• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب "عصر حاضر میں تکفیر، خروج اور نفاذ شریعت کامنہج" پر تبصرہ

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
تبصرہ ہذا "نظریات" کے شمارہ (3) جولائی تا ستمبر 2013ء میں شائع ہوا۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ "نظریات" ایسے علمی و تحقیقی مجلے میں حافظ زبیر صاحب کی کتاب "عصر حاضر میں تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذِ شریعت کا منہج" کا اشتہار دیا گیا۔اس پر بندہ نے چند موٹی موٹی باتیں مدیر اعلیٰ کو ارسال کر دیں، ایسے خطوط عام طور پر شائع نہیں کیے جاتے لیکن وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے شائع کر دیا گیا! ملاحظہ فرمائیں :

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم جناب طاہر اسلام عسکری صاحب! ’نظریات‘ کا دوسرا شمار ہ نظر نواز ہوا۔مضامین تحقیقی رنگ لیے ہوئے تھے اور امید ہے آئندہ بھی یہ معیار قائم رہے گا۔مضامین پر تو اہل علم ہی رائے دے سکتے ہیں کہ میدان تحقیق میں کتنی عرق ریزی کی گئی اور مزید کیا بہتری آ سکتی ہے، میں سردست ایک اور معاملے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا۔

بندہ کی دانست میں ’نظریات‘ جیسے خالصتا علمی جریدوں کو اپنے اصل مضامین کے ساتھ ساتھ کچھ نسبتا غیر اہم امور پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ایسااہی ایک معاملہ کسی بھی ایسی تصنیف و تالیف کاجریدے کے حوالے سے سامنے آنے یا مشتہر ہونے کا ہے جوخود اس جریدے کے اپنے علمی معیار سے لگا نہ کھاتی ہو۔حاضر شمارے میں مشتہر تکفیر و خروج اور نفاذ شریعت ایسے نازک موضوعات سے بحث کرتی ایک کتاب کے مطالعے کے بعد بھی معاملہ کچھ ایسا ہی معلوم ہوا۔صاحب کتاب، ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب’نظریات‘ کی مجلس ادارت میں براجمان تو ہیں لیکن ان کی کتاب تحقیق و تنقید کے اُن اصولوں سے الگ ہی نظرآتی ہے جو’نظریات‘ میں جھلکتے ہیں۔ کتاب بارے کچھ باتیں پہنچانا ضروری خیال کرتا ہوں اور آئندہ اس پہلو سے’دیکھ بھال‘ کا مشورہ بھی!

نفاذ شریعت اور جہاد کے مباحث تو پہلے افغان جہاد کے دور سے ہی نئے زاویوں سے زیر بحث ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ نائن الیون کے بعد تکفیر و خروج بھی سخن طرازیوں اور جدوجہد کے نئے عناوین کے طور پر متعارف ہوئے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے ان نظریات اور عملی سطح پر نظریات کی تطبیق،نیز تاریخی تجزیے کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے۔ یہ تمام موضوعات ہی اس وقت علمی لحاظ سے بڑے پیمانے پر بحث کے حقدار اور منتظر ہیں جو ہنوز چند مخصوص حلقوں تک ہی محدود ہے۔اس لحاظ سے عوامی سطح پر یہ چند گنی چنی کتابوں میں سے ایک ہے جو ان موضوعات کو کھول کر سامنے لاتی ہیں۔

البتہ کتاب کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد ہی جس چیز کا احساس ہو جاتا ہے وہ بیک وقت علمی استدلال کے طریق کار،اصول تحقیق سے دوری، جانبداری اور معلومات کی سطحیت ہے۔

طرز استدلال کا مسئلہ سب سے بڑا نظر آتا ہے۔ انسان کسی ایک نتیجے پر پہنچ جائے اور اسے بیان کرے تو یہ فطری امر ہے، لیکن تحقیق کا تقاضا یہ ہوا کرتا ہے کہ اگر مواقف میں اختلاف رائے ہے تو فریقین کا موقف پوری دیانتداری سے سامنے لایا جائے اور پھر جو رائے صاحب مقالہ دینا چاہیں۔ زیر نظر کتاب میں بدقسمتی سے اس بات کا التزام تکلفا ہی کہیں کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے موقف کے علاوہ دوسرا نقطہ نظر بھی مستند حوالوں کے ساتھ مناسب تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ قاری کسی حد تک خود بھی موازنے کے قابل ہو سکے۔




ڈاکٹر صاحب فہم سلف کے داعی ہیں۔اب خدا جانے یہ تجاہل عارفانہ ہے یا لاعلمی کہ ایک خاص موقف کے خلاف وارد ہونے والا ’فہم سلف‘ کتاب میں جگہ پانے سے یکسر محروم رہا ہے۔ اس کی ایک مثال آیت ولایت اور الولاء والبراء کی تشریح کے ضمن میں ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب اور سلفی علماء کو یکسر نظر انداز کیا جانا ہے۔جبکہ مفسر طبری رحمہ اللہ کی عبارت کو جس طرح سیاق سباق سے یکسر ہٹا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں (ص۳۱۱)۔اس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ ایک موقف پہلے ذہن میں قائم کر کے دلائل ڈھونڈے اور’بنائے‘ جا رہے ہیں! طرفہ تماشا (تکفیر کی شرعی بنیادوں میں) آیت ولایت اور الولاء والبراء کاکوالگ الگ بطور مستقل بنیاد کے ذکر فرماتے ہیں جبکہ یہ عین ایک ہی موضوع ہے۔

تحقیقی حوالے سے دیکھا جائے تو فریق دیگر کا موقف خود ان سے لینے کی بجائے رد و تنقید میں لکھی گئی کتابوں سے نقل کرنے کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔ اس کو دو آتشہ کرنے والی چیز حوالے کے طورپر عربی کے ان فورمز کو پیش کرنے کی روش ہے۔جو مستند ویب سائٹوں سے ہٹ کر ہر کہ و مہ کے لیے کھلی چراگاہ کے مصداق ہیں۔یہ بحث مباحثے کے وہ فورمز ہیں جہاں کوئی بھی پانچ منٹ میں نئی شناخت بنا کرصحیح و سقیم سب لکھنے اور کسی کے نام کچھ بھی منسوب کرنے کے لیے آزاد ہے، ان فورمز کو بطور حوالہ جات پیش کیا جانا یقینا اعلیٰ تحقیقی ذوق کی نشانی معلوم ہوتا ہے!(ص۲۰۱،۷۸۱)


شخصیات اور تحریکوں بارے معلومات کی سرے سے کمی اورنادرست معلومات کی ’زیادتی‘ ساری کتاب ہی میں جا بجا ’بکھری‘ نظر آتی ہے۔ شیخ عبداللہ عزام ؒکو سید قطب کا ناقد گرداننے کا معاملہ(ص۴۷) ہو یا حرکۃ الجہاد الاسلامی کے بانی اسامہ بن لادن ؒکو قرار دینے کی بات ہو(ص۳۹۱)، پاکستانی دیوبندی جہادی جماعتوں سے تکفیر کے فتاویٰ منسوب کرنا(ص۴۹۱) ہو یا سلفی علماء میں سید قطب ؒکا دفاع کرنے والوں سے بے خبری(ص۵۷)۔۔۔ ہر باب ایسے ہی گوہرپاروں سے بھرا نظر آتا ہے۔بادی النظر میں اس کی وجہ ’گوگل سرچ انجن‘ نامی وہ مبلغ علم ہے جو صحیح واور غلط سے قطع نظرانٹرنیٹ پر موجود ’تمام معلومات‘کا خزانہ ہے!



خروج کی ساری بحث لکھ گئے ہیں لیکن خود بھی مانتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہے۔ ایسے میں خروج کی ساری بحث ہی لاحاصل ہے۔کوئی اسلامی نظام قائم ہو تو اس میں امام عادل یا غیر عادل کے خلاف خروج کی بات بھی کی جا سکتی ہے۔اب جب یہ تسلیم ہے کہ اللہ کا جھنڈا سربلند نہیں ہے اور، قانون اسلامی نافذ نہیں تو’خروج‘ کی بحث کی کوئی تُک نظر نہیں آتی، چہ جائیکہ کہ سلف سے خروج کی ممانعت دکھا دکھا کر موجودہ ’شرعی‘ حکمرانوں کے خلاف ’خروج‘ کرنے کو ہدف تنقید ٹھہرایا جائے۔ اس ضمن میں مصنف یہ بات بھی فراموش کر گئے ہیں کہ خود وہ بھی وزیرستان کی جدوجہد کو ’دفاعی جہاد‘ کہتے ہیں (ص۹۰۲)، بلکہ خود ہی اسے دوسرے علاقوں میں نہ پھیلانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں!جنگ کو بنیادی طور پر مدافعانہ تسلیم کرنے کے بعد بھی اس کو’خروج‘قرار دینا ایں چہ بوالعجبی است! سقوط خلافت کے بعد سے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے مختلف مناہج برسر عمل ہیں، ان میں مسلح غیر مسلح دونوں شامل ہیں۔ ملے جلے احوال و واقعات کی بنا پر دونوں طرح کے مناہج کی گنجائش موجود رہی ہے اورتحریکوں میں یہ حکمت عملی کا اختلاف ہی مانا جاتا ہے۔کسی ایک منہج کو یکسر ’باطل‘ یا غلط قرار دینا بذات خود محل نظر ہے۔

نظریہ جہاد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے جہادی حکمت عملی پر بھی خامہ فرسائی فرمائی ہے اور مآل کار جہادی تنظیموں کو اپنا شعبہ چھوڑ کر تعلیم معیشت سیاست اور ہردوسرا کام کرنے کا مشورہ دیا ہے! (ص۱۱۲)جہاد کے بارے میں مصنف سخت کنفیوز نظر آتے ہیں اورجہادی حکمت عملی کے ضمن میں یہ پریشان حالی اس طرح دوچند ہوتی نظر آتی ہے کہ پڑھنے والا اسے محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا۔مثلا پہلے اپنے ہاتھ توڑ کر خود جہادکوان حکومتوں پر چھوڑنے کامشورہ اور پھر احتجاجی سیاست کے ذریعے پھر ان کے جذبہ جہاد کو ’جگانے‘کی ہر ممکن کوشش کرنے کی ’حکمت عملی‘(ص۳۳۲)،وہ حکومتیں جو خود جہاد کی بیخ کنی پر عملا تلی ہوئی ہیں!! ااسلام کو چھوڑ کر انگریزی شریعت نافذ کرنے اور ا سکی حفاظت کے حلف اٹھائی ہوئی حکومتوں کو احتجاج اور دباؤ کے ذریعے‘اسلامی جہاد شروع کرنے پر آمادہ کرنے کا’صائب مشورہ‘(ص۳۳۲) اور امید کوئی خواب خیال میں رہنے والاہی رکھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے خود کبھی میدان جہاد کا رخ نہیں کیاا ور لائبریریوں میں بیٹھ کر جہاد اور جہادی حکمت عملی کی سمجھ میں اتنی ہی آ سکتی ہے۔

من حیث المجموعی موصوف اسی مخصوص وطنیت کی ذہنیت سے باہر آتے دکھائی نہیں دیتے جو اسلام کے ہر حکم کو اپنے پورے لوازمات کے ساتھ ’وطن عزیز‘ سے باہر باہر تو عین جائزبلکہ فرض قرار دیتی ہے، لیکن جب اسلام کا وہی تقاضا ’پاک سرزمین‘ پرہو تو وطنی تصورات کو ترک کرنے کی بجائے اسلام کو وطنیت کے مطابق موڑ لیا جاتا ہے۔اس کی منہ بولتی مثال کتاب کا انتساب افغان طالبان کے نام ہے جس کی وجہ بھی ساتھ ہی رقم ہے کہ وہ مصالح و حِکم کا لحاظ رکھتے ہوئے مصروف جدوجہد ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کتاب کے آخری ابواب میں نفاذ شریعت کے پرامن منہج کو بیان کرتے ہوئے اِنہیں طالبان کے تقریبا تمام بڑے ’مصالح و حکم‘ کو رد کرتے نظر آتے ہیں۔ مصنف امریکہ، انڈیا یا اسرائیل سے جہاد کے لیے محض معمولی اسلحہ کی بجائے ان کو شکست دینے کے لیے ’کم از کم‘اسباب‘ کا ہونا ضروری بتلاتے ہیں (ص۵۱۲،۶۱۲)، جبکہ ان کے ممدوح طالبان افغانستا ن شروع سے اب تک ایسی کسی بھی ’کم از کم‘ قوت کے بغیر ہی لڑے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح طالبان اس ’نرم انقلاب‘(صiv) کے ذریعے برسر اقتدار تو نہیں آئے تھے جو ڈاکٹر صاحب کے خیالوں کا محور و مرکز ہے، بلکہ فاسق و فاجر افغان عبوری حکومت کے ظلم وستم کے خلاف ’خروج‘ ہی ان کا نقطہ آغاز تھا۔




طالبان کی مسلح جدوجہد بھی ’حقوق و فرائض‘ کی جدوجہد کے طور پر شروع ہو کر سارے افغانستان پر چھا گئی جس پر مذہب اور دین کو’تکلفا گھسیٹے جانے‘ کا تجزیہ(صiii) فٹ کرنے کی اس سے کہیں زیادہ گنجائش ہے جتنا کہ ڈاکٹر صاحب کو پاکستانی طالبان کے حوالے سے نظر آتی ہے۔ مزید دیکھیں تو افغان طالبان کی جدوجہد شروع سے ہی ’غیر کافر‘ اور سابق مجاہدین کی حکومت کے خلاف سیدھے سیدھے ’خروج‘ پر استوار نظر آتی ہے۔اپنے سارے دور حکومت میں بھی وہ ’غیر کافر‘ سے برسر جنگ رہے اور آج بھی وہ آج بھی محض امریکہ اور نیٹو سے قتال پر اکتفانہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے سینکڑوں علماء الولاء والبراء کی بنیاد پرافغانی و غیر افغانیوں کی تکفیر بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ سقوط سے پہلے بھی احمد شاہ مسعود جیسے (بقول مصنف’عظیم مجاہد‘) سے برسر پیکار بھی رہے ہیں اور آئندہ بھی امن و امان بذریعہ بندوق کی نال ہی ان کا فلسفہ نظر آتا ہے اور عوام کی گردنوں پر بزور شمشیر’مسلط ہونا‘ اور ’مارے باندھے کی اطاعت‘ اور ’جبری اسلام‘(صiv)ہی ان کا ایجنڈا ہے!!!اور جب یہی سب کچھ انہی علتوں کے سبب ڈیورنڈ لائن سے اِس پار پاکستان کی ’مبارک سرزمین‘ پر وقوع پذیر ہونا شروع ہوتا ہے توصاف صاف شریعت سے عدول کہلاتا ہے۔یقینا مصنف کی ’حب الوطنی‘ہر شک و شبہے سے بالاتر ہے!

سب سے زیادہ حیران کن موقف مرتد کے بارے میں اختیارکرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ”اگر یہ بات مان لی جائے کہ کفار سے محض دوستی رکھنے سے ایک مسلمان کافر ہو جاتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفرمیں داخل ہونے کے بعد وہ کیا چیز ہے جو انہیں اسلام میں داخل کرے گی؟ ظاہری بات ہے وہ کلمہ شہادت ہے اور اس کلمے کا ورد تو وہ بدستور کر رہے ہیں لہٰذا کفر میں داخل ہونے کے بعد اب پھر مسلمان ہو گئے ہیں۔“ (ص۸۲۱)اس ’مقام‘ پرعقل و خرد کے سارے پرندے کوچ کر جاتے ہیں اور سمجھ نہیں آتی کہ ڈاکٹر صاحب کی ڈاکٹری پہ سوال اٹھایا جائے یا مرتد کی تعریف سمجھائی جائے یا شاتم رسول بارے پوچھا جائے کہ وہ کلمہ کا ورد کرنے سے پھر مسلمان نہیں ہو جاتا!! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دراصل ڈاکٹر صاحب کا یہ قول ان کے پورے فکر کا ملخص ہے جس کے تحت کفر اکبر صرف اعتقادی اور دلی معاملہ ہے جب تک کوئی بے وقوف بزبان خود کافر ہونے کا اعلان نہ کر دے تب تک جو جی میں آئے کرتا رہے کافر نہیں ہو سکتا۔ عمل کوئی کیسا بھی کیوں نہ ہو اسلام سے خارج نہیں کر سکتا۔اسی ’برہان قاطعہ‘ کی رو سے توہین قرآن اور جادوگر بھی کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھیں تو کفر کے بعد اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے۔ ایمان بگڑے گا نہ اسلام جائے!!!

میرا خیال ساری کتاب پر بھاری یہ ایک پیراگراف مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں چھوڑتا،اور ڈاکٹر صاحب کے مبلغ علم کے ساتھ ساتھ جانبداری اور طرز فکر سب کچھ سامنے لے آتا ہے!! ادارہ نظریات کو ایسی کتب کا محاکمہ کرنا چاہیے نہ کہ الٹا ان کی تشہر کر کے ابہام اور کنفیوژن میں اضافے کا سبب بننا چاہیے۔ اور آئندہ کسی بھی مواد کی تشہیر سے پہلے اس کا علمی و تحقیقی معیار دیکھ لینا چاہیے کہ اس میں تساہل خود ادارے کا تاثر خراب کرنے کا باعث بھی بن سکتاہے۔
تلخ باتوں کی معذرت لیکن اس تلخ نوائی کو گوارا کرنے کی درخواست کہ ’کرتا ہے زہر بھی کبھی کار تریاقی‘کے مصداق اس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔

والسلام
عبداللہ آدم

(مذکورہ کتاب کے لیے دیکھئے:
http://kitabosunnat.com/kutub-library/asr-e-hazir-men-takfeer-khorojjihad-or-nafaz-e-shariyat-ka-manhaj.html)
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اس تبصرے میں زبان و بیان مناسب نہیں اور اصل ایشوز کے ساتھ ساتھ شخصی طنز و طعن بھی وافر مقدار میں موجود ہے جو علمی معاملات میں ہر گز روا نہیں۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
شخصی طنز و تعریض کو "زحمت" اس لیے دی گئی ہے کہ خود زیرتبصرہ کتاب میں متعدد حوالوں سے اس کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ شرعی اور واقعاتی حقائق کے مسلسل اور بے رحم مسخ کے ساتھ ساتھ "بعض جہادی تحریکوں" ،"بعض سلفی نوجوانوں" اور "بعض جذباتی نوجوانوں" بارے ایسا کلام خود کتاب اور صاحب کتاب کی سنت ہے، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کلام میں تلخی پیدا ہو جانا بذات خود ایک فطری امر ہے، اگرچہ علمی معاملات میں اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
شخصی طنز و تعریض کو "زحمت" اس لیے دی گئی ہے کہ خود زیرتبصرہ کتاب میں متعدد حوالوں سے اس کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ شرعی اور واقعاتی حقائق کے مسلسل اور بے رحم مسخ کے ساتھ ساتھ "بعض جہادی تحریکوں" ،"بعض سلفی نوجوانوں" اور "بعض جذباتی نوجوانوں" بارے ایسا کلام خود کتاب اور صاحب کتاب کی سنت ہے، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کلام میں تلخی پیدا ہو جانا بذات خود ایک فطری امر ہے، اگرچہ علمی معاملات میں اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے!

باربروسا یا ابن آدم کوئی بھی صرف ان کا اس حوالہ سے دعوی کرنا درست نہیں ہے۔ اس بارے کتاب سے حوالہ جات پیش کیے جائیں کہ طنز وتعریض والی عبارتیں کون سی ہیں؟؟؟ اگر امر واقعی میں ایسا ہوا تو اگلے ایڈیشن میں ان مقامات کی تصحیح کر دی جائے گی۔

دوسرا میری کتاب بھی حاضر ہے، آپ کا تبصرہ بھی۔ تحریر میں وقار، ،متانت ، سنجیدگی، الفاظ کا انتخاب اس حوالے سے آپ کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ذرا میرے کتاب میں جو آپ کو طنز نظر آ رہا ہے، اسے یہاں نقل کریں اور پھر اپنے تبصرہ سے مقابلہ کریں تو بہت کچھ آپ سیکھیں گے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم @باربروسا بھائی اللہ آپ سے راضی ہو میں نے آپ کی پوسٹ پڑھی اور پہلی دفعہ محترم شیخ ابو الحسن بھائی کی کتاب پڑھی میرا اس موضوع سے متعلقہ دونوں طرف کے لوگوں سے گہرا تعلق بھی ہے اور محبت بھی البتہ میں دونوں طرف کے لوگوں کے درمیان میں رہتے ہوئے دونوں کو قریب لانا چاہتا ہوں لیکن یہ تب ہو گا جب دونوں طرف سے ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ہم میں جنم لے گی پس میرے موقف سے دونوں طرف کو اتفاق ہو یا نہ ہو میں اپنے موقف میں آزاد ہوں اور دونوں طرف والوں کو بھی آزاد چھوڑتا ہوں جب تک کہ انکا موقف کسی مستند عالم کے تابع رہے واللہ اعلم

جہاں تک میں نے شیخ صاحب کی کتاب پڑھی اس میں انتہائی دھیمے طریقے سے اپنا موقف سمجھایا گیا ہے جسکے سمجھانے پر میرے خیال میں کوئی اعتراض کرنا غلط ہو گا البتہ اس کے لوازمات سے ہر ایک کو مکمل طور پر متفق ہونا بھی کوئی ضروری نہیں کیونکہ یہ انہوں نے اپنی تحقیق اور موقف رکھا ہے مجھے خود سرسری پڑھنے کے بعد چند ایک مقامات پر جہاد کشمیر کے بارے انکی باتیں درست معلوم نہیں ہوئیں اور میں ان شاءاللہ اس بارے اپنی جماعۃ الدعوہ کا منہج شریعت کے لحاظ سے جلد ہی سامنے رکھوں گا ہو سکتا ہے 17 اکتوبر کو حج سے واپسی کے بعد اس کتاب کو مکمل پڑھوں گا اور جہاد کشمیر پر اور نفاذ شریعت پر تفصیل سے بات ہو گی
ابھی آپ نے جو لکھا ہے کہ شیخ صاحب وزیرستان کے جہاد کو دفاعی جہاد کہتے ہیں اور اسکو دوسری جگہ پھیلانے سے منع کرتے ہیں آپ کے نزدیک یہ وطنیت والی سوچ ہے لیکن میرے خیال میں اگر شیخ نے ایسے لکھا ہوا ہے تو یہ غلط نہیں ہے کیونکہ کبھی سامنے یہ نظریہ نہیں ہوتا کہ وطن بچ جائے بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جہادی طاقت خٹم ہونے سے بچ جائے یا مصلحت سے کام لیا جائے یہی فتوی تو ہمارے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا بھی ہے جو پاکستان کو اسلامی ملک تو نہیں کہتے مگر یہاں جہاد سے منع کرتے ہیں تو کیا وہ بھی وطنیت کی سوچ رکھنے والے ہوں گے
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
یہ کتاب میں نے پڑھی ہے اور باربروسا کی تنقید درست ہے بالخصوص دوسرے فریق کے دلائل اور اسکی کمزوری واضح کرنے کے حوالے سے اور درج ذیل بات کے حوالے سے
تحقیقی حوالے سے دیکھا جائے تو فریق دیگر کا موقف خود ان سے لینے کی بجائے رد و تنقید میں لکھی گئی کتابوں سے نقل کرنے کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔ اس کو دو آتشہ کرنے والی چیز حوالے کے طورپر عربی کے ان فورمز کو پیش کرنے کی روش ہے۔جو مستند ویب سائٹوں سے ہٹ کر ہر کہ و مہ کے لیے کھلی چراگاہ کے مصداق ہیں۔یہ بحث مباحثے کے وہ فورمز ہیں جہاں کوئی بھی پانچ منٹ میں نئی شناخت بنا کرصحیح و سقیم سب لکھنے اور کسی کے نام کچھ بھی منسوب کرنے کے لیے آزاد ہے، ان فورمز کو بطور حوالہ جات پیش کیا جانا یقینا اعلیٰ تحقیقی ذوق کی نشانی معلوم ہوتا ہے
 
Top