• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کابل ہوٹل - عام شہری ايک بار پھر نشانہ

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


https://af.usembassy.gov/secretary-tillersons-statement-attack-kabul-intercontinental-hotel/

افغانستان – عام شہری ايک بار پھر نشانہ – دہشت گردوں کی بزدلی عياں

افغانستان کے شہر کابل ميں نہتے شہريوں پر ايک اور دانستہ حملہ جس کا واحد مقصد زيادہ سے زيادہ بے گناہوں کو ہلاک کرنا تھا۔ حملے ميں 22 شہری ہلاک ہوۓ۔ دہشت گردوں نے چودہ گھنٹے تک شہريوں کو يرغمال بناۓ رکھا جس دوران درجنوں شہری شديد زخمی بھی ہوۓ۔

قريب 150 شہريوں کو محفوظ مقام تک پہنچايا گيا جن ميں 41 غير ملکی شہری بھی شامل تھے۔

ہلاک ہونے والوں ميں امريکی شہريوں کے علاوہ، يوکرائن کے چھ شہری، وينزيليا کے دو کپتان، کازگستان کا ايک شہری اور ايک شہری جرمنی کا بھی شامل تھا۔

سال 2011 ميں بھی اسی ہوٹل کو دہشت گردی کا نشانہ بنايا گيا جس کے نتيجے ميں 21 شہری ہلاک ہوۓ تھے۔

طالبان نے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، باوجود اس کے کہ ان کی جانب سے بارہا يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ وہ نہتے شہريوں پر حملے نہيں کرتے ہيں۔

بچوں سميت مقامی افغان شہريوں کی تصاوير ديکھنے کے باوجود کوئ بھی اس دليل پر کيسے قائل ہو سکتا ہے کہ طالبان کے حملے ميں شہريوں کو نشانہ نہيں بنايا گیا تھا۔

طالبان کی جانب سے يہ لغو دعوی کہ وہ صرف عسکری عمارات کو نشانہ بناتے ہيں اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ اس حملے کے بعد درجنوں عام شہری ہلاک ہوۓ اور سينکڑوں زخمی ہوۓ۔

حملے کی سنگينی اور بے شمار ہلاکتوں سے واضح ہے کہ حملے کا مقصد کسی مخصوص عسکری مقام يا چند افراد کو ٹارگٹ کرنا نہيں بلکہ دانستہ زيادہ سے زيادہ عام شہريوں کو ہلاک کرنا تھا تا کہ دہشت اور بربريت پر مبنی اپنی مہم کو وسعت دی جا سکے۔

مسلح طالبان تواتر کے ساتھ يہ دعوی کرتے ہيں کہ وہ کسی بھی طور عام افغان شہريوں کو محفوظ کرنے کی سعی کر رہے ہيں۔ يہ دليل اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ ايک عشرے سے زائد عرصے پر محيط ان کے مظالم اور طريقہ کار سے واضح ہے کہ ان کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہی ہے کہ خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور عوامی مقامات، عمارات اور اہم شہری اثاثوں کی بربادی جيسی کاروائيوں کو بطور جنگی حکمت عملی کے استعمال کيا جاۓ۔

يہ بات حيران کن ہے کہ بعض راۓ دہندگان ابھی تک سرحد کے دونوں جانب طالبان اور دہشت گردوں کی کاروائيوں اور ان کے مجموعی رويے کے حوالے سے تذبذب اور ابہام کا شکار ہيں اور اس پر بحث کرتے رہتے ہيں۔ بدقسمتی سے يہ دہشت گرد اپنے طرزعمل کے ضمن ميں ايسے کسی مخمصے کا شکار نہيں ہيں۔ يہ اپنی مخصوص سوچ اور نظريے پر کامل اور پختہ يقین رکھتے ہیں۔ يہ اپنے آپريشنز کی تکميل ميں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہيں کرتے اور بے گناہ انسانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھنے ميں انھيں کوئ پيشمانی نہيں ہے۔

جو راۓ دہندگان دہشت گرد کے ہر واقعے کے بعد بال کی کھال اتارنے لگتے ہيں اور محض بحث در بحث کو بنياد بنا کر دہشت گردوں کی کاروائيوں کے حوالے سے شکوک اور شبہے کا اظہار کرتے ہیں انھيں چاہيے کہ وہ مجموعی صورت حال اور زمين پر موجود حقائق کا جائزہ لیں اور اس حقیقت کا ادراک کريں کہ بے گناہ شہريوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت ان کے لائحہ عمل کا حصہ نہيں ہے۔ اس کے برعکس وہ انسانی جانوں کے ضياع کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہيں تا کہ ان تصاوير کے ذريعے اپنی خونی سوچ کا پرچار کريں اور اپنی صفوں ميں مزيد افراد کو شامل کريں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
گزشتہ دو تین دہائیوں میں امریکی افواج نے دنیا بھر میں بمباری کے ذریعہ لاکھوں عام بے گناہ افراد کو قتل کیا ہے۔ کوئی اور ملک یا گروہ امریکہ کی اس ریکارڈ دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ بناتا اور بیچتا ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں گروپوں اور ملکوں کو باہم لڑواتا ہے تاکہ اس کا اسلحہ بکتا رہے۔ دہشت گردی کرنے اور پھیلانے میں بھی امریکہ نمبر ون ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
افغانستان – عام شہری ايک بار پھر نشانہ
ہلاک ہونے والوں ميں امريکی شہريوں کے علاوہ، يوکرائن کے چھ شہری، وينزيليا کے دو کپتان، کازگستان کا ايک شہری اور ايک شہری جرمنی کا بھی شامل تھا۔
جی یہاں کے عام شہری وہاں آم کھانے گئے تھے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی یہاں کے عام شہری وہاں آم کھانے گئے تھے!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
زبردرست ۔
امریکی دہشت گردی اور دہشت گرد اور ان کا طریقہ واردات بہت سارے لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔
اب اس طرح کے ’ مگر مچھ کے آنسو ‘ کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے ۔ إن شاءاللہ ۔
خود معصوم بچوں پر بھی ڈرون برسائیں ، تو وہ حقیقت میں سول کپڑوں میں بہت بڑے دہشت گرد ہوتے ہیں ۔ جبکہ اپنے سی آئی اے اور امریکی فوجی بھی جہنم واصل ہوں ، تو وہ ’ عام شہری ‘ ہوتے ہیں ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ بناتا اور بیچتا ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں گروپوں اور ملکوں کو باہم لڑواتا ہے تاکہ اس کا اسلحہ بکتا رہے۔ دہشت گردی کرنے اور پھیلانے میں بھی امریکہ نمبر ون ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

يہ دليل کہ امريکہ اپنی معيشت اور اسلحہ کی صنعت کے فروغ کے ليے عالمی سطح پر تشدد ميں اضافے کا متمنی ہے ايک کھوکھلا اور لغو الزام ہے کيونکہ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

digitaloutreach@state.gov​

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

يہ دليل کہ امريکہ اپنی معيشت اور اسلحہ کی صنعت کے فروغ کے ليے عالمی سطح پر تشدد ميں اضافے کا متمنی ہے ايک کھوکھلا اور لغو الزام ہے کيونکہ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


اسلحہ بنانے اور بیچنے والے کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ جائے، اگر دنیا میں امن قائم ہوجائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جس رفتار سے جنگ و جدل بڑھتا جارہا ہے، اسی رفتار سے امریکی اسلحہ کا کاروبار بھی ترقی کرتا جارہا ہے۔ امریکی معیشت میں امریکی اسلحہ بزنس کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔

امریکہ پہلے براہ راست یا اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ شروع کرواتا ہے۔ پھر وہاں دونوں فریقین کو اپنا اسلحہ بیچتا ہے۔ پھر جب وہ علاقہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے تو عالمی سماجی تنظیموں کے ذریعہ متاثرہ علاقوں میں امداد کا ڈھونگ چاتا ہے۔ اب امریکہ کا یہ کھیل دنیا کے بچے بچے کو معلوم ہوچکا ہے۔ اب اس انجام بد بھی دور نہیں۔ ان شا اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟
یہ منطق کوئی انوکھی تو نہیں۔ سب کی سمجھ میں ہے ۔
اسلحہ بیچ کر ڈھیروں پیسہ کماتے ہیں ۔
اور پھر ہمدردی کمانے کے لیے انہیں پیسوں میں سے کچھ خرچ کرکے ، خود کو بری الذمہ رکھنے کی بھی سعی لا حاصل کرتے ہیں ۔
بلکہ اسی امداد اور ’ ایڈز ‘ کو اپنے مقاصد کے حصول اور دوسروں کے استحصال کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خود معصوم بچوں پر بھی ڈرون برسائیں ، تو وہ حقیقت میں سول کپڑوں میں بہت بڑے دہشت گرد ہوتے ہیں ۔ جبکہ اپنے سی آئی اے اور امریکی فوجی بھی جہنم واصل ہوں ، تو وہ ’ عام شہری ‘ ہوتے ہیں ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

اگر آپ کے اس الزام ميں کوئ صداقت ہوتی تو پھر تو جن ممالک کے بچے اور شہری ہماری فوجی کاروائيوں کے نتيجے ميں ہلاک ہو رہے ہيں، انھيں ہمارے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہيں کرنا چاہيے تھا۔ مگر ہم جانتے ہيں کہ حقيقت يہ نہيں ہے۔

آپ کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ آپ دہشت گردی کے ضمن ميں ہونے والی عالمی کاوشوں کے دوران بے گناہ انسانی جانوں کے ضياع پر اپنے غم و غصے کا اظہار کريں۔ ليکن اس ضمن میں حتمی راۓ قائم کرنے سے پہلے آپ کو يہ بات بھی مدنظر رکھنی ہو گی کہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے نتيجے میں کتنے بے گناہ انسانوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔

ذرا تصور کريں کہ وہ تمام دہشت گرد جو پاکستان کے اندر گرفتار يا ہلاک کيے جا چکے ہيں، اگر ان کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی اور وہ آج بھی بلا روک ٹوک پاکستان کے اندر کم سن بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے خود کش حملہ آور بنانے میں مصروف ہوتے اور پاکستان کے اہم شہروں ميں بغیر کسی روک ٹوک کے دہشت گردی کرنے کے لیے آزاد ہوتے تو اس کے نتيجے ميں کتنے اور معصوم پاکستانی شہری لقمہ اجل بنتے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ان دہشت گردوں کے خلاف اس خوف اور خدشے کے تحت کاروائ نہيں کی جانی چاہيے کہ ان کے خلاف کسی بھی آپريشن کے نتيجے ميں بے گناہ افراد کی ہلاکت کا امکان موجود رہتا ہے؟

کيا آپ کے خيال ميں دنيا ميں آج زيادہ امن ہوتا اگر القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قيادت جو گزشتہ دس برسوں کے دوران گرفتار اور ہلاک ہو چکی ہے، اسے بغیر کسی ردعمل اور کاروائ کے خوف کے اپنی کاروائياں جاری رکھنے کا موقع فراہم کيا جاتا؟ ايسی صورت حال ميں ان مجرموں کو اپنی صلاحيتوں ميں اضافے اور اپنی تنظيم کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد دہشت گرد شامل کرنے کا موقع ملتا جس کے نتيجے ميں ان کی جانب سے مزید قتل و غارت گری کا بازار گرم کيا جاتا۔

اس میں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری مہم اور ان مجرموں کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ضمن ميں بے گناہ انسانوں کی جانيں بھی گئ ہيں۔ سينکڑوں کی تعداد ميں امريکہ اور نيٹو کے فوجی بھی اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔

ليکن يہ نہیں بھولنا چاہيے کہ ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہری آج اس وجہ سے محفوظ بھی ہیں کہ القائدہ، داعش اور اس سے منسلک گروہ اپنی بقا کی کوشش کر رہے ہيں اور ان کی تمام تر توجہ اپنے وجود کے دفاع پر ہے۔ میں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج بے گناہ افراد کی ہلاکت کے واقعات کی اصل ذمہ دار نہيں ہیں۔ يہ ايک واضح حقیقت ہے کہ دہشت گرد دانستہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے انسانی آباديوں کو استعمال کرتے ہيں اور عام لوگوں ميں گھل مل جاتے ہیں۔ يہ وہ مجرم اور ان کا طریقہ کار ہے جو آپ کی تنقيد کے اصل حقدار ہیں جو مذہب کا سہارا لے کر بے گناہ عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہيں کرتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
طالبان کی جانب سے يہ لغو دعوی کہ وہ صرف عسکری عمارات کو نشانہ بناتے ہيں اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ اس حملے کے بعد درجنوں عام شہری ہلاک ہوۓ اور سينکڑوں زخمی ہوۓ۔
میں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج بے گناہ افراد کی ہلاکت کے واقعات کی اصل ذمہ دار نہيں ہیں۔ يہ ايک واضح حقیقت ہے کہ دہشت گرد دانستہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے انسانی آباديوں کو استعمال کرتے ہيں اور عام لوگوں ميں گھل مل جاتے ہیں۔
آپ کا حافظہ کمزور ہے ، ورنہ آپ کابل والی خبر میں فضولیات کہنے کے بعد یقینا اوپر والی بات نہ دہراتے ۔کم از کم یہاں نہ دہراتے ۔
گویا ’ دہشت گرد حملہ ‘ ہو تو وہ ’ عام شہریوں ‘ پر ہوتا ہے ، جبکہ دہشت گردوں کو مارنے کے لیے امریکی کاروائیاں مجبورا ’ عام شہریوں ‘ پر کی جاتی ہیں ، کیونکہ وہاں دہشت گرد جان بچانے کےلیے گھس جاتے ہیں ۔
تف ایسی خبر نگاری اور تجزیہ کاری پر ۔
اگر آپ کے اس الزام ميں کوئ صداقت ہوتی تو پھر تو جن ممالک کے بچے اور شہری ہماری فوجی کاروائيوں کے نتيجے ميں ہلاک ہو رہے ہيں، انھيں ہمارے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہيں کرنا چاہيے تھا۔ مگر ہم جانتے ہيں کہ حقيقت يہ نہيں ہے۔
اس فضول منطق کا جواب ایک اور بات سے بھی دیا جاسکتا ہے ، اگر واقعتا امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی ختم کرنے میں ’ سنجیدگی ‘ سے لگے ہوئے ہیں ، اور ’ دہشت گردوں ‘ کی کوئی بھی سٹیٹ نہیں ہے ، نہ ان کے اسلحے کے کارخانے ہیں ، وغیرہ ۔ تو پھر دہشت گردی کو سالوں نہیں مہینوں میں ختم ہوجانا چاہیے تھا ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقت یہ نہیں ۔ ابتسامہ
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
اس فضول منطق کا جواب ایک اور بات سے بھی دیا جاسکتا ہے ، اگر واقعتا امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی ختم کرنے میں ’ سنجیدگی ‘ سے لگے ہوئے ہیں ، اور ’ دہشت گردوں ‘ کی کوئی بھی سٹیٹ نہیں ہے ، نہ ان کے اسلحے کے کارخانے ہیں ، وغیرہ ۔ تو پھر دہشت گردی کو سالوں نہیں مہینوں میں ختم ہوجانا چاہیے تھا ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقت یہ نہیں ۔ ابتسامہ


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی آج کے دور کا اہم ترين مسلۂ ہے کيونکہ دنيا بھر ميں عام شہريوں کی سيکورٹی اور تحفظ کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ مقامی حکومتيں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور متعلقہ حکام دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کو نيست و نابود کرنے اور ان دہشت گردوں کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے کتنی اہليت، صلاحيت يا مصمم ارادے کے ساتھ اقدامات اٹھاتے ہيں۔

جب آپ گزشتہ ايک دہائ سے دہشت گردی کے عالمی عفريت کے خلاف جاری عالمی کوششوں کے حوالے سے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تجزيہ کرتے ہيں اور پھر امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديتے ہيں تو درحقيقت آپ اس ضمن ميں تمام ديگر ممالک اور حکومتوں کو ہر طرح کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار ديتے ہيں۔ ہم نے ہميشہ يہ واضح کيا ہے کہ دہشت گردی ايک عالمی مسلۂ ہے جس کے حل کے ليے اجتماعی سطح پر مشترکہ کاوشوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ اقوام اپنے سياسی تحفظات، علاقائ ضروريات اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس مشترکہ دشمن کے خاتمے کے ليے کوششيں کريں جو نفرت پر مبنی سوچ کے ساتھ خوف اور دہشت پر مبنی مہم کے ذريعے افراتفری اور غير يقينی پر مبنی فضا کے
حصول کے ليے اقدامات اٹھا رہا ہے۔

يہ نشاندہی بھی ضروری ہے کہ امريکہ نے ہميشہ سے اس حوالے سے خدشات بھی ظاہر کيے ہيں اور اجتماعی سطح پر ايسی مشترکہ کاروائيوں کی ضرورت کو بھی اجاگر کيا ہے جن کے ذريعے دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کے ساتھ اس پرتشدد سوچ کا سدباب کرنا مقصود ہو، جو اس عالمی خطرے کا موجب بنتی ہے جو آج داعش کی شکل ميں دنيا کے سامنے موجود ہے۔

داعش کی پرتشدد کاروائيوں کے ليے امريکہ کو الزام دينے کی روش کے برعکس حقيقت يہی ہے کہ امريکہ نے ہميشہ مالی تعاون اور لاجسٹک اسپورٹ کے ذريعے ايسی مشترکہ عالمی کاوشوں ميں کليدی کردار ادا کيا ہے جو اس پرتشدد سوچ اور نظريے کے خاتمے کے ليے کی گئ ہيں جو کچھ راۓ دہندگان کے مطابق کسی بھی طور خطے ميں ہمارے مفادات اور اہداف کے حصول ميں معاون ہو سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


 
Top