محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 863
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 69
کتنے کلومیٹر سفر کرنے پر قصر کی جا سکتی ہے؟ اس بارے میں علماءکرام کے تین قول ہیں:
1- تقریبا 85 کیلومیٹر سفر کرنے پر قصر کی جاسکتی ہے، یہ ابن عمر ، ابن عباس رضی اللہ عنہم، حسن بصری ، زہری، مالک، لیث ، شافعی ، احمد، اسحاق اور ابوثور رحمہم اللہ کا قول ہے۔
2- اگر تین دن اور تین راتیں اونٹ سفر کرے تو جتنا سفر طے کرے گا اتنی مسافت پر قصر کی جا سکتی ہے، یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، سوید بن غفلہ، شعبی، نخعی، ثوری، ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔
3- قصر کرنے کی کوئی مخصوص مسافت نہیں ہے بلکہ ہر وہ مسافت جس کو عرف میں سفر کہاجاتا ہے اتنی مسافت طے کرنے پر قصر کی جا سکتی ہے، یہ ظاہریہ ، ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہم اللہ کا قول ہے۔
پہلے قول کی دلیل:
سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ وہ 48میل (85 کیلومیٹر تقریبا) سفر کرنے پر قصر کرتے تھے، اور روزہ بھی چھوڑ دیتے تھے۔ (ارواء الغلیل: 568)
دوسرے قول کی دلیل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو منع کیا ہے کہ وہ تین دن بغیر محرم کے سفر کرے، ایسے ہی مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن رکھی گئی ہے، ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قصر بھی تین دن سے کم سفر پر کر نہیں کی جائے گی۔
تیسرے قو ل کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا (النساء: 101)
’’اور جب تم زمین میں سفر کروتو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کر لو۔‘‘
مندرجہ بالا آیت کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قصر کا تعلق سفر کے ساتھ ہے ، مسافت معین نہیں ہے۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصر کرنے کی کوئی حد بیان نہیں کی بلکہ آپ نے قصر کو سفر کے ساتھ جوڑا ہے، اسے لیے بغیر کسی دلیل کے مطلق حکم کو مقید نہیں کیا جائے گا۔
راجح:
راجح قو ل تیسرا ہے ، کیونکہ اس کی دلیل قوی ہے، لہذا لوگ جس کو سفر کہتے ہیں اتنی مسافت طے کرنے پر قصر کی جا سکتی ہے۔
1- تقریبا 85 کیلومیٹر سفر کرنے پر قصر کی جاسکتی ہے، یہ ابن عمر ، ابن عباس رضی اللہ عنہم، حسن بصری ، زہری، مالک، لیث ، شافعی ، احمد، اسحاق اور ابوثور رحمہم اللہ کا قول ہے۔
2- اگر تین دن اور تین راتیں اونٹ سفر کرے تو جتنا سفر طے کرے گا اتنی مسافت پر قصر کی جا سکتی ہے، یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، سوید بن غفلہ، شعبی، نخعی، ثوری، ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔
3- قصر کرنے کی کوئی مخصوص مسافت نہیں ہے بلکہ ہر وہ مسافت جس کو عرف میں سفر کہاجاتا ہے اتنی مسافت طے کرنے پر قصر کی جا سکتی ہے، یہ ظاہریہ ، ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہم اللہ کا قول ہے۔
پہلے قول کی دلیل:
سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ وہ 48میل (85 کیلومیٹر تقریبا) سفر کرنے پر قصر کرتے تھے، اور روزہ بھی چھوڑ دیتے تھے۔ (ارواء الغلیل: 568)
دوسرے قول کی دلیل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو منع کیا ہے کہ وہ تین دن بغیر محرم کے سفر کرے، ایسے ہی مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن رکھی گئی ہے، ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قصر بھی تین دن سے کم سفر پر کر نہیں کی جائے گی۔
تیسرے قو ل کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا (النساء: 101)
’’اور جب تم زمین میں سفر کروتو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کر لو۔‘‘
مندرجہ بالا آیت کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قصر کا تعلق سفر کے ساتھ ہے ، مسافت معین نہیں ہے۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصر کرنے کی کوئی حد بیان نہیں کی بلکہ آپ نے قصر کو سفر کے ساتھ جوڑا ہے، اسے لیے بغیر کسی دلیل کے مطلق حکم کو مقید نہیں کیا جائے گا۔
راجح:
راجح قو ل تیسرا ہے ، کیونکہ اس کی دلیل قوی ہے، لہذا لوگ جس کو سفر کہتے ہیں اتنی مسافت طے کرنے پر قصر کی جا سکتی ہے۔