• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرایہ داری و خریداری معاہدہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
ایک محترم بھائی نے درج ذیل معاہدے کے بارے سوال پوچھا ہے کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں؟

ایک صاحب 12 لاکھ کی نئی گاڑی شو روم سے نکلوا کسی کو کرایہ پر دیتے ہیں.
اور کرایہ دار ان کو پندرہ سے بیس ہزار ماہانہ کرایہ ادا کرنے کا معاہدہ کرتا ہے.
کم و بیش ڈیڑھ سال بعد کرایہ دار گاڑی کے مالک کو 12 لاکھ ادا کرنے کے بعد گاڑی اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے.
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
ایک محترم بھائی نے درج ذیل معاہدے کے بارے سوال پوچھا ہے کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں؟

ایک صاحب 12 لاکھ کی نئی گاڑی شو روم سے نکلوا کسی کو کرایہ پر دیتے ہیں.
اور کرایہ دار ان کو پندرہ سے بیس ہزار ماہانہ کرایہ ادا کرنے کا معاہدہ کرتا ہے.
کم و بیش ڈیڑھ سال بعد کرایہ دار گاڑی کے مالک کو 12 لاکھ ادا کرنے کے بعد گاڑی اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے.
جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
بات سمجھ نہیں آئی ۔۔۔۔
کرایہ ادا کرنے کا معاہدہ کرتا ہے ۔۔۔۔ اور ۔۔ کرایہ ادا کرکے گاڑی اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے ،
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
محترم شیخ صاحب!

مالک گاڑی کو پہلے ڈیڑھ سال تک کرایے پر دیتا ہے اور اُس کا کرایہ وصول کرتا رہتا ہے، ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد،
مالک نے گاڑی جس قیمت پر خریدی ہوتی ہے، اُتنے ہی کی وہ اُسی کرایہ دار کو فروخت کر دیتا ہے..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور غالبا.. یہ سب کچھ ایک ہی معاہدے کا حصہ ہے کہ
پہلے گاڑی کا ڈیڑھ سال تک کرایہ لیا جائے گا اور پھر اصل قیمت..
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم شیخ صاحب!

مالک گاڑی کو پہلے ڈیڑھ سال تک کرایے پر دیتا ہے اور اُس کا کرایہ وصول کرتا رہتا ہے، ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد،
مالک نے گاڑی جس قیمت پر خریدی ہوتی ہے، اُتنے ہی کی وہ اُسی کرایہ دار کو فروخت کر دیتا ہے..
آپ کے سوال کا جواب ذیل کے فتویٰ میں ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حكم الإجارة المنتهية بالتمليك
ما حكم ما يفعله كثير من الشركات أو البنوك الآن من تأجير سيارة مدة سنة مثلاً بأجرة معلومة كل شهر ، وبعد نهاية المدة تكون السيارة ملكاً للمستأجر ، وإذا لم يكمل مدة الإجارة المتفق عليها تعود السيارة ملكاً للشركة أو البنك ، وليس من حق المستأجر أن يسترد ما دفعه من أقساط .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله

هذه المعاملة تعرف باسم " الإجارة المنتهية بالتمليك " وقد اختلف فيها العلماء المعاصرون ، وقد أصدر مجلس هيئة كبار العلماء بياناً في حكمها نصه :
" فإن مجلس هيئة كبار العلماء درس موضوع الإيجار المنتهي بالتمليك .. , وبعد البحث والمناقشة رأى المجلس بالأكثرية أن هذا العقد غير جائز شرعاً لما يأتي :

أولاً : أنه جامع بين عقدين على عين واحدة غير مستقر على أحدهما ، وهما مختلفان في الحكم متنافيان فيه .
فالبيع يوجب انتقال العين بمنافعها إلى المشتري ، وحينئذ لا يصح عقد الإجارة على المبيع لأنه ملك للمشتري ، والإجارة توجب انتقال منافع العين فقط إلى المستأجر .
والمبيع مضمون على المشتري بعينه ومنافعه ، فتلفه عليه ، عيناً ومنفعة ، فلا يرجع بشيء منهما على البائع ، والعين المستأجرة من ضمان مؤجرها ، فتلفها عليه ، عيناً ومنفعة ، إلا أن يحصل من المستأجر تعد أو تفريط .

ثانياً : أن الأجرة تقدر سنوياً أو شهرياً بمقدار مقسط يستوفي به قيمة المعقود عليه ، يعده البائع أجرة من أجل أن يتوثق بحقه حيث لا يمكن للمشتري بيعه .

مثال لذلك : إذا كانت قيمة العين التي وقع عليها العقد خمسين ألف ريال وأجرتها شهرياً ألف ريال حسب المعتاد جعلت الأجرة ألفين ، وهي في الحقيقة قسط من الثمن حتى تبلغ القيمة المقدرة ، فإن أعسر بالقسط الأخير مثلاً سحبت منه العين باعتبار أنها مؤجرة ولا يرد عليه ما أخذ منه بناء على أنه استوفي المنفعة .

ولا يخفى ما في هذا من الظلم والإلجاء إلى الاستدانة لإيفاء القسط الأخير .

ثالثاً : أن هذا العقد وأمثاله أدى إلى تساهل الفقراء في الديون حتى أصبحت ذمم كثير منهم مشغولة منهكة ، وربما يؤدي إلى إفلاس بعض الدائنين لضياع حقوقهم في ذمم الفقراء .

ويرى المجلس أن يسلك المتعاقدان طريقاً صحيحاً وهو أن يبيع الشيء ويرهنه على ثمنه ويحتاط لنفسه بالاحتفاظ بوثيقة العقد واستمارة السيارة ونحو ذلك .

والله الموفق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .

وممن وقع على هذا البيان من هيئة كبار العلماء

الشيخ عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ .

الشيخ صالح اللحيدان

د/ صالح الفوزان .

الشيخ محمد بن صالح العثيمين

الشيخ بكر بن عبد الله أبو زيد .

وصدر عن مجمع الفقه الإسلامي في دورته الثانية عشرة بالرياض من 25 جمادى الآخرة 1421هـ إلى غرة رجب 1421هـ (23-28 سبتمبر 2000م) قرار بهذا الخصوص ، ذهب فيه إليه إلى جواز بعض صور الإيجار المنتهي بالتمليك ، وينظر نص القرار في جواب السؤال رقم 97625
والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :

كرائے والي چيز كا كرايہ ختم ہونےپر ملكيت كےحقوق حاصل ہونے كا حكم
اس وقت بہت سے بنك اور كمپنياں ہيں جو گاڑي كرائے پر ديتےہيں مثلا ايك سال كرائے پر جس كا ماہانہ كرايہ معلوم ہوتا ہے اور كرائے كي مدت ختم ہونےپر يہ گاڑي كرائے پر لينے والي كي ملكيت ہوجائےگي، اور اگر كرائے كي مدت پوري نہ كرے تو وہ گاڑي كمپني يا بنك كي ملكيت ميں واپس چلي جائےگي اور كرائےپر حاصل كرنےوالے كو قسطيں واپس لينے كا كوئي حق نہيں اس فعل كا حكم كيا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ :

يہ معاملہ كرايہ ختم ہونےپر ملكيت كےنام سے جانا جاتاہے، اور اس ميں معاصر علماء كرام كا اختلاف ہے، اور اس كےحكم ميں سعودي عرب كےكبار علماء كرام كميٹي كا بيان جاري ہوا ہےجسے ہم ذيل ميں درج كرتےہيں:

" كرايہ ختم ہونےپر ملكيت بننےوالي چيز كے موضوع ميں كبار علماء كرام كميٹي نے غور خوض كيا اور بحث وتمحيث كےبعد مجلس كےاكثر اركان نے اس معاملہ كو شرعا ناجائز قرار ديا اس كےاسباب مندرجہ ذيل ہيں:

اول: اس ميں ايك ہي چيز پر دو عقد اور معاہدے جمع ہيں اور ان ميں سے كسي ايك پر نہيں ٹھرتا اور يہ دونوں عقد حكم ميں بھي ايك دوسرے سے مختلف اور منافي ہيں.

بيع فروخت كردہ چيز كوبعينہ اس كےمنافع سميت گاہك كي طرف منتقل كرنا واجب كرتي ہے، تواس وقت فروخت كردہ چيز پر كرائے كا معاھدہ كرنا صحيح نہيں اس ليے كہ يہ گاہك كي ملكيت ہے، اور اجارہ يعني كرائے پر دينا كسي چيز كا نفع كرائے پر لينے والے كي طرف منتقل كرنا واجب كرتا ہے.

اور فروخت كردہ چيز كا خريدار بعينہ اور اس كےمنافع كا ضامن ہے لھذا اس كا بعينہ تلف ہوجانا يا نفع ختم ہونا خريدار كونقصان ہے ان دونوں ميں سے بائع يعني فروخت كنندہ كي طرف كچھ بھي واپس نہيں جاتا، اور كرائے پر حاصل كردہ چيز بعينہ مالك يعني كرائے پر دينے والا اس كا ضامن ہے لھذا اس كا بعينہ تلف ہوجانا يا اس كا نفع ختم ہونا كرائے پر دينےوالے كےذمہ ميں يعني نقصان مالك كا ہوگا الا يہ كہ كرائےپر حاصل كرنےوالے كي جانب سے كوئي زيادتي اور كوتاہي سرزد ہوئي ہو.

دوم: كرايہ معاہدہ ميں بيان كي گئي قيمت كےحساب سے سالانہ يا ماہانہ اقساط ميں مقرر كيا جاتا ہےكہ وہ قيمت اس ميں پوري ہو جسے بائع اس وجہ سے اجرت شمار كرتا ہے كہ وہ اپنےحق كومحفوظ كرسكے اس طرح خريدار كے ليے وہ چيز بيچني ممكن نہيں رہتي.

اس كي مثال يہ ہےكہ: اگر وہ چيزپچاس ہزار ريال كي ہے اور رواج كے مطابق اس كي اجرت ماہانہ ہے تواس كي اجرت دوہزار مقرر كي گئي جو كہ حقيقتا قيمت ميں ايك قسط ہے حتي كہ مقرر كردہ قيمت پوري ہوجائے، مثلا اگر وہ آخري قسط دينے سے عاجز ہو تو بعينہ وہ چيز واپس لے لي جائےگي اس ليے كہ وہ اجرت پر لي گئي شمار ہوتي ہے اور اس كي اجرت ميں جورقم حاصل كي گئي ہے واپس نہيں كي جائيگي اس ليے كہ اس نے اس كا نفع حاصل كيا ہے.

اس ميں جو ظلم وستم ہےوہ كوئي مخفي نہيں كہ آخري قسط پوري كرنے كے ليے وہ قرض لينے پر مجبور ہوجاتےہيں .

سوم: يہ اور اس طرح كےدوسرے معاہدوں نے قرضوں كےمتعلق فقراء كو تساہل كي طرف دھكيل ديا ہے حتي كہ بہت سے حقوق مشغول اور ضائع ہو چكے ہيں، اور بعض اوقات تو قرض دينے والے فقراء كےذمہ اپنے حقوق ضائع ہو جانے كےباعث افلاس تك پہنچ جاتےہيں.

مجلس كي رائےيہ ہے كہ دونوں فريق صحيح طريقہ اختيار كريں وہ يہ ہے كہ: وہ چيز فروخت كرديں اور اس كي قيمت پر اسے رہن ركھ ليں اور اس كے ليے اپنےپاس وہ معاہدہ كي كاپي يا گاڑي كےكاغذات وغيرہ ركھ ليں .

اللہ تعالي ہي توفيق بخشنےوالا ہے، اور ہمارے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم اور ان كي آل اور صحابہ كرام پر اپني رحمتيں نازل فرمائے.

اس بيان پر كبار علماء كميٹي كےمندرجہ ذيل علماء كرام كےدستخط ہيں :
الشيخ عبدالعزيز بن عبداللہ آل الشيخ ، الشيخ صالح اللحيدان ، ڈاكٹر صالح الفوزان ، الشيخ محمد بن صالح العثيمين ،الشيخ بكر بن عبداللہ ابو زيد

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
Top