• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کالم آبادی کی سونامی:ام المسائل۔ کالم نگارامجدچشتی کےنام ایک کھلاخط!((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
کالم آبادی کی سونامی:ام المسائل۔ کالم نگارامجدچشتی کےنام ایک کھلاخط!
محترم المکرم کالم نگار امجد چشتی صاحب 30 جنوری 2019کو روزنامہ 92 نیوز کے صفحہ 11 پر آپ کا کالم جس کا عنوان تھا۔ (آبادی کی سونامی :ام المسائل) پڑھنے کا موقع ملا جس سے آپ کی علمی شخصیت میرے سامنے اظہر من الشمس کی طرح روشن ہو گی ۔جس قدر اس کالم میں غیر مبنی ‘ غیر مصدقہ ‘مغربی معاشرے سے متاثر اور حقائق سے نابلد تجزیہ آپ نے کیا سچی بات ہے آپ کی صحافتی اور علمی شخصیت پر ماتم کرنے کو دل کر رہا تھا ۔ام المسائل اور پاکستانی معاشرے کے لیے اصل میں آپ جیسے مغربی معاشرے کے دلدادہ اور یورپین تہذیب کے غلام ناسور ہیں ۔جنہوں نے ڈالروں کے لالچ میں مغربی تہذیب کو پاکستان میں پروان چڑھانے کی قسم کھائی ہے ۔جن کی قسمت میں یورپ سے آنے والی ہر چیز کو پاکستانی معاشرے میں رواج دینا اور مشرقی روایات کا قلع قمع کرنا ہے ۔عقل پرستی اور تاریخی حقائق سے عدم واقفیت آپ کی شخصیت کی کو داغدار کیے ہوئے ہے ۔ہمارے معاشرے کی اصل سونامی اور ناسور کے ذمہ دار جتنے آپ جیسے مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ ہیں بڑھتی ہوئی آبادی اس قدر ذمہ دار نہیں ۔ چشتی صاحب آپ کے بقول آبادی کنٹرول کرنے والے ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں ۔بڑھتی آبادی کے تیزی سے وسائل ختم کرتی جا رہی ہے ۔ اتنی ترقی کے باوجود رہائش‘خوراک ‘علاج ‘ٹرانسپورٹ‘ سیورج ‘ مہنگائی ‘خشک سالی ‘اور بے روز گاری کے مسائل نے دنیا کو گھیر رکھا ہے ۔خصوصاً غریب طبقات میں آبادی میں اضافہ ہولناک ہے۔چشتی صاحب اب آپ کے اعتراض کو میں سب سے پہلے تاریخی حقائق اور پھر قرآن و سنت کی صورت میں پرکھنے کی کوشش کرتا ہو کہ آپ نظریاتی طور پر کس قدر حقائق اور اسلامی تعلیمات کے معیار پر پورا اترتے ہیں ۔
تاریخی حقائق اور مغرب معاشرہ
کیا پڑھتی آبادی ترقی میں رکارٹ اور وسائل کے خاتمے کا سبب ہے ۔؟ تاریخی حقائق کی صورت میں ہم مغربی معاشرے کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کی وجہ سے ترقی کی ہے یا ان کی ترقی کا راز کچھ اور ہے ۔؟ برتھ کنٹرول کے اس پروگرام نے ساٹھ سالوں کے بعد جو حالات اب پیدا کئے ہیں۔ اس نے اس خوف کو ترقی یافتہ امریکہ اور یورپ کی جانب لوٹا دیا ہے جہاں اس وقت آبادی میں ہونے والی تیز رفتار کمی نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اگلی چند دہائیوں میں اس عظیم ترقی کے امین شہروں کے نظام کو چلانے کے لئے افراد موجود نہیں ہوں گے، کارخانوں میں مزدوروں کی شدید قلت ہو جائے گی، ان کے کھیت کھلیان انسانی محنت نہ ہونے کی وجہ سے اجڑ جائیں گے اور ان ملکوں میں بوڑھوں کی ایک وسیع آبادی ہو گی جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نوجوان موجود نہ ہو گا۔ اس بدترین صورت حال کا آغاز گزشتہ دس سالوں سے تقریباً 50کے قریب ممالک میں عموماً اور بیس ممالک میں خصوصا ہو چکا ہے۔ دنیا میں اس وقت اڑتیس ممالک ایسے ہیں جہاں آبادی بڑھنے سے رکی ہی نہیں بلکہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ظاہر بات ہے یہ آبادی بوڑھوں کو مارنے سے کم نہیں ہوئی بلکہ نئی نسل کو دنیا میں آنے سے روکنے سے کم ہو ئی ہے۔ یوں ہر سال ایسے لاکھوں لوگ اس تعداد میں شامل ہو رہے ہیں جو کام کاج کرنے کے قابل ہی نہیں اور ان کی جگہ لینے کوئی بچہ اس دنیا میں نہیں آ رہا۔ ان اڑتیس ممالک میں سب سے اوپر سلواکیہ ہے جس کی آبادی میں سالانہ 0.1فیصد کمی ہو رہی ہے اور سب سے نیچے کک آئی لینڈ ہے جس کی آبادی میں سالانہ 2.79فیصد کمی واقع ہو رہی ہے۔ بحران کا شکار ان ممالک میں جرمنی‘ جاپان‘ روس ‘ یونان‘ پولینڈ‘ ہنگری‘ گرین لینڈ شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں اگر افریقہ اور ایشیا سے لوگ نہ بلائے جائیں تو کاروبار زندگی رک جائے۔اسی طرح پچاس ایسے ممالک کی فہرست بھی ہے جہاں آبادی ایک فیصد سے کم کی شرح سے بڑھ رہی ہے یہ بھی اس خطرناک انسانی زوال کی طرف گامزن ہیں۔ ان میں برطانیہ‘ فرانس‘ ہالینڈ‘ سپین‘ ڈنمارک‘ پرتگال اور دیگر ترقی یافتہ ملک شامل ہیں۔ دوسری جانب وہ ممالک ہیں جہاں آبادی بڑھنے کی رفتار دو فیصد سالانہ سے زیادہ ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کو قائم رکھنے کے لئے سالانہ دو فیصد شرح پیدائش میں اضافہ ضروری ہے۔ یہ 45ممالک ہیں جن کی اکثریت افریقہ میں واقع ہے جبکہ پاکستان کی آبادی بڑھنے کی شرح 1.43فیصد ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر برتھ کنٹرول پاپولیشن پلاننگ اور اس جیسے دیگر پروگرام شروع ہی افریقہ کے لئے کئے گئے تھے اور ان پروگراموں کے آغاز کی منظوری امریکی سکیورٹی کونسل کے اجلاس نمبر 365میں دی گئی جو 8مئی 1958ء کو منعقد ہوا۔
برتھ کنٹرول اور مدینہ کی فلاحی ریاست کا قیام و مسائل اور حل !
ملک کا اصل مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی نہیں بلکہ اسباب اور وسائل پر چند خاندانوں کی اجارہ داری اور غلط تقسیم ہے ،آبادی پر کنٹرول کرنے کی بجائے حکومت وسائل کی غلط تقسیم ‘ جس میں ٹیکس کا غیر شرعی نظام‘ سودی نظام جو اللہ سے اعلان جنگ کے مترادف ہے ‘کرپشن ‘رشوت ‘چوری ‘ڈاکہ زنی ‘بد عنوانی ‘ بے ضابتگی ‘منی لانڈرنگ ‘ کو روکنے کے لیے قانون سازی کرے جو کہ ترقی کی راہ میں اور وسائل پر چند لوگوں کے قبضے مافیا اصل رکارٹ ہیں نہ کہ بڑھتی ہوئی آبادی ۔
آیت مبارکہ کا مفہوم :
قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ مرد اور عوارت کا جنسی تعلق خواہش پوری کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ گھر بسانے کے حوالے سے ہے اور اگر خالی خواہش پوری کرنا ہو جیسے آج کل ہو گیا ہے کہ دو افراد آپس کی ضرورت کے تحت کوئی معاہدہ کریں یا نہ کریں ،بس اپنی خواہش اور وقتی ضرورت پوری کر لیں ،یہ جو اس طرح کھلی چھٹی دے دی ہے یہ قرآن پاک کے اصول کی صریحا خلاف ورزی ہے ،قرآن پاک اس کی حد بندی کرتا ہے کہ نکاح کا مقصد خالی شہوت پوری کرنا نہ ہو ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے :
(وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا)
(الاسراء:31)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ اپنی اولاد کو رزق کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں بے شک اولاد کا قتل بہت بڑا گناہ ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس کی تفسیر:
امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں مفسر قرآن اور صحابی رسول ﷺ عبد اللہ بن عباس کی تفسیر مذکورہ آیت کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں۔
(خَشْيَةَ)اور(إِمْلَاقٍ) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں لوگ مستقبل کے ڈرسے زندہ دفن کردیتے یا قتل کردیتے کہ ان کی وجہ سے فقراور غربت و بے روزگاری کا خدشہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے انہیں اس قبیع فعل سے منع کر دیا کہ اس وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیتے ہیں اور یقیناً اولاد کا قتل بہت بڑا گناہ ہے ۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
عن أبي أمامة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :
’’تزوجوا فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة ولا تكونوا كرهبانية النصارى‘‘
(سنن البيهقی:13235,باب الرغبة في النكاح,حديث صحيح)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ تم شادیاں کرو قیامت کے روز میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گااور یہودو نصاری کی طرح نہ ہو جانا ‘‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو رونا رویا جاتا ہے کہ رزق کے اسباب کم ہوتے جا رہے ہیں اور آبادی بڑھتی جا رہی ہے، میں اس کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ رب العزت زمین پر رزق کے اسباب بھی آبادی کے تناسب سے بڑھا تے جا رہے ہیں ،جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے ، رزق کے اسباب بھی بڑھتے جا رہے ہیں ،آج سے 50 سال پہلے ملک میں گندم کی پیداوار کا تناسب اور تھا جبکہ آج اور ہے۔اصل مسئلہ آبادی اور رزق کے وسائل میں عدم توازن کا نہیں ہے بلکہ ملک میں اصل مسئلہ رزق کی تقسیم میں عدمِ توازن کا ہے ،آج بھی دنیا کے چند خاندان دنیا بھر کی دولت پر قابض ہیں جبکہ ملک کے بھی چند خاندان اور افراد ملک کی 90 فیصد دولت پر قابض ہیں ،ہم اس عدمِ توازن کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی اس طرف ہماری توجہ ہے ،مسئلہ آبادی اور وسائل میں عدم توازن نہیں بلکہ مسئلہ اسباب اور وسائل کی تقسیم میں عدمِ توازن کا ہے ،دنیا میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں جو اپنی زائد پیداوار سمندر میں پھینک دیتے ہیں کہ کہیں ان کی مارکیٹ کا بیلنس اور قیمتوں کا توازن نہ بگڑے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آبادی میں تناسب قائم رکھا جائے،نبی کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ میاں بیوی اور مرد و عورت کے جنسی تعلق کا مقصد گھر بسانا ہو اور زیادہ اولاد پیدا کرنا ہو ، انسانی زندگی اور نکاح کے مقاصد میں سے ہے کہ آبادی میں اضافہ ہو اور آبادی بڑھے،البتہ اس کی تنظیم میں اور اسباب کی تقسیم میں توازن کی ضرورت ہے ،اس تناسب کی طرف توجہ جانی چاہئے جو اصل ضرورت ہے ۔
والسلام علیکم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بہترین۔
اس کالم نگار کو ای میل بھی کردینی چاہیے تھی۔
 
Top