بدعت کی اَحکام خمسہ میں تقسیم سب سے پہلے امام عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام رح نے کی تھی جس سے امام قرافی، نووی و دیگر ائمہ کرام نے اَخذ کیاہے۔ چنانچہ امام عز فرماتے ہیں:
’’البدعة فعل مالم یعھد فی عصر رسول اﷲ! وھی منقسمة إلی بدعة واجبة وبدعة محرمہ وبدعة مندوبة وبدعة مکروھة وبدعة مباحة۔‘‘
’’بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہﷺ کے زمانہ میں نہ کیا گیا ہو بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں، واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروہہ اور مباحہ۔ [قواعد الأحکام فی مصالح الأنام:۲؍۳۳۷]
امام عزالدین کی یہ تقسیم حسب ذیل وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے۔
= اَحکام خمسہ: (واجب، مندوب، مباح، حرام و مکروہ) اور بدعت کو آپس میں جمع کرنا ایسے ہی ہے جیسے دو چیزوں کو جو ایک دوسرے کے منافی و متناقض ہیں ان کو جمع کردیا جائے، کیونکہ اَحکام خمسہ تواَدلہ شرعیہ پرقائم ہوتے ہیں اور جو چیز مبنی بردلیل ہو وہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے۔ بدعت تو وہ ہوتی ہے جو کسی دلیل پرقائم نہ ہو۔
= اَحکام خمسہ کے ضمن میں جو اَمثلہ دی جاتی ہیں یا تو وہ بدعات کے دائرہ میں داخل ہی نہیں ہوتی یا پھر ان کا تعلق مصالح مرسلہ سے ہوتا ہے جس کی بنیاد علماء کے نزدیک اس قاعدہ پر قائم ہے۔
’’ما لایتم الواجب إلا بہ فھو واجب‘‘ یعنی اس کا حاصل یہ ہے کہ امر ضروری کی حفاظت کی جائے یا دین میں لازم آنے والے حرج کو رفع کیا جائے۔ لہٰذا اس لحاظ سے بدعات اور مصالح مرسلہ میں زمین وآسمان جیسا فرق ہے جن کا متساوی ہونا ناممکن ہے دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بدعات کا تعلق مقاصد و عبادات سے ہوتا ہے جب کہ مصالح مرسلہ کا تعلق وسائل ومعاملات سے ہوتاہے۔
= امام عزالدین نے اپنے فتاویٰ جات میں بہت سارے اُمور تعبدیہ کو بدعات سیّئہ ومحدثات منکرۃ سے موسوم کیا ہے اور بدعات سے اجتناب اور سنن کی اتباع کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ولم تصح الصلاة علی الرسول فی القنوت ولا ینبغی أن یزاد علی رسول اﷲ! فی القنوت بشئ ولا ینقص‘‘ [فتاویٰ العز بن عبد السلام: ص۴۸]
’’قنوت میں رسول اللہﷺ پر درود صحیح نہیں ہے اور قنوت میں رسول اللہﷺ پرکسی چیز کی کمی و زیادتی ناجائز ہے۔‘‘
محدث العصر علامہ البانی رح فرماتے ہیں:
’’وفی ھذا القول منہ إشارة إلی أنہ لا یتوسع فی القول بالبدعة الحسنة کما یفعل بعض المتأخرین القائلین لھا۔‘‘ [صفۃ صلاۃ النبی :ص ۱۶۱]
’’امام عزالدین کے اس قول میں یہ اشارہ موجود ہے کہ وہ بدعت حسنہ کے قول میں وسعت نہیں رکھتے تھے جیساکہ بعض متاخرین اس کے قائل ہیں۔‘‘
علاوہ ازیں امام عزالدینؒ دوسرے مقام پر زینتِ رسولﷺ کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں:
’’فمن أراد السنة فلا یزید علی ذلک والخیرکلہ فی اتباع الرسول واقتفاء آثارہ‘‘
’’پس جو سنت رسولؐ کا متلاشی ہے وہ اس پر زیادتی نہ کرے اور ہر قسم کی بھلائی اتباع رسولﷺ اور آپ کے آثار کی پیروی میں ہی ہے۔‘‘ [ص۸۰]
پھر
’’مسألة الصلاة علی السجاد‘‘ میں ان کا یہ قول مرقوم ہے:
’’فالأفضل اتباع الرسول علیہ السلام فی دق أفعالہ وأقوالہ وجلھا،من أطاعہ اھتدی وأحبہ اﷲ عزوجل ومن خرج عن طاعتہ والإقتداء بہ،بعد عن الصواب بقدر تباعدہ عن اتباعہ‘‘ [ص۶۸]
’’رسول اللہﷺ کے افعال و اقوال خواہ کم ہوں یا زیادہ اُن میں افضل اتباع رسولﷺ ہے جس نے آپﷺ کی اطاعت کی وہ ہدایت یافتہ اور محبوب الٰہی بن گیا اور جس نے آپﷺ کی طاعت و اقتداء سے روگردانی کی وہ حق سے اتنا ہی دور چلا گیا جتنا وہ اتباع رسولﷺ سے دور ہوا۔‘‘
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’والإقتداء بالسلف أولی من إحداث البدع‘‘ [ ص۱۷۳]
’’سلف کی اقتدا و پیروی، احداث بدعات سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
ایک اور قول پیش خدمت ہے جب امام عزالدین رح سے صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیتے ہیں۔
’’المصافحة عقب الصبح والعصر من البدع إلا لقادم یجتمع بمن یصافحہ قبل الصلاة،فإن المصافحة مشروعة عندالقدوم وکان النبی یأتی بعد الصلاة بالأذکار المشروعة ویستغفر ثلاثا،ثم ینصرف،وروی أنہ قال:رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک‘‘ والخیر کلہ فی اتباع الرسول‘‘ ۔ [ص ۴۶]
’’صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعات میں سے ہے مگر جو شخص نماز سے پہلے آتا ہے اور اگر مصافحہ کرتاہے تو یہ بدعت نہیں بلکہ مشروع ہے اور نبی کریمﷺ نماز کے بعد اَذکار مشروعہ کرتے اور تین مرتبہ استغفار کرتے پھر پچھلی جانب رخ موڑتے اور یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریمﷺ فرمایا کرتے تھے ’’اے میرے پروردگار روزِقیامت تو مجھے اپنے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا‘‘ اور ہر قسم کی خیرو بھلائی اتباع رسولؐ میں ہی ہے۔‘‘
پس یہ بالکل ظاہر ہے کہ امام عزالدین رح نے نماز صبح و عصر کے بعد مصافحہ کو شرعی اعتبار سے بدعت کہا ہے حالانکہ انھوں نے
قواعد الأحکام میں اس کو بدعت مباحہ کہا ہے۔ لہٰذا ان کے اس قول کی تعبیر یہ کی جائے گی کہ جب وہ بدعت مباحہ کہتے ہیں تواس میں لفظ بدعت کو لغوی اعتبار سے مراد لیتے ہیں اورجب وہ بدعت کو غیر مشروع سے تعبیر کرتے ہیں تواس میں بدعت کو شرعی اعتبار پر محمول کرتے ہیں۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’طوبی لمن تولّٰی شیئا من أمور المسلمین فأعان علی إماتة البدع وإحیاء السنن‘‘ [مساجلہ علمیہ:ص۱۰]
’’اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس کو مسلمانوں کے حکومتی معاملات میں ولایت ملتی ہے پس وہ بدعات کے خاتمے اور سنن کے احیاء پراعانت کرتاہے۔‘‘
اب یہ بات روزِ روشن کی مانند عیاں ہے کہ امام عزالدین، بدعت واجبہ، بدعت مندوبہ اور بدعت مباحہ سے لغوی معنی مراد لیتے ہیں ناکہ شرعی معنی مراد لیتے ہیں، کیونکہ اصطلاح شرع میں ہر بدعت مبنی بر ضلالت ہی ہوتی ہے اور یہاں سے ایک اور بات واضح ہورہی ہے کہ آثار اور بعض اہل علم کی کلا م میں وارد بدعت کے معنی میں لغوی معنی اور شرعی اصطلاح کو باہم خلط ملط کرنایہ بدعت حسنہ کے اَسباب و محرکات میں سے ایک اہم سبب ہے۔ پس جس کو توفیق الٰہی ملتی ہے وہ ضروراس اشتباہ کو زائل کرتا ہے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچ جاتاہے۔
بہرحال مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ بعض سلف نے جو بدعت کی احکام خمسہ یا محمودہ ، صالح حسنہ ہونے کے لحاظ سے تقسیم کی ہے تو اس کو لغوی معنی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ پیچھے ابن رجب حنبلیؒ کا قول گزر چکا ہے۔ بدعت حسنہ سے استدلال کرتے ہوئے مروجہ بدعات و محدثات کو سند جواز نہیں دی جاسکتی۔
لہٰذا ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ سلف کے اقوال کی وہی تعبیر کریں جو نہ صرف ان کے قواعد و اُصول کے موافق ہو بلکہ ’’کل بدعة ضلالة‘‘ سے معارضت بھی لازم نہ آئے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب اگر تقسیم بدعت از روئے تحسین وتقبیح کو ناگزیر سمجھتے ہیں تو ان کو آنے والی سطور کا بنظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے۔