• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چار قابل نفرت انسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چار قابل نفرت انسان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَرْبَعَۃٌ یَبْغِضُھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ: أَلْبَیَّاعُ الْحَلاَّفُ، وَالْفَقِیْرُ الْمُخْتَالُ، وَالشَّیْخُ الزَّانِيُّ، وَالْاِمَامُ الْجَائِرُ۔ ))1
'' چار آدمیوں کو اللہ ناپسند فرماتے ہیں ایک قسمیں اٹھانے والا تاجر، دوسرا متکبر فقیر، تیسرا بوڑھا زانی چوتھا ظالم حکمران۔ ''
دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( ثَـلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ: شَیْخٌ زَانٍ، وَمَلِکٌ کَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَکْبِرٌ۔))2
'' تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کریں گے اور نہ انہیں پاک کریں گے اور نہ ہی ان کی طرف دیکھیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: ایک بوڑھا زانی، دوسرا جھوٹا حکمران اور تیسرا متکبر فقیر۔ ''
(۱)... قسمیں اٹھانے والا تاجر...: اس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے کہ وہ تاجر مراد ہے جو خرید و فروخت کے دوران کثرت سے قسمیں اٹھانے کا عادی ہو۔
اس سے دشمنی کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو شرف بخشا اور عزت سے نوازا ہے، یہ اس نام کی عزت کو محض حقیر دنیا کے حصول کی خاطر داغدار کرتا ہے، اللہ کے نام کو اپنے مال کی تعریف اور بطور حیلہ سازی استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کی بجائے ذلیل دنیا کی محبت راسخ ہے۔
یہ حالت سچی قسمیں اٹھانے والے کی ہے اور جو جھوٹی قسمیں اٹھانے کا عادی ہے اس کا کیا انجام ہوگا؟ اس کا اندازہ آپ خود لگالیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۸۸۰۔
2 أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: ثلاثۃ لا یکلمھم اللّٰہ تعالیٰ یوم القیامۃ ولا یزکیہم، رقم: ۲۹۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۲)... متکبر فقیر...: اس پر بھی بحث ہوچکی ہے کہ ایسا انسان مراد ہے جو فقیر ہونے کے باوجود تکبر کرتا اور لوگوں کو حقیر جانتا ہے۔
اس سے عداوت کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تکبر کے اسباب مہیا نہیں کیے لیکن اس کی گندی اور ذلیل طبع نے فقر کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے تکبر کو پسند کیا۔
(۳)... بوڑھا زانی...: وہ عمر رسیدہ انسان مراد ہے جس کی جنسی خواہشات کمزور ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجود زنا جیسی گندی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے، حالانکہ یہ وہ انسان ہے جو معصیت سے اجتناب کرسکتا تھا کیونکہ اس کو گناہ پر ابھارنے والے اسباب کمزور ہوچکے تھے۔
اگرچہ کوئی انسان معصوم عن الخطا نہیں لیکن جب اس گناہ اور نافرمانی کی ضرورت نہ ہو اور نہ ہی اس کی دعوت دینے والے اسباب ہوں تو پھر گناہ کا ارتکاب محض اللہ تعالیٰ کے حق سے عناد رکھتے ہوئے اور گناہ کو حقیر سمجھتے ہوئے قصداً ہوتا ہے۔ چنانچہ بوڑھا شخص عقل کے کامل ہونے اور طویل العمری کی وجہ سے معرفت کے پورا ہوجانے اور جماع اور عورت کی خواہش کے اسباب کمزور ہوجانے اور حرام پر ابھارنے والے جذبات سرد پڑجانے کے باوجود اگر حرام کاری کرے تو کیسا ہوگا؟
کیونکہ زنا کے اسباب میں جوانی، جنسی خواہش کا غلبہ اور کمزور عقل اور بچپنا ہے لیکن پھر بھی اس کی بری طبع نے اللہ کی نافرمانی میں گرنا پسند کیا۔
ظالم حکمران... وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قیادت اور منصب کی نعمت سے نوازا مگر اس کی بدبخت طبع نے انصاف کی بجائے ظلم اور شکر کی بجائے ناشکری کو پسند کیا۔ حکمران اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور قیامت کے روز اس کے متعلق پوچھا بھی جائے گا۔ شریعت کی حفاظت، حدود کا قیام اور فیصلوں میں انصاف کرنا، اس پر واجب اور ضروری ہے۔ اپنے ماتحت انسانوں اور دیگر اشیاء کی بہتری کے لیے تدابیر کرنا اور انہیں عملی جامہ پہنانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ نگران کی اپنی ذات مطلوب نہیں ہوتی بلکہ مالک نے جن اشیاء پر اسے نگہبان بنایا ہے ان کی حفاظت کرنا، اس سے مطلوب ہوتا ہے چنانچہ شریعت کی اجازت کے بغیر وہ کسی چیز میں بھی تصرف نہیں کرسکتا۔
جو حکمران مسلمانوں پر ظلم و زیادتی اور سختی کرتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بد دعا کی ہے:
(( أَللّٰھُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِيْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِيْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِھِمْ فَارْفُقْ بِہِ۔ ))1
'' اے اللہ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو پھر وہ ان پر سختی کرے تو تُو اس پر سختی کر اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہوا اور وہ ان پر نرمی کرے تو تُو بھی اس پر نرمی فرما۔ ''
دوسری حدیث میں فرمایا:
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : (( مَا مِنْ عَبْدِ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَھُوَ غَاشٌّ لِّرَعِیَّتِہٖ إِلاَّ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔ ))2
'' جس انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنادے اور وہ اپنی رعایا سے خیانت کرے اور مرجائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔ ''
کوئی بھی حاکم ان باتوں کا مصداق اس وقت ٹھہرے گا جب مسلمانوں کے ناحق اموال پکڑے اور انہیں ناجائز قتل کرے، ان کی بے عزتی کرے اور حقوق کی ادائیگی بھی ترک کردے۔ دین اور دنیا کے جن معاملات کی مسلمانوں کو پہچان کرانے کی ضرورت ہے انہیں پوشیدہ رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود قائم نہ کرے، مسلمانوں کی حفاظت کو ترک کردے اور فسادیوں کو کھلی چھٹی مل جائے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اسے حکمران اس لیے بنایا تھا کہ اللہ کے بندوں کی اصلاح اور خیر خواہی کرے گا نہ کہ ان سے دھوکہ اور فراڈ کرے۔ چنانچہ جب اس نے مذکورہ وجہ کو بدل ڈالا تو سزا کا مستحق ٹھہرا، اس پر جنت حرام کرنے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعید اور ڈانٹ اس پر لاگو کردی اور مظلوم اس سے ناراض ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَا مِنْ أَمِیْرٍ یَلِيْ أَمْرَ الْمُسْلِمِیْنَ ثُمَّ لَا یَجْھَدُ لَھُمْ وَیَنْصَحُ إِلاَّ لَمْ یَدْخُلْ مَعَھُمُ الْجَنَّۃَ۔ ))3
'' کوئی بھی حکمران جو مسلمانوں کے امور کا نگران بنا پھر وہ ان کی خیر خواہی اور ان کے لیے محنت نہیں کرتا تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۲۲۔
2 أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۲۹۔
3 أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۳۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ظالم حکمرانوں کے لیے یہ سخت ترین وعید ہے۔ چنانچہ جس نے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے ہوئے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنی رعایا سے دھوکہ و فراڈ کیا تو قیامت کے دن اس سے بندوں کے مظالم کا حساب طلب کیا جائے گا، لہٰذا امت عظیمہ پر کیے گئے ظلم سے کیسے چھٹکارا حاصل کرسکے گا؟ قاضی عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے: مذکورہ حدیث میں واضح طور پر اس انسان کے لیے انتباہ ہے جسے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کسی بھی معاملہ کا نگران بنائے اور ان کی دینی یا دنیوی کسی بھی مصلحت کے لیے کھڑا کرے مگر یہ خیانت سے کام لے۔ چنانچہ امانت میں خیانت یا تو مسلمانوں کے دینی معاملہ کی وضاحت کرنے کی بجائے چھپالینے اور ضائع کردینے سے ہوگی یا ان کی شریعت کی حفاظت کے لیے کھڑا نہ ہو اور نہ ہی شریعت میں در اندازی اور اس کے معانی کی تحریف کرنے والے کو روکتا ہے یا مسلمانوں کی حدود کو مہمل چھوڑتا ہے یا ان کے حقوق ضائع کرتا ہے یا ان کے شیرازہ کی حفاظت نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے دشمنوں سے جنگ کرتا ہے یا ان میں عدل و انصاف کو ترک کردینے سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے، چنانچہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حرکات کو جنت سے دور کرنے اور ہلاک کرنے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ فَالْأَمِیرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُمْ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلَی بَیْتِ بَعْلِہَا وَوَلَدِہٖ وَہِیَ مَسْئُولَۃٌ عَنْہُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَیِّدِہٖ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہٗ أَ لَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔ ))1
'' خبردار! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا، چنانچہ حاکم لوگوں کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اور مراد اپنے گھر والوں پر نگران ہے ۔اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۔عورت اپنے خاوند کے گھر پر نگران ہے اور وہ اس کے متعلق ذمہ دار ہے۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اسے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ خبردار! تم سبھی نگران ہو۔تم میں سے ہر کوئی اپنی رعایا کا مسئول ہے۔''
دوسری حدیث میں ظالم اور جابر حکمرانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برے انجام کی نوید سنائی ہے فرمایا:
(( إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَشَدَّہٗ عَذَابًا إِمَامٌ جَائِرٌ۔ ))2
'' اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے روز سب سے برا انسان اور سب سے سخت عذاب والا انسان جابر و ظالم حکمران ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۲۴۔
2 مسند أحمد، رقم: ۱۱۱۱۷، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ حسن۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top