- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مسجد کے ایک بزرگ نمازی محترم یوسف صاحب سےرفتہ رفتہ شناسائی بڑھتی گئی تو پتا چلا کہ وہ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔یوسف صاحب سے جب ملاقاتیں زیادہ ہوئیں تو اُن کی پرمزاح طبیعت اچھی لگی،اور پھرہم اکثر اوقات نماز کے بعد گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر یا چلتے چلتے گفتگو کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اُن کی رفاقت اختیار کر لیتے تھے۔ اس طرح کی ملاقاتوں کے دوران، ایک مرتبہ انہوں نے جیب سے ایک پلاسٹک کی پڑیا نکال کر مجھے دی اور کہا کہ یہ چورن ہے، میں خود بناتا ہوں، آپ کے لیے تحفہ ہے، رکھ لیں۔ میں نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہے تو کہنے لگے کہ ہاضمے کے لیے ہے اور گرمی کو بھی دور کرتا ہے ۔میں نے یوسف صاحب کا شکریہ ادا کیا اور چورن جیب میں ڈال لیا اور گھر کو چل دیا۔
چورن کا وزن 100 گرام کے قریب ہوگا، خیر وہ تقریبا سات آٹھ ماہ گھر میں اور کئی بار کسی مہمان کے لیے استعمال ہوتا رہا بطور ہاضمہ کی دوائی کے۔
جب چورن ختم ہوگیا تومیری بیگم صاحبہ نےمزید کی فرمائش کردی، خیر یوسف صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ چورن کا نسخہ بتا دیں تاکہ میں خود ہی بنا لوں۔ کہنےلگے : تم کہا بناتے پھرو گے دو چار دن کے بعد تمہیں مل جائے گا۔خیر وعدہ کے مطابق یوسف صاحب نے مزید چورن دے دیا۔
کچھ عرصے بعدآخر اس کو ختم ہونا ہی تھا، سو ختم ہوگیا۔ یوسف صاحب سے درخواست کی ہمیں نسخہ دے دیں ہم خود ہی بنا لیں گے۔ ہر بار آپ پر بوجھ ڈالنا اچھا نہیں لگتا، کہنے لگے:یار آئندہ جمعہ میرے ساتھ چلناپنسار کی دکان پر، وہاں سے سامان لے کر وہیں سے پسوا کر تیار کروا لیں گے، خیر مرتے کیا نہ کرتے، جمعہ والے دن اُن کے ہمراہ پنسار کی دکان پر پہنچے تو اُنہوں نے ایک کاغذ پنساری کے حوالے کیا اور چورن تیار کروا کر ہمارے حوالے کیا اور پیسے ہم نے پنساری کے حوالے کیے۔ مگر ہم ہنوز نسخے سے محروم تھے۔
ایک مرتبہ یوسف صاحب بیمار ہوئے تو مجھے کہنے لگے کہ یا ر نعیم لگتا ہے کہ میری زندگی کا اختتام ہونے والا ہے تو میں نے مسکرا کر انہیں کہا کہ نہیں ابھی آپ بہت جئیں گے، ان شاء اللہ! اور مزید انہیں بتایا میرے ایک جاننے والے ہیں جب رمضان المبارک آنے والا ہوتا ہےتو کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ رمضان میرے لیے آخری ثابت ہوگا اور گذشتہ پانچ سال سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔۔۔ابتسامہ۔۔
خیر! باتوں ہی باتوں میں ہم نے کہا:چاچا جی! ویسے زندگی کا کوئی بھروسہ تو نہیں ہوتا بہتر ہے کہ جانے سے پہلے کم ازکم چورن کا نسخہ ہی عنایت کردیں تو مسکرا کر کہنے لگے: فکر نہ کرو وصیت کرجاؤ ں گا۔۔ابتسامہ۔۔
خیر ہم بھی اُن کے پیچھے لگے رہے اور پھر آخر کار اُنھوں نے نسخہ دے ہی دیا۔
موصوف ہمارا ایریا چھوڑ کر ذرا دور چلے گئے ہیں ماشاءاللہ حیات ہیں۔ اللہ تعالی اُن کی حفاظت کرے۔ آمین!
مسجد کے ایک بزرگ نمازی محترم یوسف صاحب سےرفتہ رفتہ شناسائی بڑھتی گئی تو پتا چلا کہ وہ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔یوسف صاحب سے جب ملاقاتیں زیادہ ہوئیں تو اُن کی پرمزاح طبیعت اچھی لگی،اور پھرہم اکثر اوقات نماز کے بعد گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر یا چلتے چلتے گفتگو کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اُن کی رفاقت اختیار کر لیتے تھے۔ اس طرح کی ملاقاتوں کے دوران، ایک مرتبہ انہوں نے جیب سے ایک پلاسٹک کی پڑیا نکال کر مجھے دی اور کہا کہ یہ چورن ہے، میں خود بناتا ہوں، آپ کے لیے تحفہ ہے، رکھ لیں۔ میں نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہے تو کہنے لگے کہ ہاضمے کے لیے ہے اور گرمی کو بھی دور کرتا ہے ۔میں نے یوسف صاحب کا شکریہ ادا کیا اور چورن جیب میں ڈال لیا اور گھر کو چل دیا۔
چورن کا وزن 100 گرام کے قریب ہوگا، خیر وہ تقریبا سات آٹھ ماہ گھر میں اور کئی بار کسی مہمان کے لیے استعمال ہوتا رہا بطور ہاضمہ کی دوائی کے۔
جب چورن ختم ہوگیا تومیری بیگم صاحبہ نےمزید کی فرمائش کردی، خیر یوسف صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ چورن کا نسخہ بتا دیں تاکہ میں خود ہی بنا لوں۔ کہنےلگے : تم کہا بناتے پھرو گے دو چار دن کے بعد تمہیں مل جائے گا۔خیر وعدہ کے مطابق یوسف صاحب نے مزید چورن دے دیا۔
کچھ عرصے بعدآخر اس کو ختم ہونا ہی تھا، سو ختم ہوگیا۔ یوسف صاحب سے درخواست کی ہمیں نسخہ دے دیں ہم خود ہی بنا لیں گے۔ ہر بار آپ پر بوجھ ڈالنا اچھا نہیں لگتا، کہنے لگے:یار آئندہ جمعہ میرے ساتھ چلناپنسار کی دکان پر، وہاں سے سامان لے کر وہیں سے پسوا کر تیار کروا لیں گے، خیر مرتے کیا نہ کرتے، جمعہ والے دن اُن کے ہمراہ پنسار کی دکان پر پہنچے تو اُنہوں نے ایک کاغذ پنساری کے حوالے کیا اور چورن تیار کروا کر ہمارے حوالے کیا اور پیسے ہم نے پنساری کے حوالے کیے۔ مگر ہم ہنوز نسخے سے محروم تھے۔
ایک مرتبہ یوسف صاحب بیمار ہوئے تو مجھے کہنے لگے کہ یا ر نعیم لگتا ہے کہ میری زندگی کا اختتام ہونے والا ہے تو میں نے مسکرا کر انہیں کہا کہ نہیں ابھی آپ بہت جئیں گے، ان شاء اللہ! اور مزید انہیں بتایا میرے ایک جاننے والے ہیں جب رمضان المبارک آنے والا ہوتا ہےتو کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ رمضان میرے لیے آخری ثابت ہوگا اور گذشتہ پانچ سال سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔۔۔ابتسامہ۔۔
خیر! باتوں ہی باتوں میں ہم نے کہا:چاچا جی! ویسے زندگی کا کوئی بھروسہ تو نہیں ہوتا بہتر ہے کہ جانے سے پہلے کم ازکم چورن کا نسخہ ہی عنایت کردیں تو مسکرا کر کہنے لگے: فکر نہ کرو وصیت کرجاؤ ں گا۔۔ابتسامہ۔۔
خیر ہم بھی اُن کے پیچھے لگے رہے اور پھر آخر کار اُنھوں نے نسخہ دے ہی دیا۔
موصوف ہمارا ایریا چھوڑ کر ذرا دور چلے گئے ہیں ماشاءاللہ حیات ہیں۔ اللہ تعالی اُن کی حفاظت کرے۔ آمین!