عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,870
- پوائنٹ
- 157
چند باطل فرقوں کا تعارف
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ۔ (فتاوی الدین الخالص،اردو سے ماخوذ)الزنادقہ:
ملا علی قاری مرقات میں،جیسے کہ حواشی مشکوۃ(۲/۲۰۷)میں بھی ذکر ہے،زنادقہ زندیق کی جمع ہے فیروزآبادی’’قاموس‘‘میں کہتے ہیں:الزدیق:زاءکی کسرہ کے ساتھ،دو معبودوں کو ماننے والا یا ظلمت اور نور کے قائل یا جو آخرت اور ربوبیت کا عقیدہ نہیں رکھتا۔یا جو بظاہر مومن بنے اور دل میں کفر رکھےاور یہ زن دین،کا معرب ہے جس کا معنی ہے’’عورت کا دین‘‘
حدیث عکرمہ’’علی رضی اللہ عنہ کے پاس زندیق لائے گئےآپ نے ان کو جلا دیا‘‘الحدیث کے تحت کہتے ہیں:
زندیق وہ ہےجو بقاءدھر کا قائل ہےآخرت اورخالق پر یقین نہیں رکھتا اور کہتا ہےکہ حلال و حرام سب ایک ہیں اور اس کی توبہ کی قبولیت میں دو روایتیں ہیں اور راجح یہی ہےکہ امام و قاضی کے پاس اس کی توبہ مقبول نہیں۔باقی رہی عنداللہ اس کے توبہ کی قبولیت تو اللہ کے پاس تو ہر کافر کی توبہ قبول ہوتی ہےبشرطیکہ توبہ میں سچا ہو۔
ثعلب رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’زندیق‘‘’’اور برزین‘‘یہ عربی کے کلمے نہیں اور عام لوگوں کے نزدیک اس کا معنی ملحد اور دھری ہے۔
مولانا عبدالحق دہلوی نے حواشی مشکوۃ میں کہا ہے
بعد میں جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول پہنچا کہ کسی کو جلانے کی سزا دینی جائز نہیں آگ کا عذاب آگ کا رب ہی دے سکتا ہے۔تو جلانے کی سزا دینےسے رجوع کر لیا۔’’اصل میں یہ مجوسی کی کتاب زند کے پیروکارتھےاور اس حدیث میں ان سے مراد وہ لوگ تھےجواسلام سے مرتد ہوگئے تھےیا عبداللہ بن سبا کے پیروکارتھےجو فتنہ انگیزی اور امت کو گمراہ کرنے کے لیے بظاہر مسلمان بنے پھرتے تھےاوران کا دعوی یہ تھاکہ علی رب ہیں تو انہیں گرفتار کرکےان سے توبہ کروائی لیکن انہوں نے توبہ نہ کی پھر گڑھے کھدوا کر اس میں آگ جلائی اور انہیں اس میں پھینک دینے کا حکم دیا یہ ان کا اجتہادی فیصلہ تھا۔
الطبیعین:
القدریۃ:یہ اصحاب طبیعیات ہیں جو چیزوں کا پیدا ہونا اتفاقی سمجھتے ہیں اور طبیعت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عالم اتفاقی طور پر اور طبعی طور پر پیدا ہواتو حقیقی دھری ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں صرف ظن و تخمین کے تابعدار ہیں۔
یہ گمراہ فرقہ واثلہ بن الاسقع،عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے متاخرین صحابہ کےزمانے میں پیدا ہوا،انکار تقدیر کی بات سب سے پہلے معبدجھنی نے بصرہ میں کی،
امام نووی نے شرح مسلم میں کہا ہے قدریہ کے مختلف فرقے ہیں بعض ان میں اللہ تعالیٰ کے علم کی سابقیت کا انکار کرتے ہیں اور بعض پیدا کرنے سے پہلےتقدیر اشیاءکے منکر ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں،ان کے عقائد کی تفصیل مجموع الفتاوی(۸/۲۸۸۔۲۸۹)میں ہے۔جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نےاپنی صحیح (1/27)میں روایت کیا ہےکہ یہ حس بصری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھاتو انہوں نے اسے نکال دیا تھا۔اس کی بات عمرو بن عبید نے بھی مان لی تھی جسے حجاج بن یو سف نے پکڑ کر قتل کر دیا تھا۔
اور بعض قدریہ یہ امر نہی ثواب و عذاب کا اقرار کرتے ہیں لیکن اس کے قضاء و قدر و کتاب کے تقدم کا انکار کرتے ہیں اور یہ اواخر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد میں ظاہر ہوئے اور مالک،شافعی،احمد بن حنبل جیسے ائمہ نے انہیں کافر قرار دیاکیونکہ یہ اللہ کے علم قدیم کے منکر تھےاور بعض اللہ کے علم اور اس کے لکھے جانےکے تقدم کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے اس کے بعد امر نہی اور عمل کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ جس کے لیے سعادۃ کا فیصلہ لکھا گیا ہےوہ بغیر عمل کے جنت میں جائے گا اور جس کے لیے شقاوۃ کا فیصلہ کیا گیا ہےوہ بلا عمل بدبخت و شقی ہے:الخ
الجبریۃ
ناصبیۃیہ کہتے ہیں کی انسان جمادات کی طرح مجبور محض ہےاس کا نہ ارادہ ہےنہ کسب نہ ہی اختیار یہ بھی قدریہ کا ایک طائفہ ہے جن کی مختلف اصناف ہیں(الملل و النحل،للشہرستانی1/79)
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدے کے شروع میں کہا ہے:ابن منظور لسا ن العرب(۱۴/۱۵۷)میں کہتے ہیں:’’ناصبی ایک فرقہ ہےجن کا دین علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا ہے
’’اگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے محبت رکھنی ناصبیت ہوتوثقلین گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں‘‘
رافضی اہل سنت کو ناصبی کہتے ہیں جیسے کہ الغنیۃ(۱/۸۵)میں ہے۔
الغلاۃ
یہ نام ہے ہر اس شخص اور گروہ کاجو عقیدہ و عمل میں حد سے بڑھتا ہے۔