• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام
تالیف
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن
نظر ثانی
الشیخ اسد اللہ عثمان مدنی

عرض ناشر
تمام تعریفیں اس اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہیں جس نے اس امت کی ہدایت کے لیے اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت نازل فرمائی۔ جس میں اس امت کے لیے ہر قسم کی رہنمائی موجود ہے۔ پھر اس شریعت کی اطاعت کا حکم دیا۔ فرمایا:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران 32)
کہہ دیجئے تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو بلا شبہ اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
یقینا وہ قوم ہلاک ہونے والی ہے جس کا خوشحال طبقہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرے اور دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی شروع کر دیں یوں جب قوم میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی عام ہو جائے تو وہ عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾(بنی اسرائیل)
’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں۔ اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔‘‘
مذکورہ آیت سے یہ واضح ہے کہ تباہی و بربادی اور عذاب الٰہی لانے والے امور در اصل بندوں کے گناہ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزیاں ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگر ہم اللہ کی بڑی بڑی نافرمانیوں سے بچیں تو وہ چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
آج معاشرہ میں علانیہ گناہ کئے جا رہے ہیں، اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو ان گناہوں کے کرنے سے روکیں، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو، اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو:
عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [المائدۃ105]
"تم اپنے نفسوں کو لازم پکڑو۔ تم کو وہ شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا جو گمراہ ہے جب کہ تم ہدایت پر ہو"۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے، بے شک جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے نہ روکیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ ایک روایت میں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی قوم میں جب گناہ کئے جاتے ہیں اور وہ ان کو گناہ سے روکنے پر قادر ہو پھر نہ روکیں، قریب ہے اللہ ان پر عذاب نال فرما دے‘‘۔ [ابوداؤد 4338]
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی قوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور وہ قوم اس کو روکنے کی طاقت رکھتی ہے پھر اگر وہ اس کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے اس قوم کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ [ابو داؤد 4339]
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن نے ان کبیرہ گناہوں کو جمع کیا ہے جن سے بچ کر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ شیخ اسد اللہ عثمان حفظہ اللہ فاضل مدینہ یونیورسٹی نے اس پر نظر ثانی فرمائی۔ منبر التوحید و السنہ اللہ کی رضا کی خاطر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کے تحت ان کو شائع کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
آپ کا دینی بھائی
عبدالسلام زیدی

ابتدائیہ
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
آج مسلمان ہر مقام پر ذلیل و خوار ہیں۔ کل افغانستان میں مسلم نوجوانوں کے تڑپتے ہوئے لاشے تھے اور ماؤں بہنوں کی چیخ و پکار تھی۔ آج عراق اور فلسطین میں برستے ہوئے میزائل ہیں۔ سومنات کے پجاریوں کے پاؤں اللہ اکبر کی صداؤں سے گونجنے والی بابری مسجد کے گنبد پر اور ان کا خنجر بے بس مسلمانوں کی گردن پر ہے۔ آخر کیوں؟ کیوں خون مسلم اتنا ارزاں ہے؟ کیوں مسلمان بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں؟
اللہ تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اعلان فرماتا ہے:
أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٢٢﴾ (المجادلہ)
’’خبردار بے شک اللہ کے لشکر والے ہی کامیاب ہو نگے۔‘‘
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾(آل عمران)
’’اور ہمت مت ہارو اور غم نہ کرو اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور 55)
’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور عمل صالح کیے ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو ضرور ملک میں حکومت دے گا جیسے اس نے اگلے لوگوں کو ان سے پہلے حکومت دی تھی اور جس دین (اسلام) کو ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا اور ان کے ڈر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا۔‘‘
جنگ بدر میں مسلمانوں کا مقابلہ تین گناہ زیادہ طاقت سے تھا۔ مسلمان نہتے اور بے سر و سامان تھے جبکہ کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فراوانی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے نازل فرما دیئے۔ جنہوں نے کافروں کی گردنوں پر اور ان کے پور پور پر مارا۔
آج جو ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ (الانفال 53)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل دیں۔‘‘
اس آیت پر غور فرمائیے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کر کے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بغاوت کر کے اپنے حالات کو نہیں بدل لیتی اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ یعنی گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے حالات تفصیل سے قرآن حکیم میں بیان فرمائے ہیں۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں کا ذکر کیا تاکہ مسلمان ان غلط راہوں سے بچ سکیں جن پر چل کر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خبردار کر چکے ہیں کہ امت مسلمہ میں بھی انہیں راستوں سے بگاڑ آئے گا جن سے یہود و نصاریٰ میں آیا تھا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی آخرکار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چلو گے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی اسی میں گھسو گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپ نے فرمایا: اور کون؟ (بخاری۔ احادیث الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔ 3456 مسلم ۔العلم ۔باب اتباع سنن الیہود والنصاریٰ 2669)
ابو واقد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے راستے پر چلو گے‘‘۔ (ترمذی۔ الفتن۔ باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم ۔2180)
اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرتے ہیں تو پھر ان کو کیسی دردناک سزا ملتی ہے۔ یہ تاریخ آج ہمیں بھی سبق دے رہی ہے۔ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے بغاوت نہ کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلط یہ سزا ہمارا بھی مقدر بن جائے گی۔
وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿٤﴾(بنی اسرائیل)
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کے لیے کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے۔‘‘
چنانچہ پہلے موقعہ پر انہوں نے اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام کو قتل کیا، ارمیا علیہ السلام کو قید کیا۔ تورات کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی تو اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بخت نصر کو ان پر بطور سزا مسلط کیا جس نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ یروشلم پر قبضہ کیا اور بے دریغ یہودیوں کو قتل کیا۔ اور ایک بڑی تعداد کو اس نے غلام بنا لیا۔ یہ واقعہ عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً 600 سال قبل پیش آیا۔ پھر عزیر علیہ السلام کی کوششوں سے ان کی اصلاح ہوئی۔ انہوں نے قوانین شریعت کو نافذ کر کے انکی اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کیا۔ بابل کی حکومت کو زوال ہوا اور انہیں اہل بابل کی غلامی سے نجات ملی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں ذکر فرمایا ہے:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا ﴿٥﴾ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا ﴿٦﴾(سورة الإسراء)
’’ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے بندے بھیج دیے جو بڑے ہی لڑاکے تھے پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا۔ پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جھتے والا بنا دیا۔‘‘
دوسری دفعہ پھر انہوں نے فساد برپا کیا۔ زکریا علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے درپے ہوئے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے انہوں نے ان کی اعتقادی اور عملی گمراہیوں پر تنقید کی تو یہودیوں کے تمام مذہبی رہنمائوں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور انہیں سزائے موت دلوانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔
اس بغاوت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر رومی بادشاہ ٹیٹس کو مسلط کر دیا۔ اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا۔ ان کے اموال لوٹ لیے مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو تاراج کیا اور انہیں جلا وطن کر کے ذلیل خوار کیا۔ یہ تباہی 70ء میں ان پر آئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر یوں فرمایا:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا ﴿٧﴾(بنی اسرائیل)
’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا) تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں۔‘‘
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہہ دی:
وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (بنی اسرائیل 8)
’’اور اگر تم پھر وہی کرنے لگو تو ہم بھی دوبارہ (ایسی ہی سزا) دیں گے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم راہ راست پر نہ آئے اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت اس کا معمول بن جائے اسے پھر اس سزا کے لیئے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھ دیا ہے کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے‘‘۔ (بخاری التوحید۔ باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ 7404، مسلم۔ التوبہ۔ باب فی سعۃ رحمۃ اللہ ۔2751)
یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے بشرطیکہ ہم کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا ﴿٣١﴾(النساء )
’’اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘
یہ بھی ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ (النجم 32)
’’تاکہ اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دے ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے چھوٹے گناہوں کے۔ بے شک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا گیا ہو‘‘۔ (مسلم الطھارہ۔ باب الصلوات الخمس ۔233)
کبیرہ گناہوں کے اس اہمیت کی پیش نظر ائمہ کرام نے اس پر مستقل کتابیں لکھیں، جن میں علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ کی کتاب الکبائر، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے نواقض اسلام اور کبائر، اور شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی شرح الکبائر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
انہی کتب کی روشنی میں میں نے ان کبیرہ گناہوں کو جمع کیا ہے تاکہ ہم ان سے خود بھی بچیں اور عوام و خواص کو ان سے بچنے کی دعوت دیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی ہم پر رحم فرمائے۔ اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ فرمائے۔ (آمین)
حدیث کی صحت کے لیے بیت الافکار الدولیہ کی شائع کردہ کتب احادیث سے مدد لی گئی ہے اور صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔
خادم کتاب و سنت
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نواقضِ اسلام

ان بڑے گناہوں میں سے سب سے پہلے ان گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اسلام کی ضد اور منافی ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن کا ارتکاب کرنے والا کلمہ پڑھنے کے باوجود دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ علماء کرام نے مرتد کے احکام کے ضمن میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ انہیں نواقض اسلام کہتے ہیں۔ جیسے ہوا کا خارج ہونا وضو کے لیے ناقض ہے یعنی ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح ان نواقض اسلام کے مرتکب کا اسلام ختم ہو جاتا ہے۔
شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام امور میں سے ان دس امور کا ذکر کیا ہے جو بہت زیادہ خطرناک ہیں اور آج کلمہ پڑھنے والوں میں سے بہت سے ان کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ارتکاب سے ہمیں اپنی حفاظت اور امان میں رکھے۔ آمین

(1) شرک اکبر :
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ توبہ کے بغیر مشرک کی بخشش نہیں ہے اگر وہ بغیر توبہ کے مر گیا تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ (النساء ۴۸)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جس کے چاہے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ (المائدۃ ۷۲)
’’بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
شرک: اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور افعال میں کسی غیر کو شریک کرنے کا نام ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس اور پرتو ہے اس لیے نہ یہ عین اللہ ہے اور نہ ہی غیر اللہ ہے جیسا کہ توحید وجودی کے دعویدار کہتے ہیں یا یہ کہنا کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ ہی کی مختلف صورتیں ہیں جیسا کہ وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھنے والے کہتے ہیں۔ شرک سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے، شرک کا مطلب ہے ’’ہر وہ کام جو صرف اللہ کے لئے خاص ہے اس میں غیر اللہ کو برابر سمجھنا۔‘‘

شرک اکبر کی چار بڑی قسمیں ہیں:
۱۔ دعا میں شرک:
انبیاء اور اولیاء اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ضرورتوں کو پورا کرتے اور مصیبتوں کو دور کرتے ہیں۔ پھر مشکلات سے نجات پانے کے لیے ان سے دعا کرنا یعنی انہیں پکارنا شرک اکبر ہے۔ جیسے جب لوگ کسی مصیبت یا تکلیف میں ہوتے ہیں تو ادرکنی یا رسول اللّٰہ، اغثنی یا حبیب اللّٰہ، اور یا علی مدد کہتے ہیں۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے بزرگوں کی قبروں پر حاضر ہوتے ہیں۔ ان کا طواف کرتے ہیں۔ برکت کے لیے قبر کو چھوتے اور بوسہ دیتے ہیں۔ انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ ان قبروں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی مشکلات کے حل کے لیے انہیں پکارتے ہیں۔ ان کی قبروں پر چراغ اور موم بتیاں جلانے کی نذر مانتے ہیں۔ یہ سب شرک اکبر کی شکلیں ہیں۔ مشرکین مکہ کا شرک اللہ تعالیٰ یوں بیان کرتا ہے:
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (العنکبوت۶۵)
’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے، پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان الدعاء ھو العبادۃ۔‘‘ (ترمذی۔ الدعوات باب الدعا مخ العبادۃ:۳۳۷۲ ترمذی نے حسن صحیح کہا)
’’بے شک دعا ہی عبادت ہے۔‘‘
آج لوگ سمندر اور خشکی میں، تنگی اور خوشحالی میں امام بری، علی ہجویری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حل مشکلات کے لیے استغاثہ کرتے ہیں۔ یہ شرک میں مشرکین مکہ سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے بزرگوں کو صرف چھوٹی مشکلات میں پکارتے تھے، بڑی مشکل میں انہیں صرف اللہ ہی یاد آتا تھا اور وہ اسی کو پکارتے تھے۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
’’ہمارے دور کے مشرکین ابتدائے اسلام کے دور کے مشرکوں سے بڑھ کر ہیں کیونکہ وہ مشرک صرف خوشحالی میں شرک کرتے تھے اور تنگی و ترشی کے موقع پر شرک سے باز آجاتے تھے۔ اس کے برعکس اس دور کے مشرکین تو تنگ دستی و خوشحالی ہر وقت شرک کر تے ہیں۔ عبادت میں اگر شرک شامل ہو جائے تو عبادت بے کار ہو جاتی ہے ۔ جیسے طہارت میں گندگی شامل ہو جائے تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرتا ہے اس کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنمی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (الا حقاف ۵)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کو جواب نہ دے سکے اور وہ ان کے پکارنے ہی سے غافل ہیں۔‘‘

۲۔ نیت اور ارادہ میں شرک:
جس شخص کے اعمال کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہے بلکہ اس کے سارے اعمال اس لیے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے کسی اور کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے یا دنیا کی زندگی کی زینت اس کا اصلی مقصود ہے تو یہ نیت اور ارادہ کا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورہ ھود 16)
’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھر پور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا وہاں سب برباد ہو جائے گا اور وہ جو عمل کرتے رہے تھے سب برباد ہوں گے۔‘‘
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ نیت اور ارادوں میں شرک کرنا ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ہے۔ یعنی اخلاصِ نیت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جو شخص اپنے اعمال کو غیر اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے۔ اور نیت یہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ کی قربت حاصل ہو اور غیر اللہ سے اپنے اعمال کی جزاء طلب کرے تو اس فعل کو نیت کا شرک کہتے ہیں۔‘‘
ریاکاری جو کہ شرک اصغر ہے اس کا معاملہ اس شرک سے جدا ہے۔ ریاکاری میں بعض اعمال کا مقصود اللہ کی رضا کی بجائے دنیا یا کسی غیر کی رضا ہو تی ہے۔ جب کہ اس شرک میں سب اعمال حتیٰ کہ ایمان لانے سے بھی مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتی۔
غیر اللہ کے لئے عمل کرنا تین طرح کا ہوتا ہے۔
۱: عمل صرف ریاکاری کے لیے کیا جائے۔ عمل کرنے والے کی خواہش صرف دنیا کا حصول ہو۔ یا لوگوں کو دکھلانے کے لئے منافقوں کی طرح عمل کیا جائے۔ ایسے عمل کرنے والوں کے بارے میں فرمان الٰہی ہے۔
وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ (سورہ نساء)
’’یہ (منافق) جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں۔ اور ذکر الٰہی تو برائے نام کرتے ہیں‘‘۔
ایسا عمل کرنے والا مسلمان اپنے سارے عمل ضائع کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
۲: دوسری طرح کا عمل یہ ہوتا ہے کہ بندہ عمل تو اللہ تعالیٰ کے لیے کرے۔ مگر اس عمل میں ریاکاری کو بھی شامل رکھے۔ اگر ریاکاری اس عمل کی بنیاد میں شامل ہو گی تو یہ عمل قابل قبول نہ ہو گا۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ارشاد الٰہی ہے کہ میں مشرکوں کے شرک سے بری ہوں۔ جو شخص عمل کرتے وقت کسی کو شامل کرے تو میں اس کو اور اس کے عمل دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (ابن ماجہ:۴۲۰۳ شیخ البانی نے حسن کہا)
۳: اور اگر عمل اللہ کے لئے کیا جائے مگر بعد میں ریاکاری کا عنصر نظر آئے تو بعض علماء کے نزدیک سارا عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عمل کرنے کا اجر ملے گا اور ریاکاری پر گناہ بھی ہو گا۔۔ اور اگر کوشش اور محنت سے ریاکاری مٹا ڈالی جائے تو بھی اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٤٠﴾ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٤١﴾ (سورہ النازعات)
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا، اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہو گا۔ تو اس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے۔‘‘

(۳) اطاعت میں شرک:
حرام اور حلال مقرر کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اگر کوئی شخص اپنے پیشواؤں حکمرانوں یا ججوں کو یہ حق دے کہ وہ اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے سکتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں شرک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا (التوبہ 31)
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنا لیا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔‘‘
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، تو آپ نے فرمایا کہ ’’ان علماء نے جس کو حلال قرار دیا اس کو تم نے حلال سمجھا اور جس کو ان علماء نے حرام قرار دیا اس کو حرام سمجھا۔ یہی ان کی عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی: ۳۰۹۵ شیخ عادل مرشد نے حسن کہا)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔جن لوگوں نے اپنے علماء اور پادریوں کو اپنا رب بنایا تھا۔ ان سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ حرام و حلال میں اللہ کے حکم کو چھوڑ کر ان علماء کی اطاعت کرتے تھے یہ اطاعت دو طرح کی تھی۔
۱: ان کو معلوم تھا کہ ان پادریوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو تبدیل کر دیا ہے۔ پھر بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان احکامات میں پادریوں کی اطاعت کرتے تھے۔ کیونکہ عوام الناس اپنے امراء کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو علم تھا کہ یہ کام رسولوں کی مخالفت پر مبنی ہے۔ اس فعل کو اللہ تعالیٰ نے شرکِ اطاعت کہا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے پادریوں کو سجدہ نہیں کرتے تھے۔ صرف خلافِ شرع ان کی اطاعت کرتے تھے۔ انہیں اس حرکت کا علم بھی تھا۔ پھر بھی وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترک کر کے اپنے پادریوں کے حکم پر عمل کرنے کا عقیدہ رکھتے تھے۔
۲: دوسری بات یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حرام و حلال پر ایمان رکھتے تھے۔ لیکن پھر بھی ازروئے نافرمانی اپنے بڑوں کی اطاعت کرتے تھے۔ جیسا کہ آج کا کوئی مسلم گناہ کو گناہ سمجھ کر عمل کرے۔ ایسے لوگوں کو صرف گناہ گار ہی کہا جا سکتا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ :۷۰/۷)

(۴) محبت میں شرک:
محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی عبادت کے مفہوم میں شامل ہے۔ اللہ تعالی کا مکمل عبادت گذار بننے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ وہ اسی چیز سے محبت کرے جس سے اللہ تعالی محبت کرتا ہو اور اس چیز کو ناپسند کرے جو اللہ تعالی کو نا پسند ہو، اور جو اللہ اور اس کے رسول کا دوست ہو اس سے دوستی رکھے اور جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہو اس سے دشمنی رکھے، اور اس بات سے خوش ہو جس سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہو اور اس بات سے ناراض ہو جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہو۔ جو غیر اللہ کو یہ حق اور مقام دے کہ محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی اس کی بنیاد پر ہو تو ایسا شخص اس غیر کا عبادت گذار ہو گا۔
جس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ذاتی طور پر محبت کی جائے وہ طاغوت ہوتا ہے اور اسکی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ کبھی یہ حاکم، بزرگ یا جماعت کے لیڈر کی شکل میں ہوتا ہے، کبھی یہ وطن، قوم، قبیلہ، عورت یا مال کی شکل میں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَاداً یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرہ 165)
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں سب سے زیادہ پختہ ہوتے ہیں۔‘‘
چنانچہ جو لوگ پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماویٰ و ملجا اور قبلہ حاجات بناتے ہیں ان سے ان کی محبت، اللہ کی محبت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ یقینا مشرک ہیں۔ جس طرح مشرکین مکہ کو توحید کے وعظ سے تکلیف ہوتی تھی اسی طرح انہیں بھی اللہ اکیلے کا ذکر کرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ مشرک کو تم دیکھو گے کہ ان معبودوں کی گستاخی دیکھ کر مشرک شدید غضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور اگر خوش ہوتا ہے تو بھی ان معبودوں کے لیے جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے کبھی غصہ کیا اور نہ ہی خوش ہوا۔
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر ۴۵)
’’جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا (اوروں کا) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘
امام ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں۔ اس مقام پر محبت کی چار اقسام بنتی ہیں۔ ان چاروں اقسام میں تمیز نہ کرنے والا گمراہی میں پڑ سکتا ہے۔
۱) اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا۔ اللہ سے صرف محبت کرنا کافی نہیں ہے کہ اطاعت و عبادت کے بغیر صرف محبت سے کامیابی مل جائے یا عذاب الٰہی سے چھٹکارا ہو جائے۔ کیونکہ مشرکین، صلیب کے پجاری اور یہود وغیرہ، بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کادعوی کرتے ہیں۔
۲) جس چیز کو اللہ تعالیٰ پسند کرے اس سے محبت کرنا۔ اور یہ ایسی محبت ہے جس سے بندہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور کفر سے نکل جاتا ہے۔ اللہ کو سب سے پسندیدہ ترین وہی لوگ ہیں جو اس کے دین سے محبت کرتے ہیں۔
۳) اللہ تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرنا۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ کسی دوسرے سے محبت بھی اللہ ہی کے لئے کی جائے۔
۴) چوتھی قسم ہے ’’المحبۃ مع الله‘‘ یعنی اللہ کے ساتھ ساتھ دوسروں سے اللہ جیسی محبت کرنا۔ یہ شرکیہ محبت ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی چیز سے اس طرح محبت کرتا ہے جیسی اللہ سے کی جاتی ہے۔ اس سے نہ تو اللہ کے لیے محبت کرتا ہے اور نہ ہی اللہ کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ تو وہ اس کو اللہ کے سوا’’ خدا‘‘ بنائے ہوئے ہے۔ یہ مشرکین کی محبت ہے۔
انسان کو جس چیز سے فائدہ و لذت حاصل ہو وہ بھی اسے محبوب ہو جاتی ہے اگر یہ چیز دین میں پسندیدہ و مباح ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی شرط پر ہے اور جائز ہے اور اگر گناہ ہے اور اس سے شہوانی محبت کرنے والا خود کو گناہ گار سمجھتا اور اس کے گناہ ہونے کا اقرار کرتا ہے تو بھی یہ اس چیز سے ذاتی محبت (شرک) کے زمرے میں نہیں آتی بشرطیکہ اس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کی ضد نہ ہو جیسے بت، صلیب، قومیت کے نشانات اور اللہ کے کسی دشمن سے محبت۔
یہ چاروں اقسام شرک اکبر ہیں جو کلمہ پڑھنے کے باوجود انسان کو اسلام سے خارج کر دیتی ہیں۔ اسی طرح عبادت کی کوئی بھی شکل اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے کی جائے شرک اکبر ہے، جیسے:
غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا شرک اکبر ہے، جبکہ مقصود اس کی عبادت، اس کا قرب اور اس کی عظمت کا اقرار ہو۔ جس نے اولیاء، بتوں یا جنوں کے نام پر ذبح کیا وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔
یا جس نے غیر اللہ کے نام کی نذر اس اعتقاد کے ساتھ مانی کہ یہ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں تو یہ بھی شرک اکبر ہے جو انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
لہٰذا جو شخص اولیاء اللہ، بتوں یا جنوں کے لئے ذبح کرتا ہے تو اس نے کفریہ فعل کیا ہے۔ ایک عمل عبادت کو غیر اللہ کے لیے بجا لایا۔ یہ فعل اسلام کے منافی ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ علیہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کرے۔‘‘ (مسلم:۱۹۷۸)
قربانی کی طرح نذر ماننا بھی عبادت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ (دھر ۷)
’’(جو اللہ کے لیے) نذرپوری کرتے ہیں‘‘۔
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُهُ (بقرہ ۲۷۰)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کے لئے اور جو کچھ نذر مانو، اسے اللہ بخوبی جانتا ہے‘‘۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ نذر ماننا ایک عبادت ہے۔ جو خالص اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے جو شخص غیر اللہ کے نام کی نذر مانتا ہے وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو اولیاء کے لئے قربانی کا گوشت چڑھانے کی نذر مانے تو اس نے اسلام کے منافی کام کیا کیونکہ اس کام کو غیر اللہ کے لئے کرنا دین محمدی کے برعکس ہے۔ آج کل قبروں کے پجاری اور مجاور اس نیت سے غیر اللہ کی نذر مانتے ہیں کہ یہ غیر اللہ انہیں نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں تو یہ شرکِ اکبر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ واسطوں پر بھروسا
من جعل بینہ وبین الله وسائط، یدعوھم، ویسألھم الشفاعۃ، ویتوکل علیھم کفر اجماعًا
جس نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کچھ واسطے بنائے، ان سے دعائیں مانگیں، ان سے شفاعت طلب کی اور انہیں پر بھروسہ کیا تو وہ بالاجماع کافر ہو گیا۔
ہر دور میں مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو سیڑھی بنا کر، وسیلہ سمجھ کر، شفاعت کرنے والا مان کر پکارنا شرک نہیں۔ شرک تو تب بنتا ہے جب ان کو مستقل بالذات سمجھ کر ان سے حاجت روائی کی درخواست کی جائے۔ مشرکین اولیاء اللہ کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اللہ کے دربار میں ان کی سفارش کریں اور ان کے وسیلے سے ان کی ضرورتیں اور حاجتیں پوری ہوں۔ مشرکین مکہ بھی اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے ان کو نفع و نقصان کا مالک نہیں جانتے تھے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان انہیں واسطہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ (یونس ۱۸)
’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘
أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ (الزمر:۳)
’’خبردار اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے اور لوگوں نے اس کے سوا کارساز بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔‘‘
جو شخص اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق اور مالک ماننے کے باوجود غیر اللہ کو سفارشی سمجھ کر پکارے گا اور ان پر بھروسہ کرے گا، وہ کافر ہو جائے گا۔
موجودہ دور میں اسلام کے بہت سے نام لیواؤں نے جو اسلام کی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہیں، اپنے اور اپنے رب کے درمیان بہت سے وسیلے، اور ذریعے بنا رکھے ہیں۔ جن کو وہ مشکلات و مصائب سے دوری کے لیے اور تکلیفوں سے بچنے کے لئے پکارتے ہیں۔ غیر اللہ کو پکارنا مسلمانوں کے اجماع کے مطابق کفر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث اور اپنی کتابوں کو نازل ہی اس لئے کیا تھا کہ لوگ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں۔ لیکن قبروں کے پجاری اس بات کے انکاری ہیں۔ انہوں نے اپنے بہت سے وسیلے بنا رکھے ہیں جنہیں وہ نقصان و تکلیف سے بچنے اور فوائد کے حصول کے لئے پکارتے ہیں۔ اور یہ پکار عبادت ہے۔ جو لوگ ان کے اس شرک کو ناپسند کرتے ہیں ان پر اولیاء اور صالحین کے گستاخ ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ یہ لوگ اپنے فاسد خیالات و نظریات کی وجہ سے براہ راست اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارتے۔ بلکہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی کے لئے کوئی وسیلہ اور زینہ بنانا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ بادشاہ کے پاس جا کر ڈائریکٹ سوال نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ تو ان بادشاہوں سے بڑھ کر ہے۔ اس کو براہِ راست کیسے پکارا جائے؟ نعوذ باﷲ اس بات سے تو اللہ تعالیٰ کی کمزور و ناتواں مخلوق سے مشابہت ہوتی ہے۔ اور ایسا کرنا اسلام کے منافی ہے۔ کتاب و سنت کے بے شمار دلائل ہیں جن سے ان کے عقائد کو باطل کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص ہدایت طلب کرتے ہوئے اور حق بات کو مانتے ہوئے قرآن پر غور و فکر کرے گا تو اسے یہ مسئلہ صحیح طور پر سمجھ میں آجائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ دینِ اسلام موجودہ دور میں کتنا تنہا ہو چکا ہے۔ کیونکہ اکثر لوگ دین خالص سے واقف نہیں ہیں۔ اسی مضمون کے متعلق ارشادِ الٰہی ہے۔
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ﴿٢٢﴾ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (سبا)
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے سب کو پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے اور نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے۔ نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت کی (درخواست) بھی اس کے پاس کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ سوائے ان کے جن کے لیے کوئی اجازت ہو جائے‘‘۔
قیامت کے دن انبیاء علیھم السلام اور اولیاء اللہ سفارش کریں گے مگر سفارش کے لیے انبیاء اور اولیاء اللہ کو پکارنا شرک ہے کیونکہ شفاعت کی تمام اقسام کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا (الزمر ۴۴)
’’کہہ دیجیے کہ تمام سفارش پوری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
سفارش کی دو اقسام ہیں۔ ایک منفی شفاعت جو غیر اللہ سے طلب کی جائے۔ اور دوسری وہ شفاعت جو مثبت ہے یعنی جو اللہ تعالیٰ سے طلب کی جائے۔ اور یہ شفاعت صرف اہلِ توحید و اخلاص کے لئے ہو گی۔ شفاعت کے باب میں دو باتوں کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔
(اول): سفارش کرنے والا اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارش کر سکے گا۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے۔
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقرۃ ۲۵۵)
’’کون شخص ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے گا۔‘‘
(ثانی): جن لوگوں کی سفارش کی جائے ان سے اگر اللہ راضی ہو گا تو سفارش کی جائے گی جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی (الانبیاء:۲۸)
’’یہ (فرشتے) کسی کی سفارش نہیں کرتے۔ علاوہ ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔‘‘
یہ سفارش صرف گناہ گار مومن و موحد کے لیے ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری سفارش کا فائدہ ہر اس شخص کو پہنچے گا جس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا ہو۔‘‘ (مسلم:۱۹۹، بخاری: ۶۳۰۴)
اہل کفر و شرک کے لیے قیامت کے دن کوئی سفارش نہیں ہو گی۔ اور نہ ہی کوئی اپنی شخصیت کے دباؤ سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں ایسی سفارش کر سکے گا کہ جو بات چاہے وہ اللہ سے منوا لے۔ جیسا کہ جاہلوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے بزرگ اللہ کے پاس اڑ کر بیٹھ جائیں گے اور بخشوا کے اُٹھیں گے۔ اللہ کے ہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں۔
وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (الانعام ۵۱)
’’اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیئے جائیں گے کہ اس کے سوا نہ کوئی ان کا مددگار ہو گا اور نہ کوئی سفارشی ہو گا اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں۔‘‘
اللہ کے مکرم و مقرب فرشتے اللہ کے حکم سے کائنات کے امور کی تدبیر ضرور کرتے ہیں۔ (جیسے روح ڈالنا اور قبض کرنا، لیلۃ القدر میں اللہ کے حکم سے نازل ہونا، پہاڑوں، بادلوں اور ہواؤں پر مقرر فرشتے) مگر سارے کا سارا اختیار صرف اللہ کا ہونے کی وجہ سے انہیں پکارنا بھی شرک ہے۔

۳- مشرکوں کو کافر نہ سمجھنا
من لم یکفر المشرکین أو شک فی کفرھم أو صحح مذھبھم۔
جس نے مشرکوں کو کافر نہیں سمجھا یا ان کے کافر ہونے میں شک کیا یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھا تو وہ شخص کافر ہے۔
بعض لوگ اسلام کا دعویٰ کر نے کے باوجود بلکہ نماز، روزہ اور حج کا اہتمام کرنے کے باوجود یہود و نصاریٰ یا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا سمجھ کر پکارنے والوں کے مذہب کو باطل اور جہنم کا رستہ قرار دینے پر تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں ہر ایک کو اپنا دھرم پیارا ہوتا ہے اس لیے کسی کے مذہب اور دھرم کو برا نہیں کہنا چاہئے حالانکہ اسلام یعنی توحید و سنت کے رستہ کے سوا ہر راستہ جہنم کا راستہ ہے۔ کفار کے مذہب کو اچھا کہنا یا اس کی تعریف کرنا رواداری نہیں بلکہ اللہ کے دین کے ساتھ کھلا کفر ہے۔ دین اسلام اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ آخری دین ہے۔ سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ اب اسلام کو قبول کرنا ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو یا عیسائی میرے بارے میں سنے پھر بھی اس حال میں مر جائے کہ وہ میرے اوپر اور میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے۔‘‘ (مسلم:۱۵۳)
لہٰذا جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آجانے کے بعد وید یا توراۃ و انجیل کی تعلیم پر عمل کرنے والوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ یہ لوگ بھی جہنم سے نجات پا سکتے ہیں یا جنت میں داخل ہو سکتے ہیں یا ان کی گمراہی کے بارے میں شک کرے تو ایسا شخص بھی کافر ہے۔
اسی طرح مسلمان کہلوانے والے وہ لوگ جو کفر اکبر یا شرکِ اکبر میں ملوث ہیں۔ یعنی جو فوت شدہ بزرگوں کو توحید و سنت کا علم پہنچ جانے کے بعد اپنی مشکلات کے حل کے لیے پکارتے ہیں (یعنی معاندین) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں یا دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرتے ہیں وہ کافر و مشرک ہیں۔ ان کے کفر میں شک کرنا یا انہیں بھی نجات پانے والا سمجھنا ان کے مذہب کی سچائی کا اقرار کرنے کے برابر ہے جس سے آدمی مرتد ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قال لا الٰہ الا الله، وکفر بما یعبد من دون الله، حرم مالہ ودمہ وحسابہ علی الله۔ (صحیح مسلم:۲۳)
’’جو شخص کلمہ توحید پڑھے اور الله کے علاوہ دیگر معبودوں کا کفر کرے۔ اس کا مال اور اس کی جان حرمت و عزت والی ہے۔ اس کا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔‘‘
اس حدیث میں مسلمانوں کے خون کو حرمت والا قرار دیا گیا ہے۔ اور صرف یہ نہیں کہا گیا کہ وہ لا الٰہ الا الله پڑھتا ہو، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ الله کے علاوہ دیگر معبودوں کا انکار کرے۔ اگر انکار نہ کرے گا تو اس کا خون و مال حرام نہ ہو گا۔ اس کے خلاف لڑائی جاری رہے گی۔ کیونکہ اس شخص نے ملتِ ابراہیم کے بنیادی قواعد کو ضائع کر دیا ہے۔ اور ملتِ ابراہیم کی اتباع کرنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہوئے الله کے دشمنوں کے سامنے کمزور نہ پڑیں۔ کافر و مشرک سے دشمنی، بغض، نفرت اور دوری رکھنا اہلِ ایمان پر لازم ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ (الممتحنۃ ۴)
’’مسلمانو! تمہارے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔ جبکہ انہوں نے اپنی قوموں سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد و منہج حیاۃ) کے منکر ہیں۔ جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں اور تم میں، ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی۔‘‘
اس آیت میں دین ابراہیمی کے اصول واضح نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اہل کفر و شرک سے محبت حرام قرار دی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (التوبہ:۲۳)
’’اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت کرے گا وہی ظالم ہو گا۔‘‘
ہر عالم، خطیب اور امام مسجد پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت کے دلائل سے لیس ہو کر عوام الناس کو کفار سے میل جول رکھنے اور ان کے ملکوں میں بلا وجہ آنے جانے کے خطرات سے آگاہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان و کافر کے درمیان تمام تر دلی محبت اور اس پر دلالت کرنے والے اقوال و اعمال پر مبنی تعلقات کو ختم کر دیا ہے۔ اگرچہ کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ (المجادلہ ۲۲)
’’اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا قبیلے کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
گویا اللہ پر ایمان اور اللہ کے رسول کے دشمنوں کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مشرکوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ ان سے دوستی لگا کر مسلمان ان جیسے نہ ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنا بریٔ من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین۔
(ابو داؤد:۲۶۴۵، ترمذی:۱۶۰۴ شیخ البانی نے صحیح کہا)
یعنی میں ان مسلمانوں سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہائش اختیار کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مسلمان کفار سے کتنا دور رہیں؟ آپ نے فرمایا، اتنا دور رہیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ پائے۔
آگ دیکھنے سے مراد ہے کہ ایک دوسرے کے قریب نہ رہیں۔ ایک اور حدیث میں فرمایا:
لا یقبل الله من مشرک بعد ما أسلم عملاً حتی یفارق المشرکین الی المسلمین۔ (ابن ماجہ: ۲۵۳۶ شیخ البانی نے حسن کہا)
’’الله تعالیٰ کسی مشرک کے اسلام لانے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں فرماتا جب تک وہ مشرکوں سے دور ہو کر مسلمانوں میں داخل نہ ہو جائے۔‘‘
ان حالات میں، جن سے ہم دوچار ہیں۔ ہم الله تعالیٰ سے دین کی غربت و تنہائی کی شکایت کرتے ہیں۔ ہم تمام مسلمان ان واضح آیات و احادیث کو سنتے رہتے ہیں اس کے باوجود ہم کفار سے میل جول رکھتے ہوئے ان کے ہم نوالہ وہم پیالہ بنے رہتے ہیں۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
من جامع المشرک، وسکن معہ فانہ مثلہ ۔ (ابوداؤد: ۲۷۸۷ شیخ البانی نے صحیح کہا)
یعنی جو شخص مشرکوں سے میل جول رکھے۔ ان کے درمیان رہائش اختیار کرے وہ انہی کی مانند ہے۔
ملتِ ابراہیم کا منہج چھوڑ دیا گیا ہے اب یہ منہج دنیا میں بہت کم پایا جاتا ہے۔ اسلام کا دعویٰ کرنے والے بہت سے حکام و عوام مشرکوں سے محبت اور دوستی کرتے ہیں۔ مشرکوں سے بھائی چارگی قائم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دین داروں کے دشمن ہیں اور ان کو جیلوں میں ڈالتے اور انہیں سخت سزائیں دیتے ہیں کیا اب بھی ان میں اسلام کی کوئی رمق باقی ہے؟؟؟ اسلام کا دعویٰ کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ مشرکوں کو کافر قرار دے۔ ان سے دشمنی رکھے اور جو ان مشرکوں سے محبت کرے اور ان کا دفاع کرے۔ ان سے بھی بغض رکھنا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ کہ وہ اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں۔ دین کی وجہ سے ہی عزت ملتی ہے، نصرت الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (مائدۃ ۵۱)
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے۔ وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ ظالموں کو الله تعالیٰ ہرگز راہِ ہدایت نہیں دکھاتا۔‘‘
لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ (آل عمران ۲۸)
’’مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ الله تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں ہو گا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴- کسی فلسفے کو دین پر ترجیح دینا
من اعتقد ان غیر ھدی النبی صلی الله علیہ وسلم أکمل من ہدیہ أو أن حکم غیرہ احسن من حکمہ کالذي یفضل حکم الطواغیت علٰی حکمہٖ۔
جس نے یہ سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کا طریقۂ زندگی زیادہ مکمل اور جامع ہے یا یہ عقیدہ رکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ حکمرانی سے بہتر اور کوئی طریقہ حکمرانی ہے تو وہ کافر ہے۔
اس مختصر کلام میں کئی مسائل مذکور ہیں:
۱) جو شخص یہ نظریہ قائم کرے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے علاوہ کسی اور کی ہدایت زیادہ کامل و بہتر ہے۔ تو ایسا شخص مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کا یہ عقیدہ کتاب و سنت اور عقل سلیم کے خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے۔
أما بعد فِان خیر الحدیث کتاب الله وخیر الھدی ھدی محمدٍ۔ (صحیح مسلم:۸۶۸)
سب سے بہترین کلام کتاب الٰہی ہے۔ اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طریقہ ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہدایت محمدی کامل ترین ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی (نجم ۴)
’’(نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا) جو کہتا ہے وہ صرف وحی سے کہتا ہے۔‘‘
اس آیت کی رو سے علماء کرام نے اجماع کیا کہ اسلامی قوانین میں قرآن کے ساتھ سنت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سنت ایک مستقل بنیاد ہے۔ احکام اسلامی میں قرآن کے ساتھ سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حلال و حرام میں قرآن کی طرح سنت کو اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اہل کتاب کی کتاب دیکھی تو فرمایا:
امتھوكون فيھا يا بان الخطاب، والذي نفسي بيده، لقد جئتكم بھا بيضاء نقية (مسند احمد:۱۴۸۶۰)
اے عمر بن خطاب کیا تم اب بھی ان کتابوں میں مشغول ہوتے ہو۔ الله کی قسم میں تمہارے پاس ایک واضح اور شفاف دین لے کر آیا ہوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعتِ محمدی تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أحب الادیان الی الله الحنیفیۃ السمحۃ۔ (صحیح الجامع:۱۶۰، الأدب المفرد للبخاری)
الله تعالیٰ کو تمام دینوں میں سے سیدھا اور یک طرفہ دین اسلام پسند ہے۔
ان احادیث پر غور کیجئے اور بتائیے کیا اب بھی ہدایت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی اور ہدایت ہو سکتی ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والذي نفسی بیدہ، لو کان موسیٰ بین اظھرکم، ثم اتبعتموہ وترکتمونی لضللتم بعیداً۔ (سنن دارمی:۴۴۹)
یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر موسیٰ عليه السلام بھی تمہارے پاس آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگ جاؤ تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔
اسلام میں جہاں ایک طرف مذہبی شعائر یعنی عبادت کے طریقے ہیں تو دوسری طرف اس کے سماجی نظریات، معاشی ضابطے، سیاسی احکامات اور مملکت کے نظام کا پورا طریقہ بھی دین ہی کا حصہ ہیں۔ جو سیاست، نظام تعلیم، نظام معیشت اور سماجیات کے دیگر افکار میں سے کسی ایک معاملے میں کسی فلسفے یا نظریے کو اللہ کے دین پر تر جیح دیتا ہے تو وہ کافر ہے۔ جو شخص نماز اور زکوٰۃ کے معنی ہی بدل دے جیسا کہ آج منکرین حدیث کر رہے ہیں یا کہے کہ سور کھانے میں کیا حرج ہے؟ شراب پینے، گانے بجانے اور رقص کرنے میں کیا برائی ہے؟ تو وہ حرام کو حلال کرنے کی بنا پر کافر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس امت کو کامل دین دیا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا (المائدۃ ۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔‘‘
اس کامل دین کے سوا اللہ کے ہاں کوئی اور دین قابل قبول نہیں۔
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آلِ عمران ۸۵)
’’جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول الله کے حکم کے علاوہ کسی اور کا حکم اچھا اور احسن ہے تو اس کا یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہے۔ ایسا شخص علماء امت کے اجماع کی رو سے کافر ہو گا۔ یہ لوگ اس لئے کافر ہوں گے کہ انہوں نے اللہ احکم الحاکمین کی نازل کردہ شریعت کے مقابل کم تر لوگوں کے قوانین یا اپنے خود ساختہ قوانین کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے منہاج حیاۃ سے بڑھ کر سمجھا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث ہی اسی لیے کیا تھا کہ آپ لوگوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی کی طرف لائیں۔ لہٰذا اب کوئی دوسرا نظریہ یا قانون کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (ابراہیم ۱)
الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
ہر مسلمان مرد، عورت پر واجب ہے کہ وہ اس بات سے روشناس رہے کہ الله اور اس کے رسول کا ہر حکم تمام حکموں سے افضل اور مقدم ہے۔ لوگوں میں کوئی بھی مسئلہ پیش آئے اس کو حل کرنے کے لیے الله اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے۔ جو شخص الله اور اس کے رسول کے حکم کو چھوڑ کر کسی دوسرے حکم کو مرجع بنا کر اس کے مطابق فیصلہ کرے اور اسے قانون عام بنائے وہ کافر ہو گا۔
اور جس نے انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے طاغوتی قوانین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے بہتر سمجھا۔ یا زانی کو رجم کرنے اور چور کے ہاتھ کاٹنے کو آج کے دور کے لیے نامناسب خیال کیا یا انسان کے خود ساختہ قوانین کو مرجع بنا کر اس کے ذریعے فیصلہ کرنا جائز سمجھا پس وہ کافر ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ آمَنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَیُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلاَلاً بَعِیْدًا (النساء ۶۰)
’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔‘‘
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتَّی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِی اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء ۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔‘‘
وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلَئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ (المائدۃ: ۴۴)
’’اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔‘‘

۵- دین سے بغض رکھنا
من ابغض شیئًا مما جاء بہٖ الرسول ولو عمل بہٖ کفر۔
جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی کسی چیز کو ناپسند کیا اور اس سے بغض رکھا وہ شخص کافر ہے۔
دین اسلام کو ناپسند کرنے والا اور اس سے بغض رکھنے والا اجماع امت کے مطابق اسلام سے خارج ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور آپ کے احکامات سے بغض رکھنا اعتقادی نفاق کی علامات ہیں۔ اور قرآن کے مطابق منافق کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جو شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور ممنوعات سے بغض کرے تو وہ بہت خطرے سے دوچار ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿٨﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴿٩﴾ (سوره محمد)
’’اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے لیے تباہی ہے اللہ ان کے اعمال ضائع کر دے گا۔ یہ اس لیے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا انہوں نے اسے ناگوار سمجھا پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اعمال ضائع کر دیئے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین سے ناخوش ہونے والا کافر ہے اور اس کے اعمال ضائع ہیں منافقین کے اعمال کے ضائع ہونے کی وجہ بھی یہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کی رضا مندی کو برا جانا۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّـهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (محمد ۲۸)
’’یہ اس بنا پر کہ یہ (منافق) ایسی بات کے پیچھے لگ گئے جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور انہوں نے اس کی رضامندی کو برا جانا تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے۔‘‘
یہود و نصاریٰ کی غیر مسلم تہذیب کے دلدادہ ایسے بھی ہیں جو قرآنی احکامات کا انکار کرتے ہیں جیسے لوگ چار شادیوں کی اجازت کو ناپسند کرتے ہیں۔ تعدد ازدواج کے خلاف تمام وسائل استعمال کرتے ہیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بغض و نفرت کرنے والے کہتے ہیں کہ عورت کا مقام شوہر کا گھر نہیں ہے۔ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہونے کو برا جانتے ہیں اور اپنی زبان سے عقلی طور پر ان باتوں کا رد کرتے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال سے بغض رکھتے ہیں۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’عورتوں جیسی ناقص عقل و دین میں نے نہیں دیکھی کہ یہ عورتیں عقل مند مردوں کی عقل بھی لے جاتی ہیں۔‘‘ (بخاری :۳۰۴، مسلم:۸۰)
اس حدیث سے کراہت کرنے والے اس کے خلاف زبان درازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یا یہ لوگ اس حدیث کو اس کے ظاہری مفہوم سے بدل دیتے ہیں۔ کچھ اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ حدیث عقل کے خلاف ہے۔ ان کو خبر نہیں کہ یہ لوگ الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ اگر قرآن کے حکم پر عمل کریں پھر بھی یہ لا الٰہ الا الله کی شروط و ارکان پر عمل پیرا نہیں ہو رہے۔
جو شخص پردہ سے پیچ و تاب کھاتا ہے، داڑھی سے تکلیف محسوس کرتا ہے، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کو دہشت گردی سمجھتا ہے، شرک کے رد پر ناراض ہوتا ہے، زانی کے رجم کرنے اور چور کے ہاتھ کاٹنے کو ناپسند کرتا ہے تو ایسا شخص دین کی کسی ایک بات سے نفرت یا بغض رکھنے کی بنا پر کافر ہے۔ آج لا دین اور نام نہاد ترقی پسندوں کے ادب اور کلام میں یہ نفرت اور بغض بکثرت دیکھنے کو ملتا ہے۔ تو ایسے لوگ دین اسلام کی کسی بھی ایک بات سے بغض رکھنے کی بنا پر کافر ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج اسلام کے مختلف شعائر کی غلط تفسیر اور تعلیم بھی عام ہے۔ دین دار طبقوں کا غلط رویہ اور طرز عمل بھی بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ ان پر تنقید، طعن و تشنیع دین پر طعن کر نے میں داخل نہیں ہے۔ ایسے شخص کو دین کا مخالف یا کافر باور کرانا درست نہیں ہے۔ دین کی کسی بات کا صاف رد کر دینا یقینا کفر ہے لیکن دین کے شعائر کے خاص گروہی مفہوم پر تنقید یا طعن کرنا کفر نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۶- دین کا مذاق اڑانا
من استھزأ بشئ من دین الرسول صلی الله علیہ وسلم، أو ثوابہ، أو عقابہ کفر۔
استہزا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑا یا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (اگرچہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)
دین اسلام کے کسی امر کا استہزأ کرنا، اس کا مذاق اڑانا، اجماع امت کے مطابق کفر ہے۔ اگرچہ کوئی غیر سنجیدگی سے بھی مذاق اڑائے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ تبوک کے موقع پر ایک محفل میں ایک شخص نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہا کہ ان سے زیادہ میں نے باتوں میں تیز، کھانے میں پیٹو، کلام میں جھوٹے اور لڑائی میں بزدل کسی اور کو نہیں دیکھا۔ محفل میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو بلکہ تم منافق ہو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بتاؤں گا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچی تو قرآن حکیم کی آیات نازل ہوئیں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور پتھر اس کے پاؤں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا یا رسول اللہ ہم تو یونہی آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیات تلاوت کر رہے تھے:
قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبۃ )
’’کہہ دیجئے کیا اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی تمہاری ہنسی اور دل لگی ہوتی ہے۔ تم بہانے نہ بناؤ یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے۔‘‘ (ابن جریر:۱۰/۱۷۲ محدث سلیمان العلوان نے جید سند کہا ہے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’اس آیت سے خبر ملتی ہے کہ ان لوگوں نے جو اسلام و مسلمانوں کا مذاق اڑایا تھا وہ ان کے خیال میں کفر نہ تھا۔ اس لیے اس آیت کے ذریعے ان کو خبر دی گئی کہ تم نے کفریہ عمل کیا ہے۔ وہ یہ تو جانتے تھے کہ ایسا کرنا حرام ہے لیکن ان کو یہ خبر نہ تھی کہ کفر بھی ہو جائے گا۔‘‘ (کتاب الایمان ۲۷۳)
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے دین کی کسی بات کا مذاق اڑانا، چاہے وہ نماز ہو، داڑھی ہو، شلوار کا ٹخنے سے اوپر کرنا ہو، شرعی پردہ ہو، سود کا چھوڑنا ہو یا جنت اور جہنم کی کسی چیز کا ذکر ہو کفر ہے۔ اللہ کے رسول کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑانا جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اسے اللہ، آیات اللہ اور رسول اللہ سے مذاق قرار دیتا ہے۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اسلام کا مذاق اڑانے والوں کی دو اقسام بیان کی ہیں۔
(اول) واضح طور پر مذاق اڑایا جائے۔ جیسا کہ یہ قول ہے ’’یہ قرآن پڑھنے والے بڑے پیٹو، بزدل اور جھوٹے ہیں‘‘ ان لوگوں کے متعلق ہی آیت نازل ہوئی تھی۔
(ثانی) مذاق اڑایا تو جائے مگر غیر واضح طور پر۔ مبہم انداز میں۔ جیسے کہ آنکھ کے اشاروں کنایوں کے ساتھ۔ یا تلاوت قرآن کا، زبان نکال کر ہونٹ پھیلا کر، مذاق اڑایا جائے۔ یا سنت رسول کا مذاق اڑایا جائے۔ یہ چیز آدمی کو اسلام سے خارج کر دینے والی ہے۔ (حکم المرتد صفحہ ۱۰۵)
ایسی محفلوں میں شرکت حرام ہے جہاں اللہ کی آیات کا مذاق ہو رہا ہو۔ فرمایا:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا (النساء ۱۴۰)
’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ یقینا اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔‘‘
بعض لوگ جنت یا جہنم حتیٰ کہ فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے چٹکلے بیان کرتے ہیں گویا کہ یہ سب ڈھکوسلے ہوں اور ’’دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے‘‘ جیسی بات ہو۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات کا احترام اور تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے۔ جنت اور جہنم کے ذکر سے دلوں پر ایک ہیبت اور ایک خوف بیٹھنا چاہئے۔ دین کی ہر بات کا تقدس ہے۔ جو شخص دین کی کسی بات کا مذاق اڑا کر لوگوں کو ہنسائے تو صریحاً کفر ہے اور جو شخص اس استہزاء کو سنے اور اس میں ایمانی غیرت بیدار نہ ہو اور اسی مجلس میں بغیر کسی سخت مجبوری کے شریک رہے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو دین کا استہزاء کرنے والے کا ہے۔

۷- جادو
السحر، فمن فعلہ أو رضي بہ کفر والدلیل قول الله (وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَآ نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَـلَا تَکْفُرْ)
جس نے جادو کیا یا اس سے رضا مند ہوا اس نے کفر کیا۔
جادو۔ اپنی مختلف قسموں کے ساتھ:
مثلاً: صَرف اور عطف وغیرہ۔ صَرف جادو کی اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے انسان کو اس کی پسندیدہ اور محبوب چیز سے متنفر کر دیا جاتا ہے۔ جیسے شوہر کے دل میں بیوی کی محبت کی جگہ بغض اور نفرت پیدا کرنا اور عطف جادو کے اس عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شیطانی طریقوں سے آدمی کو اس کی ناپسندیدہ چیز کی طرف مائل کر دیا جاتا ہے۔
پس جس نے جادو کیا یا اس سے رضا مند ہوا اس نے کفر کیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ (البقرۃ ۱۰۲)
’’وہ دونوں کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر۔‘‘
جادو کی تعلیم شیطان کی طرف سے ہے اور کفر ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْر (البقرۃ ۱۰۲)
"اور لیکن کفر وہ شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے"۔
جادو ایک حقیقت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے جادوگر پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے اور گرہ لگاتے جاتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یوں کہنے کا حکم دیا:
وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (الفلق ۴)
’’اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (میں صبح (دن کا اجالا کرنے والے) کے رب کی پناہ میں آتا ہوں)۔‘‘
جادو کے ذریعے میاں بیوی میں تفریق تک پیدا کی جاتی ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ معتزلہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جادو کو ایک وہم سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ عقلی طور پر بھی جادو کو حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل بھی یہی کہتے ہیں جیسا کہ الله تعالیٰ نے جادو کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ (البقرۃ ۱۰۲)
’’(شیطان) لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ اور بابل (شہر) میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا۔ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو آزمائش ہیں تم کفر نہ کرو۔ پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند، بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے۔ کیونکہ تعلیم کسی حقیقی چیز کی دی جاتی ہے۔ وہم و گمان کی نہیں۔ الله تعالیٰ نے فرعون کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (الاعراف ۱۱۶)
’’یعنی فرعون ایک بڑا جادو لے کر آیا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی لبید ابن اعصم نے جادو کیا اس کا اثر یہ تھا کہ آپ ایک کام کے بارے میں یہ گمان کرتے کہ میں نے یہ کر لیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نہیں کیا ہوتا تھا۔ (بخاری: ۵۷۶۳۔ مسلم: ۲۱۸۹)
سورۃ فلق کے متعلق تمام مفسرین اتفاق کرتے ہیں کہ یہ جادو کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فلق کی تلاوت کی تو جادو کا اثر ختم ہو گیا تب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِنَّ الله شَفانِی) الله نے مجھے شفا عطا فرمائی ہے۔ شفا کسی بیماری اور علت کے ختم ہونے پر ملتی ہے۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے۔ یہ دلائل، آیاتِ الٰہی، احادیث اور اجماع امت سے ملے ہیں۔ لہٰذا، معتزلہ اگر اس سے انکار کرے تو کچھ فرق نہیں ہوتا۔
جادو کفر ہے۔ اسے کرنے والا اور اس پر راضی ہو نے والا کافر ہے۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے ایک سال قبل یہ حکم نامہ جاری کیا کہ ہر جادوگر کو قتل کر دو۔ چنانچہ ایک دن میں تین جادوگرنیاں قتل کی گئیں۔۔
(مسند امام احمد ،ص:۱۹۰،ج۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہلاکت خیز گناہوں میں جادو کو شمار کیا۔ (صحیح بخاری 2766)
جادو کو ختم کرنے کا طریقہ:
امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’مسحور یعنی جس شخص پر جادو کیا گیا ہو۔ اس سے جادو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں۔
اوّل: جادو کو توڑنے کے لئے جوابًا جادو کیا جائے۔ یہ شیطانی عمل ہے۔ اس عمل میں شرکیہ دم اور شرکیہ تعویذات دینے والا شیطانی عمل کرتا ہے۔ اس سے جادو ختم کیا جاتا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نشرہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شیطان کے عمل میں سے ہے (ابوداؤد:۳۸۶۸ شیخ البانی نے صحیح کہا)
ثانی: جادو ختم کرنے والا دعاؤں، تعوذات، دم اور ادویات کے ذریعے یہ کام کرے۔ یہ طریقہ جائز ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ کسی شخص یا اس کی بیوی کو جادو ہو گیا ہو تو کیا وہ اس کو ختم کرنے کے لیے دم جھاڑے کر سکتا ہے۔ تو آپ نے کہا۔ کسی اصلاح کی غرض سے دم کرنا درست ہے۔ فائدہ بخش چیز کو منع نہیں کیا جاتا۔
(بخاری معلقاً: کتاب الطب،باب ھل یستخرج السحر)
اس کے علاوہ جادو زائل کرنے والے کے لئے جادوگروں، عاملوں، کاہنوں، نجومیوں کے پاس جانا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اس کام سے چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
من اتٰی عرافًا فسألہ عن شیٔ لم تقبل لہ الصلاۃ اربعین لیلۃ۔ (مسلم:۲۲۳۰)
’’جو شخص کسی عامل کے پاس جا کر (جادو) کے متعلق سوال کرے تو اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی۔‘‘
اور اگر ان جادوگروں، عاملوں کے پاس جا کر ان کے اعمال کی تصدیق کرے۔ تو وہ اسلام کا انکار کرنے والا کہلائے گا۔
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : من اتٰی عرافًا أو کاھنًا فصدقہٗ فیما یقول فقد کفر بما انزل علی محمدٍ۔ (مسند بزار:۴۴۳/۲)
’’جو کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو تحقیق وہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا ہے۔‘‘
آج شہروں میں گمراہ سنیاسی عامل اور نجومی جگہ جگہ پروفیسر کے بورڈ لگا کر بیٹھے ہو ئے ہیں۔ اعلانیہ کالا علم کا ماہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مقدمہ میں اپنی مرضی کے فیصلے کروانے ،شادی اور کاروبار میں رکاوٹوں کو دور کر نے کے دعوے کرتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ان کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ یہ قرآنی آیات کو الٹی ترتیب سے لکھ کر اور جادو کے اعداد اور زائچوں کو قرآنی تعویذ کا نام دیتے اور لوگوں کو غیب کی خبریں اور قسمت کا حال بتاتے ہیں حالانکہ ان کا گاہک بن کر آدمی مسلمان نہیں رہتا۔ اخبارات میں ’’آپ کا ہفتہ کیسا گزرے گا‘‘ کے عنوان سے یہ نام نہاد پروفیسر شیطانی جھوٹی خبروں کو پھیلاتے ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی ان کو پڑھ کر ایمان کی دولت سے محروم ہوتے رہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۸- مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد
مظاہرۃ المشرکین ومعاونتھم علی المسلمین۔
مسلمانوں کے خلاف مشرکوں سے تعاون کرنا اور ان کو مدد پہنچانا کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (المائدۃ ۵۱)
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے کسی نے ان کو دوست بنایا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘
یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ (آل عمران ۱۱۸)
’’اے ایمان والو! تم ایمان والوں کے سوا کسی اور کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔‘‘
مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد چاہے مال سے ہو، یا بدن سے یا آراء سے اور کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنا اور اپنے مال، جان، زبان، اور ہتھیار سے کافروں کا دفاع کرنا اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (مکہ مکرمہ میں رہنے والے) بعض مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے (یعنی جنگ بدر) میں مشرکین مکہ کے ساتھ نکلے اور اس طرح مشرکین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ (جنگ میں) مسلمانوں کے تیر یا تلوار سے یہ لوگ قتل ہوئے (جس پر مسلمان غمگین ہوئے) تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء ۹۷)
"جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے، یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔" (بخاری: ۴۵۹۶)
اس طرح کافروں کی طاقت کو مضبوط کرنے اور مسلمانوں پر انہیں فتح یاب کرنے کے لئے مسلمانوں کی جاسوسی کرنا، ان کے راز کفار تک پہنچانا اور مسلمانوں پر کفار کے غلبہ کے لیے کوشش کرنا صریحاً کفر ہے۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرہ اسلام میں نہیں رہتا۔ لہٰذا ہر وہ اتحاد جو مجاہدین فی سبیل اللہ کے خلاف آمادہ جنگ ہو اس کا حصہ بننا جس سے اسلام و مسلمین کا جھنڈا سرنگوں اور کفر کا جھنڈا سربلند ہو یا اس کی مدد کرنا وہ جرم ہے جس سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
ان فتنوں کی اہم وجہ علوم شریعت سے بیگانگی اور یونانی، معتزلی فلسفیانہ علوم کی طرف توجہ کرنا ہے۔ لا دین علوم کی نشر و اشاعت سے برائی نیکی بن گئی ہے اور نیکی کو برا جانا جاتا ہے۔ نسل نو کی نشو و نما بے دین علوم کے سائے میں کی جاتی ہے۔ حق اس دور میں پہچانا نہیں جاتا۔ کسی صاحبِ حق اور سنت و شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا انسان کو اگر ہم تلاش کرنا چاہیں تو مشکل ہی سے ملے گا۔ اسلام جس طرح اپنی ابتدا میں غریب تھا اس دور میں ویسا ہی غریب بن گیا ہے۔ لہٰذا ایسے پکے سچے مسلمان جو بہت کم ملتے ہیں ان کے لیے خوشخبری ہے جنتوں کی بشارت ہے۔ یہ لوگ عوام الناس کے بگاڑ کی اصلاح کرنے والے ہیں۔ اسی باعث اسلام نے خاص طور پر اپنے نام لیواؤں کو مشرکوں سے دوستی کرنے اور ان کی مدد کرنے سے ڈرایا ہے۔

۹- شریعت محمدی سے خروج کو جائز سمجھنا
من اعتقد أن بعض الناس یسعہ الخروج عن شریعۃ محمدٍ صلی الله علیہ وسلم کما وسع الخضر الخروج عن شریعۃ موسیٰ علیہ السلام فھو کافر۔
جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ بعض لوگ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی سے آزاد ہیں تو وہ کافر ہے:
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا پھر دو خط دائیں اور بائیں کھینچے پھر درمیان والے خط پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے۔ اور دوسرے خطوط کے بارے میں فرمایا کہ یہ راستے وہ ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی:
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ (الانعام ۱۵۳)
’’اور یہ کہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے رہو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ۔ المقدمہ۱۱ شیخ البانی نے صحیح کہا)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔‘‘ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون انکار کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی پس اس نے انکار کیا۔‘‘ (بخاری:۷۲۸۰)
پس جس نے شریعت محمدی سے خروج کیا اور یہ گمان کیا کہ اس کو اس دین کی ضرورت نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سکھایا تھا کیونکہ وہ اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست سنتا ہے اور براہ راست اللہ تعالیٰ سے احکامات وصول کرتا ہے۔ وہ کافر ہے اسلام سے خارج ہے۔
جیسا کہ بعض لوگوں نے شریعت اور طریقت کی خود ساختہ تقسیم کر رکھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عام لوگوں کو شریعت پر چلنا ہو گا اور جو ولایت کے مرتبہ پر فائز ہو گئے ان کے لیے شریعت پر چلنا ضروری نہیں۔ لہٰذا اگر وہ پانچ وقت نماز باجماعت کے لیے مسجد میں نہیں آتے تو ان کے لیے جائز ہے۔ اگر یہ نظریہ کسی شریعت کے پابند کا بھی ہو تو وہ بھی شریعت پر پابندی کر نے کے باوجود اس لیے کافر ہے کہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ جنت میں جانے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت لازم نہیں۔ بھلا شریعت محمدیہ سے آزاد ہو کر بھی کوئی شخص اللہ کا ولی بن سکتا ہے۔
اس کا موسیٰ اور خضر کے قصے سے دلیل لینا درست نہیں ہے کیونکہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ کوئی عجمی ہو یا عربی، سردار ہو یا محکوم، عالم ہو یا جاہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے سب کے لیے رسول ہیں۔ حتیٰ کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام جب آسمان سے نازل ہوں گے تو وہ بھی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو چھوڑ کر اگر کوئی آج موسیٰ علیہ السلام یا عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرتا ہے تو وہ کافر ہے پھر جو اپنے ذوق، کشف یا رائے کو کتاب و سنت کے مقابلے میں حجت سمجھتا ہے تو اس کا اسلام کیسے باقی رہے گا؟؟!
خضر علیہ السلام پر موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت واجب نہیں تھی۔ نہ ہی موسیٰ علیہ السلام خضر علیہ السلام کی طرف مبعوث کیے گئے تھے۔ بلکہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ’’کیا تم بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے جانے والے موسیٰ ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا ہاں اور میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت کی باتیں تمہیں سکھائیں ہیں وہ تم مجھے سکھا دو۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسیٰ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس علم پر ہوں جو اس نے مجھے سکھایا اور تم اس کو نہیں جانتے اور تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس علم پر ہو جو اس نے تمہیں سکھایا اور میں اس کو نہیں جانتا۔ (بخاری: ۳۴۰۱، مسلم: ۲۳۸۰)
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
قُلْ یَا أَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف ۱۵۸)
’’آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔‘‘
لہٰذا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے علاوہ کسی اور طریقے میں نجات نہیں ہے۔
الله تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض کی ہے۔ اس فرض کو ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی دو اقسام ہیں۔
۱) امتِ اجابت: یعنی وہ لوگ جنہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اور نور قرآن کی اتباع کی۔
۲) امتِ دعوت: یعنی وہ لوگ جنہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ اور اطاعت سے انکار کیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شریعت کو تھامنا اور اس کی پابندی کرنا ان لوگوں پر لازم ہے جو کوئی اور معرفت یا علم نہیں رکھتے۔ لہٰذا جن لوگوں کے پاس علم و معرفت کے ذرائع موجود ہیں انہیں نبوی شریعت کی پابندی کرنا ضروری نہیں۔ بلکہ انہیں اپنے ذوق عقل اور فہم و فراست کے مطابق قدرتی اور دنیاوی حقیقتوں کے ساتھ چلنا چاہئے۔ کتاب و سنت کے ساتھ چمٹے رہنا لازمی نہیں۔ یہ خیال غلط ہے۔ یہ اپنے دین کے اعتبار سے عاجز و ناتواں ہیں۔ انہوں نے اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر فاسق بننا قبول کر لیا ہے۔ الله پر ایمان ترک کر کے یہ مرتد منافق یا کافر ملعون بن چکے ہیں۔ ایسے لوگ موسیٰ و خضر کے قصوں سے اپنے لئے دلائل پکڑتے ہیں۔‘‘ (فتاوی:۱۱/۴۱۸)
امام ابن تیمیہ اس موضوع پر مزید رقمطراز ہیں۔ ’’موسیٰ اور خضر کے واقعے سے دلیل پکڑنے کی دو وجوہات ہیں:
۱) یہ لوگ کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام الله تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کو جاننے والے تھے۔ اسی ارادے کو حقیقتِ کونیہ کہتے ہیں۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام کے حکم امر و نہی کی اطاعت ان سے ساقط ہو گئی تھی۔ یہ بات کہنا ایک بہت بڑی جہالت ہے۔ بلکہ کفر اور گمراہی کی انتہا ہے۔ اسی طرح یہ کہنا جو شخص الله کو رب مانے اور تقدیر پر ایمان لائے اس کے لئے الله کے رسول کی امر و نہی کی پابندی ضروری نہیں۔ اس بات سے الله تعالیٰ کے تمام رسولوں اور ان کی کتابوں کا انکار لازم آتا ہے۔ جو کفر ہے۔
۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض جہلا یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے شریعت محمدی سے خروج جائز ہے۔ جیسا کہ خضر علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے پابند نہ تھے۔۔ وہ کہتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے بعض ولیوں کو کشف کے ذریعے ایسے علوم حاصل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شریعت کی اتباع سے مستغنی ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ ولی کو نبی پر فضیلت بھی دیتے ہیں (نعوذ بالله) اور ان کی دلیل یہی قصۂ خضر علیہ السلام ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام فاسد خیالات و نظریات جہالت و گمراہی کا شاہکار ہیں۔ بلکہ کفر و نفاق سے لبریز ہیں۔ دین اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ رسول عربی محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات کے لیے رسول ہیں۔ عرب و عجم، بادشاہ و عوام، علماء و زہاد غرض ہر شخص کے لیے تا قیامت رسول بن کر آئے ہیں۔ جن و انس میں سے کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع سے خروج کرے۔ یا الله کے رسول کے احکامات سے روگردانی کرے۔ بلکہ اگر سابقہ انبیاء بھی زندہ ہو جائیں تو وہ بھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کریں گے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب قربِ قیامت آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے تو اس وقت شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہوں گے۔
دیکھئے! جب سابقہ انبیاء اور عیسیٰ علیہ السلام پر بھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے تو عام لوگوں پر کیوں نہیں ہے؟؟ اس کے علاوہ اسلام کا لازمی تقاضا بھی یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اب شریعت موسوی و عیسیٰ کی اتباع بھی جائز نہیں ہے۔ تو کیسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو شریعت سے خروج کی اجازت ہے؟؟
شیخ الاسلام سلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال فاسد کو باطل کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں خبر دی جائے کہ موسیٰ علیہ السلام خضر علیہ السلام کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ اسی طرح الله تعالیٰ نے خضر علیہ السلام پر بھی فرض نہیں کیا تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کریں۔ بلکہ بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔ ’’مجھے الله نے ایسا علم عطا فرمایا جو آپ کو نہیں ملا اور آپ کو جو علم و نبوت ملی ہے وہ مجھے نہیں ملی‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام خاص طور پر صرف بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
کان النبی یبعث الٰی قومہ خاصۃ ، وبعثت اِلٰی الناس عامّۃ۔ (بخاری :۳۳۵، مسلم:۵۲۱)
یعنی تمام انبیاء اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے جاتے تھے۔ اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تمام افراد شامل ہیں۔ کوئی شخص قصۂ خضر علیہ السلام سے استدلال کرتے ہوئے شریعت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو یا کسی کو شریعت سے مستثنیٰ سمجھے گا وہ بالاتفاق غیر مسلم ہو گا۔ دراصل خضر علیہ السلام بھی شریعت سے خارج نہ تھے۔ بلکہ بعض اسباب کی بنا پر یہ واقعہ پیش آیا۔ جس پر موسیٰ و خضر دونوں متفق تھے۔ ان کا آپس میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ یعنی دونوں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی کے پابند تھے۔ لہٰذا خضر علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ وحی کے تحت کیا نہ کہ اپنی مرضی سے اور موسیٰ علیہ السلام نے جو جو سوال کیے وہ اس علم کی بنیاد پر جو وحی سے آپ کو ملا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دین سے اعراض
الاعراض عن دین الله تعالیٰ لا یتعلمہ، ولا یعمل بہ۔
’’دینِ الٰہی سے مکمل منہ پھیر لینا۔ نہ دین کو سیکھنا اور نہ ہی عمل کرنا۔ نواقضِ اسلام میں شامل ہے۔‘‘
دین اسلام سے اعراض اور روگردانی کرنے سے مراد ہے کہ دینِ اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی لاعلم رہنا۔ جس بنیادی عقائد و تعلیم سے آدمی مسلمان بنتا ہے۔ اس سے مراد تفصیلی علم نہیں ہے کہ کیونکہ تفصیلی علم تو صرف علماء و طلباء دین کو حاصل ہوتا ہے۔
کفر اعراض وہ کفر ہے جس میں انسان کا کلمہ پڑھنے کے باوجود دین سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اعراض کرنے والا شخص وہ ہے کہ جو اللہ کے دین کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ نہ دین کا علم سیکھتا ہے اور نہ ہی دین کے کسی حکم پر عمل کرنے کا اسے کبھی خیال آتا ہے۔ ایسا شخص اس رویہ کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ (السجدۃ ۲۲)
’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے۔ جسے الله تعالیٰ کی آیات کا وعظ کیا گیا۔ پھر بھی اس نے منہ پھیر لیا۔ ہم بھی مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔‘‘
علامہ عبداللطیف بن عبدالرحمن رحمہ اللہ سے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ’’جب ایمان کی اصل بنیاد موجود ہو تو لوگوں میں ایمان کی کمی بیشی اور اس کے درجات میں تفاوت ہو سکتا ہے۔ جب ایمان کی بنیاد ہی نہ ہو۔ وہ توحید ہی نہ ہو جس کے ذریعے انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے اور وہ انسان کلی طور پر اس سے منہ پھیرے اور اعراض کرے تو اسی چیز کو اعراضِ کفر کہتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے۔
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ (طہ ۱۲۴)
’’اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا۔ اس کی زندگی میں تنگی رہے گی۔ اور ہم اسے بروزِ قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے‘‘۔
اس کلام کے متعلق علامہ سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ شیخ عبداللطیف رحمہ اللہ کے کلام سے واضح ہو گیا کہ اعراض کرنے سے مراد فرائض و مستحبات کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کے بنیادی عقائد و تعلیمات سے روگردانی مراد ہے۔ جن عقائد کے ذریعے کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے (یعنی کوئی فرائض اسلام کو ترک کرے تو وہ صرف فاسق فاجر ہو گا کافر نہیں سوائے ترک صلوٰۃ کے)۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ کفر اور اعراض سے مراد وہ کفر ہے جس میں کوئی شخص اپنے دل اور کانوں سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے اعراض کرے۔ رسول کی تصدیق کرے اور نہ ہی تکذیب کرے۔ رسول سے دوستی رکھے اور نہ ہی دشمنی رکھے۔ اور کتاب و سنت کی طرف جو رسول لے کر آیا ہے مائل نہ ہو۔ (مدارج السالکین)
اعراض کے معنی کے وضاحت کے بعد آپ دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اسلام کے بنیادی عقائد پر غور ہی نہیں کیا۔ ایمان بالله اور عقیدہ توحید کو سیکھا اور جانا ہی نہیں۔ بلکہ ان کے دل و دماغ ہمیشہ رسول الله سے اعراض کرتے نظر آتے ہیں۔
الله اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ موڑنے والوں کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ یہ جاہل ہیں لہٰذا کافر نہیں ہیں۔ جاہل کو جب اس کی غلطی بتائی جاتی ہے تو وہ حق بات کو مان لیتا ہے اور اپنی غلطی سے رجوع کرتا ہے۔ جو شخص بتوں کی عبادت پر ڈٹ جائے اور الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر کان نہ دھرے۔ اور جو شخص ان کے باطل ہونے پر تنقید کرے اس کو ایذائیں پہنچائے۔ ان کے لئے جہالت کو بطور عذر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
اللہ کی آیات اور اس کے ذکر سے روگردانی سے مراد مستحبات کا علم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اس اصل دین کا علم ہے جس کو قبول کرنے سے آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے۔
جیسے آج بہت سے لوگ اسلام اور کفر، توحید اور شرک کے فرق سے نا آشنا ہیں۔ قبروں کی پوچا میں مصروف ہیں جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کا کلام سنایا جاتا ہے تو وہ اس کو نہیں سننا چاہتے بلکہ سنانے والوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ فرمایا:
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّا اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ (الاحقاف ۳)
’’کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں اس سے روگردانی کرتے ہیں۔‘‘


تقدیر کا انکار کفر ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ (القمر ۴۹)
’’بے شک ہم نے ہر چیز کو مقدار سے پیدا کیا ہے۔‘‘
ائمہ اہل سنت نے اس جیسی آیات اور ارکان ایمان کو واضح کرنے والی صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے تقدیر الٰہی کا اثبات کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی سب کا علم تھا اور اس نے سب کی تقدیر لکھ دی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تقدیر کے منکر اس امت کے مجوسی ہیں اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر مر جائیں تو جنازہ نہ پڑھو۔" (ابوداود: ۴۶۹۱ شیخ البانی نے حسن کہا)
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ تقدیر پر جس شخص نے سب سے پہلے اعتراض کیا وہ بصرہ کا معبد الجہنی تھا۔ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور انہیں بتایا کہ بعض لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم کے دعویدار ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں سارے امور ازخود ہوتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم ان سے ملو تو ان کو بتاؤ کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا جب تک تقدیر پر ایمان نہ ہو۔ پھر انہوں نے حدیث جبرئیل بیان کی کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن پر اور تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لاؤ۔‘‘ (مسلم الایمان:۸)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان اور زمین والوں کو عذاب دے تب بھی ان پر ظلم نہیں ہو گا۔ اگر ان پر رحمت کرے تو رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہے۔ اگر کسی آدمی کے لیے احد پہاڑ یا اس کے برابر سونا ہو، اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس سے یہ قبول نہ کرے گا جب تک وہ اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لے آئے اور اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ جو کچھ اسے مل گیا وہ کسی شکل میں اس سے چھوٹ نہیں سکتا تھا۔ اور جو کچھ نہیں ملا وہ کسی شکل میں نہیں مل سکتا تھا۔ اگر (تقدیر کے) اس عقیدہ کے مانے بغیر تو مر گیا تو تجھے ضرور آگ میں داخل کیا جائے گا۔‘‘
(ابو داؤد: ۴۶۹۹ شیخ البانی نے صحیح کہا)
تقدیر پر ایمان کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ہر معاملہ میں مجبور محض ہے۔ یقینا بعض امور میں انسان مجبور محض ہے مثلاً انسان کی پیدائش۔ اللہ تعالیٰ نے جس قوم، ملک، جس رنگ اور جس زبان کے بولنے والوں میں چاہا پیدا کر دیا اس میں انسان کی کسی مرضی کا دخل نہیں ہے۔
انسان کی عمر کتنی ہو اس میں بھی انسان مجبور محض ہے اللہ نے جب چاہا اس کو مار دیا اس کی عمر ۲۰ سال ہو ۴۰ سال ہو یا ۸۰ سال ہو۔
انسان کا بیمار ہونا وغیرہ لیکن جن معاملات میں اسے آخرت میں جواب دہ ہونا ہے اس میں وہ با اختیار ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا (النبا ۳۹)
’’پس جو شخص چاہتا ہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) اپنا ٹھکانہ بنا لے۔‘‘
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (الدھر ۳)
’’ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ نا شکرا۔‘‘
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (التکویر ۲۹)
’’اور تم اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘
پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے لہٰذا اس کی ملکیت میں اس کے علم اور اس کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز واقع نہیں ہو سکتی کسی شخص کا اپنی تقدیر کو حجت بنا کر معصیت کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے جس طرح وہ دنیاوی امور کے لیے محنت کرتا ہے اور نقصان دہ امور سے بچتا ہے ایسے ہی ضروری ہے کہ وہ آخرت کے لیے اللہ کے احکامات کی اطاعت کرے اور اس کی نافرمانی والے کاموں کو چھوڑ دے۔ چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسی کی مشیت میں فرق جان لیا جائے۔ اللہ کی رضا یہ ہے کہ کوئی کفر نہ کرے اور جہنم میں نہ جائے۔
{ولا یرضی بعبادہ الکفر وان تشکروا یرضہ لکم}
اور اس کی مشیت یہ ہے کہ اگر وہ دنیا میں کوئی چھوٹا بڑا کام نہ ہونے دے تو وہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا اور یہ سب کچھ جو ہوتا ہے اس کی حکمت و عدل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چند اور نواقض اسلام
ان امور (پہلے جو بیان کیے گئے) کے علاوہ بھی بہت سے اعمال، اقوال اور عقائد ایسے ہیں جن کے حاملین کو علماء کرام نے مرتدین کہا ہے مثلاََ:
۱۔ جو اللہ تعالیٰ کو یا اس کے رسولوں میں سے کسی رسول یا فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو گالی دیتا ہے وہ کافر ہے۔
۲۔ انبیاء و رسل علیھم السلام میں سے کسی رسول کا منکر بھی کافر ہے اور وہ شخص بھی کافر ہے جو خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا قائل ہو۔
۳۔ شریعت کے فرائض میں سے کسی فریضہ مثلاً نماز، زکوۃ، روزہ، حج، والدین کی اطاعت، اور جہاد کا انکار کرنے والا کافر ہے۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کام مثلاً زنا، شراب پینا، چوری، جادو، قتل وغیرہ کو جائز سمجھنے والا کافر ہے۔
۵۔ قرآن مجید کو غلاظت کی جگہ پھینکنے والا، اس کو پاؤں کے نیچے روندنے والا اور اس کی توہین کرنے والا بھی کافر ہے۔
۶۔ اللہ تعالیٰ، فرشتوں، رسولوں، کتابوں اور آخرت میں سے کسی چیز کا انکار کرنے والا کافر ہے۔
۷۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت مثلاً اس کی الحي، العلیم، السمیع، البصیر، یا الرحیم ہو نے کا جس نے انکار کیا وہ کافر اور مرتد ہے۔
یہ تمام امور اسلام کی ضد اور منافی ہیں۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ کوئی شخص ان کا ارتکاب مذاقاً کرتا ہے یا سنجیدہ ہو کر سوائے اس شخص کے جو اکراہ کی حد تک مجبور کر دیا گیا ہو۔ وہ اگر جان بچانے کے لیے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کرے، جب کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل ۱۰۶)
’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (النحل ۱۰۷)
’’یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘
سورۂ نحل کی آیات میں ان کا کفر بیان نہیں ہوا جو جہالت کی بنا پر یا دین توحید سے بغض رکھنے کی بنا پر یا کفر سے محبت کی بنا پر کافر ہوئے۔ بلکہ ان کا بیان ہے جو دنیا کی محبت کی بنا پر گمراہ ہوئے۔
پس اگر کوئی ان نواقض اسلام میں سے کسی کا ارتکاب اس وجہ سے کرتا ہے کہ دنیا کے مال اور عزت میں کمی آئے گی تو وہ کافر ہے۔
اگر غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے سفر میں شریک ہنسی مذاق کے طور پر صحابہ رضی اللہ عنہم کو کھانے کا پیٹو اور لڑنے میں بزدل کہنے والوں کو ان کے اس قول کی بنا پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبۃ ۶۶)
’’بہانے نہ بناؤ یقینا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے۔‘‘
تو جو شخص توحید کو پہچان کر صرف اس لیے عمل نہیں کرتا کہ دنیا کے مال میں یا عزت میں کمی آئے گی تو اس کا اسلام کیسے باقی رہے گا؟؟
ہم اس شرح کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے تمام شبہات و اعتراضات کو دور کرنے والے کلام کے ساتھ ختم کر رہے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
’’اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ توحید کا اقرار دل، زبان اور عمل ہر چیز سے ہونا چاہیے ان تینوں میں سے کسی ایک چیز سے انکار کرنے کی وجہ سے کوئی شخص مسلمان نہیں بن سکتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص توحید کا علم تو رکھتا ہو مگر اس کا عمل توحید پر مبنی نہ ہو تو وہ سرکش کافر ہو گا۔ جیسا کہ ابلیس اور فرعون ہوئے۔ بہت سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں ہاں یہ حق ہے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں مگر ہم اس حق پر عمل نہیں کر سکتے۔ ہمارے شہر یا ملک والوں کے نزدیک اس حق پر عمل کرنا اچھا نہیں ہے۔ انہیں یہ خبر نہیں کہ کفر کے اکثر لیڈر حق کو جانتے ہیں۔ اس کی معرفت رکھتے ہیں مگر بعض خود ساختہ عذر کی بنا پر اس حق کو اپناتے نہیں ہیں۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے۔
اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا (توبۃ ۹)
’’انہوں نے الله کی آیات کو تھوڑی قیمت میں بیچ دیا ہے‘‘۔
اس طرح کوئی شخص توحید پر ظاہری عمل تو کرے مگر اس توحید کا دل سے اعتقاد نہ رکھتا ہو۔ تو وہ منافق ہو گا۔ ایسا شخص کفار سے بھی برا ہے۔
الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (نساء ۱۴۸)
’’بے شک منافقین جہنم کے نچلے گڑھے میں رہنے والے ہیں۔‘‘
اس مسئلے کی وضاحت اس وقت سامنے آتی ہے۔ جب تم لوگوں کی زبانوں پر غور و فکر کرو گے۔ تم دیکھو گے کہ لوگ حق کو مان کر بھی عمل نہیں کرتے۔ ان کو دنیاوی نقصان، دنیاوی قدر و منزلت اور لوگوں کی تنقید کا ڈر ہوتا ہے۔ اس طرح بہت سے ظاہری عمل کرنے والے دلی طور پر منافق ملتے ہیں۔
لیکن اے عزیزانِ گرامی! آپ کو چاہیے کہ قرآن کی دو آیات پر غور و فکر کیجئے:
۱) پہلی آیت میں ارشاد الٰہی ہے:
لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (توبۃ ۶۵)
’’تم عذرپیش نہ کرو تم نے اپنے ایمان لانے کے بعد کفرکیا ہے‘‘۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اہلِ روم کے خلاف جہاد کیا تو اس موقع پر بعض منافقوں نے ازراہِ طنز و مزاح کلمہ کفر اداکیا۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ دیکھئے! صرف مذاقاً کفر کرنے سے بھی کفر ہوتا ہے تو دنیاوی لالچ طمع اور حرصِ دولت و جاہ کی وجہ سے کفر کرنے کا کتنا نقصان ہو گا؟؟
۲) دوسری آیت میں الله کا فرمان ہے:
مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٦﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ (النحل ۱۰۶، ۱۰۷)
’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد الله سے کفر کرے۔ سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔ مگر جو کوئی کھلے دل سے کفر کرے تو ان پر الله کا غضب ہے۔ اور انہی کے لئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا۔‘‘
اس آیت میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا کوئی عذر الله تعالیٰ نے قبول نہیں فرمایا۔ یہ کفر دنیاوی لالچ اور حرص مال کے لیے ہو یا اپنے اہل و عیال گھر بار اور وطن کی محبت کی بنا پر ہو الله کی نظر میں برابر ہے۔ سنجیدگی سے کفر کیا جائے یا ازراہِ مذاق کفر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس آیت میں مجبوراً کفر کرنے والوں کو الله تعالیٰ نے معاف کیا ہے۔ مجبوری کی دو اقسام ہیں۔
اوّل: اس آیت میں الله تعالیٰ نے مجبوری سے درگزر کیا ہے۔ انسان صرف زبان یا عمل سے مجبور ہوتا ہے۔ دل کے معاملات پر کسی کا اختیار نہیں چلتا۔ لہٰذا دل سے تو ایمان پر راضی رہنا چاہیے۔
ثانی: اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفر کرنے کی وجہ دین اسلام سے نفرت، بغض یا کفر سے محبت نہیں ہے۔ بلکہ صرف دنیا کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ مکروہ افعال کیے جاتے ہیں۔ دنیا کو دین پر ترجیح دی جاتی ہے۔ (کشف الشبہات)
مرتد کا حکم ـ :
عکرمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ مرتدین لائے گئے آپ نے ان کو زندہ جلا دیا۔ جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خبر ملی تو آپ نے فرمایا: اگر میں وہاں ہوتا تو ان کو نہ جلانے دیتا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جلانے سے) منع فرمایا اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے عذاب جیسا کسی کو عذاب نہ دو‘‘ بلکہ ان کو قتل کرتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اپنا دین بدل لے اس کو قتل کر دو۔‘‘ (بخاری: استتابہ المرتدین: ۶۹۲۲)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی دے اس کا خون بہانا حرام ہے سوائے تین وجوہات کے (۱) جان کے بدلے جان یعنی قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کیا جائے۔ (۲) شادی شدہ زانی۔ (۳) اپنا دین ترک کر کے جماعت سے جدا ہونے والا۔‘‘ (بخاری ۶۸۷۸۔ مسلم ۱۶۷۶)
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا حالانکہ وہ کلمہ پڑھتے، نماز قائم کرتے اور روزے رکھتے تھے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف برسرِپیکار بھی نہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےانہیں مرتد قرار دیا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ کی قسم میں ضرور اس سے لڑوں گا، جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا یعنی نماز پڑھے گا اور زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا۔‘‘ (بخاری:۱۴۰۰، مسلم:۲۰)
مرتد کو قتل کرنے یا قصاص میں قاتل کو قتل کرنے کا اختیار صرف مسلمان حاکم یا اس کے نائب کو ہے۔ کسی بھی مسلمان کو خلیفہ کے حکم کے بغیر مرتد یا قاتل کو قتل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے اصلاح کی بجائے فساد پھیلے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کبیرہ گناہ


کبیرہ گناہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم کبیرہ گناہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
’’ایسا گناہ جس کے ارتکاب پر دنیا میں حد، سخت وعید، دنیا و آخرت میں لعنت یا غضب کا ذکر ہو یا آخرت میں سخت عذاب کی دھمکی ہو‘‘
یہ کبیرہ گناہ نماز ادا کرنے سے، رمضان کے روزوں، رات کے قیام اور عمرہ کرنے سے معاف نہیں ہوتے بلکہ توبہ و استغفار سے معاف ہوتے ہیں۔ اور اگر اس گناہ کا تعلق دوسرے لوگوں کے حقوق سے ہو تو توبہ و استغفار کے ساتھ ان کے حقوق کی ادائیگی یا ان سے معافی بھی شرط ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس آدمی پر بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا اس کی عزت و آبرو سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ آج ہی دنیا میں اس کا ازالہ کر کے اس حق سے عہدہ برا ہو جائے۔ قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس دن کسی کے پاس دینار و درہم نہیں ہوں گے۔ اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں تو اس کے ظلم کے برابر اس سے لے لیے جائیں گے۔ اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو صاحب حق کی برائیاں اس پر لاد دی جائیں گی‘‘ (بخاری، کتاب المظالم باب من کانت لہ مظلمہ 2449)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا لیکن وہ اس حال میں آئے گاکہ کسی کو اس نے گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان تراشی کی ہو گی۔ کسی کو مارا پیٹا ہو گا۔ پس ان (تمام مظلوموں) کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔ پس اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس کے ذمے دوسروں کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘ (مسلم، البر، باب تحریم الظلم2581)
ان کبیرہ گناہ پر عذاب کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔ اگر چاہے تو بخش دے اور جنت میں داخل کر دے۔ اور اگر چاہے تو عذاب دے مگر جہنم کا عذاب اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے نہیں ہو گا۔ آخر انجام اس کا جنت ہو گا۔ اہل کبائر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جہنم سے نکلیں گے۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں جو لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے میری شفاعت ان کے لیے ہو گی‘‘۔ (ترمذی، صفۃ القیامۃ باب ماجاء فی الشفاعہ2435)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’محمد کی شفاعت سے ایک قوم جہنم سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہو گی۔ انکا نام جہنمی ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ الرقاق باب صفۃ الجنہ والنار6566)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں میں میری شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو دل کے اخلاص سے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرے‘‘۔ (بخاری، الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار 6570)

(13) فسق اعتقادی:
کبیرہ گناہ میں زیادہ خطرناک اعتقاد کے اندر گمراہ فرقوں (خوارج، قدریہ اور مرجئیہ وغیرہ )کے وہ بدعتی اقوال ہیں جو شرعی دلائل کے بالکل خلاف ہیں اور وہ اعتقاد کو کمزور اور خراب کرتی ہیں مثلاََ:
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں تاویل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٨٠﴾ (سورہ الاعراف )
’’اور اللہ کے سب اچھے نام ہیں ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ان لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیارکرتے ہیں عنقریب یہ لوگ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے جو اسماء و صفات قرآن مجید اور احادیث رسول میں ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں’’اللہ تعالیٰ سننے والا ہے، دیکھنے والا، جاننے والا، حکمت والا، طاقت ور اور غالب ہے، وہ بخشنے والا اور مہربان ہے، اس نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کیا۔ وہ عرش پر مستوی ہے، وہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، وہ آسمان دنیا پر ہر رات جب آخری تہائی باقی ہوتی ہے نازل ہوتا ہے، وہ خوش ہوتا ہے، وہ ناراض اور غضب ناک بھی ہوتا ہے۔
ان اسماء و صفات کے معانی ہمیں معلوم ہیں لیکن ان کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ لہذا ان اسماء و صفات پر جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں ذکر فرمایا ایمان لانا ضروری ہے۔ ان صفات کو بے معنی نہ قرار دیا جائے۔ نہ ان کے معنی میں تحریف کی جائے۔ نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے۔ اور نہ ہی مخلوقات کی صفات سے انہیں تشبیہ دی جائے اور یہ صفات ایسی ہیں جیسا کہ اللہ کے شایان شان ہیں۔ جو لوگ اللہ کی صفات میں تاویل کرتے ہیں وہ فسق اعتقادی میں مبتلا ہیں۔ یقینا وہ مفسرین غلطی پر ہیں جنہوں نے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی یوں تاویل کی ہے:
’’بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لامحدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرما دیا ہو۔ اسی کا نام عرش ہو۔ جہاں سے سارے عالم پر وجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو۔ اور اس پر جلوہ فرمانے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کر کے اس کی زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لی ہو‘‘ (تفہیم القرآن، سید ابو الاعلیٰ مودودی، الاعراف، نمبر: 41)
اس تاویل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں دیکھئے:
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن بھیڑیا ایک بکری لے گیا۔ مجھے غصہ آیا اور میں نے اس لونڈی کو ایک طمانچہ مارا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سارا قصہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے فعل کو بہت برا قرار دیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو میرے پاس لاؤ‘‘۔ میں آپ کے پاس اسے لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘۔ اس نے کہا آسمان پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو آزاد کر دو بے شک یہ مومنہ ہے‘‘۔ (مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ537)
قرآن میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر قائم ہونے کا ذکر کھلے کھلے الفاظ میں سات جگہوں پر بیان کیا گیا ہے،
لہذا تمام صحابہ کرام اور ائمہ سلف کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ اللہ کی ذات عرش پر مستوی ہے، اس میں انہوں نے کوئی تاویل نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ (سورہ ص 75)
’’فرمایا اے ابلیس تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے دونوں ہاتھوں سے بنایا‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر ہے۔ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ صفات (ہاتھ، آنکھ، چہرہ وغیرہ) پر ایمان لاتے ہیں۔ بغیر تاویل ان کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ صفات اللہ کی شایان شان ہیں۔ اور یہ مخلوق میں سے کسی کے مشابہہ نہیں ہیں۔ ان کی تاویل کرنا گمراہی ہے۔ مگر ملاحظہ فرمائیں کہ بعض علماء نے کس طرح ان کی غلط تاویل کی ہے، لکھتے ہیں:
’’دونوں ہاتھوں‘‘ کے لفظ سے غالباََ اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شان تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطاء کیا گیا جس کی بنا پر حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے افضل ہو گیا۔ [تفہیم القرآن: سید ابوالاعلی مودودی۔ سورۃ ص، حاشیہ نمبر ۶۴]
ایک اور مقام پر روح ڈالنے کا مفہوم یوں بیان کیا: ’’انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الٰہی کا ایک عکس یا پرتو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری صفات جو انسان میں پائی جاتی ہیں جن کے مجموعہ کا نام روح ہے۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے۔ جو اس کے لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن، سورۃ الحجر نمبر 19)۔
سلف صالحین اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس قسم کی تاویلات کو گمراہی جانتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسماء اور صفات پر ایمان لانے کی توفیق دے اور ان میں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے (آمین)

(14) بدعت:
دین سازی صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اور اس نے اپنے رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل اور کامل دین نازل فرمایا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (سورۃ المائدہ 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی‘‘۔
لہذا اس کامل دین میں کسی قسم کی نئی ایجاد حرام ہے۔ اللہ کا یہ دین توقیفی ہے یعنی صرف وہی بات دین ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرآن سے ثابت ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔ لہذا دین میں ہر نئی بات (چاہے وہ اعتقادات کے اندر ہو جیسے ’’گمراہ فرقوں کے اعتقادات‘‘ یا عبادات کے اندر نئی ایجادات ہوں جیسے ’’عید میلاد النبی، 15 شعبان کا روزہ اور اس رات کی نمازیں یا اجتماعی شکل میں ذکر و اذکار‘‘ وغیرہ) بدعت ہے۔ بدعت حقیقت میں زنا اور چوری سے بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ زنا اور چوری کرنے والا اپنے فعل کو گناہ سمجھتا ہے اور اس سے توبہ کرتا ہے مگر ایک بدعتی اپنی بدعت کو دین سمجھتا ہے اور اس کے ذریعے اللہ کا تقرب چاہتا ہے لہذا وہ توبہ نہیں کرتا الا ما شاء اللہ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ بات مردود ہے‘‘۔ (بخاری، الصلح 2697۔ مسلم الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلہ 1718)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے: ’’بد ترین کام دین میں نئی چیز کا ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ (مسلم، الجمعہ۔ باب تخفیف الصلاۃ والخطبہ867)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے مدینہ میں کوئی بدعت جاری کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن نہ اس کے فرض قبول ہوں گے نہ نفل‘‘۔ (بخاری، أبواب فضائل المدینۃ: 1867۔ مسلم، الحج، باب فضل المدینہ 1366)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(15) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم اٹھانا:
کسی چیز کی قسم کھانا اس کی تعظیم اور بڑائی کی وجہ سے ہے اور چونکہ تعظیم اور بڑائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی شان کے لائق ہے لہذا قسم بھی اسی کے ناموں میں سے کسی نام کی اٹھانی چاہیے۔ لہذا نبی کا رتبہ ،ولی کا مقام، باپ دادا، ماں یا اولاد کے سر کی قسم کھانا ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح بعض شاعر اپنے محبوب کے سر کی یا اس کے بالوں کی قسم کھاتے ہیں یہ بھی ناجائز ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی سے سنا وہ کہہ رہا تھا کعبہ کی قسم ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ اٹھاؤ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی پس اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔
(ترمذی، النذور والایمان باب ماجاء ان من حلف بغیر اللہ فقد اشرک 1535 ابوداؤد3251)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا قسم ہے میرے باپ کی۔ قسم ہے میرے باپ کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار اللہ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم اٹھاؤ ‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ کی قسم میں نے پھر اس کے بعد کبھی نہ جان بوجھ کر اور نہ بھول کر (غیر اللہ) کی قسم اٹھائی۔ (بخاری: 2679، مسلم: 1646)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے قسم اٹھاتے ہوئے یہ کہا کہ قسم لات اور عزی کی (جو مشرکوں کے دو بُت تھے) تو اسے (کلمہ کی تجدید کرتے ہوئے) لا الہ الا اللہ کہنا چاہئے۔ (بخاری 6107، مسلم 1647)

(16) اللہ تعالیٰ کی چاہت کے ساتھ کسی اور کی چاہت ملانا:
قتیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ بے شک تم اللہ کا شریک بناتے ہو جب تم کہتے ہو: ’’ماشاء اللہ وشئت‘‘ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ اور جب تم کہتے ہو کعبہ کی قسم۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب تم حلف اٹھانا چاہو تو کہو کعبہ کے رب کی قسم اور کہو ماشاء اللہ ثم شئت جو اللہ چاہے پھر جو آپ چاہیں۔ (نسائی، الایمان والنذور، باب الحلف بالکعبہ 3804)۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’ما شاء اللہ وشئت‘‘
جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں (وہی ہو تا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو نے تو مجھے اللہ کے برابر کر دیا بلکہ کہو جو اللہ اکیلا چاہے (وہی ہوتا ہے)‘‘۔ (مسند احمد 2561،284/1)

(17) تمائم (گنڈے):
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دس آدمیوں کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو سے بیعت لی اور ایک آدمی کو چھوڑ دیا اور فرمایا: ’’اس کے جسم پر گنڈہ ہے۔ جس نے گنڈہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ اس شخص نے اپنا ہاتھ اندر داخل کر کے اس کو کاٹ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت لی‘‘ (مسند احمد 17558، 156/4۔ سلسلہ صحیحہ للالبانی 492.)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جھاڑ پھونک، گنڈہ اور محبت کا منتر سب شرک ہیں‘‘ (ابن ماجہ الطب۔باب تعلیق التمائم 3530)
جس جھاڑ پھونک میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت یعنی کفر کے زمانے میں جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول: اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی جھاڑ پھونک کے کلمات مجھے سناؤ۔ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں‘‘ (مسلم، کتاب السلام 2200)
تمائم سے مراد وہ دانے اور مالے ہیں جو آفات کو دور کرنے کے لیے گلے میں لٹکائے جاتے ہیں موتیوں، دانوں، کوڑیوں، گھونگوں اور مچھلی کے دانت یا کاغذ پر گنتی یا بے معنی الفاظ لکھ کر گلے میں لٹکانا تمائم میں داخل ہیں اور جو یہ گمان کرے کہ یہ بذات خود بلا کو ٹالنے والی ہیں تو یہ شرک اکبر ہے اور اسلام سے خارج کر دینے والا عمل ہے کیونکہ یہ غیر اللہ پر توکل اور استغاثہ ہے۔ اگر یہ گمان نہ ہو تو شرک اصغر ہے۔ البتہ قرآنی آیات کا تعویذ لٹکانے پر سلف کا اختلاف ہے بعض ائمہ جائز اور بعض ناجائز کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ قرآنی آیات کا تعویذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور اس قسم کی تعویذات شرکیہ تعویذات کے استعمال کا سبب بنتے ہیں لہذا علماء حق نے اس سے بھی منع فرمایا اور اس کی حرمت میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی موجود ہے۔
افسوس آج یہ شرکیہ چیزیں مسلمانوں میں عام ہو چکی ہیں۔ لوگ بواسیر کے مرض سے شفا یابی کے لیے مخصوص چھلے انگلیوں میں پہنتے ہیں۔ نظر بد سے بچنے کے لیے گھروں اور بسوں میں تعویذ لٹکاتے ہیں۔ بعض تعویذات میں جنوں اور شیطانوں سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ پیچیدہ قسم کے نقشے بنے ہوتے ہیں۔ حروف ابجد لکھے ہوتے ہیں۔ ایسے تعویذات یقینا نا جائز اور شرک ہیں۔

(18) کاہن اور نجومی کی تصدیق کرنا:
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی رات کی صبح کو نماز فجر ادا کی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا‘‘۔ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(تمہارے رب نے کہا) میرے بندوں میں سے کچھ نے مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے صبح کی اور کچھ نے مجھ سے کفر کرتے ہوئے صبح کی۔ جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی وہ میرے اوپر ایمان لایا اور ستاروں کا کفر کیا اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کے سبب ہم پر بارش ہوئی تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا‘‘۔
(بخاری، اذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلم: 846۔ مسلم، الایمان، بیان کفر من قال مطرنا بالنوئِ 71)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی نجومی یا کاہن کے پاس آیا پھر جو کچھ اس نے کہا اسے سچ مان لیا یا حائضہ عورت سے صحبت کی یا عورت کے دبر میں جنسی فعل کیا تو بلاشبہ اس نے اس دین کا ہی انکار کردیا جو محمد پر نازل ہوا ‘‘۔ (ابو داؤد، الطب، باب فی الکہان 3904)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص کسی نجومی کے پاس جا کر کسی چیز کا سوال کرے تو چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہیں ہو گی‘‘ ۔ (مسلم، السلام، تحریم الکھانہ واتبان الکھان 2230)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے علم نجوم سیکھا اس نے جادو سیکھا‘‘۔ (ابو داود، الطب، باب فی النجوم ۔3905)
برصغیر پاک و ہند میں جگہ جگہ اشتہار اور سائن بورڈ لگے ہوتے ہیں ’’اپنی قسمت کا حال معلوم کیجیے، محبوب آپ کے قدموں میں، شادی میں رکاوٹ، رزق میں تنگی اور گھریلو جھگڑوں کا حل۔ بنگالی بابا‘‘۔
یہ نجومی اور عامل زمین پر خطوط بنا کر اور لوگوں کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر غیبی خبروں کی اطلاع دیتے ہیں۔ اس طرح جھوٹ اور فراڈ سے لوگوں کی دولت بھی لوٹتے ہیں اور ان کا ایمان بھی برباد کرتے ہیں۔ یہ کاہن اور نجومی غیب کی خبریں جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ غیب کی باتیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ غیب جاننے کا دعویٰ کرنا یقینا کفر ہے۔
ان کو شیطان کی طرف سے کبھی کبھی سچی بات بھی پہنچ جاتی ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا وہ کچھ نہیں ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بعض دفعہ ان کی باتیں سچ نکلتی ہیں۔ آپ نے فرمایا فرشتے (اللہ کے احکام لے کر) بادلوں میں اترتے ہیں اور اس بات کا ذکر کرتے ہیں جس کا فیصلہ آسمان میں کیا گیا ہوتا ہے۔ پس شیطان چوری چھپے اسے سنتا ہے اور کاہنوں کو پہنچا دیتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔ (بخاری 3210، مسلم 2228)

(19) بدشگونی لینا:
عرب کے مشرکین جب سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے۔ اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو اس سے نیک شگون لیتے اور اپنا کام کر گزرتے۔ اور اگر وہ بائیں طرف اڑتا تو اس سے بدشگون لیتے اور کام کا ارادہ ترک کر دیتے۔ آج بھی بہت سے کمزور عقیدے والوں میں یہ شرکیہ وبا عام ہے۔ اگر صبح سویرے گھر کی چھت پر کوا آبیٹھے تو کہتے ہیں کہ آج ضرور مہمان آئے گا۔ اگر راستے میں بلی آگے سے گزر جائے تو سفر نہیں کرتے۔ محرم کے مہینے میں نکاح کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ محرم کے مہینے میں نکاح کرنے سے کوئی مصیبت نازل ہو گی۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدشگونی شرک ہے۔ بدشگونی شرک ہے‘‘۔ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر فرمایا: ’’ہم میں سے ہر شخص کے دل میں بدشگونی کا کچھ نہ کچھ خیال پیدا ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے توکل کے ذریعے ختم کر دیتا ہے‘‘ (ابو داؤد: الطب 3910)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دل میں بدشگونی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس بدشگونی پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے بدشگونی نے کسی کام سے روک دیا تو اس نے شرک کیا‘‘۔ صحابہ نے عرض کی کہ جو بدشگونی میں واقع ہو جائے اس کا کفارہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہو:
’’اللهم لاَ خَيْرَ إلا خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إلا طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ‘‘
’’اے اللہ بھلائی فقط تیری طرف سے ہے اور انسان کو وہی آفت پہنچتی ہے جو تو نے مقدر میں لکھی ہو اور تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘۔ (مسند احمد ۲/ ۲۲۰ ،۷۰۴۵ سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۴۳۰)
 
Top