تنبیہ بلیغ:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات، لكن ليس فيه قول:" وذبح " الذي هو موضع الشاهد وإنما فيه أن ابن جريج رواه عن سليمان بن موسى. يعني مرسلا لأنه لم يذكر إسناده. فهو شاهد قوي مرسل للطرق الموصولة السابقة
اس کی سند صحیح ہے اس کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن اس میں ''ذبح '' کا لفظ نہیں ہے جو کہ محل شاہدہے بلکہ اس میں ہے کہ ابن جریج اسے سلیمان بن موسی سے روایت کیا ہے یعنی مرسلا کیونکہ انہوں نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے ، تو یہ مرسل گذشتہ موصول طرق کے لئے قوی شاہدہے[ الصحيحة :5/ 621 تحت الرقم 2476].
یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ سلیمان بن موسی کے اضافہ والی بات کو محض مرسل صحیح مانا ہے اور اسے دیگر موصول روایت کا شاہد تسلیم کرکے صحیح باور کیا ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک سلیمان بن موسی کی زیادتی کو مرسل قرار دینا غلط ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلیمان بن موسی نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے لیکن یہ درست نہیں ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ سلیمان بن موسی نے اس کی صحیح سند ذکر کی ہے ۔ اور یہ وہی سند ہے جس سے پوری اصل روایت منقول ہے ۔
دراصل زیربحث حدیث کی روایت میں ابن جریج کے دو استاتذہ ہیں ایک ''عمربن دینار'' اور دوسرے ''سلیمان بن موسی'' ۔ اورابن جریج کے ان دونوں اساتذہ نے زیربحث روایت کو نافع بن جبیر سے نقل کیا ہے ۔
اگراس کی کوئی الگ سند ہوتی تو امام بیہقی رحمہ اللہ اسے الگ سے ذکر کرتے جیساکہ اس کتاب میں ان کا معمول ہے لیکن یہاں پر امام بیہقی رحمہ اللہ نے سلیمان بن موسی سے اوپر کوئی الگ سند ذکر نہیں کی ہے بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا ہے کہ ''سلیمان بن موسی نے ایام ذبح کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے'' یہ طرزعمل اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں کی سند یکساں ہی ہے ۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي الأَوْبَرِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَاعِدًا ، وَحَافِيًا وَمُنْتَعِلاً[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 248]۔
اس کے فورا بعد امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَزَادَ فِيهِ : وَيَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ.[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 248]
اب کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے دوسرے طریق میں حسین بن محمد نے مرسل بیان کیاہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ہرشخص یہاں پر یہی کہے گا کہ اس دوسرے طریق میں بھی حسین بن محمد سے آگے وہی سند ہے جو پہلے طریق میں ہے۔
ہم کہتے ٹھیک اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابن جریج کا جو دوسرا طریق سلیمان موسی تک ذکر کیا ہے اس میں بھی سلیمان بن موسی سے آگے وہی سند ہے جسے امام بیہقی رحمہ اللہ پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔
محدث کبیر محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا روایت کا حاصل مطلب ہماری سمجھ کے مطابق یہ ہے کہ ابن جریج (عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج المتوفی 150 ) نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان بن موسی نے نافع بن جبیر سے یہ نقل کیا کہ ایک صحابی کا یہ بیان ہے کہ رسول اللہ نے لوگوں میں ایک آدمی کے ذریعہ اعلان کرادیا کہ ایام تشریق قربانی کے ایام ہیں[غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص86]۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بعض طرق میں پوری صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ ابن جریج کے استاذ سلیمان بن موسی نے اس حدیث کو نافع بن جبیرسے موصولا روایت کیا ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
حدثنا يحيى بن محمد بن صاعد نا أحمد بن منصور بن سيار نا محمد بن بكير الحضرمي نا سويد بن عبد العزيز عن سعيد بن عبد العزيز التنوخي عن سليمان بن موسى عن نافع بن جبير بن مطعم عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أيام التشريق كلها ذبح[سنن الدارقطني: 4/ 284]۔
اس سند میں غور کریں یہاں واضح طور پر سلیمان بن موسی نافع بن جبیر سے یہی حدیث موصولا روایت کررہے ہیں ۔
اس سے جہاں ایک طرف یہ ثابت ہوا کہ بیہقی کی زیر بحث حدیث میں ابن جریج سے آگے کی سند موصول ہے وہیں پر یہ بھی معلوم ہوا کہ سن دارقطنی وغیر میں سلیمان بن موسی سے سوید کی روایت صحیح ہے گرچہ وہ متکلم فیہ ہیں کیونکہ بیہقی کی زیربحث روایت میں ابن جریج جیسے بلندپایہ ثقہ امام نے بھی سلیمان سے یہ بات موصولا بیان کی ہے والحمدللہ۔
اسی حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
جس کا واضح مفاد یہ ہے کہ نافع بن جبیر سے حدیث مذکور کو سلیمان سے نقل کرنے میں امام سعید بن عبدالعزیز کی متابعت ابن جریج نے کررکھی ہے [غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص86]۔
اورایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
اس روایت کی نقل میں سعید کی معنوی متابعت وموافقت امام عبدالملک بن جریج عبدالعزیز قشیری نے کررکھی ہے ۔ یہ معلوم ہے کہ متابعت خفیف الضعف مجروح راوی کی بھی معتبر ہے اور یہ ثابت ہوگیا کہ سعیدبن عبدالعزیز اور عبدلملک بن عبدالعزیز دونوں کے دونوں حضرات اس حدیث کو متصل سند کے ساتھ بیان کرتے میں ایک دوسرے کے متابع ہیں لہٰذا یہ حدیث صحیح قرار پاتی ہے [غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق: ص77]۔