• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافروں کے خدائوں کو گالی نہ دو

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
569
ری ایکشن اسکور
176
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمن الرحیم

بعض لوگ اِن دو صورتوں میں فرق نہیں کر پاتے کہ ایک طرف تو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اہل شرک کے معبودوں کو برا کہتے ہیں، اُن کے دین کی عیب جوئی کرتے ہیں اور دوسری طرف سورہ انعام آیت ۱۰۸ میں اﷲ فرماتا ہے :

ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدواً بغير علم

’’اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، کیونکہ پھر وہ جہالت کی وجہ سے حد سے گزر کر اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے‘‘۔


ان دو صورتوں میں کس طرح مطابقت ہو سکتی ہے؟ ایک جگہ برأت کا حکم ہے اور دوسری جگہ اُسی کام سے منع کیا جاتا ہے۔ گزشتہ صفحات میں جو تفصیل گزری ہے وہ یہ ہے کہ ملتِ ابراہیم کا مقصد معبودانِ باطلہ کے عیب بیان کرنا، اُن کی عزت گھٹانا اور انہیں الوہیت کے مرتبے سے گرانا ہے۔ سَب و شتم اور فحش گوئی سے اِس کا تعلق نہیں ہے۔

صریح گالی دینا منع ہے اور اُنہیں عبادت کے حق سے محروم کرنا واجب ہے، اِن دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔ سورہ اعراف میں دعوت کا اسلوب ملاحظہ کریں، اِن آیات میں کافروں کے خدائوں کو گالی بھی نہیں دی جا رہی ہے اور اُن کی بندگی کا رد بھی کیا جاتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلا تُنْظِرُونِ إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ

تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعائوں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں۔ کیا یہ پائوں رکھتے ہیں کہ اُن سے چلیں؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ اُن سے پکڑیں؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ اُن سے دیکھیں؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ اُن سے سنیں؟ اے محمد، ان سے کہو کہ بلالو اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو، یرا حامی و ناصر وہ اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بہ خلاف اس کے تم جنہیں اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں۔

[الاعراف: ۱۹۷ - ۱۹۴]


اس کے علاوہ ابراہیم علیہ السلام کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:

إِذْ قَالَ لأبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا [مریم: ۴۲]

(انہیں ذرا اُس موقع کی یاد دلاؤ) جب کہ اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان، آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟۔


اُن کے تصورات کا از خود غلط ہونا قرآن میں یوں بیان ہوا ہے:

أفرأيتم اللات والعزى * ومناة الثالثة الأخرى * ألكم الذكر وله الأنثى تلك إذا قسمة ضيزى * إن هي إلا أسماء سميتموها أنتم وآباؤكم ما أنزل الله بها من سلطان إن يتبعون إلا الظن وما تهوى الأنفس وقد جاءكم من ربكم الهدى [النجم: ۲۲-۱۹]

اب ذرا بتائو، تم نے کبھی اِس لات اور عزیٰ اور تیسری ایک اور دیوی مَنات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا؟ کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے؟ یہ تو بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی! در اصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ دیئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔حالانکہ اُن کے رب کی طرف سے اُن کے پاس ہدایت آچکی ہے۔


علاوہ ازیں قرآن نے اُن کے خداؤں کو کبھی طاغوت کہا ہے کبھی اُن کی عبادت کو شیطان کی عبادت کہا ہے اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ تمہارے یہ بت دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ یہ سب اُنہیں عبادت کے مرتبے سے گرانے کے لیے کہا گیا اور بلا شبہ اِس میں بتوں کی اہانت بھی ہے۔

دلائل کے ساتھ ساتھ با ہمت ہونے میں دوسرا مقصد توحید کو لے کر کھڑا ہونا ہے جو مشرکوں سے اظہارِ دشمنی کر کے ہوتا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کیا۔

قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الأقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِي إِلا رَبَّ الْعَالَمِينَ [الشعراء: ۷۵-۷۷]

(ابراہیم علیہ السلام نے کہا) کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) اُن چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی تم اور تمہارے پچھلے باپ دادا بجا لاتے رہے؟ میرے تو یہ سب دشمن ہیں بجز ایک رب العالمین کے۔


ایک اور مقام پر فرمایا :

قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ [الانعام : ۷۸]

برادران قوم! میں تم سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو۔


اس کے علاوہ مشرکوں سے اعلانِ برأت پر مبنی سورہ کافرون میں یہی مفہوم ذکر ہواہے۔ گالی گلوچ سے ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ بغیر کسی فائدے کے فساد بھڑکانا اور کسی کو عار دلا نا اور توہین کا احساس دلانا درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے جواب میں مشرکین، اﷲ رب العزت کی شان میں گستاخی کر سکتے ہیں۔ اور کبھی کبھار بغیر ارادے کے بھی یہ گستاخی ہوسکتی ہے، خاص طور پر وہ مشرکین جو اہلِ مکہ کی طرح ربوبیت کے قائل ہیں۔

ملتِ ابراہیم کا مقصد لوگوں کو طاغوت سے کفر و برأت کی دعوت دینے سے پورا ہو جاتا ہے۔ گالی گلوچ کا تعلق فحش گوئی سے ہے جس سے تمام انبیاء بری ہیں۔ بنابریں، طاغوت کے وہ دوست، جو طاغوتی حکومت کے اسلام پر ہونے کا اصرار کرتے ہیں اُنہیں اُن سے دوری اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس نظام کی گندگیوں، جعل سازیوں اور شریعتِ الٰہی سے متصادم اور متضاد ہونے کا اعلان کریں۔

موجودہ نظاموں کے بہت سے احکامات ایسے ہیں جو شریعت کے برعکس ہیں۔ سودی بینک کاری کا نظام ، منکرات سے منع نہ کرنا ، زنا کا عام ہونا ، تہمت ، چوری ، اور شراب نوشی کی پاداش میں حدود اﷲ کے نفاذ کے بجائے کافرانہ نظام نافذ کرنا۔یہ سب سزائیں اسلامی شریعت سے متصادم ہیں۔

اِس لیے غیر اسلامی نظام کی برائی کرنا، فحش گوئی نہیں عین ہمارے ایمان کا مطالبہ ہے، خواہ کوئی اِسے گالی کہے یا کچھ اور۔ اب اگر کوئی اللہ کی الوہیت اور غیر اللہ کی بندگی کا اِنکار تو نہ کیا جائے اور غیر اسلامی نظام چلانے والوں کو گالیاں دینے لگ جائے تو یہ اسلام کی دعوت کے بالکل خلاف ہے۔

محمد رشید رضا اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

الباعث على العمل هنا هو إرادة السب التي يُقصد بها إهانة المسبوب، فإن هذا الساب لا يتوجه قصده إلا إلى إهانة مخاطبه الذي سبه

اس آیت میں ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ ایسے طریقے سے کسی کو گالی دینا جس میں مخاطب کی توہین ہو (تو یہ طریقہ ناجائز ہے) کیونکہ ہر گالی دینے والے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مخاطب کو ذلیل کیا جائے لیکن دعوت میں جھگڑا کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ مخاطَب کی عقل و دانش کو بیدار کرنا ہوتا ہے۔


ان کو بتایا جاتا ہے کہ تم جنہیں پکارتے ہو، کیا وہ سنتے ہیں؟ یا دیکھ سکتے ہیں، نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ اِن بتوں نے اللہ کے ہاں تمہاری سفارش تو کیا کرنی ہے، یہ تو اپنے آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستوں کو کس طرح قائل کرنے کی کوشش کی، ہر داعی کو اِس پر غور کرنا چاہیے۔ اپنے مخاطبین کو توہین کا احساس دلائے بغیر اُنہیں عقل سے کام لینے اور غوروفکر کرنے پر ابھارا ۔ بھلے ابراہیم علیہ السلام سخت پیرائے میں سوال کرتے ہیں لیکن اُن کے مخاطَب محض غور کرنے پر ہی اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں، سر جھکائے، حیران :

أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ [الانبیاء: ۶۷]
تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟۔


عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ پر اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اہلِ قریش کو جب یہ خبر ملی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے دین اور معبودوں کے عیب بیان کرتے ہیں تو انہوں نے پوچھا،"أنت الذي تقول كذا كذا" کیا آپ نے فلاں فلاں بات کی ہے؟ در اصل کسی کی عیب جوئی کرنا اہلِ عرب کے نزدیک گالی دینے کے مترادف تھا ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی عیب جوئی کو یہاں سب وشتم کے معنی میں لیا ہے ۔ دیکھیں : [الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول: ۵۲۸]

لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو ملتِ ابراہیم کی اتباع کرنے والے اور دعوتِ توحید قائم کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیب بتوں کی عبادت کرنے میں نکالے تھے نہ کہ اُن کے نام لے لے کر گالی دینا شروع کر دی تھی۔ کسی مفسر نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام کو ذاتیات پر کیچڑ اُچھالنے سے تعبیر نہیں کیا۔

مشرکوں کے نزدیک ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دینا ہی گالی کے مترادف تھا۔ اللہ کی عبادت کرانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دلائل سے کام لیتے تھے، گالی قائل کرنے کے لیے نہیں دی جاتی تکرار در تکرار کے لیے دی جاتی ہے۔ اُن کے دین کے باطل ہونے پر دلائل دیتے، اُن کے معبودوں کو الوہیت کی تمام صفات سے خالی قرار دینے پر دلائل دیتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے آباواجداد کو گمراہ کہتے تھے تو اِس کی وجہ بھی اُن کی اندھی تقلید تھی نہ کہ ذاتی دشمنی اور سننے والا محسوس کر لیتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب اُس کی خیر خواہی کے لیے کہہ رہے ہیں۔

مفسرِ قرآن قاسمی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں رازی کا قول نقل کیا ہے:

وفي الآية تأديب لمن يدعو إلى الدين، لئلا يتشاغل بما لا فائدة له في المطلوب، لأن وصف الأوثان بأنها جمادات لا تضر ولا تنفع، يكفي في القدح في إلهيتها فلا حاجة مع ذلك إلى شتمها

اس آیت میں مبلغین کے لئے تنبیہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسے کاموں میں مشغول نہ ہوں جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ بتوں کے بارے میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ یہ پتھر ہیں، فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اتنا کہنا کافی ہے۔ مزید کوئی گالی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔


اگرچہ مشرکین کو یہ کہنا سخت نا گوار گزرے گا لیکن وہ اِس کا رد نہیں کر سکتے، گالی دے کر آپ خود اُنہیں سوچنے کی بجائے لڑنے پر آمادہ کر دیں گے۔ اِس طرح آپ دعوت کو شدید نقصان پہچانے کے مرتکب ہوں گے۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں :

عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه لما صرح بسب دينهم وتجهيل علمائهم فحينئذ شمروا له ولأصحابه عن ساق العداوة وقالوا: سفه أحلامنا وعاب ديننا وشتم آلهتنا، ومعلوم أنه صلى الله عليه وسلم لم يشتم عيسى وأمه ولا الملائكة ولا الصالحين ولكن لما ذكر انهم لا يدعون ولا ينفعون ولا يضرون جعلوا ذلك شتماً

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکوں کے دین کو غلط قرار دیا اور اُنہیں بے دلیل کر کے رکھ دیا توسب مشرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی مخالفت میں ایک ہو گئے، اور کہنے لگے یہ ہمارے دین کو برا کہتا ہے اور ہمارے معبودوں کو گالی دیتا ہے، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی عیسی علیہ السلام یا مریم علیہا السلام یافرشتوں یا برگزیدہ لوگوں کو گالی نہیں دی تھی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے خدائوں کے متعلق کہتے کہ یہ نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، انہیں مت پکارو، تو مشرکین ان باتوں کو بھی گالی ہی سمجھتے تھے۔
 
Top