• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کامیاب عورت

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
"کامیاب عورت" کا مغربی اور اسلامی نقطہ نظر


گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں " کامیاب عورت" کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو "کامیاب عورت" قرار دیا جاتا ہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model) کے طور پر جانی جاتی ہیں جو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ سابقہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اور بظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح اُس معاشرے میں یہ رائے بھی عام ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار کرنا عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔
ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ "آپ کا پیشہ کیا ہے؟" یا "آپ کیا کرتی ہیں؟" تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیں کہ" میں صرف ماں ہوں" یا "میں ایک گھریلو خاتون ہوں"۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ایک پیشہ ور خاتون کو مالِ جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ وہ معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔

اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیر و تانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو ۔

چنانچہ 1996 میں کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی اس بارے میں رائے کہ یہ صرف مرد کا کام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، 1984میں 65فیصد تھی جو کہ 1994میں کم ہوکر 43 فیصد رہ گئی۔ اس وقت برطانیہ میں 45فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور امریکہ میں 78.7فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔

جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان "قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال" متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ "Full Time Mothers" نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ " ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں"

بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں وہ اس سوچ سے بہت متاثر ہوئی ہیں کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔

وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیں کیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباؤ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔

بشکریہ عرفان ڈاٹ آئی آر​
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
عورت کا مقام ۔۔ امتیاز علی شاکر


آج سینکڑوں تنظیمیں خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔عورت کو بااختیار بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ خواتین کے حق میں بہت سارے قوانین پاس ہوچکے ہیں۔لیکن سب بے کار ۔۔ عورت آج بھی دور جہالت کی طرح ایک کھلونا بن کے رہ گئی ہے اور جب تک عورت اپنے مقام کو نہیں سمجھے گی تب تک دنیا کی کوئی طاقت اسے اس کا کھویا مقام واپس نہیں دلا سکتی۔ عورت کا عزت واحترام والا مقام ایک ماں کی حیثیت میں ہے ایک بہن کی حیثیت میں ایک بیٹی کی حیثیت اور ایک نیک سیرت بیوی کی حیثیت میں ہے۔ جب جب عورت ان رشتوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گی تب تب ذلیل و رسوا رہے گی۔عورت کا اصل مقام سٹیج ڈانس، سائن بورڈ، کمرشل، ڈانس پارٹیاں، طوائفی مقامات، یا نائٹ کلب نہیں بلکہ اُس کا گھر اور گھروالوں کی باحیا نگاہوں میں ہے۔ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت گھر سے باہر کے کام نہ کرے۔

آج دور جدید میں ہمیں بہت سے چیلجز کا سامنا ہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اچھے مسلمان بن جائیں کیونکہ مسلمان مرد وعورت ایک دوسرے کو حیاکی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے معاشرے کا بلنس قائم رکھنا آسان ہوجاتا۔ بات ہورہی تھی عورت کے مقام کی توعورت کواس کا مقام کوئی مرد نہیں دیتا بلکہ مرد کو کامیاب مقام تک پہنچانے میں بھی عورت ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیوقوف عورت اپنے شوہر کو غلام بناتی ہے اورخود غلام کی بیوی بنتی ہے۔ جب کہ عقلمند عورت اپنے شوہر کو بادشاہ بناتی ہے اس طرح وہ خود ملکہ بنتی ہے۔ایک اور کہاوت عام ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی نہ کسی کامیاب عورت کاہاتھ ہوتا ہے۔ گویا مرد کی کامیابی ہی عورت کی کامیابی ہے۔ ایک ماں ایک معاشرے کو جنم دیتی ہے مانا کہ مرد بھی عورت پر ظلم کرتا ہے پر غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اس مرد کی ماں جوخود بھی ایک عورت ہے نے پرورش ہی ایسی کی ہے کہ وہ مرد عورت خاص طور پر بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔ اگر مائیں اپنے بیٹوں کو بتائیں کے عورت پاؤں کی جوتی نہیں بلکہ عزت واحترام کے قابل ہے۔ اور مرد بھی اس بات کو سمجھے کہ اسے دنیا میں آنے کے لیے ایک عورت کی ضرورت پڑھی تھی اور اسے اپنے خاندان کو آگے چلانے کے لیے بھی ایک یا ایک سے بھی زیادہ عورتوں کی ضرورت ہے۔تو پھر یقیناً مرد کبھی بھی عورت پر ظلم نہ کرے۔ میرے خیال میں عورتوں کے لیے علیحدہ قوانین بنانے کی بجائے عورت کو بھی مرد کی طرح بلا امتیاز انسان تصور کیا جائے تاکہ عورت کو حقیر سمجھنے کی روایت ختم ہو اور عورت کو مرد کے برابر حقوق ملیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
"کامیاب عورت" کا مغربی اور اسلامی نقطہ نظر


گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں " کامیاب عورت" کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو "کامیاب عورت" قرار دیا جاتا ہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model) کے طور پر جانی جاتی ہیں جو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ سابقہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اور بظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح اُس معاشرے میں یہ رائے بھی عام ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار کرنا عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔
ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ "آپ کا پیشہ کیا ہے؟" یا "آپ کیا کرتی ہیں؟" تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیں کہ" میں صرف ماں ہوں" یا "میں ایک گھریلو خاتون ہوں"۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ایک پیشہ ور خاتون کو مالِ جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ وہ معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔

اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیر و تانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو ۔

چنانچہ 1996 میں کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی اس بارے میں رائے کہ یہ صرف مرد کا کام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، 1984میں 65فیصد تھی جو کہ 1994میں کم ہوکر 43 فیصد رہ گئی۔ اس وقت برطانیہ میں 45فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور امریکہ میں 78.7فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔

جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان "قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال" متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ "Full Time Mothers" نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ " ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں"

بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں وہ اس سوچ سے بہت متاثر ہوئی ہیں کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔

وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیں کیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباؤ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔

بشکریہ عرفان ڈاٹ آئی آر​
عورت کا مقام ۔۔ امتیاز علی شاکر


آج سینکڑوں تنظیمیں خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔عورت کو بااختیار بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ خواتین کے حق میں بہت سارے قوانین پاس ہوچکے ہیں۔لیکن سب بے کار ۔۔ عورت آج بھی دور جہالت کی طرح ایک کھلونا بن کے رہ گئی ہے اور جب تک عورت اپنے مقام کو نہیں سمجھے گی تب تک دنیا کی کوئی طاقت اسے اس کا کھویا مقام واپس نہیں دلا سکتی۔ عورت کا عزت واحترام والا مقام ایک ماں کی حیثیت میں ہے ایک بہن کی حیثیت میں ایک بیٹی کی حیثیت اور ایک نیک سیرت بیوی کی حیثیت میں ہے۔ جب جب عورت ان رشتوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گی تب تب ذلیل و رسوا رہے گی۔عورت کا اصل مقام سٹیج ڈانس، سائن بورڈ، کمرشل، ڈانس پارٹیاں، طوائفی مقامات، یا نائٹ کلب نہیں بلکہ اُس کا گھر اور گھروالوں کی باحیا نگاہوں میں ہے۔ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت گھر سے باہر کے کام نہ کرے۔

آج دور جدید میں ہمیں بہت سے چیلجز کا سامنا ہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اچھے مسلمان بن جائیں کیونکہ مسلمان مرد وعورت ایک دوسرے کو حیاکی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے معاشرے کا بلنس قائم رکھنا آسان ہوجاتا۔ بات ہورہی تھی عورت کے مقام کی توعورت کواس کا مقام کوئی مرد نہیں دیتا بلکہ مرد کو کامیاب مقام تک پہنچانے میں بھی عورت ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیوقوف عورت اپنے شوہر کو غلام بناتی ہے اورخود غلام کی بیوی بنتی ہے۔ جب کہ عقلمند عورت اپنے شوہر کو بادشاہ بناتی ہے اس طرح وہ خود ملکہ بنتی ہے۔ایک اور کہاوت عام ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی نہ کسی کامیاب عورت کاہاتھ ہوتا ہے۔ گویا مرد کی کامیابی ہی عورت کی کامیابی ہے۔ ایک ماں ایک معاشرے کو جنم دیتی ہے مانا کہ مرد بھی عورت پر ظلم کرتا ہے پر غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اس مرد کی ماں جوخود بھی ایک عورت ہے نے پرورش ہی ایسی کی ہے کہ وہ مرد عورت خاص طور پر بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔ اگر مائیں اپنے بیٹوں کو بتائیں کے عورت پاؤں کی جوتی نہیں بلکہ عزت واحترام کے قابل ہے۔ اور مرد بھی اس بات کو سمجھے کہ اسے دنیا میں آنے کے لیے ایک عورت کی ضرورت پڑھی تھی اور اسے اپنے خاندان کو آگے چلانے کے لیے بھی ایک یا ایک سے بھی زیادہ عورتوں کی ضرورت ہے۔تو پھر یقیناً مرد کبھی بھی عورت پر ظلم نہ کرے۔ میرے خیال میں عورتوں کے لیے علیحدہ قوانین بنانے کی بجائے عورت کو بھی مرد کی طرح بلا امتیاز انسان تصور کیا جائے تاکہ عورت کو حقیر سمجھنے کی روایت ختم ہو اور عورت کو مرد کے برابر حقوق ملیں۔
جزاکم اللہ خیرا
 
Top