• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرامات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کرامات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین

صحابہ اور ان کے تابعین اور دیگر صالحین کی کرامات تو بہت زیادہ ملتی ہیں مثلاً اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سورۂ کہف پڑھ رہے تھے تو آسمان سے ایسی چیز اتری تھی جو بادل کا سیاہ سائبان معلوم ہوتا تھا اور جس میں گویا چراغ روشن تھے۔ یہ فرشتے تھے جو کہ ان کی قرأت سننے کے لیے آئے تھے۔
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، رقم: ۳۶۱۴، مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ رقم: ۱۸۵۹، ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الکہف، رقم: ۲۸۸۵، مسند احمد ۴؍۲۸۱۔)
سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الحج، باب التمتع، رقم: ۲۹۷۴۔)
سیدناسلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما جس طشتری میں کھانا کھا رہے تھے کہ وہ طشتری یا وہ چیزیں جو کہ اس میں تھیں، تسبیح پڑھنے لگیں۔ سیدناعباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے تھے اور تازیانہ کے کنارے کی شکل کا ایک نور ان کے لیے روشنی کرتا تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ روشنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ ایک کے ساتھ اور ایک حصہ دوسرے کے ساتھ ہوگیا۔
(بخاری، ۳۸۰۵، کتاب مناقب الانصار، باب منقبہ، اُسید بن حضیر و عباد بن بشر، مسند احمد ۳؍۱۳۱)
صحیحین میں سیدناصدیق رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ جب وہ تین مہمانوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف گئے۔ جو لقمہ کھاتے تھے، اس کے نیچے کھانا بڑھ کر اس سے زیادہ ہو جاتا تھا چنانچہ سب نے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور کھانا بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوگیا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے زیادہ ہے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس کھانے کو رسولﷺکے پاس لے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ آئے سب نے کھانا کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
(بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السمر مع الضیف والاھل رقم: ۶۰۲، مسلم کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف، رقم: ۵۳۶۵)
سیدناخبیب بن عدی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے پاس قیدی تھے اور ان کے پاس انگور لائے جاتے تھے جنہیں آپ کھایا کرتے تھے، حالانکہ مکہ میں انگور نہیں ہوتے۔
(بخاری ، کتاب الجہاد باب ھل یستاثر الرجل ومن لم یستاثر، ۳۰۴۵)
سیدناعامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں نے ان کی نعش کو ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ بات یوں ہوئی کہ نعش قتل ہوتے ہی اٹھا لی گئی تھی، عامر بن طفیل نے نعش کو ہوا میں اٹھتے ہوئے دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔
سیدہ اُم ایمنrہجرت کر کے نکلیں تو ان کے پاس راستے کا خرچ تھا اور نہ پانی، قریب تھا کہ پیاس سے ہلاک ہو جاتیں۔ روزہ دار بھی تھیں، جب افطار کا وقت قریب آیا تو ان کو اپنے سر پر کوئی آہٹ سنائی دی۔ سر اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ڈول لٹک رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس ڈول سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور زندگی بھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگی۔
(ابن سعد ۸/۲۲۴۔ الاصابہ۔ باسناد رجالہ ثقات ولکنہ منقطع (ازھر عفی عنہ))
رسول اللہﷺکے غلام سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو خبر دی کہ میں رسول اللہﷺکا غلام ہوں تو شیر ان کے ساتھ چل پڑا حتیٰ کہ انہیں منزل مقصود پر پہنچا دیا۔
(مستدرک حاکم ۳؍۶۰۶، مجمع الزوائد ۹؍۳۶۶، والبیہقی فی الدلائل ۶؍۴۶)
براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب اللہ کو قسم دیتے تھے تو ان کی قسم سچی کر دی جاتی تھی۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب براء بن مالک، رقم: ۳۸۵۴)
جب جہاد میں جنگ کا زور مسلمانوں پر آپڑتا تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے، اے براء رضی اللہ عنہ اپنے پروردگار کو قسم دو۔ آپ کہا کرتے تھے ''اے میرے پروردگار میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے۔ (یعنی ان کی مشکیں باندھ کر ہمارے حوالے کر دے) تو پھر دشمن کو شکست ہوجاتی تھی چنانچہ جب یوم قادسیہ میں آپ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے اور مجھے پہلا شہید بنا تو کفار کو شکست ہوگئی اور سیدنابراء رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔
سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب ایک مستحکم قلعہ کا محاصرہ کر لیا، تو کفار سے کہاکہ اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام نہیں لائیں گے جب تک تو زہر نہ پی لے۔ سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے زہر پی لیا لیکن انہیں کچھ نقصان نہ ہوا۔
(مجمع الزوائد، ۹؍۳۵۰، طبرانی)
سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات تھے کہ جو دعا بھی کرتے تھے، منظور ہوجاتی تھی۔ آپ ہی نے کسریٰ کی فوجوں کو ہزیمت دی اور عراق فتح کیا۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص، رقم: ۳۷۵۱)
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب ایک لشکر بھیجا تو ساریہ نامی ایک شخص کو اس کا امیر بنایا۔ اس لشکر کی روانگی کے بعد ایک مرتبہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ منبرپر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بڑے زور سے چلانے لگے (یا ساریۃ الجبل یا ساریۃ الجبل) ''اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف'' اس کے بعد لشکر کا قاصد آیا، اس سے حال پوچھا تو اس نے عرض کیا اے امیرالمومنین! دشمن سے جب ہمارا مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست دے دی۔ اتنے میں ہمیں ایسی آواز آئی گویا کوئی چلانے والا یوں چلا رہا ہے۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف، اس پر ہم نے پہاڑ کی طرف پیٹھیں کر لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دے دی۔
(اس کو واقدی نے نقل کیا اور بیہقی نے دلائل النبوۃ ۶؍۳۷۰ میں الاصابہ لابن حجر قال الالبانی وقد خرجۃ فی الصحیحہ ۱۱۱۰۔)
زنیرہ رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا گیا لیکن اس نے اسلام نہ چھوڑا اور اس کی بینائی جاتی رہی۔ مشرکوں نے کہا، اس کی بینائی لات و عزیٰ لے گئے۔ زنیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''واللہ ہرگز نہیں'' اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔
(الاصابہ: ۴/۳۱۲۔)
سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ارویٰ بنت حکم کے خلاف بددعا کی اور وہ اندھی ہوگئی۔ واقعہ یوں ہے جب کہ ارویٰ نے سعید پر کوئی جھوٹا الزام لگایا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے آنکھ سے اندھی کر دے یا اسے اسی زمین میں ہلاک کر دے، چنانچہ وہ اندھی ہوگئی۔ اور اپنی زمین کے ایک گڑھے میں گر کر مر گئی۔
(مسلم کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم، وغصب الارض وغیرھا، رقم: ۱۶۱۰)
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نبیﷺکی طرف سے بحرین کے حاکم تھے اور اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ یاعلیم، یا حلیم، یا علی، یاعظیم، تو ان کی دعا قبول ہوجایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ ان کے کچھ آدمیوں کو پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تو آپ نے دعا کی اور قبول ہوگئی۔ ایک دفعہ سمندر ان کے سامنے آگیا اور وہ گھوڑوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے پر قادر نہ تھے۔ آپ نے دعا کی تو ساری جماعت پانی پر سے گزر گئی اور ان کے گھوڑوں کی زینیں بھی تر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ میں مرجائوں تو یہ لوگ میری نعش نہ دیکھنے پائیں۔ چنانچہ ان کی نعش لحد میں نہ پائی گئی۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
کیا اللہ کے نیک لوگوں پر کرامات ہوتی ہیں؟نیز معجزات کی کوئی حیثیت بھی ہے؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کرامات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین

صحابہ اور ان کے تابعین اور دیگر صالحین کی کرامات تو بہت زیادہ ملتی ہیں مثلاً اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سورۂ کہف پڑھ رہے تھے تو آسمان سے ایسی چیز اتری تھی جو بادل کا سیاہ سائبان معلوم ہوتا تھا اور جس میں گویا چراغ روشن تھے۔ یہ فرشتے تھے جو کہ ان کی قرأت سننے کے لیے آئے تھے۔
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، رقم: ۳۶۱۴، مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ رقم: ۱۸۵۹، ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الکہف، رقم: ۲۸۸۵، مسند احمد ۴؍۲۸۱۔)
سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الحج، باب التمتع، رقم: ۲۹۷۴۔)
سیدناسلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما جس طشتری میں کھانا کھا رہے تھے کہ وہ طشتری یا وہ چیزیں جو کہ اس میں تھیں، تسبیح پڑھنے لگیں۔ سیدناعباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے تھے اور تازیانہ کے کنارے کی شکل کا ایک نور ان کے لیے روشنی کرتا تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ روشنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ ایک کے ساتھ اور ایک حصہ دوسرے کے ساتھ ہوگیا۔
(بخاری، ۳۸۰۵، کتاب مناقب الانصار، باب منقبہ، اُسید بن حضیر و عباد بن بشر، مسند احمد ۳؍۱۳۱)
صحیحین میں سیدناصدیق رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ جب وہ تین مہمانوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف گئے۔ جو لقمہ کھاتے تھے، اس کے نیچے کھانا بڑھ کر اس سے زیادہ ہو جاتا تھا چنانچہ سب نے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور کھانا بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوگیا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے زیادہ ہے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس کھانے کو رسولﷺکے پاس لے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ آئے سب نے کھانا کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
(بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السمر مع الضیف والاھل رقم: ۶۰۲، مسلم کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف، رقم: ۵۳۶۵)
سیدناخبیب بن عدی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے پاس قیدی تھے اور ان کے پاس انگور لائے جاتے تھے جنہیں آپ کھایا کرتے تھے، حالانکہ مکہ میں انگور نہیں ہوتے۔
(بخاری ، کتاب الجہاد باب ھل یستاثر الرجل ومن لم یستاثر، ۳۰۴۵)
سیدناعامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں نے ان کی نعش کو ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ بات یوں ہوئی کہ نعش قتل ہوتے ہی اٹھا لی گئی تھی، عامر بن طفیل نے نعش کو ہوا میں اٹھتے ہوئے دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔
سیدہ اُم ایمنrہجرت کر کے نکلیں تو ان کے پاس راستے کا خرچ تھا اور نہ پانی، قریب تھا کہ پیاس سے ہلاک ہو جاتیں۔ روزہ دار بھی تھیں، جب افطار کا وقت قریب آیا تو ان کو اپنے سر پر کوئی آہٹ سنائی دی۔ سر اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ڈول لٹک رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس ڈول سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور زندگی بھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگی۔
(ابن سعد ۸/۲۲۴۔ الاصابہ۔ باسناد رجالہ ثقات ولکنہ منقطع (ازھر عفی عنہ))
رسول اللہﷺکے غلام سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو خبر دی کہ میں رسول اللہﷺکا غلام ہوں تو شیر ان کے ساتھ چل پڑا حتیٰ کہ انہیں منزل مقصود پر پہنچا دیا۔
(مستدرک حاکم ۳؍۶۰۶، مجمع الزوائد ۹؍۳۶۶، والبیہقی فی الدلائل ۶؍۴۶)
براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب اللہ کو قسم دیتے تھے تو ان کی قسم سچی کر دی جاتی تھی۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب براء بن مالک، رقم: ۳۸۵۴)
جب جہاد میں جنگ کا زور مسلمانوں پر آپڑتا تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے، اے براء رضی اللہ عنہ اپنے پروردگار کو قسم دو۔ آپ کہا کرتے تھے ''اے میرے پروردگار میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے۔ (یعنی ان کی مشکیں باندھ کر ہمارے حوالے کر دے) تو پھر دشمن کو شکست ہوجاتی تھی چنانچہ جب یوم قادسیہ میں آپ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے اور مجھے پہلا شہید بنا تو کفار کو شکست ہوگئی اور سیدنابراء رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔
سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب ایک مستحکم قلعہ کا محاصرہ کر لیا، تو کفار سے کہاکہ اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام نہیں لائیں گے جب تک تو زہر نہ پی لے۔ سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے زہر پی لیا لیکن انہیں کچھ نقصان نہ ہوا۔
(مجمع الزوائد، ۹؍۳۵۰، طبرانی)
سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات تھے کہ جو دعا بھی کرتے تھے، منظور ہوجاتی تھی۔ آپ ہی نے کسریٰ کی فوجوں کو ہزیمت دی اور عراق فتح کیا۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص، رقم: ۳۷۵۱)
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب ایک لشکر بھیجا تو ساریہ نامی ایک شخص کو اس کا امیر بنایا۔ اس لشکر کی روانگی کے بعد ایک مرتبہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ منبرپر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بڑے زور سے چلانے لگے (یا ساریۃ الجبل یا ساریۃ الجبل) ''اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف'' اس کے بعد لشکر کا قاصد آیا، اس سے حال پوچھا تو اس نے عرض کیا اے امیرالمومنین! دشمن سے جب ہمارا مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست دے دی۔ اتنے میں ہمیں ایسی آواز آئی گویا کوئی چلانے والا یوں چلا رہا ہے۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف، اس پر ہم نے پہاڑ کی طرف پیٹھیں کر لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دے دی۔
(اس کو واقدی نے نقل کیا اور بیہقی نے دلائل النبوۃ ۶؍۳۷۰ میں الاصابہ لابن حجر قال الالبانی وقد خرجۃ فی الصحیحہ ۱۱۱۰۔)
زنیرہ رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا گیا لیکن اس نے اسلام نہ چھوڑا اور اس کی بینائی جاتی رہی۔ مشرکوں نے کہا، اس کی بینائی لات و عزیٰ لے گئے۔ زنیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''واللہ ہرگز نہیں'' اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔
(الاصابہ: ۴/۳۱۲۔)
سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ارویٰ بنت حکم کے خلاف بددعا کی اور وہ اندھی ہوگئی۔ واقعہ یوں ہے جب کہ ارویٰ نے سعید پر کوئی جھوٹا الزام لگایا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے آنکھ سے اندھی کر دے یا اسے اسی زمین میں ہلاک کر دے، چنانچہ وہ اندھی ہوگئی۔ اور اپنی زمین کے ایک گڑھے میں گر کر مر گئی۔
(مسلم کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم، وغصب الارض وغیرھا، رقم: ۱۶۱۰)
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نبیﷺکی طرف سے بحرین کے حاکم تھے اور اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ یاعلیم، یا حلیم، یا علی، یاعظیم، تو ان کی دعا قبول ہوجایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ ان کے کچھ آدمیوں کو پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تو آپ نے دعا کی اور قبول ہوگئی۔ ایک دفعہ سمندر ان کے سامنے آگیا اور وہ گھوڑوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے پر قادر نہ تھے۔ آپ نے دعا کی تو ساری جماعت پانی پر سے گزر گئی اور ان کے گھوڑوں کی زینیں بھی تر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ میں مرجائوں تو یہ لوگ میری نعش نہ دیکھنے پائیں۔ چنانچہ ان کی نعش لحد میں نہ پائی گئی۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
انکل اس کی وضاحت کریں، اور اس کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ نیز ان اہل ایمان کا عقیدہ بھی بیان فرما دیں، تاکہ آج کا کوئی بدعتی یا صوفی ان روایات کو بنیاد بنا کر اپنے غلط عقائد کی ترویج نہ کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
کیا اللہ کے نیک لوگوں پر کرامات ہوتی ہیں؟نیز معجزات کی کوئی حیثیت بھی ہے؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کے نیک بندوں پر کرامات ظاہر ہوتی ہیں مگر جس کے لیے اللہ چاہے۔ کرامت کا ظاہر کرنا کسی ولی یا نیک بندے کے اختیار میں نہیں۔
اسی طرح معجزات کا ظہور انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں ہوتا ہے اور اس میں بھی انبیاء علیہم السلام اختیار نہیں رکھتے بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سےہوتا ہے۔قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔
کرامات و معجزات کا ظاہر ہونا اسلام ومسلمین کی حقانیت و تائید ونصرت کے لیے ہوتا ہے۔
واللہ اعلم
 
  • پسند
Reactions: Dua

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انکل اس کی وضاحت کریں، اور اس کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ نیز ان اہل ایمان کا عقیدہ بھی بیان فرما دیں، تاکہ آج کا کوئی بدعتی یا صوفی ان روایات کو بنیاد بنا کر اپنے غلط عقائد کی ترویج نہ کرے۔
"علی" اللہ کے اسماء الحسنی میں شامل ہے۔یعنی اللہ تعالی کو ہی پکارا جارہا ہے اور یہی اہل ایمان کا عقیدہ ہے۔
صوفیوں اور بدعت کے مرتکبین کے لیے ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کو ہدایت دے۔ آمین۔
اسنادی حیثیت کا تعین فورم پر موجود علماء ہی کرسکتے ہیں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کے نیک بندوں پر کرامات ظاہر ہوتی ہیں مگر جس کے لیے اللہ چاہے۔ کرامت کا ظاہر کرنا کسی ولی یا نیک بندے کے اختیار میں نہیں۔
اسی طرح معجزات کا ظہور انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں ہوتا ہے اور اس میں بھی انبیاء علیہم السلام اختیار نہیں رکھتے بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سےہوتا ہے۔قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔
کرامات و معجزات کا ظاہر ہونا اسلام ومسلمین کی حقانیت و تائید ونصرت کے لیے ہوتا ہے۔
واللہ اعلم
اس کا مطلب کہ جو اولیاء بزرگوں کے قصے مشہور ہے کہ ایسے ایسے فلاں پر کرامات ہوئی ،وہ درست تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس کا مطلب کہ جو اولیاء بزرگوں کے قصے مشہور ہے کہ ایسے ایسے فلاں پر کرامات ہوئی ،وہ درست تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
فورم پر پہلے ہی میرے مراسلات موجود ہیں ، جسے پڑھکر آپ کی تسلی و تشفی ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ۔
خوارقِ عادات اور اولیاء
اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان میں تمیز /آیات شریفہ سے
اولیاء الرحمن کی علامات
اولیاء الشیطان کی علامات
اولیاء اللہ کے اوصاف احادیث سے
ولی کا لغوی اور اصطلاحی معنی
چند جھوٹے نبیوں کی ''کرامات''
شیطانی شعبدے
کرامات اولیاء اور احوالِ شیطانی میں فرق

اس کتاب کا مکمل مطالعہ نہایت مفید ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
  • پسند
Reactions: Dua
Top