• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چاپلوسی : ایک سماجی ناسور

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
تملق و چاپلوسی صالح معاشرہ کے لئے کینسر ہے ۔ چاپلوسی میں ایک چاپلوس کی انفرادی منفعت ہوتی ہے جبکہ پورے سماج کے لئے نقصان ہی نقصان ہوتاہے۔

چاپلوسی کے اسباب ومقاصد سے اس کا منفی پہلو واضح ہونے کے ساتھ اس کا علاج بھی مل جاتا ہے ۔
(1) کبھی کبھار آرام پسندی آدمی کو چاپلوس بنادیتی ہے وہ بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا چاہتا ہے جبکہ ہمیں اسلام نے کسب معاش کے لئے جدوجہد پہ ابھارا ہے ۔ حدیث رسول ﷺ ہے :

ما أَكَلَ أَحَدٌ طعامًا قطُّ ، خيرًا من أن يأكلَ من عملِ يدِه ، وإنَّ نبيَّ اللهِ داودَ عليهِ السلامُ كان يأكلُ من عملِ يدِه( صحيح البخاري:2072)
ترجمہ: کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔
یہ حدیث ہمیں معاش کے لئے محنت کرنے پہ ابھارتی ہے جو بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا پسند کرتے ہیں وہ حرام کاری میں مبتلا ہیں اسے توبہ کے ساتھ ساتھ رزق حلال کمانے کی ضرورت ہے ۔

(2) چاپلوسی کی ایک دوسری وجہ جھوٹی شہرت حاصل کرنا تاکہ لوگوں میں اس کی قدرومنزلت بڑھے اور جس کی چاپلوسی کرتا ہے اس کی نظر میں معتبرگردانا جائے ۔ واضح رہے اس کے بڑے خطرات ہیں ان میں جھوٹی تعریف یا کسی کے سامنے تعریف کرنا بھی ہے جو اسلام کی نظر میں معیوب ہی نہیں شدید قسم کا منکر ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :
إذا رأيتُم المدَّاحينَ ، فاحْثُوا في وجوهِهم التُّرابَ.(صحيح مسلم:3002)
ترجمہ: جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ۔
یہ حال ان لوگوں کا ہے جو سامنے صحیح تعریف کرتے ہیں تو جو جھوٹی تعریف کرے ان کا کیا حال ہوگا؟
ایک بار نبی ﷺ نے بنی عامر کے وفد کو اپنے لئے سید استعمال کرنے پہ ٹوک دیا اور فرمایا: ولا يَسْتَجْريَنَّكم الشيطانُ(صحيح أبي داود:4806) یعنی شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو۔

اس کے علاوہ اس میں منافقت اور دنیا طلبی بھی ہے جو ایمان کے لئے بہت خطرناک ہے ۔

(3) کچھ لوگ ماحول سے ماثر ہوکر اس بیماری میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔ اس لئے اچھے ماحول میں رہنا، اچھا ساتھی بنانا اور ہمیشہ اللہ کی بندگی کرتے رہنا انسان کو ہمیشہ ذلت ورسوائی سے بچائے گا ۔

(4) بسااوقات دوسروں سے بدلہ لینے یا نقصان پہنچانے یا دوسروں کی چغلخوری انسان کو چاپلوسی کے راستے پہ لگادیتی ہے ۔ مومن بندہ کبھی بھی کسی مومن کو تکلیف نہیں دیتا ۔ اور وہ مسلمان ہی نہیں جو دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

المسلمُ من سلِم المسلمون من لسانِه ويدِه(صحيح البخاري:6484)
ترجمہ : مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے یعنی جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ رہیں وہ مسلمان ہی نہیں ۔
جو غیبت و چغلی کرتا ہے وہ بھی دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے اس کا بھی اسلام سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ کو غلط استعمال سے بچائے ۔ اس غلط استعمال سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوسکتی ہے ۔

(5) اپنی عیب پوشی کی خاطر بھی چاپلوسی کی جاتی ہے ۔ اس قسم کا علاج یہ ہے کہ اگر رب کا گنہگار ہے تو رب سے معافی مانگ لے اور سچی توبہ کرلے ۔ اورانسان اگر انسان کا گنہگار ہے تو پھراس سے معافی طلب کرلے ۔ یہ بڑا سخت مرحلہ ہوتا ہے ۔ رب سے معافی مانگی آسان ہے مگر بندوں سے معافی ذلت تصور کیا جاتا ہے ۔ بندہ یہ بھول جاتا ہے کہ کل قیامت میں آج سے کہیں زیادہ ذلیل ورسوا ہونا پڑے گا جہاں رشتے ناطے اور دوست واحباب سے لیکر پوری دنیا والے ہوں گے ۔ دانا وبینا وہی ہےجوبڑی ذلت سے بچنے کے لئے چھوٹی ذلت برداشت کرلے ۔ حقیقت میں اپنی غلطی کی معافی مانگنا ذلت نہیں بڑکپن ہے ،اس بڑکپن سے اللہ تعالی بھی خوش ہوجاتا ہے ۔

(6) منصب بھی کیاچیز ہے جس کے دل میں اس کی حرص پیدا ہوجائے وہ اس کے حصول کے لئے چاپلوسی تو کیا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک اس کے بے شمار واقعات تاریخ میں مرقوم ہیں ، ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ چاپلوسی انسان کو سکون نہیں دیتی ۔ اس کے ذریعہ عہدومنصب پاتوسکتا ہے مگر سکون نہیں پاسکتاکیونکہ اس کا منصب معیاری بنیاد پہ نہیں چاپلوسی پہ قائم ہے ۔ ہمیں اگر سکون سے زندگی گذارنا ہے تو اولا :منصب کی چاہت اپنے دل سے نکالنی ہوگی ۔ گر خود سے مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ ثانیا :منافقت کی تنگ وتاریک راہوں سے نکلنا پڑے گا ۔ چاپلوسی ایسی وبا ہے جو منافقت کی ساری قسمیں اپنے اندر سمو لیتی ہے یعنی ایک بیماری سے ہزار بیماریاں جنم لے لیتی ہیں اس لئے ہمیں کسی بھی مفاد کی خاطر کسی قسم کی چاپلوسی نہیں کرنی ہے ۔

 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
چاپلوس انسان منافق بھی ہوتا ہے ، یا دو چہرے رکھنے والا۔اس حوالے سے بھی بتائیں کہ ایسے انسان کو اپنے سامنے پا کر دوسرا شکص کس طرح ردعمل دے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
چاپلوس انسان منافق بھی ہوتا ہے ، یا دو چہرے رکھنے والا۔اس حوالے سے بھی بتائیں کہ ایسے انسان کو اپنے سامنے پا کر دوسرا شکص کس طرح ردعمل دے۔
منافق تو اسلام سے خارج ہے مگر چاپلوس وہ منافق نہیں جسکی وجہ سے اسلام سے خارج ہو ۔ کسی شخص سے ایسی حرکت کا علم ہو " الدین النصیحۃ" (دین نصیحت کا نام ہے) پر عمل کرے ۔ جسے چاپلوسی کا بھیانک انجام معلوم ہوجائے گا ان شاء اللہ اس کام سے توبہ کرے گا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
میں نے اس مضمون میں تھوڑا اضافہ کیا ہے اگر برادرم محمد نعیم یونس صاحب مضمون میں تعدیل کردے توبہت اچھا رہے گا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
چاپلوسی : ایک سماجی ناسور

تحریر: مقبول احمد سلفی
داعی /دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد،طائف، سعودی عرب

تملق و چاپلوسی صالح معاشرہ کے لئے کینسر ہے ۔ چاپلوسی میں ایک چاپلوس کی انفرادی منفعت ہوتی ہے جبکہ پورے سماج کے لئے نقصان ہی نقصان ہوتاہے۔ یہ اتنی مذموم حرکت ہے کہ اسے سماج میں گندے اور گھناؤنے القاب سے جانا جاتا ہے مثلا تلوے چاٹنا، خصیہ برداری کرنا اورچمچہ گری کرنا وغیرہ
چاپلوسی کے اسباب ومقاصد سے اس کا منفی پہلو واضح ہونے کے ساتھ اس کا علاج بھی مل جاتا ہے ۔

پہلا : آرام پسندی :-
کبھی کبھار آرام پسندی آدمی کو چاپلوس بنادیتی ہے وہ بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا چاہتا ہے جبکہ ہمیں اسلام نے کسب معاش کے لئے جدوجہد پہ ابھارا ہے ۔ حدیث رسول ﷺ ہے :
ما أَكَلَ أَحَدٌ طعامًا قطُّ ، خيرًا من أن يأكلَ من عملِ يدِه ، وإنَّ نبيَّ اللهِ داودَ عليهِ السلامُ كان يأكلُ من عملِ يدِه( صحيح البخاري:2072)
ترجمہ: کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔
یہ حدیث ہمیں معاش کے لئے محنت کرنے پہ ابھارتی ہے جو بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا پسند کرتے ہیں وہ حرام کاری میں مبتلا ہیں اسے توبہ کے ساتھ ساتھ رزق حلال کمانے کی ضرورت ہے ۔

دوسرا: شہرت طلبی : -
چاپلوسی کی ایک دوسری وجہ جھوٹی شہرت حاصل کرنا تاکہ لوگوں میں اس کی قدرومنزلت بڑھے اور جس کی چاپلوسی کرتا ہے اس کی نظر میں معتبرگردانا جائے ۔ واضح رہے اس کے بڑے خطرات ہیں ان میں جھوٹی تعریف یا کسی کے سامنے تعریف کرنا بھی ہے جو اسلام کی نظر میں معیوب ہی نہیں شدید قسم کا منکر ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :
إذا رأيتُم المدَّاحينَ ، فاحْثُوا في وجوهِهم التُّرابَ.(صحيح مسلم:3002)
ترجمہ: جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ۔
یہ حال ان لوگوں کا ہے جو سامنے صحیح تعریف کرتے ہیں تو جو جھوٹی تعریف کرے ان کا کیا حال ہوگا؟
ایک بار نبی ﷺ نے بنی عامر کے وفد کو اپنے لئے سید استعمال کرنے پہ ٹوک دیا اور فرمایا: ولا يَسْتَجْريَنَّكم الشيطانُ(صحيح أبي داود:4806) یعنی شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو۔

اس کے علاوہ اس میں منافقت اور دنیا طلبی بھی ہے جو ایمان کے لئے بہت خطرناک ہے ۔

تیسرا : ماحول کا اثر:-
کچھ لوگ ماحول سے ماثر ہوکر اس بیماری میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔ اس لئے اچھے ماحول میں رہنا، اچھا ساتھی بنانا اور ہمیشہ اللہ کی بندگی کرتے رہنا انسان کو ہمیشہ ذلت ورسوائی سے بچائے گا ۔

چوتھا : دوسروں کی ایذاررسانی :-
بسااوقات دوسروں سے بدلہ لینے یا نقصان پہنچانے یا دوسروں کی چغلخوری انسان کو چاپلوسی کے راستے پہ لگادیتی ہے ۔ مومن بندہ کبھی بھی کسی مومن کو تکلیف نہیں دیتا ۔ اور وہ مسلمان ہی نہیں جو دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
المسلمُ من سلِم المسلمون من لسانِه ويدِه(صحيح البخاري:6484)
ترجمہ : مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے یعنی جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ رہیں وہ مسلمان ہی نہیں ۔
جو غیبت و چغلی کرتا ہے وہ بھی دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے اس کا بھی اسلام سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ کو غلط استعمال سے بچائے ۔ اس غلط استعمال سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوسکتی ہے ۔

پانچواں : عیب پوشی :-
اپنی عیب پوشی کی خاطر بھی چاپلوسی کی جاتی ہے ۔ اس قسم کا علاج یہ ہے کہ اگر رب کا گنہگار ہے تو رب سے معافی مانگ لے اور سچی توبہ کرلے ۔ اورانسان اگر انسان کا گنہگار ہے تو پھراس سے معافی طلب کرلے ۔ یہ بڑا سخت مرحلہ ہوتا ہے ۔ رب سے معافی مانگی آسان ہے مگر بندوں سے معافی ذلت تصور کیا جاتا ہے ۔ بندہ یہ بھول جاتا ہے کہ کل قیامت میں آج سے کہیں زیادہ ذلیل ورسوا ہونا پڑے گا جہاں رشتے ناطے اور دوست واحباب سے لیکر پوری دنیا والے ہوں گے ۔ دانا وبینا وہی ہےجوبڑی ذلت سے بچنے کے لئے چھوٹی ذلت برداشت کرلے ۔ حقیقت میں اپنی غلطی کی معافی مانگنا ذلت نہیں بڑکپن ہے ،اس بڑکپن سے اللہ تعالی بھی خوش ہوجاتا ہے ۔

چھٹا:عہدہ ومنصب کی حرص:-
منصب بھی کیاچیز ہے جس کے دل میں اس کی حرص پیدا ہوجائے وہ اس کے حصول کے لئے چاپلوسی تو کیا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک اس کے بے شمار واقعات تاریخ میں مرقوم ہیں ، ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ چاپلوسی انسان کو سکون نہیں دیتی ۔ اس کے ذریعہ عہدومنصب پاتوسکتا ہے مگر سکون نہیں پاسکتاکیونکہ اس کا منصب معیاری بنیاد پہ نہیں چاپلوسی پہ قائم ہے ۔ ہمیں اگر سکون سے زندگی گذارنا ہے تو اولا :منصب کی چاہت اپنے دل سے نکالنی ہوگی ۔ گر خود سے مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ ثانیا :منافقت کی تنگ وتاریک راہوں سے نکلنا پڑے گا ۔ چاپلوسی ایسی وبا ہے جو منافقت کی ساری قسمیں اپنے اندر سمو لیتی ہے یعنی ایک بیماری سے ہزار بیماریاں جنم لے لیتی ہیں اس لئے ہمیں کسی بھی مفاد کی خاطر کسی قسم کی چاپلوسی نہیں کرنی ہے ۔

ایک شبہ کا ازالہ :
بعض لوگ چاپلوسی کو وقت کی نزاکت اور مجبوری کا نام دیتے ہیں ، یہ کہتے ہوئے کہ نوکری / عہدہ بچانے کے لئے کبھی ایسا کرنا مجبوری بن جاتی ہے اس لئے ایسے حالات میں چاپلوسی کرنا کوئی حرج کی بات نہیں ۔ دلیل میں مضطرکے لئے خنزیر کی حلت پیش کرتے ہیں ۔
اگر چاپلوسی کو مجبوری کا نام دے کر جائز ٹھہرالیا جائے تو پھربغیرحلت وحرمت کے کسب معاش کے لئے کوئی بھی پیشہ اختیار کیاجاسکتا ہے جبکہ اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ۔ جہاں تک مضطر کے لئے خنزیرکی حلت کا مسئلہ ہے تو یہ صرف جان بچانے کے لئے اور چاپلوس کو جان کی کوئی پرواہ نہیں کرسی ومعاش بچانے کی فکر ہے اور کرسی و عہدہ بچانے والا مضطر نہیں ہے ۔ ہزاروں ذرائع ہیں کسی بھی جائز ذریعہ سے معیشت حاصل کی جاسکتی ہے ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
منافق تو اسلام سے خارج ہے مگر چاپلوس وہ منافق نہیں جسکی وجہ سے اسلام سے خارج ہو ۔ کسی شخص سے ایسی حرکت کا علم ہو " الدین النصیحۃ" (دین نصیحت کا نام ہے) پر عمل کرے ۔ جسے چاپلوسی کا بھیانک انجام معلوم ہوجائے گا ان شاء اللہ اس کام سے توبہ کرے گا۔
شیخ محترم چاپلوسی میں کیا ایسا نہیں ہوتا کہ محض اوپر سے خوشامد کی جارہی ہو اور اندر سے یہ جذبات نہ ہو۔کیا یہ دو رخاپن نہیں ہو گا؟اور خارج ہونے کے حوالے سے نہیں پوچھ رہی ہوں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چاپلوسی : ایک سماجی ناسور

تحریر: مقبول احمد سلفی
داعی /دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد،طائف، سعودی عرب


تملق و چاپلوسی صالح معاشرہ کے لئے کینسر ہے ۔ چاپلوسی میں ایک چاپلوس کی انفرادی منفعت ہوتی ہے جبکہ پورے سماج کے لئے نقصان ہی نقصان ہوتاہے۔ یہ اتنی مذموم حرکت ہے کہ اسے سماج میں گندے اور گھناؤنے القاب سے جانا جاتا ہے مثلا تلوے چاٹنا، خصیہ برداری کرنا اورچمچہ گری کرنا وغیرہ

چاپلوسی کے اسباب و مقاصد سے اس کا منفی پہلو واضح ہونے کے ساتھ اس کا علاج بھی مل جاتا ہے ۔

پہلا : آرام پسندی :-

کبھی کبھار آرام پسندی آدمی کو چاپلوس بنادیتی ہے وہ بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا چاہتا ہے جبکہ ہمیں اسلام نے کسب معاش کے لئے جدوجہد پہ ابھارا ہے ۔

حدیث رسول ﷺ ہے :

ما أَكَلَ أَحَدٌ طعامًا قطُّ ، خيرًا من أن يأكلَ من عملِ يدِه ، وإنَّ نبيَّ اللهِ داودَ عليهِ السلامُ كان يأكلُ من عملِ يدِه( صحيح البخاري:2072)

ترجمہ: کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔

یہ حدیث ہمیں معاش کے لئے محنت کرنے پہ ابھارتی ہے جو بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا پسند کرتے ہیں وہ حرام کاری میں مبتلا ہیں اسے توبہ کے ساتھ ساتھ رزق حلال کمانے کی ضرورت ہے ۔

دوسرا: شہرت طلبی : -

چاپلوسی کی ایک دوسری وجہ جھوٹی شہرت حاصل کرنا تاکہ لوگوں میں اس کی قدرومنزلت بڑھے اور جس کی چاپلوسی کرتا ہے اس کی نظر میں معتبرگردانا جائے ۔ واضح رہے اس کے بڑے خطرات ہیں ان میں جھوٹی تعریف یا کسی کے سامنے تعریف کرنا بھی ہے جو اسلام کی نظر میں معیوب ہی نہیں شدید قسم کا منکر ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :

إذا رأيتُم المدَّاحينَ ، فاحْثُوا في وجوهِهم التُّرابَ.(صحيح مسلم:3002)

ترجمہ: جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ۔

یہ حال ان لوگوں کا ہے جو سامنے صحیح تعریف کرتے ہیں تو جو جھوٹی تعریف کرے ان کا کیا حال ہوگا؟

ایک بار نبی ﷺ نے بنی عامر کے وفد کو اپنے لئے سید استعمال کرنے پہ ٹوک دیا اور فرمایا:

ولا يَسْتَجْريَنَّكم الشيطانُ(صحيح أبي داود:4806)

یعنی شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو۔

اس کے علاوہ اس میں منافقت اور دنیا طلبی بھی ہے جو ایمان کے لئے بہت خطرناک ہے ۔

تیسرا : ماحول کا اثر:-

کچھ لوگ ماحول سے ماثر ہوکر اس بیماری میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔ اس لئے اچھے ماحول میں رہنا، اچھا ساتھی بنانا اور ہمیشہ اللہ کی بندگی کرتے رہنا انسان کو ہمیشہ ذلت ورسوائی سے بچائے گا ۔

چوتھا : دوسروں کی ایذاررسانی :-

بسااوقات دوسروں سے بدلہ لینے یا نقصان پہنچانے یا دوسروں کی چغلخوری انسان کو چاپلوسی کے راستے پہ لگادیتی ہے ۔ مومن بندہ کبھی بھی کسی مومن کو تکلیف نہیں دیتا ۔ اور وہ مسلمان ہی نہیں جو دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے ۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :

المسلمُ من سلِم المسلمون من لسانِه ويدِه(صحيح البخاري:6484)

ترجمہ : مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے یعنی جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ رہیں وہ مسلمان ہی نہیں ۔

جو غیبت و چغلی کرتا ہے وہ بھی دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے اس کا بھی اسلام سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ کو غلط استعمال سے بچائے ۔ اس غلط استعمال سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوسکتی ہے ۔

پانچواں : عیب پوشی :-

اپنی عیب پوشی کی خاطر بھی چاپلوسی کی جاتی ہے ۔ اس قسم کا علاج یہ ہے کہ اگر رب کا گنہگار ہے تو رب سے معافی مانگ لے اور سچی توبہ کرلے ۔ اورانسان اگر انسان کا گنہگار ہے تو پھراس سے معافی طلب کرلے ۔ یہ بڑا سخت مرحلہ ہوتا ہے ۔ رب سے معافی مانگی آسان ہے مگر بندوں سے معافی ذلت تصور کیا جاتا ہے ۔ بندہ یہ بھول جاتا ہے کہ کل قیامت میں آج سے کہیں زیادہ ذلیل ورسوا ہونا پڑے گا جہاں رشتے ناطے اور دوست واحباب سے لیکر پوری دنیا والے ہوں گے ۔ دانا وبینا وہی ہےجوبڑی ذلت سے بچنے کے لئے چھوٹی ذلت برداشت کرلے ۔ حقیقت میں اپنی غلطی کی معافی مانگنا ذلت نہیں بڑکپن ہے ،اس بڑکپن سے اللہ تعالی بھی خوش ہوجاتا ہے ۔

چھٹا:عہدہ ومنصب کی حرص:-

منصب بھی کیاچیز ہے جس کے دل میں اس کی حرص پیدا ہوجائے وہ اس کے حصول کے لئے چاپلوسی تو کیا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک اس کے بے شمار واقعات تاریخ میں مرقوم ہیں ، ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ چاپلوسی انسان کو سکون نہیں دیتی ۔ اس کے ذریعہ عہدومنصب پاتوسکتا ہے مگر سکون نہیں پاسکتاکیونکہ اس کا منصب معیاری بنیاد پہ نہیں چاپلوسی پہ قائم ہے ۔ ہمیں اگر سکون سے زندگی گذارنا ہے تو

اولا :

منصب کی چاہت اپنے دل سے نکالنی ہوگی ۔ گر خود سے مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔

ثانیا :

منافقت کی تنگ وتاریک راہوں سے نکلنا پڑے گا ۔

چاپلوسی ایسی وبا ہے جو منافقت کی ساری قسمیں اپنے اندر سمو لیتی ہے یعنی ایک بیماری سے ہزار بیماریاں جنم لے لیتی ہیں اس لئے ہمیں کسی بھی مفاد کی خاطر کسی قسم کی چاپلوسی نہیں کرنی ہے ۔

ایک شبہ کا ازالہ :

بعض لوگ چاپلوسی کو وقت کی نزاکت اور مجبوری کا نام دیتے ہیں ، یہ کہتے ہوئے کہ نوکری / عہدہ بچانے کے لئے کبھی ایسا کرنا مجبوری بن جاتی ہے اس لئے ایسے حالات میں چاپلوسی کرنا کوئی حرج کی بات نہیں ۔ دلیل میں مضطرکے لئے خنزیر کی حلت پیش کرتے ہیں ۔

اگر چاپلوسی کو مجبوری کا نام دے کر جائز ٹھہرالیا جائے تو پھربغیرحلت وحرمت کے کسب معاش کے لئے کوئی بھی پیشہ اختیار کیاجاسکتا ہے جبکہ اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ۔ جہاں تک مضطر کے لئے خنزیرکی حلت کا مسئلہ ہے تو یہ صرف جان بچانے کے لئے اور چاپلوس کو جان کی کوئی پرواہ نہیں کرسی ومعاش بچانے کی فکر ہے اور کرسی و عہدہ بچانے والا مضطر نہیں ہے ۔ ہزاروں ذرائع ہیں کسی بھی جائز ذریعہ سے معیشت حاصل کی جاسکتی ہے ۔
 
Top