• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈیپریشن میں کمی کیسے ممکن !!

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
اگر آپ کو زندگی میں صرف تین کام کرنے کو کہا جائے جو آپ کی صحت میں انقلاب لے آئیں اور آپ کی ڈپریشن بھی کم ہو جائے تو وہ تین کام کیا ہوں گے؟

۱۔
پاکستان دنیا کے ان نمایاں ممالک میں ہے جہاں میٹھے کا استعمال انتہائی زیادہ ہے۔ دنیا جہاں کی غذائیت پر ہونے والی ریسرچ کا حاصل یہی ہے کہ کھانے میں گلوکوز اور فرکٹوز کا استعمال کم کیا جائے۔
یہ گلوکوز آپ کو ملتا ہے گندم اور بیکری کی اشیا سے، چاول سے، لیکن سب سے زیادہ خالص اور خطرناک حالت میں یہ ملتا ہے گڑ یا چینی اور اس سے بنی میٹھی اشیا سے۔

جسم میں چینی کے اضافے سے کیا ہوتا ہے؟ چینی گلوکوز اور فرکٹوز کی صورت میں جسم میں جذب ہوتی ہے، یہ جتنی زیادہ ہو گی اس کو ٹھکانے لگانے کے لئے اتنی ہی زیادہ انسولین پیدا ہو گی، اور اگر یہ سلسلہ چلتا رہے تو پھر جسم میں بہت زیادہ انسولین کی وجہ سے انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ذیابطیس اور جسم کے سب اعضاء کا بیڑہ غرق ہونا شروع ہو جاتا ہے، اور خاص طور پر سٹریس میں اضافہ ہو جاتا ہے ، چینی استعمال کرنے والوں کو چینی کا نشہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ہیروئین کا نشہ، لیکن ہیروئین اور چینی کے نشے میں صرف فرق یہ ہے کہ ان میں سے ایک قانونی اور جبکہ دوسرا غیر قانونی۔

میں نے دنیا میں جہاں بھی صحت مند اور لمبی عمر پانے والے افراد دیکھے، جن کے چالیس پنتالیس سال کے افراد بھی ہمارے پچیس سال کے لڑکوں سے زیادہ صحت مند اور طاقتور ہیں، اور جن کی خواتین پچاس سال کی عمر میں بھی چاق و چوبند ہوتی ہیں ( جبکہ ہمارے تیس کی دہائی میں ہی پینگوئین بن چاتی ہیں) تو ایسے سب افراد اور معاشروں میں یہ چیز نمایاں ہے کہ وہ سب میٹھی اشیا کا انتہائی کم استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے ہاں چائے صرف اس کو کہتے ہیں جسے ہمارے ہاں قہوہ کہتے ہیں، اور ان کے ہاں اس چائے میں چینی ڈالنے کا کوئی تصور نہیں ہے ۔
ہمارے ہاں دودھ اور دہی چینی کے بغیر پینے کو "گناہ" سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ صحت مند رجحان والے معاشروں میں دودھ کو چینی کے بغیر ہی میتھا سمجھ کر پیا جاتا ہے۔ ہاں ان معاشروں میں بھی چینی والی میٹھی اشیا ملتی ہیں لیکن ان کو وہ غیر صحت مند اور جنک فوڈ سمجھتے ہیں، اور اگر وہ ایسی چیز استعمال کر لیں تو پھر باقی کا دن پرہیز کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
بیکری کی اشیاء، حلوہ پوری، مٹھائیاں و حلوہ جات، سافٹ ڈرنکس وہ زہر ہیں جن کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

۲۔
حرکت میں برکت۔
جن معاشروں کے افراد مجموعی طور پر صحت مند ہیں ان کے ہاں سارا دن فارغ بیٹھ کر دوسروں کے کرکٹ کے سکور گن کر وقت گزاری کرنے کی بجائے زیادہ تر افراد خود ورزش، سپورٹس اور واک وغیرہ میں حصہ لیتے ہیں۔ یعنی ان کے صحت مند افراد سپورٹس دیکھتے نہیں بلکہ سپورٹس کرتے ہیں، اور اگر سپورٹس نہ کریں تو عملی طور پر چل پھر کر متحرک زندگی گزارتے ہیں۔
چہل قدمی کے ساتھ ساتھ، جسم کو ہر دو چار دن بعد اچھی طرح ایکزاسٹ کرنا یعنی خوب ایسی ورزش یا سپورٹس کرنا ضروری ہوتا ہے جس میں جسم نڈھال ہو جائے۔ اس سے جسم میں دورانِ خون انتہائی بڑھ جاتا ہے جس سے کولیسٹرول میں بھی کمی رہتی ہے اور جسم کے نڈھال ہونے کی وجہ سے اس کو ریلیف یعنی سکون دینے کے لئے جسم خود ہی ایسے مادے پیدا کرتا ہے جس سے آپ کی سٹریس کم ہوتی ہے اور آپ کو خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ہفتے میں ایک یا دو بار ایسی ایکٹیویٹی کر لینے سے آپ سارا ہفتہ بہتر محسوس کر سکتے ہیں۔

۳۔
شام کو ہلکا ڈنر کر کے جلدی سو جانا، اور صبح جلدی اٹھ کے اچھا ناشتہ کرنا۔ دنیا کے سب کامیاب لوگوں کی زندگی کے معمولات میں یہ چیز بنیادی ترین حیثیت رکھتی ہے کہ وہ صرف صبح ہی نہیں بلکہ سحری کے وقت اٹھتے ہیں ، اپنے صبح کے معمولات جلدی نمٹا لیتے ہیں ، ورزش وغیرہ دن چڑھنے سے پہلے کر چکے ہوتے ہیں اور پھر صبح سے ہی کام کا آغاز کرتے ہیں، اور پھر اس طرح ان کو دن بہت لمبا محسوس ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے وہ پھر شام کو جلدی سو جاتے ہیں۔ یہ روٹین ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہت بلند درجہ پر رکھتی ہے ۔
یہ عادات تو اصل میں مسلمانوں کی گمشدہ میراث ہیں جن کو دیگر معاشروں کے افراد نے اپنا رکھا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی ہم سب کو باعمل اور مفید مسلمان افراد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔



۔۔۔۔۔
ہاں بونس کے طور پر ایک اور اہم بات شامل کر دی جائے جس پر بہت سے ٹاپ کے ریسرچر سالہاسال کی تحقیق کے بعد پہنچے، اور وہ ہے انٹرمٹنٹ فاسٹنگ، یعنی کے داؤدی روزے۔۔ یعنی ہر دوسرے دن روزہ رکھنا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ لیں، سنت کی سنت، صحت کی صحت۔
یہ بھی ایک انوکھی بات ہے لیکن حقیقت ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں فعالیت کم نہیں ہوتی بلکہ جسمانی اور دماغی صلاحیتوں میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کسی مسلمان مولوی کی نہیں بلکہ غیرمسلموں کی تحقیق ہے۔ اس سے اندازہ کریں کہ روزے کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔

ایک اور بات: چینی کا پرہیز شروع کریں تو پہلے دس بارہ دن چینی کی شدید طلب ہوتی ہے، نفسیاتی دورے پڑتے ہیں کہ چینی کھا لیں۔۔۔
لیکن یہ پہلے دو ہفتے چینی کے بغیر کسی طرح گزار لئے تو پھر زندگی آسان ۔ پھر تو بہت میٹھی اشیا سے ویسے ہی نفرت ہو جائے گی، اور زبان پر موجود ٹیسٹ بڈز دیگر اشیا کے نئے ذائقوں سے روشناس ہو جائیں گے جو پہلے چینی کی عادت کی وجہ سے خراب ہو گئے تھے۔

تحریر: عثمان اے ایم ، کی فیسبک وال سے
 
Top