• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کربلا کا واقعہ ( واللہ اعلم )

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
61ھ کے آغاز میں حسین بن علی {رض} اپنے ساتھیوں اقرباء کے ساتھ مکہ و عراق کے درمیان علاقے میں کوفے کی طرف جارہے تھے ۔ ابو مخنف روایت کرتے ہیں ابو جناب سے ، وہ حدی بن حرملتہ سے ، وہ عبیداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن شمعل اسدی سے ۔ یہ دونوں حضرات کہتے ہیں کہ حسین {رض} چلتے چلتے جب مقام اشرف میں ٹھہرے تو آپ نے لڑکوں کو سحری کے وقت کہا خوب پانی طلب کرلو
پھر آپ دن چڑھنے تک چلتے رہے ۔ اس وقت آپ نے ایک آدمی کو تکبیر کہتے ہوئے سنا ۔ آپ نے اس سے پوچھا تو نے کیوں تکبیر کہی ؟
اس نے کہا میں نے کھجور کا درخت دیکھا ہے
قبیلہ اسد کے دو آدمیوں نے کہا یہاں تو کبھی کسی نے کھجور کا درخت نہیں دیکھا
حسین {رض} نے پوچھا پھر تم کیا سمجھتے ہو ؟ ۔ اس نے کیا دیکھا ؟
ان دونوں نے کہا گھوڑ سوار آرہے ہیں
آپ نے پوچھا کیا کوئی ایسا ٹھکانہ نہیں ہے جسے پشت کی پیچھے رکھ کر ہم ان لوگوں سے صحیح مقابلہ کرسکیں ؟
انہوں نے کہا مقام دوحسم ہے
آپ بائیں طرف سے چل کر وہاں پہنچے ۔ خیمے لگانے کا حکم دیا وہ لگائے گئے ۔
ایک ہزار شہسوار حر بن یزید تمیمی کے ساتھ آئے ۔ جو ابن زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر کا مقدمۃ الجیش تھے ۔ ظہر کے وقت وہ آپ کے مقابلے کے لیے کھڑے ہوئے ۔
حسین {رض} اور ان کے ساتھی تلواریں لگائے ہوئے تھے ۔
آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا خود بھی سیراب ہوجائیں اور اپنے گھوڑوں کو بھی پانی پلادیں اور دشمن کے گھوڑوں کو بھی پانی پلادیں
ظہر کے وقت آپ نے حجاج بن مسروق جعفر کو اذان دینے کا حکم دیا ۔ اس نے اذان دی ۔ آپ نکلے جسم پر ایک ازار ایک چادر تھی اور پاؤں میں جوتے تھے ۔
اپنے ساتھیوں اور دشمنوں سب کو خطاب کرکے اپنے آنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اہل کوفہ نے ان کی طرف لکھا تھا کہ ان کا کوئی امام نہیں اگر آپ پاس آئیں گے تو ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور آپ کے ساتھ قتال کریں گے ۔
جماعت کا وقت ہوا تو آپ نے حر سے کہا تم اپنے اصحاب کو نماز پڑھاؤ گے ؟
اس نے کہا آپ نماز پڑھا لیں ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے
اور نماز پڑھا کر آپ اپنے خیمے میں داخل ہوئے اور آپ کے اصحاب آپ کے پاس جمع ہوگئے ۔
حر اپنے لشکر کی طرف چلا گیا ۔ دونوں فریق تیار تھے ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
عصر کا وقت ہوا تو حسین {رض} نے نماز پڑھائی ۔ نماز کے بعد آپ نے خطبہ دیا جس میں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب دی اور اپنے دشمنوں سے قطع تعلق کے بارے میں کہا ۔
حر نے آپ سے کہا ہم نہیں جانتے یہ خطوط کیسے ہیں اور نہ ان کے لکھنے والوں کو جانتے ہیں ۔
آپ نے خطوں سے بھری ہوئی دو تھیلیاں لاکر اس کے سامنے پھیلا دیں اور ان میں سے کچھ خطوط پڑھے ۔
حر نے کہا ہم ان لوگوں میں سے نہیں جنہوں نے آپ کو خط لکھے ہیں ۔ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر صورت میں آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جائیں
آپ نے کہا موت اس وقت زیادہ قریب ہے
آپ نے اپنے ساتھیوں کو سوار ہونے کا حکم دیا ۔ وہ سب سوار ہوئے ۔ عورتیں بھی سوار ہوگئیں ۔ جب واپس پلٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے راستہ روک لیا ۔
آپ نے حر سے کہا تیری ماں تجھ پر روئے ۔ تو کیا چاہتا ہے ؟
حر نے کہا اللہ کی قسم اگر تیرے علاوہ عرب میں سے اور کوئی یہ بات کہتا اور اس کی وہی حالت ہوتی جو تیری ہے میں یقینا اس سے بدلہ لیتا اور اس کی ماں کو نہ چھوڑتا لیکن تیری ماں کا تذکرہ اچھائی ہی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے ۔
لوگوں نے باہم گفتگو اور سوال جواب کئے ۔
حر نے آپ سے کہا مجھے آپ سے جنگ کا نہیں کہا گیا ۔ مجھے تو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ کو ہر صورت میں ابن زیاد کے سامنے پیش کروں ۔ اگر تم یہ نہیں چاہتے تو کوفہ اور مدینہ کے علاوہ اور راستہ پکڑ لو اور تم یزید کی طرف لکھو میں ابن زیاد کی طرف لکھوں ۔ شاید اللہ تعالی کوئی راستہ کھول دے ، جس میں میرے لئے اس آزمائش سے عافیت ہو ۔
اور اس کے بعد آپ عذیب اور قادسیہ کے راستے سے دائیں طرف ہوکر چلنے لگے ۔
حر بن یزید آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کہتا جاتا اے حسین میں تمہیں تمہاری جان کے معاملے میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر تم نے جنگ کی تو میرے خیال میں تم ضرور قتل کر دیے جاؤ گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو میرے خیال میں تم ضرور ہلاک ہو جاؤ گے ۔
آپ نے کہا کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ ۔ میں وہی بات کہتا ہوں جو اخوالاوس نے کہی تھی جب کہ وہ رسول اللہ {ص} کی مدد کے لیے جارہا تھا راستے میں چچا زاد سے ملاقات ہوئی اور اس نے کہا کہاں جارہے ہو قتل کردیے جاؤ گے ، اخوالاوس نے یہ شعر پڑھے " میں ضرور جاؤں گا اور موت جوان کے لیے عار نہیں ہے جب کہ حق نیت رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کی حالت میں جہاد کرے اور نیک لوگوں کی اپنی جان سے ہمدردی کرے اور زندہ رہ کر ذلیل ہونے کے خوف کو چھوڑ دے "
حر نے جب یہ سنا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک طرف ہوکر چلنے لگا ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
عذیب الھجانات پہنچے تو کوفہ سے چار سوار آتے ہوئے دکھائی دیے جو نافع بن ہلال کے گھوڑے الکامل کو سامنے کرکے بچتے ہوئے آرہے تھے ۔ وہ کوفہ سے آپ کا قصد کرتے ہوئے آئے ۔ ان کا رہبر طرماح بن عدی گھوڑے پر سوار تھا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا " اے میری اونٹنی میری ڈانٹ سے نہ ڈر اور طلوع فجر سے پہلے تیار ہوجا ۔ بہترین سواروں اور بہترین ساتھیوں کے ساتھ یہاں تک کہ تو پہنچ جائے ایسے شخص کے پاس جو کریم الافضل بزرگ ، شرافت والا اور کشادہ سینے والا ۔ جسے اللہ بہترین کام کے لیے لے کر آیا ۔ پھر اسے باقی رکھا زمانہ کے باقی رہنے تک "
حر نے ارادہ کیا کہ ان سواروں اور حسین {رض} کے درمیان رکاوٹ ڈالے لیکن آپ نے اسے منع کردیا ۔ جب وہ پہنچے تو آپ نے پوچھا اپنے پیچھے لوگوں کی خبر دو ۔
اس میں سے مجمع بن عبداللہ عامری نے کہا لوگوں کے سردار آپ کے خلاف ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں خوب رشوت دے کر ان کی بوریاں بھر دی گئی ہیں ۔ ان کی محبت اور خیر خواہی حاصل کرلی گئی ہے ۔ بقیہ لوگوں کے دل تو آپ کی طرف ہیں لیکن ان کی تلواریں آپ کے خلاف اٹھی ہوئی ہیں ۔
آپ نے فرمایا کیا تمہیں میرے قاصد کے متعلق کوئی علم ہے ؟
انہوں نے پوچھا آپ کا قاصد کون ہے ؟
آپ نے فرمایا بن مسہر الصید اوی ۔
انہوں نے کہا ہاں ، حصین بن نمیر نے اسے پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوادیا ہے اور ابن زیاد نے اسے حکم دیا کہ وہ آپ اور آپ کے باپ پر لعنت کرے تو اس نے آپ کی اور آپ کے باپ کی تعریف کی اور ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت کی اور لوگوں کو آپ کی مدد کرنے کی دعوت دی اور انہیں آپ کی آمد کی اطلاع دی تو ابن زید کے حکم سے اسے محل کے اوپر سے پھینک دیا گیا اور وہ فوت ہوگئے ۔
حسین {رض} کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی " فَمِنْـهُـمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٝ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ { پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے اور بعض منتظر ہیں } " ۔ پھر آپ نے اس کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ جنت کو اس کا ٹھکانہ بنادے اور قیامت کے بعد ہم دونوں کو جنت الفردوس میں جمع فرمادے ۔
پھر الطرماح بن عدی نے حسین {رض} سے کہا اپنا حال تو دیکھیے ، آپ کے ساتھ کیا ہے ؟ ۔ چند لوگوں کے سوا کسی کو میں آپ کے ساتھ نہیں دیکھ رہا اور جن لوگوں کو میں آپ کے ساتھ ساتھ چلتا دیکھ رہا ہوں وہ آپ کے ساتھیوں کہ ہم پلہ ہیں اور یہ کیسے ہوگا ۔ جب کہ کوفہ کا بیرونی علاقہ گھوڑوں اور فوجیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ جو ضرور آپ پر حملہ آور ہونگے ۔ اللہ کے نام پر میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر آپ کے بس میں ہے تو ایک بالشت بھی ان کی طرف قدم نہ اٹھائیں اور اگر آپ نے کسی شہر میں اترنے کا ارادہ کیا ہے تو اللہ تعالی اس کے ذریعے آپ کو غسان وحمیر کے بادشاہوں اور نعمان بن المنذر اور سوداوراحمر سے بچائے گا ، اللہ کی قسم اگر کبھی ہمیں ذلت و رسوائی نے دوچار کردیا تو میں آپ کے ساتھ چلتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ کو بستی میں اتاروں گا پھر آپ قبیلہ طئی کے " باجا " اور " سلمی " کے قبائل کے نوجوانوں کی طرف پیغام بھیجنا پھر اس کے مطابق جتنا آپ چاہیں ہمارے ساتھ قیام کرنا ۔ میں قبیلہ طئی کے دس ہزار لوگوں کا سردار ہوں ۔ آپ کے آگے اپنی تلواروں سے لڑائی کریں گے ۔ اللہ کی قسم وہ کبھی آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور وہ یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔
حسین {رض} نے اس سے کہا اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
مگر آپ نے اپنے فیصلہ سے رجوع نہیں فرمایا ۔ تو الطرماح نے حسین {رض} کو الوداع کہا ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
آپ حسین {رض} وہاں سے چل پڑے ، جب رات ہونے لگی تو آپ نے نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق پانی جمع کرلیں ۔ پھر رات کو چلتے رہے اور سفر کے دوران آپ کو اونگھ آنے کی وجہ سے سر جھٹکے کھانے لگا اور آپ " اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ " اور " الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ " کہتے ہوئے بیدار ہوئے پھر آپ نے فرمایا میں نے ایک گھڑ سوار کو دیکھا ہے جو کہہ رہا ہے کہ لوگ چل رہے ہیں اور موتیں ان کی طرف چل رہی ہیں پس مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ ہماری ہی جانیں ہیں جن کی موت کی خبر ہمیں دی گئی ہے ۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور جلدی سے سوار ہوگئے ۔ سفر کے دوران بائیں طرف چلتے رہے یہاں تک کہ نینوا پہنچ گئے ۔ وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ ایک سوار کمان کندھے پر رکھے ہوئے کوفہ سے آرہا ہے اور اس نے آکر حر بن یزید کو سلام کیا لیکن حسین {رض} کو سلام نہیں کیا ۔ اور اس نے حر بن یزید کو ابن زیاد کا خط دیا ۔ جس کا مضمون یہ ہے کہ وہ سفر کے دوران کسی بستی اور قلعے میں اترے بغیر عراق تک حسین {رض} کے ساتھ رہے ۔ یہاں تک کہ اس کے قاصد اور اس کی فوجیں اس کے پاس پہنچ جائیں ۔
یہ 2 محرم 61ھ جمعرات کا دن تھا جب اگلے دن کی صبح ہوئی تو عمر بن سعد بن ابی وقاص چار ہزار فوج کے ساتھ آیا اور ابن زیاد نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کو فوج کے ساتھ ویلم کی طرف بھیجا تھا ۔ اور وہ کوفہ کے باہر خیمہ زن ہوگیا ۔
جب ابن زیاد کو حسین {رض} کا معاملہ پیش آیا تو اس نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ کہ حسین {رض} کی طرف روانہ ہوجائیں اور ان سے فارغ ہونے کے بعد ویلم کی طرف چلے جانا ۔ عمر بن سعد نے ابن زیاد سے اس بات کی معافی چاہی تو ابن زیاد نے ان سے کہا اگر تو چاہے تو میں تجھے معاف کردیتا ہوں اور ان شہروں کی حکومت سے تجھے معزول کردیتا ہوں جن شہروں پر میں نے تجھے حاکم بنایا ہے ۔
عمر بن سعد نے کہا مجھے اس بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کر دیجئے ۔
اس بارے میں وہ جس سے بھی مشورہ کرتے وہ اسے حسین {رض} کی طرف جانے سے روکتا ۔ حتی کہ ان کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے ان سے کہا حسین {رض} کی طرف جانے سے بچنا ۔ وگرنہ اپنے پروردگار کی نافرمانی کر بیٹھو گے ۔ اور اپنی قرابت داری ختم کردوگے ۔ اللہ کی قسم اگر تم ساری زمین کی حکومت سے بےدخل ہوجاؤ تو یہ بات تمہیں زیادہ محبوب ہونی چاہیے بنسبت اس بات کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی سے اس حال میں ملاقات کرو کہ آپ کے ہاتھ حسین {رض} کے خون سے رنگین ہوں ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اپنے بھانجے کے مشورہ کو پسند کرتے ہوئے کہا انشاءاللہ میں ایسا ہی کرونگا پھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو معزول کردینے اور قتل کردینے کی دھمکی دی تو وہ حسین {رض} کی طرف روانہ ہوگئے ۔ پھر اس مقام سے عمر بن سعد نے حسین {رض} کی طرف قاصد بھیجے کہ آپ کیوں آئے ہیں ؟
آپ {رض} نے فرمایا اہل کوفہ نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ میں ان کے پاس کوفہ آجاؤں ۔ اب جبکہ انہوں نے مجھے ناپسند کیا ہے تو میں مکہ واپس چلا جاتا ہوں اور تم کو چھوڑ دیتا ہوں
جب عمر بن سعد کو یہ اطلاع ملی تو اس نے کہا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی مجھے آپ کے ساتھ جنگ کرنے سے بچائے گا اور اس نے یہ بات ابن زیاد کو بھی لکھ بھیجی ۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو جواب میں لکھا کہ حسین {رض} اور اس کے ساتھیوں کے لیے پانی بند کردیا جائے جیسا امیرالمومنین عثمان بن عفان {رض} کے ساتھ کیا گیا تھا ۔ نیز حسین {رض} اور ان کے ساتھیوں کو پیشکش کرو کہ وہ امیرالمومنین یزید بن معاویہ کی بیعت کرلیں تو یہی ہماری رائے ہے
عمر بن سعد کے ساتھیوں نے حسین {رض} کے ساتھیوں کو پانی سے روکنا شروع کردیا ۔ ان کے ایک دستے کا سالار عمرو بن الحجاج تھا ۔ آپ {رض} نے اس کے لیے پیاس کی بدعا کی تو یہ شخص پیاس کی شدت سے مرگیا ۔ پھر حسین {رض} نے عمر بن سعد سے مطالبہ کیا کہ وہ دونوں فوجوں کے درمیان آپ سے ملاقات کرے ۔
دونوں میں سے ہر ایک تقریبا بیس سواروں کے ساتھ آیا اور دونوں نے طویل گفتگو کی یہاں تک کہ رات کا ایک حصہ گزگیا اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ دونوں نے کیا بات کی لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ {رض} نے اس سے مطالبہ کیا کہ ہم دونوں ایک ساتھ یزید بن معاویہ کے پاس شام چلتے ہیں اور دونوں فوجوں کو آمنے سامنے کھڑا چھوڑ دیتے ہیں
عمر بن سعد نے کہا اس صورت میں ابن زیاد میرے گھر کو تباہ و برباد کردے گا ۔
حسین {رض} نے فرمایا میں اس گھر کو تیرے لیے اس سے بھی خوبصورت رنگ میں تعمیر کردوں گا ۔
عمر بن سعد نے کہا وہ میری جائیداد کو ضبط کرلے گا ۔
حسین {رض} نے فرمایا میں تجھے حجاز کےمال میں سے اس جائیداد سے سے بھی بہتر عطا کروں گا ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
راوی کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے اس بات کو اور اس پیشکش کو پسند نہیں کیا ۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ حسین {رض} نے عمر بن سعد سے تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کیا ۔ یا تو وہ یزید کے پاس چلے جاتے ہیں یا وہ حجاز واپس چلے جاتے ہیں یا کسی سرحد پر جاکر ترکوں سے جنگ کرتے ہیں ۔
عمر بن سعد نے ابن زیاد کی طرف خط میں یہ باتیں لکھ کر بھیج دیں ۔ جب ابن زیاد نے یہ باتیں پڑھیں تو کہا بہت اچھا ، میں ان باتوں کو قبول کرتا ہوں ۔
پس شمر بن ذی الجوشن اٹھا اور کہنے لگا اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوگا ۔ جب تک کہ حسین {رض} کے ساتھی ابن زیاد کے حکم کو قبول نہ کرلیں ۔ پھر کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین {رض} اور عمر بن سعد دونوں فوجوں کے درمیان بیٹھ کر رات کا اکثر حصہ باہم گفتگو کرتے ہیں ۔
ابن زیاد نے اسے کہا تمہاری رائے بہت اچھی ہے
ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ عبدالرحمان بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالہ سے مجھے بتایا کہ عقبہ بن سمعان نے کہا کہ میں مکہ سے شہید ہونے تک حسین {رض} کے ساتھ رہا ہوں ۔ اللہ کی قسم آپ {رض} نے میدان کارزار میں جو بات بھی کی ہے میں نے اسے سنا ہے ۔ آپ {رض} نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ آپ {رض} یزید کے پاس جاتے ہیں ۔اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہیں ۔ اور نہ ہی آپ {رض} نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ کسی سرحد کی طرف جاتے ہیں ۔ بلکہ آپ {رض} نے دو باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کیا کہ یا تو وہ جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس چلے جاتے ہیں اور یا آپ {رض} کو وسیع و عریض زمین میں جانے کے لیے چھوڑ دیں تاکہ وہ دیکھیں کہ لوگوں کی حکومت ان کے پاس آتی ہے ؟
پھر ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو بھیجا اور کہا اگر حسین {رض} اور ان کے ساتھی میرے حکم کو قبول کرلیں تو ٹھیک ہے وگرنہ عمر بن سعد کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دو ، اگر عمر بن سعد میرے حکم کی خلاف ورزی کرے تو اسے قتل کردینا ۔ اور ان کی جگہ تم ہی لوگوں کا امیر بن جانا ۔
ابن زیاد نے حسین {رض} کے ساتھ جنگ کرنے میں سستی کرنے پر عمر بن سعد کو دھمکی آمیز خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اگر وہ حسین {رض} کو اس کے پاس نہیں لایا تو شمر بن ذی الجوشن ، حسین {رض} کے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کرے گا ۔ بلاشبہ وہ مخالفین ہیں ۔
اور عبید اللہ بن ابی المحل نے اپنی پھوپھی ام البنین بنت حرام کے بیٹوں کے لیے امان طلب کی جو علی {رض} کی پشت سے تھے ۔ اور وہ بیٹے عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان تھے ۔ ابن زیاد نے ان کے لیے امان کی تحریر لکھ دی اور عبیداللہ بن المحل نے اپنے غلام کرمان کے ہاتھ وہ تحریر بھیج دی ۔ جب کرمان نے انہیں پروانہ امان پہنچا دیا تو انہوں نے کہا ہم ابن سمیہ کی امان نہیں چاہتے بلکہ ابن سمیہ کی امان سے بہتر امان چاہتے ہیں ۔
جب شمر بن ذی الجوشن ابن زیاد کا خط لے کر عمر بن سعد کے پاس آیا تو عمر بن سعد نے کہا اللہ تیرے گھر کو تباہ کرے اور جو کچھ تو لایا ہے اس کا برا کرے ۔ اللہ کی قسم میں تجھے وہ شخص خیال کرتا ہوں جس نے ابن زیاد کو ان باتوں سے برگشتہ کردیا ہے جن تین باتوں کا حسین {رض} نے مطالبہ کیا تھا ۔اور میں نے وہ تین باتیں ابن زیاد کو پیش کی تھیں ۔
شمر نے عمر بن سعد سے کہا مجھے بتاؤ تم کیا کرنے والے ہو ؟ کیا تم ان سے جنگ کروگے یا پھر ان کے مقابلہ کے لیے مجھے میدان میں آنے کا موقع دو گے ؟
عمر بن سعد نے شمر سے کہا اللہ تعالی کبھی تم کو عظمت نصیب نہ کرے ۔ میں خود ہی اس کام کو سرانجام دوں گا ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
چنانچہ عمر بن سعد نے شمر کو پیدل فوج کا سالار بنادیا اور اس نے 9 محرم بروز جمعرات شام کے وقت بڑی تیزی سے ان پر حملہ کیا اور شمر نے کھڑے ہوکر کہا ہمارے بھانجے کہاں ہیں ؟
تو حضرت علی {رض} کے بیٹے عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان اس کے پاس آگئے ۔
شمر نے کہا تم امان میں ہو ۔
انہوں نے کہا اگر تو ہمیں اور نواسہ رسول حسین {رض} کو امان دے تو بہت اچھا ہے ورنہ ہمیں تمہاری امان کی ضرورت نہیں
راوی کہتا ہے کہ پھر عمر بن سعد نے فوج میں اعلان کیا اے اللہ کے سواروں سوار ہوجاؤ تمہاری بہادری پر خوشخبری ہو
پس وہ سوار ہوگئے اور نماز عصر کے بعد ان کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتے گئے ۔ حسین {رض} اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار کو گود میں رکھے بیٹھے تھے کہ آپ کو اونگھ آگئی اور آپ کے سر کو جھٹکا لگا ۔ آپ کی ہمشیرہ نے شور سنا تو آگے بڑھ کر آپ {رض} کو بیدار کیا ۔ بیدار ہونے کے بعد حسین {رض} نے فرمایا میں نے خواب میں رسول اللہ {ص} کو دیکھا ، آپ نے مجھَ فرمایا ہے کہ آپ یقینا شام کو ہمارے پاس آجاؤ گے ۔
یہ سن کر ہمشیرہ نے اپنے ہی چہرے پر تھپڑ مارا اور کہنے لگیں ہائے میری ہلاکت ،
آپ {رض} نے فرمایا اے میری بہن آپ کے لیے ہلاکت نہیں ، پرسکون ہوجائیے ارحم الراحمین آپ پر رحم فرمائے گا
آپ {رض} کے بھائی عباس بن علی نے آپ سے فرمایا اے میرے بھائی کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں
آپ نے فرمایا کہ ان کے پاس جاکر پوچھو وہ کیا چاہتے ہیں
چنانچہ بیس سواروں کے ساتھ عباس بن علی ان کے پاس گئے اور پوچھا تمہیں کیا کام ہے ؟
انہوں نے کہا امیر کا حکم آیا ہے یا تو تم اس کا حکم تسلیم کرو یا ہم تم سے جنگ کریں گے ۔
عباس نے کہا تھوڑی دیر تم اپنی جگہ پر ٹھہرو ، میں جاکر حسین {رض} کو بتاتا ہوں ۔
عباس واپس حسین {رض} کو خبر دینے گئے ۔ آپ کے سوار ساتھی وہیں کھڑے رہے اور آپس میں بحث و تکرار اور ایک دوسرے کی ملامت کرنے لگے ۔ حسین {رض} کے ساتھیوں نے کہا تم کس قدر برے لوگ ہو ، تم اپنی نبی کی اولاد اور اپنے زمانہ کے بہترین لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہو ۔
پھر عباس بن علی واپس آگئے حسین {رض} کی طرف سے اور کہا حسین {رض} یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ آج شام کو واپس چلے جاؤ تاکہ وہ آج رات اپنے معاملے میں غور فکر کرسکیں ۔
عمر بن سعد نے شمر بن ذی الجوشن سے پوچھا تمہاری کیا رائے ہے
شمر نے کہا تم امیر ہو اور قابل عمل رائے تمہاری ہی ہے
عمرو بن الحجاج بن سلمہ زبیدی نے کہا سبحان اللہ ، اللہ کی قسم اگر ویلم کا کوئی شخص تم سے اس بات کا مطالبہ کرتا تو اس کا قبول کرنا ضروری ہوتا
قیس بن اشعت نے کہا جو بات انہوں نے آپ سے پوچھی ہے اس کا جواب دو ، میری زندگی کی قسم کل صبح کو وہ تم سے ضرور جنگ کریں گے
یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا ۔ عباس بن علی جب واپس حسین {رض} کے پاس پہنچے تو حسین {رض} نے ان سے کہا واپس جاکر انہیں آج شام واپس کردو تاکہ ہم آج رات کو اپنے رب کی نماز پڑھ لیں اور اس سے دعا و استغفار کرلیں ، اللہ تبارک و تعالی کو میرے متعلق معلوم ہے کہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت اور دعا استغفار کو پسند کرتا ہوں ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حسین {رض} نے اس رات اپنے گھر والوں کو وصیت کی اور رات کے پہلے حصے میں اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فصیح و بلیغ الفاظ میں اس کے رسول پر درود پڑھا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا جو شخص آج رات اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہے میری طرف سے اسے اجازت ہے ۔ یقینا دشمن کو صرف میں ہی مطلوب ہوں ۔
مالک بن نضر نے کہا مجھ پر قرض ہے اور میرے اہل و عیال بھی ہیں
آپ {رض} نے فرمایا آج کی رات نے تمہیں ڈھانپ لیا ہے پس تم اسے پازیب بنا لو اور تم میں سے ہر شخص میرے اہل بیت کے کسی مرد کا ہاتھ پکڑے پھر تم اس رات کی تاریکی میں سطح زمین پر اپنے اپنے ملکوں اور شہروں میں چلے جاؤ ، بلاشبہ دشمن کو میں ہی مطلوب ہوں ۔ کاش وہ دوسروں کی تلاش سے غافل ہوکر مجھے تکلیف دیتے ۔ لہذا تم لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ ابھی چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالی کشادگی کردے ۔
یہ سن کر آپ {رض} کے بیٹوں ، بھائیوں اور بھتیجوں نے آپ {رض} سے کہا کہ آپ کے بعد ہماری کوئی زندگی نہیں اور آپ کے بارے میں اللہ تعالی ہمیں وہ نہ دکھائے جسے ہم ناپسند کرتے ہیں
حسین {رض} نے فرمایا اے بنی عقیل تمہارے بھائی مسلم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تمہارے لئے کافی ہے ۔ جاؤ میری طرف سے تمہیں اجازت ہے
تو انہوں نے کہا لوگ کیا کہیں گے ہم نے اپنے شیخ اور سردار اور بہترین چچاؤں کے بیٹوں کو چھوڑ دیا ہے اور ہم نے دنیاوی زندگی کی رغبت میں ان کے ساتھ ایک تیر نہ چلایا ۔ اور نہ ان کے ساتھ نیزہ مارا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ تلوار چلائی ہے ۔ اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنے جان و مال اور اہل و عیال کو آپ پر قربان کردیں گے اور آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے یہاں تک کہ آپ کی گھاٹ پر آجائیں گے ۔ آپ کے بعد زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے ۔
مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے بھی ایسی ہی باتیں کیں کہ اللہ کی قسم ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالی کو معلوم ہوجائے کہ ہم نے رسول اللہ {ص} کی غیر موجودگی میں آپ {رض} کی حفاظت کی ہے ۔ اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہو کہ میں آپ کی حفاظت میں ایک ہزار مرتبہ قتل ہونگا اور اللہ اس قتل کے ذریعے آپ سے اور آپ کے اہل بیت کے ان نوجوانوں سے مصیبت دور کردے گا تو میں اس بات کو پسند کرلوں گا ۔ حالانکہ یہ صرف ایک ہی قتل ہے ۔
آپ {رض} کے ساتھیوں نے بھی اس سے ملتی جلتی گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم آپ سے جدا نہ ہونگے اور ہماری جانیں آپ پر قربان ہونگیں اور ہم آپ کو اپنے سینوں ، اپنی پیشانیوں، اپنے ہاتھوں اور اپنے جسموں سے بچائیں گے اور جب ہم قتل ہوجائیں گے تو اپنے اوپر لازم ہونے والے حق کو پورا کردیں گے ۔
آپ {رض} کے بھائی عباس نے کہا اللہ تعالی ہمیں آپ کی موت نہ دکھائے اور ہمیں آپ کے بعد زندگی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور عباس کے ساتھیوں نے عباس کی اس بات پر موافقت کی ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ حارث بن کعب اور ابوالضحاک نے علی بن حسین زین العابدین سے روایت کی ہے کہ جس رات کی صبح کو میرے والد شہید ہوئے میں اس کی شام کو بیٹھا ہوا تھا اور میرے والد اور ان کے ساتھی جب خیمے میں چلے جاتے تو میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کرتیں اور آپ {رض} کے پاس ابوذرغفاری {رض} کا غلام حوی بھی تھا جو آپ کی تلوار کو درست کر رہا تھا ۔ اور میرے والد نے چند اشعار پڑھے ۔
" اے زمانہ تیرے دوست ہونے پر افسوس ہے تیرے کتنے ہی صبح شام ہیں اور کتنے ہی اپنے اپنے مقتول ہونے والے ساتھی کو چاہنے والے ہیں اور زمانہ عوض پر قناعت نہیں کرتا اور معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور ہر زندہ اس راستے پر چلنے والا ہے ۔ ( ترجمہ ) "
آپ {رض} نے ان اشعار کو دو تین مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ میں نے ان کو یاد کرلیا ۔ اور میں آپ کے مقصد کو سمجھ گیا ۔ پس آنسوؤں نے میرا گلا گھونٹ دیا ۔ میں وہ اشعار دہرانے لگا پھر میں نے خاموشی اختیار کرلی ۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ مصیبت نازل ہوچکی ہے ۔ میری پھوپھی پریشانی کے عالم میں کھڑی ہوگئیں ۔ اور کہنے لگیں ہائے افسوس حسین شہید نہ کئے جاتے ۔ کاش موت آج میری زندگی ختم کردیتی ۔ میری ماں فاطمہ {رض} اور میرے باپ علی {رض} اور میرے بھائی حسن {رض} فوت ہوگئے ہیں ۔ اے چلے جانے والوں کے جانشین اور باقی رہنے والوں کے مددگار ۔
حسین {رض} نے زینب {رض} کی طرف دیکھا اور فرمایا اے میری بہن شیطان آپ کے حوصلے کو ختم نہ کردے
وہ کہنے لگیں اے میرے پیارے بھائی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ نے اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کردیا ہے ۔ زینب {رض} نے اپنے چہرے پر طمانچے مارے اور بےہوش ہوگئیں ۔
حسین {رض} نے آپ کے پاس آکر چہرے پر پانی ڈال کر فرمایا اے میری بہن اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۔ اور اللہ کی رحمت سے اچھی امید رکھو اور اس بات کو ذہن میں رکھو کہ اہل زمین مر جائیں گے اور اہل آسمان بھی باقی نہیں رہیں گے ۔ اللہ تعالی کی ذات اقدس کے علاوہ ہر چیز فنا اور ہلاک ہونے والی ہے ۔ جس ذات نے مخلوق کو اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے وہی ذات ان کو اپنی قوت اور غلبے سے مارے گا اور انہیں دوبارہ زندہ کرکے میدان محشر میں لائے گا ۔ ہم اس ہی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں جو وحدہ لاشریک ہے اور یکتا ہے اور جان لو میرا باپ مجھ سے بہتر تھا اور میری ماں مجھ سے بہتر تھی اور میرا بھائی مجھ سے بہتر تھا ۔ میرے لئے اور ان کے لئے اور ہر مسلمان کے لئے رسول اللہ {ص} کی ذات میں اچھا نمونہ ہے ۔
آپ {رض} نے اپنی بہن کو تنبیہ فرمائی کہ ان کے مرنے کے بعد ان باتوں میں سے کسی کا ارتکاب نہ کرنا
پھر حسین {رض} نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ،یرے پاس واپس بھیج دیا ۔ اور آپ اپنے ساتھیوں کے پاس چلے گئے اور ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیموں کو ایک دوسرے کے نزدیک کرلیں کہ ایک کی رسیاں دوسرے میں داخل ہوجائیں ۔ اور ایک سمت کے علاوہ دشمن کے لیے اپنے پاس آنے کا خطرہ نہ رہنے دیں
حسین {رض} اور آپ کے ساتھیوں نے پوری رات نماز پڑھتے ، استغفار کرتے اور گڑگڑاتے ہوئے دعا کرتے گزاری اور ان کے دشمن کے محافظوں کے گھوڑے ان کے ارد گرد چکر لگاتے رہے ، جن کا لیڈر عزرہ بن قیس احمسی تھا ۔
اس رات حسین {رض} اس آیت کریمہ کو بار بار پڑھ رہے تھے " اور کافر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بھلائی ہے ، ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادتی کریں ، اور ان کے لیے خوار کرنے والا عذاب ہے ۔ اللہ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم اب ہو جب تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے ، "
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابن زیاد کے پہرہ داروں میں سے ایک شخص نے جب ان آیات کو سنا تو وہ کہنے لگا اللہ کی قسم ہم پاک ہیں اور اللہ نے ہمیں آپ سے ممتاز کیا ہے ۔
راوی فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو پہچان لیا ۔ اور میں نے زید بن حضیر سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے یہ کون ہے ؟
انہوں نے کہا معلوم نہیں ہے ۔
میں نے کہا یہ ابوحرب سبیعی عبیداللہ بن شمیر ہے اور یہ بڑا ہنس مکھ ، مذاق کرنے والا ، معزز اور بہت بہادر شخص تھا ۔
اور سعید بن قیس کئی دفعہ اسے قید کرکے اپنے خیمے میں لایا تو یزید بن حصین نے اسے کہا اے فاسق تو کب سے پاکیزہ لوگوں کے ہم پلہ ہوا ہے ؟
اس نے فورا جواب دیا آپ پر ہلاکت نازل ہو ، آپ کون ہیں ؟
اس نے کہا میں یزید بن حصین ہوں
اس نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور کہا اے اللہ کے دشمن اللہ کی قسم تو ہلاک ہوگیا ہے ، وہ کیوں تیرے قتل کا خواہاں ہے ؟
میں نے اسے کہا اے ابوحراب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تو اپنے بڑے بڑے گناہوں سے توبہ کرے ؟ ۔ اللہ کی قسم ہم ہی پاکیزہ لوگ ہیں اور بلاشبہ تم لوگ خبیث ہو ۔
اس نے کہا بات اسی طرح ہے اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں ۔ تیرا برا ہو ، کیا تجھے معرفت فائدہ نہیں دیتی ؟
راوی بیان کرتا ہے جو دستہ ہماری حفاظت کررہا تھا اس کے امیر عزرہ بن قیس نے اسے ڈانٹا تو وہ ہمارے پاس سے چلا گیا ۔
مورخین نے بیان کیا ہے کہ جب عمر بن سعد نے جمعہ کے دن دس محرم کو اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ، بعض کا قول ہے کہ وہ ہفتہ کا دن تھا ۔ جب نماز پڑھائی تو وہ جنگ کے لیے کھڑا ہوگیا ۔ اسی طرح حسین {رض} نے بھی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی جن میں 33 آدمی سوار اور 40 آدمی پیدل تھے ۔
نماز سے واپس آکر آپ {رض} نے ان کی صف بندی کی اور آپ نے اپنے میمنہ پر زہیر بن القین اور میسرہ پر حبیب بن المطہر کو امیر مقرر کیا اور اپنے بھائی عباس بن علی کو جھنڈا دے دیا اور خیموں کو عورتوں سمیت اپنے پس پشت رکھا ۔ حسین {رض} کے حکم سے ان عورتوں نے اپنے خیموں کے پیچھے خندق کھودی اور اس میں لکڑیاں وغیرہ پھینک کر آگ لگادی تاکہ پیچھے سے کوئی شخص ان کے خیموں میں نہ آجائے ۔
( واللہ اعلم )
 
Top