• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چند فقہی مسائل

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
چندفقہی مسائل


( مفتی منیب الرحمن )کالم نگار دنیا نیوز

حج اور قربانی کا موسم شروع ہو چکا ہے ، ا س حوالے سے چند سوالات آج کل پوچھے جارہے ہیں ، اس لیے اختصار کے ساتھ ان سوالات کے جوابات پیش کیے جار ہے ہیں ،جیسے مثلاً : لوگ پوچھتے ہیں کیا کہ آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟، کیونکہ سنا ہے کہ دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ان کی جفتی (Fertilization) حرام جانور سے کرائی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں اوّل تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فقہی رائے کا مدار افواہوں یا سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتابلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے، اسی لیے مسلَّمہ قاعدہ ہے کہ ''یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ‘‘۔ تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو یہ گائیں حلال ہیں ، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے ، اس لیے کہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے ، علامہ برہان الدین مرغینانی لکھتے ہیں : ''اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو ، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے ، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے ، یہاں تک کہ اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی ، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا ، اس کی قربانی جائز ہے ‘‘۔ اس کی شرح میں صاحبِ عنایہ علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ''کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ اس عہد کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)، یہ اس لیے کہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں (مادہ)کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے ، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے‘‘ (فتح القدیر، ج: 9، ص : 532)۔
ہمارے بہت سے لوگ یورپ اور امریکہ میں روز گا ر کے سلسلے میں مقیم ہیں اور وہ اپنی قربانی اپنے آبائی وطن میں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ وہاں بعض صورتوں میں اُن ممالک کے قوانین کی وجہ سے قربانی کرنا دشوار ہوتا ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ وہاں مستحقین دستیاب نہیں ہیں ، اس لیے وہ کسی کو وکیل بنا کر قربانی کی رقم پاکستان بھیج دیتے ہیں ۔ یہ وکیل ان کے خاندان کے لوگ اور عزیز رشتہ دار بھی ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں یہ لوگ دینی مدارس یارفاہی اداروں کو وکیل بنا کر رُقوم بھیجتے ہیں تاکہ قربانی کا گوشت پوست مستحقین تک پہنچ جائے ۔ اس سلسلے میں اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ مثلاً جس دن پاکستان میں ایک ایسے شخص کی قربانی بطور وکیل کی جارہی ہے ، جو امریکہ یا کینیڈا میں مقیم ہے ، توضروری ہے کہ اس دن کینیڈا یا امریکہ میں قربانی کرنی ہو ، خواہ پہلا دن ہو یا دوسر ا یا تیسرا (یعنی دس یا گیارہ یا بارہ ذوالحجہ) اور یہاں بھی وہ قربانی کا دن ہو ، خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا ، کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے‘ لیکن قربانی کے وقت کے اعتبار سے مقامِ ذبح کا اعتبار ہو گا کہ پاکستان میں صبح صادق سے غروبِ آفتاب کے درمیان کا وقت ہو ، کیونکہ رات کو قربانی کرنا جائز تو ہے ، مگر مکروہ ہے ۔ الغرض مذبوح عنہ (یعنی جس کی قربانی کی جارہی ہے،اس ) کے اعتبار سے بھی اور مقامِ ذبح دونوں کے اعتبار سے قربانی کا دن ہو نا چاہیے اور وقت کے لیے مقامِ ذبح کا اعتبار ہوگا ۔
ایک فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص کسی بھی سبب سے حج کے موسم (شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے ایامِ حج ) میں حرم میں پہنچ گیا تو اس پر حج فرض ہو جائے گا اور حج فرض ادا نہ کیا تو گنہگار ہو گا ۔ اب پاکستان سے لوگ رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جاتے ہیں اوربعض اوقات فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شوال کے ابتدائی دنوں تک مجبوراً رکنا پڑ تا ہے ۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا ان پر حج فرض ہو جائے گا اور نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے ، حالانکہ اُن کے پاس مصارف حج اور حج تک قیام کے لیے پیسے نہیں ہوتے ، مزید یہ کہ سعودی حکومت کے نزدیک ان کا قیام غیر قانونی ہوتا ہے اور قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں انہیں سزا ہو سکتی ہے یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ اور بعض صورتوں میں لوگ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ واپس اپنے وطن چلے آئیں ، ان پر حج فرض نہیں ہوا اور حج اد اکیے بغیر واپس جانے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ حج مُستطیع (صاحبِ استطاعت ) پر فرض ہے اور ایامِ حج تک رکنے اور مصارفِ حج ادا کرنے کی ان کے پاس استطاعت ہی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ مُستطیع ہی نہیں ہیں اور حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے، اس لیے حج ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے ۔
اور اگر اس کے پاس تکمیلِ حج تک سعودی عرب میں قیام اور دیگر مصارفِ حج کی استطاعت تو ہے، لیکن سعودی حکومت ان دنوں میں وہاں قیام کی اجازت نہیں دیتی، تو غیر قانونی طور رکنا شرعاً جائز نہیں ہے‘ کیونکہ ہم کسی ملک کا ویزا لے کر جاتے ہیں تو اس کے ضمن میں اُ س ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد بھی شامل ہوتاہے اور قانون شکنی کی صورت میں سزا یابے توقیری کے ساتھ ملک بدری کی نوبت بھی آسکتی ہے اور یہ شرعاً ناجائز ہے ۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے : ''مومن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے ، صحابہ کرام نے عرض کی : (یا رسول اللہ! )کوئی شخص اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا؟، آپ ﷺنے فرمایا :وہ اس طرح ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال سے دوچارکرے ، جس سے عہدہ برآ ہونے کی وہ طاقت نہیں رکھتا ، (لہٰذا انجامِ کار اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرناپڑے گا)‘‘ (سنن ترمذی : 2254)۔ الغرض مومن کے لیے عزتِ نفس اور اپنے شخصی وقار کا تحفظ ضروری ہے ۔
جو شخص بیک وقت حج وعمرے کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام ہی میں رہے اور حج ادا کرکے احرام کھولے، تو اسے قارِن (یعنی قِران کرنے والا )کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ حج اور عمرہ دونوںکی نیت کرے اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے اور پھر مکہ مکرمہ سے آٹھ ذوالحج کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ جائے اور حج مکمل کرے، تو اسے تمتُّع کہتے ہیں اور ایسے شخص کو مُتَمَتِّعٌ کہتے ہیں ۔ تمتع اور قران کرنے والے پر دو عبادات (عمرہ وحج ) کی سعادت سے سرفراز ہونے پر شکر انے کا دَم (قربانی )واجب ہے اور اسے دمِ تمتُّع اور دمِ قِران کہتے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قارِن چونکہ عمرہ ادا کرنے کے بعد بدستور اِحرام میں رہتا ہے اور مُحرِم ہوتا ہے ، اس لیے اگر اس سے کوئی جنایت سرزد ہوجائے ، تو جرم کی نوعیت کے اعتبار سے اس پر دو دم یا دو صدقے ہوں گے ، ''ہدایہ ‘‘ میں اسی طرح ہے ۔ لیکن اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے ، اگر قارِن نے اِحرام کی کسی جنایت کا ارتکاب کیا، جیسے سلا ہوا لباس پہن لیا یا بال کٹائے یا ناخن تراش لیے یا خوشبو استعمال کی ، تو اسے دمِ قران (شکرانے کی قربانی ) کے علاو ہ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے دوکفارے(خواہ دم ہو یا صدقہ ) دینے ہوں گے ، کیونکہ یہ جنایت عمرے اور حج دونوں کے احرام کے متعلق ہے ، تو جز ا بھی دو ہوں گی اور اگر اس سے ایسی جنایت سرزد ہوئی جس کا تعلق صرف عمرے سے ہے یا صرف حج سے ہے تو دمِ قران کے علاوہ صرف ایک اضافی کفّارہ (خواہ دم ہو یا صدقہ )دینا ہوگا ، جیسے صرف عمرے کا طواف بے وضو کیا یا جنابت کی حالت میں کیا یا عمرے کی سعی چھوڑ دی اور اسی طرح حج کا طواف جنابت کی حالت میں یا بے وضو کیا یا مغرب سے پہلے عرفات سے نکل گیا یا حج کی سعی یا رمی چھوڑ دی یا رمی سے پہلے حلق کر لیا یا قربانی کر لی (اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیک وقت ان ساری جنایات کا ارتکا ب کیا بلکہ ان میں سے کسی ایک کا ارتکاب کیا )تو صرف ایک کفّارہ ہو گا ، کیونکہ ان اُمور کا تعلق صرف حج سے ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اگر بالفرض ایک ہی حج میں ایک سے زائد جنایات کا ارتکاب کر دیا ، تو پھرجنایات کے مطابق اُتنے ہی دم یا صدقے دینے ہوں گے ۔
 

kbadakhshan05

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 11، 2015
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
ایامِ حیض میں اگر کوئی شخص بیوی کے قریب ہوا اور حمل ٹھرا تو بچہ جائز اولاد مانا جائے گا، کیونکہ ان دنوں بیوی کے پاس جانا حرام ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے جواب درکار ہے.
 
Top