پٹہ پر گرا دیا اور پھر اٹھنے نہ دیا.... پھر کس طاقت نے سر اور کچھ حصے کو بچا رہنے دیا.... جبکہ اس مشین میں تو بڑے بڑے سخت پتھر بھی آٹا بن جاتے ہیں.... اور پھر جسم کے آخری حصے اور سر کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے چلتی مشین کو روک کس نے دیا.... یہ آج بھی ایک راز اور معمہ ہے جسے اللہ کی ذات بہتر جانتی ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ وہ ظالموں متکبروں اور اپنے باغیوں کو عبرت کا نشان بنانے اور کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بعض دفعہ ایسے طریقے اختیار کرتی ہے کہ عقل انسانی سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔
لہٰذا اے ظلم کرنے والے چوہدریو!.... اے تکبر اور غرور کرنے والے سیاستدانو.... اے اپنے ماتحتوں پر جبر کرنے والو.... اے اللہ کے احکامات کے باغیو! ....ان مثالوں کو ذہن میں رکھو، عبرت پکڑو، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے کسی بھی لمحے برس سکتی ہے.... اور اس انداز میں برس سکتی ہے کہ وہم و گمان میں بھی نہ ہو ....اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے، وہ کسی لمحہ بھی بندہ کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے.... لہٰذا روک لو اپنے ہاتھوں کو ظلم سے.... کہ بعض دفعہ دنیا میں کئے گئے جرائم کا بدلہ آخرت میں تو ملنا ہی ہے دنیا میں بھی مل جاتا ہے، جو آپ کی آئندہ آنے والی نسلوں کے چہروں پر بدنمائی کا نشان بن کر رہ جاتا ہے۔



بشکریہ ،، ہفت روزہ جرار
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top