.
*کرونا وائرس سے نجات کیسے حاصل کریں؟*
~~~~؛
*صبح شام کے اذکار کی پابندی اور دیگر دعاؤں کے ذریعہ کرونا وبا کے شر سے بچیں*
~~~~؛
ابان بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص تین بار یہ کہے: " بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ "[اللہ کے نام سے(میں صبح یا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)، اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں دیتی، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے]تو اسے صبح تک کوئی اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی اور جو یہ کلمات صبح کے وقت کہے تو شام تک اسے اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی)
راوی کہتے ہیں کہ: ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہو گیا اور ایک آدمی جس نے ابان سے یہ حدیث سنی تھی ابان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہا تھا تو ابان نے پوچھا : تم میری طرف کیسے دیکھ رہے ہو!؟ اللہ کی قسم! میں نے عثمان پر جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا تھا، اصل بات یہ ہے کہ جس دن مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے میں غصے میں تھا اور یہ دعا پڑھنا بھول گیا۔
ابو داود (5088) اور ترمذی نے اس روایت کو حدیث نمبر: (3388) میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
(جو شخص روزانہ تین صبح اور شام کہے: " بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ "[اللہ کے نام سے(میں صبح یا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)، اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں دیتی، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے]تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا)
روایت ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث "حسن اور غریب ہے" اس حدیث کو ابن قیم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " (2/338) میں اور البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عبد الرزاق البدر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ دعا ان عظیم اذکار میں سے ہے جن کی ہر مسلمان کو صبح اور شام کے وقت پابندی کرنی چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کے حکم سے اچانک پہنچی والی بلاؤں مصیبتوں اور نقصانات وغیرہ سے محفوظ رہے۔
قرطبی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے، یہ حدیث صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اس پر ہمیں دلیل اور تجربے ہر دو طرح سے اطمینان ہے؛ کیونکہ میں نے جب سے یہ روایت سنی تھی میں پابندی سے یہ دعا پڑھا کرتا تھا ، پھر جب مجھ سے چھوٹ گئی تو مجھے مدینہ میں رات کے وقت ایک بچھو نے کاٹ لیا، تو میں نے خوب سوچ و بچار کی تو مجھے یاد آیا کہ میں نے ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالی کی پناہ حاصل نہیں کی تھی" انتہی
دیکھیں: " الفتوحات الربانية " از: ابن علان (3/100)
یہ دعا پڑھنے کیلیے سنت یہی ہے کہ صبح و شام تین ، تین بار اسے پڑھا جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھنے کیلیے یہی عدد بتلایا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: " الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ" اس کا مطلب یہ ہے کہ: جو شخص بھی اللہ تعالی کا نام لے کر اس کی پناہ میں آتا ہے تو اسے آسمان یا زمین کسی بھی جانب سے کوئی مصیبت نہیں پہنچتی۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: " وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ " اس کا مطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالی اپنے بندوں کی باتوں کو سننے والا ہے، بندوں کے افعال جاننے والا ہے، اللہ تعالی کے سامنے کسی کا کوئی عمل چاہے وہ زمین میں ہو یا آسمان میں اللہ تعالی سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔
نیز صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ! مجھے کل رات ایک بچھو نے ڈنگ مار دیا ہے، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم شام کے وقت کہہ دیتے: " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"[میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ذریعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ] تو تمہیں بچھو ڈنگ نہ مارتا)" مسلم: (2709)
اور اسی طرح ترمذی کی روایت میں ہے کہ:
(جو شخص شام کے وقت تین بار کہے: " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ" [میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ذریعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ]تو اس رات کوئی بھی زہریلی چیز اسے نقصان نہ دے) ترمذی: (3604)
حدیث کے عربی متن میں " اَلْحُمَةُ "کا لفظ ہے جس کا معنی ہے: کوئی بھی زہریلی چیز مثلاً: بچھو وغیرہ ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے سہیل بن ابو صالح –مذکورہ حدیث کے راوی-کی یہ روایت ذکر کر کے ذکر کیا کہ : سہیل بن ابو صالح کہتے ہیں: ہمارے تمام بچوں اور گھر والوں نے یہ دعا سیکھی ہوئی تھی ، چنانچہ سب گھر والے روزانہ ہر رات کو یہ دعا پڑھا کرتے تھے، ایک رات ایک بچی کو بچھو نے ڈنگ مارا تو بچی کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔
یہ حدیث اس دعا کی فضیلت کیلیے دلیل ہے، چنانچہ جو شخص شام کے وقت یہ دعا پڑھے تو وہ اللہ تعالی کے حکم سے سانپ کے ڈسنے یا بچھو وغیرہ کے ڈنگ مارنے سے محفوظ رہے گا" انتہی مختصراً
" فقه الأدعية والأذكار " (3/12-14)
اللہ تعالی کے حکم سے نقصانات اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ بننے والے اذکار میں عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کی روایت بھی شامل ہے، آپ کہتے ہیں: "ہم ایک اندھیری اور سخت بارش والی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کیلیے نکلے تا کہ آپ نماز پڑھا دیں، تو ہم نے آپ کو تلاش کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا: (کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟) تو اس پر میں نے کچھ نہیں کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ، دوسری بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ، تیسری بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) تو میں نے کہا اللہ کے رسول کیا کہوں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (تم سورہ اخلاص ، سورہ الفلق اور سورہ الناس صبح اور شام تین ، تین بار پڑھو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گیں)"
ابو داود : (5082) اور ترمذی: (3575) نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن صحیح اور غریب" قرار دیا، جبکہ نووی رحمہ اللہ نے اسے "الأذكار" (ص/107) میں صحیح الاسناد کہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ: مذکورہ بالا دعائیں اور اذکار اللہ تعالی کے حکم سے مسلمان کو ہمہ قسم کے نقصان اور تکلیف سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، تاہم یہ تحفظ اللہ تعالی کی مشیئت کے ساتھ منسلک ہے، چنانچہ اگر کسی شخص کو ان اذکار کے پڑھنے کے باوجود کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ اللہ تعالی کی مشیئت اور فیصلے کے تحت ہوتا ہے، یہ اللہ تعالی کی کمال حکمت اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ )
ترجمہ: اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔[الرعد:11]
اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ: " يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ" سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کو آگے پیچھے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن جب اللہ تعالی کی طرف سے تقدیری فیصلہ آ جائے تو کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
اور اسی طرح مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہر انسان پر ایک موکل فرشتہ ضرور ہوتا ہے، یہ فرشتہ اس انسان کو سوتے اور جاگتے جناتی یا انسانی شیطانوں سے تحفظ دیتے ہیں، چنانچہ کوئی بھی چیز انسان کو نقصان پہنچانے کیلیے آتی ہے تو یہ موکل فرشتہ اسے کہتا ہے: "الٹے قدموں واپس ہو جاؤ" لیکن جو چیز اللہ تعالی کے حکم سے آئے تو وہ اس انسان کو پہنچ کر رہتی ہے۔
"تفسیر ابن کثیر" (4/438)
https://islamqa.info/ur/categories/selected/45/answers/126587/
~~~~؛
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح یا شام کے وقت ان کلمات کی پابندی کیا کرتے تھے:
*اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي*
[ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت طلب کرتا ہوں ۔ یا اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا، اور اہل خانہ سمیت اپنی املاک کے متعلق بھی معافی اور عافیت کا درخواست گزار ہوں ۔ یا اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔ اور مجھے میرے خدشات و خطرات سے امن عطا فرما ۔یا اللہ ! میرے آگے ، میرے پیچھے ، میرے دائیں ، میرے بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں ۔]
اس حدیث کو ابو داود: (5074) اور ابن ماجہ: (3871) نے روایت کیا ہے، اور شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح ابو دواد میں صحیح قرار دیا ہے۔"
الشیخ ابو الحسن مبارکپوری رحمہ اللہ اس دعا کی شرح میں کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ یعنی مطلب یہ ہے کہ: دینی امور میں آزمائشوں اور دنیاوی سختیوں سے سلامتی اور تحفظ کا طلب گار ہوں۔
اس کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیماری اور وبا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
تیسرا معنی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ: اللہ تعالی ان بیماریوں میں مبتلا نہ کرے، اور اگر کر بھی دے تو اس پر صبر کرنے اور اللہ کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنے کی توفیق دے۔
لفظ " الْعَافِيَةَ " عربی زبان میں فعل " عَافَى" کا مصدر ہے یا اسم ہے، اس کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب القاموس کہتے ہیں کہ: "عافیت: اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے تحفظ کو کہتے ہیں، چنانچہ عربی جملہ: عَافَاهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْمَكْرُوْهِ عَفَاءً وَمُعَافَاةً وَعَافِيَةً اس وقت کہا جاتا ہے جب اللہ تعالی کسی بندے کو بیماریوں، بلاؤں اور تکالیف سے بچا لے، اس کا معنی عربی لفظ: "أَعْفَاهُ" جیسا ہے۔"
نیز اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ کا مطلب ہے: یا اللہ میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور ان سے در گزر کا مطالبہ کرتا ہوں۔
وَالْعَافِيَةَ یعنی عیوب سے پاکی۔
" فِي دِينِي وَدُنْيَايَ "یعنی دینی اور دنیاوی تمام امور میں " ختم شد
" مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح " ( 8 / 139 )
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں عموما یہ الفاظ شامل ہوتے تھے کہ:
*اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ*
[ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے تیری نعمتوں کے زوال، تیری جانب سے عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔]
اس حدیث کو امام مسلم: (2739) نے روایت کیا ہے۔
مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حدیث میں مذکور: وَتَحَوُّلِ کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کسی دوسری چیز سے جدا ہو جائے؛ گویا کہ یہاں پر ہمیشہ کی عافیت اللہ تعالی سے مانگی گئی ہے، اور ہمیشہ کی عافیت کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی بیماری اور تکلیفیں نہ پہنچیں۔" ختم شد
" فيض القدير " ( 2 / 140 )
سنن ابو داود کے شارح علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں وَتَحَوُّلِ العَافِيَة کا مطلب یہ ہے کہ: صحت بیماری میں بدل جائے اور دولت غربت سے بدل جائے۔" ختم شد
" عون المعبود شرح سنن أبي داود " ( 4 / 283 )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
*اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَيِّئْ الْأَسْقَامِ*
[ترجمہ: اے اللہ ! میں برص، پاگل پن ، کوڑھ اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔]
اس حدیث کو امام احمد: (12592)، ابو داود: (1554) اور نسائی: (5493) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر بیماریوں سے پناہ نہیں مانگی؛ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ بیماریوں کی تکلیف کم ہوتی ہے لیکن اس بیماری پر صبر کی بدولت ملنے والا اجر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور وہ بیماریاں دائمی بھی نہیں ہوتیں بلکہ عارضی ہوتی ہیں، جیسے کہ بخار، سر درد، اور آنکھ درد وغیرہ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائمی بیماریوں سے پناہ مانگی ہے؛ کیونکہ انسان دائمی بیماری سے خود بھی تنگ آ جاتا ہے، اور دوست احباب بھی متنفر سے ہو جاتے ہیں، لوگ بات چیت اور علاج معالجے کے لیے بھی نہیں آتےاور انسان خود اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے۔"
علامہ طیبی کی گفتگو عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ابو داود کی شرح "عون المعبود" میں ذکر کی ہے۔
واللہ اعلم
https://islamqa.info/ur/answers/139554/بیماریوں-اور-وباوں-سے-بچاو-کی-دعاىیں-اور-اذکار
~~~~؛
ان دعاؤں کو بھی پڑھ سکتا ہے.
وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَتْ فَقَدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےْلَۃً مِّنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُہُ فَوَقَعَتْ ےَدِیْ عَلٰی بَطْنِ قَدَمَےْہِ وَھُوَ فِی الْمَسْجِدِ وَھُمَا مَنْصُوْبَتَانِ وَےَقُوْلُ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَےْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَےْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔
(صحیح مسلم)
ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رحمت عالم ﷺ کو بستر پر موجود نہ پایا، میں آپ ﷺ کو تلاش کر رہی تھی کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کے پاؤں کو جا لگا (چنانچہ میں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ بار گاہ الہٰی میں سجدہ ریز تھے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں مبارک کھڑے ہوئے تھے اور آپ ﷺ یہ کہہ رہے تھے
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَا فَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِہ ثَنَا ئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَاَ اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ
اے اللہ ! میں تیری خوشنودی کے ذریعے تیرے غیظ و غضب سے (یعنی ان افعال سے مجھ پر یا میری امت پر تیرے غضب کا ذریعہ بنیں) پناہ مانگتا ہوں، تیری معافی کے ذریعے تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے (یعنی تیری رحمت کے ذریعے تیرے قہر سے) پناہ کا طلبگار ہوں۔ میں تیری تعریف کا شمار و احاطہ نہیں کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ خود تو نے اپنی تعریف کی ہے۔
( صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ 857 )
اللهم إني أعوذبك مِنْ جَهْدِ الْبَلاَءِ ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ.
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم تعوذوا بالله من جهد البلاء ودرك الشقاء وسوء القضاء وشماتة الأعداء
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بلاء کی مشقت سے بدبختی کے پہنچنے سے، بری تقدر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے اللہ کی پناہ مانگو۔
( بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ 2487 )
وعن عبد بن عمر قال : كان من دعاء رسول الله صلى الله عليه سوسلم : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ . رواه مسلم
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہوتی تھی۔ دعا
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ) ۔
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کے زوال سے اور تیری عافیت کی تبدیلی سے (مثلاً صحت کے بدلے بیمار) تیرے ناگہانی عذاب سے اور تمام ترے غُصوں سے۔
(مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ 2491 )
اللهم جَنِّبنِي مُنكَراتِ الأخلاقِ والأعمالِ والأهواءِ والأدوَاءِ.
(اے اللہ مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے دور رکھ)
أخرجه الطبراني في الدعاء (3/ 1447) وغيره، وصححه الألباني في ظلال الجنة رقم: (13)، وشيخ مقبلٌ في الجامع الصحيح (2/ 414)، عن قطبة بن مالك رضي الله عنه
.