• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتابی تحفے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پچھلے کچھ عرصے سے بعض احباب اور اہل علم کی طرف سے کتب بطور تحفہ وصول ہوئیں ، ہر دفعہ یہی عزم ہوتا ہے کہ ان کتابوں پر تبصرہ کروں ، بعض کتابیں پوری پڑھ ہی نہیں پاتا ، بعض پڑھ لیتا ہون ، لیکن تاثرات لکھنے میں سستی ہوجاتی ہے ، اور کچھ ایسی ہیں ، جنہیں مکمل پڑھنے کے بعد تبصرہ کرنے کے لیے مزید مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے ، جس کے باعث کچھ لکھنے سے گریز کرتا ہوں ، فیس بک کے ایک دوست اور معروف لکھاری مولانا انوار حیدر صاحب کی طرف سے کل دو کتابیں بمع خالص شہد ( جو ابھی تک کھول کے نہیں دیکھا ) موصول ہوئیں ، سوچا ، سب کتابوں پر بیک وقت تبصرہ لکھنا تو ناممکن ہے ، اوریوں بے شرموں کی طرح کتابیں پاس رکھتے جانا بھی درست نہیں ، کم از کم اتنا تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ سب محسنین کو عرض کردیا جائے کہ آپ کے علمی تحائف بمع محبتیں وصول پائے ، اللہ ہمیں یہ قرض چکانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
التذکرۃ فی احکام المقبرۃ اور جزء فی احادیث لیلۃ النصف من شعبان محترم عبد الرحمن قاضی صاحب کیطرف سے موصول ہوئی ہیں ، اس سے پہلے بھی وہ ایک کتاب ’ فہم القرآن و معانیہ ‘ کے عنوان سے دوران حج منى میں عنایت فرما چکے ہیں ۔ ایک اور کتاب بھی تھی ، غالبا ’ الجزيرة العربية في رحلات الادب الاردي‘ وہ میری سستی کی وجہ سے ہی ادھر ادھر ہوگئی ۔
خرم شہزاد صاحب سے میرا کئی سال سے تعلق ہے ، عموما اپنی کتابیں مجھے ارسال کرتے رہتے ہیں ، وہ اپنا فرض ادا کردیتے ہیں ، لیکن کوتاہی ہماری طرف سے ہے ۔ تصویر میں دو کتابیں انہیں کی بھیجی ہوئی ہیں ۔ شکر اللہ سعیہ ۔
حضرت قبلہ ڈاکٹر @محمد فیض الابرار شاہ صاحب ہمارے اساتذہ کے طبقہ میں ہے ، ہمیشہ پیار محبت اور خیر خواہی کے جذبے سے لبریز نظر آتے ہیں ، آپ سے راہ و رسم کی بنیاد محدث فورم بنا ، انہوں نے چند سال پہلے بھی کوئی کتاب بھجوائی تھی شاید ، لیکن نہیں مل سکی ، البتہ اب کی بار ، ان کی اور ان کے رفقا کی کاوش بعنوان ’ مضاربت شریعت کے میزان ‘ میں نظر نواز ہوئی ، شروع سے کتاب کچھ پڑھی ہے ، اپنے موضوع پر تفصیلی کتاب ہے ۔ اس پر قابل التفات تبصرہ تو کسی ماہر اقتصادیات کا ہی ہوسکتا ہے ، میں نے جو بات نوٹ کی ، احادیث نقل کرتے ہوئے ، تحقیق کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا۔ بہرصورت ایک بات ہے ، ہمارے جیسا کوئی جاہل اس کتاب کو پڑھ لے تو کم از کم مضاربت کی مختلف شکلیں ، شریعت اسلامیہ اور عصر حاضر میں اس کی تطبیقات کی اسے سمجھ آجائے گی ، جیسا کہ اس کی فہرست سے محسوس ہوتا ہے ۔
’ الحاد ایک تعارف ‘ بہترین کتاب ہے ، مصنفین میں سے دو تو میرے جانے پہچانے ہیں ، تیسرے حافظ شارق صاحب کے نام سے واقف نہیں ، لیکن ان کی بعض تحریرات دیکھنے سے معلوم ہوا ، انٹرنیٹ پر پہلے کہیں پڑھ رکھی ہیں ۔
محمد دین جوہر صاحب کے متعلق میرا خیال ہے ، یہ ان لوگوں میں سے ہیں ، جو جدید فکری مسائل میں ایک بہترین اور مضبوط روایت پسندانہ سوچ رکھنے والے ہیں ، اور جن كي تحريریں پڑھتے ہوئے ’ جاء الحق و زھق الباطل ‘ کا سماں بندھ جاتا ہے ۔
انوار حیدر صاحب نے جو دوسری کتاب بھیجی ہے ، وہ میرے جیسے ایک پکے ٹھکے وہابی کے لیے کسی ’ چھیڑ ‘ سے کم نہیں ۔ دعا و درود پر مشتمل اس کتاب کو چیدہ چیدہ دیکھنے کا موقعہ ملا ، اکثر قرآنی دعائیں تھیں ، یا پھر احادیث کے حوالے دیے ہوئے تھے ، جو آخر تک پہنچتے پہنچتے کافی کمزور ہوچکے تھے ، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی اس کتاب میں مجھے جو چیز دلچسپ محسوس ہوئی وہ مولانا عبد الماجد دریابادی کا ترجمہ یا ترجمے کی نظرثانی تھی۔ ایک ابتدائی مترجم کے لیے ماقبل بزرگوں کی ترجمہ نگاری کے نمونے کسی نعمت سے کم نہیں ۔
ایک اور چھوٹا سا رسالہ نظر آرہا ہوگا ’ رسالہ نجاتیۃ در عقائد حدیثیہ ‘ جس کے مصنفِ علام مولانا فاخر الہ آبادی ( وفات 1164ھ ) ہیں ، کتاب کا موضوع کتاب وسنت اور منہج سلف کی روشنی میں عقائد کا بیان ہے ، یہ کتاب مولانا ابن بشیر حسینوی صاحب کچھ عرصہ پہلے گھر تشریف لائے ، اور عنایت فرمائے گئے ، یہ کتاب اور اس کی طباعت کا اہتمام کرنا بالواسطہ اس الزام کا ایک علمی و تحقیقی جواب ہے کہ اہل حدیث اور وہابی فلاں دور کی پیداوار ہیں ۔ ایک معروف واقعہ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک دفعہ ایک عالم نے آمین بالجہر کہی ، لوگوں نے شور مچا دیا ، کہا ، مجھے کسی عالم کے پاس لے چلو ، لوگ شاہ ولی اللہ کے پاس لے آئے ، شاہ صاحب نے کہا ، انہوں نے صحیح کیا ، یہ حدیث سے ثابت ہے ، لوگ شاہ صاحب کے کہنے پر واپس چلے گئے ، بعد میں اس بزرگ نے شاہ صاحب سے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب حدیث سے ثابت ہے تو کھل کر اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ شاہ صاحب نے فرمایا : اگر میں بھی تمہاری طرح ہوتا تو آج تمہارا دفاع کیونکر کر پاتا ؟
اس واقعے کی حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے ، بہر صورت اس میں مذکور عالم دین مولانا فاخر الہ آبادی ہی تھے ۔
مولانا @ابن بشیر الحسینوی صاحب ’ توکل علی اللہ ‘ اور سادہ مزاجی کے ساتھ ساتھ عزم و ہمت کی ایک اعلی مثال ہیں ،بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ، لیکن صرف باتیں ہی نہیں ، بلکہ بہت بڑے بڑے کام کر چکے ہیں ، کر رہے ہیں ، اللہ انہیں مزید توفیق دے ۔ جن محدثین اور اہل علم سے استفادہ کرتے ہیں ، ان سے اتنی محبت ہےکہ اولاد کے نام بھی وہی رکھے ہوئے ہیں ، کوئی ناصر الدین ہے ، کوئی بدیع الدین ہے ، مدینہ ملاقات ہوئی ، چھوٹا بچا شرارتیں کر رہا تھا ، اسے پیار سے ’غندر‘ کہہ رہے تھے ، جس طرح کے معروف محدث اور امام شعبہ بن حجاج نے اپنے ایک شاگرد محمد بن جعفرکو یہ لقب عطا فرمایا تھا ۔​
 
Last edited:
Top