• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چار دن قربانی سے متعلق بیہقی کی ایک حدیث کی تحقیق

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أنبأ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ، ثنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ سَمَّاهُ نَافِعٌ فَنَسِيتُهُ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ غِفَارٍ: " قُمْ فَأَذِّنْ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ , وَأَنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ أَيَّامُ مِنًى ". زَادَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى: وَذَبْحٍ , يَقُولُ: أَيَّامُ ذَبْحٍ , ابْنُ جُرَيْجٍ يَقُولُهُ
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ: تم کھڑے ہو اور اعلان کردو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائے گا اور ایام منی (ایام تشریق) یہ کھانے پینے کے دن ہیں ، ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے استاذ سلیمان بن موسی نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ''ذبح '' کے لفظ کا اضافہ کیا ہے ، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں[السنن الكبرى للبيهقي: 19/ 368 رقم 19270 ت مرکز ھجر]


اس حدیث کی سند صحیح ہےعلامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔[ الصحيحة :5/ 621 تحت الرقم 2476].
اس کے راویوں کا مختصر تعارف ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نافع بن جبير النوفلي:
صحابی رسول سے اس حدیث کو نقل کرنے والے ''نافع بن جبير النوفلي'' ہیں ، آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ امام ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
ثقة فاضل [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7072]۔

عمرو بن دينار المكى:
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ اور زبردست امام ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
ثقة ثبت[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم5024]

سليمان بن موسى القرشى:
آپ صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں اس کے ساتھ ساتھ آپ بہت بڑے فقیہ اور امام ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں ''الامام الکبیر'' یعنی بہت بڑے امام اور''مفتی دمشق '' کہا ہے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 433]۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ثقة
یہ ثقہ تھے[الطبقات لابن سعد: 7/ 318]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وَهو عندي ثبت صدوق
یہ میرے نزدیک ثبت اور صدوق ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 262]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
سليمان بن موسى ، من الثقات الحفاظ
سلیمان موسی حفاظ اورثقہ لوگوں میں سے ہیں[علل الدارقطني: 15/ 14]۔

اس کے علاوہ اور بھی متعدد محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے بعض سے معمولی جرح منقول ہے لیکن صریح اور واضح توثیق کے بالمقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق ص 41 تا 54 از علامہ ومحدث محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ۔

عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج:
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اورزبردست ثقہ راوی ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
ثقة فقيه فاضل[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم4193]۔

آپ زبردست ثقہ ہونے کے باوجود بھی مدلس ہیں لیکن یہاں پر آپ نے بالجزم زیادتی والی بات کی نسبت براہ راست اپنے استاذ ''سلیمان بن موسی'' کی طرف کی ہے لہٰذا یہاں تدلیس کےاعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

روح بن عبادة القيسي:
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اورزبردست ثقہ راوی ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
ثقة فاضل له تصانيف[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1962]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
الحارث بن أبي أسامة التميمي:

امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا:
اسمع منه فإنه ثقة
ان کی حدیث سنو یہ ثقہ ہیں:[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 218 واسنادہ صحیح]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
صدوق
یہ سچے ہیں [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 290]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان ثقة
یہ ثقہ تھے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 218]۔

ایک سند جس میں حارث بھی ہیں ،اس کے بارے میں امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
رجال إسناد هذا الحديث ثقات كلهم
اس سند کے تمام رجال ثقہ ہیں[الإنصاف لابن عبد البر ص:176]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الحارث نفسه ثقة
حارث فی نفسہ ثقہ ہیں[تاريخ الإسلام ت بشار 6/ 732]۔

تنبیہ:
نومولود جماعت المسلمین یعنی فرقہ مسعودیہ میں سے کسی محمداشتیاق نے زیربحث حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے کہا:
حارث بن ابی اسامہ کا حال معلوم نہیں[کیاخصی جانور کی قربانی جائزہے: ص 16].
عرض ہے کہ بالا سطور میں حارث بن ابی اسامہ کی توثیق پیش کی جاچکی ہے اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حارث بن ابی اسامہ معروف ثقہ راوی ہیں وہیں پر یہ بھی پتہ چلا کہ فرقہ مسعودیہ کے اشتیاق صاحب نے اپنی جہالت کو دلیل کی حیثیت دے دی ہے ۔ اگرموصوف کو حارث بن ابی اسامہ کا حال نہیں معلوم تھا تو آں جناب اپنی جہالت کے اظہار ہی پر اکتفاء کرتے ، لیکن اس سے آگے بڑھ کر محض اپنی جہالت کی بنیاد پر یہ فیصلہ کردینا کہ فلاں راوی کا حال معلوم ہی نہیں جہالت درجہالت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
أحمد بن عبيد بن إسماعيل الصفار البصري:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان ثقة ثبتا
یہ ثقہ اور ثبت تھے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 4/ 261]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)نے کہا:
الحافظ الثقة
یہ حافظ اورثقہ تھے[تذكرة الحفاظ للذهبي: 3/ 876]

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے کہا:
الْحَافِظ الثِّقَة
یہ حافظ اورثقہ تھے[طبقات الحفاظ للسيوطي: ص: 359]

امام ابن العماد رحمه الله (المتوفى 1089)نے کہا:
الحافظ الثقة
یہ حافظ اورثقہ تھے[شذرات الذهب لابن العماد: 4/ 277]۔

تنبیہ:
نومولود جماعت المسلمین یعنی فرقہ مسعودیہ میں سے کسی محمداشتیاق نے زیربحث حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے کہا:
احمدبن عبیدپربھی کلام ہے ،صرف ابن حبان نے اپنی عادت کے مطابق ثقہ کہا ہے (تہذیب)[کیاخصی جانور کی قربانی جائزہے: ص 16].
عرض ہے کہ یہ سفید جھوٹ ہے یا محمداشتیاق صاحب کی نری جہالت ہے کیونکہ اس راوی کا تذکرہ تہذیب میں ہے ہی نہیں ، اشتیاق صاحب نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا جہالت کی وجہ سے یہاں کسی اور راوی کو سمجھ لیا ہے ۔
بہرحال یہ راوی ثقہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی محدث نے ان پر سرے سے کوئی جرح کی ہی نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
علي بن أحمد بن عبدان الشیرازی:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان ثقة
[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 11/ 329]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ثقة مشهور، عالي الإسناد
یہ مشہور ثقہ اور عالی الاسناد تھے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 17/ 398]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے اپنے ان استاذ کے طریق سے ایک روایت نقل کرکے کہا:
هذا إسناد صحيح
یہ سند صحیح ہے[السنن الكبرى للبيهقي: 6/ 113]

یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ کے یہ استاذ امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ و معتبرتھے۔ والحمدللہ۔

تنبیہ:
نومولود جماعت المسلمین یعنی فرقہ مسعودیہ میں سے کسی محمداشتیاق نے زیربحث حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے کہا:
علی بن احمد بن عبدان کون ہے معلوم نہیں[کیاخصی جانور کی قربانی جائزہے: ص 16].
عرض ہے کہ یہاں بھی اشتیاق مسعودی نے اپنی جہالت کو دلیل بنالیا ، فالی اللہ المشتکی۔
اشتیاق مسعودی کو کون سمجھائے کہ جس راوی سے موصوف اپنی جہالت کا اعتراف کررہے ہیں وہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے استاذ ہیں اور امام بیہقی سمیت متعدد محدثین کی نظر میں یہ ثقہ ہیں نیز دنیا کے کسی بھی محدث نے ان پر معمولی سی جرح بھی نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تنبیہ بلیغ:

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وهذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات، لكن ليس فيه قول:" وذبح " الذي هو موضع الشاهد وإنما فيه أن ابن جريج رواه عن سليمان بن موسى. يعني مرسلا لأنه لم يذكر إسناده. فهو شاهد قوي مرسل للطرق الموصولة السابقة
اس کی سند صحیح ہے اس کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن اس میں ''ذبح '' کا لفظ نہیں ہے جو کہ محل شاہدہے بلکہ اس میں ہے کہ ابن جریج اسے سلیمان بن موسی سے روایت کیا ہے یعنی مرسلا کیونکہ انہوں نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے ، تو یہ مرسل گذشتہ موصول طرق کے لئے قوی شاہدہے[ الصحيحة :5/ 621 تحت الرقم 2476].

یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ سلیمان بن موسی کے اضافہ والی بات کو محض مرسل صحیح مانا ہے اور اسے دیگر موصول روایت کا شاہد تسلیم کرکے صحیح باور کیا ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک سلیمان بن موسی کی زیادتی کو مرسل قرار دینا غلط ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلیمان بن موسی نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے لیکن یہ درست نہیں ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ سلیمان بن موسی نے اس کی صحیح سند ذکر کی ہے ۔ اور یہ وہی سند ہے جس سے پوری اصل روایت منقول ہے ۔
دراصل زیربحث حدیث کی روایت میں ابن جریج کے دو استاتذہ ہیں ایک ''عمربن دینار'' اور دوسرے ''سلیمان بن موسی'' ۔ اورابن جریج کے ان دونوں اساتذہ نے زیربحث روایت کو نافع بن جبیر سے نقل کیا ہے ۔
اگراس کی کوئی الگ سند ہوتی تو امام بیہقی رحمہ اللہ اسے الگ سے ذکر کرتے جیساکہ اس کتاب میں ان کا معمول ہے لیکن یہاں پر امام بیہقی رحمہ اللہ نے سلیمان بن موسی سے اوپر کوئی الگ سند ذکر نہیں کی ہے بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا ہے کہ ''سلیمان بن موسی نے ایام ذبح کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے'' یہ طرزعمل اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں کی سند یکساں ہی ہے ۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي الأَوْبَرِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَاعِدًا ، وَحَافِيًا وَمُنْتَعِلاً[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 248]۔
اس کے فورا بعد امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَزَادَ فِيهِ : وَيَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ.[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 248]
اب کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے دوسرے طریق میں حسین بن محمد نے مرسل بیان کیاہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ہرشخص یہاں پر یہی کہے گا کہ اس دوسرے طریق میں بھی حسین بن محمد سے آگے وہی سند ہے جو پہلے طریق میں ہے۔
ہم کہتے ٹھیک اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابن جریج کا جو دوسرا طریق سلیمان موسی تک ذکر کیا ہے اس میں بھی سلیمان بن موسی سے آگے وہی سند ہے جسے امام بیہقی رحمہ اللہ پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔
محدث کبیر محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا روایت کا حاصل مطلب ہماری سمجھ کے مطابق یہ ہے کہ ابن جریج (عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج المتوفی 150 ) نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان بن موسی نے نافع بن جبیر سے یہ نقل کیا کہ ایک صحابی کا یہ بیان ہے کہ رسول اللہ نے لوگوں میں ایک آدمی کے ذریعہ اعلان کرادیا کہ ایام تشریق قربانی کے ایام ہیں[غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص86]۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بعض طرق میں پوری صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ ابن جریج کے استاذ سلیمان بن موسی نے اس حدیث کو نافع بن جبیرسے موصولا روایت کیا ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
حدثنا يحيى بن محمد بن صاعد نا أحمد بن منصور بن سيار نا محمد بن بكير الحضرمي نا سويد بن عبد العزيز عن سعيد بن عبد العزيز التنوخي عن سليمان بن موسى عن نافع بن جبير بن مطعم عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أيام التشريق كلها ذبح[سنن الدارقطني: 4/ 284]۔

اس سند میں غور کریں یہاں واضح طور پر سلیمان بن موسی نافع بن جبیر سے یہی حدیث موصولا روایت کررہے ہیں ۔
اس سے جہاں ایک طرف یہ ثابت ہوا کہ بیہقی کی زیر بحث حدیث میں ابن جریج سے آگے کی سند موصول ہے وہیں پر یہ بھی معلوم ہوا کہ سن دارقطنی وغیر میں سلیمان بن موسی سے سوید کی روایت صحیح ہے گرچہ وہ متکلم فیہ ہیں کیونکہ بیہقی کی زیربحث روایت میں ابن جریج جیسے بلندپایہ ثقہ امام نے بھی سلیمان سے یہ بات موصولا بیان کی ہے والحمدللہ۔
اسی حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
جس کا واضح مفاد یہ ہے کہ نافع بن جبیر سے حدیث مذکور کو سلیمان سے نقل کرنے میں امام سعید بن عبدالعزیز کی متابعت ابن جریج نے کررکھی ہے [غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص86]۔
اورایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
اس روایت کی نقل میں سعید کی معنوی متابعت وموافقت امام عبدالملک بن جریج عبدالعزیز قشیری نے کررکھی ہے ۔ یہ معلوم ہے کہ متابعت خفیف الضعف مجروح راوی کی بھی معتبر ہے اور یہ ثابت ہوگیا کہ سعیدبن عبدالعزیز اور عبدلملک بن عبدالعزیز دونوں کے دونوں حضرات اس حدیث کو متصل سند کے ساتھ بیان کرتے میں ایک دوسرے کے متابع ہیں لہٰذا یہ حدیث صحیح قرار پاتی ہے [غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص77]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ بحث

امام بیہقی کی روایت کردہ یہ حدیث بالکل صحیح ومتصل ہے ، اس صحیح ومتصل سند کے سامنے آنے کے بعد اب ایام تشریق کے ایام ذبح ہونے والی حدیث کی تصحیح کے لئے کسی بھی اورسند کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ نے بھی کہا:
سلیمان سے ابن جریج کی روایت کردہ زیربحث حدیث نے حدیث مذکور کو مزید شواہد ومتابعات سے مستغنی کردیاہے [غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص89]۔



اس پوی تٍفصیل سے معلوم ہوا کہ چار دن قربانی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح لذاتہ متصل مرفوع حدیث سے صراحۃ ثابت ہے۔
یادرہے کہ صحابہ میں عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی ایک بھی صحابی سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے تین دن قربانی ولا فتوی دیا ہو فرقہ مسعودیہ اور بعض لوگ احکام القران للطحاوی سے جو آثار نقل کرتے ہیں ان کی سندیں ضعیف ہیں۔
اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فتوی صحیح حدیث کے خلاف ہونے کے سبب غیرمسموع ہے بلکہ ممکن ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے رجوع کرلیا ہو جیساکہ خود عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے چار دن قربانی کی بات بھی منقول ہے مگر اس کے اصل مرجع تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی۔
بہرحال چار دن قربانی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔
 
Top