حضور نبی اکرمﷺ خطبۂ جمعہ میں اکثر فرمایا کرتے تھے’’ سب سے بہترین بات اﷲ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین راستہ محمد ﷺ کا راستہ۔‘‘ اِسی طرح علامہ اقبال کا یہ فارسی شعر بھی زبان زدعام ہے:
مصطفیٰ برساں خویش کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی تمام بو لہبیت
جس طرح قرآن پاک زبانِ نبیﷺ سے ادا ہوا اور لوگوں نے اِسے محفوظ کیا، اِسی طرح احادیث بھی براہ نطق آشکارا ہوئیں اور صحابہ کرامؓ نے احتیاط سے انہیں محفوظ کر لیا۔ عمل کے اعتبار سے مسلمانوں کو دونوں کی ضرورت تھی کیونکہ قرآن کے احکامات مجمل ہیں اوراحادیث کے مفصل۔
اسلامی قوانین کے یہی دو اہم ترین ماخذ زیر تبصرہ کتاب کے موضوع ہیں۔ جناب یوسف ثانی نے جس عرق ریزی، جاں فشانی اور تحقیق سے قرآن و حدیث کے مطالب اکٹھے کیے ہیں، وہ اِن کے کمالِ فن کا ثبوت ہے۔ اُمید ہے کہ یہ سعی و کاوش ان کے لیے توشۂ آخرت بنے گی۔
یہ کتاب یوں بھی اہمیت رکھتی ہے کہ کتاب و سنت پر عملِ پیہم ہی نے مسلمانوں کو دُنیا میں سربلندی و وُقعت عطا کی تھی۔ جب اُن سے استفادہ ترک کر دیا گیاتو مسلمان ایسے قعرِ مذلت میں گرے کہ پھر سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ اب بھی نسخہ تو وہی ہے، اگر مسلمان بخلوص و رغبت اِسے استعمال کریں تو بگڑی پھر سنور سکتی ہے۔ نہ چاہیں تو جو اُن کی رضا!
اِس وقت پورا عالمِ اسلام اغیار کے پنجۂ خونی میں جکڑا ہوا ہے۔ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا، جب اغیار تمہیں (مسلمانوں کو) اِس طرح جنگ کی دعوت دیں گے جیسے کوئی کسی کو دستر خوان پردعوتِ طعام دیتا ہے۔ تاہم دعوتِ حق کا پیغام پہنچانا فرض اوّل ہے جو بہرِ صورت کرتے رہنا ہے، نتائج اﷲ رب العالمین کی دسترس میں ہیں۔
اِس بابرکت کاوش کے لیے جناب یوسف ثانی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ جس سہل اور خوبصورت انداز میں اُنہوں نے عامۃ المسلمین کو دینِ حق کے اصل ماخذ کی طرف رُجوع ہونے کی دعوت دی ہے، وہ لائق تحسین ہے۔
تبصرہ: محمود جمال (اردو ڈائجسٹ، لاہور)
اصل مآخذ