• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*وباؤں سے ہم کیسے نجات پائیں؟*

~~~~؛

علامہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ اپنے ایک فتوی میں طاعون اور اس کی وباء پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں

طاعون سے محفوط رہنے کا طریقہ:

تو ان اسباب سے زیادہ طاقتور کسی دافع کی ضرورت ہے جو ان کا دفاع کر سکے وہ:

1۔ ذکر (الٰہی)، دعا، اللہ تعالیٰ کی جناب پاک میں زاری، گڑگڑانا (یعنی استغفار کرنا)

2۔ صدقہ کرنا

3۔ اور قرآن مجید کی تلاوت ہے

کیونکہ ان چیزوں کے سبب فرشتوں کے ارواح نازل ہوتے ہیں جو ارواحِ خبیثہ کو مغلوب کر کے ان کا اثر باطل کر دیتے ہیں اور ان کی تاثیر دور کر دیتے ہیں۔ ہم نے اور ہمارے احباب نے اس کو اتنی بار آزمایا ہے جس کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (زاد المعاد 4/40)

اس عبارت میں اس بات پر دلالت ہے کہ طاعون جنوں کے نیزہ چوکنے سے ہوتا ہے اور ذکر، دعا اور صدقہ اس کا دافع ہے، لیکن فقیر نے شارع علیہ السلام سے ان چیزوں کی تصریح نہیں پائی مگر عموم ادلہ اس بلا کو بھی شامل ہے اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر غضب اور عذاب ہوتا ہے اور حدیث شریف میں ہے:

الصدقة تطفي غضب الرب (ترمذی/احمد شاکر 3/43 مصابیح 12/50)

یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے صدقہ و خیرات دینے سے خدا کا غضب فرو ہو جاتا ہے

اور علی ھذا القیاس ذکر و استغفار بھی بلا کے ٹالنے کے موجب ہیں۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آفات میں قنوت کا مطلقا پڑھنا منقول ہے تو اس آفت کو بھی شامل ہو گا۔ اسی لئے شیخ الاسلام رملی اور علماء کی ایک جماعت نے فتویٰ دیا ہے کہ طاعون دور کرنے کے لئے قنوت پڑھنا مستحب ہے، اس لئے کہ طاعون بھی بڑی آفات میں سے ہے

اور ائمہ ہر بلا میں دعا کے مستحب ہونے کے قائل ہیں۔

اور شیخ رافعی اور نووی رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ: قنوت کا حوادث کے لئے جیسے وبا وغیرہ، سب فرضوں میں پڑھنا مشروع ہے۔ اسی طرح اعدائے دین شہادت کا سبب ہیں، پس طاعون میں بطریق اولیٰ مستحب ہونا چاہیے

اور دعائے مذکور سے یہ نہیں لازم آتا کہ یہ دعاء صحت و شہادت کے دور کرنے کے لئے ہے، کیونکہ اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ ہمارے دشمن جنوں کو ہم پر مسلط نہ کرے، بلکہ ان پر غالب کر دے۔

اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح ابیات التثبیت میں ہے کہ: طاعون اور وبا کو دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھنا مجرب ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن
صفحہ:360

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*

~~~~؛

*وبائی امراض اور آفات کے متعلق احکامات*

*حصولِ شفا کیلئے صدقہ و قربانی کرنا*

~~~~؛

سوال
میرا چچا زاد ایک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے، اور ڈاکٹروں کے مطابق اسکے بچنے کی پچاس فیصد امید ہے، ہمیں کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کیلئے ذبح کردو، تو کیا ہمارے لئے ایسے کرنا جائز ہوگا؟

~~~~؛

الحمد للہ:

اگر اللہ کیلئے ذبح کرنے کے بعد اس گوشت کے کچھ حصے کو فقراء اور مساکین پر تقسیم کرنا مقصود ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو) ابو داود نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے، اسے طبرانی اور بیہقی وغیرہ نے متعدد صحابہ کرام سے روایت کیا ہے، جسکی تمام تر اسانید ضعیف ہیں، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی (744) پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔

دائمی کمیٹی برائے فتوٰی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا :

"برائے مہربانی -اللہ آپکی حفاظت فرمائے- حدیث (داووا مرضاكم بالصدقة) ترجمہ: اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو ، کا مطلب سمجھا دیں، جسے بیہقی نے سنن الکبری (3/382) پر بیان کیا ہے، جسے اکثر محدثین کرام مریض کا علاج جانور کے ذبح کرنے کے حوالے سے ضعیف قرار دیتے ہیں، تو کیا مریض سے مصیبت ٹالنے کیلئے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"مذکورہ حدیث درست نہیں ہے، لیکن مریض کی جانب سے اللہ کا قرب حاصل کرنے اور شفا یابی کی امید رکھتے ہوئے صدقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ صدقہ کی فضیلت میں بہت سے دلائل موجود ہیں، اور صدقہ سے گناہ مٹا دئے جاتے ہیں، اور بری موت سے انسان دور ہوجاتا ہے" انتہی

"فتاوى اللجنة الدائمة" (24/441)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"صدقہ مفید اور سود مند علاج ہے، اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے، اور مرض کی شدت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے، اس بات کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(صدقہ گناہوں کو ایسے مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بھجا دیتا ہے) -اسے احمد نے روایت کیا(3/399)- ہو سکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر لوگوں کو لاحق ہو جاتے ہوں، تو جیسے ہی مریض کے ورثاء اسکی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اسکا گناہ دُھل جاتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، جس سے دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے، اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے" انتہی

"الفتاوى الشرعية في المسائل الطبية" (2/سوال نمبر: 15)

چنانچہ اللہ کیلئے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس قربانی کا مقصد مریض کی جانب سے شفا کی امید کرتے ہوئے صدقہ کرنا ہے، جس سے امید ہے کہ اللہ تعالی اسے شفا دے گا۔

لیکن بکری خاص کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ اصل مقصود صدقہ یا قربانی کی شکل میں جانور ذبح کرنا ہے، اس لئے قربانی کے لائق جو بھی جانور میسر ہو اسے آپ ذبح کردیں، چاہے بکری ہو یا کوئی اور قابلِ قربانی جانور۔

واللہ اعلم .

https://islamqa.info/ur/categories/selected/45/answers/107549/

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*

~~~~؛

*وبائی امراض اور آفات کے متعلق احکامات*

*گناہوں (شرک، کفر، نفاق، بدعات، محرمات، کبائر، ظلم، حقوق کی پامالی) سے نجات تو وباؤں، پریشانیوں سے نجات*

*کرونا وائرس آزمائش یا عذاب*

~~~~؛

سوال:
اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلیے ہے؟

~~~~؛

جواب:

الحمد للہ:

کتاب و سنت میں مصیبتوں اور پریشانیوں کے اللہ تعالی کی حکمت اور قضا و قدر کے علاوہ دو براہ راست اسباب ہیں:

1- انسان کی طرف سے کیے جانے والے گناہ اور نافرمانیاں، چاہے یہ گناہ کفر کی حد تک ہوں یا پھر عام گناہوں یا کبیرہ گناہوں سے تعلق رکھتے ہوں، چنانچہ جزا اور فوری سزا کے طور پر اللہ تعالی کی طرف سے گناہ گار شخص کو مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ )
ترجمہ: آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچے تو یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہے۔[النساء:79]
مفسرین کہتے ہیں: یعنی: آپ کے گناہوں کی وجہ سے ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
( وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ)
ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے، [حالانکہ] اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ [ الشورى:30 ]
دیکھیں: "تفسیر القرآن العظیم" (2/363)

اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب اللہ تعالی کسی بندے کیساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور اگر کسی بندے کیساتھ برا ارادہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دیتا، تا کہ قیامت کے روز اسے مکمل سزا ملے)
اس روایت کو ترمذی: (2396) نے روایت کیا ہے اور حسن کہا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے سے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

2- دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے صابر اور مؤمن بندے کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو اور صبر کرے ، نتیجے میں اللہ تعالی اسے آخرت میں صابرین کے اجر سے نوازے، اور اپنے ہاں اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دے، یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیائے کرام اور نیک لوگوں کو بھی آخر دم تک مصیبتوں کا سامنا رہا، اللہ تعالی نے ان کیلیے ان مصیبتوں کو جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں کوئی ایسا درجہ مختص ہو جسے پانے کیلیے انسان کے اعمال ناکافی ہو تو اللہ تعالی اس کو جسم، مال، یا اولاد کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے)
ابو داود: (3090) اسے البانی نے سلسلہ صحیحہ : (2599)میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جتنی آزمائش کڑی ہو گی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا، اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اللہ تعالی کی آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرے اس کیلیے اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی ہوتی ہے)
اس حدیث کو ترمذی : (2396) روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا، نیز شیخ البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (146) میں صحیح قرار دیا ہے۔

مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے مذکورہ دونوں اسباب عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل حدیث میں یکجا جمع ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی کانٹا یا اس سے بڑی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے، یا اس کا گناہ مٹا دیتا ہے)
بخاری: (5641) مسلم: (2573)

پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اسباب یکجا ہو جاتے ہیں، اور ان کے یکجا ہونے کی مثالیں الگ الگ ہونے سے زیادہ ہیں: جیسے کہ آپ کو عام دیکھنے میں ملے گا کہ: جسے اللہ تعالی کسی مصیبت میں مبتلا فرمائے اور وہ اس پر صبر و شکر کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جنت میں درجات بلند کر دیتا ہے ، نیز اسے صابرین کے اجر سے بھی نوازتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالی مصیبتوں میں اس لیے مبتلا فرماتا ہے تا کہ وہ جنت میں اپنے لیے مختص درجے تک پہنچ سکے تو اس کے بھی گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، نیز اس مصیبت کو دنیاوی سزا شمار کر لیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے مزید سزا نہیں ملے گی، جیسے کہ کچھ انبیائے کرام کیساتھ ایسا ہوا، مثال کے طور پر: آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام، کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کیا، اور یونس بن متی علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا، تو اللہ تعالی نے دونوں کے درجات اس لیے بلند فرمائے کہ انہوں نے ان پر صبر کیا اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھی، چنانچہ ان کیلیے یہ مصیبت یونس اور آدم علیہماالسلام سے سر زد ہونے والی غلطی کا کفارہ بن گئی۔

آپ کی مزید رہنمائی کیلیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیاوی سزا اخروی سزا سے منسلک ہوتی ہے جدا نہیں ہوتی، نیز مذکورہ دونوں اسباب کا تذکرہ یکجا متعدد صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے، جیسے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں کی آزمائش سخت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام کی، ان کے بعد جو جس قدر انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا انہیں اسی قدر آزمائش میں ڈالا جائے گا، چنانچہ ایک آدمی کو اس کی دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے، جتنی دینداری ٹھوس ہوگی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوگی، اور اگر اس کی دینی حالت پتلی ہوگی تو اس کی آزمائش بھی کم ہوگی، حتی کہ آزمائشیں انسان کے گناہوں کو مکمل طور پر مٹا دیتی ہیں اور انسان زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا)
ترمذی: (2398) نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ۔

لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ دونوں اسباب میں سے کوئی ایک سبب دوسرے کی بہ نسبت زیادہ عیاں ہو، اور اس فرق کو مصیبت سے متعلقہ دیگر قرائن اور شواہد کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے:

چنانچہ اگر مصیبت زدہ شخص کافر ہو تو ایسی صورت میں اس کی آزمائش بلندیِ درجات کیلیے نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قیامت کے دن کافر کی نیکیوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، لیکن اس مصیبت کی وجہ سے دیگر لوگوں کو نصیحت ہو سکتی ہے کہ وہ مصیبت زدہ کافر کو دیکھ کر سیدھے ہو جائیں اور کافر جیسی غلطی خود نہ کریں، بسا اوقات کافر کیلیے پیش آمدہ مصیبت دنیاوی عذاب کا حصہ ہوتی ہے جبکہ آخرت میں ملنے والا عذاب اس کے علاوہ ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي الأرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ [33] لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ )
ترجمہ: [الرعد :33-34]

اور اگر مصیبت زدہ شخص مسلمان لیکن گناہ کر کے دوسروں کو بتلانے والا ہو یا ایسا فاسق ہو جس کے فسق کا سب کو علم ہو تو ایسی صورت میں پیش آمدہ مصیبت گناہ مٹانے کیلیے دی جانے والی جزا اور سزا زیادہ محسوس ہوتی ہے؛ کیونکہ درجات کی بلندی سے قبل گناہوں کا خاتمہ پہلے کیا جاتا ہے، اور گناہ گار کو درجات کی بلندی سے پہلے گناہوں کی صفائی اور کفارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب اگر کوئی نیک عبادت گزار مسلمان مصیبت زدہ ہو ، اس شخص نے کبھی اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کی ہو ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی میں مگن رہتا ہو، حمد و شکر زبان پر جاری رہے، اللہ سے لو اور ناتا جوڑ کر رکھے، تو ایسے مسلمان کے متعلق یہی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ : پیش آمدہ مصیبت درجات کی بلندی کیلیے ہے۔

جتنے بھی لوگ ہیں یہ زمین پر اللہ تعالی کے گواہ ہیں ، چنانچہ اگر کسی شخص کی نیکی اور تقوی کا علم ہو اور پھر اسے مصیبت زدہ پائیں تو وہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ تعالی کی جانب سے بلندیِ درجات کی خوشخبری اور نوید سنا سکتے ہیں۔

لیکن اگر مصیبت زدہ شخص نے جزع فزع سے کام لیا تو ایسی صورت میں اس مصیبت کو بلندی ِ درجات کا سبب نہیں سمجھا جائے گا؛ کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالی کے فیصلے پر بے صبری اور ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے، تو ایسی صورت میں یہ مصیبت جزا اور سزا سے تعلق رکھے گی۔

کچھ نیک لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ: "مصیبتیں اس وقت سزا ہوتی ہیں جب مصیبت آن پڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ ہو اور لوگوں کے سامنے شکوی شکایت کی جائے"

جبکہ مصیبت گناہوں کا کفارہ اس وقت بنتی ہے جب مصیبت پڑنے پر شکوی شکایت نہ کی جائے بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا جائے، آہ و بکا، اور دیگر احکاماتِ الہیہ کی ادائیگی میں بوجھ محسوس نہ کیا جائے۔

نیز مصیبتیں بلندیِ درجات کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب مصیبت پڑنے پر اللہ تعالی کے اس فیصلے کو مکمل رضا مندی سے قبول کرے، دل مطمئن رہے، اور تقدیری فیصلوں پر افراتفری کا شکار نہ ہو، یہاں تک کہ تقدیری فیصلے ٹل جائیں" انتہی

مذکورہ باتیں حتمی نہیں ہیں بلکہ قرائن و شواہد ہیں انہیں بروئے کار لا کر انسان مصیبتوں اور تکلیفوں کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے، لیکن ان کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی نہ تو اپنے بارے میں اور نہ ہی کسی اور کے بارے میں۔

عین ممکن ہے کہ سابقہ لمبی چوڑی تفصیل سے زیادہ اہم بات یہ ہو کہ:

انسان کیلیے قابل غور و فکر عملی پہلو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک خیر و برکت کا باعث ہے جب تک مصیبت پر صبر کرے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے، اور دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک شر اور نقصان کا باعث ہے جب تک وہ جزع فزع سے کام لے۔

چنانچہ اگر انسان اپنے آپ کو مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے، اللہ تعالی کے فیصلوں پر اظہار رضا مندی کرے تو مصیبت کا سبب علم میں ہو یا نہ ہو اس سے اُسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بلکہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے، اپنے اندر کی کمی کوتاہی کو تلاش کرے، جہاں خلل پیدا ہوا ہے اس ڈھونڈے کیونکہ ہم سب غلطیوں کے پتلے ہیں، کون ہے جو اللہ تعالی کے بارے میں سستی اور کوتاہی کا شکار نہیں ہے؟ اگر جنگ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی مخالفت کی پاداش میں اللہ تعالی مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں مشرکوں کے ہاتھوں شہید کروا سکتا ہے حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، انبیائے کرام اور رسولوں کے بعد افضل ترین شخصیتوں کے مالک تھے، تو ایک عام آدمی ہر مصیبت کے بدلے میں بلندیِ درجات کا خواہش مند کیسے ہو سکتا ہے؟!!

ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ جس وقت سخت اندھیری اور بادلوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتے تو کہتے: "یہ سب میرے گناہوں کی وجہ سے ہے، اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو تمہیں اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا"

اگر ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کا یہ حال تھا تو ہماری کیا حالت ہونی چاہیے؟!

ان تمام باتوں سے ہٹ کر اہم ترین بات یہ ہے کہ:

انسان اللہ تعالی کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھے، ہر حالت میں اللہ تعالی کے بارے میں اچھی سوچ ذہن میں لائے، کیونکہ وہی بخشنے والا اور ڈر کا مستحق ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم پر اپنی رحمت فرمائے اور ہمیں بخش دے، ہمیں کار آمد علم سکھائے، اور مصیبت پڑنے پر ہمیں اجر سے نوازے، بیشک وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔

مزید کیلیے سوال نمبر: (https://islamqa.info/ur/answers/13205) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

https://islamqa.info/ur/categories/selected/45/answers/112905/

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*

~~~~؛

*لا یعنی چیزوں سے بچیں*
*رجوع الی اللہ میں جلدی کریں*

~~~~؛

وَلَنـــُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰى دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَكۡبَرِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ۞

ترجمہ:
اور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزا چکھائیں گے، شاید کہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں.
(سورہ سجدہ 32 : آیت 21)

اللّٰہ سے رجوع کرنے میں دیر نہ کریں، بے شک اُس نے عرشِ الہٰی پر تحریر لِکھ دِی ہے
”میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے“
(حدیث متفق علیہ)

زبانی استغفار قابلِ تعریف ہے لیکن اب عملی استغفار کی اشد ضرورت ہے۔

اپنے گناہوں، ناپسندیدہ کاموں کا جائزہ لیں اور چھوڑنا شروع کردیں۔۔

اسی طرح لایعنی کام بھی رفتہ رفتہ کم کرتے جائیں۔

لا یعنی کام جن میں نہ دین کا فائدہ ہو اور نہ دنیا کا فائدہ۔

بہت بڑی آفات دستک دے چکی ہیں، ایسی آفات جو بڑے پیمانے پر روحانی تبدیلیاں مانگ رہی ہیں.

اسی میں بقا ہے۔

بہت بڑے فتنے کُھل چکے اور مزید تیزی سے کُھلنے والے ہیں جن کے سامنے پچھلے فتنے چھوٹے معلوم ہو رہے ہیں، ان فتنوں سے بچنا ہے تو رجوع الی اللہ کی پناہ میں آنا ہوگا۔ گناہ چھوڑنے ہونگے، اگر مگر کا رویہ ترک کرنا ہوگا اور جلد از جلد کرنا ہوگا۔۔۔

صبح کی خاموش اور پرسکون روشنی کا مالک میرا الله آپکو‎ ‎تمام مشکلات، آفات اور شیطان کے شر اور ظالم کے ظلم سے محفوظ رکھے .

اے اللہ پاک دنیا کے جس مقام پر بھی بے کس کمزور مظلوم مسلمان ہیں ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا۔۔۔
آمین

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*

~~~~؛

*صبح شام کے اذکار کی پابندی اور دیگر دعاؤں کے ذریعہ کرونا وبا کے شر سے بچیں*

~~~~؛

ابان بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص تین بار یہ کہے: " بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ "[اللہ کے نام سے(میں صبح یا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)، اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں دیتی، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے]تو اسے صبح تک کوئی اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی اور جو یہ کلمات صبح کے وقت کہے تو شام تک اسے اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی)
راوی کہتے ہیں کہ: ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہو گیا اور ایک آدمی جس نے ابان سے یہ حدیث سنی تھی ابان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہا تھا تو ابان نے پوچھا : تم میری طرف کیسے دیکھ رہے ہو!؟ اللہ کی قسم! میں نے عثمان پر جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا تھا، اصل بات یہ ہے کہ جس دن مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے میں غصے میں تھا اور یہ دعا پڑھنا بھول گیا۔
ابو داود (5088) اور ترمذی نے اس روایت کو حدیث نمبر: (3388) میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
(جو شخص روزانہ تین صبح اور شام کہے: " بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ "[اللہ کے نام سے(میں صبح یا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)، اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں دیتی، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے]تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا)
روایت ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث "حسن اور غریب ہے" اس حدیث کو ابن قیم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " (2/338) میں اور البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر عبد الرزاق البدر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ دعا ان عظیم اذکار میں سے ہے جن کی ہر مسلمان کو صبح اور شام کے وقت پابندی کرنی چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کے حکم سے اچانک پہنچی والی بلاؤں مصیبتوں اور نقصانات وغیرہ سے محفوظ رہے۔
قرطبی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے، یہ حدیث صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اس پر ہمیں دلیل اور تجربے ہر دو طرح سے اطمینان ہے؛ کیونکہ میں نے جب سے یہ روایت سنی تھی میں پابندی سے یہ دعا پڑھا کرتا تھا ، پھر جب مجھ سے چھوٹ گئی تو مجھے مدینہ میں رات کے وقت ایک بچھو نے کاٹ لیا، تو میں نے خوب سوچ و بچار کی تو مجھے یاد آیا کہ میں نے ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالی کی پناہ حاصل نہیں کی تھی" انتہی
دیکھیں: " الفتوحات الربانية " از: ابن علان (3/100)

یہ دعا پڑھنے کیلیے سنت یہی ہے کہ صبح و شام تین ، تین بار اسے پڑھا جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھنے کیلیے یہی عدد بتلایا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: " الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ" اس کا مطلب یہ ہے کہ: جو شخص بھی اللہ تعالی کا نام لے کر اس کی پناہ میں آتا ہے تو اسے آسمان یا زمین کسی بھی جانب سے کوئی مصیبت نہیں پہنچتی۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: " وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ " اس کا مطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالی اپنے بندوں کی باتوں کو سننے والا ہے، بندوں کے افعال جاننے والا ہے، اللہ تعالی کے سامنے کسی کا کوئی عمل چاہے وہ زمین میں ہو یا آسمان میں اللہ تعالی سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔

نیز صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ! مجھے کل رات ایک بچھو نے ڈنگ مار دیا ہے، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم شام کے وقت کہہ دیتے: " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"[میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ذریعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ] تو تمہیں بچھو ڈنگ نہ مارتا)" مسلم: (2709)

اور اسی طرح ترمذی کی روایت میں ہے کہ:
(جو شخص شام کے وقت تین بار کہے: " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ" [میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ذریعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ]تو اس رات کوئی بھی زہریلی چیز اسے نقصان نہ دے) ترمذی: (3604)

حدیث کے عربی متن میں " اَلْحُمَةُ "کا لفظ ہے جس کا معنی ہے: کوئی بھی زہریلی چیز مثلاً: بچھو وغیرہ ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے سہیل بن ابو صالح –مذکورہ حدیث کے راوی-کی یہ روایت ذکر کر کے ذکر کیا کہ : سہیل بن ابو صالح کہتے ہیں: ہمارے تمام بچوں اور گھر والوں نے یہ دعا سیکھی ہوئی تھی ، چنانچہ سب گھر والے روزانہ ہر رات کو یہ دعا پڑھا کرتے تھے، ایک رات ایک بچی کو بچھو نے ڈنگ مارا تو بچی کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

یہ حدیث اس دعا کی فضیلت کیلیے دلیل ہے، چنانچہ جو شخص شام کے وقت یہ دعا پڑھے تو وہ اللہ تعالی کے حکم سے سانپ کے ڈسنے یا بچھو وغیرہ کے ڈنگ مارنے سے محفوظ رہے گا" انتہی مختصراً
" فقه الأدعية والأذكار " (3/12-14)

اللہ تعالی کے حکم سے نقصانات اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ بننے والے اذکار میں عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کی روایت بھی شامل ہے، آپ کہتے ہیں: "ہم ایک اندھیری اور سخت بارش والی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کیلیے نکلے تا کہ آپ نماز پڑھا دیں، تو ہم نے آپ کو تلاش کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا: (کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟) تو اس پر میں نے کچھ نہیں کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ، دوسری بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ، تیسری بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) تو میں نے کہا اللہ کے رسول کیا کہوں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (تم سورہ اخلاص ، سورہ الفلق اور سورہ الناس صبح اور شام تین ، تین بار پڑھو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گیں)"
ابو داود : (5082) اور ترمذی: (3575) نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن صحیح اور غریب" قرار دیا، جبکہ نووی رحمہ اللہ نے اسے "الأذكار" (ص/107) میں صحیح الاسناد کہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ: مذکورہ بالا دعائیں اور اذکار اللہ تعالی کے حکم سے مسلمان کو ہمہ قسم کے نقصان اور تکلیف سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، تاہم یہ تحفظ اللہ تعالی کی مشیئت کے ساتھ منسلک ہے، چنانچہ اگر کسی شخص کو ان اذکار کے پڑھنے کے باوجود کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ اللہ تعالی کی مشیئت اور فیصلے کے تحت ہوتا ہے، یہ اللہ تعالی کی کمال حکمت اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ )
ترجمہ: اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔[الرعد:11]

اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ: " يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ" سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کو آگے پیچھے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن جب اللہ تعالی کی طرف سے تقدیری فیصلہ آ جائے تو کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔

اور اسی طرح مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہر انسان پر ایک موکل فرشتہ ضرور ہوتا ہے، یہ فرشتہ اس انسان کو سوتے اور جاگتے جناتی یا انسانی شیطانوں سے تحفظ دیتے ہیں، چنانچہ کوئی بھی چیز انسان کو نقصان پہنچانے کیلیے آتی ہے تو یہ موکل فرشتہ اسے کہتا ہے: "الٹے قدموں واپس ہو جاؤ" لیکن جو چیز اللہ تعالی کے حکم سے آئے تو وہ اس انسان کو پہنچ کر رہتی ہے۔
"تفسیر ابن کثیر" (4/438)

https://islamqa.info/ur/categories/selected/45/answers/126587/

~~~~؛

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح یا شام کے وقت ان کلمات کی پابندی کیا کرتے تھے:

*اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي*
[ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت طلب کرتا ہوں ۔ یا اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا، اور اہل خانہ سمیت اپنی املاک کے متعلق بھی معافی اور عافیت کا درخواست گزار ہوں ۔ یا اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔ اور مجھے میرے خدشات و خطرات سے امن عطا فرما ۔یا اللہ ! میرے آگے ، میرے پیچھے ، میرے دائیں ، میرے بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں ۔]

اس حدیث کو ابو داود: (5074) اور ابن ماجہ: (3871) نے روایت کیا ہے، اور شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح ابو دواد میں صحیح قرار دیا ہے۔"

الشیخ ابو الحسن مبارکپوری رحمہ اللہ اس دعا کی شرح میں کہتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ یعنی مطلب یہ ہے کہ: دینی امور میں آزمائشوں اور دنیاوی سختیوں سے سلامتی اور تحفظ کا طلب گار ہوں۔
اس کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیماری اور وبا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
تیسرا معنی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ: اللہ تعالی ان بیماریوں میں مبتلا نہ کرے، اور اگر کر بھی دے تو اس پر صبر کرنے اور اللہ کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنے کی توفیق دے۔

لفظ " الْعَافِيَةَ " عربی زبان میں فعل " عَافَى" کا مصدر ہے یا اسم ہے، اس کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب القاموس کہتے ہیں کہ: "عافیت: اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے تحفظ کو کہتے ہیں، چنانچہ عربی جملہ: عَافَاهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْمَكْرُوْهِ عَفَاءً وَمُعَافَاةً وَعَافِيَةً اس وقت کہا جاتا ہے جب اللہ تعالی کسی بندے کو بیماریوں، بلاؤں اور تکالیف سے بچا لے، اس کا معنی عربی لفظ: "أَعْفَاهُ" جیسا ہے۔"

نیز اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ کا مطلب ہے: یا اللہ میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور ان سے در گزر کا مطالبہ کرتا ہوں۔
وَالْعَافِيَةَ یعنی عیوب سے پاکی۔
" فِي دِينِي وَدُنْيَايَ "یعنی دینی اور دنیاوی تمام امور میں " ختم شد
" مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح " ( 8 / 139 )

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں عموما یہ الفاظ شامل ہوتے تھے کہ:

*اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ*
[ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے تیری نعمتوں کے زوال، تیری جانب سے عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔]
اس حدیث کو امام مسلم: (2739) نے روایت کیا ہے۔

مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حدیث میں مذکور: وَتَحَوُّلِ کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کسی دوسری چیز سے جدا ہو جائے؛ گویا کہ یہاں پر ہمیشہ کی عافیت اللہ تعالی سے مانگی گئی ہے، اور ہمیشہ کی عافیت کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی بیماری اور تکلیفیں نہ پہنچیں۔" ختم شد
" فيض القدير " ( 2 / 140 )

سنن ابو داود کے شارح علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں وَتَحَوُّلِ العَافِيَة کا مطلب یہ ہے کہ: صحت بیماری میں بدل جائے اور دولت غربت سے بدل جائے۔" ختم شد
" عون المعبود شرح سنن أبي داود " ( 4 / 283 )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

*اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَيِّئْ الْأَسْقَامِ*
[ترجمہ: اے اللہ ! میں برص، پاگل پن ، کوڑھ اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔]

اس حدیث کو امام احمد: (12592)، ابو داود: (1554) اور نسائی: (5493) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر بیماریوں سے پناہ نہیں مانگی؛ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ بیماریوں کی تکلیف کم ہوتی ہے لیکن اس بیماری پر صبر کی بدولت ملنے والا اجر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور وہ بیماریاں دائمی بھی نہیں ہوتیں بلکہ عارضی ہوتی ہیں، جیسے کہ بخار، سر درد، اور آنکھ درد وغیرہ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائمی بیماریوں سے پناہ مانگی ہے؛ کیونکہ انسان دائمی بیماری سے خود بھی تنگ آ جاتا ہے، اور دوست احباب بھی متنفر سے ہو جاتے ہیں، لوگ بات چیت اور علاج معالجے کے لیے بھی نہیں آتےاور انسان خود اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے۔"
علامہ طیبی کی گفتگو عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ابو داود کی شرح "عون المعبود" میں ذکر کی ہے۔

واللہ اعلم

https://islamqa.info/ur/answers/139554/بیماریوں-اور-وباوں-سے-بچاو-کی-دعاىیں-اور-اذکار

~~~~؛

ان دعاؤں کو بھی پڑھ سکتا ہے.

وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَتْ فَقَدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےْلَۃً مِّنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُہُ فَوَقَعَتْ ےَدِیْ عَلٰی بَطْنِ قَدَمَےْہِ وَھُوَ فِی الْمَسْجِدِ وَھُمَا مَنْصُوْبَتَانِ وَےَقُوْلُ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَےْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَےْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔
(صحیح مسلم)

ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رحمت عالم ﷺ کو بستر پر موجود نہ پایا، میں آپ ﷺ کو تلاش کر رہی تھی کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کے پاؤں کو جا لگا (چنانچہ میں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ بار گاہ الہٰی میں سجدہ ریز تھے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں مبارک کھڑے ہوئے تھے اور آپ ﷺ یہ کہہ رہے تھے

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَا فَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِہ ثَنَا ئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَاَ اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ

اے اللہ ! میں تیری خوشنودی کے ذریعے تیرے غیظ و غضب سے (یعنی ان افعال سے مجھ پر یا میری امت پر تیرے غضب کا ذریعہ بنیں) پناہ مانگتا ہوں، تیری معافی کے ذریعے تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے (یعنی تیری رحمت کے ذریعے تیرے قہر سے) پناہ کا طلبگار ہوں۔ میں تیری تعریف کا شمار و احاطہ نہیں کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ خود تو نے اپنی تعریف کی ہے۔
( صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ 857 )


اللهم إني أعوذبك مِنْ جَهْدِ الْبَلاَءِ ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ.

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم تعوذوا بالله من جهد البلاء ودرك الشقاء وسوء القضاء وشماتة الأعداء

ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بلاء کی مشقت سے بدبختی کے پہنچنے سے، بری تقدر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے اللہ کی پناہ مانگو۔
( بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ 2487 )


وعن عبد بن عمر قال : كان من دعاء رسول الله صلى الله عليه سوسلم : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ . رواه مسلم

ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہوتی تھی۔ دعا
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ) ۔
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کے زوال سے اور تیری عافیت کی تبدیلی سے (مثلاً صحت کے بدلے بیمار) تیرے ناگہانی عذاب سے اور تمام ترے غُصوں سے۔
(مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ 2491 )


اللهم جَنِّبنِي مُنكَراتِ الأخلاقِ والأعمالِ والأهواءِ والأدوَاءِ.

(اے اللہ مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے دور رکھ)

أخرجه الطبراني في الدعاء (3/ 1447) وغيره، وصححه الألباني في ظلال الجنة رقم: (13)، وشيخ مقبلٌ في الجامع الصحيح (2/ 414)، عن قطبة بن مالك رضي الله عنه

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*

*وبائی امراض اور آفات کے متعلق احکامات*


~~~~؛


*قرآن سے شفاء حاصل کر کے*

*قرآن میں اللہ نے شفاء رکھی ہے*


~~~~؛


قرآن کریم کے شفا ہونے پر ذیل میں چند ایک آیات پیش کی جاتی ہیں :

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سرا سر شفا اوررحمت ہے الاسراء ( 82 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :

اللہ تعالی کا یہ فرمان : یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سرا سر شفا اوررحمت ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہاں پر ( من ) جنس کے بیان کے لۓ ہے نہ کہ تبعیضیہ اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ :

اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصحیت اور جو کچھ سینوں میں روگ ہے اس کی شفاآئ ہے

تو قرآن کریم تمام قلبی اور بدنی بیماریوں کا علاج اور شفاہے اور اسی دنیا وآخرت کی بھی دوا ہے ، تو ہر ایک اس شفا کا اہل بھی نہیں اور نہ ہی اسے توفیق ملتی ہے ، لیکن جب بیمار آدمی علاج کرنے میں صحیح توجہ سے اس علاج پر عمل کرے اور اسے صدق دل اور ایمان ویقین اور اسے قبول اور پختہ اعتقاد اور اس علاج کی شروط پوری کرتے ہوۓ اپنی بیماری پر رکھے تو پھر اس کے آگے بیماری کبھی ٹھر ہی نہیں سکتی ۔

پھر یہ بیماری اس کلام اللہ کے آگے کیسے ٹھر سکتی ہے جو اگر پہاڑوں تر اتارا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے ، یا زمین پر اتارا جاتا تو اسے وہ ٹکڑے کردیتا ، تودلوں اور بدنوں کا کوئ ایسا مرض نہیں جس کے متعلق قرآن کر یم راہنمائ نہ کرے اور اس کے سبب اور اس سے بچاؤ کا طریقہ نہ بتاۓ لیکن یہ سب اس کے لۓ ہے جسے اللہ تعالی کتاب اللہ کی سمجھ عطافرماۓ ۔زاد المعاد ( 4 / 352 )

ب : اور قرآن کریم میں روحوں اور دلوں کا علاج ہے تو جواس پر صحیح طور پر عمل کرے تو اس کے لۓ قرآن کریم امراض اور آفات سے بچاؤ اور انہیں اس کے بدن سے دوکردے گا ، تو اس لحاظ سے بہت ساری امراض کا علاج اور ان کے لۓ شفا ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ :

ہم نے ذاتی طور پر اور ہمارے علاوہ دوسروں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے کہ یہ ایسا کام کرتا ہے جو کہ ادویہ حسیہ سے نہیں ہوۓ بلکہ اطباء کے ہاں تو ادویہ حسیہ اس کے سامنے ھیچ ہیں ، اور یہ حکمت الہیہ کے قانون سے خارج نہیں بلکہ اس میں داخل ہے ، لیکن اسباب کئ ایک قسم کے ہیں تو جب دلی طور پر اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ اور لگاؤ ہو گا جوکہ بیماری اور دوائ دونوں کا خالق اور طبیعتوں کا مدبر اور اس میں جس طرح چاہے تصرف کرنے والا ہے تواس دل کے لۓ کچھ ایسی دوائیاں اور علاج بھی ہیں جو جو اللہ تعالی سے اعراض کرنے والے کے دل سے دور ہیں ۔

یہ تو سب کے علم میں ہے کہ جب روح قوی اور طاقتور ہوتو نفس اور طبیعت بھی قوی ہو کر بیماری اور سختی کو دورکرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں ، تو اس کا انکار اس شخص سے کیسے کیا جاسکتا ہے جس کی طبیعت اور نفس اللہ تعالی کی محبت وانس اور اس کے ذکر سے قوی ہو اور مکمل طور پر سارے اعضاء کو اللہ تعالی کے مطیع کیۓ رکھے اور اللہ تعالی پر توکل کرے تو اس کے لۓ یہ سب سے اعلی اور بڑی دوائ اور علاج ثابت ہوگا اور اسے وہ قوت اور طاقت پہنچے گي جو سب کی سب بیماریوں اور تکلیفوں کو ختم کرکے رکھ دے گي ، اور اس کا انکار تو صرف وہی شخص کرے گا جو کہ اجھل الناس اوراللہ تعالی سے بہت ہی زیادہ دور رہنے والا اور حقیقت انسانی سے بھی دور ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کثیف النفس بھی ہو ۔زاد المعاد ( 4/12 )۔

ج : اور قرآن کریم میں سورۃ فاتحۃ بھی ہے جو کہ امراض کا علاج ہے ۔

ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر پر گۓ اور ایک عرب قوم کے ایک قبیلہ کے مہمان بنے تو انہوں مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا ، ( اللہ کا کرنا ایسا ہوا ) کہ قبیلہ کے سردارکو کسی چیز نے ڈس لیا تو انہوں نے ہر قسم کا علاج کردیکھا لکین کوئ فائدہ نہ ہوا ، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اگرتم اس قافلے والوں کے پاس جا‎ؤ تو ہو سکتا ہے ان کےپاس کچھ ہو ، تو وہ لوگ ان کے پاس آۓ اور کہنے لگے اے قافلہ والو ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم ہر قسم کا علاج کرچکے ہیں لیکن اسے کو‎ئ افاقہ نہیں ہوا تو کیا تمہارے پاس کوئ علا ج ہے ؟ تو صحابہ میں سے ایک نے کہا جی ہاں اللہ تعالی کی قسم میں دم کرتا ہوں ، لیکن ایک بات ہے اللہ تعالی کی قسم ہم نے تم سے مہمان نوازي کا تقاضا کیا تو تم نے انکار کیا تو اب میں بھی اس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم اس کا معاوضہ نہیں دیتے ، تووہ بکریوں کا ایک ریوڑ دینے پر رضامندہوگۓ ، تو وہ صحابی رضي اللہ تعالی عنہ ان کے ساتھ گۓ اور اس پر ( الحمد لله رب العالمين ) پڑھ کر دم کیا تو وہ صحیح اور ہشاش بشاش ہوگيا گویا کہ اسے کسی چیز نے جگڑ رکھا ہو وہ اب وہ اس سے آزاد ہوا ہو اور بغیرکس تکلیف کے چلنے پھرنے لگا ۔

ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : انہوں نے اپنے اس وعدہ کو پورا کرتے ہوۓ بکریاں دے دیں ، صحابہ میں سے ایک نے کہا کہ اسے تقسیم کرو ، تو جس نے دم کی تھا وہ کہنے لگا یہ کام اس وقت نہ کرو جب تک کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس کا بتا نہ لیں اور پھر جو وہ حکم دیں اس پر عمل کریں ۔

صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اور اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے کہ تجھے کیسے پتہ چلا کہ یہ دم ہے ؟ پھر فرمایا تم نے صحیح کام کیا ہے اسے تقسیم کرو اور اس میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2156 ) صحیح مسلم ( 2201 ) ۔

قلبۃ : یہ ایک بیماری یا ایسی درد ہے جس سے انسان لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی سورۃ فاتحۃ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ :

اور جسے توفیق ملے اور اور وہ نور بصیرت کی بصارت سے اس سورۃ کو دیکھے تو اسے اس سورۃ کے رازوں اور اس میں جو اللہ تعالی کی تو حید اور اللہ تعالی کی ذات اور اسماء وصفات کی معرفت بیان کی گئ ہے وہ ملے گی اور اسی طرح شریعت اور تقدیر اور روزقیامت کا ثبوت مہیا ہوگا اور اسی طرح اسے توحید ربوبیت اور الوھیت کا بھی علم اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ اللہ تعالی پر ہی مکمل توکل اور سب معاملات بھی اسی کے سپرد کۓ جائيں اور سب قسم کی حمدوثنا اور سارے کا سارا امرو حکم اسی کی ہے اسی کے ھاتھ میں ہر قسم کی بھلائ اور اسی کی طرف سب معاملے پلٹتے ہیں ۔

اور وہ ھدایت جس میں دارین کی سعادت پنہاں ہے وہ بھی اسی سے طلب کی جاۓ ، اور دارین میں مصلحتوں کا حصول اور فساد سے بچنے کا علم ہوگا اور مکمل اور مطلق انجام اور مکمل نعمتیں اس کے ساتھ معلق ہیں اس کی تحقیق پر موقوف ہیں ۔

بہت سی دوائیوں اور علاج اور دم سے اس نے غنی کردیا ہے ان کی ضرورت نہیں رہی ، اور اس کے ساتھ بھلائ اورخیر کے دروازے کھلتے اور شرکے دروازے بند ہوتےہیں ۔ زاد المعاد ( 4 / 347 ) ۔

https://islamqa.info/ur/categories/selected/45/answers/9691/

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*

*وبائی امراض اور آفات کے متعلق احکامات*


~~~~؛


*حفظان صحت کے ذریعہ وباؤں، بیماریوں سے نجات حاصل کیجئے*

*شہد سے شفاء حاصل کر کے وباؤں سے نجات حاصل کیجئے، شہد میں اللہ نے شفاء رکھی ہے*


~~~~؛

قرآن کریم میں حفظان صحت کے اصول بھی ذکر کۓ گۓ ہیں :

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

طب کے تین اصول ہیں : حمیۃ یعنی بچاؤ ، حفظان صحت ، ضرر اور نقصان دہ مادہ کو باہر نکالنا ۔

اوراللہ تعالی نے ان تینوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لۓ اپنی کتاب میں تین جگہ پر جمع کیا ہے :

اللہ تعالی نے مریض کو ضرر اور نقصان ہونے کی صورت میں پانی استعمال کرنے سے بچنے کا کہتے ہوۓ فرمایا :

اوراگر تم بیمار ہو یا سفرمیں ہو یا تم میں سے کوئ قضاۓ‎ حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اورتمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو النساء ( 43 ) اور سورۃ المائدۃ ( 6 ) ۔

تو مریض کے بچا‎ؤ کے لۓ اسی طرح تیمم مباح قرار دیا جس طرح کہ پانی نہ ملنے والے کے لۓ مباح ہے ۔

اور حفظان صحت کے متعلق فرمایا :

لکین جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرے البقرۃ ( 183 ) ۔

تو مسافرکی حفظان صحت کے لۓ رمضان میں روزہ نہ رکھنا مباح قرار دیا تا اس پر روزہ سفر میں مشقت نہ بن جاۓ جس کی وجہ سے سفرميں اس کی قوت اورصحت میں کمزوری واقع ہو ۔

اور محرم کے لۓ سرمنڈا کر ضرر والی چیز کو دور کرنے اور استفراغ کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :

اور تم میں سے جو بیمار ہو ، یا اس کے سر میں کوئ تکلیف ہو ( جس کی وجہ سے سر منڈا لے ) تو پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے یا پھر قربانی کرے البقرۃ ( 196 ) ۔

تو اللہ تعالی نے مريض اوروہ محرم جس کے سر میں کوئ تکلیف ہواسے سرمنڈا کر اس مادہ فاسدہ اورردئ قسم کے بخارات جس کی بنا پر جؤئيں پیداہوتی ہیں سے استفراغ کا حکم دیاہے ، جیسا کہ کعب بن عجرۃ رضي اللہ تعالی عنہ کےساتھ ہوا ، یا پھر اس سے کوئ اور بیماری پیدا ہوتی ہو ۔

تو طب کے یہ ہی تین اصول اور قاعدے ہیں ، تو اللہ تعالی نے ہرجنس سے اس کی صورت ذکرفرماتے ہوۓ اپنے بندوں پرجو نعمتیں کی ہیں اس پر تنبیہ فرمائ ہے اور اس سے بچاؤ اوران کی حفظان صحت اورفاسدہ مواد کے استفراغ کا کہا ہے جو کہ اس کی اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی اور شفقت ہے اور اللہ تعالی مہربان اور رحمت کرنے والا ہے ۔ زاد المعاد ( 1/ 164 - 165 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ایک مرتبہ میں نے مصرمیں اطباء کے ایک رئیس سے گفتگو کی تووہ کہنے لگا : اللہ تعالی کی قسم اس فائد کوجاننے کے لۓ اگر میں یورپ کا سفر بھی کرتا تو وہ بھی کم تھا ، یا اس نے جس طرح کہا ۔ اغاثۃ اللہفان ( 1 / 25 ) ۔

~~~~~~؛

*قرآن کریم میں شھد اور اس کے شفاہونے کا ذکر*

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لۓ شفا ہے النحل ( 69 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پینے میں بھی ایسا اکمل اور کامیاب طریقہ تھا جس میں حفظان صحت کے اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم شھد میں ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے تھے ، تو اس میں جو صحت کی حفاظت ہے اسے ماہر طبیب ہی جانتے ہیں ۔

اور اسی طرح نہار منہ شھد کا استعمال بلغم کو خارج کرتا اور معدہ کے رؤں کی صفائ اور معدہ کی چپک میں زیادتی کرتا اوراس سے فضلات کو دور کرتا ، اور اس میں اعتدال پیدا کرتا اور سدوں کو کھولتا ہے ۔

اور اسی طرح مثانہ اور گردوں میں بھی یہی عمل دھراتا ہے ، اور معدہ میں داخل ہونے والی جتنی بھی میٹھی اشیاء ہیں ان میں سب سے زیادہ نفع مند شھد ہی ہے ۔

اور صفراوی طبیعت کے مالک کو بخار کی حالت میں نقصان دے سکتا ہے بخاراور صفراء کی حدت میں اضافہ کرتا اور ہو سکتا ہے اسے ھیجان انگیز بنا دے ، تو ایسی طبیعت کے مالک افراد کے لۓ‌ اس وقت فا ئدہ مند ہو گا جب شھد میں سرکہ ملا لیا جاۓ تو ان کے لۓ بہت ہی زیادہ نفع مند ثابت ہوگا ،اور چینی وغیرہ کے شربت پینے سے شھد پینا بہت زیادہ مفید ہوگا اور خاص کر ان لوگوں کے لۓ جوکہ اس قسم شربت پینے کے عادی نہ ہوں ، اورنہ ہی ان کی طبیعت ان سے مانوس ہو تو اگر وہ یہ مشروبات پی بھی لیں تو انہیں شھد کے شربت کی طرح تھوڑا سا بھی فائد نہیں ہوگا جس طرح کہ شھد سے ہوتاہے ،اور اس میں اصل چیز عادت ہے جو کہ اصول کو بناتی اور گراتی ہے ۔

اور شھد میں جب دو صفتیں جمع ہوجائيں یعنی شھد کی مٹھاس اور بارد پن تو بدن کے لۓ اس سے زیادہ بہتر اور مفید کوئ چیز نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئ اور صحت کا محافظ نہیں ہے ، اور روح ، قوی اور دل اس کو بہت پسند کرتا اور جب پھر اس میں یہ دو خصلتیں ہوں تو پھر غذائيت سے بھر پوراور اسے اعضاء تک بہت احسن طریقے سے پہنچاتاہے ۔ زادالمعاد ( 4 / 224- 225 )

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اور شھد میں بہت عظیم فائدے ہیں :

انتڑیوں اور رگوں وغیرہ کی صفائ کرتا ہے ، کھانے اور لیپ کرنے سے رطوبات کی تحلیل ہوتی ہے ، بوڑھوں اور بلغم والوں اورجن کا مزاج ٹھنڈااور تر ہوان کے لۓ نافع ہے ، یہ طبیعت کے لۓ ملین اور عضلات کو طاقت بخشتا ہے ، اورناپسندیدہ ادویات کی کراہت کو ختم کرتا ، سینے اور جگر کی صفا‏ئ کرتا ہے ، مدربول اوربلغمی کھانسی کے لۓ مفید ہے ۔

اور جب شھد عرق گلاب میں گرم کرکے پیا جاۓ تو افیون پینے اور جانوروں کی چیڑ پھاڑ سے نفع دیتا ہے ، اور اگر پانی میں شھد ملا کر پیا جاۓ تو باؤلے کتے کے کاٹے ہوۓ کو اورہلاک کردینے والی جڑی بوٹی کے کھاۓ ہوۓ کو فائدہ دیتا ہے ۔

اور اگر شھد میں تازہ گوشت ڈال دیا جاۓ تو وہ تین مہنے تک تازہ رہتا ہے ، اور اسی طرح اگر اس میں کھیرے اور ککڑی ، کدو اور بینگن اور سبزی وغیرہ ڈال دیا جاۓ تو اس کو چھ ماہ تک تازہ رکھتا ہے ، اور اسی طرح میت کے بدن کی بھی حفاظت کرتااور اسے حافظ اور امین کا نام دیا جاتا ہے ۔

اوراگر شھد کو جؤوں والے بدن اور بالوں پر ملا جاۓ تو انہیں مارڈالتا اوران کے انڈوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور بالوں کو لمبا اور نرم اور حسین بناتا ہے ، اور اگر اسے آنکھوں میں ڈالا جاۓ تو بینائ کو صاف کرتا ہے ، اور اگر دانتوں پر ملا جاۓ تو انہیں صفید اور صاف کرتا اور دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت کرتا ہے ، اور رگوں کا منہ کھولتا اورمدر حیض ہے ۔

اس کا نہار منہ چاٹنا بلغم کو خارج کرتا اور معدہ کے رؤں کی صفائ اور اس سے فضلات کو دور کرتا ، اور اس میں اعتدال پیدا کرتا اور سدوں کو کھولتا ہے ،اور اسی طرح مثانہ اور گردوں میں بھی یہی عمل دھراتا جگراور تلی کے سدوں کو ہر میٹھی اشیاء سے کم نقصان دہ ہے ۔

اور یہ شھد ان سب کچھ کے ساتھ ساتھ خراب ہونے سے مامون اور قلیل الضرر ہے ، صفراوی طبیعت کے لوگوں کے لۓ بخار کی حالت میں ان کے لۓ نقصان دہ ہے لیکن یہ نقصان اسے سرکہ میں ملا کر استعمال کیا جاۓ تو دور ہو جاتا ہے ، تو اس طرح اس حالت میں بھی بہت ہی مفید ہوگا ۔

تو یہ شھد غذا کےساتھ غذا اور دواؤں کے ساتھ ایک دوائ اور شربت میں سے ایک شربت اور مٹھائ میں ایک مٹھائ اور طلاء میں سے ایک طلاء کی حیثیت رکھتااور مفرحا ت کے ساتھ ایک مفرح ہے ، تو اس معنی میں کوئ اور چیز ایسی نہیں جو کہ ہمارے لۓ اس سے افضل پیدا کی گئ ہو اور نہ ہی اس کی مثل اور نہ ہی اس قریب کی ۔

قدماء تو اس پر ہی بھروسہ کرتے تھے بلکہ قدماء کی کتب میں تو چینی اور شوگر کا نام تک نہیں ملتا اور نہ ہی اسےوہ جانتے تھے کیونکہ یہ تو ابھی ایک نئ ایجاد ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پانی کےساتھ نہار منہ استعمال کیا کرتے تھے ، جس میں ایک ایسا راز اور سر ہے جو کہ ایک ذہین و فطین ہی سمجھ سکتا ہے ۔ زاد المعاد ( 4 / 33-34 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

https://islamqa.info/ur/categories/selected/45/answers/9691/

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

Wabaoun Se Hifazat Ke 10 Mazboot Qilay
Part 1
Fazilatush Shaikh Abdul Vali Abdul Qavi

وباؤں سے حفاظت کے دس مظبوط قلعے
پارٹ 1
فضیلۃ الشیخ عبد الولی عبد القوی


.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*Wabavoun Se Hifazat Ke 10 Mazboot Qilay*
Sh. Abdul Vali Abdul Qavi AlHait
3 Parts

وباؤں سے حفاظت کے 10 مضبوط قلعے
شیخ عبد الولی عبد القوی الحائط
3 پارٹس

Part 01

Part 02

Part 03

.
 
Top