• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا تصوّرِ بدعت: اَز روئے تحسین و تقبیح تقسیم بدعت کاجائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر طاہر القادری کا تصوّرِ بدعت

[اَز روئے تحسین و تقبیح تقسیم بدعت کاجائزہ]
محمدآصف ہارون​
اَحکام دین سے لا علمی، خواہشات نفس کی پیروی، شخصی تعصب آباء واجداد کی تقلید اور اغیار کی مشابہت وہ اسباب و محرکات ہیں جو مسلمان کو بدعات و خرافات کی آلائشوں میں مبتلا کردیتے ہیں جس سے مسلمان ہدایت و نجات کی بلندیوں سے گمراہی و تباہی کی پستیوں میں گر جاتا ہے۔ انھی اَسباب کے باعث عصر ِحاضر میں بدعات کے دبیز پردے اور سیاہ سائے ہر طرف پھیل چکے ہیں۔ ظن و تخمین کے پرستار اور غلو کے شکار بعض مبتدعین’بدعات حسنہ‘ کا سہارا لے کر گمراہ کن محافل و محاسن سجانے اور روشنیوں کی دنیا بسا کر نت نئے تماشے دکھانے میں دن رات کوشاں ہیں۔ شیطان لعین نے اہل بدعت کے اعمال سیّئہ کو مزین کرکے اور بدعات اختیار کرنے کی ترغیب و تحریص دے کر ان کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں انھیں یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کہ آیا ان بدعات ومحدثات اختیار کرنے پر کیا ہم خدا کی ناراضگی و عتاب کے مستحق تو نہیں ہورہے؟ ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں اس قدر مسلوب ہوچکی ہیں کہ ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ان بدعات سے اسلام کے رُخ زیبا کی شکل بگڑ رہی ہے اس کے جمال جہاں آراء کو نظر لگ رہی ہے۔ دین حنیف وقویم کے حسن و سیرت، جلال و کمال، شان و شوکت اور عظمت و رفعت کی ہمہ گیر خوبیوں پر آنچ آرہی ہے۔
ان صوفی منش شخصیات میں ایک شخصیت ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ہے جنہوں نے از روئے حسن و قبح بدعت کی تقسیم پر عجیب و غریب موشگافیاں کی ہیں۔ تحسین و تقبیح کے لحاظ سے بدعت کی تقسیم کی ناگزیریت کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ وہ تمام بدعات جن کوبدعات ضلالہ کہنا چاہئے تھا ان پر ’بدعات حسنہ‘ کا لیبل لگاکر ان کو سند جواز دینے میں کافی سبک خرامی سے کام لے رہے ہیں۔ اس بات کی شاہد ان کی کتب ہیں۔
بدعت کی تقسیم از روئے تحسین و تقبیح اس بارے میں صحیح موقف آئندہ سطور میں آئے گا سردست ہم ڈاکٹر صاحب کی ’بدعت حسنہ‘اور ’بدعت سیّئہ‘ کے بارے میں کی ہوئی تعریفات نقل کرنے کے ساتھ ساتھ امام شافعیؒ اور امام عزالدین بن عبدالسلام کی تقسیم بدعت کی صحیح تعبیر پیش کرتے ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت حسنہ و سیئہ
بدعت حسنہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:
’’بدعت حسنہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جس کی اصل ، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو اور وہ احکام شریعت سے متخالف و متناقض نہ ہو بلکہ شریعت کے مستحسنات کے تحت داخل ہو۔‘‘ [اَقسام بدعت: ص۲۷]
بدعت سیّئہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:
’’بدعت سیّئہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اور اس کی اصل مثال یا نظیر بھی کتاب وسنت میں نہ ہو دوسرے لفظوں میں بدعت سیئہ سے مراد وہ بدعت ہے جو کسی سنت کے ترک کا باعث بنے اور امر دین کو توڑے۔‘‘ [اَقسام بدعت:ص۳۲]
قطع نظر اس سے کہ ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ تعریفات بھی محل نظر ہیں، اصطلاحِ شریعت میں بدعت کس کو کہتے ہیں، سادہ الفاظ میں اس کو یہ کہا جاتا ہے۔
’’ہر وہ نیا کام جس کو نیکی، ثواب اور تقرب إلی اﷲ سمجھ کر کیا جائے، لیکن اَسباب و ذرائع کی موجودگی اور مانع کی عدم موجودگی کے باوجود رسول اللہﷺ نے وہ کام نہ خود کیا ہو، نہ کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ ہی آپ کے سامنے کیا گیاہو، بدعت کہلاتا ہے۔‘‘
اصطلاح شریعت میں جس کو بدعت سے موسوم کیا گیا ہے وہ ہمیشہ مبنی پر ضلالت ہی ہوتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان گرامی ہے:
’’ وإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأمُوْرِ،فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثة بِدْعَة وَکُلُّ بِدْعَة ضَلَالة‘‘
’’دین کے اندر نئی نئی چیزیں داخل کرنے سے باز رہو، بلاشبہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔‘‘ [سنن أبي داؤد :۷۰۶۴]
دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت موجود ہے۔ ارشاد گرامی ہے:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ھٰذَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ‘‘ [صحیح البخاري: ۲۶۹۷]
’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ‘‘ [صحیح مسلم:۳۲۴۳]
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے دین کے خلاف ہے تو ایسا کام ردّ کردیا جائے گا۔‘‘
متذکرہ بالا تعریف اور اَحادیث سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کو نیکی، ثواب، خیر، عبادت وطاعت اورتقرب إلی اللہ سمجھ کر اور دین کے نام پر کیا جائے اور اسباب و ذرائع ہونے کے باوجود اور کوئی مانع نہ ہونے کے باوجود، رسول اللہﷺ نے نہ خود کیا ، نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی آپﷺ کے سامنے کیا گیا، بدعت اور اِحداث فی الدین شمار ہوگا جو بہرصورت گمراہی اور آتش جہنم کا منبع ہوگا۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہل بدعت جن مروجہ بدعات کو ’حسنہ‘ یا ’صالحہ‘ سے موسوم کرتے ہیں ان کو بھی نیکی، کارِ ثواب، تقرب الی اللہ اور دین سمجھ کر کیا جاتا ہے بلکہ کبھی کبھار تو انہیں سنت کا درجہ بھی دے دیا جاتاہے۔ حالانکہ یہ ساری بدعات و خرافات نہ صرف مبنی برضلالت ہیں بلکہ اِفساد فی الدین کی ناکام جسارتیں بھی ہیں۔
یہاں ایک بات ذہن نشین رہے کہ’’فی أمرنا ھذا‘‘ سے یہ بات واضح ہے کہ دنیاوی اختراعات ایجادات اس حکم سے خارج ہیں، کیونکہ اُن کو دین یا تقرب الی اللہ سمجھ کر بروئے کار نہیں لایا جاتا۔لہٰذا اُن میں اصل اِباحت ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام شافعی رح اور امام عزالدین رح کی تقسیم بدعت
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام شافعی رح نے ازروئے مدح و ذم بدعت کی تقسیم کی ہے اسی طرح امام عزبن سلام رح نے بھی ازروئے اَحکام خمسہ بدعت کی تقسیم کی ہے اور ان سے دیگر آئمہ نے اخذ ونقل کیا ہے۔اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب سلف کے اقوال سے غلط تعبیر اور فاسد استدلال کرتے ہیں۔ اس بات کی شاہد ان کی بے شمار کتب ہیں۔ آئمہ نے جو بدعت کی تقسیم کی وہ کس تناظر میں کی اور ڈاکٹر صاحب نے اس تقسیم سے جو غلط تعبیرکرکے مروجہ بدعات کو سند جواز بخشی، یہ سب قابل غور باتیں ہیں۔
حافظ ابن رجب فرماتے ہیں:
’’وأما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک فی البدع اللغویة لا الشرعیة فمن ذلک قول عمر نعمة البدعة ھذہ ومرادہ أن ھذا الفعل لم یکن علی ھذا الوجہ قبل ھذا الوقت ولکن لہ أصل فی الشریعة یرجع إلیھا۔‘‘ [إیقاظ الھمم المنتقی من جامع العلوم والحکم، ص۴۰۲]
’’ کلام سلف میں جو بعض بدعات کی تحسین واقع ہوئی ہے تو وہ بدعات لغویہ کے بارے میں ہے ۔ بدعات شرعیہ کے بارے میں نہیں ہے اور اسی (بدعت لغوی) میں سے عمر بن خطاب رض كا یہ قول ہے: ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ اور ان کی مراد یہ تھی کہ یہ کام اس وقت سے پہلے اس اعتبار سے نہیں تھا لیکن اس کی اصل شریعت میں موجود ہے۔‘‘
ثابت ہوا کہ سلف نے جو بدعات کی تحسین کی ہے اس کو بدعاتِ لغویہ پر محمول کیا جائے گا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ان کے اَقوال سے غلط تعبیر لے کر ان کو مستقل بدعات حسنہ کا درجہ دے کر اپنی ساری مروجہ بدعات جو کہ سیّئہ ہیں ان کو اس درجہ میں داخل کر کے اہل سنت کی آنکھوں میں دھول ڈال دینے کا کام بخوبی سرانجام دیا ہے۔اب ہم ایک دوسرے ناحیے سے بات کو سمجھتے ہیں۔
کسی بھی شخصیت کی کلام کو سمجھنے کے لیے اس شخصیت کے قواعد واصول کو سمجھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔تب جاکر اس کی کلام سمجھ میں آسکتی ہے۔بصورت دیگر جو شخص کسی امام کی کلام سے استدلال تو کرتاہے، لیکن اس کے قواعدو اصول اور منہج سے جاہل رہتا ہے تو وہ اس کی کلام سے ہمیشہ غلط تعبیر لے گا اور ہمیشہ غلط نتیجہ اخذ کرے گا۔

مثال کے طور پرالشیخان ایک اصطلاح ہے جب اصحابِ تاریخ اس کو استعمال کریں تو اس سے مراد، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما ہوں گے جب محدثین اس کو استعمال کریں تو اس سے مراد امام بخاری رح اور امام مسلم رح ہوں گے اور جب شوافع اس کو استعمال کریں تو اس سے مراد امام رافعی رح اور امام نووی رح ہوں گے۔بہرحال یہ طریقہ ہر علوم میں مشہور ومعروف ہے۔

1۔اب جو شخص امام شافعی رح کی کلام (بدعت محمودہ) پر غورو غوض کرتاہے تو اس کا سارا شک دورہو جاتا ہے کہ امام شافعیؒ نے بدعت محمودہ سے لغوی بدعت مراد لی ہے نہ کہ شرعی بدعت مراد لی ہے کیونکہ اصطلاح شرع میں ہربدعت کتاب وسنت کی مخالفت میں ہوتی ہے جب کہ امام شافعی رح نے بدعت محمودہ کو مخالفت کتاب و سنت سے مقید نہیں کیا۔ جیساکہ ابن رجب فرماتے ہیں:
’’ومراد الشافعی ما ذکرنا من قبل: إن أصل البدعة المذمومة مالیس لھا أصل فی الشریعة،ترجع إلیہ وھی البدعة فی إطلاق الشرع وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة یعنی ماکان لھا أصل من السنة ترجع إلیہ وإنما ھی بدعة لغة لا شرعا،لموافقتھا السنہ‘‘ [جامع العلوم والحکم: ص۲۵۳]
’’امام شافعی رح کی بدعت مذمومہ کی حقیقت سے مراد یہ ہے کہ جس کی شریعت میں اصل نہ ہو جس کی طرف وہ راجع ہو اور یہی اطلاق شرع میں بدعت ہے اور بدعت محمودہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ موافق سنت ہوتی ہے یعنی اس کی سنت میں اصل ہو جس کی طرف وہ راجع ہو اور یہ شرعاً نہیں بلکہ لغۃ بدعت ہوگی، کیونکہ یہ موافق سنت ہوتی ہے۔‘‘ اسی وجہ سے امام شافعیؒ نے عمر بن خطاب ؓ کے قول ’’نعمة البدعة ھذہ‘‘ سے حجت پکڑی ہے، کیونکہ وہ بھی لغتاً اور حقیقتاً سنت رسول ﷺتھی۔
2-امام شافعیؒ کے بارے میں معروف ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی متابعت پر شدید حریص تھے اور جو نبی کریمﷺ کی حدیث کو ردّ کرتا اس پر شدید غضب کا اِظہار کرتے۔ ایک دفعہ آپ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس مسئلہ میں نبی کریمﷺ سے یہ بات مروی ہے توسائل نے کہا اے ابوعبداللہ کیا یہ آپ کا قول ہے ؟ تو امام شافعیؒ گھبراہٹ سے کانپ اٹھے اور کپکپاتے ہوئے جواب دیا۔
’’یا ھذا أی أرض تقلّنی وأی سماء تظلّنی إذا رویت عن رسول اﷲ! حدیثا فلم أقل بہ،نعم علی السمع والبصر‘‘ [مناقب الشافعی للبیہقي:۱؍۴۷۵، الفقیہ والمتفقہ :۱؍۱۵۰]
’’اے سائل، جب میں رسول اللہﷺ سے کوئی حدیث روایت کروں اور یہ نہ کہوں، ہاں سنا اور نگاہ جھکا دی، تو کون سی زمین میرے لیے جائے پناہ ہوگی اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا۔
بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جب امام شافعیؒ کی یہ حالت ہے تو پھر ان کے بارے میں یہ گمان کیسے رکھا جاسکتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے اس فرمان ’’کل بدعة ضلالة‘‘ کی مخالفت کریں گے۔‘‘
3-امام شافعیؒ ’بدعت حسنہ‘ کے قائل کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ وہ حسب ذیل عبارات کے قائل ہیں:
’’من استحسن فقد شرع‘‘ [المنخول للغزالی ص۳۷۴، جمع الجوامع للمحلی:۲؍۳۹۵]
’’جس نے کسی چیز کو مستحسن قرار دیا (جب کہ شریعت نے اس کو مستحسن قرار نہ دیا ہو) توگویا اس نے شریعت سازی کی ہے۔‘‘
’’إنما الاستحسان تلذّذ‘‘ [الرسالۃ :ص۵۰۷]
’’بے شک استحسان (کسی چیز کو مستحسن سمجھنا جب کہ وہ شرح میں مستحسن نہ ہو) تلذذ ہے۔‘‘
لہٰذا امام شافعیؒ کی ’بدعت محمودہ‘ والی کلام کو ایسے محمل پرمحمول کیا جائے گا جس سے رسول اللہﷺ کی کلام ’’کل بدعة ضلالة‘‘سے معارضت نہ آئے اور وہ یہ ہے کہ امام شافعیؒ کی بدعت محمودہ سے مراد لغوی بدعت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت کی اَحکام خمسہ میں تقسیم سب سے پہلے امام عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام رح نے کی تھی جس سے امام قرافی، نووی و دیگر ائمہ کرام نے اَخذ کیاہے۔ چنانچہ امام عز فرماتے ہیں:
’’البدعة فعل مالم یعھد فی عصر رسول اﷲ! وھی منقسمة إلی بدعة واجبة وبدعة محرمہ وبدعة مندوبة وبدعة مکروھة وبدعة مباحة۔‘‘
’’بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہﷺ کے زمانہ میں نہ کیا گیا ہو بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں، واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروہہ اور مباحہ۔ [قواعد الأحکام فی مصالح الأنام:۲؍۳۳۷]
امام عزالدین کی یہ تقسیم حسب ذیل وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے۔
= اَحکام خمسہ: (واجب، مندوب، مباح، حرام و مکروہ) اور بدعت کو آپس میں جمع کرنا ایسے ہی ہے جیسے دو چیزوں کو جو ایک دوسرے کے منافی و متناقض ہیں ان کو جمع کردیا جائے، کیونکہ اَحکام خمسہ تواَدلہ شرعیہ پرقائم ہوتے ہیں اور جو چیز مبنی بردلیل ہو وہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے۔ بدعت تو وہ ہوتی ہے جو کسی دلیل پرقائم نہ ہو۔
= اَحکام خمسہ کے ضمن میں جو اَمثلہ دی جاتی ہیں یا تو وہ بدعات کے دائرہ میں داخل ہی نہیں ہوتی یا پھر ان کا تعلق مصالح مرسلہ سے ہوتا ہے جس کی بنیاد علماء کے نزدیک اس قاعدہ پر قائم ہے۔ ’’ما لایتم الواجب إلا بہ فھو واجب‘‘ یعنی اس کا حاصل یہ ہے کہ امر ضروری کی حفاظت کی جائے یا دین میں لازم آنے والے حرج کو رفع کیا جائے۔ لہٰذا اس لحاظ سے بدعات اور مصالح مرسلہ میں زمین وآسمان جیسا فرق ہے جن کا متساوی ہونا ناممکن ہے دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بدعات کا تعلق مقاصد و عبادات سے ہوتا ہے جب کہ مصالح مرسلہ کا تعلق وسائل ومعاملات سے ہوتاہے۔
= امام عزالدین نے اپنے فتاویٰ جات میں بہت سارے اُمور تعبدیہ کو بدعات سیّئہ ومحدثات منکرۃ سے موسوم کیا ہے اور بدعات سے اجتناب اور سنن کی اتباع کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ولم تصح الصلاة علی الرسول فی القنوت ولا ینبغی أن یزاد علی رسول اﷲ! فی القنوت بشئ ولا ینقص‘‘ [فتاویٰ العز بن عبد السلام: ص۴۸]
’’قنوت میں رسول اللہﷺ پر درود صحیح نہیں ہے اور قنوت میں رسول اللہﷺ پرکسی چیز کی کمی و زیادتی ناجائز ہے۔‘‘
محدث العصر علامہ البانی رح فرماتے ہیں:
’’وفی ھذا القول منہ إشارة إلی أنہ لا یتوسع فی القول بالبدعة الحسنة کما یفعل بعض المتأخرین القائلین لھا۔‘‘ [صفۃ صلاۃ النبی :ص ۱۶۱]
’’امام عزالدین کے اس قول میں یہ اشارہ موجود ہے کہ وہ بدعت حسنہ کے قول میں وسعت نہیں رکھتے تھے جیساکہ بعض متاخرین اس کے قائل ہیں۔‘‘
علاوہ ازیں امام عزالدینؒ دوسرے مقام پر زینتِ رسولﷺ کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں:
’’فمن أراد السنة فلا یزید علی ذلک والخیرکلہ فی اتباع الرسول واقتفاء آثارہ‘‘
’’پس جو سنت رسولؐ کا متلاشی ہے وہ اس پر زیادتی نہ کرے اور ہر قسم کی بھلائی اتباع رسولﷺ اور آپ کے آثار کی پیروی میں ہی ہے۔‘‘ [ص۸۰]
پھر ’’مسألة الصلاة علی السجاد‘‘ میں ان کا یہ قول مرقوم ہے:
’’فالأفضل اتباع الرسول علیہ السلام فی دق أفعالہ وأقوالہ وجلھا،من أطاعہ اھتدی وأحبہ اﷲ عزوجل ومن خرج عن طاعتہ والإقتداء بہ،بعد عن الصواب بقدر تباعدہ عن اتباعہ‘‘ [ص۶۸]
’’رسول اللہﷺ کے افعال و اقوال خواہ کم ہوں یا زیادہ اُن میں افضل اتباع رسولﷺ ہے جس نے آپﷺ کی اطاعت کی وہ ہدایت یافتہ اور محبوب الٰہی بن گیا اور جس نے آپﷺ کی طاعت و اقتداء سے روگردانی کی وہ حق سے اتنا ہی دور چلا گیا جتنا وہ اتباع رسولﷺ سے دور ہوا۔‘‘
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’والإقتداء بالسلف أولی من إحداث البدع‘‘ [ ص۱۷۳]
’’سلف کی اقتدا و پیروی، احداث بدعات سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
ایک اور قول پیش خدمت ہے جب امام عزالدین رح سے صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیتے ہیں۔
’’المصافحة عقب الصبح والعصر من البدع إلا لقادم یجتمع بمن یصافحہ قبل الصلاة،فإن المصافحة مشروعة عندالقدوم وکان النبی یأتی بعد الصلاة بالأذکار المشروعة ویستغفر ثلاثا،ثم ینصرف،وروی أنہ قال:رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک‘‘ والخیر کلہ فی اتباع الرسول‘‘ ۔ [ص ۴۶]
’’صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعات میں سے ہے مگر جو شخص نماز سے پہلے آتا ہے اور اگر مصافحہ کرتاہے تو یہ بدعت نہیں بلکہ مشروع ہے اور نبی کریمﷺ نماز کے بعد اَذکار مشروعہ کرتے اور تین مرتبہ استغفار کرتے پھر پچھلی جانب رخ موڑتے اور یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریمﷺ فرمایا کرتے تھے ’’اے میرے پروردگار روزِقیامت تو مجھے اپنے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا‘‘ اور ہر قسم کی خیرو بھلائی اتباع رسولؐ میں ہی ہے۔‘‘
پس یہ بالکل ظاہر ہے کہ امام عزالدین رح نے نماز صبح و عصر کے بعد مصافحہ کو شرعی اعتبار سے بدعت کہا ہے حالانکہ انھوں نے قواعد الأحکام میں اس کو بدعت مباحہ کہا ہے۔ لہٰذا ان کے اس قول کی تعبیر یہ کی جائے گی کہ جب وہ بدعت مباحہ کہتے ہیں تواس میں لفظ بدعت کو لغوی اعتبار سے مراد لیتے ہیں اورجب وہ بدعت کو غیر مشروع سے تعبیر کرتے ہیں تواس میں بدعت کو شرعی اعتبار پر محمول کرتے ہیں۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’طوبی لمن تولّٰی شیئا من أمور المسلمین فأعان علی إماتة البدع وإحیاء السنن‘‘ [مساجلہ علمیہ:ص۱۰]
’’اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس کو مسلمانوں کے حکومتی معاملات میں ولایت ملتی ہے پس وہ بدعات کے خاتمے اور سنن کے احیاء پراعانت کرتاہے۔‘‘
اب یہ بات روزِ روشن کی مانند عیاں ہے کہ امام عزالدین، بدعت واجبہ، بدعت مندوبہ اور بدعت مباحہ سے لغوی معنی مراد لیتے ہیں ناکہ شرعی معنی مراد لیتے ہیں، کیونکہ اصطلاح شرع میں ہر بدعت مبنی بر ضلالت ہی ہوتی ہے اور یہاں سے ایک اور بات واضح ہورہی ہے کہ آثار اور بعض اہل علم کی کلا م میں وارد بدعت کے معنی میں لغوی معنی اور شرعی اصطلاح کو باہم خلط ملط کرنایہ بدعت حسنہ کے اَسباب و محرکات میں سے ایک اہم سبب ہے۔ پس جس کو توفیق الٰہی ملتی ہے وہ ضروراس اشتباہ کو زائل کرتا ہے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچ جاتاہے۔
بہرحال مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ بعض سلف نے جو بدعت کی احکام خمسہ یا محمودہ ، صالح حسنہ ہونے کے لحاظ سے تقسیم کی ہے تو اس کو لغوی معنی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ پیچھے ابن رجب حنبلیؒ کا قول گزر چکا ہے۔ بدعت حسنہ سے استدلال کرتے ہوئے مروجہ بدعات و محدثات کو سند جواز نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ سلف کے اقوال کی وہی تعبیر کریں جو نہ صرف ان کے قواعد و اُصول کے موافق ہو بلکہ ’’کل بدعة ضلالة‘‘ سے معارضت بھی لازم نہ آئے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب اگر تقسیم بدعت از روئے تحسین وتقبیح کو ناگزیر سمجھتے ہیں تو ان کو آنے والی سطور کا بنظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت حسنہ کی تردید پرنقلی و عقلی دلائل

اصطلاح شرع میں جس کو بدعت کہتے ہیں اس کو ’بدعت حسنہ‘ اور ’بدعت سیئہ‘ میں تقسیم کرنا غلط کار ہے اور یہ تقسیم مبنی برخطا اور تقسیم ضیزیٰ ہے جس پر نقلی و عقلی دلائل آئندہ سطور میں آرہے ہیں اور بعض علماء نے جو بدعت کو ’حسنہ‘ سے موسوم کیا ہے تو وہ بدعت دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتی۔
1- وہ بدعت ہوتی ہی نہیں مگر اس کو بدعت تصور کرلیا جاتا ہے۔
2-وہ بدعت سیئہ ہوتی ہے لیکن اس کاسوء معلوم نہیں ہوتا۔
جب ہم ان دو حالتوں کو مدنظر رکھیں گے تو بات روزروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ بعض اَوقات ایک چیز بدعت ہی نہیں ہوتی مگر اس کو بدعت تصور کرکے حسنہ کہہ دیا جاتا ہے اور بعض اوقات وہ بدعت تو ہوتی ہے مگر اس کی قباحت و شناعت کو معلوم نہیں کیا جاتا اس طرح اسے بھی حسنہ کہہ دیا جاتاہے۔
ڈاکٹر صاحب کو بھی یہی مغالطہ لاحق ہوا کہ جو درحقیقت بدعات تھی ہی نہیں ان کو بدعات تصور کرکے ’بدعات حسنہ‘ میں داخل کردیا اور جو درحقیقت بدعات تھیں اور مبنی بر ضلالت تھیں ان کی قباحت وشناعت سے عدم واقفیت اور لاعلمی کی بنا پر ان کوبھی ’بدعات حسنہ‘ میں داخل کردیا۔ اسی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب’بدعت حسنہ‘ اور’بدعت سیّئہ ‘ کے لحاظ سے بدعت کی ناگزیر تقسیم کے قائل و داعی ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر بدعت مبنی برضلالت ہوتی ہے اور آتش جہنم میں دخول کا سبب بنتی ہے اور جو چیز مبنی برضلالت ہوتی ہے اس کا شرع سے کیا تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ شرع نام ہے ہدایت کا اور ہدایت اور ضلالت ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نقلی دلائل
1۔رسول اکرمﷺ کا فرمان گرامی ہے:
" کُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة " ’’(دین میں) ہر بدعت مبنی برضلالت ہے۔‘‘
جب کہ ڈاکٹر صاحب کا نقطہ نظر کچھ اور ہے رقم طراز ہیں:
’’دین میں ہر نیا کام بدعت ضلالۃ نہیں ہوتا بلکہ بے شمار نئے امور حسنہ بھی ہوتے ہیں۔‘‘ [لفظ ’بدعت‘ کا اطلاق:ص۱۱۷]
گویا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک دین میں ہر نیا کام مبنی برضلالت نہیں ہوتا بلکہ بعض نئے اُمور مبنی بر ہدایت بھی ہوتے ہیں یعنی جو نیا کام مبنی برضلالت نہیں گویا وہ مردود نہیں ہوگا جب کہ حدیث کا فیصلہ ڈاکٹر صاحب کے نقطۂ نظر کے خلاف ہے۔ اِرشادگرامیﷺ ہے۔
" مَنْ أحْدَثَ فِیْ أمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ "
’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجادکی جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے اقتباس سے یہ حقیقت بھی واضح ہورہی ہے کہ وہ دین کے اندر تقسیم بدعت از روئے تحسین و تقبیح کے قائل ہیں جب کہ فرمان نبویؐ ’’کل بدعة ضلالة‘‘ ڈاکٹر صاحب کے تصور بدعت کے مخالف ہے یعنی ڈاکٹر صاحب کا تصورِ بدعت، حدیث رسولؐ کی مخالفت میں ہے۔
امام شاطبی رح فرماتے ہیں:
’’محمول عند العلماء علی عمومہ،لا یستثنی منہ شیء ألبتہ ولیسں فیھا ما ھو حسن أصلا‘‘ [فتاویٰ الشاطبی، ص۱۸۰]
فرمان نبویﷺ " کُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة" اہل علم کے نزدیک اپنے عموم پر محمول ہے جس سے بالکل کوئی چیز مستثنیٰ ہے اور نہ ہی اس میں کوئی چیز اصلا حسن ہے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’اجماع ثابت تدل علی أن کل بدعة لیست بحق بل ھی من الباطل‘‘[الاعتصام :۱؍۱۴۱]
’’اس بات پر اجماع ثابت ہے کہ ہر بدعت ناحق ہے بلکہ باطل ہے۔‘‘
حافظ ابن رجب رح فرماتے ہیں:
’’ کل بدعة ضلالة‘‘ من جوامع الکلم لایخرج منہ شئ وھو أصل عظیم من أصول الدین وھو شبیہ بقولہ " من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھورد" فکل من أحدث ونسبہ إلی الدین ولم یکن لہ أصل من الدین یرجع إلیہ فھو ضلالة والدین بریء منہ وسواء فی ذلک مسائل الإعتقادات أو الأعمال أوالأقوال الظاہرة والباطنہ‘‘
[جامع العلوم والحکم، ص۲۲۳]
’’کل بدعة ضلالة‘‘ جوامع الکلم میں سے ہے جس سے کوئی چیز خارج نہیں اور یہ اصول دین کی اصل عظیم ہے اور رسول اللہﷺ کے اس فرمان کے مشابہ ہے " مَنْ أحْدَثَ فِیْ أمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ" پس ہر وہ چیز جس کو مبتدع ایجاد کرتا ہے اور اس کو دین کی طرف منسوب کرتا ہے حالانکہ دین میں اس کی کوئی اصل نہیں ہوتی جس کی طرف وہ راجع ہو تو وہ ضلالت ہے اور دین اس سے اظہار براء ت کرتا ہے اور اس میں اعتقادات یا اعمال یا ظاہر ی و باطنی اقوال کے مسائل برابر کے شریک ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں:

’’ولا یحل لأحد أن یقابل ھذہ الکلمة الجامعة من رسول اﷲ الکلیہ وھی قولہ" کل بدعة ضلالة " بسلب عمومھا، وھو أن یقال،لیست کلہ بدعة ضلالة فإن ھذا إلی مشاقة الرسول أقرب منہ إلی التأویل…فإن قصد التعمیم المحیط ظاھر من رسول اﷲ بھذا الکلمة الجامعة فلا یعدل عن مقصودہ بأبی ھو وأمی علیہ الصلوة والسلام‘‘
[اقتضاء الصراط المستقیم: ۲؍۹۳]
’’کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ رسول اللہﷺکے فرمان " کل بدعة ضلالة " کے عموم کو چھین کر اس کلی اور جامع کلمہ سے مقابلہ کرے یعنی اس طرح کہا جائے ’’لیست کل بدعة ضلالة‘‘ کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہے یقیناًیہ چیز تأویل سے پہلے رسول اللہﷺ سے پنجہ آزمائی (مخالفت) پر منتج ہوگی … بیشک آپ کے اس فرمان سے احاطہ کرنی والی تعمیم کا مقصود بالکل واضح اور ظاہر ہے لہٰذا رسول اللہﷺ پر میرے والدین قربان ہوں ان کے مقصود سے اس کو جدا نہیں کیا جائے گا۔‘‘

اب اَرباب فکر ودانش خود فیصلہ کریں کہ مذکورہ بالا تصریحات دین میں ہربدعت کے مبنی بر ضلالت ہونے پر صادق آتی ہیں اگر اصطلاح شریعت میں’بدعت حسنہ‘ نام کی کوئی چیز ہوتی تو رسول امینﷺ ضرور اس کی نشاندہی کردیتے اور اس کی تخصیص کردیتے کہ کل بدعة ضلالة إلا کذا و کذا،لیکن آپؐ نے تخصیص نہیں فرمائی۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دین میں ’’بدعت حسنہ‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ رسالت مآبﷺ نے کل بدعة ضلالة کی صارم مسلول کے ساتھ دین میں ہر قسم کی بدعات کا قلع قمع کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔سیدنا عبداللہ بن عمر﷜ فرماتے ہیں:
" کل بدعة ضلالة وإن رأھا الناس حسنة " [السنۃ للمروزی، ص۲۴]
’’ہر بدعت مبنی برضلالت ہے اگرچہ لوگ اس کو حسنہ ہی تصور کریں۔‘‘
جس طرح ڈاکٹر صاحب نے سیدنا عمربن خطاب ﷜ کے قول ’’نعمة البدعة ھذہ‘‘ سے اپنی من مانی تعبیر کی ہے بالکل اسی طرح ان کو سیدنا عبداللہ بن عمر﷜کے اس قول کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا۔
3۔امام دارالھجرۃ امام مالک بن انس رح فرماتے ہیں:
’’من ابتدع فی الإسلام بدعة یراھا حسنة فقد زعم أن محمداً خان الرسالۃ لأن اﷲ یقول {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلَامَ دِیْنًا} فما لم یکن یومئذ دینا لایکون الیوم دینا‘‘ [الإعتصام:۱؍۴۹]
’’جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجادکی اور اس کو حسنہ تصور کیا تحقیق وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ بیشک محمد رسول اللہﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے۔(نعوذ باﷲ من ذلک) جب کہ اللہ رب العالمین تو یہ فرما رہا ہے
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘
پس جو اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا۔‘‘
بات واضح ہے، مبتدع جب بھی کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے تو اس کو حسنہ کا نام دے کر دین کی طرف منسوب کرتا ہے،کیونکہ اگر وہ اس بدعت کو سیّئہ سمجھے گا تو بدعت ایجاد کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔بعداَزاں دین سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ گویا وہ دین کے مکمل ہونے کے بعد اس میں اضافہ کرنا چاہتا ہے جو دین میں طعن سمجھا جائے گا یعنی وہ اس بات سے انکار کررہا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حق رسالت ادانھیں کیا اس وجہ سے امام مالک رح نے کہا ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے۔ نعوذ باللہ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب اگرچہ قادری ہیں لیکن ان کے مشرب میں وسعت ہے اور ان کی قادریت میں نقشبندیت بھی موجزن ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ خود بھی صوفی ہیں اور صوفیاء کے قدردان بھی ہیں لہٰذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ صوفیاء کے امام شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کے مکتوبات سے ’بدعت حسنہ‘ کے بارے میں چند ایک اقتباسات نقل کریں۔ ہم اُمید واثق رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ان اقتباسات پر ضرور نظرثانی کریں گے۔سلسلے اگرچہ مختلف ہیں لیکن حنفی المذہب ہونے کے ناطے ایک ہی شاخ کے دو پتے ہیں۔
شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں:
’’گذشتہ لوگوں میں سے بعض نے بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا تو بدعت کی بعض قسموں کو انھوں نے اچھا سمجھا، لیکن فقیر کو اس مسئلہ میں ان سے اتفاق نہیں وہ کسی بھی بدعت کو حسنہ نہیں سمجھتا اور اس میں اس کو سوائے ظلمت و کدورت کے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا، رسول اللہ1 فرماتے ہیں ’’کلہ بدعۃ ضلالۃ‘‘ [مکتوبات دفتر دوم، ص۶۶]
ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’ہائے افسوس، انھوں نے دین کامل اور پسندیدہ اسلام میں جب کہ نعمت تمام ہوچکی، بدعت محدثہ کے ’حسن‘ ہونے کا کس طرح حکم دیا، یہ نہیں جانتے کہ اکمال و اتمام اور رضا کے حاصل ہونے کے بعد دین میں کوئی نیا کام پیدا کرنا ’حسن ‘سے کوسوں دور ہے۔
فماذا بعد الحق إلا الضلال ’’حق کے بعد صرف ضلال ہی کا درجہ رہ جاتا ہے‘‘
اگر یہ جانتے کہ دین میں محدثہ امر کو حسن کہنا دین کے کامل نہ ہونے کو مستلزم ہے اور نعمت کے ناتمام رہنے پر دلالت کرتا ہے تو ہرگز اس قسم کے حکم پر دلیری نہ کرتے۔‘‘ [مکتوبات دفتر دوم، ص۵۷]
ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’لوگوں نے کہاکہ بدعت دو قسم پر ہے’حسنہ‘ اور ’سیئہ‘ حسنہ اس نیک عمل کو کہتے ہیں جو رسول کریمﷺ اور خلفائے راشدین رض کے زمانے کے بعد پیدا ہو اور وہ سنت کو رفع نہ کرے (اور بدعت سیئہ وہ ہے جو رافع سنت ہو) یہ فقیر ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن اور نورانیت نہیں دیکھتا اور ظلمت و کدورت کے ساتھ کچھ محسوس نہیں کرتا اگرچہ آج بدعتی کے عمل کو ضعف بصارت کے باعث طراوت وتازگی کی شکل میں دیکھتے ہیں تو کل جب نظر تیز ہوگی تو خسارہ کے احساس اور ندامت کے سوا اس کا کچھ نتیجہ نہیں ہوگا… (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی۔ تو پھربدعت میں حسن کے کیا معنی۔‘‘ [مکتوبات دفتر اوّل، ص۳۱۰، ۳۱۱]
آپ کی دعا بھی یہی ہے کہ:
’’(فقیر) عاجزی اور زاری، التجا و محتاجی، ذلت و انکساری کے ساتھ پوشیدہ اور ظاہری طور پرحق تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ جو کچھ دین میں نیا پیدا ہوا ہے اور نیا ایجاد ہوا ہے جو زمانہ خیر البشرﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین رض کے زمانہ میں نہیں تھا اگرچہ وہ روشنی میں صبح کی سفیدی کی مانند ہو۔ اس ضعیف بندے کو اس گروہ کے ساتھ جس نے اس بدعت کو اختیار کیا ہے اس نئے عمل کا گرفتار نہ کرے اور اس نئی ایجاد شدہ چیزکے حسن پر فریفتہ نہ کرے۔‘‘ [ مکتوبات دفتر اوّل ، ص۳۰۹]
چمن میں تھیں ڈالیاں ہزاروں مگر مقدر کا کھیل دیکھو
گری اسی شاخ پر ہے بجلی بنایا تھا جس پر آشیانہ​

لہٰذا نقلی دلائل کی رو سے دین میں’بدعت حسنہ‘کے تصور کی نفی ہوتی ہے اس کے باوجود اگر ڈاکٹر صاحب ’بدعت حسنہ‘ اور ’بدعت سیئہ‘ کی تقسیم پر مصر ہیں اوراس کو ناگزیر سمجھتے ہیں جب کہ حدیث اور آثار اس کے منافی ہیں تو ڈاکٹر صاحب یہ فرمان الٰہی بھی مدنظر رکھیں۔
{وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَة إِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہُ أمْرًا أنْ یَکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَة مِنْ أمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْنًا} [الأحزاب:۳۶]
’’کسی مؤمن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عقلی دلائل​
حسب ذیل وجوہات کی بنا پر بدعت حسنہ کے تصور کو عقل سلیم بھی تسلیم نہیں کرتی۔

1۔صحابہ کرام، تابعین عظام وغیرہم سلف صالحین نے ہر قسم کی بدعات کی مذمت کی ہے اور ان کی قباحت و شناعت کے بارے میں ان سے کسی قسم کا کوئی توقف اور استثناء منقول نہیں ہے لہٰذا حسب استقراء یہ چیز واضح دلالت کرتی ہے کہ اصطلاح شریعت میں تمام بدعات، گمراہی کا منبع ہیں جن میں حسنہ نام کی کوئی چیز نہیں۔
2۔اصطلاح شریعت میں بدعت بذات خود شارع وشرع کی مخالفت کرتی ہے اور جو چیز شرع کے مخالف ہو اس کی ازروئے تحسین و تقبیح تقسیم ناممکن ہے لہٰذا معقول و منقول میں یہ بات کسی لحاظ سے درست نہیں کہ شارع سے پنجہ آزمائی بھی ’حسنہ‘ ہوسکتی ہے۔
3۔ بدعت حسنہ کا دعویٰ دیگر بدعات سیئہ و ضلالہ کا دروازہ کھولتا ہے لہٰذا اس دعوے کی موجودگی میں ہر ایک بدعت کی تردید خارج از امکان ہوگی کیونکہ ہر صاحب بدعت اس بات کا دعویٰ کرے گا کہ اس کی بدعت ’حسنہ‘ ہے لہٰذا’’ کل بدعة ضلالة‘‘ کی صارم مسلول سے ہی ہر بدعت کی تردید ممکن ہوگی۔
4-بدعت حسنہ کا دعویٰ تحریف دین اور افساد فی الدین کا سبب بنتا ہے کیونکہ شرائع میں مخلوق کے اختیار تصرف سے لامحالہ شریعت میں تبدیلی آتی ہے۔ اسی بناء پر سابقہ مذاہب کی مذہبی کتابوں میں تحریف پیدا کی گئی اس لیے کہ جب بھی کوئی قوم دین کے نام پر عبادت کا اضافہ کرے گی تو اس کو بدعت حسنہ سے موسوم کردے گی بعد ازاں بدعات کی کثرت سے عبادات شرعیہ معدوم پڑجائیں گی اور تغیر دین کا خدشہ و خطرہ لاحق رہے گا ادیان سابقہ کے بگاڑ کی طرح دین حنیف میں بھی معنوی بگاڑ پیدا ہوجائے گا لہٰذا دین حنیف کو تحریف و انتمال سے بچاتے ہوئے اس کی حفاظت و حمایت میںہر قسم کی بدعات کا دروازہ بند کرنا واجب ہے۔
5-تحسین بدعت کا ضابطہ کیا ہوگا؟ اور اس کا مرجع کیا ہوگا؟ اگر کہا جائے کہ تحسین بدعت کا ضابطہ موافقت شرع ہے تو ہم کہیں گے جو چیز شرع سے موافقت رکھتی ہے وہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے اور اگریہ کہا جائے کہ اس کا مرجع عقل ہے تو ہم کہیں گے کہ انسانی عقول کثیر الاختلاف ہوتی ہیں اور شاذ و نادر ہی ان میں موافقت ہوتی ہے۔ یہ عقول انسانی ایک ہی وقت میں ایک چیز کے بارے میں مختلف فیصلے کرتی ہیں کچھ عقول اس چیز کی تحسین کرتی ہیں تو کچھ قبیح سمجھتی ہیں تو کس کے حکم کو قبول کیا جائے گا؟ کیونکہ ہر صاحب بدعت کو یہ زعم ہوگا کہ اس کی بدعت عقلاً حسنہ ہے؟لہٰذا بدعت حسنہ کے دعویداروں سے یہ کہا جائے گا کہ تم اس بات کے معترف ہو کہ بدعات میں کچھ قبیحہ اور کچھ حسنہ ہیں ظاہر ہے کہ دونوں کے مابین کوئی حد فاصل ہونی چاہئے جس سے بدعات حسنہ و قبیحہ میں تمیز ہوسکے۔
بسا اوقات ایک چیز بظاہر اطاعت معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ معصیت ہوتی ہے اوربسا اَوقات معاملہ اس کے برعکس بھی ہوا کرتا ہے۔کتنی ہی عقلیں یہ سمجھ بیٹھیں گی کہ نشاط و رغبت کے موقع پر نماز ظہر کی پانچ رکعات پڑھنا اور تکان و اضمحلال اور کثرت اشتغال کے وقت دو رکعت پڑھنا،بدعت حسنہ ہے۔ دریں صورت وہ حد فاصل بتلانی بہت ضروری ہے جس کے ذریعے سے حسنہ و قبیحہ بدعات میں تمیز ہوسکے اور اس حدفاصل کے لیے شرعی دلیل کا ہونالازم ہے۔

6۔اگر بعض دینی اُمور کو ہمارے استحسان کے حوالے کردینا اللہ تعالیٰ پر جائز ہے تو ہم اپنی عقول سے پوری شریعت بنانے کو جائز قرار دے سکتے ہیں اور اس معاملہ کی شناعت و قباحت اپنی جگہ پر ثابت شدہ امر ہے، کیونکہ علیم و حکیم کی حکمت بھی بدعت حسنہ کے موقف کو تسلیم نہیں کرتی لہٰذا پروردگار دین حنیف کو ہماری عقول و اذہان کے حوالے نہیں کرسکتا کیونکہ شارع اتفاق چاہتا ہے اس پر اختلاف و شقاق گراں گزرتا ہے اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دین ہمارا اہم ترین سرمایہ اور عظیم ترین دولت ہے۔
7۔ہم دیکھتے ہیں کہ دین میں ایجاد شدہ جن بدعات کو حسنہ کہا جاتا ہے انھوں نے دین میں تباہی مچا رکھی ہے اور اہل بدعت کی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ دین حنیف نے شرک وضلالت، فسق و فجور اور بے راہ روی سے روکا ہے لیکن ان بدعات حسنہ نے بیسیوں محرمات ومنکرات اور ہفوات وترہات کے ارتکاب پر اہل بدعت کو آمادہ کررکھا ہے۔
امام شافعی رح، حسن بن علی رح، سید احمد بدوی، دسوقی، روفاعی، شیخ عبدالقادر جیلانی ، زیلعی، عبدروس، علی ہجویری وغیرہم کے بلند و بالا مزارات پرجوکچھ ہوتا ہے۔ وہ مخفی نہیں، عیدمیلادالنبیﷺ کی بدعت کی آڑ میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔؟ روضہ رسولﷺ کی شبیہ بنانا شرکیہ نعتیں پڑھنا، مجلس کے آخر میں قیام اس عقیدت کے تحت کرنا کہ نبی کریمﷺ مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں۔ دروازے اور پہاڑیاں بنانا، عمارتوں پر چراغاں کرنا، جھنڈیاں لگانا، ان پر آپﷺکے نعلین شریفین کی تصویر بنانا، مخصوص لباس پہننا، تصویریں اتارنا،رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا، اجتماعی نوافل ، اجتماعی روزے، اجتماعی قرآن خوانی کرنا، مردو زَن کا اختلاط، ایک دوسرے کی عورت کو دیکھنا، آتش بازی، مشعل بردار جلوس جو کہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے، گانے بجانے، فحاشی و عریانی، فسق و فجور، ریاکاری و ملمع سازی، من گھڑت ، قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان، انبیاء ، ملائکہ، صحابہ کرام کے بارے میں شرکیہ عقائد کا اظہار قوالی، لہوولعب، مال و دولت اور وقت کا ضیاع سب کچھ ہوتا ہے بلکہ اب تو ان پروگراموں میں بدامنی، لڑائی جھگڑا، قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور یہ سارے کام جذبات و جہالت کے ساتھ ساتھ دین، نیکی، ثواب، تقرب اِلی اللہ اور اعمال صالحہ سمجھ کر سرانجام دیئے جاتے ہیں۔ بہرحال یہ سب بدعات حسنہ کے مضمرات و عواقب ہیں۔

8۔بدعت حسنہ کو جائز قرار دینے سے اَن پڑھ اور شریعت میں ناقص العلم لوگوں کو قانون سازی اور شریعت سازی کا موقع ملتا ہے۔ وہ جیسے چاہیں قوانین بنائیں حالانکہ عام لوگ اچھے برے کی معرفت، نفع بخش اور مضرت رساں چیزوں کی تمیز نہیں رکھتے بعد ازاں لاعلمی میں دین کا خاتمہ کربیٹھتے ہیں جب کہ اللہ و رسولﷺ کے علاوہ دوسرے قسم کے جو دانش مند قانون ساز ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح کے دروازے بند کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جس سے دشمنان حق داخل ہوسکیں پھر تمام قانون سازوں سے زیادہ حکمت والا احکم الحاکمین و رب العالمین ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا خالق و حید ہے کیونکہ وہ دشمنان دین کی دراندازی کا سدباب نہیں کرے گاتو کون کرے گا؟
9۔اگر بدعت حسنہ کے نام پر دین حنیف میں اضافہ جائز ہے تو دین سے بعض اُمور کو حذف و خارج کرنا یا دین میں کمی کردینا بھی جائز ہوگا اسے بھی بدعت حسنہ کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے کیونکہ اضافہ و زیادتی اور کمی و حذف میں قباحت و شناعت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ بھلا دین میں اس واضح گمراہی کا کون سا عقل مند قائل ہوسکتا ہے اور کون اس پر سند جواز بخش سکتا ہے؟
بدین المسلمین أن جاز زید
فجاز النقص أیضاً أن یکون
کفی ذا القول قبیحاً یا خلیلی
ولا یرضاہ إلا الجاھلون


’’اہل اسلام کے دین میں اگر اضافہ جائز ہے تو حذف و اسقاط بھی جائز ہونا چاہئے۔ میرے دوست ایسی بات کے قبیح ہونے پر یہی چیز کافی ہے کہ اس پر جہلاء خوش ہوتے ہیں۔‘‘
10۔بعض علماء حق کہتے ہیں ۔ اگر شریعت میں ’بدعت حسنہ‘ کی ایجاد جائز ہے تو ہم ’بدعت حسنہ‘ کو ترک کرنے کی ’بدعت حسنہ‘ ایجاد کریں گے کیونکہ ہمارے خیال میں ’بدعت حسنہ‘ کے ساتھ عدم عمل ہمارے دین و دنیا کے لیے زیادہ نفع بخش، ہمارے اتحاد و اتفاق کے لیے زیادہ جامع اور ہمارے اختلاف و افتراق کی بیخ کنی کے لیے زیادہ موزوں ہے، پس اگر ہمارے موقف پر کوئی دلیل و برہان ہے تو اس کی مخالفت جائز نہیں ہوگی اور اگر نہیں ہے تو پھر یہ بدعت حسنہ ہوگی جو بہرصورت تمہارے نزدیک معمول بہا ہے لہٰذا اس پر بھی کاربند ہونا چاہئے الغرض بدعت ہر اعتبار سے باطل تصور ہوگی۔
11۔ذمِ بدعات کے عمومی دلائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کو ان کے عمومی مزاج پر منطبق کیا جائے۔ بصورت دیگر مخصص (دلیل شرعی) کے بغیر تخصیص خارج از امکان متصور ہوگی۔
12۔’’کل بدعة ضلالة‘‘ میں لفظ ’کل‘ عموم و شمول کے قوی ترین اَدوات میں سے ہے اور جس شخصیت نے یہ لفظ نطق کیا تھا وہ اس کے مدلول کو جانتے تھے اور ہمارا یہ یقین ہے۔ نبی کریمﷺ اَفصح اللسان تھے اور مخلوق کے لیے سب سے بڑھ کر ناصح تھے وہ ایسا لفظ ہی بولتے تھے جو مقصود المعنی ہوتا تھا، لہٰذا جب آپﷺ نے "کل بدعة ضلالة "کہا تو وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اس کا معنی و مفہوم کیا ہے اور تحقیق یہ کلام ان سے اُمت مسلمہ کے لیے اکمل ترین نصیحت کے بارے میں صادر ہوئی تھی۔لہٰذا جب کلام میں تین اُمور جمع ہوگئے یعنی نصح و ارادت کا کمال، بیان و فصاحت کا کمال اور علم و معرفت کا کمال۔ تو یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کلام سے وہی معنی مراد لیا جائے گا جس پر وہ دلالت کررہی ہے۔ لہٰذا اس کلیہ کے بعد یہ صحیح نہیں کہ بدعت کو ازروئے تحسین و تقبیح یا ازروئے احکام خمسہ میں تقسیم کیا جائے۔ پھر ڈاکٹر موصوف نے ’بدعت حسنہ‘ کی جو تعریف کی ہے جس کو ہم نے شروع میں نقل کیا ہے۔
کیا یہ تعریف مروجہ بدعات سیّئۃ وضلالۃ (جیسے عیدمیلادالنبیؐ وغیرہ) پر صادق آتی ہے؟ اگر صادق آتی ہے تو ہم طالب علموں کی معلومات میں بھی اس بات کا اضافہ ہونا چاہئے کہ اس خود ساختہ عید اور بدعت شنیعہ کی وہ کون سی اصل ہے یا شریعت کے کون سے مستحسنات کے تحت داخل ہے؟ جس کو وجہ جواز بنا کرڈاکٹر صاحب نے اس بدعت کو’بدعت حسنہ ‘ کا سر ٹیفکیٹ دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ’تحسین بدعات‘کے دعوی کو نہ نقل حکیم قبول کرتی ہے اور نہ ہی عقل سلیم قبول کرتی ہے اور یہی صحیح موقف ہے۔ لہٰذا ’بدعت حسنہ‘ کا تصور نہ صرف مختلف عواقب و مضمرات کو جنم دیتا ہے بلکہ ایک ایسا تصور ہے جو قلوب و اَذہان کو سنت رسول اللہﷺ کی اہمیت سے محروم کرنے اور اطاعت رسولﷺ کے جذبات کو مجروح کرنے کا بہت بڑا محرک بھی بنتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کی متابعت کا حکم جاری فرمایا ہے۔
{اِتَّبِعُوْا مَا أنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہِ أوْلِیَائَ قَلِیْلاً مَّا تَذَّکَرُوْنَ}
’’لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔‘‘ [الاعراف:۳]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دعوتِ فکر!

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ڈاکٹر صاحب امام ابوحنیفہ رح کے اصول و فروع میں مقلدہیں اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔اور مقلد کے لیے اس کے مجتہد کا قول ہی دلیل ہوتا ہے۔
چنانچہ امام صدر الشریعۃ لکھتے ہیں:
’’فالأدلۃ الأربعة إنما یتوصل بھا المجتہد لا المقلد فأما المقلد فالدلیل عندہ قول المجتہد فالمقلد یقول ھذا الحکم واقع عندی لأنہ أدی إلیہ رأی أبی حنیفۃ رحمہ اﷲ وکل ما أدی إلیہ رأیہ فھو واقع عندی‘‘[التوضیح مع التلویح:ص۴۳]
’’ادلہ اربعہ کو مجتہد ہی پہنچتا ہے نہ کہ مقلد، لہٰذا مقلد کے لیے دلیل مجتہد کا قول ہوتا ہے پس مقلد کہتا ہے یہ حکم میرے نزدیک واقع (ثابت) ہے کیونکہ اس پر امام ابوحنیفہؒ کی رائے قائم ہے اور ہر وہ حکم جس پر امام ابوحنیفہؒ کی رائے قائم ہو پس وہ میرے نزدیک واقع (ثابت) ہے۔‘‘
قاضی زاہد الحسین دیوبندی لکھتے ہیں:
’’حالانکہ ہرمقلد کے لیے آخری دلیل مجتہد کا قول ہے جیسا کہ مسلّم الثبوت میں ہے أما المقلد فمستندہ قول المجتہد،اب اگر ایک شخص امام ابوحنیفہؒ کا مقلد ہونے کا مدعی ہو (جیسا کہ ڈاکٹر صاحب ہیں) اور ساتھ ہی وہ امام ابوحنیفہؒ کے قول کے ساتھ یا علیحدہ قرآن و سنت کا بطور دلیل مطالبہ کرتا ہے تو وہ بالفاظ دیگر اپنے امام اور راہنما کے استدلال پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘ [مقدمہ کتاب، دفاع امام ابوحنیفہؒ از عبدالقیوم حقانی، ص۲۶]
شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی لکھتے ہیں:
’’مقلد کو لائق نہیں کہ مجتہد کی رائے کے برخلاف کتاب وسنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے۔‘‘ [مکتوبات امام ربانی مستند اردو ترجمہ ج۱ ص۶۰۱، مکتوب ۲۸۶]
احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
’’اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں، ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا فرمان ہے۔‘‘ [جاء الحق ج۲ ص۶۱ طبع قدیم]
مذکورہ تصریحات سے یہ حقیقت مترشح ہوئی ہے کہ مقلد ادلہ اربعہ سے استدلال نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لیے اس کے مجتہد کا قول ہی مستند دلیل ہوتا ہے لہٰذا چاہیے تو یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے امام ٓومجتہد امام ابوحنیفہؒ سے تقسیم بدعت ثابت کرتے یا اس تقسیم کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے نقل کرتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایسا نہیں کہا بلکہ اپنے اکابرین کے قدیم اصولوں کو توڑتے ہوئے امام شافعیؒ اور امام عزالدین بن عبدالسلامؒ کی تقسیم کو نقل کرتے ہوئے ’بدعت حسنہ‘ کو سند جواز بخشی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک مقلد جب اَدلہ اَربعہ سے استدلال نہیں کرسکتا تو کیا وہ شوافع کے اقوال و تقسیماتِ بدعت سے استدلال کرسکتا ہے؟ اصول حنفیہ کے تحت مقلد ہرگز ایسا نہیں کرسکتا، اب ڈاکٹر صاحب کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو حنفیت چھوڑ کر شافعیت کا دعویٰ کرلیں یا حقیقی و اصلی مقلد اور حنفی رہتے ہوئے شافعیوں کے اقوال و تقسیمات بدعت سے استدلال کرنے سے گریز کریں اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان قادری کا فرمان ہے۔
’’ہم حنفی ہیں نہ کہ یوسفی یا شیبانی ۔‘‘ [ملفوظات حصہ دوم:ص۱۷۴]
دوسری وجہ یہ ہے کہ صدیوں سے احناف اور شوافع کے مابین ایک خون ریز جنگ جاری رہی ہے ایک دوسرے پر کفر و ارتداد کے فتوے لگائے گئے، ایک دوسرے کو قتل کیا گیا۔دوکانیں اور محلے جلائے گئے اور یہ سلسلہ ماضی قریب تک جاری رہا، یہ سب تقلید شخصی کے تباہ کن نقصانات تھے۔ اس بات کا اندازہ آپ حسب ذیل عبارت سے لگا سکتے ہیں:
’’الحق والإنصاف أن الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلة ونحن مقلدون یجب علینا تقلید إما منا أبی حنیفۃ واﷲ أعلم‘‘ [تقریر ترمذی ص۳۶، نسخہ آخری ص۳۹]
’’حق و انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں (امام) شافعیؒ (کے مذھب) کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر ہمارے امام ابوحنیفہؒ کی تقلید واجب ہے۔ واللہ اعلم‘‘
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
بات بالکل واضح ہے اہل تقلید حق و انصاف سے کوسوں دور ہیں انتہائی افسو س کا مقام تو یہ ہے حق و انصاف کا اعتراف کرنے کے باوجود اہل تقلید اس کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہی صورت حال بدعات کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
’’شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی، شافعی،مالکی، حنبلی اسی طرح قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی، یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں ان میں بعض کے تو نام تک بھی عربی نہیں جیسے چشتی یا نقشبندی، کوئی صحابی، تابعی، حنفی، قادری نہ ہوئے۔ اب دیوبندی بتائیں کہ بدعت سے بچ کر وہ اپنی حیثیت سے زندہ بھی رہ سکتے ہیں؟ جب ایمان اور کلمہ میں بدعات داخل ہیں تو بدعت سے چھٹکارا کیسا؟ [جاء الحق:۱؍۲۲۲]
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:
’’اس سلسلہ میں صحیح قاعدہ یہ ہے کہ جس خاص عبادت کے کرنے کا محرک ہو اور اس کے کرنے سے کوئی مانع نہ ہو، تو وہ کام کرنا یقیناً ناجائز امر بدعت ہے۔‘‘ [شرح صحیح مسلم:۲؍۵۴۵]
ہم اَرباب منہاج القرآن اور خصوصاً ڈاکٹر صاحب سے نہایت ہی ادب و احترام سے کہنا چاہتے ہیں کہ یہ آپ کے گھر کی گواہیاں ہیں۔

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے​

یہ واقعی مقام تفکر و تدبر ہے بدعات کا اعتراف کرنے کے باوجود ان پر تعمیل کرنا سوائے خواہشات پرستی کے کچھ اور نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب مانیں یا نہ مانیں یہ اُن کی اپنی صوابدید ہے لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ حق ،سچ اور مبنی برانصاف بات یہ ہے کہ دین میں بدعت کی از روئے تحسین و تقبیح اور ازروئے احکام خمسہ کے کوئی تقسیم نہیں،بلکہ ہر بدعت مبنی برضلالت اور آتش جہنم کا موجب ہے۔
لہٰذا ہم ڈاکٹر صاحب اور ارباب منہاج القرآن کو یہ دعوت فکر دیتے ہیں کہ آپ حضرات مذکورہ بالا گزارشات کا بغور مطالعہ فرمائیں اور آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، آثار صحابہ اور اقوال آئمہ و سلف صالحین کی صحیح تعبیر و توضیح اور حقیقی معنی و مفہوم کو اپنے قلوب و اذھان کی تختیوں پر راسخ کریں، اپنے دامن کو بدعات سے بچا کر، کتاب و سنت کا صاف اور شفاف لباس زیب تن کرکے اپنی حیات مستعار کے باقی ایام بسر کریں۔ دنیا و آخرت کی حقیقی فوز و فلاح صرف قرآن و سنت کی متابعت میں ہی ہے۔

قد حذر المختار من کل بدعة
وقام بذا فوق المنابر یخطب
وإیاکم والابتداع فانہ
ضلال و فی نارا لجحیم یکبکب
وکم حدثت بعد الرسول حوادث
یکاد لھا نور الشریعۃ یسلب
وکم بدعة شنعاء دان بھا الوری
وکم سنۃ مھجورة تتجنب
أقیموا لنا فیہ الدلیل فإننا
نمیل إلی الأنصاف والحق نطلب
وما العلم إلا من کتاب وسنة
وغیرھما جھل صریح مرکب


’’رسول اللہﷺ نے ہر بدعت سے متنبہ کیا ہے اور یہ تنبیہ آپ نے منبروں پر خطبہ دیتے ہوئے فرمائی ہے اور تم ایجاد بدعت سے بچتے رہو کیونکہ یہ گمراہی ہے جو آدمی کو آتش دوزخ میں اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔ وفات نبویؐ کے بعد کتنے حوادث آئے جو شریعت مطہرہ کے نور کو بجھا دینا چاہتے تھے اور آج کتنی بدعات شنیعہ کو لوگوں نے دین قرار دے لیا ہے اور کتنی سنن متروک العمل ہیں اس سلسلے میں تم ہمارے سامنے دلیل لاؤ کیونکہ ہم انصاف کی طرف میلان رکھتے ہیں اورحق کے طالب ہیں اور علم صرف کتاب وسنت کا نام ہے ان کے علاوہ (دیگر اقوال و آراء جو قرآن و سنت سے متصادم ہیں) صریح طور پر جہل مرکب ہیں۔‘‘
٭…٭…٭​
 
Top