• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی کا مذاق اڑانا : ( مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔) ضرور پڑ ھیں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کسی کا مذاق اڑانا : ( مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔) ضرور پڑ ھیں!!!

تعارف:
ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔
اس تضحیک آمیزرویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تربیتی مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس روئیے کی سائنٹفک انداز میں وضاحت کی جائے، اس کے اسباب جانے جائیں اور اس سے بچنے کے لئے عملی مشقیں مکمل کی جائیں تاکہ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مذاق اڑانے کی قرآن و حدیث میں ممانعت:

یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ نے اس کو براہ راست موضوع بنایا ہے۔چنانچہ سورہ الحجرات میں واضح طور پربیان ہوتا ہے۔

"اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔ (الحجرات 11:49)

مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لئے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔۔۔۔۔سرور عالم نے فرمایا ۔۔۔۔جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے گا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )۔
مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کارفرما ہے۔

دوسری جانب تکبر ہی قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 266)

ایک اور روایت میں بھی اس روئیے کی بالواسطہ مذمت ہوں بیان ہوئی ہے۔
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو"۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2044)

مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی بھی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
عبداللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذاء نہ پائیں۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مذاق اڑانے کا مفہوم:

تمسخر کرنے یا مذاق اڑانےکے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔ ( امام غزالی۔احیاءالعلوم ،جلد سوم صفحہ ۲۰۷)

مذاق اڑانے کی شرائط:

۱۔پہلی شرط تو یہی ہے کہ مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جارہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو۔

۲۔دوسری شرط یہ ہے کہ اگرمذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے ۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہورہی ہو تو بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا۔

وضاحت
پہلی شرط تو واضح ہے۔ اگر مذاق عمومی یا جنرل طریقے سے کیا جارہا ہے اور اس کا نشانہ کوئی خاص فرد یا گروہ یا ادارہ نہیں ہے تو یہ استہزاء نہیں۔
مثال کے طور پر یہ لطیفہ ملاحظہ فرمائیں:
"ایک دوست دوسرے دوست سے بولا! یار آج تو صبح سے قسمت ہی خراب ہے، صبح اٹھا تو تو دیر سے آنکھ کھلی اور بیوی سے لڑائی ہوگئی اور بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ دفتر پہنچا تو باس ناراض تھا اس سے جھگڑا ہوگیا اور اس نے بھی نوکری سے نکال دیا۔ واپس آنے لگا تو گاڑی کا ایکسڈنٹ ہوگیا۔ تنگ آکر خود کشی کرنے کے لئے پیپسی میں زہر گھولا تو وہ گلاس تونے پی لیا"۔
اس لطیفے میں کسی خاص شخص یا قوم یا ادارے کی بات نہیں ہورہی اس لئے یہ مذاق اڑانے کا عمل نہیں بلکہ مذاق کرنے کی بات ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ تحقیر کی نیت ہو یا یہ بات اس شخص کو بری لگے۔ مثا ل کے طور پر ریاض اپنے دوست سلمان کے بارے مذاق کرتا ہے کہ سلمان تو اپنی بیوی سے بہت ڈرتا ہے۔ اب اس بات کا تعین کس طرح ہوگا کہ یہ اس نے مذاق کیا ہے یا مذاق اڑایا ہے؟ اگر اس نے یہ بات سلمان کی توہین کے لئے کہی ہے تو یہ مذاق اڑانے کی کیٹگری میں آئے گا جو ایک ممنوع فعل ہے۔ لیکن اگر اس کا مقصد کچھ ایسا نہ تھا اور سلمان اور اس کے درمیان اتنی بے تکلفی ہے کہ سلمان نے برا بھی نہیں مانا بلکہ وہ خود بھی محظوظ ہوا ہے تو یہ مزاح کے زمرے میں آئے گا۔
ایک اور صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ ریاض نے یہ بات سلمان کی توہین اور اسے حقیر ثابت کرنے ہی کے لئے کہی ہو لیکن سلمان نے اس بات کا برا نہ مانا ہو ۔ اس کے باوجود یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا کیونکہ فیاض کی نیت تو استہزا ہی کہ تھی۔
ایک تیسری صورت حال یہ یہ ہوسکتی ہے کہ ریاض نے یہ بات محض تفنن طبع کے لئے کہی ہو اور اس کا مقصد سلمان کی توہین کرنا یا اسے حقیر ثابت کرنا یا اسے اذیت پہنچانا نہ ہو لیکن سلمان کو یہ بات بری لگی ہو۔ اس صورت میں بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا۔ گوکہ ریاض کو اس بات کی چھوٹ دی جائے گی کہ اس نے یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ لاعلمی اور ان جانے میں کیا ہے اور اس کی کوئی نیت ایسی نہ تھی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مزاح کیوں کیا جاتا ہے؟

ماہرین نے مزاح کرنے کے تین بڑے اسباب بیان کئے ہیں ۔ پہلا سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بد صورت ، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤ کی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جائز مزاح اورمذاق اڑانے میں فرق :

مذا ق اڑانے کی حدود تو ہم نے یہ طے کی ہیں کہ اگر مذاق کا مقصد متعین شخص کی تحقیر و تذلیل ہو یا یہ مذاق متعلقہ شخص کو برا لگے تو یہ مذاق اڑانے کا عمل ہے۔لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہیں ہورہی تو یہ مذاق اڑانے کا عمل نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کے بعد ہر قسم کا مذاق جائز ہے۔ کسی مذاق یا مزاح کے جائز ہونے کے لئے مزید کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ جائز مذاق " وہ بات ، اشارہ یا عمل جو تفنن طبع اور تفریح کے لئے کیا جائے اور جس میں کسی مخصوص فردیا قوم کی تحقیر و تذلیل کی نیت نہ ہو اور نہ ہی اس میں جھوٹ، ایذارسانی، فحاشی، بدگوئی یا کسی غیر اخلاقی و غیر شرعی عنصر کی آمیزش ہو"۔

لہٰذا اگر مذاق میں کوئی جھوٹ شامل ہے تو وہ جائز نہیں۔مثال کے طور پرزینب نے اپنی
بہن کا موبائل چارپائی کے نیچے پڑا ہوا دیکھا۔جب اس کی بہن نے پوچھا تو اس نے تفریح کی نیت سے جھوٹ بول دیا کہ علم نہیں۔ اس مذاق میں جھوٹ شامل ہے اور یہ جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی مذاق میں فحاشی کا عنصر ہو یا کوئی گالی ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔ اس کے علاوہ مذاق میں کسی بدتمیزی ، بدتہذیبی یا کوئی اور غیر اخلاقی حرکت ہورہی ہو تو یہ بھی ناجائز حدود ہیں۔کسی شرعی مسلمے کی خلاف ورزی بھی ناجائز ہے جیسے نماز یا روزے کا مذاق اڑانا یا کسی شرعی حکم کی تحقیر کرنا۔ اس ضمن میں میں ایک جملہ معترضہ کے طور پر یہ سمجھ لیں کہ کچھ محاورے بھی ایسے ہیں جن میں دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے جیسے "نماز بخشوانے گئے تھے ، روزے گلے پڑ گئے"۔ اس قسم کے محاورے یا ضرب الامثال مناسب نہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح :

اس ضمن میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے مدد لینی چاہِیے۔ آپ اپنے اصحاب اور ازواج سے مزاح کیا کرتے تھے ۔ اس بات سے ان خشک مزا ج اہل علم کے اس نظریے کا انکار ہوتا ہے جس کے تحت وہ حضرات مذاق کو ایک شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔نبی کریم کے اسوہ سے مذاق کے تمام حدود و قیود کا علم ہوتا ہے۔ چند احادیث و آثار ملاحظہ فرمائیں۔

حدیث نمبر ۱: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکوکبھی سارے دانت کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آنے لگے،بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے۔(بخاری : حدیث :۱۰۲۵)
وضاحت: اس کا مطلب یہ نہیں کہ قہقہ لگانا ممنوع ہے لیکن بہر حال ایک سنجیدہ مزاج شخصیت کو ٹھٹھے مار کر ہنسنا زیب نہیں دیتا۔

حدیث نمبر ۲: ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا(ہاں لیکن ) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔(ترمذی حدیث۲۰۵۶)
وضاحت: یعنی مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیر اخلاقی بات کرنا جائز نہیں اور جو بات ہو وہ حق ہو۔

حدیث نمبر ۳: حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سواری طلب کی تو آپ نے (مذاق میں) اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹ کا بچہ دونگا۔ اس شخص نے کہا کہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کرونگا۔ آپ نے فرمایاکہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔(ترمذی حدیث صحیح غریب :۲۰۵۶ )

حدیث نمبر ۴: حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت انس کو کہا '' یا ذوالاذنین'' یعنی اے دو کانوں والے۔(ترمذی حدیث ۲۰۵۷)
وضاحت: کیونکہ ہر شخص کے دو کان ہوتے ہیں اس لئے اس میں تحقیر بھی نہیں اور تفنن طبع بھی ہے۔

حدیث نمبر۵: حضرت حسن سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ کے پاس آئی اور جنت میں داخلے کی دعا کی درخواست کی۔آپ نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ روتی ہوئی واپس ہونے لگی تو آپ نے کہا کہ اس سے کہہ دوکہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ سب اہلِ جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے اور حق تعالیٰ کی اس آیت میں اس کا بیان ہے جس کا بیان ہے کہ ہم نے ان (جنتی) عورتوں کو خاص طرز پر بنایا ہے کہ وہ کنواری ہیں۔(شمائل ترمذی: حدیث ۲۷۷)
وضاحت: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاق میں کسی کو ایذا پہنچانا تو جائز نہیں جبکہ یہاں ان بوڑھی خاتون کو تکلیف ہوئی۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان محترمہ بات کو غلط سمجھ بیٹھیں جس کی بنا پر انہیں دکھ ہوا۔ اگر وہ اصل مفہو م تک پہنچ جاتیں تو انہیں دکھ نہ ہوتا بلکہ وہ خود بھی محظوظ ہوتیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مذاق اڑانے کے مختلف انداز:

ہمارے معاشرے میں لوگوں کا مذاق اڑانا ایک عام سی بات ہے۔ عام طور پرکسی خاص شخص یا قوم کا مذاق اڑایا جاتا ، ان کی کسی خامی ، کمزوری یا عیب کو نشانہ بنایا جاتا اور ان کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ استہزا بالعموم الفاظ کے ذریعے کیا جاتا ہے جن میں گفتگو کے دوران لطیفے یا دیگر جملے استعمال ہوتے ہیں۔مذاق اڑانے کا ایک اور انداز یہ ہے کہ اشارے یا باڈی لینگویج کا استعما ل کیا جائے جیسے آنکھوں سے اشارہ کرنا یا آنکھ مارنا، منہ چڑانا، نقل اتارنا، آوازیں نکالنا،معنی خیز مسکراہٹ دینا، قہقہ لگانا،ہاتھ سے کوئی اشارہ کرنا، منہ بنانا وغیرہ ۔ ہم اپنی سوسائٹی میں مذاق اڑانے کے عمل کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نجی محفلیں:

سب سے زیادہ مذاق نجی محفلوں میں کیا جاتا ہے۔ ان نجی محفلوں میں شادی کی تقاریب، گھر پر چھوٹی موٹی دعوت، دفاتر میں فارغ اوقات کی بیٹھک ، دوستوں کی ملاقاتیں، طلباء کی تعلیمی اداروں میں محفلیں وغیرہ شامل ہیں۔ ان محفلوں میں مذاق اڑانے کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔

ایک انداز تو یہ ہے کہ کسی ایسے کمزور شخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو۔ چنانچہ اس کمزور شکارکے کسی حقیقی یا خود ساختہ عیب یا کمزوری کو پکڑ کر اس پر جملے کسے جاتے، اس کی تحقیر و تذلیل کی جاتی اور اس کو بالکل ہی دیوار سے لگادیا جاتا ہے۔ اس مذاق میں ایک یا دو حضرات ہی فعال ہوتے ہیں جبکہ باقی لوگ ہنس کر یا کسی اور طریقے سے ان کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں ۔ اس دوران بے احتیاطی میں یہ احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ اس شخص پر کیا بیت رہی ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ایک لمحے کے لئے خود کو اس شخص کی جگہ پر رکھ کر سوچا جائے کہ ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟ اگر یہ احساس ہوجائے کہ متعلقہ شخص کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو موضوع بدل دیا جائے یا بات کا رخ موڑ دیا جائے۔
مذاق اڑانے کا ایک اور انداز ایک دوسرے پر پھبتی اور جملے کسنا ، ان پر طنزیہ فقرے کہنا، انہیں برے ناموں سے پکارنا ، آوازیں نکالنا یا اس کے خاندان کو برا بھلا کہنا ہوتا ہے ۔ اس صورت میں اگر دونوں فریق مضبوط ہوں تو دو بدو جواب دیے جاتے اور ایک دوسرے پر حملے کئے جاتے ہیں جس سے اکثر اوقات رنجشیں پیدا ہوجاتی اور بات دشمنی تک چلی جاتی ہے۔ اور اگر ایک فریق کمزور ہو تو وہی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ایک اور انداز یہ ہے کہ مذاق کا نشانہ کسی ایسے شخص کو بنالیا جاتا ہے جو اس محفل میں موجود نہیں۔اس صورت میں دو گناہ یعنی تضحیک اور غیبت کا ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں۔

محفلوں میں ایک اورعام انداز لطیفہ گوئی ہے جو اپنی اصل میں کوئی ممنوع عمل نہیں لیکن اس لطیفہ گوئی میں اوپر بیان کردہ حدود قیود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لطیفہ گوئی میں سب سے عام لیکن ناپسندیدہ عنصر فحش اور غیر اخلاقی باتوں کا ہے۔ اس میں صرف نوجوان اور ناتجربہ کار لوگ ہی ملوث نہیں بلکہ پختہ عمر کے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات کچھ مذہبی راہنما بھی بے احتیاطی کرجاتے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ فحاشی کی وعید کو یاد رکھا جائے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے وہ یہ کہ فحاشی کا چرچا کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔نیز غیر اخلاقی بات یوں بھی مومن کو زیبا نہیں۔لطیفہ گوئی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس میں کسی قوم کی برائی شامل ہوتی ہے خاص طور پر ان قوموں کی جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔اس سے عصبیت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ لطیفہ کا بنیادی مقصد محظوظ ہونا ہے اور لطیفے کی ترمیم کرکے اسے جائز مزاح کی حدود میں لایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگر ترمیم ممکن ہو تو وہ کرلی جائے وگرنہ اس ے ترک کردیا جائے۔ مثال کے طور پر اس لطیفے پر غور کریں:
"ایک ٹائیگر نے پٹھان کو قتل کردیا۔ کسی نے ٹائیگر سے پوچھا کہ اس کو کیوں مار دیا۔ ٹائیگر نے کہا "اتنی دیر سے بولے جارہا تھا کہ اتنا بڑا بلی کا بچہ"۔
اس لطیفے میں پٹھان قوم کی تحقیر بیان ہورہی ہے جو کسی صورت میں گوارا نہیں۔ اسے معمولی سی ترمیم سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس سے تفریح پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ترمیم شدہ لطیفہ:

ایک ٹا ئیگر نے کسی آدمی کو قتل کردیا۔ کسی نے ٹائیگر سے پوچھا کہ اس کو کیوں مار دیا۔ ٹائیگر نے کہا "اتنی دیر سے بولے جارہا تھا کہ اتنا بڑا بلی کا بچہ۔"

چنانچہ محفلوں میں مذاق کی حدود و قیود کو سامنے رکھا جائے اور اس کے باوجود اگر محفلیں اس غلط طرز عمل کو برقرا ر رکھیں پہلے تو انہیں حکمت سے سمجھایا جائے، اگر یہ ممکن یا موزوں نہ تو موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو مذاق اڑانے والوں کا ساتھ نہ دیا جائے اور ہنسنا بند کردیا جائے تاکہ مذاق اڑانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو ۔ اگر یہ حل بھی کام نہ کرے تو وہاں سے اٹھ جانا ہی بہتر ہے۔
 
Top